کشمکش کی تین اقسام: برٹرینڈ رسل (مترجم : انعام الرحمن میاں)
نوٹ: برٹرینڈ رسل کی کتاب ’’ایک بدلتی دنیا کی خاطر نئی امیدیں‘‘ (New-Hopes-for-a-Changing-World) تین حصوں پر مشتمل ہے: انسان اور فطرت ، انسان اور انسان ، انسان بہ نفسہ ۔ زیر نظر تراجم ، رسل کی اس کتا ب کے پہلے حصہ کے دوسرے باب ’’کشمکش کی تین اقسام‘‘(Three-Kinds-of-Conflicts) ، تیسرے باب ’’طبیعی فطرت پر غلبہ‘‘ (Mastery-over-Physical-Nature) اور آٹھویں باب ’’طاقت کی حکمرانی‘‘(The-Rule-of-Force)پر مشتمل ہیں ۔ زیرِ نظر ترجمہ پہلی دفعہ گورنمنٹ زمیندار کالج بھمبر روڈ گجرات کے میگزین ’’شاہین‘‘ 1997-98 اور 1998-99 میں شائع ہوا۔
باب دوم: کشمکش کی تین اقسام
یہ انسان کی فطر ت میں ہے کہ وہ کسی نہ کسی چیز سے کشمکش میں رہے ۔ کچھ انسان فتح یاب ہوتے ہیں اور کچھ شکست کھا جاتے ہیں ۔ ایک قاعدے کے مطابق شکست کھانے والے لوگ بہت کم یا کوئی نسل نہیں چھوڑتے ۔ اس سے ایسی نفسیات جنم لیتی ہے جس کے رحجانات ہوتے ہیں کہ فاتح ہونا چاہیے ۔ اور جہاں کہیں فتح کا پچاس فیصد چانس ہوتا ہے ، رجائیت اس چانس کے لیے زیادہ پرامید کا باعث رہی ہے ۔ بچ رہنے والوں کے نقطہ نظر سے یہ خوش قسمتی ہے ۔ مغلوب کا نقطہ نظر بھلا دیا جاتا ہے ۔
انسان تین قسم کی مبارزت میں مشغول ہیں ۔ وہ ہیں :
1) انسان اور فطرت (Man-and-Nature)
2) انسان اور انسان (Man-and-Man)
3) انسان بنفسہ (Man-and-Himself)
کشمکش کی یہ تینوں صورتیں اپنے کردار میں بہت مختلف ہیں اور انسان کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ان کی متعلقہ اہمیت مسلسل بدل رہی ہے۔ وہ طریق ہائے کار مختلف ہیں جن کے ذریعے ان کا بندوبست و انتظام کیا جاتا ہے ۔ فطرت سے کشمکش کا بندوبست طبیعی سائنس اور تکنیکی مہارت سے کیا جاتا ہے ۔ انسان سے کشمکش کا بندوبست ، سیاست اور جنگ کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔ فرد کی روح میں ، اندرونی کشمکش کو مذہب سے رام کیا گیا ہے ۔ اب ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ تحلیل ِ نفسی (Psychoanalysis) کے سائنسی طریقہ سے اس کا انتظام کر سکتے ہیں ۔ مگر مجھے شبہ ہے کہ یہ طریقہ بغیر اضافوں کے ، وہ تمام کچھ دے سکتا ہے جس کی ضرورت ہے ۔
کشمکش کی ان تین اقسام میں سے ، طبیعی فطرت سے مقابلہ یا مبارزت ، ایک اعتبار سے سب سے زیادہ بنیادی ہے ۔ کیونکہ جینے کے لیے اس پر فتح یاب ہونا ضروری ہے ۔ ایسے انسان جو برفانی دور میں فنا ہوئے یا جب زرخیز علاقے بنجر ہو گئے یا زلزلوں نے پوری وادیوں کو نگل لیا ۔ طبیعی فطرت سے مقابلہ ہار چکے ہیں ۔ اسی طرح سے وہ بھی جو قحط اور مہلک وباؤں سے موت کے منہ میں چلے گئے ۔ طبیعی فطرت پر ہر فتح ممکن بنا دیتی ہے کہ نوع ِ انسانی کی تعداد میں اضافہ ہو اور یہ فتح بنیادی طور پر عموماً اسی مقصد کے لیے استعمال ہوئی ہے ۔
جتنا انسان اپنے ماحول پر قابو پاتا ہے اسی تناسب سے اس کے دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات اہمیت اختیار کرتے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اس کے فطرت (Nature) پر قابو پانے کی تکنیک سے سماجی گروہ قدیم انسانوں کی نسبت زیادہ مربوط اور متحد ہو جاتے ہیں ۔ اور جس تناسب سے شبانہ روز روٹی حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔ اس لیے توانائی کی ایک بڑی مقدار دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے بچ جاتی ہے ۔
تاہم انسانی ارتقاء میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب تکنیکی ترقی کی وجہ سے انسان بجائے دشمنوں کے خاتمے کے ذریعے ، پرانے حریفوں سے ہم آہنگی کے ذریعے امیر تر ہو جاتا ہے ۔ جب یہ مرحلہ آ جاتا ہے تو تکنیک کے تقاضے ، انسان کی باہمی کشمکش کا خاتمہ یا کم از کم اس کشمکش میں تخفیف چاہتے ہیں ۔ جب یہ مرحلہ آ جاتا ہے (حقیقت میں انسان آج کے دور میں اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے ) تو کشمکش ، جس کے حل کی زیادہ ضرورت ہے وہ انسان کی خود اپنے ساتھ کشمکش ہے ۔ کشمکش کی دیگر دوسری دو اقسام کے طویل ادوار نے انسانی فطرت کو ایسے سانچے میں ڈھالا ہے جو پہلے مناسب تھا مگر اب تکنیکی اعتبار سے متروک ہو چکا ہے ۔ خارجی جنگوں کے ادوار نے روح میں داخلی جنگ کی صورت میں خود کو منعکس کیا ہے ۔ اس داخلی جنگ میں ایک حصہ دوسرے پر گناہ کا لیبل لگا دیتا ہے اور اسے ختم کرنے کے درپے ہو تا ہے ۔ مگر اس طرح کی مکمل فتح کبھی حاصل نہیں ہوتی جیسا کہ خارجی کشمکش میں حاصل ہوتی ہے ۔ اور ہر شکست کے بعد برائی اپنا بدصورت سر دوبارہ نکال لیتی ہے ۔ یہ اندرونی ، نہ ختم ہونے والی جنگ جو اصل میں خارجی جنگ کا انعکاس ہے ، اب علی الرغم خارجی جنگ کا سرچشمہ بنی ہوئی ہے۔ گناہ میری فطرت کاایک حصہ ہے مگر میرے دشمن کی مکمل فطرت یہی ہے ۔ کم از کم پرانی وضع قطع کا معلم ِ اخلاق یہی عقیدہ رکھتا ہے ۔ لہٰذا روح جو خود اپنے ساتھ پرامن تعلق نہیں رکھتی وہ دنیا سے پرامن تعلق نہیں رکھ سکتی اور خارجی جنگیں جاری ہیں تاکہ افراد کی نظروں سے حقیقی جنگ جو دراصل داخلی ہے ، چھپ جائے ۔ انہی وجوہات کی بنا پر انسان کی خود اپنے ساتھ جنگ ، انسانی ارتقاء کے خاتمے پر نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
ہر قسم کی جنگ کا خاتمہ مطابقت و ہم آہنگی میں ہونا چاہیے ۔ انسان کی طبیعی فطرت (Physical-Nature) سے کشمکش اسی تناسب سے ہم آہنگی میں داخل ہوئی ، جتنا انسان فطرت کے رموز سے آگاہ ہے ۔ لہٰذا فطرت سے تعاون کے قابل ہو جاتا ہے ۔ انسان کی انسان سے کشمکش اس وقت تک ایک مقصد کو پورا کرتی ہے؛ جب تک تمام لوگوں کے لیے وافر خوراک رسانی کے امکان نہ ہوں ۔ لیکن جب فطرت کی تسخیر نے ہر انسان کی نشوونما کے امکان کو محفوظ کر دیا ہے اور جب تکنیک کی ترقی نے بڑے پیمانے پر تعاون کو پرنفع بنا دیا ہے (منافع بخش بنا دیا ہے ) ۔ تو انسان کی انسان سے کشمکش اس زمانے سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ اور اس کشمکش کا خاتمہ ایک سیاسی اور معاشی اتحاد میں ہو جانا چاہیے ۔جیسا کہ عالمی حکومت کے موید چاہتے ہیں ۔ ان ذرائع کی بدولت انسان سے انسان کی خارجی ہم آہنگی قائم ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہ ہم آہنگی پائیدار نہیں ہو گی جب تک انسان خود اپنے اندر حقیقی ہم آہنگی حاصل نہ کرلے اور اپنے ایک حصے کو دشمن سمجھنا ترک کر دے جسے مغلوب بھی کرنا ہے ۔ یہ مختصر ترین الفاظ میں انسان کی تاریخ ہے ۔۔۔۔ ماضی ، حال اور (میں امید رکھتا ہوں ) مستقبل۔ اگلے ابواب میں ، میں کوشش کروں گا کہ اس خالی خاکے کو پُر کر سکوں ۔