ایلس اِن ونڈرلینڈ:لیوس کیرل (مرتب: عاصم رضا)
نوٹ: اوکسفورڈ یونیورسٹی میں ریاضی اور منطق کے استاد چارلس ڈاجسن نے لیوس کیرل کے قلمی نام سےدو ناول ( ایلس اِن ونڈر لینڈ اور تھرودی لوکنگ گلاس )لکھے جو ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود بھی تروتازہ اور قارئین کو مسحور کرنے کی بھرپور صلاحیت کے حامل ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایلس نامی ایک نوجوان لڑکی خرگوش کے سوراخ سے گزر کر ایک غیر حقیقی، بشریٰ مخلوقات کی تخلیق شدہ خیالی دنیا میں پہنچ جاتی ہے اور کئی مہمات انجام دیتی ہے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1865ء اور 1871ء ان ناولوں کی بالترتیب اشاعت کے بعد سے لے کر اب تک کم و بیش ستانوے (97) زبانوں میں اس کہانی کا ترجمہ ہو چکا ہے، اور بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے ہی سینما، فلم اور ٹیلی ویژن اور سٹیج ڈرامہ، ویڈیو گیمز کا موضوع بن رہی ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق 1903ء میں ’’ایلس اِن ونڈرلینڈ‘‘ پہلی مرتبہ ایک خاموش فلم کا موضوع بنا۔ حال ہی میں ’’ایلس اِن ونڈر لینڈ‘‘ (2010ء) اور ’’تھرودی لوکنگ گلاس‘‘ (2016ء) کو ایک دفعہ پھر سے فلمایا گیا۔ دوسری جانب ان ناولوں کے مکالمات و تصورات کو منطق کی درسی کتابوں میں بھی برتا گیا ہے۔ بقول شخصے یہ کہانی ایک جانب منطق کے ساتھ کھیلتی ہے اور دوسری جانب انیسویں صدی میں سامنے آنے والی جدید ریاضیات کو کڑوے طنز کا نشانہ بناتی ہے۔ بعض حضرات اسے ادبی بکواس (literary nonsense) صنف کی ایک بہترین مثال گردانتے ہیں۔ بہرطور نہایت وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود لیوس کیرل کے دونوں ناول بچوں اور بڑوں دونوں کے تخیل کی سیرابی کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔ پڑھے لکھے افراد کی عمومی رائے یہ ہے کہ مذکورہ کہانی کو کبھی اردو زبان کے قالب میں نہیں ڈھالا گیا۔ شاہکار سیریز کے لئے سید قاسم محمود کے تیار کردہ ملخص کو جائزہ کے قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔
لیوس کیرل کا اصل نام چارلس ڈاجسن تھا۔ وہ برطانیہ کی اوکسفورڈ یونیورسٹی میں حساب کے پروفیسر تھے۔ انہیں بچوں سے بے حد پیار تھا ۔ مگر ان کا کوئی بیٹا یا بیٹی نہیں تھی ۔ ’’ایلس اِن ونڈرلینڈ ‘‘ (Alice in Wonderland) کی مزے دار کہانی انہوں نے اپنے ایک دوست کی بیٹی کے لیے لکھی جس کا نام ایلس تھا۔ پروفیسر صاحب نے ایلس کو یہ کہانی کرسمس کے موقع پر تحفے میں دی۔ 1865ء میں ’’ایلس اِن ونڈرلینڈ‘‘ پہلی بار چھپی تو سب نے اسے بہت پسند کیا۔ آپ بھی یہ دلچسپ کہانی پڑھیے۔
ایلس باغ میں تالاب کے کنارے اپنی آپا کے پاس بیٹھی تھی ۔ آپا کتاب پڑھ رہی تھیں ۔ ایلس نے جھک کر کئی بار کتاب کے صفحوں کو دیکھا ۔ مگر کتاب میں کوئی تصویر نہ تھی ۔ وہ بیٹھے بیٹھے اُکتا گئی ۔ جب اُسے اونگھ آنے لگی تو اس نے سوچا کہ باغ سے پھول توڑ کر ہار بنانے چاہییں ۔ اچانک ایک سفید خرگوش دوڑتا ہوا اُس کے پاس سے گزرا ۔ تھوڑی دور جا کر وہ رُکا ۔ جیکٹ کی جیب سے گھڑی نکال کر وقت دیکھا اور پریشانی سے بولا، ’’اوہو۔ مجھے بہت دیر ہو گئی‘‘۔ ایلس خرگوش کے پیچھے دوڑی۔ خرگوش ایک بہت بڑے بِل میں داخل ہو گیا ۔ ایلس بھی اس کے پیچھے بِل میں گھس گئی ۔ جونہی وہ بِل میں پہنچی، اُسے محسوس ہوا کہ اس کے پاؤں زمین پر نہیں ہیں بلکہ وہ ہَوا میں تیرتی ہوئی آہستہ آہستہ نیچے جا رہی ہے۔ پہلے تو وہ بہت گھبرائی مگر جلد ہی اس نے پریشانی پر قابو پا لیا۔ نیچے جاتے جاتے اس نے دیکھا کہ اس کے چاروں طرف کتابوں، مٹھائیوں اور پھلوں کی الماریاں ہیں۔ ایلس نے ہاتھ بڑھا کر مٹھائی کا ایک ڈبہ اٹھا لیا۔ مگر وہ خالی نکلا ۔ اچانک وہ پتوں کے ایک ڈھیر پر دَھم سے جا گری ۔
ایلس کو جیکٹ پہنے سفید خرگوش نظر آیا۔ ’’مجھے کتنی دیر ہو گئی۔ آج میرے کانوں اور مونچھوں کی خیر نہیں‘‘، یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے ایک کونے میں مڑ گیا ۔ جوں ہی ایلس اس کے پیچھے مڑی، وہ ایک بہت بڑے ہال کمرے میں پہنچ گئی جس میں شیشے کی میز پر ایک چھوٹی سی سنہری چابی پڑی تھی ۔ ایلس نے اِدھر اُدھر دیکھا، اُسے ایک چھوٹا سا دروازہ نطر آیا ۔ یہ اُسی کی چابی تھی ۔ ایلس نے دروازہ کھولا مگر وہ اس میں سے اندر نہیں جا سکتی تھی۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ اُسے ایک بوتل نظر آئی جس پر لکھا تھا، ’’مجھے پی لو‘‘۔ جوں ہی ایلس نے وہ بوتل پی، اُس کا قد اتنا چھوٹا ہو گیا کہ وہ آسانی سے اس چھوٹے دروازے میں سے گزر سکتی تھی۔ لیکن غلطی سے اس نے دروازے کو تالا لگا کر چابی شیشے کی میز پر رکھ دی تھی ۔ اور اب وہ اتنی چھوٹی ہو گئی تھی کہ میز تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچتا تھا ۔ وہ پریشان ہو کر فرش پر بیٹھ گئی ۔ اچانک ایک کیک ہوا میں تیرا ہوا آیا جس پر لکھا تھا، ’’مجھے کھا لو‘‘۔ جوں ہی اس نے کیک کھایا، وہ اتنی لمبی ہو گئی کہ اس کا سَر ہال کمرے کی چھت سے ٹکرانے لگا۔ میز پر سے چابی لے کر اُس نے چھوٹا دروازہ کھولا اور دروازے سے آنکھ لگا کر اندر جھانکنے لگی ۔
وہ بہت بڑی ہو گئی تھی اور دروازہ بہت چھوٹا تھا ۔ اپنی بے بسی پر وہ اتنا روئی کہ اس کے گرد آنسوؤں کا تالاب بن گیا ۔ تب ایلس نے دیکھا کہ سفید خرگوش شڑاپ شڑاپ کرتا آنسوؤں کے تالاب میں سے گزر رہا ہے۔ ’’جناب خرگوش صاحب‘‘! جوں ہی خرگوش نے ایلس کی آواز سنی، وہ اپنے دستانے اور پنکھا وہیں چھوڑ کر اندھیرے کی طرف بھاگ گیا۔ ایلس نے خرگوش کے دستانے پہن لیے اور پنکھے سے چہرے کو ہَوا دینے لگی۔ یکایک اُسے خیال آیا کہ اُس نے خرگوش کے دستانے پہن رکھے ہیں، کہیں اس کا قد چھوٹا نہ ہو جائے۔ اس نے میز سے اپنے قد کی پیمائش کی تو وہ صرف دو فٹ اونچی رہ گئی تھی۔ اس نے خرگوش کا پنکھا بھی ہاتھ سے گِرا دیا تھا کہ کہیں اس کی وجہ سے وہ اور چھوٹی نہ ہو جائے۔
ایلس نےسو چا کہ اب چھوٹے دروازے سے اندر جانا چاہیے ۔ مگر دروازے کی چابی وہ پھر میز پر بھول گئی تھی ۔ وہ میز تک پہنچنے کا طریقہ سوچ رہی تھی کہ اُس کا پاؤں پھسلا اور وہ اپنے ہی آنسوؤں کے تالاب میں جا گری ۔ ایک چوہا تالاب میں سے تَیرتا ہوا گزر رہا تھا۔ ایلس نے اُس سے باہر نکلنے کا راستہ پوچھا مگر چوہے نے کوئی جواب نہ دیا۔ ایلس نے کہا ، کاش میری بِلّی ڈینا یہاں ہوتی تو تمہیں اس بدتمیزی کا مزہ چکھا دیتی۔ بِلّی کا نام سنتے ہی چوہا چھلانگیں لگاتا ہوا تالاب سے نکل کر بھاگ گیا۔ بڑی مشکل سے ایلس آنسوؤں کے تالاب سے باہر نکلی۔ کپڑے سُکھانے کے لیے وہ اِدھر اُدھر دوڑنے لگی۔ دوڑتے دوڑتے وہ قریبی جنگل میں پہنچ گئی جہاں اس کی ملاقات تِتلی کے لاروے سے ہوئی جو بہت بڑی کھمبی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ ایلس نے لاروے کو بتایا کہ صبح سے میرا قد کئی مرتبہ گھٹ، بڑھ چکا ہے۔ اس سے میں (ایلس) بہت پریشان ہوں ۔ لاروے نے قہقہہ لگا کر کہا، اِس کھمبی کے دائیں کنارے سے ایک ٹکڑا توڑ کر کھانے سے تمہارا قد بڑھ جائے گا اور بائیں کنارے سے ایک ٹکڑا کھاؤ گی تو تمہارا قد کم ہو کر اتنا رہ جائے گا، جتنا تم چاہو گی۔ ایلس اُس کا شکریہ ادا کر کے جنگل کی سیر کرنے چل پڑی ۔
تھوڑی دیر ایلس کو ایک درخت کے تنے میں بہت بڑا سوراخ نظر آیا ۔ وہ اس میں داخل ہو گئی ۔ جلد ہی وہ ایک خوبصورت باغ میں پہنچ گئی جہاں دو آدمی گلاب کے سفید پھولوں پر سُرخ رنگ پھیر رہے تھے ۔ انہوں نے تاش کے پتوں والا لباس پہنا ہوا تھا تاکہ انہیں کوئی پہچان نہ سکے ۔ یہ دونوں مالی تھے جنہوں نے غلطی سے ملکہ کے باغ میں سُرخ کی بجائے سفید گلاب اُگا دیے تھے ۔ اور اب وہ انہیں روغن سے سرخ کر رہے تھے۔ اچانک ملکہ باغ میں سیر کرنے آ گئیں۔ دونوں مالی ملکہ کو دیکھتے ہی زمین پر لیٹ گیے۔ ’’یہ دونوں کون ہیں؟‘‘ ملکہ نے غصے سے پوچھا۔ ’’پتا نہیں، کون ہیں؟‘‘ ایلس کے جواب پر ملکہ کو غصہ آ گیا۔ انہوں نے حکم دیا۔ ایلس کی گردن کاٹ دی جائے۔ لیکن بادشاہ نے ایلس کو معاف کر دیا ۔
گریفن (بہت بڑا پرندہ جس کا سر اور چونچ عقاب جیسی اور دھڑ شیر کی طرح ہوتا ہے) نے بادشاہ کے حکم سے ایلس کو سارے محل کی سیر کرائی ۔ پھر گریفن ایلس کو دربار میں لے گیا جہاں سموسوں کی چوری کے مقدمے کا فیصلہ ہونا تھا۔ ’’ خاموش! مقدمہ پیش کیا جائے ‘‘ ۔ بادشاہ سلامت نے حکم دیا ۔ سفید خرگوش نے پہلے بگل بجایا ۔ پھر ایک بدمعاش کو کھڑا کیا جس پر چوری کا الزام تھا ۔ گواہی دینے کے لیے خرگوش نے ہَیٹ بیچنے والے کا نام پکارا ۔ ہَیٹ فروش دربار میں بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔ اُس نے کہا، ’’میں پہلے چائے پیوں گا، اس کے بعد گواہی دوں گا‘‘۔ اس بدتمیزی پر ملکہ نے حکم دیا، ’’ہَیٹ فروش کی گردن کاٹ دی جائے‘‘۔ مگر ہَیٹ فروش پہلے ہی بھاگ چکا تھا۔ دوسرا گواہ باورچن تھی جو عدالت میں ہنڈیا سمیت آ گئی تھی۔ ’’میٹھے سموسے کس چیز سے بنتے ہیں‘‘۔ بادشانہ نے باورچن سے پوچھا۔ ’’کالی مرچوں سے بادشاہ سلامت‘‘۔ چوہے نے آہستہ سے کہا۔ ’’شِیرے سے‘‘۔ ملکہ نے اس کی آواز سنی تو حکم دیا، ’’اس بدبخت چوہے کو گرفتار کر لو۔ اس کی مونچھیں صاف کر دو اور گردن کاٹ ڈالو‘‘۔ تیسری گواہی کے لیے خرگوش نے ایلس کا نام پکارا۔
جیب میں پڑے کیک کے ٹکڑے کھانے سے وہ بہت لمبی ہو گئی تھی۔ جب وہ اٹھی تو اُس کے فراک کا کونہ کُرسیوں کی قطار میں پھنس گیا اور کرسیوں پر بیٹھے معزز مہمان نیچے لوگوں پر جا گرے۔ ’’میٹھے سموسے کِس نے چرائے ہیں؟‘‘ ایلس نے انکار کیا تو بادشاہ کو غصہ آ گیا۔ ’’ایک میل سے زیادہ لمبے لوگ دربار سے نکل جائیں‘‘۔ ’’مگر میرا قد ایک میل تو نہیں‘‘۔ ملکہ نے غصے سے کہا، ’’اِس گستاخ لڑکی کی گردن کاٹ دو‘‘۔
ایلس کو اپنی گردن پر کوئی چیز حرکت کرتی محسوس ہوئی تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ آپا، ایلس کے چہرے سے درختوں کے پتے ہٹا رہی تھی۔