ڈاکٹر باسط بلال کوشل سے ایک گفتگو (مترجم: عاصم رضا)
تعارف ۔ ڈاکٹر باسط بلال کوشل نے 1989ء میں رٹگرز یونیورسٹی (Rutgers – University) امریکہ سے علم ِ سیاسیات میں گریجویشن کو مکمل کیا ۔ 1994ء میں ولیم پیٹرسن کالج سے سماجیات کے مضمون میں ماسٹرز ڈگری کو حاصل کیا جب کہ 1999ء میں ہارٹ فورڈ کی درس گاہ (Hartford – Seminary ) سے اسلامیات اور مسلم عیسائی تعلقات کے مضمون میں بھی ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے مذہبی سماجیات (Sociology – of – Religion) میں تخصیص کے ساتھ مذہب و معاشرہ کے ذیلی شعبہ میں ڈریو (Drew) یونیورسٹی، امریکہ سے 2003ء میں ڈاکٹریٹ مکمل کیا نیز 2011ء میں الہٰیات، اخلاق اور معاشرہ میں تخصص کے ساتھ مذہبی علوم کے تحت ورجینیا یونیورسٹی، امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ چار سال تک کن کورڈیا کالج مینیسوٹا (Concordia – College – Minnesota) میں تدریس کے بعد 2006ء میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز، لاہور (LUMS) سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہوئے۔ آج کل اسی ادارے میں وہ بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
سوال نمبر 1: گریجویشن مکمل کرنے کے بعد علمی اداروں سے منسلک افراد عام طور پر اپنی پیشہ وارانہ زندگی کی ابتداء یوں کرتے ہیں کہ وہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں مستقل ملازمت (Tenure – Track – Position) کو حاصل کر لیں۔ آپ کی علمی اسناد احساس ذمہ داری اور مستقل مزاجی کی عکاسی کرتی ہیں۔ آپ کو کس شے نے اس احساس ذمہ داری پہ اُبھارا کہ اول تو آپ نے ان اہلیتوں کے لیے جدوجہد کی ا ور بالاآخر کامیابی کے ساتھ انھیں حاصل کر لیا؟
جواب: جب میں پہلی پی ایچ ڈی مکمل کر رہا تھا، مجھے دو مختلف اور باہم متصادم احساسات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک جانب، اپنی پڑھائی کے دوران سیکھی ہوئی تجزیاتی مہارتوں اور ذرائع کو استعمال کرنے کے سبب پیدا ہونے والا احساس تحیر تھا۔ ان ذرائع اور مہارتوں نے مجھے تجربی حقیقت (Empirical – Reality) کے ان خاص منطقوں کو دیکھنے کی اجازت دی جن کی بابت میں اس سے پہلے ناواقف تھا یا ان کو طے شدہ امور جانتا تھا ۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے عطا کردہ فہم کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا بھی گہرا اور پریشان کن احساس تھا کہ یونیورسٹی کی اسی تعلیم نے تجربی حقیقت کے بعض دیگر پہلوؤں سے متعلق میری بینائی چھین لی تھی۔ اور یہ اندھا پن کامل طور پر نادانستہ نہیں تھا۔ میری گریجویشن کے دنوں سے ہر مضمون میں دبے لفظوں اور کئی مضامین میں تو صریحاً یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ ہم اپنے سامنے پیش ہونے والے نفس ِ مضمون کا ایک “معروضی”، “غیر جانب دار” اور “لاتعلق” زاویہ نگاہ سے مطالعہ کر رہے تھے۔ اپنی پہلی پی ایچ ڈی کے اختتام کے قریب میرے وجدان کے لیے اس بات کو نظر انداز کرنا نہایت دشوار ہو گیا کہ یہ ایک مقدس جھوٹ ہے۔ مذہب سے سرسری واقفیت رکھنے والا کوئی بھی فرد اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جدید یونیورسٹی میں مذہب کو پڑھنے پڑھانے کے مروجہ طریقہ کار کے تحت کوئی شے “غیر جانب دار”، “معروضی” یا “لاتعلق” نہیں ہے خواہ مذہب کا مطالعہ عمرانیات، نفسیات، بشریات یا فلسفہ کے پس منظر میں کیا جائے (ٹھیٹھ “قطعی” علوم کا تو ذکر ہی نہ کریں)۔ نتیجتاً، میں نے دوسری پی ایچ ڈی میں تجربی حقیقت کے اس منطقہ کو کھنگالنے کا ارادہ کیا جو ایک استاد یا محقق کی حیثیت سے میرے نزدیک اہم ترین بن کر سامنے آیا یعنی چھپے ہوئے اولین قیاسات (presuppositions)، مفروضے اور قدری تصورات جو یونیورسٹی کی تعلیم و تدریس کے “بنیادی ستون” ہیں۔ اس سے قبل میں نے جو دو ماسٹرز اور ایک ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی تھی اس دوران میں یہ “بنیادی ستون” جستجو کا موضوع نہ بن سکے تھے تاہم اپنی دوسری ڈاکٹریٹ کے دوران میں نے اس کمی کو پورا کرنے کی ٹھانی ۔
سوال نمبر 2: آپ کے علمی سفر کا ایک قابل ذکر حصہ علم عمرانیات کی تحصیل میں گزرا۔ آپ نے عمرانیات کا انتخاب ہی کیوں کیا جب کہ اسے سماجی علوم میں سب سے کم وقعت دی جاتی ہے ؟
جواب: عمرانیات کے متعلق یہ رائے کسی حد تک درست ہے ۔ تاہم میرے شعبہ عمرانیات کو اختیار کرنے کی وجہ کسی حد تک تعلیمی نوعیت کی تھی۔ میں نے سیاسیات کو پڑھ رکھا تھا۔ عمرانیات کا مضمون سیاسیاست اور سماجی علوم کے کافی قریب تھا۔ ان مضامین کے دائرے میں آنے والے بعض منہاجی (methodological) سوالات کو عمرانیات نے نسبتاً زیادہ گہرائی سے کھنگالا تھا۔ خوب تر “معاشرتی تخیل ” کے میرے شوق نے مجھے اس بات پر اکسایا کہ میں اپنے مطالعہ میں آنے والے مختلف علوم کے چنداہم معارف (insights) کو باہم جوڑ پاؤں۔ اگرچہ یہ ایک طویل اور دراز عمل تھا، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس عمل نے بطور استاد مجھے قابل ذکر فائدہ بخشا ہے۔ پڑھائے جانے والے کم و بیش میرے تمام مضامین بین الکلیاتی ہیں۔ لمز میں پڑھائے جانے والے میرے تمام مضامین کا اندراج فلسفہ، عمرانیات، قانون اور مذہب کے شعبوں میں بیک وقت کیا گیا ہے۔ میں رواں سمسٹر میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے ساتھ مل کر عمرانیات و قانون کا ایک مضمون پڑھا رہا ہوں اور ڈاکٹر احمد بلال اعوان کے ساتھ شعبہ سماجی علوم کے تحت ایک مضمون پڑھا رہا ہوں۔ بعد ازاں مستقبل میں اس مضمون کا اندراج بطور مذہب اور SALT کے مضمون کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ فی الوقت عمرانیات، فلسفہ اور الہیٰات میں مقالات شائع کرنے کے علاوہ، میں لمز کے بزنس سکول اورسکول برائے سائنس و انجئینرنگ کے ساتھیوں کے ساتھ مینجمنٹ سائنسز، مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹر سائنس کے (peer – reviewed) مجلوں کے لئے لکھے جانے والے مقالات کا شریک مصنف (co-author) ہوں ۔
سوال نمبر 3: سائنس یا بزنس کے طالب علم کے تناظر سے بات کی جائے تو کسی طالب علم کو فلسفہ، عمرانیات جیسے مضامین کیونکر پڑھنے چاہییں؟ بزنس سکول یا سکول آف سائنس و انجئینرنگ کا کوئی طالب علم ایسے مضامین سے گریز کرتے ہوئے بھی کاروباری دنیا (job – market) میں بخوبی داخل ہو سکتا ہے ۔
جواب: آسان ترین الفاظ میں کہوں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس سب کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کوئی شخص کالج کی تعلیم کی کیا تعریف کرتا ہے۔ اگر کسی شخص کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم کا مقصد نوکری اور سماجی رتبے کا حصول ہے تو بلاشک و شبہ اس شخص کو اپنے متعلقہ مضمون سے باہر جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس صورت میں عمرانیات اور فلسفہ یقینا ً وقت کا ضیاع ثابت ہوں گے۔ تاہم اگر کسی کے نزدیک یونیورسٹی کی تعلیم سے مراد “سیکھنا” ہے تو اس شخص کو اپنے دائرے سے باہر نکلنا چاہیے تاکہ وہ چند دوسرے علوم سے کم از کم واقفیت حاصل کر پائے۔ بالخصوص فلسفہ اور عمرانیات ایسے مخصوص سوالات اٹھاتے ہیں جن سے دوسرے مضامین کو سروکار نہیں ہوتا ہے۔ یہ سوالات تجربی حقیقت کے ان منطقوں کی پردہ دری اور کھوج کرتے ہیں جو ایک جانب طبیعیات، حیاتیات اور کیمیا سے مخفی ہیں نیز دوسری جانب فن کھاتہ داری (Accounting)، مالیات (Finance)، اور مارکیٹنگ ان کو کبھی نہیں جان سکتے۔ اگر کوئی طالب علم حقیقت کے اس رخ کی بابت تربیت حاصل کرنا چاہے تو اس کو فلسفہ، عمرانیات، تاریخ، ادب، نفسیات و دیگر مضامین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ نکتہ اس کے برعکس بھی کارگر ہوتا ہے۔ میں بشریات و سماجی علوم کا اختصاصی مطالعہ ( as – major – subject) کرنے والے طلباء کی بڑھ چڑھ کر حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ سائنس اور بزنس کے مضامین پڑھیں۔ میں ایک مثالی دنیا کے تحت اس شے کو دیکھنا پسند کرتا ہوں کہ بشریات و سماجی علوم میں تخصص کرنے والا ہر طالب علم بطور اختیاری مضامین (as – minor – subjects) دوسرے دائروں کے تحت آنے والے مضامین بھی پڑھے ۔
سوال نمبر 4: جدید یونیورسٹی کے کسی طالب علم کو آپ کون سی دو یا تین نصیحتیں کرنا پسند فرمائیں گے؟
جواب: میں طلباء کے تعلیمی معاملات کے سلسلے میں اُن کے ساتھ تبادلہ خیال کو ترجیح دیتا ہوں۔ کمرہ جماعت میں ایک معلم کی حیثیت سے، میرے لیے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اپنے تدریسی منصب کو واعظ کے ساتھ خلط ملط نہ کروں۔ ایک استاد کے مبلغ بننے میں فقظ ایک باریک حد ِ فاصل اور ایک نہایت گہری کھائی حائل ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی شے ہے جس کے متعلق ایک یونیورسٹی پروفیسر کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ اس حد ِ فاصل کو عبور نہ کرے اور گہری کھائی میں نہ جا گرے۔ یہ بات ان اہم نکات میں سے ایک ہے جن کو میکس ویبر اپنے مشہور مضمون “سائنس بطور طرز زندگی” (Science – as – a – Vocation) میں اجاگر کرتا ہے اور میں اس نکتے کو دل و جان سے قبول کرتا ہوں۔ لمز کے اساتذہ میں شامل ہونے کے کارن میں ایک معلم ہوں اور ہمیشہ رہنا چاہوں گا۔ میں ہر ایک طالب علم کو ایک عاقل بالغ انسان کی حیثیت میں دیکھتا ہوں۔ مجھے شدید نفرت ہوتی ہے جب میرے ساتھی اور شاگرد طالب علموں کو “بچے” کہتے ہیں۔ یہ ایک واضح جھوٹا لیبل ہے خواہ ہم اس پر حیاتیات، سِول لاء یا مذہبی قانون کی رو سے نظر دوڑائیں۔ یہ تمام باتیں کر چکنے کے بعد، ایک معلم انسان بھی ہوتا ہے اور اگر کوئی دوسرا انسان مدد کا طلب گار ہو اور اگر میں مدد فراہم کرنے کا اہل ہوں تو اپنے ساتھی انسانوں کی مدد کرنا مجھ پر فرض ہے ۔
سوال نمبر 5: آپ لمز کے شعبہ بشریات و سماجی علوم کا امریکی یونیورسٹیوں کے متعلقہ شعبوں کے ساتھ تقابل کس طرح کریں گے؟
جواب: لمز ایک نوزائیدہ یونیورسٹی ہے جس کی تاریخ صرف 40 برسوں پر محیط ہے۔ اگر ہم لمز کا موازنہ اس کی ہم عمر امریکی یونیورسٹیوں سے کریں تو ہم اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ لمز کو کسی سے پیچھے کھڑا ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، بلاشبہ اپنی ابتدائی عرصے میں لمز نے ایک ایسا ماحول فراہم نہیں کیا جہاں بشریات و سماجی علوم کو کوئی خاص جگہ حاصل ہو۔ تاہم بطور ادارہ لمز میں وسعت پذیری کی گواہی اس حقیقت سے ملتی ہے کہ بالآخر بشریات و سماجی علوم کا شعبہ وجود میں آیا اور ترقی کر کے یونیورسٹی کے بڑے شعبوں میں سے ایک شعبہ بن چکا ہے۔ یہ مبالغہ نہیں ہے کہ شعبہ بشریات و سماجی علوم کے اعتبار سے لمز قومی سطح پر ایک رجحان ساز ادارہ بن چکا ہے۔ اساتذہ کی مہارت و لگن اور طلباء کی دلچسپی کے سبب مذکورہ شعبہ ترقی کر چکا ہے۔ جب میں 2006ء میں یہاں پہلی دفعہ آیا تو یہاں بشریات و سماجی علوم میں تخصص کے لیے صرف ایک عمومی شعبہ ہوتا تھا۔ لیکن جیسا کہ ہم نے مختلف مضامین میں زیادہ سے زیادہ اساتذہ کو اپنی طرف متوجہ کیا، ہم مخصوص میدانوں میں تخصص کروانے کی اہل ہوتے رہے۔ تجربہ سے ثابت ہے کہ جتنی جلدی کسی مخصوص میدان کے تحت اساتذہ کی خاصی تعداد اکٹھی ہو جاتی ہے تو اس میدان میں طلباء کی دلچسپی میں کمی نہیں رہتی۔ بشریات و عمرانیات وہ واحد میدان تھا جہاں سب سے پہلے اساتذہ ایک خاص تعداد کو پہنچے اور اب غالباً شعبہ بشریات و سماجی علوم کے تحت یہ سب سے بڑا مضمون برائے تخصص ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین مثال مطالعہ مذہب کا مضمون ہے جس کو مضمون برائے غیر تخصص (minor)کی حیثیت سے رواں تعلیمی برس میں متعارف کروایا گیا کیونکہ ہمارے پاس مطلوبہ مضامین کو پڑھانے کے لیے وافر تعداد میں اساتذہ موجود ہیں۔ مختصراً، شعبہ برائے بشریات و سماجی علوم تھوڑے عرصے میں ہی ایک مقام تک پہنچ چکا ہے۔ جنوبی ایشیا / گلوبل جنوبی (Global – South) صورت حال کے تحت بشریات و سماجی علوم کے مضامین سے متعلق بے پروائی کی موجودگی میں لمز میں شعبہ برائے بشریات و سماجی علوم کا قیام اور بعد ازاں اس شعبہ کی ترقی و نمو ایک چھوٹا قدم نہیں ہے ۔
سوال نمبر 6: آپ لمز کے طلباء کو امریکی طلباء کےساتھ موازنے میں کیسے دیکھیں گے؟
جواب: ہمارے پاس لمز کے طلباء کی ایک طویل اور وسعت پذیر فہرست ہے جنھوں نے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی بہترین یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی پروگرامز میں داخلہ لینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لمز کے قدیم طالب علموں کی ایک پھیلتی ہوئی فہرست دستیاب ہے جنھوں نے بہترین بیرونی یونیورسٹیوں سے اپنی تعلیم کو مکمل کر لیا ہے اور پاکستان میں لمز، آئی بی اے (IBA) اور نسٹ (NUST) جیسے اداروں میں پڑھانے کے لیے پاکستان واپس آ چکے ہیں۔ یہ امر بذات خود طلباء کی قابلیت کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں، بیرونی ممالک سے آ کر لمز میں جز وقتی پڑھانے والے اساتذہ (visiting – faculty) بھی طلباء کے متعلق نہایت عمدہ رائے رکھتے ہیں۔ وہ لمز کے طالب علموں کے اوصاف اور کردار سے سچ مچ بہت متاثر ہوئے ۔
ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جو امریکہ میں پڑھ اور پڑھا چکا ہے، میں ایمان داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لمز کے طلباء امتیازی شان کے مالک ہیں۔ میری شخصی پرکھ کے مطابق، میں اتنا عمدہ استاد نہ بن پاتا جیسا کہ میں فی الوقت ہوں اگر میں نے گزشتہ دس برس امریکہ یا برطانیہ کے کسی کمرہ جماعت میں گزا رے ہوتے۔ بالفاظ دگر، مجھے بہتر استاد بننے میں مدد فراہم کرنے والے اہم ترین عناصر میں سے ایک عنصر لمز کے طلباء ہیں۔ یہ سب کہہ چکنے کے بعد یہ کہنا باقی ہے کہ دنیا کی دوسری بہترین یونیورسٹیوں کے طالب علموں کی مانند لمز کے عام طلباء کو بھی اپنے متعلق اور معاشرے میں اپنے مقام کے متعلق چند کمزور غلط فہمیوں سے زیر بار کر دیا گیا ہے۔ میں اپنے ہر مضمون کے پہلے دو یا تین لیکچرز کو اس نصاب کے نفس مضمون کو نقطہ آغاز بنا کر ان غلط فہمیوں کی جھاڑ پھونک کے لیے مختص کرتا ہوں۔ ابتداء میں طلباء اس مشق کو ہوش اڑا دینے والی محسوس کرتے ہیں اور ان میں سے کئی یا تو اس مشق سے مطابقت پیدا نہیں کر پاتے یا دلائل کے اس طریق کو خطاوار سمجھتے ہیں۔ لیکن بہت سے طلباء جن میں وہ بھی شامل ہیں جو ابتداء میں نہایت درجہ متشکک تھے، ان دلائل کو اگر معقول نہ سہی تو کم از کم قرین ِ قیاس سمجھتے ہیں۔
سوال نمبر 7: عام طور پر فلسفہ کو ایک خطرناک مضمون سمجھا جاتا ہے۔ اس خوف کی بنیادی وجہ حساس موضوعات پر سوال اٹھانے کی روش ہے۔ عملی طور پر بھی یہ منافع بخش مضمون برائے تخصص نہیں ہے۔ آپ کے خیال میں کیا شے اس خوف کو پروان چڑھاتی ہے اور اس سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟
جواب: اس سوال کا دوسرا حصہ ایک قطعی جائز سوال ہے۔ ایک ایسے مضمون کو برائے تخصص اختیار کرنا کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے جو ایک طالب علم کو ایک راست باز اور قابل عزت زندگی کی اجازت دے گا۔ یہ سب کہنے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے: کیا یہ واحد سوال ہے جو ہمیں پوچھنا چاہیے اور تنہا اس سوال کا جواب ہی اس بات کا قطعی تعین کرے گا کہ ہمیں کیا پڑھنا چاہیے یا کیا نہیں پڑھنا چاہیے؟ بظاہر تو لگتا ہے کہ فلسفہ اورعمومی طور پر بشریات و سماجی علوم کے پاس نوکری کے مواقع اور “مشکل” یا “حقیقی” مسائل کے حل، ہر دو کی خاطر پیش کرنے کو کچھ زیادہ نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم اپنی زندگی کے تجربات کی بدولت جانتے ہیں، بعض اوقات ظاہری علامات دھوکہ باز ہو سکتی ہیں۔ میں چارلس پرس کی پیش کردہ فلسفہ کی تعریف کو نہایت سنجیدگی سے بالکل حرف بہ حرف لیتا ہوں۔ چارلس پرس کے نزدیک، فلسفہ ایک قطعی(exact) سائنس ہے جس کا نفس مضمون ان مخفی پیش قیاسات (presuppositions) اور مفروضات پر مبنی ہوتا ہے جنھیں دوسرے علوم (sciences) طے شدہ امر (take – for – granted) گردانتے ہیں مگر (وہ علوم ) ان کی جانچ کرنے اور چھان بین کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ علم فلسفہ کے ذمے ان مخفی مفروضوں کو آشکار کرنا، ان پر روشنی ڈالنا، اور اس بات کا تعین کرنا ہے کہ ہم ان مفروضوں پر کتنا اعتماد کر سکتے ہیں۔ اگر ان پیش قیاسات کو تحقیق و تفتیش کی چھلنی سے نہیں گزارا جاتا ہے تو ایک آزاد اور خود احتسابی پر مبنی تحقیقات ممکن نہیں ہیں۔ ہمارے علمی دعووں کے پس پردہ پیش قیاسات سے واقفیت اور ان کی چھان پھٹک کرنا راسخ الاعتقادی (dogmatism) کا مقابلہ کرنے اور تنقیدی خود شعوی کو حاصل کرنے کے لیے شرط ِ اول ہے۔ چارلس پرس کی تعریف ِ فلسفہ کی روشنی میں، کیا واقعی یہ مضمون مطالعہ کے قابل نہیں ہے؟
اپنی دوسری پی ایچ ڈی کے دوران سماجی علوم کے لیے میکس ویبر کے مجوزہ طریق کار کی چارلس پرس کے نتائجیت پر مبنی فلسفیانہ افکار کی رُو سے چھان پھٹک کرتے ہوئے یہ بالکل واضح ہو گیا کہ جدید یونیورسٹی کے قائم کردہ تحقیق کے “غیر جانب دار”، “معروضی”، اور “لاتعلق” ہونے کے تمام تر دعوے کسی تحقیق کے بغیر، دھونس و تنگ نظری سے بنائے ہوئے اور بنا سوچے سمجھے قبول شدہ پیش قیاسات کی ایک کہکشاں پر مبنی ہیں۔ چارلس پرس کی تعریف کے مطابق دھونس و تنگ نظری، خودفریبی و نرگیسیت اور اپنی ذات پر بے باک اعتبار کا مقابلہ کرنے کی خاطر فلسفہ کا مطالعہ شرط ِ اول ہے۔ اگر کوئی ان سب کو ثقافت کے ایک غالب حصہ کے لیے ایک مسئلہ سمجھتا ہے تو یونیورسٹی کی علمی زندگی میں فلسفہ اہم ترین اور سب سے متعلقہ مضمون بن جاتا ہے۔
سوال نمبر 8: آپ کو لمز نے کیا دیا ہے؟ اگر آپ کو دوبارہ سے امریکہ جانے کا موقع دیا جائے، کیا آپ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے؟
جواب: نقل مکانی کے امکان پر بلا جھجک میرا جواب انکار میں ہے۔ اور ایسا ایک سے زائد وجوہات کی بنا پر ہے۔ اول، لمز کے طلباء ہیں۔ وہ امریکہ کے بہترین طالب علموں کی مانند ذہین اور متجسس ہیں۔ لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے جو کہ سب سے کم اہمیت کا حامل ہے۔ لمز کے طلباء کو امریکی طالب علموں سے ممتاز کرنے والی حقیقت یہ ہےکہ اس بالائے جدید (hypermodern) دور میں لمز کے طلباء اپنی ثقافتی اقدار اور روایات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں خواہ محدود پیمانے پر وابستہ ہوں یا بطور دکھاوا۔ حتی کہ شعوری طور پر اپنے آپ کو روایت سے کاٹ کر الگ کر لینے والےدولت مند ترین شہری (burgher – of – the – burghers) کے ہاں ہنوذ روایت کی یادیں برقرار ہیں۔ یہ ایک ایسی خوبی / حقیقت ہے جو مخصوص سوالات کو اٹھانے اور تحقیق کی مخصوص راہوں پر گامزن ہونے کو ممکن بنا دیتی ہے جب کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے جدید صنعتی معاشروں میں کوئی فرد ایسے سوال نہیں پوچھ سکتا اور ایسی راہوں پر نکل نہیں سکتا ہے ۔
دوم، عمومی معنوں میں لمز اور خاص طور پر شعبہ بشریات و سماجی علوم مجھے اور میرے ساتھی اساتذہ کو نصاب کی تشکیل اور تدریسی مواد کے حوالے سے جو گنجائش فراہم کرتا ہے، امریکہ میں اس کی کوئی عملی مثال سننے میں نہیں آتی ہے۔ میں نے اپنے مضامین کی ترتیب، ازسر نوتشکیل اورمسلسل نظر ثانی کے حوالے سے ایسی آزادی کو بھرپور انداز میں استعمال کیا ہے۔ اس نے مجھے ایک بہتر معلم بننے کے ساتھ ساتھ ایک بہتر محقق (scholar) بننے کی اجازت بھی بخشی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی قسم کی نگرانی نہیں ہے۔ نگرانی ہے لیکن غیر معمولی نوعیت کی نہیں ہے بلکہ ساتھیوں کی جانب سے اس بات کو یقینی بنانے کی خاطر ہے کہ ادارے اور شعبے کے معیارات کو برقرار رکھا جائے۔ نتیجتاً، غیر مغربی ماخذات اور مفکرین کے امتزاج کو نصاب میں شامل کرنے کی بدولت میں تجربات کرنے کے قابل رہا ہوں۔ مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ میں مغربی معاشرے میں “فنون لطیفہ کی بنیادوں” (Foundations – of – Liberal – Arts) اور “قرآن پر مبنی منطق و بلاغت” (Logic – and – Rhetoric – in – the – Quran) جیسے مضامین کے نصاب کی ترتیب و تشکیل کے قابل ہو پاتا۔ یقیناً، میں طالب علموں سے اس نوعیت کا جوابی ردعمل حاصل نہ کر پاتا جیسا مجھے لمز کے طلباء سے ملا ہے۔ بعینہ، مجھے “محمد اقبال اور چارلس پرس” کے نصاب کو حتمی صورت دینے کے لئے تکرار سے گزارنا پڑا تھا۔ جس طور پر امریکہ میں اس شعبہ کے نظم و نسق کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اور جیسے اساتذہ کو تدریسی بوجھ تفویض کیا جاتا ہے، تجربی مشق اور اصلاح و ترامیم کا ایسا ہی فعل میرے لیے عملی اعتبار سے ناممکن بن جاتا۔ اگر عالمی جنوب (Global – South) سے وابستہ یونیورسٹی پروفیسرز اور پرجوش دانش ور “سفید فام آدمی کا بوجھ” لاد کر چلنے والے کاروان کے قلی کے مرتبے سے اوپر اٹھنا چاہتے ہیں تو انھیں ایسے سوالات اٹھانے کا آغاز کرنا پڑے گا اور تحقیق کی ان شاہ راہوں پر چلنا ہو گا جنھیں عالمی مغرب (Global – West) میں چھیڑا نہیں جاتا ہے یا جن پر سفر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اپنے نصاب میں علم کے ماقبل جدید اور غیر مغربی ماخذات کے لیے گنجائش پیدا کرنا نیز ان ماخذات کے مطالعہ کی غرض سے پروان چڑھائے گئے قدیم اور غیر مغربی طریقوں اور عقلی ہتھیاروں کو استعمال کرنا اس سفر کےلیے نقطہ آغاز ہے۔ اس سفر کے لیے شرطِ اولین یونیورسٹی اور شعبہ کی جانب سے دی جانے والی گنجائش کے ساتھ ساتھ ایسے طلباء کی فراہمی ہے جو تحقیق و تفتیش کی چھلنی سے نہ گزارے جانے والے سوالات کو اٹھانے اور ان کی چھان پھٹک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ لمز میں ایسی آمیزش دستیاب ہے۔ میری بہترین معلومات کے مطابق وسعت قلبی، آزادی اور صلاحیت کا ایسا آمیزہ مغربی یونیورسٹیوں میں تلاش کر پانا دشوار ہے۔ اب اگر اس جگہ پر مجھے درکار تمام عناصر دستیاب ہیں تو میں کیونکر اس کو چھوڑ کر ایسی جگہ بسیرا کروں جہاں یہ سب نہیں ملتا ۔
سوال نمبر 9: اگر کوئی فلسفہ میں بطور مضمون دلچسپی رکھتا ہے لیکن پہلے سے کچھ علم نہیں رکھتا، آپ کون سی ایک کتاب تجویز کریں گے؟
جواب: جوسٹین گارڈنر کی “سوفی کی دنیا” تمام زمانوں کے بہترین فلسفیوں کو آسان ترین الفاظ میں سمجھانے والی ایک بہترین تعارفی کتاب ہے۔ اس کے بعد طالب علم کو سید حسین نصر کی کتاب “جدید دنیا کی بابت ایک مسلمان نوجوان کی رہنما” (A – Young – Muslim’s – Guide – to – the – Modern – World) کو پڑھنا چاہیے۔ جوسٹین گارڈنر کی کتاب اس جدید دنیا سے متعلق ہے جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سید حسین نصر کی کتاب اسی تجربی حقیقت کو ایک دوسرے تناظر میں دیکھتی ہے۔ جب یہ دونوں تناظر ایک دوسرے سے جڑتے ہیں تو ہم ایک آزاد تحقیق کا آغاز کرتے ہیں۔
پروفیسر! آپ کے قیمتی وقت کا بہت بہت شکریہ۔
ماخذ: اویس یسین، لمز ڈیلی، 2 میٔی 2018
عاصم رضا صاحب نے ایک نادر ذہن کے سفر اور نتائجِ فکر کا خاصہ عمدہ طریق پر ترجمہ کر دیا ہے۔ باسط کوشل صاحب کو سمجھنے میں آسانی محسوس ہوئی۔ جائزہ کے منتظم جناب حسن رحمٰن ایسی ویب سائٹ کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں جو سنجیدہ علمی اور اعلیٰ ادبی نگارشات سامنے لاتی ہے۔