کوڈنگ کی تکنیکی اور اخلاقی مشکلات: والٹر وانینی (مترجم: عاصم رضا)
نوٹ: اطالوی شہر میلان کے باسی والٹر وانینی (Walter Vannini) ایک محقق اور ڈیجیٹل کنسلٹنٹ (مشیر برائے ڈیجیٹل امور) ہیں ۔ وہ تکنیکی اصول و نظریے کے حماتیوں ( ٹیکنوکریٹس) اور ڈیٹا گورننس کے برخلاف ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کلچر کی حمایت کرتے ہیں ۔آن لائن جریدے aeon.co نے 23 ستمبر 2016ء کو والٹر وانینی کا ایک مختصر مضمون شائع کیا جو کمپیوٹر پروگرامنگ کے تکنیکی، اور اخلاقی و سماجی جہات و خطرات کو موضوع بناتا تھا ۔ قارئین جائزہ کے لیے اسی مضمون کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا گیا ہے ۔
کمپیوٹرز کی پروگرامنگ کرنا تو بیحد آسان کام ہے (یعنی حلوہ ہے) یا پھر ڈیجیٹل مہارت کے عالمی گرو، ہمیں اس بات کا یقین دلا چکے ہیں ۔ کوڈ ڈاٹ آرگ (Code.org) جیسے غیرمنافع بخش کمپنی کے دعوے کہ ’’ ہر کوئی (پروگرامنگ ) سیکھ سکتا ہے ‘‘ سے لیکر (امریکہ کی معروف کمپنی ) ایپل کے منتظم اعلیٰ ٹم کک (Tim Cook) کے تبصرے تک کہ (کمپیوٹر کے لیے ) کوڈ لکھنا ایک ’ تفریحی اور تعاملی ‘ (interactive)(سرگرمی ہے ) ، (کمپیوٹر) سافٹ ویئر تخلیق کرنے کا فن اور سائنس اتنا ہی سہل الحصول ہے جتنا کہ حروف تہجی سیکھنا ۔
بدقسمتی سے ان امید افزا (اور دلفریب ) تصورات کا حقیقت سے کچھ واسطہ نہیں ہے ۔ مبتدی حضرات کے لیے ایک پروگرامر کا ذہنی خاکہ نہایت عجیب و غریب ہے ۔ عمدہ تر تجزیاتی اور تخلیقی صلاحیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ سافٹ ویئر بنانے والوں کو اپنے کاموں کی پیچیدگیوں کا انتظام و انصرام کرنے واسطے قریب قریب مافوق البشر (سپر ہیومن ) قوت ارتکاز کی حاجت ہوتی ہے ۔ کمپیوٹر پروگرام کی تفصیلات کو مجنونانہ حد تک توجہ دینا لازم ہوتا ہے ؛ سہل نگاری /پھوہڑ پن (slovenliness ) حرام ہوتی ہے ۔ اس درجہ ارتکاز کا حصول ایک ذہنی حالت کا متقاضی ہے جس کے مطابق بندہ ’لہرمیں ہے ‘ ( in the flow) یعنی انسان و مشین کے درمیان ایک نیم رفیقانہ (یا یگانگت سے مشابہ ) تعلق جو کارکردگی اور ترغیب و تحریک میں بہتری پیدا کرتا ہے ۔
(کمپیوٹر ) کوڈنگ ہی تنہا ایسا کام نہیں ہے جو شدید ارتکاز کا متقاضی ہے ۔ تاہم آپ کو کبھی یہ سننے کو نہیں ملتا کہ دماغ کا عمل جراحی (سرجری ) ’تفریح ‘ ہے ، یا ساختیاتی انجیئنرنگ (structural engineering) ’ آسان ‘ ہے ۔ (کمپیوٹر ) پروگرامنگ کا ذکر چھڑتے ہی منصوبہ ساز اور ماہرین ٹیکنالوجی یکسر مختلف سوانگ کیوں رچا لیتے ہیں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایسا کرنے سے لوگوں کو ورغلانے میں مدد ملتی ہے بالخصوص جب ، مارک اینڈریسن جیسے مہم جو سرمایہ کار کے بقول ، سافٹ ویئر ’ دنیا کو نگل رہا ہے‘ ۔ لہذا (ایسی ترغیبات کی بدولت ) محنت کش طبقہ (یعنی کمپیوٹر پروگرامروں کی تعداد ) میں اضافہ سافٹ ویئر انڈسٹری کے پہیے کو حرکت دیتا اور (کام کرنے والوں کی ) اجرت کو قابو میں رکھتا ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کمپیوٹر ’ کوڈنگ‘ کا لفظ ہی روزمرہ استعمال ہونے والا اورایک عادت کے موافق سنائی دیتا ہے ، کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی غرض سے سافٹ ویئر تخلیق کار (کمپیوٹر پروگرامر) حافظے کے بل بوتے پر کسی قسم کی کنجی کو استعمال کرتے ہیں ۔ کمپیوٹر پروگرامروں کی اس یک رنگی تصویر کو بہتر بنانے میں یہ امر معاون نہیں ہے کہ ہالی وڈ نے سی آئی اے میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے یا نازیوں کا سدباب کرنے کی غرض سے ’کمپیوٹر پروگرامر‘ (coders) کو استعمال کیا، جو (نسل اور جنس کے اعتبار سے) سفید فام اور مرد تھے، سماجی میل جول سے گریزاں اور سوچ بچار کرنے سے قبل ٹائپ کرنے والے ہیکر(type-first-think-later) لوگ تھے۔
کمپیوٹر کوڈنگ کی دلربائی (گلیمر) اور دلچسپی کی بابت اصرار کرنا، بچوں کو کمپیوٹر سائنس سے واقفیت دلانے کا ایک غلط طریقہ ہے ۔ یہ طریقہ ان کی ذہانت کی توہین کرتا ہے اور ان کے اذہان میں اس گمراہ کن تصور کا بیج بوتا ہے کہ ترقی کے واسطے تم کو کسی قسم کے نظم و ضبط کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔جبکہ سافٹ ویئر بنانے سے ادنیٰ ترین واقفیت کا حامل شخص بھی جانتا ہے کہ ایک منٹ کی پروگرامنگ کے پیچھے ایک گھنٹے کا مطالعہ ہوتا ہے ۔
اس بات کا اعتراف کرلینا بہتر ہے کہ کمپیوٹر کوڈنگ تکنیکی اور اخلاقی اعتبار سے پیچیدہ کام ہے ۔ فی الوقت کمپیوٹر، مختلف درجات کی باریک بینی کے حسب موافق ، صرف احکامات کو ہی بجا لا سکتے ہیں ۔ لہذا سافٹ ویئر بنانے والوں کو اس حد تک واضح ہونا درکار ہے : مشین وہ کرتی ہے جو آپ اُسے کہتے ہیں ، نہ کہ وہ جو آپ کی مراد ہے ۔ زیادہ سے زیادہ ’احکامات ‘ ، بشمول زندگی و موت سے متعلقہ امور کو، سافٹ ویئر کے سہارے پر چھوڑا جا رہا ہے : خودکار گاڑیوں کو ذہن میں لائیے ؛ نیم خودمختار ہتھیاروں کو سوچیے ؛ اس بات کو ذہن میں لائیے کہ فیس بک اور گوگل ،آ پ کی ازدواجی ، نفسیاتی یا سماجی حیثیت کی بابت قیاس آرائی کر رہے ہیں اور پھر سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو (یہ معلومات ) بیچ رہے ہیں۔ اس کے باوجود ، کمپنیوں اور حکومت کے مفادات میں اس جانب ہماری توجہ مبذول کروانا ہرگز شامل نہیں ہے کہ ان اعمال و افعال کے پس پردہ کیا کچھ چل رہا ہے ۔
ایسے تمام منظرنامے (scenarios) انتہائی پیچیدہ تکنیکی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں ۔ لیکن ہم ان کا سامنا صرف خالص تکنیکی سوالوں کا جواب دینے کی بدولت نہیں کر سکتے ۔کمپیوٹر پروگرامنگ ایسی تفصیل نہیں ہے جس کو ’ تکنیکی ماہرین ‘ پر اس غلط توقع میں چھوڑا جا سکتا ہے کہ وہ ’ سائنسی اعتبار سے غیر جانبدار‘ اختیارات (choices) سے کام لیں گے ۔ معاشرے نہایت پرپیچ (شے ) ہیں : الگورتھم سیاسی ہے ۔ خودکاریت پہلے ہی دنیا بھر کی فیکٹریوں اور گوداموں (ویئر ہاوسز) میں ادنیٰ مہارت کے حامل مزدوروں کی ملازمتوں کو خطرے میں ڈال چکی ہے ۔ اگلی باری بہتر مہارتوں کے حامل مزدوروں کی ہے ۔ آج کے ڈیجیٹل دیوہیکل کارخانوں میں ماضی کے عظیم الشان صنعتی مراکز میں کام کرنےوالے لوگوں کی نسبت محض ایک ادنیٰ تعداد کام کرتی ہے ، لہذا (پہلے سے ) زیادہ لوگوں کو کمپیوٹر پروگرامر کی حیثیت سے کام کرنے کی ترغیب دینے میں ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی لوگ آہستہ آہستہ اپنے آپ کو نوکریوں سے باہر نکال رہے ہیں ۔
پہلے سے کہیں زیادہ باہم گتھی ہوئی اور مربوط دنیا میں جہاں سافٹ ویئر روزمرہ زندگی میں بہت زیادہ کردار ادا کرتے ہیں ، کمپیوٹر کوڈنگ کو ایک ہلکی سرگرمی (جس کےمضمرات پر تفصیلی اور سنجیدہ بحث نہ ہو ) قرار دینا ایک غیرذمہ دارانہ فعل ہے ۔ سافٹ ویئر صرف چند سطروں کی ہدایات کا مجموعہ نہیں ہے اور نہ ہی ایک غیرجذباتی ، تکنیکی سرگرمی ہے ۔ چند ہی برسوں میں کمپیوٹر پروگرامنگ کی تفہیم ، فعال شہریت کی ایک ناگزیرشرط بن جائے گی ۔ یہ تصور کہ کمپیوٹر کوڈنگ سماجی ترقی اوردلفریب ذاتی ترقی کی طرف جانے کا ایک آسان راستہ ہے (جو خطرات اور مضمرات سے پاک ہے) ، ان پھلتے پھولتے ٹیکنو سرمایہ داروں (techno-plutocracy) کو فائدہ پہنچاتا ہے جو اپنی ہی ٹیکنالوجی کے پردے میں اپنے آپ کو محفوظ کر رہےہیں ۔