’انسومنیا‘ کا ایک تجزیہ – احمد جاوید
عاصم بخشی صاحب کی یہ نظم اُن فرانسیسی علامت نگاروں کی یاد دلاتی ہے جو لفظ کو معنی، خیال اور احساس کی تشکیل اور تقلیب کا ایسا ظرف سمجھتے ہیں جہاں ہستی و نیستی اپنی اصلی پیچیدگی اور تضادات کے ساتھ ایک دوسرے میں طرح طرح کے جدلیاتی انداز سے مدغم ہوتے ہیں۔ چیزوں کے ہونے اور نہ ہونے کو ذہن کے بنائے ہوئے دائروں سے باہر نکال کر احساسِ محض کی سطح پر لائے بغیر اُس گھٹن اور بوسیدگی کا ازالہ نہیں ہو سکتا جسے انسان کی ضد نے شے پر بھی مسلط کر رکھا ہے، اور لا شے پر بھی۔ شے کو ذہن کی تحویل میں دے دینے سے اِن دونوں سے ماورا معدومیت بہت چالاکی اور بے پروائی کے ساتھ نظر انداز ہو جاتی ہے، اور خود وجود ایک ایسی جبری شناخت میں گھٹ کر رہ جاتا ہے جس میں اُس کی آزادی اور خالص پن کو اظہار کا راستہ نہیں ملتا۔ رامبو(Rimbaud)وغیرہ وجود و عدم کی اُسی متصادم یکجائی کو بحال کرنے کے لیے اٹھے تھے جسے انسان نے دو لخت کر ڈالا۔ اِس ’نیم الوہی‘ منصوبے پر عمل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ چیزوں پر سے اُن معانی اور احساسات کا بوجھ اتار دیا جائے جو انسان نے اُن پر لاد رکھا ہے۔ یہ سب کچھ لفظ کی آزادی سے ممکن تھا، ایسی آزادی جو ذہن کو محکوم بنا دے اور احساسات کی نئے سرے سے پرورش کرے۔
بظاہر یہ لا یعنی باتیں ہیں مگر اس لا یعنیت میں شاعری اور دیگر فنون ِ لطیفہ نے معنی و احساس کی بالکل نئی تشکیل کو ایک بڑے پیمانے پر ممکن کر دکھایا۔ ٍعاصم بخشی صاحب کی اِس نظم کا تجزیہ بھی ، لگتا ہے کہ، اُسی طرح ہوگا جیسے ’A season in the hell‘ اور ’The chairs‘ کا ہو سکتا ہے۔ انسومنیا ایک حالت ہے جس میں ’ہونا ‘ دھندلا جاتا ہے اور ’نہ ہونا‘ بھی مبہم رہ جاتا ہے۔ آدمی سے اُس کی نیند چھن جائے تو وہ خود سے اور غیر خود سے اتنے فاصلے پر چلا جاتا ہے کہ یہ دونوں ایک معنی خیز اور پر احوال التباس کی سطح پر آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں ۔یہیں سے چیزوں کو دیکھنے کا وہ تناظر میسر آتا ہے جس سے معنی اور احساس کی نئی انواع جنم لیتی ہیں۔ انسومنیا وہ واقعہ ہے جو شعور و وجود کے نقطۂ اتصال کو ہستی سے نیستی کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ اس واقعے کو بیان کرنے والا ’میں‘ بھی اتنا غیر انائی ہے کہ اس کے لیے کوئی بھی ضمیر استعمال کی جا سکتی ہے۔
؎ اب نہ سو پاؤں گا میں غیبتِ یزداں کی قسم
اِس مصرعے سے نظم شروع ہوتی ہے۔ اِ س کی معنویت اور کیفیت کے تمام اجزا ہولناک حد تک مکمل ہیں۔ ’اب‘ میں جیسے پورا زمانہ سما گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ابدیت ایک ایسے نقطے میں سمٹ آئی ہے جہاں وقت مکان ذہن…غرض سب کچھ نابودی کے وفور کے ساتھ یکجان ہو گیا ہے۔ یہ حرف جس کا خمیر ہی التباس اور ادھورے پن سے اٹھا ہے، اُس میں اتنا ناقابلِ ادراک و احساس پھیلاؤ پیدا کر دینا صرف قدرتِ کلام کا کرشمہ نہیں ہے، یا محض بلندیِ ادراک کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسے حال سے گزرنے کا نتیجہ ہے جو آدمی کو تنہائی اور غیاب کی غیر متناہی گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ بے خوابی یعنی جبری بیداری میں اذیت کے ساتھ ایک احساسِ انفرادیت بھی ہوتا ہےجو انسومنیا کی لپیٹ میں آئے ہوئے شخص کو موجود اور معدوم ہونے کے مشترک حوالوں تک رسائی دے دیتا ہے۔ اِس مصرعے کی سلبی فضا میں ایک طرف یہ محسوس ہوتا ہے کہ وجود، موجودیت کے لوازم سےعاری یا بلند ہو گیا ہے، اور دوسری جانب یہ دکھائی دیتا ہے کہ عدم بھی معدومیت کے ذہنی عناصر سے خالی یا پاک ہو گیا ہے۔ ’غیبتِ یزداں‘کی نسبت سے ہستی ونیستی سے ماورا ایک صورتِ حال اپنا انکشاف کر رہی ہے، اور اُس کے متوازی ہونے اور نہ ہونے کے بالکل نئے احوال سے گزرتا ہوا ’میں‘ ہے جو یزداں کے حوالے سے موجود ہونے کی مشق کر رہا ہے اور اُس کے غیاب کے ریفرنس سے نہ ہونے کی ریاضت میں محو ہے۔ یزداں میں موجود زیادہ ہے وجود سے، اور ’غیبت‘ میں معدوم زیادہ ہے عدم سےاور یہ سب کچھ ایک لاتعلق المناکی کے ساتھ جھیلنا پڑ رہا ہے اُس آدمی کو جو اب سونے کے قابل رہ گیا ہے نہ جاگنے کے لائق۔
سجدۂ شوق میں ہر رات
یونہی عادتِ بے قصد سے مجبور
کسی بحرِ خموشاں کے چمن زار کنارے پہ اترنے کی دعا کرتا ہوں
بے خوابی اسی طرح مطلق ہے جیسے کہ غیبتِ یزداں ۔ ان میں ایک نہ ٹوٹنے والی نسبت ہے۔ جسے آدمی اپنی نیند کی قیمت پر نبھاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں خود اپنے غیاب کو تج کر غیبتِ یزداں کے ساتھ ایک اعصاب شکن مناسبت پیدا کرتا ہے۔ خود غیابی کے ہر عنصر سے محرومی کی حالت میں ہر دم حاضر رکھنے والی بیداری ایسی تھکن میں بدل جاتی ہے کہ حضور و غیاب ہی نہیں بود و نبود کے احوال بھی ایک دوسرے میں خلط ملط ہو کر ذہن اور احساس دونوں سے لا تعلق ہو جاتے ہیں۔ آدمی مسلسل جاگ نہیں سکتا، لگاتار دیکھ نہیں سکتا، اسی لیے اگر جاگنا اور دیکھنا اس پر مسلط ہو جائے تو بیداری اور بصارت اپنے اصلی سیاق و سباق سے نکل جاتی ہیں اور اس کے اندر اور باہر بننے والے مناظر میں ایسا انتشار پیدا ہو جاتا ہے کہ احساس اور معنی کی بناوٹ بدل کر رہ جاتی ہے۔ ’سجدۂ شوق‘ ’عادتِ بے قصد‘ اور ’بحرِ خموشاں کے چمن زار کنارے‘ یہ سب آپس میں جس احساساتی شدت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، وہ شدت ذہن کی تحویل میں آتے ہی ایک لا یعنی اور اجنبی خوابناکی میں بدل جاتی ہے۔ یہ خوابناکی جاگنے کے احوال کو ماؤف کر دیتی ہےمگر سونے کے لیے کافی نہیں ہے۔
ان تین مصرعوں میں حضورِ یزداں اور خواب کو ایک پیچیدہ نفسیاتی بے یقینی کے ساتھ اس طرح جوڑا گیا ہے کہ بیداری اور اس کی دنیا کا پورا نظام جیسے معطل اور مہمل ہو چکا ہے۔ ایک ہی احساس کے تسلسل کی ہر کڑی دوسرے سے متصادم ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس بہاؤ کے تمام عناصر ایک دوسرے کے منکر ہیں۔ احساسِ واحد کے اجزا میں ایسا تضاد اور لا تعلقی پیدا کر دینا ایک غیر معمولی بات ہے۔ ایک طرف سجدۂ شوق ہےاور دوسری جانب عادتِ بے قصد کے جبر سے مانگی جانے والی دعا ہے۔ ان دونوں کا تعلق ایسا ہی ہے جیسے لفظ اور اس کے معنی میں مکمل مغائرت در آئے یا آنکھ اور بینائی میں لا تعلقی پیدا ہو جائے۔ یہ صورتِ حال چونکہ محسوس نہیں کی جاسکتی لہذا اسے تصویر کر دیا گیا ہےــــــــــ ’بحرِ خموشاں کا چمن زار کنارا ‘! یہ منظر آنکھوں سے دست برداری کا تقاضا کرتا ہے۔ آنکھیں اپنے معمول کے مسائل یعنی سونا جاگنا اور دیکھنا چھوڑے بغیر اس تصویر کی ناظر نہیں بن سکتیں۔ یہ محض شاعرانہ باتیں نہیں ہیں بلکہ تخیل کی اُس سطح کا تجزیہ ہے جہاں مثال کے طور پر، لفظ ذہن اور شے کے درمیان نئی نسبتیں دریافت یا ایجاد کی جاتی ہیں۔
’بحرِ خموشاں‘ کی ترکیب میں ایک ایسی ندرت ہے جو اعلی درجے کے لسانی شعور اور اس کی خلاقی کو بروئے کار لائے بغیر سامنے نہیں آ سکتی تھی۔ شہرِ خموشاں یعنی قبرستان کے تقابل میں رکھ کر دیکھا جائے تو بحرِ خموشاں میں جاری معنوی توسیع کا عمل زیادہ واضح ہو کر نظر آئے گا۔ ایک وجود کا مدفن ہے اور دوسرا شعور کا ویرانہ جہاں ایسے اچھوتے حقائق دبے پڑے ہیں جو اظہار پا جائیں تو عالمِ شعور میں بعث بعد الموت کا ہمہ گیر واقعہ رونما ہو جائے۔ بحرِ خموشاں اور اس کا چمن زار کنارا شعور کی ابدیت کے استعارے ہیں جن کا فی الحال انکشاف نہ ہونے کی وجہ سے خواب اور بیداری کا بے اصل اختلاف ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ وجود اور شعورمیں صرف ایک چیز مشترک ہے ــــــــــ خاموشی ، جہاں تضادات حل ہو جاتے ہیں، اور ہونے کا پورا سیاق و سباق ایسا بدل جاتا ہے کہ نہ ہونا کوئی واقعہ نہیں رہتا بلکہ وہ حال بن جاتا ہے جس کی بنیاد پر یہ کہنا ممکن ہو جاتا ہے کہ شعور ہی وجود ہے اور وجود ہی شعور۔ انسان’ہونے ‘ کا اتنا عادی ہوگیا ہے کہ اسے ’نہ ہونے‘ کی ’وہ حالت‘ محسوس ہی نہیں ہوتی جو شعور کا کل اندوختہ ہے۔ تیسری لائن میں عاصم بخشی صاحب نے اس دنیا کی تصویر کھینچ دی ہے جو وجود کی نہیں، شعور کی بنیاد پر قائم ہے۔ نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جس کا نظامِ فعال لا وجودی اور خلاق لا شعوری پر چل رہا ہے۔ کیونکہ شعور و وجود کی وحدیت کا ایک ہی ظرف ہےاور وہ ہے ’لا‘، جہاں دونوں اپنی نفی کر کے یا خود سے بلند ہو کر ایک ہو جاتے ہیں ۔ اوپر کی بات کو آگے بڑھائیں تو شہرِ خموشاں اور بحرِ خموشاں دونوں میں ابدیت مشترک ہے، شہر میں سکون اور خالی پن کے ساتھ، جبکہ بحر میں حرکت اور معموری کے ساتھ۔
یہ سب پیچیدہ احساسات و تخیلات، خیال رہے کہ، انسومنیا سے پیدا ہو رہے ہیں۔ جس میں خواب اور بیداری دونوں اپنے معنی اور احوالی امتیاز کو کھو بیٹھتے ہیں۔ تاہم اس پیچ در پیچ اور رسمی معیار پر غیر مربوط بلکہ لا یعنی صورتِ حال سے دور رہ کر صرف اتنا دیکھ لینا بھی ایک جمالیاتی سرشاری پیدا کر سکتا ہے کہ بے خوابی کے جبڑوں میں پھنسا ہوا ایک شخص اپنی مطلوبہ نیند کو کس صورت میں تصور کر رہا ہے۔ بحرِ خموشاں کا چمن زار کنارا ! جہاں اتر کر موتی جیسی نیند میسر آتی ہے۔
سرمئی نیند کی دہلیز کو چھوتے ہی
نظاروں کا فلک بار گجر بجتا ہے
کان پھٹتے ہیں پکاروں سے
یعنی ہلکی سی غنودگی آتی ہےتو بیداری پوری سفاکی کے ساتھ اسے اس طرح اڑا لے جاتی ہے جیسے ہوا کا جھکڑ دھند کو۔ اس بات کو کیسی خوبصورتی سے کہا گیا ہے کہ نیند کے دھندلکے میں پہلا سانس لیتے ہی بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے دکھائی دینے والے ادھورے نظارے آسمان سے برستی سماعت شکن ڈراؤنی آوازیں بن جاتے ہیں۔یہ شعور سونے کے ساتھ ساتھ جاگنے کو بھی نا ممکن بنا دیتا ہے اور آدمی اُس دُبدھا میں پھنس جاتا ہے کہ نیند کی طلب کرے یا بیداری کی۔ محمد حسن عسکری نے بیدل کے بارے میں کہیں لکھا تھا کہ وہ محسوسات کو ایک دوسرے سے بدل دیتے ہیں۔ تخیل کی یہ پیچیدہ سرگرمی اس نظم میں بھی جا بجا نظر آتی ہے۔ مثلا ً ان ہی تین لائنوں میں دید اور سماعت کا ایسا ادغام ہو گیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حواس اور احساسات کی دنیا کا نظام ایک ایسے انقلاب سے دوچار ہے جسے سمجھنے اور محسوس کرنے کے وسائل فی الحال پوری طرح دستیاب نہیں ہیں۔ لفظوں کے مروج حدود ٹوٹ کر ان کے درمیان نئی نسبتیں پیدا ہو رہی ہیں اور ذہن اور حواس گویا اس قدیم معاہدے سے آزاد ہو رہے ہیں جو اُن پر ایک جبر کی طرح مسلط چلا آرہا تھا۔ بیداری کی گرفت میں پھنسی ہوئی نیند ایک بالکل نئے حسی اور ذہنی تناظر کی بنیاد بن گئی ہے اور باہر کے مناظر بھی معمول کے ادراکی در وبست سے باہر نکل آئے ہیں۔ ’سرمئی نیند کی دہلیز‘ ایک طلسماتی جگہ ہے جسے چھوتے ہی اندر باہر ایک قیامت سی برپا ہو جاتی ہے۔ آسمان سے ایسے نظارے برسنے لگتے ہیں جو دکھائی کم اور سنائی زیادہ دیتے ہیں۔ یہ بہت ہیبت ناک تصویر ہے کہ مناظر آسمان سے آوازیں بن کر برس رہے ہیں ، اور ہر آواز، سماعت سے زیادہ ہے۔
اس نظم میں تخیل اور احساس کی رو کے ساتھ ساتھ معمول کی واقعاتی تنظیم و ترتیب کو بھی اچھی طرح نبھایا گیا ہے۔ اور اس کے متوازی خاص خاص لفظوں کی قریب و بعید نسبتوں کو بھی حالتِ تسلسل میں رکھا گیا ہے۔ ہم جس ٹکڑے کا تجزیہ کر رہے ہیں، واقعاتی روانی کے پہلو سے یہ اس رات کا اختتام ہے جسے ’غیبتِ یزداں‘نے غیب کی طرح سیاہ کر رکھا تھا۔ یہ صبح صادق کا وقت ہے، زمین و آسمان پر سے اندھیرے اور خاموشی کی مہر ٹوٹ رہی ہے۔ مگر ایک ’معدوم‘ نیند کا ایسا غلبہ ہے جس نے آواز اور روشنی کی رہائی کو اِس ساعت کو اتنا بدل دیا ہے کہ اپنے انکشاف کا عمل شروع کرنے والا ہر منظر کسی اعصاب شکن شور میں ڈھل کر رہ گیا ہے۔ ادراک اور احساس کا سارا درو بست جیسے ایک جھکڑ کی زد میں آئے ہوئے خیمے کی طرح اکھڑچکا ہے۔ نیند کے تصور اور بیداری کے جبر کی ایسی کشاکش ہے کہ دکھائی دینے والی چیز سنائی دینے لگی ہے، اور حواس کے حدود میں برپا یہ انتشار باہر کی دنیا کو بھی نگلتا جا رہا ہے۔ ایک خالص انسومنیائی صورتِ حال ہے جس میں ذہن اور دنیا کا تعلق دو واہموں کے تعلق کی طرح بن گیا ہے۔ لیکن یہ واہمے، معمول کی واقعیت سے زیادہ پر زور، پر شور، اور ذہن کی جہت سے، زیادہ معنی خیز ہیں۔
ذہن خشک،
زباں قطرۂ نمکیں کو ترستی ہے
یہ ’حلق کا خشک ہونا‘ اور ’زبان کا قطرۂ نمکین کو ترسنا‘ اُسی ’سجدۂ شوق‘ کے احوال یا نتائج ہیں جس کا ذکر نظم میں اوپر آیا ہے۔ حضور اور غیاب کی حدیں اِس بری طرح ٹوٹ چکی ہیں کہ آدمی کے لیے خود کو حاضر دیکھنا بھی مشکل ہو گیا ہےاور غائب سمجھنا بھی دشوار۔ اظہار و ادراک کا تانا بانا ٹوٹ جانے کے نتیجے میں بننے والی یہ سچوئیشن اتنی پیچیدہ ہے کہ اِس کا احساس اور بیان ناممکن ہو گیا ہے۔ بس ایک ہمہ گیر سکتہ اور اُس سے پیدا ہونے والی ہیبت نے ذہن، احساس، شے سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اور تو اور آدمی سے اُس کا المیاتی اندوختہ بھی چھن چکا ہے۔ ایک گھٹی ہوئی چیخ نے حلق کو اور ایک نا پید آنسو نے زبان کو معطل کر رکھا ہے۔ ’ذہن کی خشکی‘ دہشت کا استعارہ بھی ہے۔اِس ڈراؤنی خشکی میں سانس بھر وقفہ لینے کے لیے بھی جس المیہ احساس یعنی آنسو کے نمکین ذائقے کی ضرورت ہے، وہ بھی میسر نہیں رہا۔ اِس بات کے تصور سے ہی اعصاب شل ہو جاتے ہیں کہ آدمی المناکی کے فقدان میں جھونک دیا جائے۔
صداؤں کے تسلسل،
یہ تماشوں کی فصیلیں،
مجھے دہلیز کے اُس پار لپکنے نہیں دیتے
کہ میں آغوشِ مسیحائے سکینت میں اتر جاؤں،
نشیبوں کی،
فرازوں کی نذر ہو جاؤں
’تسلسل‘ کو جمع کے صیغے میں استعمال کرنا بہت بامعنی ہے۔ گویا سماعت کے کئی در کھل گئے ہیں جن میں آوازیں الگ الگ لکیروں کی صورت میں داخل ہوئے جا رہی ہیں۔ اندر اور باہر کا شور اتنا کثیر الجہات ہو چکا ہے کہ آوازیں ایک دوسرے سے لا تعلق ہو کر سماعت کے نئے نئے زاویے پیدا کر رہی ہیں۔ اور آدمی اُس زمین کی طرح ہوگیا ہے جس پر طرح طرح کی سرکش طغیانیوں نے دھاوا بول رکھا ہے ۔اِسی طرح ’تماشوں کی فصیلیں‘بھی قدرے روایتی ہونے کے باوجود اِس نظم کے سیاق وسباق میں کم ازکم ایک تازہ معنویت ضرور رکھتی ہیں۔ اور وہ یہ کہ انسومنیا ایک رخ سے خواب اور بیداری کے درمیان وہ اونچی آڑہے جسے گرایا نہیں جا سکتا ، اور دوسرے پہلو سے یہ عارضہ نیند کے ساتھ بیداری کے تمام contentsکو غیر حقیقی اور نامطلوب بنا دیتا ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ سننے کے جبر اور دیکھنے کی پابندی نے نہ صرف یہ کہ مجھے نیند سے محروم کر رکھا ہے بلکہ میری بیداری کو بھی مسخ کر ڈالا ہے۔
’نیند کی دہلیز‘ میں کوئی ایسا جادو چھپا ہے کہ اِسے چھوتے ہی نیند ایک ادھورے غیاب میں چلے جاتی ہےاور بیداری پتھرا جاتی ہے جیسے ناصر کاظمی نے کہا تھا:
؎ پتھر بن کر دیکھ رہا ہوں
آتی جاتی راتوں کو
بیداری اور نیند دونوں کو الگ الگ انداز سے سلب کر لینے والی آوازیں اور تماشے ایک بے خواب شخص کو اِ س دہلیز کو پار کر کے اُس نیند تک نہیں پہنچنے دیتے جس میں ہستی کے شانت ماحول میں دوبارہ جی اٹھنے کا عمل بحال ہو جاتا ہے، اور آنکھوں کی بیڑیاں بن جانے والے مہمل نظاروں کے شور کی موجد بیداری سے رہائی مل جاتی ہے۔ نیند کو’ آغوشِ مسیحائے سکینت‘ کہنا کمالِ اظہارتو ہے ہی، اِس میں معنویت کی بھی کئی پرتیں ہیں جنہیں کھولنے کی کوشش ضروری ہے۔ نیند اور’آغوش‘ کی مناسبت ظاہر ہے مگر اِس میں بھی یہ اشارہ موجود ہے کہ بے خوابی فقط ایک جسمانی آزار نہیں ہے، پورا وجود ہی اِس کی زد میں آیا ہوا ہے یہ اشارہ مسیحائے سکینت کے حوالے سے ملتا ہے ۔ مسیحا کی نسبت سے نیند جسمانی حدود سے بلند ہو کر اُس وجودی سطح تک پہنچ گئی ہے جہاں معدومیت کے روگ کا علاج ہوتا ہے۔اورپھر ’سکینت‘ سے مسیحا اور اُس کے آغوش کے معانی یکجان ہو کر ایک ایسا دائرہ بنا لیتے ہیں جس میں گویا ہستی خود کو درپیش تضادات سے پاک ہو کر اپنی اصل اور منتہاۓ حال کو پا لیتی ہے اگر یہ کسی صوفی کی نظم ہوتی تو بلا تکلف کہا جا سکتا تھا یا ہے کہ سکینت، وجود و شہود کی عینیت کا انکشاف ہے۔ بےمعنی بیداری شہود کو وجود سے دور رکھتی ہے اور لا یعنی نیند ، وجود کو شہود سے۔ گویا مسیحائے سکینت سونے جاگنے کے تضاد کو دور کر کے اِس فاصلے کو بھی ختم کرتا ہے۔ اِس کے آغوش میں نیستی کا زخم بھرا جاتا ہے اور ہونے کی تجدید کی جاتی ہے، انفسی گہراؤ اور آفاقی پھیلاؤ کے ساتھ!
میں،
مری تشنہ لبی،
بینا ونابینا بصیرت،
کسی مبہم سی مثلث میں سمٹ جاتے ہیں
بے خوابی کی لپٹ میں آیا ہوا ’میں‘، اور اِس زہریلی دھند میں بھڑکی ہوئی پیاس جس کے لیے ایک گہری نیند ہی آبِ حیات کا پیالہ ہے، اور جبری بیداری کا عذاب جھیلتی ہوئی آنکھ جس کے لیے دیکھنے میں کوئی معنی رہ گئے ہیں نہ نا بینائی کا کوئی مطلب ہے۔ میں، میری پیاس اور میری ذہنی و جسمانی بینائی مکمل لا تعلقی کی حالت میں ایک دوسرے سے جڑےہوئے ہیں۔ انسومنیا نے انا اور اس کے احوال میں ایسی دوری اور مغائرت پیدا کر دی ہے کہ میں کا ذہنی اور حسی در وبست بکھر گیا ہے اور ہونے اور جاننے کی تمام حالتیں خودی کے مدار سے برگشتہ ہو کر ایک خلا میں گم ہوتی جا رہی ہیں جہاں ’میں‘ اور ’میرا‘ میں غیریت کے سوا کوئی نسبت باقی نہیں رہی یہاں ’میں‘ کے احوال تو حقیقی یا واقعی ہیں لیکن خود ’میں‘ ایک واہمہ۔ وہ ’مبہم سی مثلث‘جس میں یہ سارا وجودی انتشار سمٹ آیا ہے، آدمی دنیا اور خدا کے زاویوں سے بنی ہے، لیکن خودی کے معطل ہو جانے کی وجہ سے یہ تینوں زاویے کسی معنی کی تشکیل نہیں کرتے ، اور اِن کا باہمی امتیاز بھی اِس حد تک محو ہو چکا ہے کہ خدا، آدمی اور دنیا محض اشارے بن کر رہ گئے ہیں جن کا مشار الیہ کوئی نہیں۔
اور یہ بے رنگ تکونا سا مرقع
دمِ تقریبِ فنا،
نقطۂ عرفاں میں سکڑ جاتا ہے
ایک ہی پل میں کئی سال گزر جاتے ہیں
یہ ’مبہم سی مثلث‘ جو بے رنگ تکونا سا مرقع ہے، ذہن، شے اور معنی کی تمام حدیں اور نسبتیں توڑ کر ایک ایسے نقطے میں ڈھل جاتی ہے جو خود اِس مثلث سے بھی ما ورا ہے۔ یہ نقطہ ایک لمحہ بھی ہے جو وقت کے دریا میں گرداب کی طرح ہےجہاں وقت کی گردش اتنی تیز ہے کہ حرکت کے تمام سانچے ٹوٹ جاتے ہیں اور جیسے زمانہ اپنے ذہنی تعینات اور مکانی مظاہر سے منقطع ہو کر حرکت کے کسی ایسے نظام کا حامل بن گیا ہے جس کا معروض غائب ہے۔ یہ انسومنیائی زمان و مکاں جس نقطے میں سمٹا ہوا ہے وہ موجود بھی ہے اور معدوم بھی۔ یہ’نقطۂ عرفاں‘ ہے جہاں چیزیں مہمل بن کر با معنی ہو جاتی ہیں۔ نظم کے اِس ٹکڑے میں ’بے رنگ تکونا سا مرقع‘، ’دمِ تقریبِ فنا‘اور ’نقطۂ عرفاں‘ بنیادی حیثیت رکھتے ہیں انہیں ایک ایک کر کے کھولنا چاہیےتاکہ اِس نظم میں بننے والی تصویر کو مکمل ہوتے ہوئے دیکھا جا سکے۔
’بے رنگ تکونا سا مرقع‘، جیسا کہ ابھی عرض کیا تھا، وہی ’مبہم سی مثلث‘ہے جس پر کچھ باتیں اوپر ہو چکی ہیں تاہم اِ ن دونوں میں ایک تناظراتی امتیاز پایا جاتا ہے جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ اس مثلث کا ابہام شعور کی جہت سے ہے اور یہ تکونا سا مرقع اور اِ س کی بے رنگی وجود کی جہت سے۔عاصم صاحب نے بہت گہرائی رکھنے والی مہارت کے ساتھ ذہنی اور وجودی تناظرکی دو لختی کونہ صرف یہ کہ تصویر کر دیا بلکہ اِ ن کا ادھورا اور ناکافی ہونا بھی بیان کر دیا۔ مثلث ذہن میں بنی ہوئی ہے اور خود اُس کے لیے مبہم ہے، اِسی طرح مرقع کتابِ وجود ہے جس پر عدم کی بے رنگی چھائی ہوئی ہے ۔ اِن دونوں کو لا یعنیت اور معدومیت ہی ایک کر سکتی ہے، اور ’عرفان‘ اِسی ادراک کا نام ہے۔ ’نقطہ‘ اُس ماورائی عینیت (transcendental identity) کا استعارہ ہے جہاں وہ امتیازات اور تضادات ایک بودنِ نا بود کی فضا میں گم ہو جاتے ہیں جن کی بنیاد پر ہونے اور نہ ہونے میں فرق کیا جاتا ہے۔ یہ ’نقطۂ عرفاں‘، ’دمِ تقریبِ فنا‘ کا منتہی ہے۔ یعنی کہ عدم کا قرب فراہم کرنے والی ساعت ایک غیر ضروری واقعہ ہے جس کا ما ورائے شعور انکشاف ’نقطۂ عرفاں‘ میں ہو رہا ہے۔ جس طرح فنا میں نہ ہونا مجسم ہے، اِسی طرح عرفان میں بھی نہ جاننا شعور کی کل پونجی ہے دوئی ہونے اور جاننے میں ہوتی ہے ، نہ ہونے اور نہ جاننے میں نہیں۔ ’دم‘، ’نقطے‘ اور ’پل‘ میں ظاہری اور گہری دونوں طرح کی مناسبتیں ہیں جنہیں عاصم بخشی صاحب نے خوش اسلوبی سے برتا ہے ۔ مثال کے طور پر ’دم‘ وقت کی internalized اکائی ہے جبکہ ’پل‘externalized جزو ہے اِ ن دونوں کو استعمال میں لا کر گویا وقت کو ایک مجموعی پن کے ساتھ دکھایا گیا ہے جس کا ایک سرا وجود سے جڑا ہوا ہے اور دوسرا عدم میں پیوست۔ دو سِروں والی اِس لکیر میں ایک حرکت گندھی ہوئی ہے جس کا رخ اِ س طرف ہے کہ یہ دونوں سرے اپنا فاصلہ ختم کر کے ایک دوسرے میں مدغم ہو جائیں اور اُ س آنِ واحد میں ڈھل جائیں جس میں زمانے کا وجودی رخ اور عدمی جہت یکجا اور یکجان ہو جائے ۔ ’نقطۂ عرفاں‘ اِسی یکجائی اور یکجانی کا ظرف ہے۔ وہ’پل‘ اسی ظرف سے چھلکا ہے۔ اس ’پل‘ کی داخلی لا متناہیت میں وقت کا آفاقی بہاؤ بھی اپنی حرکت سے خالی ہوئے بغیر کسی گرداب کا سا ارتکاز حاصل کر لیتا ہے۔ ’ایک ہی پل میں کئی سال گزر جاتے ہیں‘، کی ایک تعبیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ زمانیت کا ایک متوازی بلکہ تقلیب شدہ نظام ذہن کی ایسی گہرائیوں میں جاری ہو چکا ہے جن میں اترنے کا خود ذہن کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ اِ ن گہرائیوں میں برپا سنسناہٹ کو سننے کے لیے بھی ذہن کو خود سے فاصلہ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ انسومنیا کی حرکت سے پیدا ہوجانے والا یہ فاصلہ یا مغائرت اِس پہلو سے بہت بامعنی ہے کہ اِس کے ذریعے سے یہ معرفت میسرآتی ہے کہ ذہن در اصل خود سے بھر ا ہوا ہے اور خود ہی سے خالی ہے۔
’نقطۂ عرفاں‘ اور ’ایک ہی پل‘ میں ایک مشابہت تو ظاہر ہے کہ دونوں ہمہ گیر ارتکاز کے مظاہر ہیں، ایک مکانی تناظرمیں اور دوسرا زمانی۔ لیکن اِس سے آگے بڑھ کر دیکھیں تو ایک ہیبت ناک منظر سامنے آتا ہے کہ نقطے میں وجود سمٹ کر غائب ہو گیا اور ’پل ‘ میں عدم جذب ہو کر ظاہر ہو چلا ہے۔ یہی وہ عرفان ہے جو بیداری کی دسترس سے باہر اور خواب کی گرفت سے دور ہے ذہن انسومنیائی تخیل کی لپیٹ میں آئے بغیر اپنے اندر اُس عرفانی نگاہ کی بازیافت سے محروم رہتا ہے جو ہونے ، نہ ہونے اور جاننے ، نہ جاننے کی مستقل روش سے ہٹ کر چیزوں کو ایک ایسے سیاق و سباق میں دیکھتی ہے جہاں بس لایعنی پن ہی حقیقی ہے، اور معنی کی دریافت یا معنویت کی تشکیل کا سارا عمل، خلا کو زنجیر کرنے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔
پار کر لی جو یہ دہلیز تو ڈرتا ہوں
کہ غربالِ زمانہ سے یہ لمحاتِ بلا خیز پھسل جائیں گے
یہ وہی ’دہلیز‘ ہے جسے نظم کے شروع میں ’سرمئی نیند کی دہلیز‘ کہا گیا ہے نا بیداری اور بے خوابی کے دھندلکے میں ڈوبی ہوئی وہ دہلیز اب ایک التباس نہیں رہی بلکہ ایسی حقیقت بن گئی ہے جسے کسی ذہنی تناظر اورحسی سانچے میں ڈھلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کھلی آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور آنکھیں بند کر لینے سے غائب نہیں ہو جاتی ۔ اِسے دیکھنے کا ہر تناظر بیک آن صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔ وہ’نقطۂ عرفاں‘ جس میں وقت اور شعور سمایا ہوا ہے، اُسی دہلیز کا ایک ذرہ ہے۔ یہ ’لا‘ کی دہلیز ہے ، لا وجود اور لا عدم کی چوکھٹ! انسومنیا اپنی انتہا پر بے انفسی اور بے آفاقی کا ایک ماحول پیدا کر دیتا ہے، یہ دہلیز اُس ماحول کے مرکز میں واقع ہے۔ یہ کسی مکان کی دہلیز نہیں ہےجسے پارکرنے کی سمت متعین ہو۔ یہ تو بس دہلیز ہے، جس پر سے گزرنے کا عمل ہمہ سمتی اور لا جہتی ہے۔ ایسی دہلیز کو پار کرنے کا تصور ہی کتنا ہیبت ناک ہے کہ آدمی ڈرنا بھی بھول جاتا ہے۔ ’غربالِ زمانہ‘ یعنی زمانے کی چھلنی اِ س اجنبی ہیبت ناکی کو اور بڑھا دیتی ہے۔ عاصم بخشی صاحب نے اِن دو مصرعوں میں اُس agonyاور تذبذب کو جو انسومنیا کا جوہرِ اصلی ہے ، ایک کائناتی سکتے میں بدل کر دکھایا ہے۔ زمانے کو چھلنی سے تشبیہ دینا محض شاعرانہ تخیل کا کمال نہیں ہے بلکہ اِس میں اپنے ماحول سے ناآسودہ شعور کی تما م قوتیں ہم احوالی کے ساتھ بر سرِ عمل ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ زمانہ بالکل کھکل ہو گیا ہے اور اِ س کے پلے میں کچھ نہیں رہ گیا۔ وہ ’لمحاتِ بلا خیز‘ بھی اِ س کی گرفت سے نکل چکے ہیں جن سے لفظ ، ذہن، دنیا وغیرہ میں معنی پیدا ہوتے تھے، اور ہونے ، نہ ہونے کی متوازیت برقرار رہتی تھی۔ ایسے لمحے وقت کی چھلنی سے پھسل جائیں تو ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ ایک دائمی سنگینی اختیار کر جائے گا کہ اب سونے کی کیا صورت نکالی جائے!
سوچتا ہوں کہ بھلا کیسے میں سو پاؤں گا!
روزنِ دید سے کترا کے گزر جائیں گے
آنکھ لگتے ہی مرے خواب بکھر جائیں گے
ایک تو اِس جبری بیداری کا بوجھ ایسا ہے کہ اُسے لے کر سویا نہیں جا سکتا ، اور پھر اب نیند بھی طلب سے زیادہ سوچ بن چکی ہے جس نے دیکھنے کو سونے سے زیادہ ضروری بنا دیا ہے۔ زمانے کو لمحات سے خالی ہوتے ہوئے دیکھنے کا عمل اتنا ہولناک ہے کہ انسومنیا کے چنگل میں پھنسے ہوئے آدمی کے لیے سونے کا تصور ایک ڈراؤنی چیز بن گیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لمحوں سے محروم وقت کی طرح نیند بھی خوابوں سے خالی ہو جائے۔ لیکن دوسری طرف اِس سارے تخیل میں پیچیدگی یہ ہے کہ خواب اور نیند میں مغائرت پیدا کر کے ، دیکھنے کے عمل میں لا تعلقی کا ایسا عنصر ڈال دیا گیا ہے جس کے لیے آنکھیں غیر ضروری ہیں اور مناظر ایسی شدت کے ساتھ نا پید ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے یہ نا پیدائی احوالِ دید ایجاد کر رہی ہے۔جن خوابوں کے بکھرنے کا اندیشہ ہے وہ یہی احوالِ دید ہیں جن کے تسلسل میں بے خوابی بھی رکاوٹ ہے اور نیند بھی۔ یہاں ’روزنِ دید‘ بہت با معنی ہے۔ اِس کا معنوی شجرہ رومی کے اِ س پیغمبرانہ phraseسے ملتا ہے :
’’ آدمی دید است۔۔۔‘‘ بیداری اتنی قیمتی چیز ہے کہ جبری بے خوابی بھی دید کی استعداد کو اتنا بڑھا دیتی ہے کہ آدمی کو آنکھوں سے ، اور اِن کی سونے جاگنے اور دیکھنے بوجھنے کی روایت سے وحشت ہونے لگتی ہے۔
انسومنیا اگر ڈھنگ کا ہو تو اُس سے ایک عارفانہ سبق ضرور ملتا ہے۔۔۔۔۔۔ جسے دیکھنا ہے اُسے آنکھوں سے دور رکھو! بس یہ نظم اِسی نکتے پر تمام ہوتی ہے۔
نہایت ادق تجزیہ ہے