یوم قائد پر مادر ِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا قوم سے خطاب (ترجمہ: عاصم رضا)
نوٹ: مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی یہ تقریر 25 دسمبر 1957ء کو یوم قائد کے موقع پر ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئی ۔ اسے ڈاکٹر خورشید عبداللہ صاحب نے لطف اللہ خان صاحب کے آواز خرانہ سے کھوج کر یوٹیوب کے ذریعے عوام الناس تک پہنچایا ۔ مترجم نے ہی اس تاریخی تقریر کے انگریزی متن کو قلمبند کرنے کے بعد اردو زبان میں ڈھالا ۔ ہماری معلومات کے مطابق ، پہلی دفعہ اس تاریخی تقریر کا انگریزی اور اردو متن دونوں ایک ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ ہم ڈاکٹر خورشید عبداللہ صاحب کے نہایت ممنون ہیں کہ انہوں نے نہ صرف اس تاریخی خزانے سے ازسرنو متعارف کروایا بلکہ اس کو قلمبند اور ترجمہ کرنے کی اجازت بھی عطا کی ۔
ویب لنک: https://www.youtube.com/watch?v=0FJ7JNehl7M&t=2s
قائد اعظم کے جنم دن کے اس مبارک موقع پر مجھے آپ کے دلی جذبات میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ آپ سے چند باتیں کرنے کا موقع ملا ہے ۔ یہ موقع ملنے پر مجھے خوشی ہے کہ شاید اس کی بدولت میں ہمارے محبوب ملک کی سالمیت، استحکام اور فلاح سے متعلق اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کر پاؤں ۔
آج کےدن ہمارے خیالات کا رخ بابائے قوم کی جانب مڑ جانا ایک ناگزیر امر ہے جنہوں نےا پنی زندگی بھر کی طویل جدوجہد کے ذریعے ہمارے لیے ایک آزاد اور خودمختار قوم کا مرتبہ حاصل کیا۔ زندگی میں اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ۔ اسّی برس قبل ان کی پیدائش کراچی میں ہوئی تو کون جانتا تھا کہ کسی روز وہ ایک عظیم مسلم ریاست کے دارالحکومت بنانے کی خاطر اس شہر میں لوٹ آئیں گے جو لاکھوں پرجوش دلوں کی امنگوں کا مرکز ہے۔
مشیت ِ الہٰی نے قائد اعظم کو اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر وسیلہ بنایا کہ اس برصغیر میں شرر ِ اسلام کو سرد ہونے سے بچاتے ہوئے مسلمانوں کو ایک جنت عطا کی جائے جہاں وہ اپنے عقائد اور خیالات کی روشنی میں اپنی تعمیر ِ حیات کا بندوبست کر سکیں اور اپنے تصورات و اقدار کی معقولیت(soundness) کو دکھلا سکیں ۔ مجھے خدشہ ہے کہ خونریز فسادات کے پھوٹ پڑنے اور گروہ بندیوں کی بدولت ، منزل مقصود کی حامل ایک بامقصد ریاست کی حیثیت سے قیام ِ پاکستان کی اصل اہمیت نگاہوں سے اوجھل ہوتی جا رہی ہے ۔
اس برصغیر کے سماجی ، ثقافتی ، معاشی اور سیاسی عناصر اور قوتوں کے عمر بھر کے مطالعے اور مشاہدے کی بدولت قائد اعظم اس نتیجے پر پہنچے کہ متحدہ قومیت (single nationhood)کی بنیا د پر آزادی کے کسی منصوبے میں مسلمانوں کے لیے کوئی امید نہیں ہو سکتی ۔ نیز وہ اس بات کے پوری طرح سے قائل تھے کہ متحدہ قومیت کا تصور ایک سراب اور دھوکہ تھا۔ مسلم قومیت کے تصور کو جرات سے بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے دراصل ان مخلصانہ احساسات کو محض واضح طور پر بیان کرکے انہیں ایک سمت دی تھی جو مسلمانوں کے دلوں میں مچلنے کے باوجود اب تک بیان نہ ہوپائے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے، انہوں نے بہت ہی بڑی ذمہ داری کا بیڑا اٹھا لیا جس میں دو طاقت ور قوتوں کی شدید مخالفت بھی شامل تھی جو اس بات پر ڈٹی ہوئی تھیں کہ مسلمان ایک لاچار اقلیت کے طور پر سیاسی اور معاشی غلامی کی زندگی بسر کریں ۔
چنانچہ قائد اعظم کی رہنمائی میں اٹھنے والی تحریک پاکستان اپنی اصل میں اخلاقی اور اپنے مشمولات میں نظریاتی تھی ۔ اس تحریک کی داستان جور و استبداد ، عدم برداشت ، استحصال اور آمریت کی قوتوں کے خلاف مساوات ، اخوت ، سماجی اور معاشی انصاف کی جدوجہد کی داستان ہے ۔ ایسی صورت ِ حال اور اہداف کے تحت قائم ہونے والی ریاست صرف اسی صورت مضبوط رہ سکتی اور آگے بڑھ سکتی ہے جب اسے انہی اصول و اقدار پر لگاتار چلایا جائے جن کی بدولت اس کا قیام وجود میں آیا تھا ۔
قائد اعظم نے جب اکتوبر 1947ء میں فرمایا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی سے ہم جس پاکستان کو بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے ، خدا کی مہربانی سے اب وہ مسلمہ حقیقت ہے تو ان کی مراد یہی تھی۔
تاہم اپنی ریاست کا قیام تو فقط نشان منزل تھا ۔ تصور یہ تھا کہ ہماری ایک ریاست ہونی چاہیے جہاں ہم آزاد افراد کی حیثیت سے زندگی گزار نے کے ساتھ ساتھ اپنی بصیرت اور ثقافت کے مطابق آگے بڑھیں، نیزجہاں اسلام کے بتائے ہوئے سماجی انصاف کے اصولوں کو آزادانہ نافذ کیا جا ئے ۔ مبادا کہ بطور ریاست پاکستان کی بنیادی ماہیت ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے، مجھے قائداعظم کی تقاریر میں سے ایک کے نہایت اہم اقتباس کو دہرانے دیں جو انہوں نے مارچ 1948ء میں مشرقی پاکستان کے اپنے تاریخی دورے پر ارشاد فرمائی تھی کہ پاکستان مسلمان قوم کے اتحاد کی تجسیم ہے اور اس کے لیے یونہی رہنا لازم ہے ۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ سچے مسلمانوں کی حیثیت سے اس اتحاد کی سلامتی اور بقا کی نہایت سرگرمی سے حفاظت کریں ۔
بطور ریاست، پاکستان کی بقا کو آئے دن درپیش خطرات کے پیش نظر میں نے ان نکات کی ذرا تفصیل سے یاد دہانی کروائی ہے۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ تاریخ کی سخت ترین مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے ایسے عظیم مقاصد کے ساتھ ایک ریاست کو حاصل کرنے والی قوم آج کیوں ناگفتہ بہ حالت میں ہے ؟ کیونکر امید کی بجائے مایوسی کا دور دورہ ہے ؟ بے حسی اور ضعف کو عزم و جوش کی جگہ کیوں ملی ؟ تعمیری جذبہ اور صحت مندانہ سیاسی سرگرمی کی جگہ محرومی اور سیاسی تلون مزاجی کو کیسے حاصل ہوئی ؟ جب آپ لوگ اپنی سیاسی مغلوبیت کے دنوں میں پہاڑ وں کواُن کی جگہ سے ہٹا سکتے تھے تو لامحدود وسائل کی موجودگی میں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے آپ بے بسی کیونکر محسوس کریں ؟
آپ لوگوں کو ان سوالات پر سوچ بچار کرنی چاہیے ۔ یقیناً آپ پہلے جیسی صلاحیتیوں اور امکانات کے حامل ہیں ۔ آپ کسی اندرونی کایا پلٹ سے دوچار نہیں ہوئے ہیں ۔ آپ کے مسائل کسی حد تک تحریک پاکستان کے اصول و تصورات سے رہنماؤں اور (سیاسی و ملی ) جماعتوں کے انحراف کی وجہ سے ہیں اور کسی حد تک ذاتی بے توجہی اور تغافل کے سبب ۔
یاد رکھئے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا اور اسی صورت میں ہی باقی رہ سکتا ہے ۔ پاکستان جن ارادوں کی تکمیل کے عزم کا اظہار تھا ، وہ اس کے بنیادی نظریے سے ثابت قدمی کے ساتھ وابستگی اور ان نظریات سے موافقت رکھنے والے سیاسی و معاشی اداروں کو تعمیر کرنے کی خاطر ان تھک محنت کا متقاضی تھا ۔ یہ قسمت کی حزنیہ ستم ظریفی تھی کہ اس کی سالمیت کو مضبوط اور نظریاتی بنیادوں کو پختہ کیے جانے سے پہلے ہی اس ملک کی تقدیر ان عناصر کے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی جو قیام پاکستان کے لیے ہونے والی جدوجہد میں شریک تھے نہ ہی اس پر یقین رکھتے تھے۔
بلاشبہ یہ ایک افسوسناک امر ہے تاہم (پاکستان کے ) عوام اپنے حصہ کی ذمہ داری سے پہلوتہی نہیں کر سکتے ۔ اگرآپ آزادی سے حاصل ہونے والے فوائد کی امید کر سکتے ہیں تو آ پ کو اُن ذمہ داریوں اور فرائض کا بوجھ اٹھانے کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا جو آزادی اپنے ساتھ لاتی ہے ۔ بلاشبہ ، آزادی کا مطلب ہوتا ہے اپنے خوابوں کے معاشرے کی بتدریج تعمیر کے لامحدود امکانات تک کسی روک ٹوک کے بغیر رسائی ۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد اور ابدی سرگرمی ہے۔
ایک آزاد جمہوری معاشرے میں عوام کو نہایت اہم اور مثبت کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔ آج مجلس ِ قانون ساز (پارلیمان) میں اسّی لاکھ افراد کی نمائندگی کرنے والے اٹھہتر اراکین اپنی من مانی کر رہے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے ۔ ہر شے ان کے گرد گھومتی ہے ۔ یہ صورتحال اس لیےپیدا ہوئی کہ وہ جس طریقے سے منتخب ہوئے ہیں اس میں ان کے افعال کی بازپرس کا کوئی نظام موجود نہیں۔
عوام الناس اپنے نام پر ہونے والے ریاستی معاملات میں محض خاموش تماشائی نہیں بن سکتے اور نہ ہی ان کو بننا چاہیے کیونکہ عوام الناس ہی اقتدار کے اصل مالک ہیں ۔ ان کو نگاہ رکھنی چاہیے کہ حکومتی ادارے عوام کے ارادوں اور خواہشات کے ساتھ مطابقت میں کام کر رہے ہیں کہ نہیں ۔ آپ کے پاس لاتعلقی کے رویے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ جب آپ اپنے عزیز تصورات اور اقدار سے انحراف کے مظاہر دیکھتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہی نہیں بلکہ آپ کی ذمہ داری بھی ہے کہ خو د کو دستیاب تمام تر جائز ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے رائے عامہ کی ایسی فضا پیدا کریں جس میں عوام کی خواہشات اور تمناؤں کے احترام پر مجبور کیا جائے اورخرابیوں کی اصلاح ہو پائے ۔
آپ کو ایک مربوط ، منظم اور حساس عوامی رائے میں پوشیدہ بے پایاں قوت سے واقفیت کے ساتھ ساتھ اس کی قدروقیمت کو جاننا ہے ۔ اپنے آپ میں جھانکیں ، اپنے قلوب کو کھنگالیں اور اپنی مخفی اہلیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی طاقت کو بیدار کریں ۔ اگر آپ اپنی روح کو ازسرنو دریافت کرلیتے ہیں نیز اپنے ملک ا ور نظریے پر یقین رکھتے ہوئے اپنی توانائیوں کو بحال کر لیتے ہیں تو آپ ایسے خیالات و افعال کو جنم دیں گے جو اس ملک کا حلیہ بدل کر رکھ سکتے ہیں اور اسے ترقی اور فلاح کے راستے پر لگا سکتے ہیں ۔
یہاں ، مجھے ایک لمحے کو ان لوگوں کی جانب توجہ کرنے دیجئے جو عوامی زندگی کے رہنما بننے کے مدعی ہیں ۔ فی الوقت میں ان کی بے شمار خامیوں اور ناکامیوں کا ذکر نہیں کروں گی تاہم ان کی توجہ ایک بنیادی نکتے کی جانب مرکوز کروانا ضروری ہے۔یہ لوگ اب تک وہ تمام طریقے اور تدبیریں بروئے کار لا چکے ہیں جنھوں نے انہیں فائدہ پہنچایا اور نہ ہی ملک کو۔ اس ناکامی کی بنیادی اور اصل وجہ کیا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حقیقی جمہوریت کو پنپنے کا کبھی موقع ہی نہیں دیا ہے۔ کیونکہ ان کی سوچ بظاہر یہ ہے کہ عوام جاہل ہیں ، کچھ نہیں جانتے ہیں اور عوام کے ہاتھوں میں اقتدار کی منتقلی سے انتشار پھیلے گا ۔ تاہم میں ان سے پوچھتی ہوں کہ ملک میں پائے جانے والے حالیہ بحران سے زیادہ بڑا انتشار اور تذبذب کیا ہو گا ۔ میں انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ اس گہری سچائی سے نظر چرائی ہے کہ اصل قوت اور اقتدار عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور عوام ہی کے ذریعے قائم ہوتا ہے ۔
خفیہ دروازوں کے پیچھے معاملات طے کرنے کے طریقوں سے ہوسکتا ہے کہ کوئی عارضی کامیابی مل جائے تاہم ان سے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ توازن اور استحکام کی اس کم از کم مقدار کو حاصل کرنے میں کوئی مدد کرتے ہیں جو ملک کی مربوط ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے بلکہ اس کی بقا ء کے لیے نہایت ہی ضروری ہوتی ہے ۔
ایک جمہوری معاشرے میں افراد کی بجائے اجتماعی زندگی اور اصولوں پراصرار کرنا ہوتا ہے ۔ تصورات اور آدرشوں کے تحت چلنے والا معاشرہ زندہ تو رہتا ہے اور فروغ پاتا ہے تاہم اگر معاشرہ خود کو افراد کی خواہشات اور امنگوں کی پیروی میں لگ جانے کی اجازت دیدے تو یہ کملا جاتا ہے اور اس پر مردنی چھا جاتی ہے ۔ آپ کو صرف قائد اعظم کی مثال دیکھنی چاہیے۔ انہوں نے کبھی افراد پر توجہ نہیں دی ۔ انہوں نے عوام سے تقویت پائی اور ان کی حمایت و اعتماد پر بھروسہ کیا ۔ اسی میں ان کی اور ان کی رہنمائی میں چلنے والی تحریک کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے جیسا کہ انہوں نے ایک موقع پر فرمایا ، “اب آپ کو ملت کے اختیار کے سامنے جھکنا ہے خواہ آپ سب سے زیادہ قدکاٹھ رکھنے والے ہوں “۔
یہی وہ سبق ہے جو ان سب کو لینا ہے جو مقبول رہنما بننے کے خواہاں ہیں ۔ آپ کی تمنائیں ، لائحہ عمل اور حکمت عملی جو بھی ہو ، اس کا بہترین حصول اور نفاذ تبھی ہوسکے گا جب آپ عوام کے پاس جائیں اور ان کا بھروسہ، منظوری اور اعتماد جیت لیں۔ کوئی ایسا مسئلہ اور پریشانی نہیں ہے جس کو حل نہیں کیا جا سکتا اگر آپ اس کا سامنا یوں کر سکتے ہیں کہ مربوط اور روشن خیال عوامی رائےکی حمایت آپ کی پشت پناہ ہو ۔ وقت آ گیا ہے کہ عوامی رائے اور تقاضوں کے تاروپود بکھیرنے کے تمام طریقوں کو ترک کر دیا جائے ۔ اپنے مقاصد کی خاطر ترغیب و تحریص کو اختیار کرنے والے افراد صرف ایک تباہی برپا کر دینے والی بلا (Frankenstein)کو کھڑا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو آخر میں انہی کو ہڑپ کرنے کے درپے ہوجاتی ہے ۔ ہر ایک کی بھلائی اسی راستے پر لوٹ جانے میں ہے جہاں تمام مسائل کو عوامی رائے کے سامنے پیش کرنے کے بعد بحث و تمحیص کے ساتھ حل کیا جائے ۔
(اپنی تقریر کا )اختتام کرنے سے پہلے ، میں آپ کو یہ بتانا لازمی سمجھتی ہوں کہ ہم نازک دور سے گزر رہے ہیں ۔ بہترین ملکی مفاد اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر ایک کو ذاتی تمناؤں کو قابو میں رکھنا چاہیے اور خود کو ملکی سالمیت اور استحکام کے لیے وقف کر دینا چاہیے ۔ ہمیں ایک ہی منزل کے لیے بروئے کار آنا چاہیے کہ ایسے ماحول کو وجود میں لایا جائے جہاں لوگ اپنے اختیار کو کام میں لانے کے قابل ہو ں کیونکہ یہی ان تمام پریشانیوں کا واحد حل ہے جس میں ملک طویل عرصے سے گرفتار ہے ۔
قائد اعظم کے الفاظ میں ، آپ سے کہتی ہوں ، “اسّی لاکھ مسلمانوں کو گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ ان کی قسمت ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے اور وہ ایک مربوط ، منظم اور ٹھوس قوت کی ماننداپنے متحدہ محاذ اور خواہشات کے مقابلے میں رکاوٹ کھڑی کرنے والی کسی بھی مخالفت کو سامنا کر سکتے ہیں ۔ ۔۔ آپ کے ہاتھوں میں جادوئی قوت ہے ۔ صادق اور امین بنئے اور میں پر اعتماد ہوں کہ کامیابی آپ کے ساتھ ہے” (صدارتی خطبہ ، مسلم لیگ لکھنو ، اکتوبر1937ء )
قائد اعظم زندہ باد!
25 دسمبر 1957ء