کیا مستضعفین بول سکتے ہیں؟ گائتری چکرورتی سپیواک (ترجمہ: اسد فاطمی)
فی زمانہ مغرب سے آنے والی سب سے کڑی تنقید اس افادی خواہش کا نتیجہ ہے کہ مغرب کے موضوع کو یا مغرب کو بطور موضوع بچا کے رکھا جائے۔ تکثیر دادہ ’ زیر موضوعی اثرات ‘ کے نظریے سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ اکثر اس علمی موضوع کی ڈھانپ کرتے ہوئے موضوعی قدرت دب جاتی ہے۔ اگرچہ یورپ کی تاریخ کو قانون، سیاسی اقتصادیات، اور مغربی نظریات کے ذریعے بیانیہ شکل دی گئی ہے، یہ پردہ پوش موضوع یہ دکھاوا کرتا ہے کہ اس کے ’کوئی جغرافیائی-سیاسی عزائم نہیں ‘ ہیں۔ یوں بہتیری اشاعت کی حامل، قادر موضوع کی تنقید، درحقیقت ایک موضوع کا سنگ بنیاد رکھتی ہے۔
یہ موضوع، جسے تردیدوں کے ذریعے بڑے پراسرار طور سے ایک شفاف پردے میں سیا گیا ہے، بین الاقوامی محنت کی بانٹ کی مستکبر جانب سے متعلق ہے۔ معاصر فرانسیسی دانشوروں کے لیے اس گونہ طاقت اور آرزو کا اندازہ لگانا محال ہے جو یورپ کے اغیار کے بے نام موضوع کے ہاں جاگزین رہی ہے۔ صرف ایسا نہیں ہے کہ وہ جو کچھ بھی پڑھتے ہیں، تنقیدی ہو یا غیر تنقیدی، یورپ کے ان اغیار کو معرض شکل میں لانے کی حمایت میں ہو یا تنقید میں، وہ اس غیر کو پیدا کرنے کی بحث کی گرفت کے اندر رہتا ہے۔ بلکہ ایسا بھی ہے کہ، یورپ کے اس غیر کو معرض تشکیل میں لاتے ہوئے، ان متونی اجزائے ترکیبی کو کھرچ کے مٹا ڈالنے میں بھی کافی احتیاط برتی گئی جن کے ذریعے ایسا کوئی موضوع اپنے خطِ سفر پر فکری ارتکاز کر سکتا تھا، اسے گرفت میں لے سکتا تھا – ناصرف نظریاتی اور سائنسی پیداوار کے ذریعے، بلکہ قانون کی تشکیل کے ذریعے بھی۔ ۔۔۔ اس امکان کے روبرو کہ، دانشور اپنے غیر کو قائم بالذات طور سے اپنی چھایا پر معرضِ تشکیل میں لانے میں شریکِ سازش ہو سکتا ہے، دانشور کی ایک ممکنہ سیاسی تمرین یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اقتصادیات کو ’ زیر قلمزدگی ‘ رکھے، تاکہ اقتصادی پہلو اس قدر ناقابل تخفیف رہ جائے کہ سماجی متن کی از سرِ نو کتابت ہوئی جائے، اور جیسا تیسا قلمزد ہو بھی جائے، جبکہ وہ حتمی تعین کنندہ یا علّوی تصورِ معنی ہونے کا داعی ہو۔
ایسے علمیاتی تشدد کی واضح ترین دستیاب مثال ہے، دور افتاد اور مختلف النوع منصوبۂ عرضِ تشکیلِ نوآبادیاتی موضوع بطور غیر۔ یہ منصوبہ اس غیر کی اس کی غیر یقینی موضوعیت میں بے قرینہ فراموشی بھی ہے۔ یہ جانی مانی بات ہے کہ فوکو علمیاتی تشدد، علمیاتی معارف کی مکمل مرمت و صفائی کو، یورپی اٹھارہویں صدی میں ہوشمندی کی تعریفِ نو میں پاتا ہے۔ لیکن کیا ہو جب وہ مخصوص تعریفِ نو محض یورپ اور اس کی سبھی نوآبادیوں میں تاریخ کے بیانیہ کا حصہ تھی؟ کیا ہو جب کہ علمیاتی معارف کی مرمت و صفائی کے دو منصوبے، ایک ہی دو دستہ انجن کے دو جگہ سے ہٹے ہوئے اور نظر انداختہ حصے تھے؟ شاید ایسا یہ پوچھنے سے زیادہ کچھ نہیں کہ سامراج کے بیانیے کے مسموح کاغذ کی نچلی تہہ کی لکھائی کو ’علمِ مسخّر ‘ مان لیا جائے، ’ ایسے علوم کا پورا مجموعہ جنہیں ان کے ہدف سے غیرموافق یا تدقیق کے ناکافی ہونے کے سبب ناموزوں قرار دے دیا گیا ہو: سادہ لوح علوم، جن کی نظمِ مراتب میں نیچے کہیں جگہ ہو، ادراک اور سائنسیت کی مطلوبہ سطح سے نیچے ‘ (فوکو 1980: 82)۔
یہاں مقصود، یہ بیان کرنا نہیں کہ ’چیزیں واقعتاً کیسی تھیں ‘ یا سامراجیت کو تاریخ کا بہترین نسخۂ منقولہ ہونے کی مراعت دیا جانا نہیں۔ بلکہ یہ گوشوارہ پیش کرنا ہے کہ کیسے حقیقت کی ایک تشریح اور بیانیہ مسلّمہ معیار ٹھہرا۔۔
آئیے اب روزنوں کی گنجائش میں جھانکتے ہیں (اسے خاموش بھی کہہ سکتے ہیں، خاموش کردہ مرکز) جن کے گرد اس علمیاتی تشدد نے دائرے کھینچ رکھے ہیں، ان پڑھ دہقان، قبائلی لوگ، شہری نیم پرولتاریہ کے پست ترین طبقہ کے مرد و عورتیں۔ فوکو اور دیلوزے کے مطابق (پہلی دنیا میں، سماجیائے گئے سرمائے کی معیاربندی اور دستہ بندی کے ماتحت، اگرچہ انہیں اس کا ادراک نہیں ہوتا) مظلوم، اگر اسے موقع دیا جائے (یہاں نمائندگی کے مسئلے سے پہلو نہیں چھڑایا جا سکتا)، اور اتحادی سیاست کے ذریعے یکجہتی کے راستے پر (یہاں ایک مارکسی عضوِ مطالب بر سرِ کار ہے) بول سکتے ہیں اور اپنی کیفیات سے واقف ہوتے ہیں۔ ہمیں اب یہاں ذیل کے سوال کا سامنا ہونا چاہیے: سماجیائے گئے سرمائے سے محنت کی بینالاقوامی بانٹ کی دوسری طرف، ایک شروعاتی اقتصادی متن میں ضمیمہ ڈالتے ہوئے سامراجی قانون اور تعلیم کے گرد کھنچنے والے حیطے سے اندر اور باہر، کیا مستضعفین بول سکتے ہیں؟
میرے قضیے کا پہلا حصہ – کہ مستضعفین کے مرحلہ وار ارتقا کو سامراجی منصوبے نے پیچیدہ تر بنا دیا ہے – جس کا دانشوروں کی ایک جماعت ’ مطالعاتِ مستضعفین ‘ گروہ کو سامنا ہے۔ انہیں پوچھنا چاہیے، کیا مستضعفین بول سکتے ہیں؟ یہاں ہم فوکو کے اپنے مکتبِ تاریخ کے اندر ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ جو اس کے اثر کو مانتے ہیں۔ ان کا منصوبہ ہے کہ ہندوستانی نوآبادیاتی وقائع نگاری پر، نوآبادیاتی تسلط کے دوران ہندوستان میں کسان بغاوتوں کے غیر متواتر سلسلے پر مکرر غور کیا جائے۔ یہ درحقیقت ’ ازنِ روایت ‘ کا مسئلہ ہے جسے سعید (1984) نے زیرِ بحث لایا تھا۔ جیسا کہ رنجیت گوہا استدلال کرتے ہیں،
ہندوستانی قومیت کے علم
التواریخ پر ایک طویل عرصہ سے اشراف پسندی کا غلبہ ہے۔۔۔ اس گمان میں حصے داری ہو
کہ ہندوستانی قوم کے بنائے جانے اور مبنی بر شعور قومیت کی تعمیر سے اس بات کی
تصدیق ہوئی کہ یہ عمل خاص الخاص یا نمایاں طور پر اشرافی کارنامہ تھا۔ نوآبادیاتی
اور جدید-نوآبادیاتی تواریخوں میں ان کارناموں کا سہرا برطانوی نوآبادی حکمرانوں،
منتظمین، پالیسیوں، اداروں اور ثقافتوں کے سر جاتا ہے؛ ان قوم پسند اور جدید-قوم
پسند تحاریر میں جو ہندوستانی اشرافی شخصیات، اداروں، سرگرمیوں اور خیالات کے نام
ہیں۔
(گوہا 1982:1)
ہندوستانی اشرافیہ کی کچھ بھانتیں غیر کی آواز میں دلچسپی رکھنے والے پہلی دنیا کے دانشوروں کے لیے بہترین مقامی مخبر ہیں۔ لیکن اس بات پر بہرحال اصرار رہنا چاہیے کہ نوآبادیایا ہوا مستضعف، ناقابلِ تلافی طور پر متنوع ہے۔
دیسی اشرافیہ کے بالمقابل ہم گوہا کے لفظوں میں ’ عوام کی سیاست ‘ کو رکھ سکتے ہیں، نوآبادیاتی پیداوار کے حیطے کے باہر بھی ( ’ یہ ایک خودمختار اقلیم تھی، کیونکہ یہ نہ ہی اشرافی سیاست سے پھوٹی تھی اور نہ ہی اس کا وجود، ثانی الذکر کا محتاج تھا ‘) اور اندر بھی ( ’ راج کے ماتحت پیدا ہوتی کیفیات کے ساتھ خود کو ڈھالتے ہوئے اور کئی پہلوؤں سے ہیئت اور مواد کے بالکل نئے تانے تعمیر کرتے ہوئے، اس نے [نوآبادیاتی نظام] کے باوجود زور و شور سے اپنا کام جاری رکھا ‘) (گوہا 1982:4)۔ میں اس قوائے قاطع اور مکمل خود اختیاری پر اصرار کا پوری طرح سے اثبات نہیں کر سکتی، کیونکہ وہ تواریخی ناگہانیاں ایسے اثبات کو ایسا نہیں کرنے دیں گی کہ مستضعِف شعور کو نوازا جائے۔ اس طرز فکر کے لزومتی ہونے کی ممکنہ فردِ جرم کے حضور، گوہا عوام کی (اس لزوم کی جگہ پر) ایک تعریف وضع کرتا ہے جو کہ صرف ایک ممیز-میں-شناخت ہی ہو سکتی ہے۔ وہ کھلے بندوں ایک حرکی طبق بندی گرِڈ تجویز کرتا ہے۔ یہاں تک کہ فہرست میں تیسرے گروہ، عوام اور کلاںساختی غالب گروہ کے درمیان کے حائلی گروہ کو بھی، جیسا تیسا، وسطیّت کے ایک مقام کے طور پر تعریف کیا گیا ہے، جیسا کہ دریدا نے اسے ایک ’ آنترہ ‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔ (1981)
1۔ غالب خارجی گروہ۔
2۔ کل ہندوستان سطح پر غالب دیسی گروہ۔
3۔ خطے اور مقامی سطح کے غالب دیسی گروہ۔
4۔ ’ عوام ‘ اور ’ مستضعف طبقات ‘ کی اصطلاحات کو یہاں [گوہا کی تعریف] تک مترادف کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس زمرے میں شامل سماجی گروہ اور عناصر، کل ہندوستانی آبادی اور ان سب کے درمیان آبادیاتی فرق کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں کہ ’ اشرافیہ ‘ بیان کیا گیا ہے۔
اس فہرست میں تیسری مد کو لیجیے – ان محتاط مؤرخین کی صورتحالی عدم تعیّن کا آنترہ یوں بتاتا ہے کہ جیسے وہ اس سوال سے گتھم گتھا ہوں کہ کیا مستضعفین بول سکتے ہیں؟
ایک کُل اور اپنے مجرد تصور میں لیا جائے تو یہ ۔۔۔ زمرہ ۔۔۔ اپنی ترکیب میں متنوع تھا اور بھلا ہو خطے کی اقتصادی اور سماجی پیش رفتوں کا، جو علاقہ بہ علاقہ مختلف ہیں۔ وہی طبقہ یا عنصر جو ایک علاقے میں غالب تھا۔۔۔ دوسرے علاقے میں مغلوبوں میں سے ہو سکتا ہے۔ اس سے رویوں اور اتحادوں میں کئی ابہامات اور تضادات پیدا ہو سکتے اور ہوئے تھے، خاص طور پر دیہی سفید پوشوں کے سب سے نچلے طبقے، کنگال زمینداروں، مالدار کسانوں اور بالاتر متوسط طبقہ کسانوں اور ان سب میں جو، مثالی طور پر، عوام کے زمرے یا مستضعف طبقات سے تھے۔
یہاں ’ تحقیق کا معروض ‘ یہ ہے کہ ’ [مد 3 کو ترکیب دینے والے] عناصر کی مخصوص نوعیت اور درجۂ انحراف کی مثالیہ سے تفتیش، نشان دہی اور پیمائش کی جا سکے اور تاریخی طور پر اس کی جگہ پر رکھا جائے۔ ‘ کسی مخصوص پروگرام کی ’ تفتیش، نشاندہی اور پیمائش ‘ کرنا: کہیں زیادہ لزومیت پسند اور اسمیاتی ہو گا۔ البتہ ایک پراسرار طریقکاری امر کارفرما ہے۔ میں نے اس پر بحث کی ہے کہ، فوکالٹ-دیلوزے گفتگو میں، ایک مابعدنمائندگیت پسند ذخیرۂ الفاظ ایک لزومیت پسند ایجنڈے پر پردہ ڈالتا ہے۔ مطالعاتِ مستضعفین میں، سامراجپسندانہ علمیاتی، سماجی اور مضمونی نقوش کے تشدد کے سبب، لزومیتی شرائط پر فہم میں لایا گیا منصوبہ اختلافات کی ایک انقلابی متنی تمرین میں گامزن ہونا چاہیے۔ گروہ کی تفتیش کا مقصود، عوام تو خیر نہیں بلکہ علاقائی اشرافی-مستضعف کا ایک تیرتا ہوا سا حائلی منطقہ ہونے کی صورت میں – عوام یا مستضعفین – جنہیں بذاتِ خود اشرافیہ سے اختلاف میں تعریف کیا گیا ہے، کے مثالیہ سے انحراف ہو گا۔ یہ اس ساخت کی جانب ہے جدھر تحقیق کا رخ ہے، ایک محمول جو پہلی دنیا کے انقلابی دانشور کی ذاتیتشخیصکردہ شفافیت سے کہیں مختلف ہے۔ ایسے خلا کو کون سی اسمیات ٹھیک کر سکتی ہے؟ خواہ انہیں اس بات کا ادراک ہو یا نہیں – درحقیقت گوہا ’عوام ‘ کی اپنی تعریف کو آقا و غلام کی جدلیات میں دیکھتا ہے – ان کا متن خود اپنے عدم امکان کی شرائط کو اپنے امکان کی شرائط کے طور پر از سر نو لکھنے کے مشکل ہدف پر بات کرتا ہے۔
علاقائی اور مقامی سطحوں پر [غالب دیسی گروہ]۔۔۔ اگر سماجی طبقبندی کے نظم مراتب کے اعتبار سے کل ہندوستانی غالب گروہوں سے کمتر ہیں، تو وہ اپنے سماجی وجود سے وابستہ مفادات کی موافقت میں نہیں بلکہ ثانیالذکر کے مفادات پر کام کرتے رہے۔ ’ جب یہ لکھاری، اپنی لزومیاتی ہوئی زبان میں، درمیانی گروہ کے مفاد اور عمل کے درمیان فاصلے کے بارے میں بولتے ہیں، تو مسئلے کے بارے ان کے نتائج، دیلوزے کے خود آگاہ بھولپن کی زبانی ادا کیے ہوئے کی بجائے مارکس کے نزدیک تر ہوتے ہیں۔ گوہا، مارکس کی طرح، مفادات کے بارے میں شہوانی وجود کی بجائے سماجی وجود کی شرائط میں رہ کر بات کرتا ہے۔ اٹھارہ برومیر میں دیا گیا نامِ پدر متخیّلہ، طبقہ گروہ یا عمل کی سطح پر، اس پہ زور دینے میں مدد کر سکتا ہے، ’ اپنے وجود سے سچا توافق ‘ کنیتی ہونے کی حد تک مصنوعی اور معاشرتی ہے۔ ‘
مد 3 میں بتائے گئے درمیانی گروہ کی بات کافی رہی۔ ’حقیقی ‘ مستضعف گروہ، جس کی شناخت اس کا مختلف ہونا ہے، ایسا کوئی ناقابلِ نمائندگی مستضعف موضوع نہیں ہے جو اپنے بارے جان اور بول سکتا ہو؛ دانشور کے پاس یہ حل ہے کہ نمائندگی سے گریز نہ کیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نمائندگی کرنے والے دانشور کو راغب کرنے والی شے پیش کرنے کے لیے موضوع کے خطِ سفر کا سراغ اب تک نہیں لگایا گیا۔ ہندوستانی گروہ کی خفیف سی تاریخ دادہ زبان میں، سوال یہ بنتا ہے، عوام کے شعور کو کیسے چھوا جائے حتیٰ کہ جب ہم ان کی سیاست کو زیرِ تفتیش لاتے ہیں؟ وہ کون سا نوائی شعور ہے جس سے مستضفعین بول سکتے ہیں؟ ہندوستانی قوم کے شعور کی ترقی کو از سر نو لکھنا، بہرکیف، ان کا منصوبہ ہے۔ سامراج کا منصوبہ بند عدم تسلسل، اس کا طرز کلام چاہے کتنا ہی پرانی وضع کا کیوں نہ ہو، پوری قوت کے ساتھ اس منصوبہ کو ’ [پئیر ریوئیر کی] کہانی کو گھیرے ہوئے طبی اور عدالتی میکانزموں کو مرئی بنا دینے ‘ سے ممیّز کرتا ہے۔ فوکو نے یہ بجا کہا ہے کہ ’ ان دیکھے کو مرئی میں بدلنے کا مطلب سطح میں تبدیلی بھی ہو سکتا ہے، اپنے آپ کو مواد کی اس تہہ سے مخاطب کرنا جس کی اب تک تاریخ کے لیے کوئی مناسبت نہیں تھی اور جسے کسی اخلاقی، جمالیاتی یا تاریخی قدر کا حامل تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ ‘ میکانزم کو مرئی میں بدلنے سے فرد کے تبدّل تک ایک پھسلن ہے، دونوں ’ کسی قسم کے (موضوعاتی] تجزیے، خواہ نفسیاتی، تحلیل نفسی یا لسانی ہو، سے گریزاں ہیں ‘ ، یہ ایک مسلسل مصیبت ہے (فوکو 1980: 50-49)۔۔۔۔
جب ہم مستضعفین کے شعور کے متلازم سوال پر آتے ہیں، تو کاوش کی ان کہیوں کا خیال اہم ہو جاتا ہے۔ سماجی متن کی اشاریہ پذیری میں، شورش و بغاوت کی نزاکتیں ’فرمودہ ‘ کے مقام پر جاگزین ہوتی ہیں۔ فرستندہ- ’دہقان ‘ – کی ایک ناقابل بازیافت شعور کا اشارہ دینے والے کے طور پر نشان اندازی ہوتی ہے۔ جہاں تک گیرندہ کی بات ہے، ہمیں پوچھنا چاہیے کہ ایک ’ شورش ‘ کا ’ حقیقی گیرندہ ‘ کون ہے؟ مؤرخ، جو ’ شورش ‘ کو ’ متن برائے علم ‘ میں ڈھالتا ہے، کسی اجتماعی ارادہ کے حامل سماجی اقدام کا واحد ’گیرندہ‘ ہے۔ اس گمشدہ اصل کے لیے ماضیپرستی کا کوئی امکان نہ ہوتے ہوئے، مؤرخ کو چاہیے کہ (ممکنہ حد تک) خود اپنے شعور (یا شعوری اثر، جیسا کہ مضمونی تربیت میں کارفرما ہوتا ہے) کی فریاد کو روکے رکھے، تاکہ ایک شورشی-شعور میں گنٹھی ہوئی شورش کی نزاکت، ایک ’ تفتیش کے معروض ‘ میں، یا اس سے بھی بدتر، نقالی کے ایک نمونے میں منجمد ہو کر نہ رہ جائے۔ شورش کے متون سے دلالت پانے والا ’ موضوع ‘ غالب گروہوں میں نوآبادیاتی موضوع کو عطا کی گئی بیانیہ عنایات کے لیے صرف ایک معکوسامکان کا کام ہی دے سکتا ہے۔ مابعد نوآبادیاتی دانشور جانتے ہیں کہ ان کا مراعتی حصہ ان کا خسارہ ہے۔ اس میں وہ دانشوروں کے لیے ایک نظیر ہیں۔
یہ بات جانی مانی ہے کہ (سامراج کے مستضعف کی بجائے) تانیث کا خیال ردِتشکیلی تنقید کے اندر اور فیمینسٹ تنقید کی کچھ شکلوں کے اندر ملتا ہے۔ مؤخر الذکر صورت میں، ایک ’ عورت ‘ کے روپ کو مسئلہ درپیش ہے، وہ جس کی غیر معین کے طور پر کمترین پیش بینی پہلے سے ہی لِنگمحوری روایت میں دستیاب ہے۔ مستضعف علم التواریخ ایسے طریقہ کار کے سوالات اٹھاتا ہے جو ایسے حیلے کے استعمال کا انسداد کرے۔ عورت کے ’ روپ ‘ کے لیے، عورت اور خاموشی کے درمیان تعلق کے لیے خود عورتیں ہی سازباز کر سکتی ہیں؛ نسلی اور طبقاتی فرق کو بھی اس الزام کے تحت عمومی شمول دیا جا سکتا ہے۔ مستضعف علم التواریخ کو ایسی اداؤں کے عدم امکان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سامراج کا تنگ نظر علمیاتی تشدد ہمیں اس عام تشدد کا غیر کامل سا تمثیلی قصہ سناتا ہے جو کہ علمیاتی معارف کا ہی ایک امکان ہے۔
مستضعف موضوع کے مٹائے ہوئے سے خطِ سفر کے اندر، جنسی اختلاف کی روش دوہری متاثر ہوئی ہے۔ سوال شورش میں نسوانی شرکت کا نہیں ہے، یا محنت کی جنسی بانٹ کے زمینی ضابطوں کا بھی نہیں، دونوں کے لیے ’ثبوت ‘ تو ہیں ہی۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ، نوآبادیاتی تواریخی معروض اور شورش کے موضوع، ہر دو حیثیتوں میں، صنف کی نظریاتی تعمیر مرد کو غالب رکھتی ہے۔ اگر، نوآبادیاتی پیداوار کے سیاق و سباق میں، مستضعف کی کوئی تاریخ نہیں اور وہ بول نہیں سکتا، مستضعف بطور عورت اور بھی زیادہ سایہ نشین ہے۔
ماخذ: https://jan.ucc.nau.edu/~sj6/Spivak%20CanTheSubalternSpeak.pdf
____________________________________________
توضیحات (از مترجم)
مُستَضعِفِین: لاطینی لفظ Subaltern کو مابعد نوآبادیاتی سیاسی فکر میں بطور اصطلاح اطالوی مفکر انطونیو گرامچی نے اچھالا دیا تھا۔ اردو میں قرآنی تاویلات سے ماخوذ عربی لفظ ’’ مستضعفین ‘‘ چند دہائیوں سے اسلامی سیاسی تحاریر اور تحاریک میں زیر بحث ہے۔ متفاوت سیاق و سباق کے باوجود، ہر دو اصطلاحات کی بنیادی تعریفات میں مماثلت کی بدولت یہاں انہیں باہم مترادف تصور کیا گیا ہے۔ ہر دو مفاہیم سے مشترک مراد ایسا گروہ ہے جسے اقتصادی، ثقافتی، جغرافیائی، سیاسی یا دیگر طور پر طاقت سے محروم رکھا گیا ہو۔
موضوعی اثر: (subject-effect) ’’ میں پھر بتدریج مستضعف شعور کی بازآوری کی طرف اس حیثیت میں نقشہ کشی پر مائل ہوں، جسے پسِساختیاتی محاورے میں مستضعف موضوعی اثر کہا جا سکتا ہے۔ اس کی تدبیر مختصراً حسبِ ذیل کی جا سکتی ہے: کہ وہ جو ایک موضوع کے طور پر کارفرما معلوم ہوتا ہے، ایک مہیب غیرمسلسل تاروپود کا حصہ ہے۔۔۔ ایسی ڈوریوں سے بنا ہوا جو سیاست، نظریات، اقتصادیات، تاریخ، جنسیت، زبان وغیرہ سے عبارت ہو سکتی ہیں۔۔۔ ایسی متنوع جبریات کی متعین کردہ ڈوریوں کی مختلف گِرہبندیاں اور ترکیبات، جو خود انگنت امورِ حال پر منحصر ہوتی ہیں، ایک کارفرما موضوع کا اثر پیدا کرتی ہیں۔ تاہم تسلسلپسندانہ اور متنوع سوچے سمجھے شعور کی نشانی یہ ہے کہ وہ اس اثر یا معلول کے لیے ایک مسلسل اور متنوع علت کا متقاضی ہوتا ہے اور یوں ایک خودمختار اور قادر موضوع کو قائم کرتا ہے۔‘‘ (گائتری سپیواک، ’ In Other Worlds ‘ : روٹلیج 1988، ص 204)
ازنِ روایت: (permission to narrate) فلسطینی نژاد امریکی مستشرق ایڈورڈ سعید کے مضمون کی طرف اشارہ ہے جو کہ فلسطین میں بینالاقوامی قوانین کی اسرائیلی خلاف ورزیوں سے متعلق میکبرائڈ کمیشن رپورٹ کی امریکہ میں عدم پذیرائی کے ردعمل میں لکھا گیا تھا۔ سعید نے فلسطینی قومیت اور قومی بیانیے کے لیے اسرائیل اور مغرب کے تردّد کو زیر بحث لانے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر نوم چومسکی کی The Fateful Triangle پر آراء دی ہے جو سعید کے بقول انسانی بدعنوانی، حرص اور علمی بددیانتی سے پردہ اٹھاتی ہے۔ طاقت کے ایوانوں سے دوری ایک راوی کو ناانصافی کا اندراج کرتے ہوئے نظریات سے آزادی عطا کرتی ہے۔ سعید ایک نظریۂ ادراک کی ضرورت، علمی سرگرمی کے نظریے، اور مخصوص مسئلے اور تاریخی و جغرافیائی حالات سے متعلق نظریاتی ساختوں کی یادداشت پر زور دیتا ہے۔ اس کے نزدیک قومی شناخت کی تلاش کسی ماورائے تاریخ، آفاقی عقلیت کے ذریعے ممکن نہیں۔
آنترہ: [سنسکرت: انترا (अन्तरा) بمعنی درمیانی وقفہ یا خلا۔ فرانسیسی antre بمعنی غار] دریدا نے ملارمے (Mallarmé) کی نقالی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ لفظ استعمال کیا، جس کا سوانگ نہ تو عین حقیقت ہے اور نہ ہی وہ حقیقت کی جانب اشارۂ محض ہے۔ پسِساختیات میں معنی نما (signifier) اور تصورِ معنی (signified) اپنے اپنے افتراقات کی بدولت اپنی جگہوں سے متواتر کھسکتے رہتے ہیں، آنترہ ان دونوں کے درمیان جاگزین ایک جَوف سے عبارت ہے۔
علّوی تصورِ معنی: ((Transcendental Signified پسساختیاتی فکر اور رد تشکیلی (Deconstructive) منہاج میں ایک تصور معنی اپنے افتراق کی بدولت ایک چھاپ (trace) کے توسط سے دوسرے تصور معنی سے وابستہ ہوتا ہے اور یوں وابستگی کی ایک لامتناہی کڑی بنتی ہے۔ یہ کڑی ہمیں مطلق، علّوی تصور معنی تک لے جاتی ہے جو زبان اور متونیت کی اقلیم کے اندر وضع ہوتا ہے۔ دریدا کے نزدیک ایک مستحکم فکری مباحثہ ایک مابعدالطبیعی اساس کا محتاج ہوتا ہے۔ علوی تصور معنی کسی بھی ساخت کے قلب میں اصلالاصول کی حیثیت رکھتا ہے۔
اٹھارہ برومیر میں نامِ پدر متخیلہ: کارل مارکس کا رسالہ Der 18te Brumaire des Louis Napoleon اٹھارہ برومیر 1851 میں لوئی، نپولین سوم کے فرانسیسی قومی اسمبلی کو تحلیل کر کے طاقت میں آنے کے حالات و واقعات سے متعلق ہے۔ تحلیلِ نفسی میں نامِ پدر (nom du père) کا تصور فرانسیسی نفسیات دان ژاک لاکاں نے پیش کیا جو ایڈیپس الجھن اور علامتی دستور میں باپ کے کردار کو زیر بحث لاتا ہے۔ علامتی دستور (المعروف: بڑا غیر) سے مراد لسانی ابلاغ، بینالموضوعی تعلقات، نظریاتی مروّجات کے علم، اور قانون کو ماننا ہے۔ باپ کا نام تسلیم اور اختیار کیے جانے کے بعد نامِ پدر بچے کے علامتی دستور کو قابو میں رکھتا ہے۔ مارکس کے رسالے میں دیے گئے وقائع میں انگریز عوام اور کرامویل اپنے بورژوا انقلاب کے لیے عہدنامۂ قدیم سے گویائی، جذبات اور فریب مستعار لیتے ہیں۔ جون 1848 کی شورش میں تمام طبقات ’ ملکیت، خاندان، مذہب اور قاعدہ ‘ کے نام پر پرولتاریہ کے خلاف ایک ہو جاتے ہیں۔ 1848 کا فرانسیسی جمہوریائی آئین انفرادی آزادی، آزادئ اظہار، آزادئ صحافت، آزادئ وابستگی، آزادئ اجتماع، تعلیم اور مذہب کی آزادی کو تحفظ دیتا ہے جبکہ صدر کو بادشاہ جیسے اختیارات سے نوازتا ہے اور قومی اسمبلی مارکس کے بقول انقلاب کو بورژوا درجے تک سکیڑ لیتی ہے، وغیرہ۔ جبکہ دیلوزے کی مذکورہ گفتگو میں ایسی لزومی تصویر کشی سے تامل ملتا ہے۔
پیئر ریویئر کی کہانی: پیئر ریویئر 1835 میں فرانسیسی علاقے نارمنڈی کے ایک گاؤں میں اپنی ماں، بہن اور بھائی کا قتل کر کے گاؤں سے فرار ہوا۔ مشیل فوکو نے Moi, Pierre Rivière کے نام سے اس کے بیانات، یادداشتوں اور مقدمہ کی دستاویزات مرتب کیں۔ فوکو ابتدائیے میں لکھتا ہے: ’’ میرے خیال سے جس بات نے ہمیں کام کرنے کا عزم دیا، ہمارے مفادات اور طرز فکر کے تمامتر اختلافات کے باوجود، یہ تھی کہ یہ ایک ’’ دستاویزی مِسل ‘‘ تھی، یوں کہیے، ایک مقدمہ، ایک معاملہ، ایک وقوعہ جس نے ایسے بیانیوں کا ایک سنگم فراہم کیا جو اپنی اصل میں، تنظیم اور کارفرمائی میں باہم مختلف تھے – صوبائی ججوں، استغاثہ اور (ماہر نفسیات) ایسکیرول کے بیانیے؛ اور اپنے شہردار اور حلقے کے پادری کے آگے گاؤں والوں کے؛ اور آخر ازاں، خود قاتل کے بیانیے۔ سب کے سب، ایک ہی چیز پر بات کرتے ہیں یا کرتے نظر آتے ہیں؛ بہر کیف، ان تمام بیانیوں کے سر کا بوجھ 3 جون کا وقوعہ ہے۔ لیکن اپنی کلیّت اور اپنے تنوع میں وہ نہ ہی ایک جامع کام سامنے لاتے ہیں اور نہ ہی کوئی مثالی متن، بلکہ ایک عجیب سا مقابلہ، ایک تصادم، ایک طاقت کا تعلق، بیانیوں کے درمیان اور بیانیوں کے راستے ایک لڑائی ہے۔ اور پھر بھی، اسے محض ایک واحد لڑائی نہیں کہا جا سکتا؛ کیونکہ مختلف جنگیں ایک ہی وقت میں لڑی جا رہی تھین اور وہ ایک دوسرے سے آ ملی تھیں۔ ‘‘ اسپیواک کے بقول محکوموں کے متون کی نمائندگی اور تجزیہ کرنا اور حاکم گروہوں کی نسبت ان کے مقام سے پردہ اٹھانے کا کام فی زمانہ مغرب کے سیاق و سباق میں مشیل فوکو کے سوا کسی دیگر دانشور نے نہیں کیا۔