پاک بھارت تعلقات اور محترم غامدی صاحب کا اصولی موقف۔ تحریر: محمد دین جوہر

 In تنقید

[ماہنامہ اشراق کے فروری 2020ء  کے شمارے میں ایک مضمون ”پاک بھارت تعلقات – جناب جاوید احمد غامدی کا اصولی موقف” شائع ہوا۔ یہ اصولی موقف نہ صرف ہندو پاک کے عوام بلکہ پوری دنیا کے لیے نہایت مفید معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو ” اِس وقت جتنا اختلاف اور جتنا تصادم نظر آتا ہے ، فوراً ختم ہو سکتا ہے۔ ” پس جناب محمد دین جوہر نے اس قدر مفید اصولی موقف کا جائزہ لینا ضروری سمجھا۔ جوہر صاحب کا مضمون پیشِ خدمت ہے۔  ماہنامہ اشراق میں شائع ہونے والا مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ مدیر]

پاک بھارت تعلقات کے بارے میں محترم جاوید احمد غامدی کا اصولی موقف جو مدیرِ اشراق کے قلم سے فروری ۲۰۲۰ء کے شمارے میں شائع ہوا، ہمارے علوم کی نمائندہ تحریر اور کئی لحاظ سے غیرمعمولی متن ہے۔ اس متن کے راوی مدیرِ اشراق جبکہ متکلم حقیقی اور فاعلِ علمی سرپرست مجلہ جناب جاوید احمد غامدی ہیں۔ متکلم حقیقی اور فاعلِ علمی کی دوگونگی کی حامل یہ تحریر جو علمی یا اصولی مشمولات رکھتی ہے، مضمرات سمیت ان کے تعین کی ضرورت ہے۔ اپنے درست تقدیری اور اخلاقی بیانات کی وجہ سے یہ تحریر براہ راست کامن سینس (common        sense) کو مخاطب بناتی ہے، اور موضوع زیربحث سے کیا ”اصولی“ یا علمی نسبتیں رکھتی ہے، ان کا واضح ہونا بھی ضروری ہے۔  بالکل درست اور متفق علیہ تقدیری اور اخلاقی بیانات سے اختلاف کرنا یقیناً نادانی ہے، لیکن ان بیانات سے حاصل شدہ علمی مفاد کا تعین کرنا ایک ضروری سرگرمی ہے۔ ایسی تحریریں اپنے مضمرات کے اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، اور ممکنہ عواقب کا تعین بھی ذمہ داری سے تجزیے کا متقاضی ہے۔

اس متن کے پہلے دو پیراگراف تقدیری بیانات پر مشتمل ہیں یعنی مطلق انسان اپنی پیدائش سے موت تک کچھ تجربات سے گزرتا ہے جو اس کے کچھ داعیات اور میلانات یا ”مواقف” کی تشکیل کرتے ہیں۔ ”سب سے پہلے اس حقیقت کو جاننا“ کہ ”پیدائش سے لے کر زندگی کے آخری مرحلے تک وہ  [یعنی مطلق انسان] رشتوں ناتوں کے ساتھ اپنی خوشیاں اور غم محسوس کرتا ہے اور یہی رشتے ناتے اس کے اندر وطن کی محبت کو جنم دیتے ہیں“ اور یہ کہ ”اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کی فطرت میں ان رشتوں کی بنا پر مخاصمت اور عداوت کے جذبات ودیعت ہیں“ صرف جنوبی ایشا کے انسان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ لاطینی امریکہ یا افریقہ وغیرہ کا انسان بھی انہی تقدیری تجربات سے گزرتا اور ان سے متاثر ہوتا ہے۔ تقدیری حالات اور بیانات چونکہ علی الاطلاق ہوتے ہیں، اس لیے کوئی ایک فریق ان سے کسی قسم کی علمی دلیل نہیں اٹھا سکتا، لہٰذا موقف اور عدم موقف میں وہ غیراہم ہوتے ہیں۔ یعنی تقدیر اور فطرت کے مؤثرات مذکور ہیں، لیکن انسانی ارادے اور ذہن کی فعال اور فیصلہ کن حیثیت ایسے بیانات میں محذوف ہوتی ہے، جبکہ ”اصولی موقف“ اصلاً انہی ملکات کا مظہر ہوتا ہے۔ ”اصولی موقف“ کا تعلق انسان کے ارادی فیصلوں اور عقلی اذعان سے ہوتا ہے، تقدیری اور فطری احوال سے نہیں۔ سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بیان کردہ یہ تقدیری اور فطری حقائق پاک بھارت تعلقات سے کیونکر متعلق ہو سکتے ہیں؟ اس ”اصولی موقف“ میں یہ بھی نامعلوم ہے کہ  تقدیری اور فطری ”حقائق“ سے پیدا ہونے والا سیاسی جھگڑا اور فساد لاطینی امریکہ کے ”انسان“ کا مسئلہ کیوں نہیں ہے اور جنوبی ایشیا کے رہنے والے پاکستانیوں اور بھارتیوں کا مسئلہ کیوں ہے؟ ان تقدیری اور فطری بیانات کا واحد مقصد یہ ہے کہ تاریخ اور اس میں فعال نظامِ افکار کا سامنا نہ کرنا پڑے، کیونکہ پاک بھارت مسئلے کا تعلق جس order سے ہے وہ اولاً تاریخی ہے، تقدیری اور فطری نہیں ہے۔ یہ مسئلہ برصغیر کے مسلم اور ہندو معاشروں کے تقدیری اور فطری حالات سے پیدا نہیں ہوا، بلکہ ان کے تاریخی حالات اور ان میں کیے گئے انسانوں کے اجتماعی سیاسی فیصلوں سے پیدا ہوا ہے۔ اب کوئی احمق ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ غامدی صاحب کے تقدیری فرمودات غلط ہیں۔ وہ بالکل درست ہیں لیکن زیر بحث صورت حال سے قطعی غیرمتعلق، خلط مبحث اور اضطرابِ شعور کا اظہار ہیں۔ علم کا بنیادی وظیفہ امتیازات کو سامنے لانا اور ان کی معنویت کو سمجھنا ہے، جبکہ غامدی صاحب تقدیر، فطرت اور تاریخ کے پہلے سے موجود امتیازات ہی کو نظرانداز کرتے ہوئے ”اصولی موقف“ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ اس طرح کا اصولی علم اور مواقف معاشروں اور قوموں کے لیے صرف ہلاکت ہی کا باعث ہوتے ہیں، اور جو ان کے مضمرات اور اطلاقات سے بالکل واضح ہے۔

جیسا کہ جناب غامدی صاحب کے فرمودات سے درست طور پر واضح ہوا کہ تقدیر اور فطرت [مطلق] انسان میں مخاصمت اور عداوت کے جذبات کی خالق ہے۔ اب اس میں مسئلہ یہ ہے کہ تقدیر اور فطرت اپنے ہی ودیعت کردہ ”مخاصمت اور عداوت کے جذبات“ سے پیدا ہونے مسائل کے حل کی کوئی استعداد نہیں رکھتی، اور جو بہت جلد ”جھگڑے اور فساد کی صورت اختیار کر لیتے ہیں“۔ اب ان کا حل کیا ہو؟ انسان کے تقدیری احوال کے تذکرے اور محبت اور دشمنی کے جذبات کی خالق کے طور پر فطرت کا ذکر کرنے پر جناب غامدی صاحب کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ فطرت دوستی اور دشمنی کے جذبات پیدا تو کرتی ہے لیکن ان کی تہذیب و تعلیم نہیں کرتی، اس لیے فرماتے ہیں کہ ’’دین و اخلاق، محبت و مخاصمت کے انھیں جذبات کی تہذیب کا کام کرتے ہیں‘‘۔ لیکن جذبات کی تہذیب سے بھی یہ مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور وہ فرماتے ہیں ”گویا جب آپ کسی قوم کو ایک خاص تہذیب، خاص ثقافت اور خاص کلچر میں ڈھال دیتے ہیں تو ایسی بہت سی چیزیں قاعدے میں آ جاتی ہیں۔ مذہب بھی یہی کام کرتا ہے“۔ وہ فرما رہے ہیں کہ دال گوشت، سبزی ترکاری کھانے سے آدمی کی بھوک مٹ جاتی ہے، اور پھل وغیرہ بھی یہی کام کرتا ہے۔ یہ بہت اہم اور درست معلومات ہیں لیکن حیرت ہے کہ ان کا پاک بھارت تعلقات پر ”اصولی موقف“ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ جذبات کی تہذیب کاری کے ضمن میں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ”دین و اخلاق“ سے مراد دین اسلام اور مذہبی اخلاقیات بالکل نہیں ہے کیونکہ ”کسی قوم کو ایک خاص تہذیب، خاص ثقافت اور خاص کلچر میں ڈھال“ دینے کے وسائل یہاں نامعلوم ہیں۔ غامدی صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ قوم کی تہذیب، ثقافت اور کلچر کی تشکیل کے عوامل مذہب سے حاصل نہیں ہوتے لیکن یہ نامعلوم  وسائل و عوامل جو کام کرتے ہیں مذہب بھی وہی کام کرتا ہے۔ شامل باجے کے طور پر مذہب کا کام تہذیب، ثقافت اور کلچر کی ان قوتوں کی ہاں میں ہاں ملانا اور ان کی تصویب و تائید کرنا ہے۔ یہاں خوشخبری دی جا رہی ہے کہ وہ وسائل جو بھی ہوں اور جہاں سے بھی ہوں ”مذہب بھی یہی کام کرتا ہے۔“ میرا خیال ہے کہ اہل مذہب کے خوش ہونے کے لیے اتنا کافی ہے۔

یاد رہے کہ پاک بھارت تعلقات تقدیری احوال اور فطرت میں پیدا ہونے والے مطلق انسان کا مسئلہ نہیں ہے، ورنہ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے لوگ بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے غامدی صاحب سے رجوع کر رہے ہوتے۔ ابھی تو قسمت ہم پر مہربان ہے۔ پاک بھارت تعلقات جنوبی ایشیا  کے پاکستانیوں اور بھارتیوں کا مسئلہ ہے جن کے شعور اور زندگی کی تشکیل میں تاریخ، مذہب، کلچر وغیرہ ایک فیصلہ کن عامل کے طور پر داخل ہیں۔ تاریخ اور تاریخی قوتوں سے نبرد آزما رہنے والے انسانوں میں ”قومی حمیت“  ایک تاریخ ساز قوت اور اصل حیات کے طور پر موجود ہوتی ہے۔ لیکن غامدی صاحب انسان کے تقدیری احوال اور فطرت کا جو تصور رکھتے ہیں، اس میں یہ ایک جاہلی عصبیت بن کر رہ جاتی ہے، اور اس کی مذمت میں وہ فوراً مذہبی دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ مطلق انسان ایک بے حمیت مخلوق ہی کا نام ہے، جسے اب مذہبی دلائل سے مؤید کرنا بھی ضروری ہو گیا ہے۔ بالکل غیرمتعلق تقدیری، فطری اور اخلاقی بیانات کی طرح قرآنی آیات بھی ”اصولی موقف“ کے تشکیلاتی منصوبے میں ویسے ہی بھرتی کی جا رہی ہیں۔ قیام بالقسط کا ان کے ”اصولی موقف“ سے تعلق بھی کسی فی الحال نامعلوم علمیات کے ذریعے ہی متعین کیا جا سکتا ہے۔ تقدیری حالات اور فطرت میں انسان کے ساتھ ساتھ جانور بھی رہتے ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ بعض جانوروں کے سینگ بھی اُگ آتے ہیں۔ لیکن ”اصولی موقف“ انسان کو سینگوں کی طرح حاصل نہیں ہوتا، بلکہ انسانوں کے ارادے اور ذہن کی فعلیت سے تشکیل پاتا ہے، اور فطری نہیں ہوتا، علمی، فکری اور تہذیبی ہوتا ہے۔

فطرت، دین و اخلاق، تعلیم و تربیت، قومی حمیت اور قیام بالقسط وغیرہ پر مشتمل تمہید کو سمیٹتے ہوئے وہ فرماتے ہیں ’’اس تفصیل سے یہ کہنا مقصود ہے کہ وطن سے محبت انسان کی فطرت اور وطن کے دشمنوں سے مخاصمت اس فطری محبت کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس محبت کو نہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ البتہ تعلیم و تربیت سے اس کو تہذیب و اخلاق کے دائرے میں لانے کی جدوجہد ضرور کرنی چاہیے‘‘۔ اس ’’البتہ‘‘ نے بھی خوب یاوری کی ہے کیونکہ ابھی تک مسئلہ زیر بحث کے بیان اور حل کی طرف کوئی پیشقدمی نہیں ہو سکی اور وطن کی محبت سے پیدا ہونے والا خلفشار تعلیم و تربیت کے بس سے باہر دکھائی دیتا ہے۔ اس میں سب سے معنی خیز پہلو یہ ہے کہ ”دین و اخلاق“ میں اگر دین سے مراد اسلام ہے تو وہ پاک بھارت تعلقات پر کوئی موقف بنانے میں مددگار نہیں ہو سکا۔ تو بھلا وہ مطلق انسان کے کس کام آ سکتا ہے؟ اور ”اخلاق“ سے مراد اگر مکارم الاخلاق ہے تو موقف سازی میں اس کی اہمیت بھی سامنے نہ لائی جا سکی۔

”البتہ“ سے متن میں اہم گریز واقع ہوا ہے، اور وہ فرماتے ہیں کہ ”وطن کی محبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مخاصمت اکثر قومی جھگڑوں اور بین الاقوامی جنگوں کا باعث بنتی ہے جس سے ملکوں کا امن برباد ہوتا اور دنیا میں فتنہ و فساد اور خلفشار کے دروازے کھلتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سے حفاظت کا راستہ کیا ہے؟ عصر حاضر میں اس کا جو راستہ انسانوں کے اجتماعی ضمیر نے اختیار کیا ہے، وہ قومی اور سیاسی معاملات میں دو اصولوں کی پاسداری ہے:

ایک جمہوریت

اور دوسرے قوموں کا حق خود ارادی۔“

یاد رہے کہ یہ دنیا بھر کے مطلق انسانوں کے مسائل کا حل ہے اور بیچارے پاکستانیوں کو بھی اسی پر قناعت کرنی پڑے گی، اور اگر بھارتی چاہیں تو وہ بھی ان جواہر حکمت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ امر حیرت انگیز ہے کہ پاک بھارت تعلقات پر ”اصولی موقف“ کی تشکیل کے لیے اول ساری دنیا کے مسائل کو حل کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا؟ اس سے بھی زیادہ حیرت اس امر پر ہے کہ ”اصولی موقف“ پاک بھارت تعلقات پر بنایا جا رہا ہے  لیکن ان تعلقات کی نوعیت پر کوئی ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے۔ یعنی مسئلہ کوئی علمی اور بیانیہ شناخت نہیں رکھتا، اور پورا زور فطری اور اصولی حل پر صرف ہو رہا ہے۔  بس یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ”قومی اور بین الاقوامی خلفشار کے خاتمے اور امن عامہ کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ان دو اصولوں کو قومی نظریے اور سیاسی عقیدے کے طور پر قبول کیا جائے۔“ مراد جمہوریت اور حق خود ارادی۔ یعنی پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی کا حل دنیا بھر کے مسائل کے حل سے مشروط ہے۔ اس میں بہرحال پاکستانیوں کے لیے دو قومی نظریے سے دستبرداری اور دین کے سیاسی احکام کا ترک اور نئے سیاسی عقیدے کی قبولیت بنیادی شرائط کے طور پر شامل ہیں۔

عصر حاضر میں جدید علوم کا ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ جمہوریت اور قومی حق خود ارادی کے سیاسی تصورات اپنی فکر اور عمل میں نہایت صراحت رکھتے ہیں، ان کا مبدا و منبع معلوم ہے، اور ان کے ایک خاص تہذیب میں ارتقائی مراحل بھی طے شدہ ہیں۔ اگر غامدی صاحب چاہیں بھی تو ان تصورات کے مغربی ہونے کا اخفا ممکن نہیں۔ تو پھر خالص مغربی تصورات کو ”انسانوں کے اجتماعی ضمیر“ سے منسوب کرنے کی کیا معنویت ہے؟ کیا اس ”اجتماعی ضمیر“ میں مسلمانوں کا ضمیر بھی شامل ہے؟ اگر یہ دو سیاسی اصول کسی ”ضمیر“ کی پیداوار ہیں تو ہدایت کے ساتھ اس کی نسبتیں بھی لابدی طور پر سامنے لائی جا سکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا ہیں؟ عصر حاضر میں ”انسانوں کا اجتماعی ضمیر“ کیا شناختی تعینات رکھتا ہے اور پاک بھارت تعلقات کے ساتھ اس کی علمی نسبتیں کہاں بیان ہوئی ہیں؟ کیا یہ اجتماعی ضمیر کوئی تہذیبی سیاق و سباق بھی رکھتا ہے یا مطلق انسان کی طرح ایک مجرد اور لاوارث تصور ہے؟ اس ضمیر نے اپنے حاصلات علم کو تاریخ سے متعلق کرنے کے لیے کون سے ذرائع اختیار کیے ہیں، اور پھر کیونکر ان کو مغربی تہذیب کے اداروں کی صورت میں ڈھالا ہے؟ اہم تر یہ کہ سیاسی تصورات کی طرح ہر ”اصولی موقف“ دینی ہدایت کی بجائے اب ”انسانوں کے اجتماعی ضمیر“ سے اخذ کیا جائے گا۔ اگر قارئین کو دیانت داری سے بتا دیا جائے کہ ”دین و اخلاق“ اب ضروری نہیں رہے اور مغربی تعلیمات ہی اب مسلمانوں کے لیے بھی رہنما ہوں گی تو اس میں کیا حرج واقع ہوتا ہے؟

ان اصولوں کی دریافت تک متن کا قاری یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ مطلق انسانوں کے مسائل زیربحث ہیں یا پاک بھارت تعلقات پر بات ہو رہی ہے۔  لیکن راوی اپنے متکلم اور فاعل علمی کے ”اصولی موقف“ کے جو اطلاقات سامنے لاتے ہیں، اس سے پاک بھارت کشیدگی کا کوئی حل سامنے آئے یا نہ آئے ایک بات یقینی ہے کہ ’’پاکستان کا مسئلہ‘‘ ضرور حل ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ عالمی استعمار کے سرمائے سے پیدا ہونے والے علمی ڈسکورسز میں پاکستان ایک پیراڈوکس (paradox) اور دہشت گردی کے تناظر میں ایک بین الاقوامی ”مسئلہ“ رہا ہے۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں ’’اسی طرح اگر کوئی قوم کسی خاص علاقے میں مقیم ہے اور اس بنا پر وہ الگ ریاست کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے گا۔ جذباتی نعروں، رومانی قصوں، مذہبی روایتوں اور استبدادی نظریوں کو اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔ ان دو اصولوں کو اگر ان کی روح کی مطابق قبول کر لیا جائے تو اس وقت جتنا اختلاف اور جتنا تصادم نظر آتا ہے، فوراً ختم ہو سکتا ہے‘‘۔ میرا خیال ہے کہ پاکستانی اہل اقتدار کو غامدی صاحب سے فوراً رابطہ کرنا چاہیے تاکہ وہ ان دو اصولوں کو ان کی روح کی مطابق سمجھ سکیں اور اسکاٹ لینڈ میں علیحدگی کی تحریک کے ماڈل پر بلوچستان یا دوسرے صوبوں میں علیحدگی پسند عناصر کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے کی تعلیم و تربیت کا بندوبست فرما سکیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’ہندوستان یا پاکستان یا افغانستان یا عرب یا ایران کوئی مقدس وجود نہیں ہیں یہ محض سیاسی وحدتیں ہیں جو مختلف سیاسی حالات کے نتیجے میں قائم ہوئی ہیں ان کے مابین سرحدوں کی تقسیم نہ ازلی ہیں نہ ابدی الخ‘‘ مثلاً پاک بھارت کشاکش کے فریقین مذہب کو اپنی سیاست میں ضرور بروئے کار لاتے ہیں اور ان کے مابین کشمکش یا مذاکرات ان ملکوں کے مقدس وجود ہونے یا نہ ہونے پر واقع نہیں ہوتے۔ تقدیری بیانات دہرائے چلے جانے سے اصولی موقف پیدا نہیں ہوتے، کیونکہ سیاسی موقف تاریخ سے براہ راست جڑے ہوتے ہیں۔  صاحبِ موقف فرماتے ہیں کہ سرحدیں ازلی اور ابدی نہیں ہیں۔ یقیناً نہیں ہیں۔ شاید کسی احمق نے یہ بات کہی ہو جس کا رد انہوں نے ضروری سمجھا ہے۔ لیکن یہ سرحدیں قومی، سیاسی اور تاریخی تو یقیناً ہیں اور ایسی کہ جن کے لیے معاشرے کے معاشرے کٹ مرنے کے لیے تیار ہوتے  ہیں۔ اس پر ان کا ”اصولی موقف“ کیا فرماتا ہے؟  بھارت اور پاکستان کو مقدس وجود نہ سمجھ کر اور انہیں سیاسی وحدت قرار دے کر وہ صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ غیر جانبدار ہیں۔ وہ فرماتے ہیں ’’ان کے اندر بھی اگر کوئی قوم اپنی نئی وحدت بنانا چاہتی ہے تو اس کی تائید اور حمایت ہونی چاہیے، اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں کرنی چاہیے“۔  یعنی غامدی صاحب کے اصولی موقف کی روشنی میں اگر بلوچستان یا آسام میں آزادی کی کوئی تحریک چلے تو ہم اس کی حمایت کے پابند ہیں۔ یہ جاننا مشکل نہیں کہ اس اصولی موقف میں پاک بھارت تعلقات نہ زیر بحث ہیں، نہ ان پر کوئی موقف ہے بلکہ اصل اہمیت صاحب موقف کی غیر جانبداری کی ہے۔ ایک مطلق انسان جو دنیا اور اس کے مسائل کو صرف تقدیری اور اخلاقی بیانات کی روشنی میں دیکھتا ہو اس کا ”اصولی موقف“ ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ اب ہم ذیل میں اس متن کے فاعل علمی کی شناخت کی کوشش کریں گے۔

متن کا فاعل علمی

متن میں بیان ہونے والا ”اصولی موقف“ ایک مطلق انسان کا موقف ہے، اور جو عنوان میں مذکور کشمکش میں مکمل طور پر غیر جانبدار ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس غیرجانبداری کی کیا معنویت ہے؟ اس موقف کو درست طور پر سمجھنے کے لیے اس کے آگے پیچھے کارفرما اخلاقیات کو سمجھنا ناگزیر ہے،  لیکن ہم فی الوقت اس کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ فاعل علمی نے جو دو اصول مستعار لیے ہیں وہ ”انسانوں کے اجتماعی ضمیر“ کے پیدا کردہ ہیں، اور ”انسانوں کے اجتماعی ذہن“ کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ ضمیر کسی مستقل چیز کا یا کسی کلی کا یا کسی آفاقی چیز کا نام نہیں ہے۔ یہ ہر انسانی معاشرے میں متداول زمانی لیکن بدلتا ہوا اخلاقی شعور اور اس کے محتویات ہیں۔ ذہن، مذہبی اخلاقیات یا سیاسی تصورات کی طرح یہ کوئی formal چیز نہیں ہے، بلکہ قطعی informal ہے۔ علوم و مذاہب کے تناظر میں یہ بالکل لاوارث چیز ہے، اور صرف ثقافت اور کلچر کے تناظر میں اس کو کھینچ تان کے کوئی معنویت دی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ علمی تصورات میں ”انسانوں کے اجتماعی ضمیر“ کی طرف رجوع ہو گا یا ”انسانوں کے ذہن یا اجتماعی ذہن“ کو بھی کوئی حوالہ بنایا جا سکتا ہے؟ متن کا فاعل علمی اپنی فعالیت میں کوئی ”اصول“ یا ”اصولی موقف“ تشکیل نہیں دے رہا، بلکہ اپنی مکمل انفعالیت میں دریوزہ گری سے علمی التباس پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مثلاً جمہوریت اور حق خودارادی مغربی تہذیب کے بناکردہ، اختیار کردہ، شائع کردہ، اور اکثر عالمی طور پر مسلط کردہ سیاسی ”اصول“ ہیں اور فاعل علمی ان کو اپنا سیاسی عقیدہ بنا کر ان پر حق ملکیت جتانے کی کوشش کر رہا ہے۔  وہ فرماتے ہیں: ”اسی طرح اگر کوئی قوم کسی خاص علاقے میں مقیم ہے اور اس بنا پر وہ الگ ریاست کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے گا۔ جذباتی نعروں، رومانی قصوں، مذہبی روایتوں اور استبدادی نظریوں کو اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا“۔ کیا یہ ان اصولوں کے اصل مالکان کا لہجہ ہے یا کوئی دریوزہ گر فاعلِ علمی بلک رہا ہے؟  یہ تھوتھے چنے میں سحر سامری کی نطق آوری کا منظر ہے!

زیر بحث متن کے سرسری مطالعے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ فاعل علمی مکمل ترین حد تک غیر جانبدار ہے۔  ”انسانوں کے اجتماعی ضمیر” یعنی مغرب کی استعماری تہذیب کے پیداکردہ دو بنیادی اصولوں کو عقیدہ بنانے کے بعد بھی اس  فاعل علمی کو  غیرجانبداری کی خوش فہمی باقی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی پاکستانی یا کسی مسلمان یا کسی پاکستانی مسلمان کا موقف نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اس موقف میں مضمر پوزیشن ایک مطلق انسان کی ہے جو اتفاقاً پاکستانی بھی ہے اور مسلمان بھی ہے۔ اس میں یہ خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ دین حق نے یا شرعی مطالبات نے یا مکارم الاخلاق نے اس “اصولی موقف” کی تشکیل میں کوئی معاونت کی ہے۔ یہ مطلق انسان ایک نئی قسم کا انسان ہے اور مغربی استعماری ترجیحات پر ڈھلنے والا ایک بالکل نئی شناخت کا حامل مسلمان ہے۔ اس کے ذہنی، نفسی اور وجودی اجزائے ترکیبی اب مکمل طور پر مغرب سے مستعار ہیں۔ سیاسی عقیدے کا اظہار تو ہو گیا، اور باقی ابھی نامعلوم کے زمرے میں ہیں۔  اس اصولی موقف کو پڑھنے کے بعد آپ نہیں جان سکتے کہ صاحبِ موقف  پاکستانیوں کے ساتھ ہیں یا بھارتیوں کے ساتھ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ  دراصل انسانوں کے ساتھ ہیں جو دنیا کے ہر جغرافیے میں پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنگِ بدر کے موقع پر مسلمانوں کے طرز عمل سے اس طرح کی غیرجانبداری کی کوئی مثال دی جا سکتی ہے؟ پاک بھارت تعلقات میں اگر ٹھیٹھ مذہبی پوزیشن لی جائے تو اس طرح کی غیرجانبداری پر ممکنہ دینی اور شرعی رہنمائی کیا ہو سکتی ہے؟

میرے نزدیک اس ”اصولی موقف“ کے فاعل علمی کی شناخت کا تعین اس لیے اہم ہے کہ استعماری جدیدیت کے زیر اثر ہمارے مذہبی اور غیر مذہبی علوم میں جو بنیادی اور اصل تبدیلی آئی وہ ہر طرح کی حمیت، ضمیر اور ذہن سے خالی فاعلِ علمی کا ظہور ہے۔ مستعمَر فاعل علمی (colonized        subject        of        knowledge) اپنی تشکیل نو میں جو وسائل استعمال کرتا ہے وہ سب کے سب آقائے سرسید کی فراہم کردہ  تہذیبی اور علمی کِٹ (kit) میں سلیقے سے سجے ہوئے ہیں: (تقدیر اور) فطرت، (تہذیب ال)اخلاق، (مستعمِر کی برتر) انسانیت، (گورے آدمی کی تہذیب پروری کا سیاسی) ضمیر، (نیٹویت کی شناعت میں سفید فام کا واحد فعال) انسانی ضمیر، اور (مغربی جدیدیت کی بالجبر قائم کردہ اخلاقی اور علمی normativity کے زیر اثر استعماری جدیدیت کی بطور) قومی نظریے اور سیاسی عقیدے کے قبولیت۔ مستعمَر فاعل علمی اپنے انسانی، تاریخی اور تہذیبی تعینات سے یکسر خالی ہو جاتا ہے، اور مندرجہ بالا اجزا اس کے ذہن، نفس اور ارادے کے واحد مظاہر کے طور پر باقی رہ جاتے ہیں جیسا کہ زیربحث متن سے ظاہر ہے۔

زیر بحث مسئلہ پاک بھارت تعلقات ہیں اور برصغیر میں مطلق انسانوں کی نایابی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے لوگوں کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور ان میں سے کوئی شخص غیر جانبدار نہیں ہے، جبکہ اس اصولی موقف کا حامل انسان مکمل طور پر غیر جانبدار ہے جیسا کہ عرض کیا۔ اور یہ وہ غیرجانبداری ہے جو افکار و تہذیب کے مرگھٹ میں واحد شرطِ زندگی ہے:

سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عین حیات

ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search