’مبتلائے جنگ‘ ۔ جول اینڈریئس (تلخیص: طارق عباس)
جول اینڈریئس (Joel-Andreas) کی معروف کتاب ’مبتلائے جنگ‘ (Addicted-to-War) ، جنگ کے نشے میں مبتلا امریکی ریاست کی خونی تاریخ کی کہانی ہے۔ جول اس کتاب میں امریکہ کی ان تمام جنگوں کا ذکر کرتے ہیں جو اس نے مختلف ادوار میں مختلف ممالک سے لڑیں، جس میں انڈین، عراقی، اور افغان جنگیں سبھی شامل ہیں۔ جول کی تحریر سے یہ امر واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ ان جنگوں سے کون نفع کماتا ہے، اور کون ان کی قیمت پیسوں اور اپنی زندگیوں کی صورت میں ادا کرتا ہے۔ جول کی اس تصنیف کی تلخیص یہاں پیش کی جا رہی ہے۔
تعارف
امریکی عسکری طاقت انسانی تاریخ میں طاقتور ترین سمجھی جاتی ہے۔ بر، بحر،اور فضاء تینوں پر اس کا یکساں کنٹرول ہے۔ بیک وقت فوجی سپر پاور ہونا اور دنیا کے کسی نہ کسی حصے کو مسلسل جنگ کے زیرِ اثر رکھنا بے بہا اخراجات کا متقاضی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سال پینٹاگون کے لئے کئی سو ارب ڈالر کا بل پاس کیا جاتا ہے۔اور اس کی قیمت امریکی عوام کو بنیادی ترین ضروریات سے محرومی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ اور مسلسل حالتِ جنگ میں رہنے کے نقصانات محض معاشی نہیں ہیں، ان نقصانات میں اُن بہادر نوجوانوں کی زندگیاں بھی شامل ہیں جو جنگ سے زندہ واپس نہیں لوٹتے۔
امریکی انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ IRS لوگوں سے جو ٹیکس اکٹھا کرتا ہے، اس کا ایک بہت بڑا حصہ امریکی فوج کے اخراجات پورے کرنے پر لگتا ہے۔ 2002ء کے مالی سال میں دفاعی بجٹ 50.5% تھا جبکہ باقی تمام شعبہ جات کا کُل بجٹ 49.5% تھا، جس میں سے محض 8 فیصد تعلیم کیلئے مختص تھا۔
امریکہ مسلسل جنگ میں ملوث کیوں رہتا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ہمارے لئے اس ملک کی تاریخ کا جاننا ضروری ہے جو دو صدیاں قبل محض تیرہ کالونیوں کا مجموعہ تھا، اور اب اس قدر طاقتور بن چکا ہے کہ انسانی تاریخ میں طاقت کی ایسی نظیر نہیں ملتی۔
Manifest-Destiny
1776 میں جب امریکہ آزاد ہوا تو یہ اُس کے رہنماؤں کیلئے ایک بدیہی حقیقت تھی کہ تمام کا تمام شمالی امریکہ جلد یا بدیر اُن کی تحویل میں آ جانا چاہئے۔ اور ان کیلئے یہ حقیقت اس قدر واضح تھی کہ وہ اسے Manifest-Destiny کہا کرتے تھے۔ اور اس Manifest-Destiny کا پہلا شکار آبائی امریکی رہائشی تھے، نو آزاد شدہ امریکہ کی فوج نے بے رحمی سے لوگوں کو ملک بدر کرنا شروع کیا، اور جنہوں نےمقابلہ کرنے کی کوشش کی، انہیں لقمۂ اجل بنا دیا گیا۔ 1848ءتک امریکہ قریب قریب آدھے میکسیکو پر قبضہ کر چکا تھا۔اور اپنے ان زمینی قبضوں کی توسیع کیلئے امریکہ نے ایک ورلڈ کلاس بحری فوج تشکیل دی۔ اس کا انچارج مستقبل کا امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ تھا، اورروزویلٹ کے چارج سنبھالنے کے اگلے ہی برس امریکہ نے اسپین کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا، اس کی کالونیاں جن میں کیوبا اور فلپائن بھی شامل تھے، وہ بھی امریکہ کے قبضے میں آ گئے،لیکن اس دوران امریکی فوج کو فلپائن کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، امریکی فوج کو حکم تھا کہ سب کو جلا دو اور مار ڈالو، انہوں نے ایسا ہی کیا۔ فلپائن کے مفتوح ہونے تک چھ لاکھ لوگ مارے جا چکے تھے۔
امریکہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا کہ فلپائن سے کچھ ہی دور چین کی لا متناہی مارکیٹ موجود ہے۔ اور وہاں تک پہنچنے کا راستہ Pacific-Ocean ہے، اور جو طاقت Pacific پر حکومت کرے گی، دنیا پر بھی اسی کی حکومت ہو گی۔
1898 میں فلپائن، Puerto-Rico, اور Guam امریکہ کی کالونیاں بن چکے تھے، کیوبا کو باضابطہ طور پر آزادی دے دی گئی تھی، لیکن اس آزادی کی قیمت Platt-Amendment کی ہتھکڑی تھی، جس کے مطابق امریکی بحری اڈہ کیوبا میں ہمیشہ موجود رہے گا اور کیوبا کی معاشی اور بین الاقوامی پالیسیاں بھی امریکہ ہی طے کرے گا۔ کم و بیش اسی دورانیے میں امریکی فوج نے ہوائی کی ملکہ Lilivokalani کا تختہ الٹ دیا، اور اس جزیرے کو بھی امریکی بحری اڈہ بنا دیا۔
1898ءسے 1934ءکے درمیان امریکی بحری فوج نے کیوبا پرچار مرتبہ ، نکاراگؤاپر پانچ مرتبہ، ہنڈورس پر سات مرتبہ، ڈومینیکن ریپبلک پر چار مرتبہ، ہیٹی پر دو مرتبہ، گویٔٹے مالاپر ایک مرتبہ ، پانامہ پر دو مرتبہ ، میکسیکو پر تین مرتبہ، اور کولمبیا پر چار مرتبہ حملہ کیا۔
کئی ممالک میں امریکی بحری افواج نے کئی کئی دہائیاں بھی گزاریں اور جب وہ وہاں سے واپس لوٹیں تو اپنا من پسند ڈکٹیٹر ان جگہوں پر تعینات کر کے آئیں جو کہ واشنگٹن کی ایما پر فیصلے کرتا تھا۔
جنگِ عظیم اول
جنگِ عظیم اول یورپی کالونیوں کے مابین دنیا کو تقسیم کرنے کے مقصد کے تحت ایک خوفناک جنگ تھی۔ اور جب اس وقت کے امریکی صدر ووڈ رو ولسن نے جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، تو اس نے امریکی عوام کو یہ بتا کر مطمئن کیا کہ وہ امریکی افواج یورپ میں اس لئے بھیج رہا ہے تاکہ جمہوریت کو محفوظ بنایا جا سکے۔جبکہ ولسن کا مقصد یہ قطعاً نہیں تھا، اس کے پیشِ نظر جرمنی کا انہدام اور اپنے تجارتی روابط کو جاری رکھنا تھا، ولسن کے برطانوی سفیر ڈبلیو ایچ پیج کے الفاظ کچھ یوں تھے،’’امریکہ جرمنی کے ساتھ اعلانِ جنگ کرنے جا رہا ہے کیونکہ یہ واحد راستہ ہے جس سے ہم اپنی تجارتی حیثیت برقرار رکھ سکتے ہیں‘‘ ، اور اس’’مقصد‘‘ کے حصول کیلئے 130،274 امریکی فوجیوں کو موت کا پروانہ تھما کر جنگ میں دھکیل دیا گیا۔ امریکی جنرل سیموئل بٹلر کے مطابق امریکی فوجیوں کو خوبصورت آدرش کا جھانسا دیکر جنگ میں جھونکا گیا جبکہ انہیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اصل مقصد سینٹس اور ڈالر تھے، جس کی وجہ سے وہ موت کے منہ میں دھکیلے گئے تھے۔
جنگِ عظیم دوم میں تو صورتِ حال یہاں تک پہنچ گئی کہ امریکی فوج کے ساتھ ساتھ لاکھوں امریکی نوجوان بھی رضاکارانہ طور پر جنگ میں شامل ہوئے تاکہ وہ جرمن فاشسٹ قوتوں اور جاپانی سامراجیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ لیکن واشنگٹن کے عزائم، جن سے معصوم امریکی عوام بے خبر تھی، کچھ اور تھے؛ اور وہ یہ تھے کہ وہ اپنی سامراجی قوت کو کس طرح دنیا میں قائم کر سکتا ہے۔
ایک تباہ کن جنگ ایک ہولناک المیے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی: جب200000 لوگ بیک وقت امریکی ایٹمی دھماکے کے نیتجے میں ایک لمحے کے اندر اندر بخارات بن کر اڑ گئے۔ اور بعد ازاں ہزاروں کی موت تابکاری عناصر کے سرایت کر جانے سے ہوئی۔
اور اس واقعے کے بعد اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے ان دعا ئیہ الفاظ میں اپنی تقریر کااختتام کیا: ’ہم خدا سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اس ایٹمی بم کو اُس کی راہ میں اور اُس کے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کی توفیق عطا فرمائے‘
ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے سے بہت پہلے جاپان کو شکست ہو چُکی تھی، یہ حملہ صرف اس وجہ سے کیا گیا تاکہ امریکہ دنیا کو اپنی تباہ کُن طاقت سے خوفزدہ کر سکے۔
جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکہ ایک عالمی سیاسی، معاشی، اور عسکری قوت کے طور پر سامنے آیا۔
سرد جنگ
امریکہ کے علاوہ سوویت یونین وہ واحد طاقت تھی جو جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکہ کے مد مقابل خیال کی جاتی تھی، اور اگلے 45 برس کیلئے دنیا ان دونوں سپر پاورز کے مابین مستقل میدانِ جنگ بن کر رہ گئی ۔ اگرچہ امریکہ سوویت یونین سے زیادہ مضبوط تھا لیکن دونوں ممالک نے اپنی عظیم الجثہ عسکری طاقت کے بل بوتے پر دنیا پر اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کی کوششیں کیں۔ لیکن چونکہ یہ دونوں طاقتیں کبھی باضابطہ طور پر میدانِ جنگ میں مد مقابل نہیں آئیں اس وجہ سے ان کے مابین تناؤ کو سرد جنگ کہا جاتا ہے۔ ان دونوں ممالک کے اسی تناؤ کے باعث دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک آپس میں مد مقابل ہوئے۔ اور سرد جنگ کے دوران امریکی فوج نے بیرونی ممالک میں دو سو سے زائدمرتبہ مداخلت کی۔
کوریا: 1950ء-53
جنگِ عظیم دوم کے بعد چین سے لے کر ملائیشیا تک انقلابی اور نوآبادیات مخالف جھڑپوں سےامریکہ کو اپنے سامراجی ارادے خطرے میں محسوس ہوئے۔ بالخصوص کوریا ایک مشکل مد مقابل کے طور پر سامنے آیا۔ واشنگٹن نے فیصلہ کیا کہ دنیا کو اپنی عسکری قوت دکھانے کا وقت ایک مرتبہ پھر آن پہنچا ہے۔ اور اس طرح امریکی بحری جہاز، آبدوزوں، جنگی جہازوں نے کوریا کے بیشتر حصے کو مٹی کا ڈھیر بنا ڈالا ۔ 4500000 کوریائی افراد مارے گئے، جن میں ہر چار میں سے تین عام شہری تھے۔ 54000 امریکی فوجی تابوت میں واپس آئے۔لیکن اپنی تمام تر طاقت کے باوجود امریکہ یہ جنگ نہیں جیت پایا۔ تین برس کی شدید جنگ کے بعد سیز فائر کا اعلان کیا گیا۔ اور معاملات طے کئے گئے، کچھ اس طرح سے کہ جنوبی کوریا میں آج بھی40000 سے زائد امریکی فوجی تعینات ہیں۔
ویت نام: 1964ء-73
’’ایک ملک کو بچانے کیلئے کبھی اس کو تباہ بھی کرنا پڑتا ہے‘‘ ، کے فلسفے پر عمل پیرا، طاقت کے نشے میں مخمور واشنگٹن ویت نام پر حملہ کرتا ہے، اپنی تمام تر طاقت کو استعمال کر ڈالتا ہے، دس سال مسلسل ویت نام میں جنگ کرتا ہے، ایک اندازے کے مطابق ویت نام اور کمبوڈیا میں امریکہ نے جتنا اسلحہ استعمال کیا، جس میں میزائل، بم، گولہ بارود سبھی شامل تھے، اس وقت تک کی انسانی تاریخ میں تمام جنگوں میں استعمال شدہ اسلحہ سے زیادہ تھا۔ ان دس سالوں میں امریکہ نے اوسطاً پانچ سو پاونڈ وزنی بم فی ویت نامی باشندہ استعمال کیا۔ اور اس درندگی کے با وجود امریکہ کو ویت نام کی نہتی فوج کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک چھوٹے سے ملک پر چار لاکھ ٹن NAPALM گرایا گیا۔ مجموعی طور پر دو لاکھ ویت نامی قتل ہوئے اور جواب میں ساٹھ ہزار امریکی فوجی تابوت میں واپس گئے اور قریباً تین لاکھ فوجی زخمی ہو کر عمر بھر کیلئے معذور ہو گئے۔
اسرائیل کا معرضِ وجود میں آنا
جنگِ عظیم دوم کے بعد جب برطانوی استعمار اپنے انجام کو پہنچا اور بر صغیر آزاد ہوا، تو برطانیہ نے اس کے ’بدلے‘ میں فلسطین کا ایک بہت بڑا حصہ یورپی یہودیوں کو دینے کی ٹھانی، جو کہ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں ملک بدر ہو چکے تھے، لیکن ایک ’چھوٹا‘ سا مسئلہ یہ تھا کہ جہاں یہودیوں کو رہائش دئے جانا مقصود تھی وہاں پہلے سے لوگ رہائش پذیر تھے۔ اور اس کا نتیجہ پانچ دہائیوں سے مسلسل جنگ اور تشدد کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہے۔لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں کو زبردستی ملک بدر کیا گیا تو اسرائیل وجود میں آیا۔ تاحال فلسطینیوں کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ West Bank اور Gaza کا ہے جہاں فلسطینی کئی دہائیوں سے اسرائیلی استبداد میں رہ رہے ہیں۔ امریکہ ہر سال اسرائیل کو کھربوں ڈالر کی مالی امداد دیتا ہے اور ساتھ میں نہایت اہم سیاسی حمایت بھی فراہم کئے ہوئے ہے۔
اسامہ بن لادن: The-other-side-of-History
اسامہ بن لادن کو زیادہ تر دنیا امریکہ مخالف کے طور پر جانتی ہے۔ لیکن درحقیقت اسامہ بن لادن گھر کا وہ چراغ ہے جس نے بالآخر اپنے ہی گھر کو آگ لگائی۔ سرد جنگ میں امریکہ کی روس کے خلاف فتح اور روس کی افغانستان میں امریکی مدد سے شکست میں کلیدی کردار اسامہ بن لادن کاتھا۔
1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اُسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ CIA نے اپنی مد مقابل سپر پاور کو شکست دینے کے ارادے سے افغانی مجاہدین کی مکمل سرپرستی اور مدد کی۔ افغانی گوریلا مجاہدین کو ٹریننگ دی، اور ان پر مالی امداد اور اسلحے کی برسات کر دی۔اورروس کو شکست دینے کے عزم سے پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کیا۔ واشنگٹن کے آشیرباد سے ایک دہائی لڑی جانے والی ہولناک جنگ سوویت یونین کی شکست پر منتج ہوئی۔ CIA کے ساتھ مل کر کام کرنے والوں میں سے اسامہ بن لادن تھا، CIA کی مدد سے بن لادن نے افغان مجاہدین کو پیسہ اور اسلحہ بہم پہنچایا۔بالفاظ دیگر سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اسامہ بن لادن امریکہ کا دستِ راست تھا۔
ساتھ ہی رونالڈ ریگن (اس وقت کے امریکی صدر) نے arms-race کو نئی بلندیوں تک پہنچایا اور فوجی خراجات کو بے نظیر سطح پر لے گیا۔ اتنا کہ سوویت معیشت کا مد مقابل رہنا بہت مشکل ہو گیا۔ اسلحہ سازی پر بے بہا خرچ نے سوویت معیشت کوتباہ کر دیا ، حتی کہ سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ اور نتیجتاً امریکہ arms-race اور سرد جنگ دونوں جیت گیا۔لیکن اسی اثناء میں امریکہ اسامہ بن لادن کو اپنے ہاتھوں سے کھو بیٹھا کیونکہ اب اسامہ کا خواب ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام تھا اور وہ کسی بھی سامراجی قوت کی اپنی سر زمین پر مداخلت کے نہ صرف خلاف تھا بلکہ وہ مداخلت کے ارادوں کو بھی کچل دینا چاہتا تھا۔ یوں تاریخ نےایک موڑ لیا اور اسامہ امریکہ کا سب سے مضبوط مد مقابل بن کر سامنے آیا۔
سرد جنگ کی دو دہائیوں بعد11 ستمبر، 2001 ءکو ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹاگان پر حملہ ہوتا ہے اور مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ، اور اسی ’الزام‘ کو بنیاد بناکر امریکہ افغانستان پر حملہ کرتا ہے (آج اٹھارہ سال کی طویل جنگ کے بعد 2019 ءمیں امریکہ فوجی انخلا کے مذاکرات میں مشغول ہے ۔ مترجم)۔2011ء میں امریکہ نے اسامہ بن لادن کو (مبینہ طور پر) پاکستان میں قتل کیا ۔
لیکن مسلمان قوم کے عمومی جذبات ا مریکہ کے بارے میں کبھی بھی حوصلہ افزا نہیں رہے،مسلمانوں کی برہمی کی بنیادی وجوہات میں امریکہ کی اسرائیل کی ناجائز حمایت اور فلسطینی مسلمانوں پر مظالم، اور مشرقِ وسطیٰ میں معاشی اور عسکری استبداد ہیں۔
2001ء کے حملے کے بعد امریکہ کی بیرونی ممالک میں مداخلت اور جنگوں کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا، اور جنگ کا بہانہ ہمیشہ کی طرح ایک ہی تھا؛ عالمی امن کا قیام اور دنیا سے دہشت گردوں کا خاتمہ۔یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ کی لغت کے مطابق دشمن اور دہشت گرد کی تعریف میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو اپنے اپنے ملکوں میں جمہوریت کی بحالی کی خاطر لڑ رہے تھے۔ اور نیلسن منڈیلا کا شمار بھی ایک زمانے میں انہی ’دہشت گردوں‘ میں کیا جاتا تھا۔
2002ء میں امریکہ کا عسکری بجٹ 346,500,000,000 ڈالر تھا۔ 1948ء سے 2002ء تک امریکہ نے 15,000,000,000,00 ڈالر اسلحہ سازی کیلئے خرچ کئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ نے پچھلی چار دہائیوں میں تمام فیکٹریوں، مشینری، سڑکوں، پُل کی تعمیرات، پانی، سیوریج سسٹم، ایئر پورٹ، ریلوے، پاور پلانٹس، آفس کی عمارات، شاپنگ مالز، سکولز، ہسپتال، ہوٹلز؛ ان تمام شعبہ جات کے کل اخراجات سے بڑھ کر صرف اسلحہ سازی پر خرچ کئے۔
اگر ہم پینٹاگان ، نیوکلیائی ہتھیار،ناسا کا عسکری بجٹ، ان تمام کو جمع کریں تو یہ سالانہ 670 کھرب ڈالر بنتا ہے؛ یعنی امریکہ کو اپنا جنگ کا نشہ پورا کرنے کیلئے اوسطاً ایک ملین ڈالر فی منٹ کے حساب سے خرچ کرنا پڑتا ہے۔اور اس نشے کو پورا کرنے کیلئے ہر امریکی گھر کو 4000چار ہزار ڈالر سالانہ ٹیکس کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اس شدید مالی بوجھ کی وجہ سےایک طرف انفرادی خوشحالی میں پریشان کن حد تک کمی آئی ہے، دوسری جانب سرکاری سکول رش کا شکار ہو گئے ہیں۔ 80 فیصد طالبعلم تعلیم مکمل کئے بغیر ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں، بالغ امریکی نوجوانوں میں سے 20 فیصد سے زائد سٹریٹ سائن اور جاب ایپلیکیشن تک نہیں پڑھ سکتے۔ ہر پچاس منٹ میں ایک امریکی بچے کی بھوک یا غربت کی وجہ سے موت ہوتی ہے۔ کرایوں میں مسلسل اضافہ اور تنخواہوں میں مسلسل کمی سے لاکھوں گھرانے تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اور لاکھوں کی تعداد میں افراد سڑکوں پر زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ شراب اور نشے سے لاکھوں گھرانے تباہ ہو رہے ہیں لیکن ان کے علاج کیلئے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو موجود ہیں وہ بھی بجٹ کی کمی کے باعث آہستہ آہستہ بند ہو رہے ہیں۔
صرف ایک مثال لے لیجئے: ایک ایئر کرافٹ کیریئر کی سالانہ دیکھ بھال کیلئے 1000000000 ڈالرز درکار ہوتے ہیں، اور اس بجٹ میں67000 لوگوں کیلئے 17000 گھر تعمیر کئے جا سکتے ہیں۔ یا اتنی ہی رقم میں سولہ لاکھ ماؤں اور بچوں کو زچگی کے وقت بچایا جا سکتا ہے۔ یا 384000 بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا جا سکتا ہے، یا 333000 لوگوں کے نشے کی لت کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان سب پر بھاری اسلحہ سازی کی صنعت کا نشہ ہے۔
لوگوں پر بھاری ٹیکس اور سوشل سروسز کے معیار میں کمی کے علاوہ نیوکلیائی ہتھیار کی وجہ سے تابکاری عناصر کا فضائی آلودگی میں اضافہ کرنا ایک بین الاقوامی مسئلہ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ فضائی آلودگی کے علاوہ نیوکلیائی ویسٹ (waste) دریاؤں اور سمندر میں بہایا جاتا ہے۔ زمین میں دبا کرزمین کو قابلِ کاشت نہیں رہنے دیا جاتا۔اورعدم احتیاط کی وجہ سے زیرِ زمین پانی میں بھی شامل ہوجاتا ہے۔حکومت کے موجودہ تخمینے کے مطابق اگر 25000 ورکرز تیس برس تک مسلسل کام کریں تب جا کر نیوکلیائی پلانٹس کا کچرا صاف ہو سکتا ہے، اور اس کی لاگت 300 بلین ڈالر سے زیادہ ہو گی۔نیوکلیائی ہتھیار کے ٹیسٹ سے منسلک458000 امریکی فوجی تابکاری exposure کے باعث اب کینسر میں مبتلا اپنی زندگیوں کے دن گن رہے ہیں،
اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ امریکی طاقت کا یہ نشہ پوری کرنے کیلئے ہر امریکی کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے لیکن سب سے بھاری قیمت وہ ہے جو امریکی فوجیوں کو اپنی زندگی کی صورت میں ادا کرنا ہوتی ہے۔ 1950ء سے لے کر اب تک صرف کوریا بھیجے گئے امریکی فوجیوں میں سے100000 فوجیوں کی اموات واقع ہوئی ہیں، کئی لاکھ زندگی بھر کیلئے معذور ہو چکے ہیں، اور خلیجی جنگوں میں زندہ بچ جانے والے فوجی Gulf-War-Syndrome کاشکار ہو چکے ہیں۔ ویت نام کی جنگ سے واپس آنے والے فوجی جنگ کی ہولناک یادوں کے باعث PTSD) post-traumatic-stress-disorder) کا شکار ہو چکے ہیں۔ویت نام کی جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں سے زیادہ تعداد میں وہ فوجی خود کشی کر چکے ہیں جو ویت نام کی جنگ سے زندہ واپس لوٹے تھے۔علاوہ ازیں اوسطاً ایک ہزار سے زائد امریکی فوجی ملٹری حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ کسی کی موت تیز ہوا کے دوران جہاز سے چھلانگ لگاتے ہوئے گردن ٹوٹنے سے ہوتی ہے، اور کوئی غیر محفوظ ہیلی کاپٹر کے کریش ہونے سے مرتا ہے۔ ہر سال active ڈیوٹی سپاہی اور ملاح خود کشیاں کرتے ہیں ۔ ایک فوجی کی زندگی قابلِ رحم ہے اور جو فوجی عموماً ہر محاذ پر ہراول دستے میں ہوتے ہیں وہ غریب ہوتے ہیں جو یا تو کالج کی فیس ادا نہ کر پانے پر یا پھر مناسب نوکری نہ مل پانے کی وجہ سے آرمی میں شامل ہوئے۔ عموماً غریب غرباء کی میدانِ جنگ میں موت ہوتی ہے۔
فوج اور میڈیا
جنگِ عظیم دوم کے بعد پریس، ریڈیو نیٹ ورکس، اور ٹیلی وژن انڈسٹری، مکمل طور پر ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا نمائندہ بن کر ابھرے۔ جنرل الیکٹرک امریکہ کا تیسرا سب سے بڑا فوجی کنٹریکٹر ہے اور ہر سال اربوں ڈالر کماتا ہے۔ تمام امریکی نیوکلئیائی ہتھیاروں کے پارٹس یہ ادارہ مینوفیکچر کرتا ہے۔ جنگی جہازوں کے انجن تیار کرتا ہے، اور پینٹاگان کے تمام الیکٹرانک آلات بناتا ہے۔ یہ ادارہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا چارٹر ممبر بھی ہے اس وجہ سے پینٹاگان جنرل الیکٹرک کی فارن انوسٹمنٹ کی حفاظت کا بھی پابند ہے۔ 1986ء میں جنرل الیکٹرک نے نجی ٹی وی چینل NBC کے نام سے آغاز کیا۔ لارنس گراس مین، جو NBC کا کئی برس تک صدر رہا، کا کہنا تھا کہ ’صدرِ مملکت کا کام ایجنڈا طے کرنا ہے۔ اور پریس کا کام اس ایجنڈا کی پیروی کرنا ہے اور عوام کو اس ایجنڈا کےدرست ہونے کا یقین دلانا ہے‘۔ بڑی بڑی امریکی کمپنیوں کے مالکان ہی میڈیا ہاؤسز کےبھی مالکان ہیں۔ NBC جنرل الیکٹرک کی ملکیت ہے، CBS کا مالک Viacom ہے، ABC چینل کی ملکیت ڈزنی کی ہے، CNN کی ملکیت AOL کے پاس ہے، ان تمام اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران اسلحہ ساز اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران بھی ہیں۔
لیکن پینٹاگان کے میڈیا کنٹرول کے باوجود وہ عوام کی سوچ میں جنگ اور اسلحہ سازی کی سوچ کو راسخ نہ کر سکے۔ چارلس ولسن کے دور میں چارلس اور میڈیا کوریا پر حملہ کرنے کیلئے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے اور ابتداء میں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی، لیکن جیسے ہی فوجیوں کے تابوت گھر واپس آنا شروع ہوئے عوام کی حمایت کم ہوتے ہوتے رد عمل میں بدل گئی۔
ویت نام کی جنگ شروع ہوتے ہی ایک مرتبہ پھر میڈیا کے ذریعے سے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جیسے ہی جنگ کی شدت میں اضافہ ہوا، عوامی رد عمل شدید تر ہوتا گیا۔ اور اسی دوران میں امریکی تاریخ کی عظیم ترین اینٹی وار موومنٹ کا آغاز ہوا۔ ابتداء میں مخالفین کی تعداد کم تھی لیکن جب عوام کو معلوم پڑا کہ ویت نام میں کیا ہو رہا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے سارا امریکہ سڑکوں پر نکل آیا۔ 1969 ءمیں واشنگٹن کی سڑکوں پر 750000 لوگ نکل آئے۔ اور اسی طرح باقی شہروں میں بھی لاکھوں لوگوں نے احتجاج کیا۔
امریکی تاریخ کی پہلی جنرل سٹوڈنٹ سٹرائیک
مئی 1970ء میں جب احتجاج کے دوران نیشنل گارڈ کے مسلح دستے نے چار طالبعلموں پر حملہ کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا، تو چار یونیورسٹیوں کے طلباء نے ملک گیر ہڑتال کر دی۔ جو کہ امریکی تاریخ کی طلباء کی پہلی ہڑتال تھی۔ اس کے علاوہ لوگوں نےجنگی ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ لوگوں نے ریل گاڑیوں کے راستے بند کر دئے۔ 14000 لوگوں کو واشنگٹن میں گرفتار کیا گیا جب وہ واشنگٹن کو تین دن بند کرنے کیلئے سڑکوں پر نکلے۔ یہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا mass-arrest تھا۔ اور پینٹاگان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ویت نام کے اندر تھا، جہاں فوج کا ڈسپلن قائم رکھنا نا ممکن ہوتا جا رہا تھا، فوجیوں کو لڑنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی تھی اس وجہ سے انہوں نے لڑنے سے انکار کر دیا۔ساٹھ کی دہائی کے اختتام تک فوجی افسروں اور سپاہیوں کے درمیان ایک بڑھتی ہوئی کشیدگی کا آغاز ہو چکا تھا ۔ انفرادی یونٹ جنگ لڑنے سے انکار کر چکے تھے، کچھ اپنے افسروں کو قتل کر رہے تھے۔ جو فوجی گھر واپس آ رہے تھے وہ جنگ روکنے کیلئے عوام کو متحد کر رہے تھے۔ اپریل 1971 ءمیں ایک ہزار سے زائد فوجی جو ویت نام جنگ میں شامل رہے تھے، واشنگٹن میں اکٹھے ہوئے، اور انہوں نے وہ تمام میڈلز جو انہیں جنگ کے دوران ملے تھے، واشنگٹن کیپیٹل کی عمارت پر دے مارے۔
جہاں امریکہ جنگ میں خود ملوث نہیں ہوتا وہاں دوسرے ممالک جو اس سے اسلحہ خریدتے ہیں، کو جنگ میں دھکیلے رکھتا ہے تاکہ اس کے اسلحہ کی پیداوار اور فروخت دونوں جاری رہ سکیں۔ لیکن یہ ہم سب کے سوچنے کا کام ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی جنگ کا یہ نشہ ہماری زندگی تباہ کرنے کے علاوہ اور کیا کر رہا ہے؟ اور تباہی بھی اتنی مہنگی کہ اس تباہی میں برباد ہونے کیلئے ہمیں ایک ملین ڈالر فی منٹ کے حساب سے ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔