دوسری تقریر۔ علامہ محمد اسد (ترجمہ: عاصم رضا)
نوٹ: بیسیویں صدی میں فکرِ اسلام کا مطالعہ کرنے والے علامہ محمد اسد کے نام سے لاتعلق نہیں رہ سکتے ۔ قیام ِ پاکستان کے فوری بعد اگست 1947ء کے اخیر سے محمد اسد کی سات تقاریر پر مبنی ایک سلسلے کو ریڈیو پاکستان سے نشر کرنے کا آغاز ہوا ۔ ان تقاریر کے انگریزی متون ’’مسلمانوں سے خطاب‘‘ کے عنوان سے علامہ محمد اسد کی بیوہ محترمہ پولا حمیدہ اسد صاحبہ نے ’’ہمارا قانون اور دیگر مضامین‘‘ نامی کتاب میں شامل کیے جس کی پہلی اشاعت 1986ء میں ہوئی ۔ گزشتہ برس ان تقاریر کو پہلی مرتبہ اردو زبان کا قالب نصیب ہوا نیز اگست 2018ء میں ’’ماہنامہ اردو ڈائجسٹ‘‘ کےآزادی نمبر کے ذریعے ان اردو تراجم کی قسط وار اشاعت کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ان تقاریر کی بیش بہا اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تقاریر کے اردو تراجم کو انٹرنیٹ کے ذریعے قارئین تک پہنچایا جا رہا ہے ۔
دو روز قبل میں نے اپنی گفتگو میں اس نکتے کو اجاگر کیا تھا کہ پاکستان کے لیے ہماری جدوجہد اورآخر کار آزادی کا حصول مسلمانوں کی ا س بنیادی خواہش سے قوت پکڑتا ہے کہ وہ اپنے زاویہ نگاہ اور اپنے طرز زندگی کو سیاسی حقیقت کی صورت میں ڈھالنا چاہتے ہیں ۔ تمام مہذب دنیا میں اس خواہش کو ایسی شے سمجھا جاتا ہے جو داخلی طور پر اپنا اخلاقی جواز رکھتی ہے یعنی انسان اپنے اخلاقی تصورات کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دینے کا پیدائشی حق رکھتا ہے بشرطیکہ وہ تصورات دوسرے انسانوں کو نقصان پہنچانے کا عندیہ نہ دیتے ہوں ۔ اب ایک آزاد پاکستان کا ہمارا دعوی ٰ بعینہٰ ایسے ہی حق پر مبنی تھا اور ہے ۔ جب ہم نے ایک ریاست کا مطالبہ کیا جس میں مسلمان قوم آزادی کے ساتھ اپنی روایات کو پروان چڑھا سکے تو ہم نے خدا کی زمین میں سے اپنے جائز حصے سے بڑھ کر تو کچھ نہیں مانگا۔ ہم نے پر امن زندگی گزارنے کے لیے ایک دولت مشترکہ سے زیادہ کچھ نہیں مانگا جہاں نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ دوسرے مذاہب کے ان تمام افراد پر بھی جو ہمارے علاقے کو زندگی بسر کرنے کے لیے منتخب کر لیں ،مسلم ذہانت فلاح اور آسودہ حالی مہیا کرتے ہوئے آزادی کے ساتھ آشکار ہو سکے ۔ ہمارے رہنماؤں نے جن میں قائد اعظم سرفہرست ہیں ان گنت مواقع پر اس بات کو دنیا پر واضح کیا کہ پاکستان کی مسلم ریاست کے قیام کا مطلب غیر مسلموں کا استحصال نہیں تھا اورنہ ہی ہو سکتا ہے بلکہ اس کے برعکس ، ہمارا ہر ایک شہری خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ، اس تحفظ پر ہمیشہ بھروسہ رکھے جو ایک مہذب ریاست اپنے وفادار شہریوں کو دینے کے لیے پابند ہے اور جس کی اسلام نے ہمیں واضح تاکید کی ہے ۔
تاہم ، غیر مسلم دنیا نے ہمارے مقاصد اور جدوجہد کو گرم جوشی سے نہیں لیا ہے ۔گرچہ کوئی بھی بقائمی ہوش و حواس کسی بھی دوسری قوم مثلا آئرش، پولش یا چینی باشندوں کے لیے حق خودارادیت کے نہ ہونے کا سوچ بھی سکے، ہم مسلمانوں کو بظاہر اس حق کے بالکل ہی قابل نہیں سمجھا گیا۔ فی الوقت ، میں اس تفریق کی وجوہات میں نہیں جاؤں گا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ (بطور قوم ) ہماری ہستی کے نازک دور میں غیر مسلم اقوام کے ہاں ہمارے لیے کوئی ہمدردی نہیں تھی ۔آزادی کے لیے ہماری شدید جدوجہد کو ہمارے بہت سے ناقدین کی جانب سے ’’رد عمل پر مبنی‘‘ کا عنوان دیا گیا لہذا ناپسندیدہ ٹھہری ۔ بدیسی اخبار وں اور غیر مسلم ملکی اخباروں نے ہمارے مطالبہ پاکستان کو ’’سیاسی شعبدہ‘‘ کہا کہ جو ہندوستان کے مسلمانوں کے لیےپہلے سے زیادہ سرکاری نوکریوں اور معاشی مفاد کے حصول کی خاطر سودے بازی کی ایک چال سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے ۔ مختصراً، ہمارے علاوہ کسی دوسرے نے بمشکل ہی اس بات پر یقین کیا کہ مطالبہ پاکستان ایک معقول اور اخلاقی طور پر مضبوط دعوی ٰ ہے یا ہم پاکستان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ ہم نے آخر کار پاکستان کو حاصل کر لیا ، اس بنا پر نہیں کہ بیرونی دنیا سے ہمیں کوئی امداد ملی بلکہ اپنے مقصد کی سچائی پر زبردست ایمان رکھنے کی بدولت ۔ اور اب چونکہ ہم پاکستان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ایک اسلامی ریاست بنانے کی عظیم الشان مہم کا آغاز کر چکے ہیں توظلمت و شر کی تمام قوتیں اس سب کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ہم پر چھوڑ دی گئی ہیں جو ہم نے حاصل کیا ہے ۔
جیسا کہ ہمارے چوٹی کے رہنماؤں کی جانب سے اشارہ کر دیا گیا ہے ، اس بات میں شک کرنے کی بمشکل کوئی گنجائش ہے کہ پاکستان اپنے آپ کو جس المناک صورت حال میں گھرا ہوا پاتا ہے وہ حادثاتی طور پر پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ جذبات کا نتیجہ نہیں ہے ۔ سر حد کے پار ہمارے لوگوں پر ہونے والے مظالم اور مشرقی پنجاب و دہلی کی مسلم آبادی کو گھیرنے والا تباہی و بربادی کا طوفان، چالاکی سے بنائے گئے اور سفاکی سے نافذ کئے جانے والے منصوبے کے اہم اجزاء ہیں ۔ یہ دکھائی پڑتا ہے کہ ہمارے مخالفین اپنے سامنے دہرا ہدف رکھتے ہیں۔ اول ، وہ پنجاب کے ان علاقوں کی مسلمان آبادی کا یقینی خاتمہ کرنا چاہتے ہیں جو تقسیم کے وقت اُن کے حصے میں آئی ہے ۔ دوم ، وہ پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کے لیے ایسی مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے لیے اپنی توانائیوں کو تعمیری کاوشوں میں کھپانے کو ناممکن بنا دیں گی ۔ بالکل واضح ہے کہ ہمیں اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے امن اور نظم و ضبط سے کام کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا ہے ۔ ہمارے مخالفین ہمیں بحر ِ تذبذب میں غرق کردینا چاہتے ہیں ۔ ہماری سرحدوں سے پرے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی تباہی، زندہ بچ جانے والوں کی بے دخلی ، لاکھوں نادار مہاجرین کے امڈتے ہوئے سیلاب اور ہماری ہستی کی معاشی بنیادوں کو توڑنے کی بدولت مخا لفین ہمارے لیے ترقی کی راہ کو مسدود کرنا چاہتے ہیں ۔ مختصراً ، مخالفین ہمارے لئے اس بات کو قطعی ناممکن بنانا چاہتے ہیں کہ ایک المنا ک لمحہ موجود کی فی الفور اور روزمرہ ضرورتوں سے ماورا توجہ کر سکیں اور اس طرح اسلامی ریاست کی جانب ہمارے سفر کو آغاز میں ہی روک دینا چاہتے ہیں ۔
یہ حقائق ہیں اور آپ میں سے کوئی بھی ان سے ناواقف نہیں رہ سکتا ۔ اگر میں اب ان تمام کو بیان کرتا ہوں تو اس کا مقصد ان چیزوں کی تکرار نہیں ہےجن سے آپ پہلے ہی بخوبی واقف ہیں بلکہ اپنے سامعین سے اور ان کے ذریعے تمام ملت اسلامیہ سے ایک نہایت اہم اور سنجیدہ سوال پوچھتا ہوں : کیا ہم یعنی اسلام جنھیں وراثت میں ملا ہے محض اتنی بات پر اپنے دل ہار دیں گے کہ ہمیں سخت رکاوٹیں درپیش ہیں ؟کیا ہم جو مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کی امید ہیں اُس بارِ امانت سے غداری کرنے جا رہے ہیں جواللہ تعالیٰ نے ہمارے کندھوں پر ڈالا ہے ؟ کیا ہم اپنی ملت اسلامیہ کی منتشر خیالی کو بڑھاوا دینے ، اپنےدامن ِ اتحاد کو تار تار کرنے ،تخریبی تنقید کے ذریعے اپنے رہنماؤں کی جدوجہد کو مفلوج کرنے ، باہمی تعاون سے انکار ، لاقانونیت اور حقیر ذاتی حرص کے باعث اپنے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے جا رہے ہیں ؟
ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے بیرونی مسائل کا جدید زمانے میں کوئی ثانی نہیں ہے اور جن خطرات کا ہم کو سامنا ہے وہ یقیناً ہمارے وہم و گمان سے بڑھ کر ہیں ۔ لیکن کیا اسی حقیقت سے ہمیں یہ تحریک نہیں لینی چاہیے کہ اللہ تعالی ٰ نے ہمیں ایک ایسے امر کے لیے منتخب کیا ہے جس کی جدید زمانے میں کوئی مثل نہیں ہے اور غالباً اللہ تعالی ٰ کی منشا ہے کہ ہم اپنی توقعات سے بہت زیادہ حاصل کریں ؟
تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ عظمت ، کامرانی اور کامیابی کا راستہ ایک سنگلاخ راستہ ہے اور وہ ہاتھ جو آزادی کےمقفل دروازوں کو کھولتے ہیں اُن کے لیے لازم ہے کہ اِن دروازوں کے کواڑ کھولنے سے پہلے خون کا عطیہ دیں ۔ لاریب ، قوموں کی زندگی میں کوئی بھی قابل ستائش کامیابی مصائب اور اشک و خون کے دریا سے گزرے بغیر کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکتی ۔ یہی وجہ تھی کہ سردار عرب محمد(ﷺ) اور ان کے مٹھی بھر وفادار صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالی اجمعین) کو مکہ مکرمہ میں سنگ دلانہ عقوبت کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی جائے پیدائش سے بے دخل کر دیے گئے ۔ تاہم کیا وہی تکالیف آخر کار ان عظیم الشان کامیابیوں کے ماتھے کا جھومر نہیں بن گئی تھیں جو دنیا نے آج تک دیکھی ہیں ؟ ہمیں اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے ۔ اگرچہ ہماری جدوجہد اور جو کچھ بھی ہم حاصل کر سکے ، اُس کا کوئی تقابل نبی کریم (ﷺ ) اور صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالی اجمعین) کی جدوجہد اور کامیابیوں کے ساتھ کبھی نہیں کیا جا سکتا ہے تاہم چودہ صدیوں کے بعد بعینہ ویسے ہی مقاصد کی خاطر ہماری ملت اسلامیہ اپنی کاوشوں کے لیے اسی اسوہ حسنہ سے تحریک حاصل کرتی ہے یعنی ایک اسلامی ریاست کا قیام جس میں لاالہ ٰ الااللہ کے کلمات کو اقتداراعلیٰ حاصل ہو سکے ۔ اور غالباً ہمارے مقصد کی عظمت کے پیش نظر ہی ہم سے کسی بھی دوسری قوم کے مقابلے میں زیادہ جانوں کی قربانی اور مصائب کا عظیم الشان بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری کا تقاضا کیا جا رہا ہے ۔ تاکہ ہم اپنے آنے والے مستقبل کی خاطر قوت کو مجتمع کریں اور خالص ہو جائیں ۔
لہذا آئیے ، خود پر بیتنے والے ان تمام ہولناک واقعات سے نئی شجاعت ، جواں امید اور سب سے زیادہ تازہ پختہ ارادے کو پیدا کریں ۔ آئیے ، اپنی بینائی کودور نظر آنے والے اُس افق پر مرکوز کر لیں جس پر اللہ تعالیٰ نے اس ملت اسلامیہ سےکیے جانے والے اس قرآنی وعدے کو نورانی اور درخشاں حروف میں تحریر فرمایا ہے : ’’اگر تم مؤمن ہو تو غالب رہو گے‘‘ (3: 139، ترجمہ از امین احسن اصلاحی)۔ میرے مسلمان بھائیو اور بہنوں ، ’’اگر تم مؤمن ہو‘‘ ہی ہمارے مستقبل کی کنجی ہے ۔