ماورائے خیر و شر (شجرۂ اخلاقیات)،باب دوم: فریڈرک نطشے (ترجمہ: عاصم رضا)

 In ترجمہ

دیباچہ

 باب دوم: طبعِ آزاد    (Free    Spirit)

24۔     اے مقدس صداقت    !  انسان کس قدر تسہیل و تعجیل  اور فریب کاری میں زندگی بسر کرتا ہے !  اس عجوبے  پہ نگاہیں جمانے  کے بعد کبھی بھی وادی حیرت سے چھٹکارا نہیں مل سکتا  ! ہم نے  کیسے اپنے اردگرد کی ہر ایک شے کو واضح، خود مختار ، سہل اور سادہ  بنا دیا ہے ! ہم کیسے اپنے حواس کو سطحیت، اپنے خیالات کو من موجی اٹکھیلیوں  اور نادرست   استدلال کا عادی بنا چکے ہیں !ایسا کیونکر ہو سکتا ہے کہ آغاز ہی سے  ہم ایک تقریباً ناقابل فہم  آزادی ، غفلت ، کوتاہ اندیشی ، ملنساری اور شگفتہ مزاجی یعنی حیات  سے لطف اندوز ہونے کی غرض سے اپنی جہالت کو برقرار رکھنے کی تگ و دو میں مبتلا ہیں ! اور آج تک   جہالت کی ایسی سنگلاح اور ٹھوس بنیاد پر ہی علم  کی پرورش ہو سکتی تھی ، نسبتاً کہیں زیادہ مضبوط ارادے یعنی  جہالت ، غیریقینیت اور تشکیک کی بنیاد پہ استوار خواہشِ علم ! کسی قسم کی مخالفت نہیں،  بلکہ اس میں نکھار کے واسطے ! لاریب ،  امید ہے کہ زبان ، خواہ کہیں کی ہو (یا کوئی بھی ہو) ، اپنے ادھورے پن (یا اناڑی پن) سے دست بردار نہیں ہو گی اور متناقض لفظیات کی صورت میں بروئے کار آتی رہے گی کہ صرف درجات (حقیقت و صداقت)  اور ان سے وابستہ متنوع پیش رفت ہی وجود رکھتی ہے ؛ بعینہ ، امید ہے کہ اخلاقیات کے مجسم بگلے بھگت جو اس وقت ہماری  ناقابل شکست ’’ انسانیت ‘‘ کا جزو ہیں ، ہمارے منہ میں فرقہ وارانہ الفاظ کو ٹھونسیں گے ۔  ہم  سبھی جگہ اس امر کو سمجھتے ہیں اور اس انداز پہ ہنستے ہیں جس کے تحت اس سادہ ، کامل مصنوعی اور موزوں تخیل کے نتیجے میں  جنم لینے والی یکسر  جھوٹی کائنات کے اندر،  جزرسی اعتبار سے بہترین علم ہماری بقا کی کھوج کرتا ہے : اس انداز پہ جس کے تحت مذکورہ علم خطا سے محبت کرتا ہے ، کیونکہ اپنی کارگزاری کی بدولت زندگی سے محبت کرتا ہے !

25۔     ایک ایسی  فرحت بخش شروعات کے بعد ، سماعت ایک سنجیدہ بات کو سننے کے واسطے آمادہ ہو گی ؛ یہ بات نہایت سنجیدہ اذہان کو متوجہ کرتی ہے ۔ اے فلسفیو اور محبانِ  علم و دانش ، احتیاط سے کام لو نیز شدائد و مصائب سے خبردار رہو ! حتی ٰ کہ اپنے دفاع میں !  ’’ صداقت کے واسطے ‘‘  درپیش تکالیف سے خبردار رہو !   یہ   انسانی  شعور کی تمام تر معصومیت اور کھری جانبداری کو کچل دیتی  ہیں ؛ یہ  اعتراضات کی بوچھاڑ اور خونیں ہنگاموں کے بالمقابل  تمہیں سربلند رکھتی ہیں ؛ یہ مدہوش کرتی ہیں ، حیوان کو جگاتی ہیں ، اور بے رحم بناتی ہیں جب خطرات ، تہمت  و افتراء ، شک و شبہات  ، دھتکار اور اس سے بھی بڑھ کر  شدید عداوت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ، تم کو زمین پہ سچ کے رکھوالے کی حیثیت سے اپنی آخری بازی کھیلنی پڑتی ہے   گویا کہ ” صداقت” رکھوالوں کی محتاج  ، ایک معصوم اور نالائق مخلوق  تھی  ! اور تم لوگ  غمناک چہروں کے حامل   سردار (نائٹ) ،   شہوانی  لوفر (Messrs    Loafers)  اور مکار (Cobweb-spinners)  ہو ! آخری بات ، تم بخوبی جانتے ہو کہ تمہارا اٹھایا ہوا نکتہ عبث ہے ؛ تم جانتے ہو کہ آج تک کسی فلسفی نے اس نکتے کو نہیں اٹھایا ہے ، اور عین ممکن ہے کہ تمہار ے مخصوص الفاظ اور پسندیدہ نظریات  کے اخیر میں استعمال ہونے والا  چھوٹا سا  سوالیہ نشان نسبتاً زیادہ سچائی کا حامل ہو ، بجائے اس امر کے کہ تم  عدالتوں اور معترضین کے سامنے تقدیس کے حامل خموش سوانگ بھرو   اور فاتحانہ نعرے بلند کرو ! اس کی بجائے راستہ چھوڑ دو ! روپوشی اختیار کرو ! اپنے چہروں پہ موجود نقابوں اور اپنی حرکات پہ ذرا دھیان دو کہ شاید ان کو غلطی سے تمہارا نعم البدل سمجھ لیا جائے یا پھر  وہ خوف میں مبتلا کر دیں ! اور دعا کرو ، سنہری جالی دار کام کے حامل  باغ کو مت فراموش کرو ! اور اپنے گرداگرد  لوگوں کو جمع کرو جو ایک باغ کی مثل   ہوں یا پھر شام کے وقت کی راگنی (music    on    the    waters) ، جب دن حافظے میں اتر جاتا ہے ۔ اچھی ، آزاد، زرخیز  اور بے فکر تنہائی کا انتخاب کرو ، جو تمہیں کسی بھی مفہوم میں  اچھا رہنے  کا حق  بھی دیتی ہو !  ہر ایک طویل جنگ انسان کو کس قدر زہریلا ،  عیار اور برا  (شخص ) بنا دیتی ہے جس کے خلاف بزور ِ قوت کھلم کھلا جنگ نہیں لڑی جا سکتی !  ایک طویل خوف  انسان کو کس قدر شخصی بنا دیتا ہے/ اپنی ذات میں غرق کر دیتا ہے  ، دشمنوں  ور ممکنہ دشمنوں کے انتظار میں  رہنے  والا ! لمبے عرصے سے نشان زدہ ، اور شدید اذیتیوں کے شکار ،  معاشرے کے  یہ اچھوت لوگ جو تارک الدنیا بھی ہیں اور   (اپنی ہی طرز کے )  اسپی نوزا  یا جیورڈانو برونو   بھی ۔ ان کا انجام  نرے  انتقام کے متلاشی اور زہر فروش  کی حیثیت سے ہوتا  ہے  ( صرف  اسپی نوزا کی اخلاقیات اور الہٰیات کی بنیاد کو ہی کھول دو! )  ، یہاں تک  کہ  یہ سب کچھ بہترین علمی پردوں کے پیچھے ہوتا ہے  اور غالباً وہ  خود بھی اس امر سے واقف نہیں ہوتے ۔  اور اخلاقی  غیض و غضب  کی حماقت کا تو  ذکر ہی نہ کرو  ،جو  کسی فلسفی کی بابت ایک یقینی سائن (نشان/اشارہ/علامت) ہے کہ فلسفیانہ مزاح کی حس اس کو چھوڑ چکی ہے ۔ فلسفی کی جانثاری  اور  ’’  صداقت کے واسطے ‘‘  اُس کی ’’ قربانی ‘‘ ، اُس کی گھات میں بیٹھنے والے کردار اور   شورش برپا کرنے والے اشخاص کو  روشنی میں لے آتی ہے ؛ اور اگر کسی نے  محض جمالیاتی تجسس  کے ساتھ اس کو آن گھیرا ہے  ، تو بیشتر فلسفیوں کے ضمن میں اس خطرناک خواہش کو سمجھنا آسان ہے کہ اُس کو ابتر  حالت میں دیکھا جائے  ( ایک ’’شہید‘‘کی صورت میں ہلاکت سے دوچار اور سٹیج پہ چیخ و پکار کرنے والے ایک مبلغ کی صورت میں ) ۔ ایسی خواہش کے حوالے سے صرف اس بات کا واضح ہونا لازمی ہے کہ  کوئی شخص کس قسم کی عینک کو استعمال کرے گا  یعنی  محض ایک اساطیری ڈرامے ، ایک مختصر مزاحیہ  ناٹک ، اور اس امر کے مسلسل ثبوت  کی صورت میں کہ ایک طویل اور حقیقی  المیہ (ٹریجڈی )  اپنے انجام پر ہے ، اس مفروضے کے ساتھ کہ ہر ایک فلسفی  اپنی نہاد میں ایک طویل  المیہ  رہا ہے  ۔

26۔     ہر ایک منتخب آدمی جبلی طور پہ ایک حصار اور خلوت کا متلاشی رہتا ہے ، جہاں وہ ہجوم ، آبادی ، اور خلقت سے چھٹکارا پا سکے یعنی جہاں وہ شاید اس امر کو بطور استثناء بھول جائے کہ ’’ انسان ہی قانون ہیں ‘‘ ؛ صرف اس صورت کو چھوڑ کے جس کے تحت اس کو ایک مضبوط تر جبلت کی بدولت ، ایک عظیم اور استثنائی مفہوم میں ایک ناظر کی حیثیت سے افراد کے سامنے جھکا دیا جاتا ہے ۔ انسانوں کےساتھ  اختلاط  کے دوران جو کوئی بھی نفرت ، آسودگی ،ہمدردی ، حزن و ملال اور خلوت پسندی کی بدولت گاہے بگاہے رنج و تکلیف کے کڑوے اور بے کیف رنگوں کی جھلک نہیں دکھاتا ، وہ شخص یقینی طور پہ اعلیٰ ذوق کا حامل نہیں ہے ؛ تاہم اس بات کو فرض کرتے ہوئے کہ وہ اس تمام بوجھ اور نفرت کو رضاکارانہ طور پر اپنے دامن میں نہیں بھرتا ، کہ وہ مستقل طور پہ اس سے اجتناب کرتا ہے نیز جیسا کہ میں نے کہا ، وہ اپنے حصار ذات میں خاموشی اور فخر کے ساتھ مخفی رہتا ہے ، تو ایسی صورت میں ایک بات یقینی ہے : اس کی تخلیق علم کے واسطے نہیں ہوئی تھی ، اس کے مقدر میں علم نہیں تھا ۔ اسی بناء پر ایک دن اُسے اپنے آپ سے یوں ہم کلام ہونا ہے : ’’ شیطان میرے اعلیٰ ذوق کو نگل جاتا ہے ! لیکن اس امر کو  استثناء  حاصل ہے یعنی میری ذات کے مقابلے میں ’قانون ‘ (معاشرہ) نسبتاً زیادہ دلچسپ ہے!‘‘۔ اور وہ جھک جائے گا اور سب سے بڑھ کر کہ وہ ’’باطن‘‘ میں اتر جائے گا ۔ اوسط بندے اور اس  کے نتیجے میں حاصل کردہ  قدرے زیادہ بناوٹی ، اپنے آپ سے آگے نکلنے والے ، بے تکلف اور برے اختلاط (تمام تر اختلاط برا ہے سوائے برابری کے حامل افراد کے مابین ) کا طویل اور سنجیدہ مطالعہ ، جو ہر ایک فلسفی کی تاریخ ِ حیات کے ایک لازمی حصے پہ مشتمل ہوتا ہے ؛ غالباً سب سے زیادہ ناموافق ، معیوب اور مایوس کن حصہ ۔ تاہم اگر وہ خوش قسمت ہے ، جیسا کہ علم و دانش کے ایک پسندیدہ بالک کو ہونا چاہیے ، وہ موزوں معاونت کو حاصل کر پائے گا جو اس کے کام کو آسان اور مختصر کر دے گی؛ میری مراد نام نہاد کلبیوں (cynics) سے ہے جو صرف  اپنے آپ ہی میں حیوان ، سطحیت/گھٹیا پن اور  ’قانون ‘ کو جانتے ہیں ۔ اور اسی اثناء میں وہ بہت زیادہ روحانیت کے حامل اور زودِ حس ہوتے ہیں کہ اپنی ذات اور اپنے ہی جیسے  ناظرین/گواہان کے سامنے ان کو  موضوع  گفتگو بناتے ہیں یعنی بعض اوقات وہ  اپنی ہی کھال میں اور  یہاں تک کہ کتابوں کے کاٹھ کباڑ  میں  مست رہتے ہیں ۔ کلبیت ہی وہ تنہا صورت ہے جس کے تحت روحیں راست بازی تک پہنچتی ہیں ، اور اعلیٰ درجہ کے انسان کے واسطے لازم ہے کہ وہ  تمام تر ادنیٰ یا عمدہ قسم کی کلبیت کے واسطے اپنی سماعتوں کو جگائے رکھے ، اور جب مسخرہ ٹھیک اس کے سامنے بے شرم ہو جائے یا سائنسی اسطورہ کھل کےاظہار کرے ، تو اپنے آپ کو مبارک باد دے ۔ ایسی بھی صورتیں ہیں جب جادو و سحر اور نفرت ایک دوسرے میں باہم پیوست ہو جائیں یعنی نیچر کی ایک غیر معمولی حرکت  کی بدولت ، عبقری بعض ایسے ناسمجھ مینڈھوں اور بوزنوں (بے دم کے بندروں ) کے ساتھ بندھ جاتا ہے ، جیسا کہ ایبی گالیانی (Abbe    Galiani) جو انتہائی فاضل ، دقیقہ شناس (باریک بین ) اور غالباً اپنی صدی کا سب سے سے زیادہ نجس آدمی تھا ۔ وہ والٹیئر سے کہیں زیادہ فاضل تھا اور اسی کے نتیجے میں کہیں زیادہ خاموش طبع تھا ۔ ایسا اکثرو بیشتر ہوتا ہے جیسا کہ اس جانب اشارہ کیا گیا ہے ، ایک بوزنے ( بے دم کے بندر) کے جسم پہ سائنسی دماغ  اور  ایک ادنیٰ درجے کی روح کے اندر غیرمعمولی صلاحیت ِ فہم  رکھ دی جاتی ہے جو کہ کسی اعتبار سے کمیاب واقعہ نہیں ہے بالخصوص اطباء (ڈاکٹروں ) اور اخلاقی ماہرین ِ عضویات کے  مابین  ۔ اور جب کبھی کوئی بنا کسی تلخی کے یا قدرے معصومیت کے ساتھ انسان کی بات کرتا ہے کہ اس کے ساتھ پیٹ لگا ہوا ہے جو دو قسم کی حاجات رکھتا ہے اور وہی انسان ایک عدد سر بھی رکھتا ہے ؛ جب کبھی کوئی صرف بھوک ، جسمانی جبلت اورخودنمائی کو حقیقی اور انسانی اعمال کے حقیقی محرکات سمجھتے ہوئے ان پہ نگاہ ڈالتا ہے ، کھوجتا ہے اور انھی پہ توجہ دینا چاہتا ہے ؛ مختصراً، جب کوئی شخص انسان سے متعلق ’’برا‘‘ تو نہیں ، البتہ  ’’سختی /شدت کے سات‘‘سے بات کرتا ہے ، اس وقت علم و دانش کے دلدادہ کو انتہائی توجہ اور جانفشانی سے کان لگا کر سننا چاہیے ؛ جہاں کہیں غیض و غضب (ناشائستگی) کے بغیر بات ہو رہی ہو ، تو اس کو  چاہیے کہ اپنے کانوں کو کھلا رکھے ۔ ایک مشتعل آدمی کے لیے اور وہ جو  ہمیشہ ٹسوے بہاتا رہتا ہے اور اپنے دانتوں سے خود اپنی (یا پھر اپنی جگہ کائنات ،  خدا یا معاشرے کی ) چیر پھاڑ کرتا  رہتا ہے ، عین ممکن ہے کہ شاید اخلاقی اعتبار سے ہنسنے والے اور اپنے آپ میں مطمئن رہنے والے عیاش سے بلند تر مقام پہ فائز ہو ، تاہم کسی بھی دوسرے مفہوم میں وہ نسبتاً زیادہ معمولی ، زیادہ  ہلکا  اور کم تر ہدایت و معلومات کا حامل ہے ۔ اور مشتعل آدمی  کی مثل کوئی شخص جھوٹا نہیں ہے ۔۔

27۔     اس امر کو سمجھنا دشوار ہے  بالخصوص جب کوئی  دماغ سے کام لیتا ہے نیز ان لوگوں کے درمیان دریائے گنگا کے تیز بہاؤ کی مانند نہایت جوش ولولے سے زندگی بسر کرتا ہے جو سوچتے ہیں اور اول الذکر کے برعکس کچھوؤں کی مانند سست رفتاری سے زندگی بسر کرتے ہیں ، یا پھر زیادہ سے زیادہ مینڈکوں کی طرح ایک دوسرے سے جدا جدا زندگی گزارتے  ہیں (میں خود ’’ تفہیمِ مشکلات  ‘‘ کی خاطر سبھی کام کرتا ہوں ) ۔ ایک انسان کو اس خیر اندیشی کے واسطے خوش دلی سے ممنون ہونا  چاہیے جس کا مقصد (کسی بھی  ممکنہ ) تعبیر میں تھوڑی بہت بہتری لانا ہو ۔ تاہم جہاں تک ’’اچھے دوستوں‘‘ کی بات ہے ، جو ہمیشہ دھیما مزاج رکھنے والے اور اس سوچ کے حامل ہوتے ہیں کہ دوستوں کی حیثیت سے ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ (ایک دوسرے کو) ہلکا سمجھیں ، تو ایسا کرنے میں بھلائی ہے کہ ان دوستوں کو غلط فہمی کے واسطے کھیل کا ایک میدان اور دھینگا مشتی کرنے کو ایک جگہ دے دی جائے ، یعنی انسان پھر بھی ہنس بول سکتا ہے ؛ یا پھر ایسے عمدہ دوستوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد شادمان رہنے میں بھی  عافیت ہے !

 28۔    ایک زبان کو دوسری زبان کے قالب میں ڈھالنے کے ضمن میں سب سے زیادہ دشوار ترین کام ، ایک  زبان کے اسلوب کی روانی (ٹیمپو)  کو دوسری زبان میں ڈھالنا  ہے ۔ ٹیمپو کی بنیادیں نسلی خصائص  میں گڑی ہوتی ہیں ، یا پھر زیادہ باریک بینی یعنی زبان کو ایک نامیاتی جسم سمجھتے ہوئے دیکھا جائے ، تو اس امر کا دارومدار اس اوسط رفتار (ٹیمپو)  پہ ہے جس کے مطابق وہ زبان ل مختلف النوع عناصر کو اپنا اندر سمو لیتی ہے ۔ ایمان داری سے ہونے والے تراجم موجود ہیں جو (درحقیقت) غیر ارادی طور پہ ہونے والی عامیانہ سازی کی حیثیت سے اصل متن کی قریب قریب تکذیب کے برابر  ہیں ، صرف اس وجہ سے کہ اصل متن کا جاندار اور ہنگامہ خیز  ٹیمپو  (جو کہ لفظ و اظہارمیں پائے جانے والے تمام تر خطرات کو مٹا دیتا ہے اور نظرانداز کر دیتا ہے )  ، وہ منتقل نہیں ہو سکتا تھا ۔ ایک جرمن اپنی جوش و خروش کے حوالے سے اپنی زبان کے ضمن میں  تقریباً عاجز ہے ؛ اس کے نتیجے میں شاید اس بات کو اخذ کرنا معقول ٹھہرے کہ وہی جرمن شخص  آزاد اور احساسِ حریت پہ مبنی فکر کے نہایت خوش آئند اور جراء ت مندانہ امتیازات میں سے بیشتر کو جنم دینے کے حوالے سے بھی معذور ہو ۔ اور جیسا کہ مزاح (buffoon) اور قدیم یونانی ڈرامہ (satyr) اپنے خیال اور ہیئت (یعنی جسم و شعور)  کے اعتبار  سے اس کے لیے اجنبی ہیں ، بعینہ اس  (جرمن ) کے واسطے  ارسٹوفینیز (Aristophanes) اور پیٹرونیوس (Petronius)  دونوں کو جرمن زبان میں منتقل کرنا  محال ہے ۔ جرمنوں کے یہاں موجود  تمام  بے ڈھب  ، گاڑھی لیس دار اور  بہت ہی زیادہ بے ڈھنگی ا شیاء  نیز  طویل ،  پیچیدہ اور  تھکا دینے والی کُل انواعِ اسالیب  ، متنوع انداز میں تھوک کے حساب سے پروان چڑھائی جاتی ہیں ۔ اس حقیقت کے اظہار پہ مجھے معاف کیجیے،  جلال و جمال کے باہمی آمیزے کی حامل گوئٹے کی نثر  بھی اس کلیے سے ماورا نہیں ہے ۔ وہ  ان ’’ پرانے اچھے وقتوں‘‘  کی عکاس ہے جس سے وہ تعلق رکھتی ہے ، اور ایک ایسے وقت کے تحت  جرمن ذوق کا اظہار ہے جب واقعی  ’’جرمن ذوق‘‘  (German    Taste) موجود  تھا جو اخلاقیات و آرٹ کے باب میں اٹھارویں صدی کے اوائل میں روکوکو(rococo) نامی فرانسیسی ذوق پہ مبنی تھا ۔  اپنی تمثیلی نیچر کی بنیاد پہ لیسنگ اس امر سے مستثنی ٰ ہے ، جس نے بہت کچھ سمجھا اور مختلف دائروں  میں مشاق تھا ؛ وہ بنا کسی مقصد کے بائل (Bayle) کا مترجم نہیں تھا ، اور جس نے  جانتے بوجھتے ہوئے ڈیدیرات (Diderot) اور والٹیئر ، بلکہ ان سے بھی بڑھ کے رومن مزاح نگاروں کے  سائے میں پناہ حاصل کی ۔  لیسنگ کو روانی (ٹیمپو) کے ضمن میں آزادئ طبع  (free-spiritism) سے رغبت تھی اور وہ جرمنی سے باہر نکل گیا ۔ تاہم جرمن زبان، یہاں تک کہ لیسنگ کی نثر کے اندر بھی ،  میکیاولی کے ٹیمپو  کی نقالی  کیسے کر سکتی تھی جو  اپنی کتاب ’’پرنس‘‘  (Prince) کے اندر  ہمیں فلورنس کی خشک اور  صاف ستھری ہوا میں سانس لینے کے قابل بناتا ہے نیز  نہایت سنجیدہ واقعات و حوادث کو ایک انتہائی تندوتیز لے میں پیش کرنے کے حوالے سے مدد فراہم نہیں کر سکتا  ہے ۔  شاید باہمی تقابل کے واسطے ایک فنکارانہ مبالغہ آرائی کے بغیر  ہی وہ طویل ، گراں ، دشوار اور خطرنات افکار  کو پیش کرنے کا بیڑا اٹھا لیتا ہے، اور(غالباً) اِس کے ساتھ ہی  تندوتیز ٹیمپو اور انتہائی مطلوب مزاح (ہیومر) کا بھی ؟ آخری بات ، کون ہے جو پیٹرونیوس (Petronius) کے جرمن ترجمے کا بیڑا اٹھائے ، جو اختراعات ، تصورات اور الفاظ کے حوالے سے  آج تک کے کسی بھی عظیم موسیقار  سے زیادہ شوخ بیانی کا استاد ہے ؟ بیمار اور شیطانی کائنات کی دلدلوں ، یا ’’ قدیم دنیا‘‘ سے متعلق  کون سی شے لائق توجہ ہے ، جب پیٹرونیوس  کی مانند کسی شخص کے پاؤں  ہوا کے تیز رو اور جاندار گھوڑے پہ ہوں جو ہلکی سی ایڑ کے ٹہوکے پر ہی  ٹانگوں کے نیچے سے نکلنے کو بے تاب ہو ، جو تمام تر اشیاء  کو بھاگنے پہ مجبور کرتے ہوئے ہر ایک شے کو مضبوطی و توانائی سے نوازتا ہے ۔ جہاں تک رہی  ارسٹوفینیز کی بات ، یعنی  شکلیں بدلنے اور اشیاء کی تکمیل کرنے والا  عبقری جس کی خاطر بندہ تمام تر ہیلینیت(Hellenism) کے وجود  کو معاف کر دیتا ہے۔ تاہم ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے اگر کوئی شخص اُس سب کو تمام تر عُمق کے ساتھ سمجھ پائے جسے معافی اور تقلیبِ ماہیت (transfiguration)  کی حاجت رہتی ہے ؛ نہایت خوشی سے محفوظ شدہ اِس ادنیٰ حقیقت  سے بڑھ کے کوئی ایسی شے نہیں ہے جس  نے مجھے  افلاطون کی خلوت گزینی (secrecy) اور ابوالہول (نرسنگھ) جیسی فطرت کو کھوجنے پہ مجبور کیا ہو  کہ  بستر ِ مرگ پہ افلاطون کے سرہانے کوئی ‘بائبل  ‘ نہ تھی ، نہ ہی کوئی مصری ، فیثاغورثی ، یا افلاطونی کتاب تھی ، بلکہ ارسٹوفینیز کی ایک کتاب تھی ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ  افلاطون  ارسٹوفینیز کے بغیر  وہ  زندگی یعنی ایک یونانی (تصورِ) حیات  جھیل پائے جس سے وہ خود منحرف تھا ۔

29۔     لوگوں کی بہت ہی تھوڑی تعداد آزاد طبیعت کے حصول   میں دلچسپی رکھتے ہیں ؛ طبع آزاد طاقت ور طبقات  کا ایک  استحقاق ہے  ۔ اور جو کوئی بھی بہترین حق کے ساتھ اس کی خاطر کاوش کرتا ہے ، لیکن باطنی طور پہ اس کے لیے خود کو مجبور نہیں پاتا ، وہ اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ شاید وہ طاقت ور نہیں ہے  ، بلکہ اپنی اوقات سے بڑھ کر جراءت کر رہا ہے ۔ وہ بھول بھلیاں میں داخل ہو جاتا ہے ، ان خطرات کو ہزار گنا بڑھا دیتا ہے جو پہلے ہی سے زندگی اپنے دامن میں لیے بیٹھی ہے ؛ ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ کوئی نہیں دیکھ سکتا کہ کب اور کیسے وہ شخص اپنے راستہ سے بھٹک جاتا ہے ، تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے ، اور شعور کے افسانوی عفریت یعنی مائنوٹار کے ہاتھوں سے کب ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔ فرض کیجیے کہ ایسا ہی ایک شخص غم کو گلے لگا لیتا ہے ، انسانوں کی سمجھ سے بہت بعید ہے کہ وہ نہ تو اس غم کو محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی اس سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں ۔ اور اس شخص کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا ! یہاں تک کہ وہ انسانوں کے پاس ہمدردی کے واسطے بھی دوبارہ نہیں جا سکتا۔

30۔     ہمارے عمیق ترین معارف/دقیق نظریات  کا احمقانہ صورت میں دکھائی دینا ایک لازمی امر ہے اور ہونا  بھی چاہیے نیز مخصوص صورت احوال جیسا کہ جرائم کے تحت وہی معارف/نظریات  بلا اجازت ہی ان افراد کی سماعتوں تک  پہنچتے ہیں جنھیں ان کے واسطے وجود ہی نہیں ملا ہے اور ان کی قسمت میں ہی نہیں ہے ۔ ظاہربیں/ظاہری   (exoteric) اور  دروں بیں/ باطنی  (esoteric) دونوں گروہ ، جیسا کہ ہندوستانیوں ، یونانیوں ،  پارسیوں  اور مسلمانوں کے ہاں  ماضی میں ان کے مابین امتیاز کیا جاتا تھا ، الغرض  جہاں کہیں بھی عوام الناس نے برابری اور یکساں حقوق کی بجائے درجاتِ مراتب  پہ اعتماد کیا ، متذکرہ دونوں گروہوں  کے مابین امتیاز محض ظاہری طبقے/جماعت کے تحت باہمی تناقض کی صورت  ہی میں قائم نہیں ہوتا  یعنی خارج سے دیکھنا ، تخمینہ لگانا ، پیمائش کرنا  اور حکم لگانا ؛ قدرے زیادہ  بنیادی امتیاز یہ ہے کہ زیرِبحث  طبقہ اشیاء کو  نیچے سے اوپر کی جانب دیکھتا ہے  جب کہ  دروں بیں  طبقہ اشیاء کو اوپر سے نیچے کی جانب کو دیکھتا ہے ۔ ایسی روحانی منازل  موجود ہیں جہاں سے ٹریجڈی بذات خود  حزنیہ (ٹریجدی) کی صورت میں مزید بروئے کار آتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ؛ اور اور اگر تمام مصائبِ عالم کو باہم یکجا کر لیا جائے ، تو کون اس امر کا فیصلہ کرنے کی جراءت کرے گا کہ  آیا یہ بات لازمی ہے کہ ان مصائب پہ نگاہ ڈالنا  ہمدردی پہ مائل اور مجبور کرے گا ، اور اس کے نتیجے میں مصائب کو دگنا (یا کئی گنا ) کر دے گا ؟ ۔۔۔وہ  شے جو انسانوں کے اعلیٰ طبقات کی ترقی یا  آسودگی کے واسطے صرف ہوتی ہے ، لازمی امر ہے کہ وہی شے  انسانوں کے یکسر  مختلف اور ادنیٰ درجات کے واسطے نہایت زہریلی ثابت  ہو گی ۔ عام آدمی میں پائی جانے والی اچھائی ، ایک فلسفی کی شخصیت میں  شاید بزدلی اور کمزوری کے مترادف ہوتی ہے ؛ ایک اعلیٰ تربیت یافتہ انسان کے لیے ،  اس امر کو فرض کرتے ہوئے کہ وہ بگاڑ اور تباہی کو پہنچے گا ، شاید یہ بات ممکن ہو  کہ وہ تنِ تنہا ذاتی خوبیوں  کوحاصل کر لے  اور  ان خوبیوں کی بنا پہ اس کو  نچلے طبقاتِ عالم  میں ، جہاں وہ غرق ہو چکا تھا ، ایک ولی/سینٹ کا درجہ دے دیا جائے ۔ ایسی کتابیں موجود ہیں جو روح کے واسطے معکوس  قدر اور صحت و سلامتی کی حامل ہیں  جیسا کہ  ادنیٰ روح  اور کمزور توانائی کے حامل لوگ یا پھر اعلیٰ  درجے کی روح اور نسبتاً زیادہ طاقت ور طبیعت کے حامل افراد ان کتابوں کو استعمال کرتے ہیں ۔ اول الذکر صورت میں ، وہ کتابیں خطرناک ، پریشان کن اور ہولناک  ہوتی ہیں ، اور موخر الذکر صورت میں  وہ ان شاہی ڈھنڈورے کے مثل ہوتی ہیں جو  بہادر ترین افراد کے لیے ان کی بہادری کے صلے میں پیٹے جاتے ہیں ۔ عام قاری کے واسطے  استعمال ہونے والی کتابیں ہمیشہ  بدبودار ہوتی ہیں ، گھٹیا لوگوں کی باس ان کتابوں سے چمٹی ہوتی  ہے ۔ جہاں خلقت کھاتی پیتی ہے ، یہاں تک کہ پرستش کرتی ہے ، وہ مقام مستقل بنیادوں پہ تعفن زدہ ہو جاتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص خالص تازہ ہوا میں سانس لینے  کا متمنی ہے ، تو اس کو گرجا گھروں میں جانے سے اجتناب کرنا چاہیے  ۔

31۔     ایامِ جوانی میں ہم کسی قسم کی تمیز کے واسطے درکار مہارت کے بغیر ہی محبت و نفرت سے کام چلاتے ہیں جو زندگی کا ایک بہترین حاصل ہے ۔ درست ہے کہ ہمیں موافق اور مخالف آراء کے ہمراہ انسانوں اور اشیاء پہ بنا سوچی سمجھی کی جانے والی چڑھائی کے کارن سخت کفارہ ادا کرنا ہے ۔ ہر ایک شے اس قدر منظم/مربوط ہے کہ ذوق کی تمام اقسام میں  سب سے زیادہ بری قسم غیرمشروط کے واسطے ذوق پر مشتمل ہے جس کو بے رحمانہ طریقے  پر  الو بنایا جاتا ہے نیز ناجائز استعمال کیا جاتا ہے ، تاوقتیکہ  ایک انسان اپنے جذبات میں آرٹ کو  تھوڑا بہت  شامل کرنا سیکھ جاتا ہے اور مصنوعی اشیاء کے ساتھ نتائج کے حصول کو ویسے ہی ترجیح دیتا ہے جیسا کہ زندگی کے حقیقی آرٹسٹ کرتے ہیں ۔ جوانی سے منسوب  ناراض اور مؤدب طبائع اپنے آپ  کو کسی قسم کا چین لینے کی اجازت دیتے  دکھائی نہیں دیتے ، تاوقتیکہ  انھوں   نے انسانوں اور اشیاء کو مناسب انداز میں جھٹلا دیا ہے تاکہ ان پہ اپنے جذبات کی بھڑاس کو نکال سکے :  یہاں تک کہ جوانی بذات خود  ایک ایسی شے ہے جس کو جھٹلایا جائے اور  فریبی ہے ۔  بعد ازاں جب ، مستقل التباسات کے ہاتھوں تکلیف سے دوچار ، ایک جوان روح آخرکار خود اپنے ہی بارے میں تشکیک میں مبتلا ہو جاتی ہے ، یہاں تک کہ  اپنے شکوک اور شعور کی پشیمانی کے دوران میں بھی  پُرجوش اور غیرمہذب رہتی ہے :  یہ اپنے آپ کو کیسے ملامت کرتی ہے، کتنی بے صبری سے اپنے آپ کو چیر پھاڑ دیتی ہے ،  اپنے آپ سے ایک طویل نیند میں غرق ہونے کا بدلہ کیسے لیتی ہے ، جیسا کہ یہ ایک رضاکارانہ اندھاپن ہے ! اس تبدیلی کے دوران  ایک شخص  اپنے ہی جذبات پہ بداعتمادی کے ذریعے اپنی ذات کو  سزا دیتا ہے ؛  ایک شخص شک کے ہاتھوں  اپنے جوش کو تکلیف دیتا ہے ، کوئی شخص اپنی عمدہ طبیعت/خصلت کو ہی ایک خطرہ سمجھتا ہے ، جیسا کہ یہ ایک نسبتاً زیادہ صاف ستھری راستبازی کی خلوت گزینی اور تھکاوٹ تھی ؛ اور سب سے بڑھ کر ، کوئی شخص ’’  جوانی ‘‘ کے خلاف وجہ بننے والے اصول کو اختیار کر لیتا ہے ۔ ایک دہائی گزرنے کے بعد ، کوئی شخص اس امر کو سمجھتا ہے کہ ابھی تک ہنوز جوانی کا ہی زمانہ چل رہا تھا!۔

32۔     انسانی تاریخ کے طویل ترین دور ، جسے ماقبل تاریخ کہا جاتا ہے ، میں کسی فعل کی قدروقیمت کے ہونے یا نہ ہونے کا تعین اس کے نتائج کی بنیاد پر ہوتا تھا ؛ وہ فعل  اپنے بنیادی سبب کے مقابلے میں ، بذات خود کسی گنتی میں شمار نہیں ہوتا تھا ؛ تاہم موجودہ چین کی مانند  جہاں کسی بچے کی امتیازی شان یا  بے وقعتی  اُس کے والدین کی جانب لوٹ جاتی ہے ،(ماقبل تاریخ زمانے میں ) زیادہ تر  کامیابی و ناکامی کے ردعملِ کی قوت وہ  شے تھی جس نے انسان کو کسی فعل کے اچھے یا برے ہونے کی بابت سوچنے   پر  مائل کیا ۔ آئیے ، اس دور کو انسانیت کا ماقبل اخلاقی زمانہ (pre-moral    period) کہتے ہیں ؛  یہ قول کہ ’’ اپنے آپ کو پہچانو‘‘ ، اس وقت تک دریافت نہ ہوا تھا ۔ دوسری جانب ، پچھلے دس ہزار برسوں میں کرۂ ارض کے بیشتر مخصوص علاقوں کے اندر انسان بتدریج اس مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ اب کسی فعل کے نتیجے کی بجائے اس کی اصل کی بنیاد پر قدروقیمت کا  فیصلہ ہوتا ہے : مجموعی اعتبار سے ایک عظیم کارنامہ ، بصیرت و معیار کی ایک اہم  پیش رفت ، ’’بنیاد‘‘میں یقین اور اشرافی اقدار (   aristocratic values) کی فوقیت کا غیرشعوری اثر ، اُس دور کا نشان جس کو شاید  محدود معنوں میں اخلاقی قرار دیا جائے : اس کے باعث خود شناسی (self-knowledge) کی اولین کاوش وجود میں آتی ہے ۔ تناظر کا کیسا الٹ پھیر ہے ، نتائج کی بجائے بنیاد ! اور بلاشبہ ، یہ الٹ پھیر/تبدیلی  صرف ایک طویل کاوش اور تذبذب کے بعد نافذ ہوئی ! بلاشبہ ،  اس کے ذریعے ایک نئی منحوس توہم پرستی اور  تعبیر کے ایک تنگ دائرے  کا بول بالا ہوا : کسی فعل کی بنیاد کو ممکنہ طور پہ سب سے زیادہ واضح/معین مفہوم میں ڈھالا گیا  جیسا کہ نیت/منشا/قصد (intention)  کی بنیاد کو ؛ لوگ اس اعتقاد پہ متفق ہوئے کہ کسی فعل کی قدروقیمت اس کی نیت/منشا/قصد کی قدروقیمت پہ استوار ہوتی ہے ۔ نیت/منشا/قصد بطور اصلِ فعل اور ماقبل تاریخ :اس تعصب (یا پہلے سے قائم شدہ رائے) کے زیرِ اثر اخلاقی تحسین اور الزام  بروئے کار آئے ، اور آج تک انسان انھی کی بنیاد پہ حکم لگاتے ہیں نیز فلسفہ سازی کرتے ہیں ۔ تاہم کیا ایسا ممکن  نہیں ہے کہ اس امر کی ضرورت  ایک بار پھر سے نمودار ہو جائے کہ ہم نئی خود شعوری اور انسانی بصیرت  کے باعث اقدار سے متعلق (موجودہ سے) یکسر الٹ رائے  اور  در آنے والی اس بنیادی تبدیلی  کی بابت اپنے اذہان کو تیار و آمادہ کریں  ۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ شاید ہم  ایک ایسے دور کی دہلیز پہ  کھڑے ہوں جس کو آغاز میں  منفی شناخت کے واسطے ماورائے اخلاق  (ultra-moral) کہا جائے: آج کل جب  اس نوعیت کا شک،کم از کم  مخالفین ِ اخلاقیات (immoralists) کے ہاں ، جڑ پکڑتا ہے کہ بیشک  کسی فعل کی فیصلہ کن قدر اس شے میں وجود رکھتی ہے جو ’’بلا قصد ‘‘ (non-intentional) ہے ، اور اس کی تمام تر صفتِ منشا/قصد  اُس شے پر مبنی ہے جو دکھائی دیتی ہے ، حسی ہے ، یا پھر اس کے اندر ’’محسوس ‘‘ ہوتی ہے ، خارج یا بیرونی سطح سے تعلق رکھتی ہے جو ظاہری جلد کی مانند کسی شے کو دھوکا دیتی ہے  لیکن پھر بھی بہت کچھ  چھپا دیتی ہے ۔ مختصراً ، ہم اس یقین کے حامل ہیں کہ نیت/منشا  محض ایک سائن (نشان/اشارہ/علامت) یا خارجی نشانی ہے جس کو سب سے پہلے ایک عدد تشریح کی حاجت ہوتی ہے ۔ مزید براں ، ایک سائن (sign) ہے جس کو بہت زیادہ تعبیرات کی ضرورت ہوتی ہے ، اور نتیجتاً اپنے اندر تنِ تنہا بمشکل ہی کسی قسم کے معانی کا حامل ہوتا ہے : (یعنی ) اخلاقیات ، آج تک سمجھے جانے والے معنوں کے تحت ، جیسا کہ  قصدی اخلاقیات (intention-morality)  ، غالباً  ایک  بچگانہ یا ابتدائی نوعیت کے تعصب کی حیثیت سے موجود رہی ہے ۔ غالباً  اس کا مقام وہی ہے جو علمِ نجوم (آسٹرالوجی) اور کیمیا گری (الکیمی )  کا ہے لیکن  ایک ایسی شے کی حیثیت سے، جس  پہ قابو پانا لازم ہے ۔ فتحِ اخلاقیات اور ایک خاص مفہوم میں اخلاقیات  کا اپنے آپ پر حاوی ہونا  ۔ آئیے ، اس طویل پوشیدہ مشقت کا یہی نام رکھ دیتے ہیں  جس  کے جملہ حقوق کو  روح کی کسوٹی  کی حیثیت سے معاصر عہد  کے بہترین ، انتہائی ایماندار/سربلند ، اور میسنی طبیعتوں  کے واسطے محفوظ  کر لیا گیا ہے۔

33۔     اس امر کا انکار نہیں ہو سکتا : جذبۂ اطاعت ، اپنے ہمسائے کے واسطے ایثار اور ترکِ ذات پہ مبنی اخلاقیات کو  گھسیٹتے ہوئے  انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ناگزیر ہے ؛  ’’غیر جانبدار تفکر‘‘ (   disinterested contemplation) کی جمالیات  کی مانند ، جس کے تحت آج کل آرٹ کی نامردی نہایت مکروفریب کے ساتھ اپنے واسطے ایک عمدہ طبیعت تخلیق کرنے کی کھوج کر رہی ہے ۔ ’’دوسروں کے لیے ‘‘ (for    others) اور ’’اپنی ذات کے لیے نہیں ‘‘ (not    for    myself) جیسے جذبات  اپنے اندر بے حد دلربائی اور مٹھاس کے حامل ہیں  کہ کسی کو اس امر میں شک و شبہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ، اور کوئی بھی بلا روک ٹوک دریافت کر سکتا ہے :   ’’کیا وہ غالباً دھوکے پر مبنی نہیں ہیں؟ ‘‘وہ اس کو خوشی فراہم کرتے ہیں جو ان کا حامل ہے اور جو ان کے ثمرات سے لطف اندوز ہوتا ہے ، اور جو محض تماشائی ہے ۔ یعنی ان (جذبات) کی تائید کے سلسلے میں ابھی تک کوئی دلیل نہیں ہے لیکن  بس احتیاط کی استدعا ہے ۔ چنانچہ ہمیں ذرا محتاط ہونے دیجیے ۔

34۔     معاصر  فلسفے کے ہر ایک نقطہ نظر کے زاویہ ہائے نگاہ سے دنیائے عالم  ایک ہی مغالطے کا شکار دکھائی دیتی ہے،  جس کے مطابق  ہم اس سوچ کے حامل ہیں کہ سب سے زیادہ یقینی اور روشن ترین زمانے میں جی رہے ہیں : اسی کارن ہم یکے بعد دیگرے ثبوت در ثبوت  کھوج رہے ہیں جو ہمیں ’’ماہیت ِ اشیاء ‘‘کے اندر موجود فریبی اصول  کے بارے میں   قیاس آرائی کے  جال میں بخوشی الجھا دیں گے ۔ تاہم وہ شخص جو اپنی ذات اور نتیجتاً ’’طبع ‘‘ کے بارے میں سوچ بچار سے کام لیتا ہے  ، دنیا کے فریب  کا ذمہ دار ہے ۔ یہ وہ  باوقار رخصت   ہے  جو ’’خدا کا  ہر ایک باشعور اور  جاہل وکیل/ ٹھیکے دار‘‘  (advocatus    dei) اپنی ذات کے واسطے لیتا ہے ۔ وہ شخص جو اس دنیا کو بشمول  مکان ، زمان، ہیئت  اور حرکت ، جھوٹ سے اخذ کردہ سمجھتا ہے ، آخرکار کم از کم ایک عدد اچھی دلیل کا مالک تو ہو گا کہ وہ کیونکر تمام تر عقل و استدلال سے بدظن ہے ؛ کیا آج تک ہم پر انتہائی گھٹیا چالیں نہیں آزمائی گئی ہیں ؟  اور اس امر کی کیا گارنٹی ہے کہ آئندہ بھی وہی نہ ہو گا جو اب تک ہوتا آیا ہے؟  نہایت سنجیدہ معنوں میں ، مفکرین کے ہاں پائی جانے والی معصومیت اپنے اندر  ایک قسم کی ہمدردی اور معزز شے کی حامل ہے جو معاصر عہد میں  بھی ان  کو اجازت دیتی ہے کہ  شعور کو اس درخواست کے ساتھ  انتطار کرنے کو کہیں کہ وہ انھیں  سچے جوابات مرحمت فرمائے : مثال کے طور پر ، یہ ’’حقیقی ‘‘ہے یا نہیں ، اور یہ کیونکر مستقل بنیادوں پر خارجی کائنات اور اسی قسم کے دیگر سوالات سے اپنی جان چھڑواتی ہے  ۔’’بدیہی حقائق ‘‘ (immediate    certainties)  پر اعتقاد ایک اخلاقی سادہ لوحی پہ مبنی ہے  جو ہم فلسفیوں کی من بھاؤنی ہے ؛ لیکن اب ہمیں ’’محض اخلاقی‘‘ انسان بننے کے خیال کو ترک کرنا ہے ! اخلاقیات سے ہٹ کر ، اس قسم کا اعتقاد رکھنا  حماقت پر مبنی ہے  جو  شاذ ہی ہمارے لائق  ہے ! اگر ہمارے یہاں مڈل کلاس زندگی میں نیز مڈل کلاس  طبقے کی دنیا سے باہر،  موافق اور مخالف آراء کے مابین  ہر وقت پائی جانے والی بداعتمادی کو ’’بدکرداری‘‘ اور نتیجتاً کوتاہ اندیشی کا سائن  (نشان/اشارہ/علامت) سمجھا جاتا ہے ، تو وہ کیا شے  ہے جسے ان کلمات کے ساتھ ہمیں لازما کوتاہ اندیشی سے دور رکھنا چاہیے  : فلسفی کو  اس ہستی کے طور پہ ’’ بد کرداری ‘‘ کا ٹھپہ لگوانے کا کلی استحقاق ہے ، جسے کرۂ ارض پہ سب سے زیادہ بے وقوف بنایا گیا ہے ۔ اُس پہ واجب ہے کہ وہ بداعتمادی اور  وادی ِ شبہات و تشکیک کی ہر ایک گھاٹی سے پھوٹنے والی چکاچوند سے کام  لے ۔ مجھے اظہار میں در آنے والی تبدیلی اور اس   قدر بدمزہ  مضحکہ خیز مذاق پر معاف کیجیے ؛  کیونکہ خود میں نے طویل عرصہ قبل سیکھا تھا کہ دماغ سے  کیسے کام لیا جائے نیز فریب کھانے اور دینے کی بابت متفرق تخمینہ کیسے لگایا جائے ۔ اور میں اپنے کھیسہ میں اس اندھے غم و غصے کے واسطے  چند ایسی اشیاء رکھتا ہوں جس کو فلسفی فریب دہی کا شکار ہونے کے خلاف استعمال کرنے کا جتن کرتے ہیں ۔ کیوں نہیں ؟  یہ ایک اخلاقی تعصب سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ سچائی ،  بہروپ/مشابہت  (semblance) سے زیادہ قدروقیمت کی حامل ہے ؛ درحقیقت ، یہ دنیا کا بدترین ثابت شدہ مفروضہ ہے ۔ اس بات کو تسلیم کرنا لازم ہے : کہ  کسی قسم کی زندگی کا وجود نہ ہو سکتا تھا سوائے اس امر کے کہ  کسی تناظر کے مطابق تخمینہ جات اور بہروپ/مشابہت کی بنیاد پہ  وجود میں آئے ؛ اور  بیشتر فلسفیوں کے اخلاقی جوش اور حماقت کے ساتھ ، اگر کوئی شخص ’’ حسی دنیا‘‘ سے یکسر چھٹکارے کا متمنی ہو  ،  تسلیم کرتے ہوئے کہ وہ  ایسا کر سکتے تھے ، تو ایسی صورت میں کم از کم  یہ ضرور ہے کہ  ایسا کرنے  کی بدولت اُس  سے متعلقہ ’’سچائی ‘‘ میں سے کچھ باقی نہیں رہے گا ! بلاشبہ ، وہ کیا شے ہے جو ہمیں بالعموم اس مفروضے کی جانب دھکیلتی ہے کہ ’’ درست‘‘اور ’’غلط‘‘ کے مابین ایک بنیادی مخالفت  موجود ہے ؟ کیا  درجات ِ اشتراک / مشابہت کو فرض کر لینا کافی نہیں ہے اور جیسا کہ مصوروں (پینٹرز) کے بقول ،  ہلکے اور گہرے رنگ کے شیڈز نیز متفرق قدروقیمت کے حامل مختلف رنگ و روپ (ٹونز) بھی موجود تھے ؟ ہماری دنیا کے فکشن (غیر حقیقی ) ہونے کا امکان کیونکر نہیں ہو سکتا تھا ؟  اور جس کسی نے بھی تجویز دی : ’’لیکن ،  کوئی بھی فکشن اپنے موجد سے تعلق رکھتا ہے؟ / فکشن پہ اس کے موجد کا استحقا ق ہے؟‘‘، تو کیا اس کو  استفہامیہ لہجے میں  دوٹوک جواب دینا ممکن نہ تھا : کیوں ، بھئی ؟ کیا’’ تعلق/استحقاق‘‘  کے مذکورہ ترکیب کافکشن سے وابستگی ممکن نہیں ہے ؟ کیا  معروض اور خبر کے مثل ، موضوع کے حوالے سے کسی حد تک  طعن آمیز(ironical)  ہونے کی کلی اجازت نہیں ہے ؟ کیا فلسفی کے یہاں  اپنے آپ کو نحو  ی اعتقاد سے اوپر اٹھانے کا امکان نہیں تھا ؟ استانیوں (گورنس)  کے تمام تر عزت و احترام کے باوجود ، کیا  فلسفہ پہ ابھی وہ وقت نہیں آیا  ہے کہ اُس کو   استانیوں کا ایمان  ترک کر دینا چاہیے ؟

35۔     اے والٹیئر ! اے انسانو !  اے حماقت ! ’’ صداقت ‘‘ اور صداقت کی  جستجو ،  دونوں ہی ایک نوع  کی دقیق شے کے حامل ہیں ؛ اور اگر انسان صرف بشری بنیادوں (too    humanely) پر ہی سچائی کی جانب بڑھتا ہے ،  (بقول والٹیئر ) وہ  صرف نیکی  کے واسطے سچ کی کھوج کرتا ہے ، تو میں شرط لگاتا ہوں کہ اس کو کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔

36۔     فرض کیجیے کہ کوئی بھی ’’موجودہ ‘‘ (given) شے، ہماری خواہشات اور آرزوؤں کی دنیا جیسی ’’ حقیقی‘‘ نہیں ہے ، ہم  کسی دوسری ’’حقیقت ‘‘  میں  ڈوب  نہیں سکتے یا اُس سے ابھر نہیں سکتے سوائے اپنے ہیجانات (impulses) کے یعنی عقل و استدلال ایسے ہی ہیجانات کے محض  باہمی  ربط و ضبط  پر مشتمل ہے : کیا ہم اس  کاوش اور سوال کو اٹھانے کے مجاز نہیں ہیں کہ آیا ، وہ ’’موجود ‘‘شے  نام نہاد میکانکی (یا ’’ مادی‘‘)   کائنات کی تفہیم کے واسطے ہمارے ہاں دستیاب دیگر متبادلات  کے ذریعے ، کافی نہیں ہے ؟ میں اس سے (بارکلے اور شوپن ہار کے مفہوم میں) التباس  ، ایک ’’ سوانگ‘‘ ،  اور ایک ’’اظہار‘‘ مراد نہیں لیتا ہوں ۔ بلکہ میں اس سے یکساں درجاتِ حقیقت  کی حامل اشیاء مراد لیتا ہوں جیسے  ہمارے جذبات (emotions) بذات خود جبلی ِ حیات کی ایک قسم ہیں، دنیائے جذبات کی ایک سادہ اولین صورت کی مانند جہاں  ہر ایک شے ایک عظیم الشان وحدت کے تحت ایک دوسرے سے بندھی ہے ، اور جو بعد ازاں تقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے اپنے آپ کو نامیاتی کارگزاریوں (processes) کے  شکل میں پروان چڑھاتی ہے  (قدرتی اعتبار سے بہتری کو جاتی اور شکست و ریخت سے گزرتی ہے) ۔ (دھیان رہے کہ )  تمام تر نامیاتی کارگزاری (فنکشن)  بشمول  اپنی ذات پہ قابو (self-regulation) ، مادی غذا اور اس کے انہضام  و اخراج اور مادے کی ایک شکل سے دوسری میں تبدیلی جیسے افعال،  حیات کی ایک بنیادی ہیت کے مثل تالیفی انداز میں اس وقت تک ایک دوسرے میں باہم پیوست ہیں ؟ آخرکار ، نہ صرف اس کاوش کی اجازت ہے ، بلکہ منطقی طریقہ کار کے عمل کے ذریعے اس کو بجا لانے کا حکم دیا جاتا ہے ۔ علت و معلول کی بےشمار اقسام کو فرض کرنے کی بجائے ،  کسی ایک قسم کے مطابق ہونے والی کاوش کو  اس کے انجام   (یعنی مہملیت/نامعقولیت  تک ، اگر مجھے کہنے کی اجازت دی جائے)   تک نہ پہنچا دیا جائے :  یہ طریقہ کار کی اخلاقیات ہے جس کو آج کل شاید ہی کوئی چھوڑ پائے ۔ بقول  ماہرین ِ ریاضیات ، مذکورہ اخلاقیات  ’’ اس کی تعریف‘‘ ہی سے اخذ کردہ ہے ۔ حتمی سوال یہ ہے کہ آیا ہم ارادے کی علت و معلول میں یقین رکھتے ہیں ؛ اگر ہم ایسا کرتے ہیں  اور بنیادی طور پہ اس پہ ہمارا یقین ہی بذات خود علت و معلول پہ ہمارا اعتقاد ہے ، تو ہمیں ارادے سے وابستہ علت و معلول کو ہی واحد مفروضہ برائے علت و معلول کی حیثیت سے پیش کرنے کی لازما کوشش کرنی چاہیے ۔ ’’  ارادہ ‘‘  (Will) قدرتی طور پر  صرف ’’ ارادے‘‘ ہی پر اثرانداز ہوتا ہے ، نہ کہ ’’مادے ‘‘   پر (اور نہ ہی اعصاب پہ ، مثال کے طور پر ) : مختصراً،   متذکردہ مفروضے کو لازما کسوٹی سے گزارنا چاہیے کہ جہاں کہیں ’’اثرات/ نتائج‘‘   (effects) کی شناخت ہوتی ہے،  تو کیا وہاں  ایک ارادہ دوسرے ارادے پہ عمل  درآمد نہیں  کرے گا ۔اور آیا تمام تر میکانکی افعال ، جیسا کہ ان کے اندر ایک قسم کی طاقت دوڑتی ہے، محض قوتِ ارادہ اور ارادے کے اثرات پہ مبنی نہیں ہیں ۔ مانا کہ  ہم اپنی پوری جبلی حیات کو ارادے  یعنی’’عزمِ اقتدار ‘‘ (Will    to    Power)  جیسا کہ میں اس کو بطور مقدمہ پیش کرتا ہوں ، کی پیش رفت اور شاخ در شاخ پھیلاؤ کی صورت میں بیان کرنے میں کامیاب ہو جاتے ؛ مانا کہ تمام تر نامیاتی کارگزاریوں کی پچھلی کڑیوں کا سراغ عزمِ اقتدار تک  لگایا جا سکتا تھا  ، اور افزائش نسل و خوراک کے مسئلے کا علاج بھی دریافت ہو سکتا تھا  ، اور یہ ایک مسئلہ ہے  :  چنانچہ کوئی بھی  شخص اس امر کا مستحق ہو سکتا تھا کہ وہ  تمام تر فعال قوت  کو بطور ’’ عزم ِ اقتدار‘‘  متعین کرے ۔ کائنات کو  داخلی اعتبار سے  دیکھا جائے ، اُس  کے ’’لائق فہم  کردار‘‘  کے مطابق کائنات کی حدبندی ہو نیز اس کو متعین کیا جائے ، تو سادہ الفاظ میں  یہی کہا جائے گا کہ کائنات  صرف اور صرف  ’’عزمِ اقتدار‘‘ ہے ۔

37۔     ’’کیا؟ کیا مقبول زبان میں اس کا یہی مطلب نہیں ہوتا : شیطان کی بجائے خدا کو جھوٹا ثابت کیا جاتا ہے ؟‘‘  اس کے بر خلاف ! دوستانِ گرامی قدر ، اس کے برخلاف !  اور شیطان بھی مقبول عام طریقے  سے  آپ کو کس سے  بات کرنے پر مجبور کرتا ہے !

38۔     جیسا کہ جدید زمانے کی تمام تر روشن خیالی کے دوران فرانسیسی انقلاب کے ساتھ اخیر میں  ہوا (جو انتہائی عامیانہ اور یکسر فالتو تھا جب اس کو قریب  سے ملاحظہ کیا جائے ۔ تاہم ای اثناء میں سارے یورپ کے شریف اور تخلیقی تماشائیوں نے فاصلہ برقرار کھتے ہوئے اپنے ذاتی  غم و غصے اور جوش و جذبے کو اس قدر کھینچ تان کے جذباتی انداز میں قلمبند کیا  کہ  تعبیر کے اندر سے متن ہی غائب ہو چکا ہے)،  چنانچہ اس بات کا امکان تھا کہ آنے والی معزز نسلیں کل ماضی کو ایک دفعہ پھر سے غلط سمجھ  لیں ، اور کہیں  اس ناقص تفہیم کی بدولت اس کے پہلوؤں کو مستقل حیثیت فراہم نہ کر دیں ۔  کسی حد تک ، کیا ایسا پہلے ہی نہیں  ہو چکا ہے ؟  کیا ہم  بذاتِ خود انھی ’’ معزز نسلوں ‘‘  کا روپ نہیں دھار چکے ہیں ؟ اور، یہاں تک کہ اب ہم اس کو سمجھتے ہیں ۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ پہلے ہی سے ماضی ہے ؟

39۔     کوئی بھی  کسی   نظریے کو   محض اس کارن ہنسی خوشی  درست  نہیں تسلیم کرے گا کیونکہ وہ لوگوں کو نیکی اور صالح اعمال کی جانب لے جاتا ہے  ۔ غالباً ملنسار ’’مثالیت پسندوں ‘‘  (آئیڈیلسٹ ) کے سوائے ، جو نیکی ، سچ اور خوبصورتی  کے بارے میں پرجوش ہیں ، اور  اپنےبحرِ تفکر میں گوناگوں اقسام کی ادنیٰ  اور نیک طینت مرغوبات کو بلا روک ٹوک گھومنے پھرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ خوشی اور نیکی دلائل  نہیں ہیں ۔تاہم  فکری اذہان کے حامل اذہان کی جانب سے بھی، اس امر کو دیدہ دانستہ فراموش کر دیا جاتا ہے کہ ناخوش کرنے اور برا بنانے کی حیثیت بھی ادنیٰ جوابی دلائل کی سی ہے ۔ ایک شے درست ہو سکتی تھی خواہ وہ بہت بڑے پیمانے پر نقصان دہ اور مہلک ہو  ؛ بلاشبہ ،  اس امر کا امکان تھا کہ وجود کے بنیادی قوانین  اس قسم کے ہوں کہ ان سے کلی واقفیت کسی کو فتح کر لے ۔ چنانچہ شاید کسی ذہن کی طاقت کا  معیار  ہی ’’صداقت ‘‘ کی مقدار  تھی  جس کو وہ برداشت کر سکتا تھا ۔ یا پھر نہایت سادہ الفاظ میں کہا جائے ، تو  وہ معیار تھا جس کے تحت اس ذہن کو سچ کی تخفیف کرنے،  چھپانے ،  شیرینی ، زرخیزی اور اس کی تکذیب کرنے حاجت تھی ۔ لیکن اس  امر میں  شک کی ذرا گنجائش نہیں ہے کہ سچائی کے مخصوص حصوں کی دریافت کے واسطے ، میسنے اور بدقسمت لوگ  نسبتاً زیادہ اہل ہوتے ہیں اور کامیابی کے زیادہ امکانات کے حامل ہوتے ہیں ؛ ان میسنوں کی بات نہ کیجیے جو خوش و خرم ہیں ، یعنی وہ نوع جس کے بارے میں ماہرین اخلاقیات گنگ ہیں ۔ غالباً مضبوط ،  آزاد طبع  اور  فلسفیوں کی پرورش کے واسطے جبر اور کاریگری/کرافٹ  نسبتاً زیادہ پسندیدہ صورت احوال ہیں ، بہ نسبت  نرم، ملاوٹ سے پاک ، نیک طینت اور معاملات کو سہل انداز میں دیکھنے  کے ۔ اور ایک تعلیم یافتہ بندے میں ان کی موجودگی کا انعام ہوتا ہے اور درست ہے ۔ اس  بات کو ہمیشہ نقطۂ آغاز بناتے ہوئے کہ لفظ ’’  فلسفی‘‘    کو اس شخص تک محدود نہ کر دیا جائے جو کتابیں لکھتا ہے  یا  جو  اپنی کتابوں میں اپنے فلسفے کو بیان کرتا ہے !   سٹینڈھال (Stendhal) آزاد طبع کے حامل فلسفی کی تصویر کی آخری خوبی کو بیان کرتا ہے ، جس کے بیان کو  جرمن ذوق کی خاطر ، میں  نشان زد  کئے بنا نہیں رہوں گا  کہ یہ جرمن ذوق کے الٹ ہے ۔ ’’  ایک اچھا فلسفی ہونے کے واسطے کسی شخص کے لازمی اوصاف میں خشک ، واضح اور دھوکے کا شکار نہ ہونا شامل ہے ۔ ایک بینکر جس نے خوب دولت جمع کر لی ہے ، وہ ایک ایسی خوبی کا مالک ہے جس کی ضرورت فلسفے میں دریافتیں کرنے کے لیے ہوتی ہے ، یعنی  کسی شے کے اندر صاف صاف دیکھ لینا ‘‘  ۔

40۔     ہر ایک عمیق شے مخفی رہنے کو محبوب جانتی ہے ؛  عمیق ترین اشیاء  شکل اور مشابہت  سے نفرت کرتی ہیں ۔ کیا اس کے برخلاف حجابِ خداوندی کے انکشاف کے  واسطے ایک درست نقش نہیں ہونا چاہیے ؟ ایک سوال پوچھنے لائق ہے! حیرت کی بات ہو گی اگر بعض متصوفین  اس نوع کے موضوع  پر پہلے ہی سے قسمت آزمائی نہ کر چکے ہوں ۔ یہ ایسی نفیس ماہیت کی پیش رفت ہے کہ ان کو درشتی  کے لبادے میں ڈھانپ کر ناقابل شناخت بنا دیا جائے ؛  ایسے افعال ِ محبت  ہیں اور اس قدر بڑے پیمانے پہ غیرمحتاط  واقع ہوئے ہیں کہ ان کے بعد  اس سے زیادہ دانشمندانہ فعل  نہیں ہو سکتا کہ نہایت سختی کے ساتھ چھان بین کی جائے : اسی کارن بندے کی یادداشت زائل ہو جاتی ہے ۔ اکثر و بیشتر اپنے حافظے کی راہ کھوٹی کر دیتے ہیں اور پس پردہ رہتے ہوئے انتقام لینے کی خاطر حافظے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں :  شرم و ندامت ایجاد پسند ہوتی ہے ۔ وہ ایسی بدترین اشیاء نہیں ہیں جن پہ انسان سب سے زیادہ شرمندہ ہوتا ہے :  نقاب کے پیچھے کوئی ایک مکروفریب نہیں ہے ، بلکہ  کاریگری (کرافٹ) میں بہت زیادہ اچھائی ہے ۔ مجھے یہ بات سوجھ سکتی تھی کہ  ایک انسان جو چھپانے کی نیت سے اپنے پاس ایک قیمتی اور نفیس شے  رکھتا ہو ، شراب کے  پرانے  سبز رنگ کے کائی زدہ آہنی پیپے کی مانند زندگی کو بے ترتیبی اور ایک ہی دائرے کے اندر گزار دے گا : اس کی شرم و ندامت ایسا کرنے کی متقاضی ہے ۔ ایک آدمی جو اپنی شرم و ندامت کے ضمن میں بھی گہرائی کا حامل ہے ، اپنی قسمت کو پا لیتا ہے اور  ان راستوں  پہ گامزن ہونے کا نفیس فیصلہ کرتا ہے جہاں کم لوگ ہی پہنچتے ہیں نیز ان اشیاء کے وجود کا تعین کرتا ہے جس سے اس کے قریبی احباب اور انتہائی گہرے دوست بھی شاید انجان ہوں ؛ اس کے انسانی خطرات ان (دوستوں)  اور اس  کی تازہ دم  حفاظتی  ڈھال ،  دونوں ہی سے یکساں طور پہ خود کو اوجھل کر لیتے ہیں ۔ ایسی پوشیدہ فطرت جو جبلی اعتبار سے مکالمے کو  خموشی اور خلوت کے لیے بروئے کار لاتی ہے ، نیز تبادلہ خیال و خواہشات سے اُس کا گریز  لامتناہی ہے اور مصر ہے کہ  اس کے دوستوں کے اذہان و قلوب کے اندر اس کا ایک مصنوعی چہرہ ہی اس کی جگہ حاصل کرے گا ؛ اور فرض کیجیے کہ وہ اس کی خواہش نہیں رکھتا ، تو کسی روز اس کی آنکھوں پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ  بلاشبہ ، وہاں اس کا ایک  مصنوعی چہرہ  موجود ہے ، اور ایسا کرنے میں ہی عافیت ہے ۔ ہر ایک  عمیق طبع کے حامل انسان کو ایک مصنوعی چہرے کی حاجت  رہتی ہے ؛ نہیں ، اس سے بھی زیادہ  یہ کہ ہر ایک عمیق طبع کا حامل مستقل  بنیادوں پہ ایک مصنوعی چہرہ تخلیق کرتا رہتا ہے ، جس کا سہرا اُس مستقل جھوٹ کے سر ہوتا ہے جس کے مطابق، اس کی زبان سے ادا ہونے والے ہر ایک لفظ، اس کا اٹھایا ہوا ہر ایک قدم ، اور اس کی گزاری ہوئی زندگی کے ہر ایک سائن (نشان / اشارہ/ علامت)  کی ایک  نقلی / سطحی تعبیر موجود ہے ۔

41۔     کسی شخص  پر اس کی ذاتی آزمائشوں کی بابت اعتراض اٹھانا لازم ہے کیونکہ خود مختاری اور حکومت اس کی قسمت میں لکھ دی جاتی ہے نیز دونوں کا بیک وقت ہونا ہی اس کی تقدیر میں لکھا ہے ۔ کسی کو اپنی آزمائشوں سے گریز نہیں کرنا چاہیے خواہ خطرناک ترین بازی کی حامل  ہی کیوں نہ ہوں جو وہ کھیل سکتا ہے ، اور اخیر میں مذکورہ آزمائشیں صرف ہمارے سامنے ہی وضع کی جاتی ہیں اور ان کے منصف بھی صرف ہم ہیں ۔ ایک شخص  خواہ  محبوب ترین ہی کیوں نہ ہو اُس سے چمٹے رہنے کی ضرورت نہیں کہ  ہر کوئی ایک قیدی ہے اور  تفریحی وقفے کی مہلت سے مستفید ہونے والا ہے ۔ آبائی سرزمین خواہ سب سے زیادہ تکلیف دہ اور ناگزیر ہی کیوں نہ ہو ، اُس سے وابستہ رہنے کی ضرورت نہیں  کہ مقابلے میں جیتی ہوئی ایک  آبائی  سرزمین  کی محبت کو اپنے دل سے نکال باہر کرنا بے حد آسان ہے ۔ ہمدردی خواہ اعلیٰ انسانوں ہی سے کیوں نہ ہو ، اُس سے چمٹے رہنے کی ضرورت نہیں کہ  اُس کے مخصوص تشدد اور بے بسی پہ مبنی اتفاق نے ہمیں ایک سبق سکھایا ہے ۔ کسی سائنس سے مت چپکے رہو  خواہ وہ نہایت قیمتی دریافتوں کا لالچ دے ، جن کی دریافت بظاہر ہماری ہی قسمت میں لکھی ہے ۔ کسی کی اپنی آزادی  اور پرندے ( کی مثل )  شاندار فاصلے تک اڑان  اور تنہائی پہ فدا مت ہو جائو ، جو اس کے ہمیشہ انتہائی دور تک لے جاتی ہے ۔  اڑان بھرنے والا صرف اپنے خوف سے بھاگتا ہے ۔ اپنی اچھائیوں سے مت چمٹے رہو اور نہ ہی مجموعی طور پر  اپنے خصائص میں سے  کسی ایک کا شکار بن جاؤ ، مثلا ً اپنی ” مہمان نوازی” کا  ، جو دراصل انتہائی تربیت یافتہ اور دولت مندوں کے واسطے خطروں میں سے ایک خطرہ ہے ۔ وہ اصراف  سے کام لیتے ہیں ، اپنی ذات سے بے پرواہ رہتے ہیں ، اور آزاد خیالی (liberality) کی قدر کو اتنا  دھکیلتے ہیں کہ وہی ایک شکنجہ بن جاتی ہے ۔ ایک شخص کو لازما اس بات  سے واقفیت درکار ہے کہ خود کو کیسے بچائے اور یہی آزادی کا سب سے بڑا امتحان ہے ۔

42۔     فلسفیوں کی ایک نئی پود  ابھرتی ہوئی  دکھائی دے رہی ہے ؛  میں بلا خطر ایک عنوان کے تحت ان کو بپتسمہ دینے کی جراءت کروں گا ۔ جہاں تک میں ان کو سمجھتا ہوں اور جہاں تک وہ اپنے آپ کو سمجھنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ ان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی ذات کے کسی گوشے کو چیستان کی صورت میں برقرار رکھنے کے متمنی ہیں ۔ شاید  مستقبل کے ایسے فلسفی اپنے آپ کو ’’ ترغیب دینے والا‘‘ کہیں  اور غالباً یہ عنوان درست نہ ہو ۔ یہ نام / عنوان بذات خود آخرکار محض ایک کاوش ہے ، یا اگر دوسرے لفظوں میں کہا جائے ، تو ایک قسم کا لوبھ/لالچ ہے ۔

43۔     کیا  آنے والے   فلسفی  ’’ صداقت ‘‘  کے  نئے دوست ہوں گے؟ عین ممکن ہے کہ  ایسا ہی ہو ، کیونکہ آج تک سبھی  فلسفیوں نے اپنے اپنے سچ کو چاہا ہے ۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ وہ تحکم پسند  فلسفے کے حمایتی  (dogmatists)  نہیں ہوں گے ۔ یہ بات لازمی طور پر ان کے فخر و شرف اور ذوق دونوں ہی کے یکسر الٹ ہے کیونکہ ان کے سچ کو ہر ایک کے لیے سچ ہی ہونا چاہیے۔ وہ سچ جو آج کے دن تک تمام تر تحکم پسندانہ کاوشوں کا حتمی مقصد اور مخفی تمنا  رہا ہے ۔ غالباً،  مستقبل کا ایسا فلسفی اعلان کرے گا   کہ ’’  میری رائے ہی  میری ذاتی  رائے ہے : اس پہ دوسرے شخص کو بخوشی کسی قسم کا کوئی استحقاق نہیں  ہے‘‘  ۔ کسی بھی شخص کو اس خواہش پر مبنی ذوق سے لازمی دست بردار ہونا پڑے گا کہ اکثریت اس سے متفق ہو ۔ ’’ اچھائی ‘‘   میں اضافہ نہیں ہوتا بالخصوص جب بندے کا ہمسایہ اس کو نگلنے کے درپے ہو  ۔ اور ایک ’’ مفادِ عامہ /عوامی بہبود‘‘   (common    good) کیسے  وجود میں آ سکتی تھی !  یہ بات اپنی ہی نقیض ہے ؛  کہ جو شے مشترک ہوتی ہے ، اس کی قدروقیمت ہمیشہ کم ہوتی  ہے ۔ اخیر میں اشیاء کے لیے ویسا ہی ہونا لازم ہے جیسی وہ ہیں اور ہمیشہ سے رہی ہیں ۔ عظیم الشان کے لیے عظیم اشیاء،  عمیق کے لیے گھاٹیاں ، شائستہ  کے لیے نفیس اور ہیجان خیز ، اور القصہ مختصر ،  نایاب کے واسطے  ہر شے  ہی  نایاب ۔

44۔     اس سب کے بعد مجھے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل کے فلسفی  آزاد اور بے باک مزاج کے حامل  ہوں گے ۔مثلاً وہ  محض طبع آزاد سے بڑھ کے ، بلند تر ، عظیم تر اور بنیادی اعتبار سے مختلف ہوں گے  ، غلط فہمی اور سوئے فہم  کے متمنی نہیں ہیں ؟ تاہم یہ سب کہتے ہوئے ،  میں اپنے آپ کو ان کا اور ہم سب کا تقریباً یکساں مقروض محسوس کرتا ہوں (ہم یعنی وہ آزاد طبیعتیں جو ان آنے والے  فلسفیوں کے واسطے بمنزلہ  نقیب اور  پیشرو ہیں )  کہ  ہم سب کی طرف سے بحیثیت مجموعی ، ایک احمقانہ قدیم تعصب اور غلط فہمی کو جھاڑ کے دور پھینک دوں  ، جس نے طویل عرصہ سے’’  طبعِ آزاد‘‘   کے تصور کو  دھندلا  کر چھوڑا  ہے ۔ یورپ کے ہر ملک میں ، ایسا ہی امریکہ میں بھی  ہے ، ایک ایسی شے موجود ہے جو اس عنوان/تصور کو ہی گالی بنا دیتی ہے :  یعنی نہایت  تنگ نظر  ، جانب دار  ، اور زنجیروں میں  گرفتار طبیعتوں کا حامل ایک طبقہ/جماعت جو ہمارے مقاصد  اور جبلتوں کی مجوزہ یاد دہانیوں کے تقریباً  اُلٹ کام کرنے کا تمنائی ہوتا ہے ۔ اس امر کا تو ذکر ہی نہ کیجیے کہ  ان نئے فلسفیوں پر  لازم ہے کہ مخصوص حوالوں سے اپنے دل و دماغ  کے دروازوں کو نہایت سختی سے مقفل رکھیں  ۔  معذرت  خواہی کے ساتھ مختصراً عرض کرتا ہوں ، یہ نام نہاد/جھوٹی ’’  آزاد طبائع ‘‘  سماجی مساوات کے حمایتوں (levellers)  میں سے ہیں ، یعنی  جمہوریت  اور اس کے  ’’  جدید تصورات‘‘ کے  باب میں  چرب زبان اور قلم بردار غلام/کاسہ لیس  (scribe-fingered    slaves)  ہیں : یہ تمام  لوگ خلوت اور شخصی  تنہائی کے حامل نہیں ہیں نیز اس شخص کے  کند ذہن سچے  پیروکار ہیں  جس  کی  ہمت اور اعلیٰ اوصاف سے انکار نہیں ہو سکتا ؛ صرف اتنا ہے کہ یہ آزاد نہیں ہیں اور مضحکہ خیز  طور پر  سطحیت کا شکار ہیں  ، خاص طور سے اپنے داخلی میلان  کے ضمن میں جو لگ بھگ کُل انسانی  کمزوری اور ناکامی  کے سبب کو  قدیم ہیئتوں/صورتوں میں دیکھتا  ہے جنھوں نے  معاشرے کو اس وقت تک قائم رکھا ہے ۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو سچائی کو ہنسی خوشی  یکسر بدل کے رکھ دیتا ہے ! یہ لوگ اپنا پورا زور لگا کے  جس شے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے وہ بنیادی طور پر ہجوم کی  پیلی پھٹک اور کُلی آسودہ حالی  ، تحفظ ، سلامتی ، تسکین اور زندگی کی تکالیف کے خاتمہ سے وابستہ ہے ؛ ان کے لبوں کی اکثر و بیشتر زینت بننے والے نغمات و اصول،  ’’    یکساں  حقوق‘‘  (Equality    of    Rights) اور ’’تمام مظلوموں کے ساتھ ہمدردی ‘‘  (Sympathy    with    all    Sufferers)  جیسے  عنوانات سے معروف  ہیں ، یعنی  وہ مصائب کو فی نفسہ  ایک ایسی شے کے طور پہ دیکھتے ہیں جس سے  مکمل چھٹکارا حاصل کرنا  لازمی امر ہے ۔  تاہم ان کے برخلاف ہم  لوگ جنھوں نے  اپنی نگاہوں اور ضمیر کو  اس سوال کا سامنا کرنے کی خاطر جھنجھوڑا  ہے کہ ’’   انسان‘‘   نے کہاں اور کیسے  سب سے زیادہ ترقی پائی  ہے ، اس یقین کے حامل ہیں کہ ایسا  صرف  مسابقتی  صورت ِ احوال ہی کے تحت ہوا ہے ۔ اور اس انجام کی خاطر انسانی صورت حال کی ہولناکی میں بے پناہ اضافہ کرنا مطلوب تھا ، انسان کی ایجادی صلاحیت  اور منافقانہ اہلیت (اس کی ’’خصلت‘‘ ) کو طویل جبر و استبداد کے تحت باریک بینی اور بے باکی کی صورت میں پروان چڑھانا تھا نیز اس کے عزِمِ حیات کو ترقی دیتے ہوئے غیرمشروط  عزمِ اقتدار  تک پہنچانا تھا  : ہم اس یقین کے حامل ہیں کہ گلی محلوں کی معاشرتی زندگی  کے اندر بدسلوکی ، تشدد ،   غلامی اور خطرہ  جب کہ  داخلی  حیات میں رازداری  ، رواقیت / بے پروائی (stoicism) ،  شیطانی آرٹ (tempter’s    arts) اور ہر قسم کی شیطنت (develry) یعنی انسان کے اندر موجود  ہر ایک میسنی  (wicked)،  دہشت ناک ،استبدادی ، غارت گر   شے/خوبی ، انسانی انواع کی ترقی اور تنزلی دونوں میں بروئے کار آتی ہے : ہم کھل کر بات نہیں کرتے جب ہم صرف اتنی بات کرتے ہیں ؛ بہرطور ہم گفتار اور خاموشی  دونوں اعتبار سے اپنے آپ کو  تمام جدید نظریات اور گروہی ترغیبات کی دوسری سرحد  پہ دیکھتے ہیں ، شاید ان کے ٹھیک الٹی  سمت  (ان کے مخالف کی حیثیت سے)؟  کتنی زبردست بات ہے کہ ہم ’’ آزاد طبع‘‘ ،درست معنوں میں سب سے زیادہ  باتونی نہیں ہیں؟  ہم ہر ایک جہت میں  دھوکہ دہی کی خواہش نہیں  رکھتے کہ ایک شخص  خود کو کس شے سے آزاد کروا سکتا ہے،  بعد ازاں  وہ کہاں کو جائے  گا؟  اور جیسا کہ  ہم (آزاد طبع) اس خطرناک  کلیے یعنی ’’ ماورائے خیر و شر ‘‘ کے مفاہیم / تعینات  کی بدولت، کم از کم ، تذبذب/ پراگندگی  سے  پہلو تہی کرتے ہیں  ۔ نیز ہم ’’ جدید تصورات” کے ایسے مخلص حمایتی حضرات جو اپنے آپ کو ’’ فری تھنکرز/ آزاد خیال مفکرین ‘‘ اور نجانے کیا کیا کچھ کہتے ہیں ، اُن سے ہٹ کر کوئی دوسری مخلوق ہیں ۔ ہم وہ لوگ ہیں جو  مختلف  نفسانی/روحانی دائروں میں آسودہ حال ہیں  یا پھر  وہاں ، کم از کم  مہمانوں کی مانند رہتے ہیں  ؛ وہ لوگ ہیں جو  اس نوع کے تاریک  اور سہانے گوشوں سے بارہا فرار ہوتے ہیں  جہاں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ترجیحات اور تعصبات ، جوانی ، ابتداء ، انسانوں اور کتابوں کے  ناگہانی واقعات ، یہاں تک کہ سفر کی تھکاوٹ  بھی حد سے باہر نہیں نکلنے دیتی ؛  اُس محتاجی کی ترغیبات  کے خلاف عداوت سے بھرے ہوئے لوگ ہیں جو عزت، دولت ، مقام و مرتبہ ،اور بلندی حواس کے بھیس میں پوشیدہ رہتی ہیں ؛ یہاں تک کہ ہم رنج و الم اور بیماری کے اتار چڑھاؤ  کے ممنون  ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی قانون اور اس کے ’’تعصبات ‘‘ سے آزادی بخشتے ہیں ، اور ہم  اپنی ذات کے اندر موجود خدا، شیطان ، بھیڑ اور گرگ ( بھیڑیے ) کے شکرگزار ہوتے ہیں ؛  غلطی کی ٹوہ لگانے والے اور سفاکیت کی حد کو پہنچے ہوئے کھوجی / متلاشی ہیں جن کی  انگلیاں غیرمحسوس/غیرمرئی/ناقابل فہم (intangible) کے لیے کلبلاتی ہیں  اور وہ ثقیل اشیاء/تصورات کو ہضم کرنے کو بیتاب ہیں ،  ہر اس کام کے واسطے آمادہ ہیں جس  میں زیرکی اور باریک بیں حواس  درکار  ہوتے ہیں  نیز   ’’ آزاد ارادے‘‘ کی فراوانی کی  بدولت ہر قسم کے ایڈونچر کے لیے آمادہ  و تیار رہتے ہیں ؛  حتمی مقاصد کے تحت جن پہ نگاہ جمانا دشوار ہے ، اور اس انجام کے پیش منظر و  پس منظر (سیا ق و سباق) کے ساتھ جہاں شاید ہی کوئی قدم رکھ پائے ، کے ساتھ ہم ماضی و مستقبل سے تعلق رکھنے والی ایسی طبع کے حامل ہیں ؛ روشنی کے لبادوں  میں  مستور، صاحبِ تصرف  ، (یہ بھی کہہ دوں کہ ) اگرچہ ہم  اپنے ورثاء اور  فضول خرچی کرنے والوں ، منتظمین  اور صبح و شام محاصل جمع کرنے والوں، ہماری دولت  کے حریص  لوگوں، آموزش اور فراموشی میں کفایت شعار  اور منصوبہ بندی میں ایجاد پسند لوگوں  سے قدرے  مشابہت رکھتے ہیں ؛ بسااوقات درجات پہ مبنی مختلف جدولوں (ٹیبلز)  کے ضمن میں مغرور ، بسا اوقات مدعیانِ فضیلت، بسا اوقات  رات بھر کام کرنے والے اُلو ؛ اور ضرورت پڑنے پہ ڈرانے والے آدم نما پتلے (بچوگے)  ہیں ۔ بالفاظِ دگر ،  آج کل یہ ایک لازمی امر ہے کہ  ہم صبح و شام ہر وقت ہی تنہائی/خلوت کے دلدادہ ہیں : ہم ایسے ہی لوگ  ہیں، آزاد طبع !  اور  اے مستقبل میں آنے والے فلسفیو، نئے فلسفیو ،  ممکن ہے تم لوگ بھی اسی  قبیل سے ہو   ؟

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search