فاؤسٹ (حصہ اول: چوتھا باب)
کچھ دیر تک فاؤسٹ لمبی لمبی ڈگیں (قدم)بھرتا چلا گیا اور غصہ سے اپنا عصا زمین پر مارتا گیا ۔ وہ تیز چل رہا تھا مگر اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کدھر جا رہا ہے ۔ علم کی شکستِ فاش اور اپنی ہزیمت پر اس کے ہوش و حواس پراگندہ ہو گئے تھے ۔ دلی آرزوؤں کی تباہی نے خدائےالرحم الراحمین کے عقیدے کو مسمار کر دیا تھا ۔
جب صدمے کی شدت کچھ کم ہوئی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ شہر کے سب سے آباد بازاروں میں سے گزر رہا ہے اور یہ بازار اب اور بھی زیادہ آباد ہو گئے تھے ، کیونکہ خوفناک وبا کی وجہ سے لوگ اکثر بازاروں میں جمع ہو جایا کرتے تھے ۔
اہلِ کلیسا لمبے لمبے چغے اور اونچی اونچی ٹوپیاں پہنے جن کے گھیر ان کے کندھوں تک اس لیےپھیلے تھے کہ وبا ان سے دور رہے ، ایک قطار میں گزرتے نظر آ رہے تھے ۔ ان کے منہ بھی ڈھکے ہوئے تھے ۔ صرف آنکھیں نظر آتی تھیں ۔ ان کے ہاتھوں میں لٹکنے والی پتیلی انگیٹھیاں تھیں جن میں جڑی بوٹیاں ، گندھک اور رال کی دھونیاں تھیں۔ بڑے چوراہے اور گرجا کے باہر چھوٹے چھوٹے کئی جتھے تھے ۔ یہ لوگ نیم جان اور گھبرائے ہوئے تھے ۔ ان میں سے بعض لوگ جنون کی حالت میں خدا کو برا بھلا کہہ رہے تھے اور بعض وفورِ عبودیت کا اظہار کر رہے تھے ۔ فاؤسٹ کی طبیعت کو اب بہت سکون ہو گیا تھا ۔ اس نے ان لوگوں کو ترس کی نگاہ سے دیکھا اور پھر اسے مرنے والی عورت اور انسانی بے چارگی کا خیال آیا ۔
تقریباً ہر گلی کے نکڑ پر یا تو کوئی پادری موجود تھا یا واعظ جو چیخ چیخ کر پیشین گوئیاں کر رہا تھا کہ اگر لوگوں نے توبہ استغفار نہ کیا اور خدا کی بندگی نہ کی تو اور بھی تباہی و بربادی ہو گی ۔ اِن میں سے ایک چیخ کر بولا ۔ ’’روزے رکھو اور عبادت کرو ۔ قیامت کا دن قریب آ پہنچا ۔ اقرارِ تاسف و ندامت کرو اور اپنی غیر فانی روحوں کو بچاؤ‘‘۔ اس کے گرد ایک بڑا مجمع تھا ۔ سب کے سب اُس پر ٹوٹ پڑے کہ جو صلیب اس کے ہاتھ میں تھی کہ اُسے بوسہ دیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ایسا کرنے سے کوئی بچانے والی قوت صلیب میں سے نکل کر اُن میں آ جائے گی ۔
فاؤسٹ اب آہستہ آہستہ چلنے لگا تھا اور اپنی ساری زندگی پر غم و افسوس کر رہا تھا کہ تجسّسِ علم میں رائیگاں گئی ۔ ایسے علم کے حصول میں اکارت گئی جو پہلی ہی ضرورت کے موقع پر اپنے اور اپنے ہم جنسوں کے لیے قطعاً بےکار ثابت ہوا ۔
وہ ایک واعظ کے قریب سے گذرا ۔ اس کا لباس راہبوں کا سا تھا ۔ اُس کے گرد ایک بھیڑ خوش اعتقاد لوگوں کی لگی تھی ۔ راہب کی کرخت آواز ، اس کی جوشِ مذہب سے بھری ہوئی آنکھیں ، لوگوں کو گناہگار و مجرم ٹھہرانے کا لہجہ اور غضب ناک طریقہ گفتگو دیکھ کر فاؤسٹ بھی ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا ۔
راہب کی آواز گونجی ۔ ’’تم نے گناہ کیے ہیں اور خدا گناہگاروں کو سزا دیتا ہے‘‘۔ اتنے ہی میں ایک موڑ پر سے ایک اور آواز سنائی دی – جو اس سے بھی زیادہ بھیانک معلوم ہوئی — یہ آواز ایسی تھی کہ اِسے جس کسی نے سنا ، لرز گیا اور خوف سے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنانے لگا ۔ یہ آواز تھی خوشی اور قہقہوں کی ۔ نوجوانوں اور لڑکیوں کے قہقہوں کی آواز جو گرجا کے خلا میں گونج رہی تھی ۔ یہ آواز قریب سے قریب تر آ رہی تھی ۔ یہاں تک کہ راہب کی آواز اس میں جذب ہو کر رہ گئی ۔ پھر ایک دم سے ایک مختصر سا جلوس نوجوانوں کا نکڑ پر سے ہنستا گاتا اور ناچتا گزرا ۔
یہ لوگ مست نظر آتے تھے مگر شراب خوری سے نہیں ۔ وہ انتہائی مسّرت میں ناچ رہے تھے ، گا رہے تھے اور خوب زور زور کے قہقہے لگا رہے تھے ۔ گویا موت کو جوانی للکار رہی تھی ۔
جب یہ جلوس راہب کے قریب سے گزرا تو اس نے خوفناک آنکھوں سے اُسے گھورا اور اپنے دانت پیسنے لگا ۔ اپنا دُبلا سوکھا سا ہاتھ ان کی طرف اٹھا کر اُس نے تھوکا اور پھر چیخ کر بولا : -’’ارے بے ایمانو ! مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ‘‘۔
تین رقص کرنے والی لڑکیوں نے جن کے ہاتھ میں ہاتھ پڑے ہوئے تھے ، اُس کو تیکھی چتون سے دیکھا ۔ ا ن کی آنکھوں میں غیرفطری روشنی کی چمک تھی گویا ایک آگ دہک رہی تھی جس میں وہ اپنی ساری جوانی کو جھونک دینا چاہتی تھی اور اس جنونی سرخوشی میں آج ہی کی شب اپنی زندگی ختم کر دینا چاہتی تھی ۔
ان میں سے ایک نے راہب کی طرف پھول پھینکا اور خوب ٹھٹھا مار کر ہنسی اور بولی : – ’’اگر کل موت ہے تو آج عیش ہے‘‘۔
پھر ناچنے والوں کا ایک ریلا آیا اور یہ لڑکیاں اس میں غائب ہو گئیں ۔
راہب کی آواز پھر سنائی دی:- ’’وہ جو ایمان رکھتا ہے زندہ رہے گا ۔ لیکن وہ جو خدا کا مذاق اڑائے گا ، غارت ہو جائے گا‘‘۔
وہ ایک ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا ئے اوپر دیکھتا رہا ۔ ایکاایکی(اچانک) اس کا جسم سخت ہو گیا اور ہاتھوں کی انگلیاں اس طرح پھیل گئیں گویا کسی زبردست چیز سے بچنا چاہتا ہے ۔ چہرے سے انتہائی نفرت و خون کا اظہار ہو رہا تھا ۔ پھر کسی جانور کی طرح چیخ مار کر وہ چکراتا ہوا سر کے بل گرا ۔ لوگ گھبرا کے تتر بتر ہوگئے اور ڈر ڈر کر کہنے لگے :- ’’طاعون ! طاعون ! خدا کے عابد بھی طاعون سے نہ بچ سکے‘‘۔
لیکن یہ طاعون نہیں تھا ۔ کیونکہ فاؤسٹ نے جھپٹ کر اسے اپنی گود میں اٹھایا ۔ طاعون کی نفرت انگیز علامات اسے کہیں دکھائی نہ دیں۔ راہب پر کوئی مہلک دورہ پڑا تھا اور اس کی زندگی تیزی سے ختم ہو رہی تھی ۔ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور پاگلوں کی طرح فاؤسٹ کو دیکھ کر تکلیف سے چیخا ۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔ اور مرتے مرتے فاؤسٹ نے اسے کہتے سنا : – ’’ابلیس ! یہ کام ابلیس کا تھا ۔ اوپر آسمان پر‘‘۔
اوپر دیکھا تو فاؤسٹ نے دیکھا کہ ایک بڑا سیاہ بادل ہے اور دونوں طرف دو لمبے لمبے بادل کے ٹکڑے ہیں جن کی شکل پھیلے ہوئے ہاتھوں کی ہی ہے اور بیچ میں ایک چپٹا سا سیاہ سر ہے جس میں سے دو نکیلے سینگ نکلے ہوئے ہیں ۔