فاؤسٹ (حصہ اول: چھٹا باب)

 In ترجمہ

آدھی رات کا وقت تھا ۔ شہر روڈا سے کوئی آٹھ میل کے فاصلہ پر ایک اُجاڑ جنگل میں کوئی مدھم سی چیز کُہر اور پالے  ( سخت سردی) میں سے چلی آ رہی تھی ۔

یہ فاؤسٹ تھا ۔ بھاری سا لبادہ پہنے وہ اسی وقت گھر سے چل پڑا تھا جب اس نے تاریکی کی روحوں سے امداد حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ اس کا رخ چوراہے کی طرف تھا جو کُہر میں صاف نظر نہ آرہا تھا اور اس سے کوئی دو سو گز آگے تھا ۔ پورا چاند آسمان میں چمک رہا تھا ۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے وقفے سے کُہر دھوئیں کی طرح بَل کھاتی اُوپر کو اٹھتی تھی اور چاند کے چہرے کو تاریک کر دیتی تھی ۔ اس سے عجیب عجیب بَل کھائے ہوئے سائے درختوں کے ٹھنڈوں اور ٹھٹھری ہوئی جھاڑیوں پر پڑتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان میں کوئی خبیث روح سما گئی ہے جس کی وجہ سے ان کی شکل و ہیئت ڈراؤنی معلوم ہوتی تھی ۔

فاؤسٹ چوراہے پر پہنچا اور عین وہاں کھڑا ہو گیا جہاں سڑکیں کٹتی  تھیں ۔ یہاں وہ چند منٹ سیدھا کھڑا رہا ۔ اُس کی داڑھی اور لمبی لمبی لٹیں ہوا میں اڑ رہی تھیں اور ہوا کے جھونکوں سے اُس کا لبادہ پھڑپھڑا رہا  تھا ، اُس نے چاند اور ستاروں کو نظر جما کر دیکھا ۔ پھر اپنا عصا اٹھا کر بآوازِ بلند پکارا:-

’’ فاؤسٹ، جھجک کر پیچھے ہٹنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تو بہت بوڑھا آدمی ہے ۔ تیری زندگی ختم ہو چکی ۔ اگر تو اپنی غیرفانی روح بیچ کر بھی روڈا کے باشندوں کو آرام و سکون پہنچ سکتا ہے تو یہ کام تجھے کرنا پڑے گا ۔ اِس آخری ایثار و قربانی سے تو اپنی بے سود زندگی کا کفّارہ ادا کر سکتا ہے‘‘۔

ایک تیز جُنبش سے اُس کے ہاتھ اور عصا آگے کو پھیل گئے اور اپنے گرد زمین پر ایک بڑا دائرہ بنایا ۔ اس میں ایک اور چھوٹا  دائرہ بنایا اور پھر ایک اور اُس کے اندر بنایا ۔ پھر اپنی جھولی میں سے ایک کھوپڑی نکالی جو اپنے ساتھ لیتا آیا تھا ۔ چاند کی طرف رُخ کر کے سینے کے قریب دونوں ہتھیلیوں پر کھوپڑی رکھ کر اس نے زور سے کہا:- ’’بدی کی روحو ! میں تمہاری مدد چاہتا ہوں‘‘۔

پہلے اس نے خیال کیا کہ اس کی صدا بے اثر رہی ۔ لیکن ایک منٹ کی خاموشی کے بعد  کچھ تبدیلی ہوئی ۔ ہوا تیز ہو گئی ، پھر اور بھی زیادہ شدید ہو گئی اور زورشور کی آندھی چلنے لگی جس سے ٹھٹھری ہوئی جھاڑیاں بِچھ گئیں ۔ چاند نے اپنی روشنی سلب کر لی جیسے کسی چراغ کی بتی ایک دم سے اُتار دی گئی ہو ۔ اور پھر جہاں دائرے بنائے گئے تھے زمین میں سے چھوٹے چھوٹے شعلے نکلنے لگے ۔ یہ شعلے ایسے تھے کہ ہوا کے ساتھ بڑھتے تھے ، یہاں تک کہ جب ہوا چیخنے چلانے لگی تو یہ خاصے اونچے اونچے ہو گئے  ۔ ہوا کے تیز جھونکوں سے فاؤسٹ کے قدم لڑکھڑا رہے تھے اور ایک زور کا جھونکا جو آیا تووہ گر پڑا مگر شعلوں نے اُسے اِس طرح سہارا دیا جیسے کوئی دیوار ہو ۔ اُن کی خوفناک سرخ، نیلی اور زرد زبانیں اُسے چاٹنے اور پیار کرنے لگیں لیکن جلایا نہیں ۔

فاؤسٹ نے پھر چلّا کر کہا ۔’’ میفسٹو ، بدی کی روح ، ظاہر ہو‘‘۔

اِس خوفناک حکم پر فطرت کے جملہ عناصر نے اتنا زور شور،اتنی  تُندی اختیار کی کہ اور کوئی ہوتا تو سہم جاتا ۔

حشرات الارض اپنے اپنے سوراخوں سے نکل کر بھاگنے لگے ۔ بے شمار چوہے پھدکتے ہوئے قریب سے نکل گئے ، اور خوف سے چیختے ہوئے سڑک پر بھاگ گئے ۔ چمگاڈریں اور رات کو اُڑنے والے پرندے فاؤسٹ کے سر پر پھڑپھڑانے لگے اور خطرے کی آوازوں میں چیخنے لگے۔ ہوا کے جھونکے  اور بھی تیز ہو ئے اور طوفان بن گئے ۔ زمین لرزنے اور ہلنے لگی اور شعلے اور بھی زیادہ اونچے ہو گئے اور ان میں سے کرخت آواز گانے کی آنے لگی گویا شیاطین مل کر غیرانسانی موسیقی کے ملعونوں کے گیت گا رہے تھے ۔

ہوا کے فراّٹے کے ساتھ بجلی کی گرج سنائی دینے لگی ۔ بجلی کے کوڑے ہر طرف سے ان شعلوں پر برسنے لگے جو فاؤسٹ کو گھیرے اور ڈھکے ہوئے تھے ۔ اس پر شعلے اور بھی اُچھل اُچھل کر بلند ہوئے اور ان کا جہنّمی گیت زیادہ کرخت اور فتح مندی سے سنائی دیا ۔

اب اس سارے شوروغل پر ایک اور آواز چھا گئی ۔ یہ تیز سرسراہٹ کی آواز تھی ۔ دُور بہت دُور سیاہ آسمان کے پس منظر پر روشنی کا ایک نقطہ نظر آیا اور اس میں سے یہ آواز آ رہی تھی ۔ یہ نقطہ بے انتہا تیزی سے قریب آ رہا تھا اور اس کے ساتھ جو آواز تھی ، وہ کانوں کے پار ہوئی جاتی تھی ۔

فاؤسٹ نے آواز سنی اور پلٹ کر اُسے اچھلتے ہوئے شعلوں میں سے دیکھا ۔ وہ اس کی طرف برق رفتاری سے آ رہا تھا اور اس کے چاروں طرف ایک بھیانک روشنی نظر آ رہی تھی ۔ فاؤسٹ کو کچھ مدھم نظر آیا کہ تین خبیث گھوڑےایک گاڑی کو آسمان میں اڑائے  چلے آ تے ہیں اور اس میں کوئی ایسی دہشت ناک چیز بیٹھی ہے جس کے دو سینگ ہیں اور اُسے دیکھے سے نفرت آتی ہے ۔ شعلوں کے دائروں سے کچھ فاصلہ پر آکر وہ چیز رُکی ۔ آواز کا  ایک چٹاخا اتنے زور کا ہوا کہ کان گنگ ہو گئے ۔ جہاں سے یہ آواز آئی تھی وہاں سے ایک تیز سفید روشنی اوپر کو اٹھی اور آسمان سے جا ٹکرائی ۔ وہ شعلے جو فاؤسٹ کو گھیرے ہوئے تھے دیوانہ وار چکر کھانے لگے ۔ گویا ادب سے جھک رہے تھے اور آگ کے گھیرے کے گھیرے ان شعلوں سے اٹھ اٹھ کر تیزی سے فاؤسٹ کے اوپر گردش کرنے لگے اور ان کی روشنی اس قدر تیز تھی  کہ آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ پھر ایک  جھٹکے کے ساتھ فاؤسٹ دائروں کے مرکز پر منہ کے بل گرا ۔

اس کے بعد چاروں طرف ایک سنّا ٹا  چھا گیا ۔

خاموشی کا ایک طویل عرصہ گذر گیا ۔ فاؤسٹ کی طاقت اور ہمت پھر عود کر آئی ۔ اس نے اپنا سر اٹھایا اور چاروں طرف خائف نظروں سے دیکھا ۔ اب سماں ایسا تھا گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا ، گویا اس کی آنکھ لگ گئی تھی اور اس نے جو کچھ دیکھا عالمِ خواب میں دیکھا تھا ۔ آندھی  اڑ چکی تھی اور اس کے سارے اثرات زائل ہو چکے تھے ۔ بھڑکنے والے شعلے سب معدوم  ہو گئے تھے ۔ اب صرف اس کے ہاتھ میں عصا تھا اور تین دائرے تھے جو اس نے اپنے گرد بطورِ حصار کھینچے تھے ۔

یکایک ایک شکستہ آواز نے فاؤسٹ کو مخاطب کیا اور اس مہرِ خاموشی کو توڑا ۔ یہ ایک عجیب بوڑھی آواز تھی :- ’’تو نے مجھے بلایا تھا‘‘۔

فاؤسٹ ابھی اپنے گھٹنوں ہی کے بل پر کھڑا ہوا تھا  ۔ اس نے جلدی سے پلٹ کر دیکھا اور سامنے ایک بڑے سے پتھر کے کنارے پر ایک عجیب بوڑھا آدمی ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا نظر آیا ۔ اس کے کپڑے بوسیدہ تھے ۔ سر پر ایک پچکی ہوئی ڈھیلی سی ٹوپی تھی جس میں سے لمبی لمبی سفید لٹیں نکلی ہوئی تھیں ۔ اِس ٹوپی کو اس نے تعظیماً تھوڑا سا اٹھایا اور پھر اپنے سر پر منڈھ لیا ۔ وہ مسکراتا ہوا آہستہ آہستہ فاؤسٹ کی طرف پلٹا ۔ اس مسکراہٹ میں مسّرت کے ساتھ چالاکی بھی تھی ۔ چہرے سے خوشی ٹپکتی تھی لیکن یہ خوشی بدی کی تھی ۔

فاؤسٹ اپنے پیروں پر سیدھا کھڑا ہوا ۔ اسے ابھی تک پوری طرح سکون حاصل نہ ہوا تھا ۔ اس نے ارادہ کیا کہ اس بڈھے کے پاس جائے کیونکہ فاؤسٹ کو یقین تھا کہ یہ شہزاد ۂ ظلمات کا  یا تو کوئی غلام ہے یا ابلیس خود ہے ۔ لیکن اُسی لمحہ نووارد نے اپنا سر گھمایا اور اس کا چہرہ چاند کی طرف ہو گیا ۔ اس کی آنکھیں اس طرح چمک رہی تھیں جیسے جہنّم کے قعرِ آتشیں(آگ کا گڑھا) ۔ مسرّت و شادمانی کے آثار اُس کے چہرے سے اس طرح معدوم ہو گئے جیسے کسی نے چہرے پر سے ایک پرت اتار دیا ہو اور فاؤسٹ نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک نفرت انگیز اور بھیانک چیز بیٹھی ہے ۔

خوف کی ایک چیخ کے ساتھ فاؤسٹ کی ساری ہمت رخصت ہوئی اور اس کے بوڑھے اعضاء جس قدر تیزی سے اسے لے جا سکتے تھے ، وہ بے تحاشہ شہر کی جانب بھاگا ۔ جب کبھی وہ پلٹ کر دیکھتا تھا تو اسے وہی بڈھا پتھر پر بیٹھا نظر آتا تھا ، اسی طرح ساکت و سامت (خاموش)۔ جب وہ اس شاہ بلوط کے پرانے درخت کے قریب پہنچا جہاں سے روڈا کو سیدھا راستہ جاتا تھا تو فاؤسٹ نے اپنی رفتار بدل لی اور لمبے لمبے قدموں سے چلنا شروع کیا۔ موڑ پر سے گذرنے کے بعد جب وہ درخت کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے تنے سے لگا کوئی کھڑا ہے ۔ یہ ایک شخص تھا ، عجیب چھوٹا سا بڈھا اور جب فاؤسٹ نے اس کے چہرے پر بدی کی مسکراہٹ دیکھی اور تعظیماً ٹوپی اتارتے اور منڈھتے دیکھا تو اس کے دل میں خوف کی ایک رَو دوڑ گئی ۔

فاؤسٹ نے پھر اپنے قدم تیز کیے یہاں تک کہ وہ شہر کے بیرونی جات میں پہنچ گیا اور دروازے میں سے گزرا ۔ دروازے کی محرابوں کی تاریکی میں وہ کسی چیز سے الجھ کر گرتے گرتے سنبھلا ۔ اس نے نیچے جھک کر دیکھا کہ کیا چیز ہے جو اس کے پیروں میں آ گئی ۔ پھر ایک دم سے ڈر کر پیچھے اچھل کر کھڑا ہو گیا کیونکہ اب پھر اس کے سامنے وہی عجیب چھوٹا سا بڈھا تھا جو ٹانگ پر ٹانگ  رکھے بیٹھا تھا اور تعظیماً ٹوپی اتار کر منڈھ رہا تھا۔ چہرے پر وہی بدی کی مسکراہٹ اور آنکھوں میں وہی جہنّمی چمک تھی ۔

اُس مخلوق سے جسے اس نے خود طلب کیا تھا ، فاؤسٹ جلد از جلد دور بھاگا اور اس وقت تک دم نہ لیا جب تک اپنے گھر کے دروازے پر نہیں پہنچ لیا۔  یہاں پہنچ کر اس نے چاروں طرف دیکھا ۔ سانس پھول گیا تھا ۔ صبح کاذب کا وقت تھا ۔ لوگ بیدار ہو چلے تھے ۔ بعض  لوگوں اپنے مردوں کو شہر سے دور دفنانے لے جا رہے تھے ۔ بعض اپنے بیماروں کے سلسلے میں تگ و دو کر رہے تھے ۔ بعض جلدی جلدی بازاروں میں دبکے دبکے چلے جا رہے تھے ۔

فاؤسٹ نے اپنے اجڑے ہوئے کمرے کا دروازہ کھولا ۔ پھر دروازے کا سہارا لے کر ساکت کھڑا ہو گیا ۔ اس کی کیفیت یہ تھی کہ نہ آگے بڑھنے کو جی چاہتا تھا اور نہ پیچھے ہٹنے کو ۔ سامنے جو نظر گئی تو دیکھا کہ میز کے پاس پیٹھ موڑے وہی پستہ قد بڈھا بیٹھا انگلیاں چٹخا رہا  ہے اور چھت کی طرف بے اعتنائی سے تک رہا ہے ۔ اس سے پہلے کہ فاؤسٹ اپنے لرزہ اور تشنج پر قابو پائے ، نووارد نے آہستہ آہستہ اپنا سر پھیرا اور فاؤسٹ کی طرف تعجب سے دیکھا ، گویا فاؤسٹ کی موجودگی کا علم اسے نہیں  تھا ۔ پھر ایک دم سے وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا ، تعظیماً جھکا اور اپنی پچکی ہوئی ٹوپی اتار کر پھر سر پر منڈھ لی : – ’’تو نے مجھے بلایا تھا ۔ تیرا حکم ماننے کے لیے میں یہاں حاضر ہوں‘‘۔

فاؤسٹ جھجکتا ٹھٹکتا  بدقت تمام آگے بڑھا گویا اس خوف انگیز مخلوق کے قریب جانے سے اجتناب کر رہا تھا ۔ مگر بڑی ہمت کر کے وہ اس کے پاس گیا اور غور سے اسے دیکھنے لگا ۔ پھر اس سے پوچھا :- ’’ تو کون ہے ؟ میں نے تجھے نہیں بلایا ۔ تو میرے کمرے میں کیوں آیا ہے؟‘‘۔

فاؤسٹ ڈر رہا تھا کہ دیکھئے ، کیا جواب ملتا ہے ۔ نووارد نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ پھرتی سے اُس کے پہلو میں آ کھڑا ہوا اور تمسخر آمیز مسکراہٹ سے فاؤسٹ کو دیکھنے لگا ۔ اپنے بوسیدہ چغے کے اندر ہاتھ جلدی سے ڈال کر اس نے رنگی ہوئی جھلّی کا ایک مُٹھا نکالا اور اسے فاؤسٹ کے ہاتھوں پر رکھ دیا ۔ اس کا طرز عمل تکریمانہ تھا مگر اس وقت اس کی مسکراہٹ  تہتک آمیز(کپتی یا ہتک آمیز)  اور  فاتحانہ تھی ۔

فاؤسٹ خاموش کھڑا اس کی طرف دیکھتا رہا ۔

نووارد نے ایک اور سریع جنبش کے ساتھ اُس مُٹھے کو کھول کر فاؤسٹ کی نظروں کے سامنے کر دیا ۔ یہ کسی قسم کی دستاویز تھی ، جیسے کسی وکیل نے معاہدے کا مسودہ تیار کیا ہو ۔ نووارد نے ذرا پرے ہٹ کر اس پر اپنی انگلیاں پھیریں اور ایک دم سے اس میں شعلے بھڑکنے لگے اور جیسے جیسے یہ معاہدہ جل کر سیاہ ہوتا گیا ، اس کے حروف بل کھانے اور انگاروں کی طرح دہکنے لگے ۔

فاؤسٹ نے انہیں  پڑھنا شروع کیا: – ’’اس معاہدے کی رُو سے میں فاؤسٹ معلّم اپنے عقیدۂ خدا پرستی سے دست کش ہوتا ہوں ، اور اپنی رُوح ابلیس کی حفاظت میں  دیتا ہوں ۔ ابلیس جو دنیا کا مالک ہے اور اس کے عوض میں ارواحِ ظلمات اور ساری خبیث روحیں دنیا کے اس سرے سے اُس سرے تک میری تابع فرماں ہوں گی‘‘۔

نووارد نے تیزی سے اس معاہدے کو پھرلپیٹ لیا اور یہ بالکل ویسا ہی صحیح و سالم تھا گویا جلا ہی نہ تھا ۔ نووارد نے اب غور سے فاؤسٹ کو دیکھنا شروع کیا ۔

فاؤسٹ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور پیشانی پر ہاتھ مار کر کہا ۔ ’’دفع ہو ، یہاں سے شیطان‘‘۔

’’تو نے مجھے بلایا تھا ۔ میں یہاں سے نہیں جا سکتا جب تک کہ تو اس  معاہدے پر دستخط کر کے مجھے آزاد نہ کر دے‘‘۔

’’جا ، جا ، یہاں سے دفع ہو‘‘۔ یہ کہہ کر فاؤسٹ لڑکھڑا تا ہوا کھڑکی کے قریب گیا اور اس کے داسے(چوکھٹا)پر اپنی کہنیاں ٹکا کر دونوں ہاتھوں سے سر کو مضبوطی سے پکڑا ۔

’’موت ، ہر طرف موت ، وبا اور موت !‘‘۔ فاؤسٹ نے کھڑکی میں سے نیچے دیکھ کر کہا ۔ سڑک پر ایک ٹھیلہ مُردوں سے لدا ہوا گزر رہا تھا ۔ ان پر ایک ٹاٹ کا ٹکڑا ڈھکا ہوا تھا ۔ کلیسا کے خدّام اپنا عجیب لباسِ سر پہنے اس ٹھیلے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی انگیٹھیاں لٹکی ہوئی تھیں جن میں گندھک ، جڑی بوٹیاں ، لوبان اور اِسی قسم کی دھونیاں سُلگ رہی تھیں ۔

فاؤسٹ نے اپنے دل میں کہا ۔’’ اگر مجھے صرف ایک دن کے لیے اتنی قدرت حاصل ہو جاتی !‘‘۔

’’کیا تیری یہ آرزو ہے ؟ تجھے ایک دن کے لیے یہ قدرت حاصل ہو سکتی ہے ‘‘۔

فاؤسٹ نے پلٹ کر اس کی طرف تعجب سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک جاتا تھا ۔ بڑی مشکل سے وہ بولا ۔’’ اور کیا اس کے معاوضہ میں مجھے اپنی روح نذر کرنی پڑے گی ؟‘‘۔

’’نہیں ! یہ دن تیرا ہی ہو گا ۔ جس طرح چاہے اُسے صرف کر ۔ دیکھ! ‘‘۔ یہ کہہ کر نووارد نے فاؤسٹ کی ریت گھڑی اٹھائی اور الٹ کر رکھ دی ۔

’’چوبیس گھنٹے کے لیے ۔ لیکن پہلے تجھے معاہدے پر دستخط کرنے پڑیں گے ، اگر اس گھڑی کی ریت ختم ہو جانے سے پہلے تو اپنے کیے پر پچھتائے اور یہ سودا تیری سمجھ میں نہ آ ئے تو ….. اس معاہدے کو تو فسق کر سکتا ہے‘‘۔

فاؤسٹ چونک کر آگے بڑھا اور بہت اشتیاق سے پوچھنے لگا :- ’’بیماروں کو بچانے کی قدرت کیا مجھ کو حاصل ہو جائے گی؟‘‘ ۔

’’تو مالک ہو گا جو حکم تو دے گا وہ پورا ہو گا ‘‘۔

’’تو مجھے منظور ہے ۔ لاؤ ، معاہدے کی دستاویز مجھے دو ۔ میں دستخط  کرتا ہوں‘‘۔

نووارد کے چہرے پر فتح مندی کے آثار نمایاں ہوئے  ۔ اُس کی آنکھیں جہنّم کے دو غاروں کی طرح دہکنے لگیں ۔ اس نے دستاویز کو کھول  معلّم کے آگے پھیلا دیا ۔

فاؤسٹ نے اسے لے کر قلم کی طرف ہاتھ بڑھا یا لیکن نووارد نے قلم اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور اس کے بدلے اپنے چغے میں سے ایک سرخ رنگ کا پر نکالا ۔

’’فاؤسٹ تیری اپنی روشنائی ۔ اس معاہدے کے لیے صرف وہی کام دے سکتی ہے‘‘۔

یہ کہہ کر نووارد نے فاؤسٹ کی دوات فرش پر الٹ دی ۔

فاؤسٹ نے اس کی طرف مستفسرانہ نگاہوں سے دیکھا ۔

’’صرف ایک خون کا قطرہ ، فاؤسٹ‘‘۔

اُس نے ایک لمحہ کے لیے فاؤسٹ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہایت نرمی سے لیا اور پھر زور سے کلائی کی رگ میں پر کی نوک بھونک دی اور دبا کر خون کا ایک قطرہ نکالا ۔ زندگی کی یہ روشنائی اُس نے اپنی زبانِ قلم کو چٹائی اور قلم فاؤسٹ کے ہاتھ میں دے دیا ۔

ایک لمحے کے لیے فاؤسٹ نے پس و پیش کیا ۔ پھر معاہدے پر اپنے دستخط ثبت کر دیے ۔

’’صرف ایک دن کے لیے ہے نا ؟ چوبیس گھنٹے ختم ہونے سے پہلے میں اگر چاہوں تو اِسے واپس لے سکتا ہوں نا؟ جس وقت چاہوں اُسی وقت ۔ کیوں اے خبیث روح ، یہی بات ہے نا ؟‘‘ ۔

نووارد نے جلدی سے اُس معاہدے کو جھپٹ کر اپنے چُغے کے سینے میں رکھا ۔ اس کی آنکھیں پھر دہکنے لگیں اور اس کے چہرے پر بدی چھا گئی ۔

’’صرف ایک دن کے لیے …..‘‘۔  فاؤسٹ نے معاہدے کو دہرایا ۔

’’ہاں …. جب تک اس کی ریت ختم ہو‘‘۔

ساتواں باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search