چینی ٹیکنالوجی: فرانسکا بریے (مترجمین: راشد سلیم اور محمد شعیب)
نوٹ: 2009ء میں بلیک ویل پبلی کیشنز کے زیر اہتمام ’’ معاون برائے فلسفہ ٹیکنالوجی ‘‘ (A Companion to the Philosophy of Technology) شائع ہوئی۔ اس کتاب میں درج ذیل سات (7) موضوعات کے تحت اٹھانوے(98) مضامین شامل ہیں : تاریخ ٹیکنالوجی ، ٹیکنالوجی اور سائنس ، ٹیکنالوجی اور فلسفہ ، ٹیکنالوجی اور ماحولیات ، ٹیکنالوجی اور سیاست ، ٹیکنالوجی اور اخلاقیات ، ٹیکنالوجی اور مستقبل ۔ شعبہ معاشرتی علم الانسانیات (Social Anthropology) ، یونیورسٹی اوف ایڈنبرگ، سکاٹ لینڈ سے وابستہ جناب فرانسکا بریے (Francesca Bray)نےچینی ٹیکنالوجی (Chinese Technology) کو موضوع بنایا جس کو قارئین جائزہ اور اردو دان طبقے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ۔
اس مختصر مضمون میں، میں نے دومسئلوں کو موضوع بنایا ہے : ٹیکنالوجی کے تصورات نے اپنے جدید مفہوم (تصور) کے تحت چینی تشخص کو کیسے متاثر کیا ہے نیز ٹیکنالوجی کے بارے میں چین کے اختیار کردہ ٹیکنالوجیکل افعال اور ٹیکنالوجی کے مفہوم و معانی ہمارے اپنے اندازِ فکر کو کس طریقے سے متاثر کر سکتے ہیں ۔
1620ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’نووم آرگینم‘‘ (Novum Organum)میں فرانسس بیکن نے لکھا کہ ’’ چھاپہ خانہ ، بارود اور پرکار (کمپاس) نے ساری دنیا کا چہرہ بدل کر رکھ دیا ہے نیز احوال ِ ا شیاء کو اس طور سے بدلا ہے کہ کسی سلطنت ، فرقے ،اور ستارے نے اس کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ طاقت کا استعمال نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان میکانکی دریافتوں سے بڑھ کر انسانی معاملات کو متاثر کیا ہے ‘‘ (بیکن ،1.129) ۔کارل مارکس نے اپنی کتاب ’’ 1861ء تا 1863ء کی معاشی بیاضوں ‘‘ (Economic Notebooks of 1861-63)میں اسی بات کو قدرے مختلف انداز میں لکھا: وہ ’’ تین عظیم الشان ایجادات تھیں جنھوں نے بورژوا معاشرے کی بنیاد رکھی ۔ بارود نے خطاب یافتہ طبقے کو اڑا دیا ، پرکار (کمپاس) نے دنیا کی منڈی کو دریافت کیا اور نوآبادیات کی بنیاد رکھی ، نیز چھاپہ خانہ پروٹسٹنٹ مذہب اور سائنس کی تجدیدِ نو کا آلہ کار بنا ‘‘ (مارکس، 1861)۔ ماقبل جدید چین میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر اپنی قاموسی (انسائیکلوپیڈک )تحقیق کے اندر ، جوزف نیڈہام (Joseph Needham) نے ایسی تمام ٹیکنالوجیز کی چینی بنیادوں کے بارے میں لکھنے کے بعد اس وضاحت طلب سوال کا سامنا کیا کہ یہ سب چیزیں مل کر چینی معاشرے کو بدلنے میں کیونکر ناکام ہوئیں جب کہ انہوں نے مغرب میں انقلاب برپا کر دیا ۔ زمانہ قریب تک چین میں ٹیکنالوجی کے بارے میں چینی اور مغربی دونوں قسم کے تصورات کو بالعموم نام نہاد ’’نیڈہام سوال ‘‘ (Needham Question)کے تحت بیان کیا جاتا تھا : بجا کہ قرون وسطیٰ سے پہلے تک چین کئی تکنیکی شعبوں میں یورپ سے آگے تھا ، چینی بادشاہت کیونکر اپنے ہاں سائنسی یا صنعتی انقلاب برپا نہیں کرپائی ؟ ابتدائی زمانے میں اتنا کچھ کیونکر حاصل کر لیا ، اور پھر اپنی تخلیقی قوت ِ حیات کو غیرمحفوظ جمود میں کیونکر کھو دیا؟
نوآبادیاتی (استعماری) دور سے لیکر آج کے دن تک ، ٹیکنالوجیکل برتری کے ادراکات نے مغربی تسلط کی آئیڈیالوجیز کو تخلیق کرنے اور(چینی ) قوم کے اپنے بارے میں تصور کی صورت گری میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے (ایڈاس ، 1989) ۔چینی قوم نے اپنی تہذیب کی تکنیکی کمزوری کا خمیازہ پہلی مرتبہ 1840ء تا 1842ء کی پہلی جنگِ افیون میں بھگتا ، جب برطانوی جنگی کشتیوں نے ان کے دفاع کا بھرکس بنا دیا ۔ یہ کیل کانٹے سے لیس مغربی طاقتوں کے ہاتھوں کئی شرمناک شکستوں میں سے پہلی تھی ؛ چنگ (مانچو خاندان ) سلطنت بندوق کی نوک پر مجبور ہوئی کہ برطانیہ کو بندرگاہیں اور زمین کا قبضہ دے ، عیسائی مبلغین کو تبلیغ کی اجازت فراہم کرے ، اور مغربی مصنوعات کے واسطے اپنی منڈیوں کو کھولے ۔ 186ء سےہی (چینی ) حکومت نے ’’اپنے آپ کو مضبوط کرنے‘‘ (self-strengthening) کی جدید مگر کمزور پالیسی اختیار کی ، اس امید کے ساتھ کہ مغرب (برطانوی) کے قانونی و انتظامی اداروں اور سٹریٹجک (strategic) ٹیکنالوجیز کو اختیار کرنے کی بدولت چینی دولت اور طاقت کو ازسر نو حاصل کر لیا جائے۔ غیرملکی ماہرین کو اس غرض سے بلوایا گیا کہ وہ چینی انجیئنروں کو صنعتیں لگانے نیز ریلوے کو قائم کرنے، ٹیلی گراف کی تاریں بچھانے اور سب سے بڑھ کو فوجی سازوسامان کی غرض سے منصوبوں کی خاکہ بندی اور ان کا انتظام و انصرام سنبھالنے کی غرض سے تعلیم و تربیت دیں ۔ 1865ء میں شنگھائی میں قائم کردہ Jiangnan Arsenal نے بارود سازی، توپ خانہ اور جنگی کشتیاں بنانے کا آغاز کیا ، وہ ایک معروف ترین کاروباری منصوبہ تھا ۔ سگنلز میں تھوڑی بہت کامیابی کے باوجود ،1894ء میں چین فوجی طاقت کے اعتبار سے بہت زیادہ کمزور تھا اور جاپانیوں کے تندوتیز حملوں کے مقابلے میں بمشکل مزاحمت کر پایا (والے – کوہن ، 1999) ۔ جوں ہی انہوں نے Shimonoseki کے معاہدے کی بدولت تائیوان اور شمال مشرقی صوبوں کو کھو دیا ، چینیوں نے اپنے آپ سے دریافت کیا کہ وہ جدیدیت کو اپنانے میں کیونکر ناکام ہوئے ہیں جب کہ ممکنہ طور پر ان سے کم تر مشرقی قوم جاپانی شاندار کامیابی حاصل کر چکے تھے ۔ ہرچند کہ تحریک اصلاح نے ’’مغربی آلات اور چینی مزاج ‘‘کے مابین سہولت کی بابت تجویز پیش کر دی تھی ، اب مصلحین اور انقلابیوں کو محسوس ہوا کہ چینی روایات اور جدیدیت آپس میں متصادم و متناقض ہیں اور لازم ہے کہ اس کو بے رحمانہ انداز میں مسترد کیا جائے ۔
چنگ (مانچو خاندان) کی سلطنت کے آخری برسوں اور جمہوریہ (1911ء تا 1949ء) کی تکلیف دہ دہائیوں کے دوران بہت سے چینیوں نے مستقل کے ٹیکنو کریٹک نقطہ نگاہ کو اختیار کیا ۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور تکنیکی مہارت کو جدیدیت کی خاطر بطور عمل انگیز عناصر (catalyst) کی حیثیت سے برآمد کیا جا سکتا تھا اور لازماً کرنا چاہیے ۔ تاہم، اس بات کا یقین تھا کہ چین کے پاس اس ضروری عمل کو مدد فراہم کرنے کے واسطے درکار کسی قسم کی مقامی ذہانت یا مادی روایات ناپید تھیں ۔ نیڈہام کی تحقیق نے اس مفروضے کو چیلنج کرنے میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ۔ اگرچہ مذکورہ حکمت عملی آج کل کے مؤرخین ٹیکنالوجی کو متاثر نہیں کرتی ، چینی تکنیکی ایجادات سے متعلق نیڈہام کی پیش کردہ طویل فہرست نے (مثلاً کراس بو ٹریگر (cross bow trigger)اور لوہا پگھلانے والی بھٹی (blast furnace) جن کا ظہور مغرب سے پہلے چین میں ہو چکا تھا ، اس تصور کو چیلنج کیا کہ تاریخی اعتبار سے چین ’’ حقیقی‘‘ ٹیکنالوجیکل مہارتوں اور تفہیم سے محروم تھا ۔
نیڈہام کی تحقیقات کی اشاعت کا آغاز 1950ء کی دہائی کے اوائل میں ہوا ۔1949ء میں قائم ہونے والی عوامی جمہوریہ چین کی کمیونسٹ حکومت نے قدیم چین کے محنت کش طبقات کی مہارت اور قابلیت کی نشان دہی کرنے والی نیڈہام کی تحقیقات کو گرم جوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا (اس امر کی توثیق 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں ماہرین آثارقدیمہ کی کھدائیوں کے نتیجے میں ملنے والے حیرت انگیز آلات کے ذریعے بھی ہوئی)۔ کمیونسٹ مخالف مغربی طاقتوں کی جانب سے کسی قسم کی امداد سے انکار پر ، نئی چینی حکومت نے ترقی کے ایک روایتی ٹیکنو کریٹک راستے پر پہلے سوویت یونین پر انحصار کیا ۔ تاہم 1950ء کی دہائی کے اخیر میں چین اور سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹیوں کے مابین ہونے والی علیحدگی (Sino-Soviet Split) کے بعد(چین کی ) ماؤزے حکومت کو اپنے وسائل بالخصوص وسیع و عریض محنت کش طبقے پر انحصار کرنا پڑا ۔ چینی ریاست نےٹیکنالوجی کے ساتھ تعمیر ہونے والے ایک ’’خود انحصار‘‘ مستقبل کا خواب دیکھا ، جس کے تحت چینی محنت کش اور کسان مقامی تکنیکی مہارتوں (اور نیڈ ہام کی بیان کردہ مقامی ایجاد پسند روایات) اور مغربی (ٹیکنالوجیکل ) ماڈلز کے مابین مطابقت پیدا کرتے ہوئے، چینی اجناس و سیاسی ضروریات اور مقامی حالات سے موافق انفراسٹرکچر اور مشینوں کو بنائیں گے ۔ ثقافتی انقلاب (Cultural Revolution)اور گریٹ لیپ فارورڈ (Great Leap Forward) کے مہلک نقصانات ناقابل انکار ہیں ؛ تاہم اس زمانے کے دیہی اور شاپ فلور (shop-floor) جیسے تکنیکی منصوبوں نے تکنیکی مسائل کے حل تلاش کرنے کی خاطر عوامی شمولیت کو آمادہ کیا اور بڑے پیمانے پر عوامی رضامندی نے بنیادی انفراسٹرکچر کو تعمیر کیا (سیگورڈسن ، 1980؛ ویگنر ، 1997) ۔ ایسے وسائل نے ٹیکنوکریٹ ماڈل کی جانب مراجعت اختیار کی اور یہ کام ماؤزے تنگ کی وفات کے بعد بھی جاری رہا : 1978ء میں چہار گانہ جدت (زراعت؛ صنعت ؛ سائنس اور ٹیکنالوجی؛ قومی دفاع) اور معاشی اصلاحات کا نفاذ عمل میں آیا (وولٹی ، 1982؛ سائمن اور گولڈمین ، 1989)۔
ثقافتی انقلاب کا ایک نعرہ ’’ ماہر کی بہ نسبت خوب تر سرخ (چین) ‘‘ (Better Red than Expert) یعنی ٹیکنالوجیکل علم صرف اسی صورت میں قیمتی تھا جب اس کی بنیادیں مقامی تھیں نیز عوام کی خدمت میں صرف ہوتا ۔ 1978ء کے بعد سے لیکر اب تک تین دہائیوں تک معاشی بڑھوتری ، تعلیم اور تحقیق و ترقی میں اضافہ کو برقرار رکھتے ہوئے ، سرکاری پالیسی نے مستقل ٹیکنوکریٹک اور کاروباری اقدار ( entrepreneurial values) کو باہم جوڑ دیا ہے ۔ ریاستی تحفظ اور مشترکہ کاروباری تنظیموں (joint-venture)کے تحت تھوڑی بہت جدید اور نسبتاً تھوڑی جدید دونوں قسموں کی ٹیکنالوجی کو درآمد کیا گیا ہے(وولٹی ، 2002: ص 11) اور مقامی سطح پر مہارت کو پروان چڑھانے کے واسطے 1997ء میں دو لاکھ سولہ ہزار کمپنیوں کی بنیاد رکھی گئی ۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی ہمیشہ سے آسان عمل نہیں رہا ہے ، بالخصوص جب ریاستی قوت کا عمل دخل بہت زیادہ ہو ، تاہم گزشتہ چند برسوں میں مشترکہ کاروباری سرگرمیوں کو نسبتاً زیادہ آزادی اور غیرملکی شراکت کے واسطے نسبتاً زیادہ سہولیات بہم دستیاب ہوئی ہیں نیز مہارت اور اِن پٹ کی غرض سے کارآمد ذریعہ کی حیثیت سے ہانگ کانگ ، تائیوان اور دوسرے ممالک میں رہائش پذیر چینیوں کے ساتھ قریبی روابط قائم ہوئے ہیں ۔ علاوہ ازیں ،ریاست، یونیورسٹیوں اور کارپوریشنز کے مابین داخلی اور عالمی شراکت داری کو ترقی دینے کی غرض سے نت نئے طریقہ ہائے کارمثبت نتائج فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اگرچہ مغربی حضرات (افراد اور ممالک ) ہنوز چینیوں کو نقال ہی سمجھتے ہیں ، چین ٹیکنوسائنس بشمول بائیو ٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی کی مختلف شاخوں میں نہایت تیزی سے ایک عالمی رہنما کی حیثیت سے ابھر رہا ہے ۔
1930ء کی دہائی کے چین میں ’’ ٹیکنالوجی ‘‘ کا لفظ مغربی بالادستی کے مادی ظہور سے منسوب ہوتا تھا جس کی چین کو ضرورت تھی تاہم وہ اس کو اپنے واسطے خود مقامی سطح پر تخلیق نہیں کر سکتے تھے ۔ 1960ء کی دہائی کی تحریک خود انحصاری کے دوران ، یہی لفظ (ٹیکنالوجی ) مادی، سیاسی اور اخلاقی مفاہیم کے ساتھ منسوب ہو گیا ، جو اسی زمانے کے بیشتر امریکیوں کے لیے تقریباً نامانوس تھے ، اگرچہ سکنڈے نیویا کے شہری شاید ان سے تھوڑے بہت واقف تھے ۔ آج کل ایک چینی اور ایک امریکی کے مابین اس بابت عدم تفہیم کہ ’’ ٹیکنالوجی‘‘ سے کیا مراد ہے ، تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے ، تاہم اس حوالے سے ایک بہت بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے : مابعد استعمار چین کی بدحالی کا علاج ہو گیا ہے ۔ اس وقت بیشتر چینی نوجوان ، غالباً امریکیوں سے نسبتاً زیادہ پُر اعتماد ہیں کہ مستقبل کی تعمیر میں ان کی اقوام ایک مرکزی کردار ادا کریں گے ۔
ٹیکنالوجی کے حوالے سے قومی اعتماد کی تجدیدِ نو کے پرجوش متوازی دھارے کو مطالعات ِ ٹیکنالوجی کے شعبے میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ زمانہ قریب تک ، چین کے تاریخی تجربے کو بالعموم ناکامی کی ایک مثال کی حیثیت سے پیش کیا جاتا تھا یعنی بقول برٹرینڈ گیلی (Bertrand Gille)، ایک ’’منجمد/اپنے آپ تک محدود سسٹم ‘‘ (blocked system)۔ مارکس نے چین کو ایک عظیم الشان تہذیب کی حیثیت سے دیکھا جو خلقی اعتبار سے ہی تاریخی حرکیت پسندی (dynamism)سے محروم تھی ۔ نیڈہام نے استدلال کیا کہ سائنسی اور تکنیکی حرکیات پسندی کی حامل ایک زرخیز چینی روایت سونگ خاندان کی حکومت (Song Dynasty: 960 – 1279) کے زمانے میں عروج کو پہنچی تاہم 1400ء عیسوی کے بعد زوال پذیر ہوئی ۔ نیڈہام نے اس زوال پذیری کو اس امر کے ساتھ منسوب کیاکہ چینی سلطنت کے آخری زمانے کے بیوروکریٹس نے آہنگ اور استحکام کی غرض سے کنفیوشس کے انتخاب کو ترجیح دی (نیڈہام ، 1967)۔ چینی مارکسسٹ مؤرخین نے شاہی (سامراجی ) اداروں اور پیداوار کے جاگیرادارانہ ذرائع پر الزام دھرا کہ انہوں نے شاہی سلطنت کے آخری زمانے کے دوران سرمایہ داریت کی شاخوں اور تکنیکی و معاشی حرکیات پسندی کے عناصر کو کچل ڈالا ، جو بعد آئندہ زمانے میں بنیادی تبدیلی کا باعث بن سکتے تھے ۔ دوسرے مغربی محققین نے مارک ایلون (Mark Elvin, 1973) کے انتہائی متاثر کن تصور انحطاط (involution)کے زیرِ اثر سماجی و تکنیکی ، آبادی کے اعتبار سے (demographic)، اور ادارہ جاتی تشریحات کو کھوجا ہے کہ یورپ کی شاہراہ ترقی کی پیروی میں چین کیونکر ناکام ہوا ۔ اس تناظر کے تحت ، چینی تاریخ اپنے ہی معیارات کے مطابق اپنے غیر یعنی یورپ کے مقابلے میں کم تر ہے ۔ تاہم زمانہ قریب میں تنقیدی مؤرخین نے بساط کو الٹ دیا ہے (سیوین ، 1982) ۔ مغرب کی پیروی کرنے میں ایک ممکنہ ناکامی کو بیان کرنے کی بجائے ، وہ اس بات کو دریافت کرتے ہیں کہ چین کسی ایک خاص تاریخی لمحے میں اپنے ہی طے کردہ معیارات پر کس مقام پر تھا ۔ پھر وہ اس سوال کو علم الانسانیات (anthropological) کے تناظر میں نسبتاً بڑے پیمانے پر دریافت کرتے ہیں کہ مذکورہ تاریخی پس منظر میں کون سے تکنیکی شعبے اور کس قسم کے کام خواہ سماجی ہوں یا علامتی ، مادی اور معاشی ہوں ، خصوصی اہمیت کے حامل تھے ، جو انہوں نے سرانجام دیے ۔ اس قسم کا مطالعہ ایک دلچسپ اور حیرت انگیز مشق ثابت ہو رہا ہے ۔ اس امر کی مثالیں درج ہیں : گھنٹیوں کے ڈیزائن ، بادشاہت اور تکوینیات کے مابین تعلق (فالکن ہاسین ، 1994)؛ نئے ثقافتی اشرافیہ کے ظہور کی معاون تکنیکی تبدیلیاں (کوہن ، 1987)؛ ٹیکنالوجیز کیسے سماجی تبدیلیوں کے زمانے میں صنفی امتیازات کی نشان دہی کرنے اور ان کو برقرار رکھنے کی خاطر استعمال ہوتی تھیں (بریے، 1997)؛ بڑے پیمانے پر صنعت سازی کی روایات کا ارتقاء یعنی قدیم شینگ (Shang) کے روایتی کانسی کے برتنوں سے لیکر اٹھارویں صدی میں بیرونی دنیا کو برآمد کردہ چینی ظروف ، اور جمالیات اور طرزِ حکومت پر ان کے تبدیل ہوتے اثرات (لیڈرروز، 2000)؛ اور انسان کے مادی و طبیعی افعال کے فلسفے (شیفر ، 2005) ۔ جیسا کہ تانیثی تنقید نے ٹیکنالوجی کے مطالعات کو بدل دیا ہے نیز اس کے مرکزی بیانیے کے علاوہ غیرمغربی معاشروں میں ٹیکنالوجی کے تنقیدی مطالعات کو بھی متاثر کیا ہے ، جن کے تحت چین ایک خصوصی دورانیہ فراہم کرتا ہے اور ٹیکنالوجی کے معانی اور ماہیت پر نئے پرجوش تناظرات تجویز کرتا ہے ۔
کتابیات
Adas, M. (1989). Machines as the Measure of Men: Science, Technology and Ideologies of Western Dominance (Ithaca, N. Y.: Cornell University Press).
Bray, F. (1997). Technology and Gender: Fabrics of Power in Later Imperial China (Berkeley, Calif.: University of California Press).
Elvin, M. (1973). The Pattern of the Chinese Past (Stanford, Calif.: Stanford University Press).
Falkenhausen, L. von (1994). Suspended Music: Chime Bells in the Culture of Bronze Age China (Berkeley, Calif.: University of California Press).
Kim, L. and Nelson, R. R. (eds) (2000). Technology, Learning and Innovation: Experiences of Newly Industrializing Economics (Cambridge: Cambridge University Press).
Kuhn, D. (1987). Die Song-Dynastie (960 bis 1279): eine neue Gesellschaft in Spiegel ihrer Kulture (Weinheim: Acta Humantorum VCH).
Ledderose, L. (2000). Ten Thousand Things: Module and Mass Production in Chinese Art (Princeton, N. J.: Princeton University Press).
Marx, K. (1861). Division of Labour and Mechanical Workshop, Economic Notebooks, ch. 35, http://www.marxists.org/archive/marx/works/1861/economic/ch35.htm
Needham, J. (ed.) (1954). Science and Civilization in China (Cambridge: Cambridge University Press).
Schafer, D. (2005). The Congruence of Knowledge and Action: The Tiangong kaiwu and Its Author Song Yingxing, In Hans-Ulrich Vogel, Christine Moll-Murata and Song Jianze (eds), Chinese Handicraft Regulations of the Qing Dynasty: Theory and Application (Munich: Iudicum), pp. 35 – 60.
Sigurdon, J. (1980). Technology and Science in the People’s Republic of China: An Introduction (New York: Pergamon Press).
Simon, D. M. and Goldman, M. (eds) (1989). Science and Technology in Post-Mao China (Cambridge, Mass.: Harvard University Council on East Asian Studies).
Sivin, N. (1982/1995). Why the Scientific Revolution did not take place in China – or didn’t it?, Chinese Science 5: 45 – 66, reprinted in Sivin (1959) Science in Ancient China: Reserches and Reflections (Aldershot: Variorum).
Volti, R. (1982). Technology, Politics, and Society in China (Boulder, Colo.: Westview Press).
Wolti, R. (2002). Technology Transfer and East Asian Economic Transformation (Washington, D. C.: American Historical Association/Society for the History of Technology).
Wagner, D. B. (1997). The Traditional Chinese Iron Industry and Its Modern Fate (Richmond, Sussex: Curzon/Nordic Institute of Asian Studies).
Waley-Cohen, J. (1999). The Sextants of Beijing: Global Currents in Chinese History (New York: Norton).