آزادیٔ اظہار مگر کس قدر؟ ڈیبرہ آئزنبرگ (ترجمہ: اسد فاطمی)

 In ترجمہ
(سن 2015میں پین (PEN) امریکہ نے فرانسیسی جریدے شارلی ایبدو، جس نے متنازعہ خاکے چھاپے تھے، کو پین/ٹونی و جیمز سی گوڈال انعام برائے جرأت آزادئ اظہار سے نوازنے کا اعلان کیا۔ امریکی افسانہ نگار ڈیبرہ آئزنبرگ نے اس موقع پر پین امریکا کی سربراہ سوزان نوسیل کے نام ایک خط لکھا اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس خط کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

 

ایک ایسے شخص یا ادارے کو انعام سے نوازنا کیا ہی شاندار بات ہے جو آزادئ اظہار کا جرأت مند نمونہ ہے – اور پین (PEN) کے مقاصد پر کیا ہی من‌جملہ پورا اترتا ہے۔ لیکن پین کی، بہرکیف اب تک، ایک رکن کے طور پر، میں شارلی ایبدو کو پین/ٹونی و جیمز سی گوڈال انعام برائے جرأت آزادئ اظہار سے نوازنے پر پوری آزادی سے اظہار خیال کرنا چاہوں گی۔

یہ بات واضح اور بحث سے بالاتر ہے کہ جنوری2015 میں 10 شارلی ایبدو سٹاف ارکان اور شارلی ایبدو کے دفاتر میں موجود 2 پولیس اہلکاروں کا قتل، بیمار کن اور المناک ہے۔ البتہ جو بات نہ واضح ہے اور نہ ہی بحث سے بالاتر ہے وہ شارلی ایبدو کو جرأت آزادئ اظہار کے ایک انعام سے نوازنے کا فیصلہ ہے، یا یہ کہ وہ کون سی طریق کاری کسوٹی ہے، جو فیصلہ سازی میں استعمال ہوتی ہے۔ در حقیقت، معاملہ بھرپور، پیچیدہ اور گڑبڑ والا ہے۔

مجھے نہیں لگتا کہ ایسے بہت سے ہیں جو سمجھتے ہوں کہ شارلی ایبدو کارٹون ظرافت کا کوئی نمونہ ہیں، البتہ جو امر اہم ہے وہ ظاہر ہے، کارٹونوں کی قدر و قیمت نہیں ہے۔ جو بات اہم ہے وہ مختلف – غیرواضح، مبہم اور بسا اوقات باہم متضاد – علامتی مفاہیم ہیں جو حالیہ مہینوں میں میگزین سے وابستہ کیے گئے ہیں، اور یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کونسا مفہوم ہے جس پر پین داد دینا چاہ رہا ہے۔

جرأت کے لیے کوئی انعام لامحالہ ان کی قدردانی کے لیے ہوتا ہے جن کی خدمت میں جرأت عمل میں لائی جا رہی ہو۔ پین/ ٹونی و جیمز سی گوڈال انعام برائے آزادئ اظہار کے معاملے میں بنیادی قدر ”آزادئ اظہار“ ہے۔ لیکن آزادئ اظہار بھی، ایک بہت وسیع منصب ہے۔ اظہار تو کسی بھی چیز کا کیا جا سکتا ہے، اور صرف اس لیے کہ کسی بات کا اظہار کیا گیا ہے، یہ بات یقینی نہیں بن جاتی کہ اس میں کوئی خیر یا معنی بھی ہے۔

صرف اس لیے کہ کسی بات کا اظہار کیا گیا ہے، یہ بات یقینی نہیں بن جاتی کہ اس میں کوئی خیر یا معنی بھی ہے۔

میں نے پڑھا – اور سنا – ہے کہ ”جرمِ یکساں مواقع“(  equal   opportunity offence) شارلی ایبدو کی ایک امنگ ہے۔ لیکن ایسی امنگ کیسے پوری ہو سکتی ہے تاوقتیکہ جرم کے غیر متساوی ”ہدف“ ایک غالب ثقافت کے اندر ایک برابر مقام اور اور ایک مساویانہ مفہوم نہ رکھتے ہوں۔

مجھے کوئی شبہ نہیں کہ شارلی ایبدو کا اسٹاف، منظم مذہب کی اصولی مخالفت کے نراجی اظہار میں نیک نیت ہے، اور تھا۔ لیکن میگزین حالانکہ بظاہر تمام منظم مذہب کا مخالف ہے، یہود دشمنی(anti-Semitism) کے خاص اظہارات فرانس میں غیر قانونی ہیں، سو یہودیت طنز کے لیے حد سے اس پار ہے۔ در حقیقت، 2008 میں ایک شارلی ایبدو کالم میں مبینہ طور پر یہود دشمن حقارتنامے پر اس کا مصنف کام سے فارغ کر دیا گیا تھا۔اس لیے، بڑے منظم مذاہب، کم از کم جو فرانس میں نمایاں طور پر موجود ہیں، کے ہمہ گیر ٹھٹول کے اپنے ہدف میں شارلی ایبدو کم یا زیادہ کیتھولک مشرب اور اسلام تک محدود ہے۔

لیکن یہ دو مذاہب فرانس میں، اور زیادہ تر مغربی دنیا میں بالکل مختلف مقام رکھتے ہیں۔ کیتھولک مشرب، اپنے بیشتر ندامت خیز یورپی کردار میں، صدیوں پر محیط مطلق العنانیت، استبداد اور طاقت کے غلط استعمال کا نمائندہ رہا ہے، جبکہ اسلام، جدید یورپ میں، بے اختیاری اور محرومی کے کئی عشروں کا نمائندہ ہے۔ سو ایک معاصر یورپی تناظر میں، کیتھولیت پر طنز اور اسلام پر طنز کسی پیمانے پر توازن کا حامل نہیں ہے۔

مزید برآں، اسلام سے مخصوص ہتک، پیغمبر کی بصری پیکر کشی میں مضمر ہے، جو فی نفسہٖ حرمت کی حامل ہے۔ دوسری طرف، مسیحیت، ناصرف مقدس ہستیوں کی شبیہہ سازی کی اجازت دیتی ہے، بلکہ حوصلہ افزائی کرتی ہے – در حقیقت صدیوں تک مسیحی مصوروں نے مسیح اور مادرِ مسیح کی تصویر کشی کے سوا کچھ نہیں کیا۔

میں اکیلی نہیں ہوں جس کا خیال ہے کہ شارلی ایبدو کے اسلام پر طنز کرنے والے کارٹون نرے بے ذوق اور بے مغز ہی نہیں بلکہ بے مغزانہ طور پر بے مروت بھی ہیں۔ فرانس کی ایک مسلم آبادی جو کہ پہلے سے ہی محصور، دیوار سے لگائی گئی، محروم، افلاس زدہ، اور مظلوم ہے، خدا ترس لوگوں کی ایک بڑی آبادی جو ان کے مذہب کی حمایت کا میلان رکھتے ہیں، شارلی ایبدو کے پیغمبر کے کارٹون کے اقدام کو مزید خفت اور مصیبت پیدا کرنے کے ارادے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

کیا میگزین کا بنیادی مقصد ایک محروم آبادیات کو ذلیل کرنا اور بھڑکانا تھا؟ ایسا لگے گا کہ نہیں۔ اور پھر بھی سٹاف نے بظاہر اپنے طنز کے تناظر اور اس کے وسیع محیط والے نتائج کو غیر اہم سمجھا، اور اپنی کاوشوں کو دوہرانے پر بھی مائل رہے – بالکل جیسے کہ اپنا یہ حق جتانا کسی عظیم الشان اہمیت کا حامل ہے کہ آپ ایک سگریٹ سلگانے کے لیے خشک جنگل پر جلی ہوئی تیلی پھینک سکتے ہیں۔

دلآزاری کرنے والے اظہار کا تحفظ کرنا مشکل اور تکلیف دہ ہے، لیکن یہ ضروری ہے؛ آزادئ اظہار ناقابل تقسیم شے ہے۔ ہر طرح کے اظہارات کے تحفظ کا نکتہ یہ ہے کہ نہ  آپ یہ طے کریں اور نہ ہی میں – کہ یہ یقینی بنانے کے لیے کون سے رویے قابل قبول ہیں کہ اظہار طاقت‌ور مفادات کے تابع نہیں ہے۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اظہار میں جرأت کو اس کی دلآزاری سے ناپا جائے؟

بظاہر، پین کے مطابق اس کا یہی مطلب ہے۔ بظاہر پین نے دلیل دی ہے کہ یہ بذات خود شارلی ایبدو کے اظہار کی شاندار دلآزاری نوعیت ہی ہے جس نے اسے پین/ ٹونی و جیمز سی گوڈال انعام برائے آزادئ اظہار کا مثالی حقدار بنایا ہے – کہ شارلی ایبدو آزادئ اظہار کے اصول کی اسی تقسیم ناپذیری اور اس کے تحفظ کرنے والے قوانین کو خط کشیدہ کرتا ہے۔

لیکن اس صورت میں، یہ پوچھا جائے، کیا شارلی ایبدو واقعی آزاد اظہار کی ملنے والی سب سے بے ذوق، بے مغز اور بے مروت مثال ہے؟ کیا یہ بے ذوقی، بے مغزی اور بے مروتی کی کسی دیگر مثال کی بجائے پین/ ٹونی و جیمز سی گوڈال انعام برائے آزادئ اظہار کی زیادہ مستحق ہے؟

ہمارے اپنے ملک میں ایس‌اے‌ای (شمالی امریکہ کی وطن پرست مواخات سگما الفا اپسی‌لان) کے نسل پرست ابواب اور ایسی دیگر پنچایتوں کا کیا کہیے؟ میں کہوں گی کہ وہ کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔ ہمارے پاس پولیس سفاکی، قید اور ایسی باتوں کے زیر عتاب، اپنی ایک مردود آبادی ہے۔ تو کیا ہماری نسل پرست پنچایتیں بھی برابر طور پر انعام کی مستحق نہیں ہیں؟ ہم بہرحال پین امریکا ہیں، پین فرانس نہیں، اور پنچایت کی مواخات نے – (بزعم خود) مزاحیہ گانے میں – پوری وضاحت اور طاقت کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

اور خود فرانس کے پاس بھی بجا طور پر پین/ ٹونی و جیمز سی گوڈال انعام برائے آزادئ اظہار کے لیے شارلی ایبدو کے اپنے متبادلات ہیں۔ ایک یہودی قبرستان کی حالیہ بے حرمتی کے ذمہ دار لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا پامال کیے گئے قبرستان پر ملنے والی مسموم طور پر یہود دشمن گرافیٹی، جرأتمندانہ آزاد اظہار کی زبردست مثال نہیں ہے؟ اور ژولیوس سترائیخر(Julius  Streicher) کے دیر شتورمر (1920 تا 1940 کی دہائیوں میں چھپنے والا یہودی مخالف جرمن اخبار) اور اس کے یہود دشمن کارٹونوں کو مؤثر بہ ماضی انعام دینے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ سترائخر کا اصل مقصد ایک ذلیل و رسوا کی جا چکی آبادیات کے خلاف عوامی جذبات کو حرکت دینا تھا، سو شاید ان کارٹونوں کو شارلی ایبدو کارٹونوں کی نسبت کہیں زیادہ دلیرانہ سمجھا جانا چاہیے، جو، اگرچہ ایک مردود آبادیات کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے تھے، ان کو کسی ایک یا تمام مذاہب کا مذاق اڑانے کے نمائندہ کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

مختصر یہ کہ: کیا قابل قبول کی خلاف ورزی کرنے والے اظہار کی پرزور حمایت کرنے اور ایسے اظہار کو پرجوش طور سے انعام سے نوازنے میں فرق – ایک نازک فرق – نہیں ہے؟ شاید نہیں – شاید میں الجھاوے میں آئی ہوئی ہوں۔ میرے لیے، میری الجھن میں، شارلی ایبدو کو پین/ٹونی و جیمز سی گوڈال انعام برائے آزادئ اظہار سے نوازنے کا فیصلہ آزادئ اظہار کی حمایت کی بجائے، مغربی دنیا میں پہلے سے پھیلائے جا رہے اسلام مخالف اور قوم پرستانہ جذبات کا اظہار کرنے والے دلآزار مواد کو تقریباً جواز دینے اور تکریم کے لیے پیرس کے ہیبت ناک قتال کے موقع پرستانہ استعمال جیسا لگ رہا ہے۔

ان وقتوں میں جب غیرمتشکل سے حب‌الوطنی ایکٹ کے قوانین گلے گھونٹنے اور معلومات کے پھیلاؤ کو شدید سزائیں دینے کے لیے لاگو کیے جا سکتے ہیں، پین/ٹونی و جیمز سی گوڈال انعام برائے آزادئ اظہار سے نوازنے کے لیے ان متعدد صحافیوں اور افشاگروں(whistleblowers) میں سے کسی کو چنا جا سکتا تھا، جنہوں نے باقی ہم سب تک معلومات پہنچانے کی خاطر اپنی آزادی کو خطرے میں ڈالا، اور بسا اوقات گنوایا ہے۔ چیلسی میننگ اور ایڈورڈ سنوڈن جانی پہچانی مثالیں ہیں، اگرچہ ایسے بہت سے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایسے لوگوں کی افشا کی گئی معلومات کی کاریزوں کی سی خدمت سرانجام دی ہے، جیسا کہ گلین گرین‌والڈ اور لارا پؤائتراس۔ اور ایسے صحافی ہیں جو مشرق وسطیٰ گئے تاکہ پچھلے 20 یا کچھ سالوں میں وہاں اترنے والی ہیبتوں کی گتھیوں کو سلجھانے کی سعی کریں، جن میں امریکی، جاپانی اور برطانوی صحافی شامل ہیں جن کے داعش کے شرپسند بنیاد پرست دہشت گردوں نے بہیمانہ طور سے سر قلم کیے۔

یقینی طور پر کوئی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالے گا کہ شارلی ایبدو کا اسٹاف جرأتمند نہیں ہے، یا تھا۔ انہیں سالوں تک بنیاد پرست اسلامی انتہاپسندوں کے ہاتھوں تشدد کی دھمکیاں ملتی رہی ہیں، اور وہ اس پر قائم رہے جو ان کے خیال میں ان کا مشن تھا۔ سو انہوں نے اپنے حوصلے کو فراخ بخشا، اور اس مقصد کے لیے ان میں سے دس جان سے گئے، جو بالباطن، پیشوائیت کے خلاف ایک مقامی سی، غیر متعلق، غلط فہم، غلط سمت میں، نسبتاً مہین اور کم و بیش ناکارہ سی مہم تھی۔ یہ بھی بہت جرأتمندانہ بات ہو گی کہ نشے میں دھت مسلح فوجی کو سرما کی یخ بستگی میں ننگے چلنے، چھت سے کود جانے، گٹر سے پانی پینے یا ایک جنگلی سؤر سے جنسی اختلاط کے لیے آمادہ کر کے جھونک دیا جائے۔

یہ بھی بہت جرأتمندانہ بات ہو گی کہ نشے میں دھت مسلح فوجی کو سرما کی یخ بستگی میں ننگے چلنے، چھت سے کود جانے، گٹر سے پانی پینے یا ایک جنگلی سؤر سے جنسی اختلاط کے لیے آمادہ کر کے جھونک دیا جائے۔

وہ صحافی اور افشاگر جنہوں نے آزادئ اظہار کے اصولوں کی مثال قائم کی ہے، بے پناہ جرأتمند ہیں، تاہم ان کے حوصلے کے اقدام نے پوری نزاکت سے انسانیت کی خیر مانگی ہے۔ البتہ، بنا بریں، پین کو اس بات کا جواز فراہم کرنا چاہیے کہ یہ بات آزادئ اظہار کے اصول کو کمزور بنائے گی کہ جن لوگوں کے مقاصد پروقار، ذہین، اور بے غرض ہیں، ان کی بجائے قابل رحم، احمقانہ اور انتہائی مخرب لوگوں کو انعام دے کر اس کی قدر گھٹائی جائے۔

 

مخلص،
ڈیبرہ آئزنبرگ،
یہودی اور ملحد

 

ماخذ: دی انٹرسیپٹ

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search