کشف و الہام ۔ تحریر: محمد دین جوہر
یہ کانٹے کا موضوع ہے، اور اہل علم اس پر دادِ سخن دے چکے تو بوجوہ بے وقت کی راگنی یاد آئی۔ برصغیر کے متاخر تصوف میں، کشف و الہام کے غیرمعمولی غلبے اور حضرات علما کی طرف سے صوفیۂ باصفا کی بیعت سے روایتِ تصوف میں بالعموم شرکت سے شریعت کی معنویت اور تعبیر پر غیرمعمولی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کہ وہ اثرات کیا ہیں، کہیں علم میں مبرہن اور مدلل نہیں ہیں، بلکہ موہوم ہیں۔ ایک عمومی احساس ہمارے معاشروں میں پایا جاتا ہے کہ مذہب کے ساتھ کوئی مسئلہ ضرور ہے اور ہر کس و ناکس گزشتہ دو سو سال سے یہی متعین کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مذہب چونکہ تعزیرِ تعبیر میں ہے اس لیے شدہ شدہ تصوف اور کشف و الہام کی بھی شامت آ جاتی ہے، اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگر کشف و الہام اور مبینہ ”بدعتی عقائد“ کی آڑ میں تصوف کو ”غیر دینی“ یا ”غیر اسلامی“ ثابت کر دیا جائے تو شریعت خالص اور منقح ہو کر سامنے آ جائے گی۔ یہ محض خوش فہمی ہے۔
یہ احساس درست ہے کہ شریعت اور تصوف کے مابین کوئی مسئلہ ضرور ہے، لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم شریعت اور تصوف کا رونا روتے ہیں تو شریعت اور سائنس کا رونا یاد نہیں رہتا، اور جب شریعت اور سائنس کا شیون ہوتا ہے تو شریعت اور سیاست کے بَین مدھم ہوتے ہیں، اور جب شریعت اور سیاست کی گرم بازاری ہوتی ہے تو باقی سب کچھ بھولا ہوا ہوتا ہے، اور پھر شریعت اور آرٹ کا مسئلہ بھی اتنی ہی پیچیدگی لیے ہوئے ہے جتنی شریعت اور ٹیکنالوجی کے مسئلے کو حاصل ہے۔ اور جدید مسلم ذہن کے حاصلات کی حیرت انگیز پستی بھی ہر شعبے میں بالکل یکساں ہے۔ جو اہلِ علم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کی نعوذ باللہ تکفیر سے شریعت اور تصوف کا مسئلہ حل کر لیا ہے، ان کی مطلق انسانی پستی کے ادراک کے لیے ذرا ان کو شریعت اور آرٹ پر بلوا کے دیکھنا چاہیے۔ ان کا یہ دعوی کہ وہ خالص شریعت کا درست علم رکھتے ہیں محض ایک جھانسہ ہے۔
کچھ وقت گزرا ہے کہ فیس بک پر کشف و الہام اور تصوف پر داد سخن کی گرم بازاری رہی۔ احباب کے ارشادات بہت قیمتی ہیں لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ ان کی حیثیت تحصیلِ حاصل کی ہے، اور روایتاً موجود مواقف کے اعادے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ مذہبی روایت سے استناد اور استشہاد اس معاملے میں کس قدر فیصلہ کن ہو سکتا ہے، وہ بھی ان نگارشات سے ظاہر ہے۔ یہ بحث دراصل جدید مباحث کا تسلسل ہے۔ ان مباحث کا بنیادی نکتہ یہ رہا ہے کہ ہمارے دین، ہماری روایت، ہماری تاریخ، ہمارے اسلاف و اکابر، ہمارے کلچر، ہمارے علم و عمل کا کوئی پہلو اب ایسا نہیں رہا جس پر اعتراضات نہ اٹھائے جا سکتے ہوں اور ان پر شکوک و شبہات نہ پیدا کیے جا سکتے ہوں۔ اول اول یہ عمل مستشرقین اور مستعمرین نے شروع کیا تھا لیکن اب ہم اس میں خودکفیل ہیں۔ ان مباحث کے نتائج کو صرف اسی بنا پر رد کرنا کافی ہے کہ ان میں سوالات ٹھٹھرے ہوئے اور ایجنڈے بپھرے ہوئے ہیں۔
کشف و الہام کی بحث کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اگر نقلی اور عقلی دلائل سے کشف اور الہام کو حتماً غیر شرعی اور غیر دینی ثابت کر دیا جائے تو کل عین وہی دلائل وحی کے خلاف بھی اسی اثر انگیزی سے بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔ نوعاً وحی، الہام، کشف اور نظری علم کا تعلق ایک ہی زمرے سے ہے۔ اس لیے روایتی مذہبی آدمی ان کے بساط بھر دفاع کی طرف مائل ہوتا ہے جبکہ ظاہر پرست اور متجدد اہل علم کا میلان ان کے خلاف دلائل فراہم کرنے کا ہے۔ ملحدین و منکرین اہتزازات میں رہتے ہیں۔
اہل علم کی بحثابحثی کے درمیان ایک مختصر گزارش ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کا فی الوقت کوئی حل ممکن نہیں ہے۔ اس کے لاینحل ہونے کی صرف ایک ہی وجہ ہے، اور وہ ہماری موجودہ علمی اور تہذیبی روایت میں کسی نظریۂ علم کا موجود نہ ہونا ہے۔ یعنی اگر یہ سوال کیا جائے کہ ہم عصر دنیا میں مسلمانوں کا نظریۂ علم کیا ہے تو اس کا جواب ہے ”کوئی نہیں“۔ جب تک ہم عقلی بنیادوں پر کوئی ثقہ (valid) اور ایسا نظریۂ علم سامنے نہیں لا پاتے جو ایک طرف وحی کا دفاع کر سکے، اور دوسری طرف جدید دنیا کو دیکھنے کی آنکھیں بھی رکھتا ہو، اس وقت تک اس طرح کی تحریریں کار ثواب تو یقیناً رہیں گی، کارِ علم نہیں بن سکتیں۔ جدید عہد کے آغاز تک ہمارا نظریۂ علم واجب الوجود تھا، اور جو عرفان میں ترفع پا کر وحدت الوجود میں مفصل ہو جاتا تھا۔ واجب الوجود اور وحدت الوجود کے نظریات بیک وقت بامعنی ہیں، اور ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ایک بامعنی ہو اور دوسرا کوئی معنویت نہ رکھتا ہو۔ جدید عہد میں ہم اگر کوئی مفید مطلب اور ثقہ نظریۂ علم تشکیل دینا چاہتے ہیں تو وہ ان دونوں کے یا کسی ایک کے رد پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ وہ ان کا صرف جائز تسلسل ہی ہو سکتا ہے۔ اگر واجب الوجود اور وحدت الوجود کو شرعی یا عقلی بنیادوں پر رد کر کے یا ان سے مطلق اغماض برت کر ہم اپنے مذہب کے عقلی اور فکری دفاع کا خیال دل میں لاتے ہیں تو یہ خوش فہمی کے ساتھ ساتھ نری حماقت بھی ہے۔ ان نظریات کی طرف رجوع ذرائع بصیرت میں سے ہے، لیکن ان علوم کی روایتی فکری میکانیات کا جدید علوم میں استعمال ورلے اور پرلے درجے کی نادانی ہے۔ اس میں اول کام یہ ہے مباحثِ وجود اور جدید علوم کی نسبتوں کو اساسی سطح پر سامنے لایا جائے۔
جدید علوم کی تشکیل میں شعورِ انسانی کی ایک ایسی کرپشن موجود ہے جس سے معروضی علم تک رسائی کا انسانی خواب اب بکھر چکا ہے، اور یہ کرپشن شعور انسانی کی انفعالی جہت سے مکمل انکار ہے۔ ہمارے مطلوبہ نظریۂ علم کی بنیادی ترین ذمہ داری اس کرپشن کی نشاندہی اور تنقیح کرنا ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ قدری شعور (axiological consciousness) انفعالی ہے جبکہ عقلی شعور (rational consciousness) فاعلی ہے۔ انسانی شعور وحی کے ذریعے سے ظاہر ہونے والے حق کو شعور کی انفعالی پوزیشن پر کھڑا ہو کر قبول کرتا ہے۔ ایمان قبولیت حق کی جہت کے ساتھ ساتھ انسانی becoming کا سفر بھی ہے، یعنی ’ماننے‘ میں ’ہونا یا بننا‘ ایک لزوم کے طور پر داخل ہے۔ ایمان مقتضیات فطرت کی ارادی تسلیم و تسکین ہے، اور انسانی becoming مطالبات ایمان کی بجا آوری ہے۔ ماننا شعوری ہے اور becoming وجودی اور نفسی ہے۔ اور یہ دونوں توام اور یک آنی ہیں۔ اس میں تزکیہ احوالِ نفس کا عنوان ہے اور کشف و الہام ایمانی شعور کے احوال ہیں۔ کشف از قسم ادراک ہے، جبکہ الہام ایک ججمنٹ ہے۔
کشف و الہام کے مباحث ہماری نظری اور عرفانی روایت میں مباحثِ وجود سے براہ راست نسبتیں رکھتے ہیں۔ کشف و الہام کے رد و قبول کے سارے دلائل اس وقت تک بے معنی ہیں، جب تک ان کے پس منظر میں کارفرما تصورِ وجود کو سامنے نہ لایا جائے۔ کشف و الہام مبحثِ وجود کے علمی متضمنات ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق ارزانی فرمائی اور صحت نے اجازت دی تو آئندہ کسی تحریر میں مبحث وجود اور جدید علوم کی اساسی نسبتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
اس بحث کا ایک دلچسپ پہلو بھی ہے جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ اور وہ یہ ہے کہ کیا ہم نے نقلی اور عقلی دلائل سے ’سائنس‘ کے بارے میں اپنا دینی موقف طے کر لیا ہے؟ کشف و الہام کا دفاع کرنا اور ’سائنس‘ کے بارے میں دینی موقف تشکیل دینا ایک ہی طرح کی علمی سرگرمی ہے۔ ایک پہلو میں ”جگاڑ“ بازی کرتے ہوئے کشف و الہام کے دفاع میں اپنی معروضات کو ’دلائل‘ فرض کر لینا ہماری محض خوش فہمی ہے۔ اور پھر شیخ اکبر ابن عربی علیہ الرحمہ اور امام عالی مقام حجت الاسلام غزالی علیہ الرحمہ کے دفاع کی پوزیشن لینا تو اس خوش فہمی میں ہوا بھرنے والی بات ہے۔ نیرین کا دفاع یقیناً ہماری عقیدت کا اظہار ہے، لیکن محترم غامدی صاحب اور جناب زبیر صاحب کے ہنگامِ رد میں ان کے دفاع کی کیا ضرورت ہے؟ متجددین کی تزویرِ تجدد کا تجزیہ کافی اور وہابیوں کے اصولِ تعبیر کا رد شافی ہونا چاہیے۔
گزارش ہے کہ ہمیں نظریۂ علم کی ضرورت اس لیے ہے کہ عقیدۂ توحید وحدت شعور بن کر استثمار علم میں ظاہر ہو جائے، اور یہ وحدتِ شعور عرفانی، کشفی، الہامی، تخیلاتی، جمالیاتی، نظری، سیاسی، سماجی اور سائنسی کی معنویتوں کو ایک ہی اصول سے معرَف (define) کرنے میں کامیاب ہو جائے، اور یہ تعریف عقلی طور پر ثقہ بھی ہو۔
و اللہ اعلم بالصواب۔