فاؤسٹ (حصہ اول: پانچواں باب)

 In ترجمہ

اپنے چاروں طرف  انسانی مصائب اور بے چارگی و بے بسی دیکھ کر فاؤسٹ کا دل بیٹھ گیا تھا ۔ اپنی ساری زندگی کے ضائع ہونے کا اسے صدمہ تھا اور مستقبل کی بے سود زندگی پر بھی وہ متاسّف تھا ۔ اسی سوچ میں جب وہ اپنے گھر کے   نزدیک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سیڑھیوں پر کئی مرد اور عورتیں اس کے انتظار میں کھڑی ہیں ۔

جب وہ اپنی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو سب اس کے گرد جمع ہونے لگے اور اس کے چغے کو پکڑ پکڑ کر اس سے التجا کرنے لگے ۔

’’فاؤسٹ۔ اچھے فاؤسٹ۔ میری مدد کر ۔ میرا اکلوتا بچہ ہے‘‘۔

’’فاؤسٹ ہم پر ترس کھا ۔ سوائے تیرے ہمیں اور کوئی نہیں بچا سکتا‘‘۔

فاؤسٹ نے سیڑھیاں ختم کرنے کے بعد پلٹ کر ان کی طرف رحم آمیز نگاہوں سے دیکھا اور بولا:- ’’یہاں سے چلے جاؤ ۔ عقیدہ مر گیا ! علم بالکل بے کار ہے ! میرے غریب لوگو ، میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا ۔ ہم سب عذاب میں گرفتار ہیں‘‘۔یہ کہا اور سر جھکا کر اپنے گھر میں داخل ہو گیا اور لوگ آپس میں حیرت سے چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ یہ فاؤسٹ کو کیا ہو گیا کہ اس قدر بدل گیا ۔

فاؤسٹ نے اپنے مشترک دارالمطالعہ اور دارالعمل کو نفرت اور حقارت سے دیکھا ۔ ان سب کتابوں کی اب اس کے نزدیک کوئی وقعت نہیں تھی ۔ ا ن کے صفحات میں اس کے لیے آئندہ نہ تو سکون تھا اور نہ الہامی تحریک ۔ طبی کتابوں اور مسودوں کے ڈھیر ، کیمیا وغیرہ کی جلدیں اور سحرِ ابیض کی سب کتابیں اس کے لیے ناکارہ ثابت ہوئی تھیں ۔ وہ سب چیزیں جو اسے کبھی عزیز تھیں ، اب اُن پر اس کا اعتقاد بالکل مٹ چکا تھا ۔ اسے اب خود اپنی ذات پر اعتقاد نہ رہا تھا ۔

وہ اُن آلات کے قریب گیا جن میں اس نے عرقِ طاعون کشید کیا اور جو اس قدر بے اثر ثابت ہوا تھا ۔ جس کی تیاری میں نگرانی کرتے کرتے اس کی آنکھیں تھک گئی تھیں مگر دل میں امیدِ کامیابی تھی اور یہ امید اب اس بری طرح غلط ثابت ہوئی ۔ قریب جا کر اُسے نفرت سے دیکھ کر بولا: – ’’اے باریک نلیو اور بلّور کی گیندو، مُرکّب سفوفو اور مشرق کے سحرآفریں شربتو ۔ اور تو بھی اے فاؤسٹ ۔ کیا ہم سب مل کر ابلیس کی قوت کو شکست دے سکتے ہیں؟  میں ! ہاہاہا !‘‘۔

اور اس کی ہنسی ایسی تھی جیسے تکلیف کی چیخ ۔

’’خدا پر بھروسہ !ہاہاہا ! کوئی پرندہ پر نہیں مارتا جب تک — آہ ! سمجھ میں نہ آنے والا فلسفہ ! آہ ! علم و طب کی کہانیوں کی قوتو ! آؤ  ، میں تمہاری قوت کا تجربہ کروں ۔ شیشہ ! شیشہ ! سب کمزور ٹوٹ  جانے والا شیشہ ! بے حد کمزور شیشہ !‘‘۔

اس نے اپنا عصا اٹھایا اور نلیوں اور آلاتِ کشید پر مارا ، پھر مارا اور اتنی دفعہ مارا کہ فرش اور میزیں شیشے کی کرچیوں اور ریزوں سے بھر گئیں ۔ دھات کی بنی ہوئی چیزیں ٹیڑھی میڑھی ہو گئیں ۔ زندگی بھر کی محنت کے نتائج جو صبر و سکون سے حاصل کیے گئے تھے ، ہوشیاری سے وضع کیے گئے تھے اور بڑے شوق  و ذوق سے جمع کیے گئے تھے ، ایک منٹ کے غصے میں اس طرح غارت ہو گئے کہ دوبارہ اس نقصان کی تلافی کسی طرح نہ ہو سکتی تھی۔

جذبات کے ہیجان سے وہ کانپنے لگا اور اس کا سانس پھول گیا ۔ وہ گرتا پڑتا کھڑکی تک گیا اور جھٹکا دے کر اسے کھولا ۔ نیچے اب بھی لوگ جوق در جوق کھڑے اس کے گھر کی طرف دیکھ رہے تھے گویا اس کے اندر اُن کی آخری امیدِ نجات موجود تھی ۔ باوجودیکہ فاؤسٹ نے ان سے صاف صاف انکار کر دیا تھا کہ وہ ان کی امداد کرنے سے  قطعاً قاصر ہے ۔

’’اے بے کس مقہور روڈا ! اے مجبور و مبتلائے آلام باشندو! اپنے خدا کو پکارو ! فریب! سب کچھ فریب ! وہ تمہاری مدد بس اتنی ہی کر سکتا ہے جتنی کہ کمزور بوڑھا  بیوقوف فاؤسٹ!‘‘۔

وہ کھڑکی میں سے پلٹا اور کتابوں کے ایک ڈھیر سے اُلجھ کر گرتے گرتے سنبھلا ۔ اس نے اِن کتابوں کو ٹھکرا دیا ۔

’’ترقی کی راہ میں رُکاوٹیں ! لوگوں کو پھانسنے کے لیے پھندے! تم نے میری روح چوس لی ۔ میری زندگی جذب کر لی اور اس کے عوض مجھے الفاظ کا خلا دے دیا ۔ دفع دفان ہو ۔ تم بھی اسی طرح جلو گی جس طرح میں جل رہا ہوں‘‘۔

بڑی کھلی ہوئی بھٹّی میں آگ اب بھی چمک رہی تھی۔  فاؤسٹ نے کتابیں اٹھا اٹھا کر اس میں پھینکنی شروع کیں ۔ ان کے بوجھ سے اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے مگر وہ پوری طاقت سے انہیں آگ میں جھونک رہا تھا ۔ کچّے اور رنگے ہوئے چمڑے کی جلدیں ، جھلّی اور کپڑے کی جلدیں، چھوٹی بڑی منجھولی (منجھلی)  کتابیں ، بڑی تقطیع کی ضخیم کتابیں ، سب آگ میں اچھال دی گئیں ۔ پھر پوری قوت سے اس تسمے کو کھینچنا شروع کیا جس سے دھونکنی چلتی تھی  یہاں تک کہ بھٹّی خوفناکی سے بھڑکنے لگی اور دھاڑتے ہوئے شعلے فاؤسٹ کے کسی زمانے کے عزیز علمی  سرمایہِ کو نگلنے لگے ۔

وہ کتابوں پر کتابیں آگ میں جھونکتا رہا اور اسے ایسا معلوم ہوتا رہا کہ یہ اس کی ساری زندگی کی آرزوؤں ، امیدوں اور خواہشوں کی چتا دہک رہی ہے۔ آگ کی تپش سے اُس نے صفحات کو مڑتے بل کھاتے دیکھا ۔ اور اس کے دیکھتے ہی دیکھتے شعلوں کی بھوکی زبانیں سب کچھ چاٹ گئیں ۔ فاؤسٹ یہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کے بچے تڑپ تڑپ کر چیخ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ خدا کے لیے اپنا ہاتھ روکو ۔

کتابوں کا ایک ڈھیر اس کے ہاتھوں میں تھا کہ وہ ٹھِٹکا ۔ ہوا   یہ کہ بھٹّی کے سب سے گرم حصے میں ایک جلد چٹخ کر آگے آ پڑی ۔ یہ مقدس عبارتوں کی ایک کتاب تھی اور اس کی جلد پر ہاتھی دانت کی ایک صلیب لگی ہوئی تھی ۔ جلد علیحدہ ہو گئی اور جلی خط میں لکھے ہوئے اوراق کو جب آگ پہنچی تو وہ کھلنے لگے ۔ ایک لمحے کے لیے ایک ورق سیدھا کھڑا نظر آیا اور آگ کی لپٹ میں سے فاؤسٹ نے یہ الفاظ پڑھے :- ’’میرے معبود ، تو رحیم ہے اور بہت مہربان ہے‘‘۔

فاؤسٹ نے چیخ کر کہا ۔’’ یہ جھوٹ ہے ۔ ابدی جھوٹ‘‘۔

اور شکستہ خاطر ی کے جنوں میں اس نے ہاتھوں میں  جو  گٹھڑ تھا ، آگ میں جھونک دیا اور اس کے بعد اور کتابیں پھینکتا رہا ، یہاں تک کہ بھٹّی میں جگہ نہ رہی ۔ پھر وہ بیٹھ گیا اور اپنی زندگی کے کارنامے کو آگ لگتے دیکھتا رہا ۔ تپش بہت زیادہ تھی ، اتنی ہی جتنی کہ اس وقت اس کے مزاج میں تھی۔ اور اتنی ہی تیز تھی جتنی کہ جذبات کی آگ جو اس کے دل میں بھڑک رہی تھی ۔ بھٹّی دھاڑ رہی تھی اور کتابیں دھڑادھڑ جل رہی تھیں ۔ جلنے والی ہر کتاب کو وہ پہچان رہا تھا اور اُن خوشگوار راتوں کو یاد کر رہا تھا جو اُن کے مطالعہ میں صرف ہوتی تھیں ۔ یہ کتابیں فلسفہ ، الہٰیات، الکیمیا  ، اور عجائبِ فطرت کے علوم کی تھیں ۔

ایک کتاب اور کتابوں سے زیادہ آگ سے بچ رہی تھی ۔ اس نے فاؤسٹ کی توجہ جذب کر لی ۔ یہ ایک ایسی کتاب تھی جس کو فاؤسٹ نے کم سے کم تیس سال سے کھول کر نہیں دیکھا تھا ۔ موجودہ اُفتادِ مزاج میں اس کتاب کے غیرمتوقع طور پر نظر پڑ جانے سے فاؤسٹ کی اکثر بھولی بسری باتیں اُبھر آئیں ۔ اس کا موضوع تھا سحرِ اسود یا کالا جادو ۔ اِس کی جلد انسانی چمڑے کی تھی اور یہ اُس انسان کی چمڑی تھی جسے قتل کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی ۔ سرِ ورق پر ایک بڑا سا سیاہ دائرہ تھا ۔

کتاب کھلی اور صفحات اِس طرح علیٰحدہ ہو گئے جیسے نامعلوم ہاتھوں نے انہیں کھول کر رکھ دیا ہو ۔ اور فاؤسٹ کی نظریں ان الفاظ پر جم گئیں جو انہیں نگلنے والے شعلوں کی طرح دہک رہے تھے :-

’’بدی کا مقابلہ بدی سے کر ، اس کے لیے جہنّمی روحوں کو تلاش کر‘‘۔

پھر کتاب کا ایک اور صفحہ کھلا اور یہ آتشیں الفاظ نظر آئے :-

’’علم ہی طاقت ہے اور تجھے روحوں پر قابو دیا جائے گا……‘‘۔

پھر ایک صفحہ اور الٹ کر سامنے آیا اور فاؤسٹ نے بڑھتی ہوئی گھبراہٹ میں پڑھا : –

’’اگر تو چاہتا ہے کہ ارواحِ ظلمت پر قابو پائے تو چودھویں شب کو چوراہے پر جا ….‘‘۔

’’اور کیا ہے ۔ اور کیا ہے‘‘۔ فاؤسٹ نے ہانپ کر کہا ۔ اور جھپٹ کر آگ میں سے کتاب اٹھانی چاہی مگر آگ کی تپش نے اُسے پیچھے ہٹا دیا اور اِس سے پہلے کہ وہ اپنے عصا سے اُس کتاب کو بھٹی  میں سے نکال لے ، شعلوں نے اسے پھونک دیا اور اس کی سیاہ راکھ بھی دُود کش(چمنی) میں آگے فرّاٹے (تیزی)کے ساتھ چڑھ گئی ۔

فاؤسٹ لرزتا اور بےدم سا ہو کر اپنی کرسی میں گر گیا ۔ اُسے یہ کتاب یاد آ گئی تھی اور وہ اپنی دھندلی یادداشت میں سے اس کے منتر ، عمل کے طریقے کرید کرید کر نکالنے لگا ۔ گھنٹوں وہ اِسی طرح نیم جان و بے حس و حرکت بیٹھا رہا ۔ آگ کے شعلے کم ہوتے گئے یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی زبانیں رہ گئیں جن سے عجیب عجیب بل کھائے ہوئے سائے دیواروں اور چھت پر پڑنے لگے ۔ پھر ایک گہری آہ بھر کر فاؤسٹ اٹھا اور اپنی جنتری دیکھی ۔ اور آپ ہی آپ بولا: – ’’آج ہی چودھویں شب ہے۔ اچھا تو ایسا ہی ہو گا ۔ میرے غریب بھائی بندوں کی مدد کے لیے اگر خدا اپنا ہاتھ نہیں اٹھاتا اور چاہتا ہے کہ ہم اس عذاب میں سڑتے رہیں تو میں ابلیس سے طالبِ امدا د ہوں گا‘‘۔

چھٹا باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search