آزادی کا مسئلہ اور مذہب۔ محمد دین جوہر
جدیدیت نے انسانی آزادی اور مذاہب کو باہم نقیض قرار دے کر اسے تمام مذہبی معتقدات اور اعمال کے خلاف سب سے بڑے اسلحے کے طور پر استعمال کیا ہے، اور ہر موقعے پر مذہب کو پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ فرانسیسی انقلاب میں آزادی افکار اور حریتِ عمل ایک طاقتور ہنکاوے کا کام کر رہے تھے۔ ہمعصر دنیا میں حقوقِ انسانی کے منشور کی بنیاد بھی آفاقی آزادی کے تصور پر ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ کی خارجہ پالیسیوں میں آزادی افکار اور حریتِ عمل ایک آلاتی حیثیت رکھتے ہیں اور حقوقِ انسانی کو کئی دہائیوں سے مختلف ممالک کے خلاف صف آرا کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی قانون سازی اور مدارس کے خلاف مغربی ریاستوں کے دباؤ کی قوت محرکہ بھی حقوقِ انسانی اور آزادی کا مسئلہ ہے۔ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کا سوال محض فکری یا دراساتی مبحث نہیں ہے بلکہ طاقتور اقوام کی بین الاقوامی سیاست کا اہم ایجنڈا بھی ہے۔
آج کی دنیا میں، آزادی اور حریت مذہب کے خلاف ایک مستقل، ثابت شدہ اور سب سے بڑی دلیلِ جاریہ ہے۔ مذہب میں اوامر و نواہی چونکہ بہت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے مذہب کے رد کو یہی کافی سمجھا گیا۔ آزادی کا سوال جس طرح فریم کیا گیا، اہلِ مذہب اس چابک دستی کو بھی نہیں سمجھ پائے اور اس کے روبرو انہوں نے انسانی آزادی اور حریت کے ہر تصور ہی کو رد کر دیا اور فکری طور پر نہایت قابل رحم موقف اختیار کیا۔ اس سوال کی آلاتی جہت یہ ہے کہ اسے اخلاقی، قانونی اور سیاسی سوال کے طور پر اٹھایا جائے، اور جدیدیت نے اسی پہلو سے مذہب کو پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ یہ کہ ”انسان کیا کہے یا نہ کہے؟“ ایک اخلاقی اور قانونی سوال ہے اور اظہار میں سچ اور جھوٹ کے دائرے میں پڑتا ہے۔ اسی طرح یہ کہ ”انسان کیا کرے یا نہ کرے؟“ کا سوال بھی اخلاقی اور قانونی دائرے تک محدود ہے۔
جدید انسان اب اپنی وجودیات کو مادے اور حیوان تک حتماً اتار لایا ہے۔ اس سوال پر وہ جوابوں کے جس سفر پر روانہ ہوا تھا وہ سفر اسے انفسی اور آفاقی ویرانے میں اتنی دور لے آیا ہے کہ خدا تو دور کی بات ہے وہ اپنا انسان ہونا بھی فراموش کر چکا ہے، اور اس کے لیے گھر اور منزل کے سوال ہی بےمعنی ہو گئے ہیں۔ اب ایجاد گر ہے، ویرانہ ہے اور اس کی تہذیبی تقدیر ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ آزادی اور حریت کا مسئلہ ضروری اخلاقی اور قانونی تلازمات رکھتا ہے، لیکن اس کو اخلاق اور قانون تک محدود کرنا سوال سے بےخبری ہے۔ آزادی اور حریت کا مسئلہ اصلاً وجودی ہے، اور ہر وجودی مسئلہ لازمی اخلاقی یا قانونی جہتوں کا حامل ہوتا ہے۔ مغربی تہذیب کے باوا آدم ولیم شیکسپیئر نے اس سوال کو نقطۂ کمال پر اظہار دے کر اسے سارے سوالوں کا باوا آدم بنا دیا ہے:
To be or not to be, that is the question
شیکسپیئر نے آزادی کے سوال کو اس کی پوری گہرائی، پوری وسعت اور پوری رفعت کے ساتھ اٹھایا ہے اور مغربی تہذیب کا اٹھایا ہوا کوئی سوال بھی اس سے آگے، اوپر یا پیشیں (prior) نہیں ہے۔ مغربی تہذیب اسی سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچی ہے جہاں وہ اس وقت ہے۔ یورپی نشاۃ الثانیہ جدید مغربی تہذیب کے لیے تیار کی گئی زمین اور یہ سوال اس میں بویا گیا بیج ہے۔ جدید مغرب اسی سوال کا جواب ہے اور باقی دنیا بھی اس جواب میں شامل ہے۔
اس سوال سے ظاہر ہے کہ انسان کا بنیادی مسئلہ کچھ کہنے یا کرنے کا نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں گہرا اور ”ہونے“ کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان کیا ’’ہو‘‘؟ یعنی انسان کا اصل مسئلہ ”ہونے“ (becoming) کا ہے، اور ”جاننا“ (knowing) اور ”کرنا“ (doing) اس میں متضمن ہیں۔ مغربی انسان نے to be کے سوال کا جواب to make سے دے کر جدید تہذیب پیدا کی ہے۔ جدید انسان خود کو overman یا superman یا homo deus کا جھانسہ ضرور دیتا چلا آیا ہے، لیکن وہ اب اپنی وجودیات کو مادے اور حیوان تک حتماً اتار لایا ہے۔ اس سوال پر وہ جوابوں کے جس سفر پر روانہ ہوا تھا وہ سفر اسے انفسی اور آفاقی ویرانے میں اتنی دور لے آیا ہے کہ خدا تو دور کی بات ہے وہ اپنا انسان ہونا بھی فراموش کر چکا ہے، اور اس کے لیے گھر اور منزل کے سوال ہی بےمعنی ہو گئے ہیں۔ اب ایجاد گر ہے، ویرانہ ہے اور اس کی تہذیبی تقدیر ہے۔ میرا خیال ہے کہ انسانی احوال ہستی اس قدر ریڈیکل تبدیلی سے گزر چکے ہیں کہ وہ تناظر بھی ختم ہو گیا ہے جس میں شیکسپئر نے یہ سوال اٹھایا تھا۔
اس سوال کا درست جواب مولانا محمد ایوب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کہ آزادیِ شعور اور حریتِ عمل انسان کا اتنا اساسی اور بنیادی مسئلہ ہے کہ خدا نے بھی اس کی رعایت ملحوظ رکھی ہے۔ ان کے بقول، انسان اپنے جوہر میں اختیار ہے اور اختیار اقرار و انکار دونوں کو مستلزم ہے۔ خدا قادرِ مطلق ہے اور اگر وہ اجرام ارضی میں سے کسی کو بھی اپنا پیغام پہنچانے کے لیے منتخب کر لے تو وہ اس پر قادر ہے۔ اور اگر اجرام ارضی اس کے پیغام کو پہنچائیں گے تو انسان کو مجالِ انکار نہیں ہو سکتی اور وہ اس پیغام کو ماننے پر مجبور ہو گا، اور اس کا اختیار ختم ہو جائے گا اور وہ مرتبۂ تکلیف سے خارج ہو جائے گا۔ اور یہی تکلیف اس کی نیابت کی اصل ذمہ داری ہے۔ خدا نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے انسانوں کو ہی منتخب کیا تاکہ دوسرے انسان نبیوں کے روبرو اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اقرار و انکار کا معاملہ کر سکیں۔ خدا کے فرستادہ نبیوں کے روبرو انسان کا اقرار و انکار ہی اصلاً وجودی فیصلہ ہے۔ مولاناؒ نے آیت سے استدلال فرمایا ہے کہ قیامت کے دن کافر یہ آرزو کرے گا کہ کاش وہ مٹی ہی ہوتا اور اسے مٹی ہونا بھی نصیب نہیں ہو گا کیونکہ دنیا میں اپنے انکار سے اس نے خود کو فطرت کے سلسلۂ وجود ہی سے خارج کر لیا تھا، اور مٹی ہونا to be کا ادنیٰ ترین درجہ ہے اور اہلِ انکار و بغاوت کو یہ بھی نصیب نہیں ہو گا۔
ڈجیٹل اور سائبر پر ڈھلتی دنیا میں یہ سوال بہت گہرا اور شتابی ہے کہ انسان رہنا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ to be or to not be کا سوال بنیادی طور پر انسان رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ ہے، اور جدید انسان کو یہ فیصلہ کیے بھی اب صدیاں گزر چکی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سوال و جواب ہو چکے ہیں، اور نتائج کی گھڑی آیا چاہتی ہے۔ جدید انسان کی آزادی افکار اور حریت عمل سے شبستانِ وجود لرز تو رہا ہے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ شب گہری ہوئی ہے یا سحر ہویدا ہے!
و اللہ اعلم بالصواب۔