فاؤسٹ (اختتامیہ)
پھر ابلیس درِ نُور پر آیا اور اُس کا آنا ایسا تھا جیسے آتشیں شہابِ ثاقب آسمان پر شرارے چھوڑتا جائے ۔ اور اُس کی صدا ئے پرواز ایسی تھی جیسے اُجڑی ہوئی روحوں کے رونے کی آواز ۔ اور اُس نے آسمان پر اپنی کہنی ٹِکا کر زور سے آواز دی ۔
اور دِر نُور کھُلا اور اس میں سے بہت تیز روشنی نکلی ۔ اور ابلیس نے اپنا منہ پھیر لیا کیونکہ وہ اِس روشنی سے نظر نہیں ملا سکتا تھا ۔ اور فرشتہ نُور باہر آیا اور اُس کا حسن ایسا تھا کہ اُسے دیکھے سے خوف آتا تھا ۔ اُس کے ہاتھوں میں ایک دہکتی شمشیر تھی ۔
پھر ابلیس نے اپنا ہاتھ پھیلایا لیکن اُس کا منہ پھرا ہوا تھا ۔ اور اُس کے ہاتھ میں معاہدہ تھا ۔ اور اُس نے معاہدہ کھول کر پھیلایا اور اُس پر جو الفاظ تھے وہ خون سے لکھے گئے تھے ۔ اور اُس نے فرشتہِ نُور کو بآوازِ بلند مخاطب کر کے کہا :- ’’میں نے جو شرط تجھ سے لگائی تھی ، وہ میں نے جیت لی ہے ۔ میں تجھ سے اِس معاہدے کی پابندی چاہتا ہوں‘‘۔
پھر فرشتہِ نُور بولا ۔ اور اُس کی آواز ایسی تھی جیسے بانسریاں بجتی ہوں:- ’’فاؤسٹ کی روح جنت میں داخل ہو گی ۔ تو اپنی شرط ہار گیا‘‘۔
پھر ابلیس کی آنکھوں میں آگ دہکنے لگی ۔ اور جواب میں وہ چیخ کر بولا:- ’’اُس کی روح جنت میں داخل نہیں ہو سکتی ۔ دنیا کے عیش و عشرت کے لیے اُس نے اپنی روح مجھے سونپ دی تھی‘‘۔
اور فرشتہِ نُور نے اپنی شمشیر کی ایک ضرب لگائی اور اُس کے چاروں طرف جو روشنی تھی وہ بہت بڑھ گئی ۔ اور ابلیس پھر نرم پڑ گیا اور اُس نے کوئی گرمی نہیں دکھائی ۔ لیکن فاؤسٹ کی روح کا اقرار نامہ وہ اُسی طرح فرشتہِ نُور کی طرف بڑھائے کھڑا رہا ۔
پھر فرشتہِ نُور ایک بار پھر بولا :- ’’ نہیں ! فاؤسٹ ضرور جنت ہی میں جائے گا ۔ ایک لفظ نے اِس معاہدے کو فسق کر دیا ۔ اور اُس لفظ کو تو خوب جانتا ہے ۔ اے ابلیس ، تو نے فاؤسٹ کی اُس چنگاری کو کتنی دفعہ بجھانے کی کوشش کی ؟‘‘
تب ابلیس نے وہ لفظ پوچھا ، گو جواب سننے سے وہ بے حد خائف تھا ۔ اور فرشتہِ نُور نے بانسریوں کی آواز میں اُس کو جواب دیا اور جواب صرف ایک لفظ تھا :- ’’محبت‘‘ ۔
پھر فرشتہِ نُور رخصت ہوا اور درِ نُور بند ہو گیا اور اُس کے بند ہونے میں موسیقی کی سی آوازیں تھیں ۔ اور ابلیس کے پاس سے روشنی ہٹا لی گئی اور تاریکی کے ویران خلا میں ایک بھیانک چیخ گونج گئی ۔