9/11 اور دورِ دہشت: نوم چومسکی (ترجمہ: طارق عباس)
بغداد، یروشلم، اور نجف میں خود کُش حملوں ، اور 9/11 کے بعد ہونے والے ان گنت وحشت ناک واقعات کے بعد یہ جاننا ہمارے لئے سہل ہو چُکا ہے کہ دُنیا کیوں اس امر کو بدیہی گرداننے لگی ہے کہ ہم ایک نئے اور خوفناک ”دورِ دہشت“ (age-of-terror ) میں داخل ہو چُکے ہیں۔ یہاں تک کہ Yale یونیورسٹی اور دیگراداروں کے دانشوروں نے اپنے مضامین کے مجموعے کو بھی ”age-of-terror” کا عنوان دیا ہے۔ تاہم، 9/11 کو دو برس گزر جانے کے باوجود امریکہ دہشت گردی کی جڑوں سے ابھی تک نمٹناشروع نہیں ہوا ، امن سے زیادہ جنگوں میں ملوث رہا ہے اور عالمی منظر نامے پر جنگ کے امکانات کو بھی بڑھاوا دینے کا ذمہ دار ہے۔
9/11 کے واقعے پر دنیا کا ردعمل شدید صدمے اور ہمدردی کا تھا۔لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ دنیا کا ردِعمل صدمے، حیرت، اور ہمدردی کے ساتھ ساتھ ایک اور تبصرے پر بھی مشتمل تھا، اور وہ تھا ’’ کوچۂ مظلومین میں خوش آمدید‘‘ ( !Welcome-to-the-club)۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مغربی قوت اُس ظلم کا شکار ہوئی تھی جس سے باقی کی دنیا ہمیشہ سے ہی آشنا تھی۔
9/11 کو سمجھنے کی کوئی بھی کوشش لازمی طور پر امریکی طاقت کی تحقیق و تفتیش سے ہی شروع ہو گی۔ اور یہ کہ امریکہ کا 9/11 پر کیا ردِ عمل رہا ہے اور ہو گا۔9/11 کےایک سال کے اندر اندر افغانستان پر حملہ ہوا۔وہ لوگ جو اخلاقی آدرشوں کا مبدیانہ پاس بھی رکھتے ہیں، انہیں امریکہ اور برطانیہ کی بطور ردِ عمل افغانستان پر کی جانے والی بمباری کی توجیح پیش کرنے میں بہت دشواری ہو گی جو صرف اس وجہ سے کی گئی کہ افغان حکومت اُن لوگوں کو امریکہ کے حوالے کر دے جو 9/11 کے ذمہ دار تھے۔اورپھر 2002 میں انسانی تاریخ کی سب سے طاقتور ریاست نے اپنی قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا اور عالمی سطح پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔اس نے دعوی کیا کہ کسی بھی خطرے کو طاقت کے زور پر کُچل دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی امریکی عوام کو ذہنی طور پر تیار کیا جانا شروع کردیا گیا کہ امریکہ عنقریب عراق پر حملہ آور ہونے کو ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس کے مڈٹرم الیکشن کی مہم شروع ہوئی ۔ اس الیکشن نے یہ تعین کرنا تھا کہ آیا امریکہ اپنے داخلی اور خارجی بالادست لائحہ عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچا پائے گا یا نہیں۔
فارن پالیسی کے ماہر مائیکل کریپون کے مطابق 2002 کے آخری ایام 1962 کے کیوبن میزائل کرائسس کے بعد سے اب تک کے سب سے خطرناک ایام تھے، اور آرتھر شلیسنگر کے مطابق کیوبن میزائل کرائسس انسانی تاریخ کا سب سے خطرناک وقت تھا۔کریپون اس بارے میں فکر مند تھا کہ نیوکلیائی ہتھیارعراق، ایران، برِ صغیر اور شمالی کوریا میں پہنچ چکے ہیں۔ اور ان ہتھیاروں کا پھیلاؤ غیر متوازن سطح کو پہنچتے ہوئے پیونگ ینگ اور بغداد تک پہنچ چکا تھا۔ بُش انتظامیہ کے 2002-03 میں کئے گئے اقدامات نے نیوکلیائی ہتھیاروں کے خطرات کو مزید بڑھادیا ہے۔
قومی سلامتی پالیسی نے یہ واشگاف اعلان کیا کہ ’’صرف‘‘ امریکہ یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ ممکنہ جنگ کو روکنے کیلئے کسی ملک پر حملہ کر دے اور ہر خطرے کو مٹا ڈالے، چاہے وہ خطرہ حقیقی ہو یا فرضی۔ پیش بندی کی جنگ وہ’’ گناہِ کبیرہ‘‘ تھا جس کی نیو رم برگ ٹرائلز میں شدید مذمت کی گئی تھی۔
2002 کے آغاز سے ہی بُش کی حکومت نے متنبہ کرنا شروع کر دیا کہ صدام حسین القاعدہ سے منسلک اور 9/11 میں ملوث ہے، لہذٰا امریکہ کیلئے ایک خطرہ ہے۔صدام کے خلاف یہ پروپیگنڈا امریکہ کی خوفزدہ عوام کی حمایت حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوا اور اس طرح ایک نہتے اور بے یارومددگار سمجھے جانے والے مُلک پر بُش کی حکومت کیلئے حملہ کرنے کی راہ ہموار ہوئی، وہ مُلک جو اپنے تیل کے ذخائر کی بنا پر ایک اہم حیثیت کا حامل تھا۔
مئی 2003 میں عراق میں ختم ہونے والی نام نہاد جنگ کے بعد صدر بُش نے طیارہ بردار بحری جہاز ابراہام لنکن پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ وہ القاعدہ کے ایک حلیف کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔لیکن گیارہ ستمبر 2003 کو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ صدام اوراس کے بد ترین دُشمن اسامہ بن لادن کے درمیان کوئی قابلِ یقین ربط موجود نہیں تھا۔اور اس جنگ میں فتح کا واحد نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ رد عمل کے طور پر القاعدہ کو بھرتی کیلئے مزیدمجاہدین دستیاب ہو گئے ہیں اور یوں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
وال سٹریٹ جرنل نے لکھا کہ صدر بُش ابراہم لنکن نامی جہاز کو ایک علامت کے طور پر اپنی صدارتی مہم میں کامیابی کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ بُش کو امید ہے کہ یہ مہم زیادہ تر قومی سلامتی کے موضوعات کے گرد مرکوز رہے گی۔ اگر اس حکومت نے داخلی مسائل کو زیرِ بحث آنے دیا، تو یہ اسکے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
اور اس درمیان اسامہ بن لادن ہنوز آزاد ہے اور 9/11 کے بعد کے anthrax-attacks کا ماخذ ابھی تک نا معلوم ہے۔ اور یہ ناکامی تب مزید حیران کُن ہو جاتی ہے جب ہم اس تناظر میں دیکھیں کہ anthrax-attacks کے مبینہ ذمہ دار امریکی باشندے ہیں اور اس دہشت گردی کا آغاز شاید کسی وفاقی سرکاری لیبارٹری سے ہؤا ہے ۔اور اس دوران میں عراقیweapons-of-mass-destruction کا خطرہ خاموشی کے ساتھ ہم بھلا بیٹھے ہیں۔
9/11 کی دوسری برسی کے موقع پر ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اس اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں کہ ہمارا دنیا کے پولیس مین بننے کا فعل برائی کو دنیا سے مٹا دے گا، جیسا کہ بُش کی تقریر لکھنے والے، بچگانہ اور تاریخی کہانیوں سے سرقہ کرتے ہوئے، کہتے ہیں۔ یا پھرہم (دنیا سےبرائی کے خاتمے کے) اِن پُر شکوہ دعووں کا باریک بینی سے جائزہ لے سکتے ہیں تاکہ کچھ عقل مندانہ نتائج برآمد کر سکیں اور شاید اُبھرتے ہوئے منظر نامے کا کچھ ادراک حاصل کر سکیں۔
2002میں بُش نے ایک تقریر کے دوران کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ غیر معینہ عرصے تک جاری رہے گی۔’’امریکی طرزِ زندگی کو محفوظ بنانے کی خاطرنہ جانے ہمیں کتنی جنگیں لڑنا پڑیں ‘‘۔بُش کی یہ بات درست ہے۔ ممکنہ اور تراشے گئے خطرات واقعتاً ان گنت ہیں۔ کیونکہ بُش حکومت کی قانون شکنی اور پُر تشدد اقدامات نے اُن خطرات کو کئی گُنا بڑھا دیا ہے جو پہلے نہ ہونے کے برابر تھے۔
اسرائیل کی جنرل سیکیورٹی سروس کے 1996 سے 2000 تک کے سربراہ جنرل ایمی ایالون کا یہ تبصرہ ہمارے لئے چشم کُشا ہونا چاہئے کہ وہ لوگ جو دہشت گردی کی تہہ میں موجود شکایات/غم وغصے کو مخاطب بنائے بغیر اس کی خلاف فتح کے آرزومند ہیں، وہ دراصل ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چاہتے ہیں۔
اس رائے کو بہت آسانی سے عمومی معاملات پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔
اس امر پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہو گا کہ واشنگٹن کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا جس خوف میں مبتلا ہے اسکا تدارک صرف امریکی ہی کر سکتے ہیں۔ امریکی اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ وہ اس دنیا اور مستقبل کو بہتر بنانے میں تمام دُنیا سے زیادہ کارگر ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ اُن کی ریاست دنیا کی سب سے طاقتور ریاست اور وہ باقی دنیا کی نسبت سب سے زیادہ آزاد اور خوش قسمت شہری ہیں۔
(2 ستمبر، 2003)