فاؤسٹ (حصہ اول: دسواں باب)
صبح جاگ چلی تھی اور اپنی گلابی انگلیوں سے رات کے تاریک پردے ایک طرف ہٹا رہی تھی ۔
مدھم روشنی میں سمندر میں ایک پہاڑی پر میناروں والی گھڑی نظر آ رہی تھی ۔ نیچے کی ایک کھڑکی میں چراغ جل رہا تھا ۔ اندر عظیم الشان ضیافت میں ایک رومی قالین پر محب و محبوب فاؤسٹ اور نواب بیگم ہم آغوش پڑے تھے ۔
بیگم نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا :- ’’آہ ، میرے پیارے تم کس قدر حسین ہو‘‘۔
فاؤسٹ نے گرم جوشی سے منہ چوم کر جواب دیا :- ’’ تم اپنا ہی عکس میرے چہرے میں دیکھ رہی ہو ۔ میں نے عورتوں میں تم جیسی حسین عورت آج تک نہیں دیکھی‘‘-
بیگم نے آہستہ سے کہا :- ’’ لیکن تم ہر عورت سے زیادہ حسین ہو ۔ میں مردوں میں طاقت ، قوت ، شجاعت ، فراست اور کئی چیزیں تلاش کرتی تھی ۔ سورما ، سیاست داں ، شہزادے ، عالم ، سب کو میں نے جانچا ۔ مگر تم میں اِن سب باتوں کو میں جمع دیکھتی ہوں اور تم حسین بھی ہو‘‘۔
’’میرے حسن کا ذکر مت کرو‘‘۔ فاؤسٹ نے کہا ۔ ’’تمہارے حسن کی عمر دراز ہے کیونکہ اس کا مسکن مردوں کا دل ہے اور اُس وقت تک زندہ رہے گا جب تک مرد زندہ ہیں ۔ مگر میرا حسن ۔۔۔۔‘‘ ۔ اور یہ کہہ کر فاؤسٹ نے ایک ٹھنڈا سانس لیا کیونکہ اسے کوئی ناگوار بات یاد آ گئی تھی ۔
معلوم ہوتا تھا کہ فاؤسٹ نے بیگم پر جادو کر دیا ہے ۔ اس کی نظر پر ، اس کے لمس پر ، اس کی آواز پر بیگم کے جسم میں لرزہ پڑ جاتا تھا ۔ اس نے آہستہ سے کہا :- ’’میں نے بغیر سوچے سمجھے ہر چیز تم پر چھوڑ دی ہے ۔ مجھے کسی بات کا افسوس نہیں ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو گا ، چاہے جو کچھ ہو ۔ تمہارے پاس بہت دولت تھی مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی ۔ کیونکہ میرے پاس اپنی ہی دولت کافی تھی ۔ تمہارے پاس عقل و فراست تھی مگر کتابوں اور پرانے نوشتوں سے میں نے اِسے حاصل کر لیا تھا ۔ تمہارے پاس طاقت اور دلیری تھی لیکن میں اور بہت سے مردوں کو جانتی ہوں جن میں یہ صفات موجود ہیں ۔ مگر تم میں اس سب کچھ کے ساتھ ، میری جان ، حسن تھا اور جوانی‘‘۔
کچھ یاد کر کے وہ چونک پڑا اور بیگم کی آغوش سے نکلنے لگا ۔ اس کے دل میں گویا خنجر سا لگا ۔ اس نے اپنے معمل میں ریت گھڑی کو رکھے دیکھا اور دیکھا کہ اوپر کا حصہ تقریبا خالی ہو چکا ہے ۔ جب سے میفسٹو کے چغے پر سے قدم اتارا تھا اور اس جادو کی رات میں مبتلا ہوا تھا ، میفسٹو کے معاہدے کا اسے مطلق خیال نہیں آیا تھا ۔
یاد اُبھر آئی اور جوانی کے حوالے کے ساتھ ۔ جوانی کا ذکر اُس سے کیا جا رہا تھا جو ذرا سی دیر میں کمزور بد دل بوڑھا ہو جانے والا تھا ۔ جس کے تمام پرانے نظریے مٹ چکے تھے ، جس کی کل سائنس و فلسفے کی پیاس بجھ چکی تھی ۔ ایک بڈھا جس کی آرزوئیں اور امیدیں غارت ہو چکی تھیں۔ یہ انسان کیا تھا ، انسان کا چھلکا تھا ۔ لیکن ایک بات کا وہ تہیہ کر چکا تھا اور اسی پر قائم تھا اور وہ یہ کہ وقت پورا ہونے سے پہلے میفسٹو سے وہ عہد نامہ واپس لے لے گا جس پر اس نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے ۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بیگم کو بھی اٹھا کر کھڑا کر دیا ۔ پھر شمع دان میں سے ایک شمع نکالی اور اونچی اٹھا کر بولا :- ’’آؤ‘‘۔
یہ کہہ کر بیگم کو گود میں اٹھا لیا ۔ شمع کی روشنی اس کے کھلے ہوئے بالوں ، شانوں اور سینے پر پڑ رہی تھی جو زندگی سے کانپ رہا تھا ۔ اس کے حسین چہرے پر محبت کی روشنی چمک رہی تھی اور اسی طرح اسے اٹھا ئے اٹھائے چوڑے زینے تک آ گیا ۔
جب وہ عالیشان کمرۂ خواب میں پہنچ گیا تو شمع کو ایک شمع دان میں رکھ دیا اور اپنی عاشق محبوبہ کو آہستہ سے زمین پر ٹکا دیا ۔ انہوں نے کانپتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر بڑی گرم جوشی سے گلے ملے کیونکہ محبت درحقیقت اُسے اب ملی تھی ۔ اور یہ بیگم سمجھ ہی نہیں سکتی تھی کہ محبت بھی اس قدر شدید ہو سکتی ہے کہ ایک انسان کی ہستی پر چھا جائے ۔ اب وہ اِس محبت کو چھوڑ رہا تھا ، زندگی سے منہ موڑ رہا تھا ۔
فاؤسٹ سہارا دے کر اُسے بسترِ عروسی تک لایا ۔ وہ اس کے بازو پر پیچھے کی طرف جھکی ہوئی ادھ کھلی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتی جاتی تھی ۔ دونوں کے دونوں غلبہ محبت سے نیم بے ہوش ہو رہے تھے ۔ کوئی مافوق الفطرت چیز لہریں بن بن کر اُن میں سے گزر رہی تھی اور انہیں ابھار کر کچھ سے کچھ بنا رہی تھی ۔ فاؤسٹ نے مسہری کے زرکار پردے کھینچ دیے ۔ اُسی وقت اُس کے کان میں ہلکی مگر صاف آواز آئی :-’’فاؤسٹ‘‘۔
یہ ایک حکم تھا جسے ماننے پر وہ مجبور تھا ۔
اُس نے اپنے آپ کو بیگم کی گرفت سے چھڑایا اور آواز کی سمت میں دوڑا ۔
ایک چوڑی سی الماری کے قریب سے گزرا تو ایک ہاتھ اس میں سے نکلا جس نے مضبوطی سے اُسے پکڑا اور پیچھے کھینچ لیا ۔ یہ ہاتھ میفسٹو کا تھا ۔ اس کے ایک ہاتھ میں ریت گھڑی تھی اور دوسرے میں جس سے اُس نے پکڑا تھا ، وہی ملعون عہد نامہ تھا ۔۔۔۔ ایک انسانی روح کا معاہدہ۔میفسٹو نے ریت گھڑی کو فاؤسٹ کی آنکھوں کے سامنے کر دیا۔ اُوپر کا نصف حصہ خالی تھا ۔
میفسٹو نے عہد نامہ کھول کر پھیلا دیا ۔’’ دیکھو ، میں اپنے قول پر قائم رہا ۔ تمہیں جوانی کا ایک دن مل گیا ۔ سورج کی ایک گردش تک تم نے دنیا کے ہر گوشے پر حکم رانی کی ۔ اب بتاؤ، کیا اپنا عہدنامہ واپس لینا چاہتے ہو؟‘‘۔ اس کے چہرے پر ایک تمسخراتی مسکراہٹ تھی اور اُس کی آنکھوں میں بھیانک روشنی چمک رہی تھی ۔
فاؤسٹ نے کہا :- ’’ایک دن! صرف ایک دن ۔ بس ایک دن مجھے اور دیدے‘‘۔
’’نہیں ، نمونہ ختم ہو چکا ۔ ریت ختم ہو چکی ۔ اب پھر ویسا ہی بڈھا ہو جا جیسا پہلے تھا‘‘۔
اس کے آخری الفاظ کے ساتھ ہی فاؤسٹ کے قریب ایک سایہ نمودار ہونے لگا ۔ یہ بوڑھے فاؤسٹ کی شکل تھی ۔ لمبی سفید داڑھی جس نے جلد ہی پوری شکل اختیار کر لی اور اپنی جوان ہستی کی طرف تاسف سے دیکھنا شروع کیا ۔ اس کے ساتھ ہی فاؤسٹ نے محسوس کیا کہ اس کی طاقت زائل ہو رہی ہے ۔ اس کے اعضاء کانپنے لگے اور وہ لڑکھڑانے لگا ، گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا ۔ اپنے نحیف ہاتھوں کو اُوپر اٹھایا اور کمزور لہجے میں بولا:- ’’ میں نے دوبارہ جوانی کا مزہ چکھا ۔ زندگی بغیر جوانی کے موت ہے‘‘۔
میفسٹو اسے کھڑا دیکھتا رہا اور خاموش رہا ۔
بوڑھا فاؤسٹ اب سایہ نہیں رہا تھا ۔ فاؤسٹ گر چکا تھا اور مرنے ہی والا تھا کہ کمزور سرگوشی کی سی آواز سنائی دی :- ’’ جوانی – مجھے میری جوانی دیدے‘‘۔
میفسٹو کے چہرے پر فتح کے آثار نمایاں ہوئے اور ایک لمحہ کے اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہکنے لگیں ۔
’’اچھا تو یونہی سہی ۔۔۔۔ لیکن تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرا ہو گیا‘‘۔