’مولانا‘ فاؤسٹ کے رامشگر کی کلپنا (قسط دوم) ۔ تحریر: محمد دین جوہر

 In تنقید
[جناب عاصم بخشی کے ایک مضمون ”حریف جدیدیت کا فاؤسٹ اور تنقید کی گریچن کے جواب میں جناب محمد دین جوہر کی تحریر جائزہ کے صفحات پہ پیش کی جا رہی ہے۔ اس تحریر کی دوسری قسط حاضر ہے۔ مدیر]

(۳)  انتخابی تعصب، اخفائے موقف، خود مسماری، خطیبانہ انداز کے الزامات وغیرہ وغیرہ

(الف) بخشی صاحب چونکہ کہاری علم کے بڑے نمائندوں میں سے ہیں، اس لیے ان کا ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ علمی تصورات کی تعریفات اور تفصیلات میں ہم مغرب کے پیدا کردہ ٹیکنیکل مباحث کی شرائط کا لحاظ نہیں رکھتے اور ایک انتخابی تعصب (selective       bias) سے کام لیتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ”اس خود مسمار تنقیدی روایت کی سب سے دلچسپ جہت سماجی تھیوری میں ’روایت‘، ’تاریخیت‘ اور ’جدیدیت‘ جیسے مقولات کی دستیاب تعریفات میں سے پہلے تو من پسند چناؤ اور پھر ان چنیدہ تعریفات کو مقبول و معروف کہنے پر اصرار ہے۔ دراصل یہ ایک جانا مانا علتی سلسلہ ہے جس کے ذریعے چنیدہ تعریفات پھیل کر پہلے تو دوسری تمام تعریفات پر حاوی ہوتی ہیں اور پھر انہیں حاشیوں پر بھی جگہ دینے پر راضی نہیں ہوتیں۔ یہ کم و بیش اسی قسم کا انتخابی تعصب (selective       bias) ہے جس کی معکوس صورت ہمیں کلاسیکی استشراقی منہج تنقید میں نظر آتی ہے۔“  پھر وہ منہج کی ڈبیا سے جینیاتی نسوار لینے کے بعد اپنا اصل مدعا بیان فرماتے ہیں کہ ”ڈاکٹر فضل الرحمٰن رحمہ اللہ، ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر عمار ناصر وغیرہم خالص مذہبی روایت فکر یعنی ’آرتھوڈوکسی‘ کے جزیرے میں جنم لے کر ایک ایسی حریف جدیدیت کے امکانات برپا کرنے نکلے ہیں جو فکری خود مسماریت پسندی کے برعکس ہماری خالص مذہبی (یعنی آرتھوڈوکس) روایت سے قریب تر ہے۔“ اصل میں یہی وہ تسلی ہے جو وہ اربابِ مدرسہ ڈسکورسز اور ہمنواؤں کو دینا چاہتے ہیں۔ ان کا مضمون دیکھ لیجیے، وہ اپنی علمی جینیات اور طریقیاتی منہج کے اطلاقات کے بغیر ہی اس نتیجہ پر پہنچے ہیں، کیونکہ وہ مخاطب کے موقف یا مدرسہ ڈسکورسز پر علمی جینیات اور طریقیاتی منہج کے اطلاق کی استعداد نہیں رکھتے۔ یہ امر اُس چربے سے بھی ظاہر ہے جسے مغربی علوم میں تصورِ جدیدیت کے زمانی سفر میں سامنے آنے والی اس کی فکری تصریفات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔  کرایہ بھاڑہ وجودی مسئلہ ہو اور علمی جینیات اور طریقیاتی منہج کی ڈفلیاں زور سے بجائی جائیں تو مدرسہ ڈسکورسز کی روح اور فاؤسٹ کا سودا تو سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور مدرسہ ڈسکورسز اور استشراقی غلامی میں متولد اسلامی تجدد (Islamic       Modernism) کی نسبتیں نگاہوں سے اوجھل رہ جاتی ہیں۔ مانگے کی تنقید کا طعنہ تو تب درست ہوتا جب آدمی نے اپنے سیکھے کا اجرا کرنے کی اہلیت ہی پیدا کر لی ہو۔

گزارش ہے کہ یہ پورا مضمون جس  angst  سے پیدا ہوا ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جدیدیت پر گفتگو کا حق کون رکھتا ہے اور کسے یہ حق حاصل نہیں ہے۔ ساری ٹیکنیکل دراز نفسی صرف رعب داری کے لیے لائی گئی ہے۔ بخشی صاحب کو خوش فہمی ہے کہ یہ حق صرف انہیں کو حاصل ہے، اور جب وہ مجھ جیسے مضافاتی آدمی کو جدیدیت پر گفتگو کرتا ہوا دیکھتے ہیں تو انہیں جھاگ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ شنید یہ بھی ہے کہ جھاگ بہنا شروع ہو جاتی ہے۔ ویسے نالج پولٹکس اور ہمارے نالج کلچر میں صادق آباد اور اسلام آباد کا ’ترجماتی‘، منہجی، طریقیاتی، ’زمریاتی‘، علمیاتی اور وجودیاتی فرق ہی اتنا زیادہ ہے  کہ یہ ان کے ہاں اصولِ علم بن گیا ہے، ایسا کہ اتنا طویل مضمون لکھے بغیر جسے سفید چھڑی سے بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔ مذہب کے بڑے بڑے علمبردار محض اس اصول کی بنیاد پر بخشی صاحب کی مقتدائی پر راضی ہیں۔ ’اتنخابی تعصب‘ کا مجھ پر تو الزام ہے، لیکن ان کے ہاں یہ ہنر تو ہے ہی، ایک علمی اصول بھی  ہے۔ فرماتے ہیں: ”مکرر عرض ہے کہ یہ زمرہ بندی نہ صرف علمی بلکہ نفسیاتی جہت بھی رکھتی ہے کیونکہ مخصوص نفسیات انسانی ذہن کے سامنے موجود مخصوص استدلالی ڈھانچوں میں ترجیح و انتخاب پر ابھارتی ہے۔“ ’مکرر‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنا اہم تاکیدی اصول ہے۔ ان کے ہاں جو ”ترجیح و انتخاب“ ہے تو کیا اسے ”انتخابی تعصب“ selective       bias نہیں کہا جا سکتا؟ اگر یہ ”انتخابی تعصب“ نہیں ہے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ کیا ہفوات ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ‘مقامیت’  اور ‘زمین سے جڑت’ کی تقدیر پر اسلام آباد میں رہنے سے آدمی کی نفسیات ’مخصوص‘ ہو جاتی ہے اور اس نفسیات میں انتخاب ایک تعصب نہیں رہتا، علمی اصول بن جاتا ہے۔ یہ فیصلہ میں ناظرین پر چھوڑتا ہوں کہ شرمندہ مجھے ہونا ہے یا شرم صاحب مضمون کو آنی چاہیے۔

(ب) بخشی صاحب کا ایک غیرضروری اور مستقل اعتراض  (یاد رہے کہ اعتراض کا منبع طاقت کا زعم ہے) یہ رہا ہے کہ ”یہ تنقیدی مزاج اس حد تک غیر رسمی اور خطیبانہ ہے کہ اپنے بدیہی مسلمات اور مفروضوں کو عیاں کرنے سے ایک قدم پیچھے رک جاتا ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ تنقید کا ہدف بنے تصورات سے شدید اختلاف کیا جا رہا ہے لیکن اس اختلاف کی ٹھوس علمی اور تحقیقی بنیادوں تک رسائی ممکن نہیں ہوتی کہ مکالمے کو آگے بڑھایا جائے۔“ گزارش ہے کہ بخشی صاحب آئے دن یہی راگ پورتے رہتے ہیں، لیکن ان کے رد عمل کی شدت اور عقلی ربودگی ہی ان کے اس دعوے کی تردید کے لیے کافی ہے۔ ان کا مسئلہ مذہبی آدمی، اس کا دوٹوک موقف اور اس موقف کی تائیدی تحریریں ہی تو ہیں۔ میری شاید ہی کوئی تحریر ہو جس میں اپنے ”بدیہی“ موقف کے اظہار کو مبہم رکھا ہو۔ وہ منہج اعراض کو برتتے ہوئے ”مقولات کی تعریفات میں حائل پیچیدگیاں“ محققین کو ’سجھانے‘ میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس قبیل کے لوگ چونکہ کافی پڑھے لکھے ہوتے ہیں اس لیے وہ بدیہات کو خاطر میں لانا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف ہمارے موقف کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ جدیدیت کے ساتھ بھی ان کا یہی معاملہ ہے کیونکہ وہ جدیدیت کو ایک اساسی موقف کے طور پر خاطر ہی میں نہیں لاتے، اور مباحثِ ”پیچیدگیاں“ میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جہاں اساسی تصورات ٹیکنیکل جزیات میں مضمر ہو جاتے ہیں، اور اپنی explicitness میں زیرِ بحث نہیں رہتے۔ ہر ٹیکنیکل مبحث کسی بڑے اور بنیادی تصور کی جزیات میں احتوا ہی کی بحث ہے۔ جدیدیت ایک ایسا اساسی تصور ہے جو علم کے نہ صرف disciplines پیدا کرتا ہے بلکہ تمام ٹیکنیکل مباحث کو بھی govern کرتا ہے۔ اور یہ صرف عمرانی اور سیاسی ڈسپلن یا مباحث تک محدود نہیں ہے جیسا کہ بخشی صاحب نے باور کرانے کی جعل سازی کی ہے۔

(ج) الزامِ خود مسماری کسی علمی جینیات اور طریقیاتی منہج کے فہم یا اطلاق سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کی بنیاد اس قبیل کے لوگوں کی حریصانہ کامن سینس اور تہذیب مغرب کے کمالات اور کامیابی پر فخر و مباہات ہے۔ اگر مذہبی موقف کو نظرانداز یا ترک کر کے ’انسانیت‘ اور ’انسانیت پرستی‘ کا مجہول اور مشتبہ موقف اپنا لیا جائے تو مغربی تہذیب کو مجرد ’کمال انسانی‘ کے طور پر دیکھنا اور پھر اسے خاص اپنی ہی کامیابی سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ محکوم اور مغلوب معاشروں میں انسانیت پرستی کا یہ موقف cognitive             dissonance کی بہت تام مثال ہے۔ ’مذہب‘ اور ’انسانیت‘ میں تخالف عالمی کلچر میں چونکہ پہلے سے قائم شدہ ہے، اس لیے مذہب اور مذہبی آدمی پر ہر طرح کی ججمنٹ کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ تہذیبِ مغرب کی روایت میں انسانیت اور انسانیت پرستی کے تعینات بڑی حد تک طے شدہ ہیں، لیکن اس روایت سے باہر انسانیت کا نعرہ نفسیاتی عارضہ اور علمی جعل سازی کے علاوہ کوئی معنویت نہیں رکھتا۔ بخشی صاحب کی قبیل کے لوگ بھی اسی مشتبہ انسانیت کے سنگھاسن پر سرفراز ہیں، اور مذہب اور مذہبی آدمی پر ہر طرح کی الزام بازی ایک علمی خدمت سمجھ کر کرتے ہیں۔  اگر اسی کامن سینس کو رہنما بنایا جائے تو مدرسہ ڈسکورسز ایک بہترین سرگرمی ہے۔ مغرب اپنی تہذیبی طاقت کے نقطۂ عروج پر ہے، ہمیں معلوم ہے۔ دنیا بھر کا سرمایہ اس کی تجوریوں میں ہے، ہمیں معلوم ہے۔ عزت و جاہ اس کی نسبتوں سے جاری ہے، ہمیں معلوم ہے۔ مغرب کا علم دنیا کے شعور و عمل میں ساری ہے، ہمیں معلوم ہے۔ مسلم دنیا نکبت تامہ میں ہے،  ہمیں بھی معلوم ہے۔  امت ٹڈی دل ہے،  ہمیں بھی معلوم ہے۔  اپنے فکری انتشار  کے گردباد میں مسلمان پرکاہ کی مانند ہیں،  ہمیں بھی معلوم ہے۔ اس قبیل کے لوگوں کی کامن سینس جانتی ہے کہ ایسے میں کس کے ساتھ ہونا چاہیے، یہ سب کی طرح ہمیں بھی معلوم ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دین کو باطل کے سانچوں میں ڈھالنے سے زیادہ منافع بخش کام کیا ہو سکتا ہے؟ یہ سب کی طرح ہمیں بھی معلوم ہے۔ اور کوئی جو تین میں ہے نہ تیرہ میں ہے وہ اگر دین کی بات کرے اور  باطل کا ذکر لے بیٹھے تو یہ کامن سینس کی نفی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ بخشی صاحب کو معلوم ہے۔  بدیہی تاریخی حقائق کے علی الرغم  دین کے معاون علم کی تشکیل پر اصرار کرنا ”خود مسماری“ نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ بخشی صاحب کو معلوم ہے۔ مغربی بندوق کی نالی اور تجوری سے برآمد ہونے والے کامیاب ترین علم پر محض سوالات اٹھانا ہی بے عقلی اور نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ بخشی صاحب کو معلوم ہے۔ یہاں مسئلہ ”علمی جینیات“ اور ”طریقیاتی منہاج“ کا نہیں، کامن سینس کو برتتے ہوئے کامیاب کے ساتھ رہنے اور اسے حق ثابت کرنے کا ہے۔

(۴) جدیدیت، اس کے فکری تعینات اور اس کی تفہیم کے مباحث

(الف) مضمون کا بڑا حصہ یہ ثابت کرنے کے لیے مختص ہے کہ جدیدیت کی اصطلاح زمانی طور پر کن کن تعریفی تصریفات سے گزری ہے، اور مختلف شعبۂ ہائے علوم میں اس کے علمی اور فکری تعینات کی کیا صورت رہی ہے۔ جدیدیت کے بشریاتی علوم میں سامنے آنے والے فکری حاصلات کے ضمن میں بخشی صاحب بڑی مشکل سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ”دوسری شاخ سماجیات اور بشریات ہے جہاں جدید اور جدیدیت کو ایک دوسرے سے الگ کرنا نسبتاً مشکل ہے۔“ اس ’نسبتا مشکل‘ پر بات کیے بغیر وہ فرماتے ہیں: ”اس تناظر میں جدیدیت کی کہانی کا بیانیہ ایک تہذیبی اور تاریخی بیانیے کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور یہ کہانی اگر اسی طرح سنائی جائے تو بامعنی تسلیم ہوتی ہے۔“ ان کا مخاطب چونکہ مذہبی آدمی ہے اور اگر وہ یہ موقف رکھتا ہو کہ ہدایت الوہی ہے اور ساتھ یہ بھی کہہ دے کہ ”یہ کہانی اگر اسی طرح سنائی جائے تو بامعنی تسلیم ہوتی ہے“، تو قیامت ٹوٹ پڑتی ہے، علم دشمنی ثابت ہو جاتی ہے، خطیبانہ انداز کے الزام لگنے لگتے ہیں۔ ان کی ذہنی پستی اور وجودی غلامی کا یہ حال ہے کہ وہ مغرب کی الف بے کو بھی ویسے ہی ڈکوستے چلے جاتے ہیں جیسا کہ ان کے آقا نے حکم دیا ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ علم، وجودی موقف سے اپنی جائز اور قابل دفاع کہانی بنانے کا کام ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ فاؤسٹی آقا نے ایک کہانی بنا کر دے جو دی ہے اسی کی مجاوری پر ڈٹے رہو۔ یہ وقوفی کھسکاؤ (cognitive      dissonance      ) کی ایک اور مثال ہے، اور ایسی مثالوں سے یہ مضمون بھرا پڑا ہے۔

(ب)  بخشی صاحب کافی متنی تحقیق اور فکری تدقیق کے بعد آخرکار فرماتے ہیں کہ ”مثال کے طور پر modernity، enlightenment اور renaissance جیسے الفاظ کے ساتھ جڑی تصوراتی پیچیدگیوں کو یا تو عمداً یا پھر باعث لاعلمی مکالمے سے حذف کر دیتے ہیں۔ بحیثیت طالب علم ہم گمان ہی کر سکتے ہیں کہ قبلہ جوہر صاحب غالباً کلاسیکی فرینکفرٹ مکتب فکر اور اس کے بعد ہیبرماس جیسے مفکرین سے جدیدیت کی تعریف و تعبیر لے کر اس کی مدد سے بلادِ مشرق بالخصوص ایشائی معاشروں میں برپا ہونے والی عقلیت پسندی، انفرادیت پسندی اور متاثر و متعلق مذہبی اصلاحی تحریکوں کو اپنی تنقید کا تختۂ مشق بنا رہے ہیں۔ مانگے کی یہ تنقید چونکہ اپنے ساتھ یوروپ کی سماجی اشتقاقیات نہیں لا سکتی لہٰذا ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جسے صرف خطابت ہی سے پر کیا جا سکتا ہے۔“ بخشی صاحب لسانی اشتقاقیات پر جب مانگے کی بجائے طبع زاد اظہار خیال فرما رہے تھے، تو میرا بھی دل چاہا تھا کہ میں بھی ایک ایسا مضمون لکھوں جس سے قارئین کو میرے پڑھے لکھے ہونے کا چلو گمان ہی ہونے لگے۔ لیکن من کجا و نغمہ کجا، چپکا ہو رہا اور جی ہی جی میں خوش ہوا کہ اس قوم کے بھاگوں یہی ایک پڑھا لکھا کافی ہے جس نے مدرسہ ڈسکورسز کے نصیب بھی اجیار دیے ہیں۔ اس قبیل کے لوگوں کی اپج اور طبع زاد کمالات بھی دیدنی ہیں۔ دورانِ تحریر انہوں نے جدیدیت کے حوالے سے یہ تراکیب استعمال کی ہیں: ”سیاسیات کی جدیدیت/سیاسی جدیدیت“، ”سماجیات/بشریات کی جدیدیت یعنی سماجی اور بشریاتی جدیدیت“، ”مارکس کا نظریۂ جدیدیت/مارکسی جدیدیت“، ”یوروپی جدیدیت“، ”حریف جدیدیت“، ”مغربی جدیدیت“، ”عمرانی جدیدیت“، ”بورژوائی جدیدیت“، ”باغی ثقافتی جدیدیت“، ”جمالیاتی جدیدیت“، ”سماجی ثقافتی جدیدیت“، ”سماجی جمالیاتی جدیدیت“۔ ہمارا سوال یہی تو ہے کہ یہ جو بنیادی تصور ان ساری علمی تصریفات اور فکری مظہریات میں آسن در آسن موجود ہے، وہ خود بھی کوئی شے ہے کہ نہیں؟ ہمارے خیال میں یہ ممکن نہیں کہ وہ خود موہوم و مجہول ہو۔ لیکن ان کا موقف جو تحریر سے عیاں ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ یاد رہے کہ یہ صرف بینائی کا مسئلہ نہیں ہے، یہاں کچھ اور چل رہا ہے۔ استشراقی منہج کو اختیار کرنے کا الزام تو ہمیں دیتے ہیں، لیکن آگے چل کر فرماتے ہیں کہ : ”یہ [جدیدیت] ایسے ثقافتی مظاہر اور استدلالی ڈھانچوں کا مجموعہ ہے جس کا غیریوروپی دنیا میں پھیلاؤ ایک طرف تو یوروپ اور امریکہ کے استعماری منصوبوں اور دوسری طرف مغرب اور دیار غیرمغرب کے باہمی اختلاط سے ممکن ہوا۔“ صاحب مضمون اپنی پوری تحریر میں بہت لیے دیے اور کھنچے بھنچے رہے، اور گالی بھی پچکاری آسا دیتے رہے۔ لیکن حیرت ہے کہ جدیدیت کی یہ طبع زاد لیکن نہایت شرمناک تعریف کیونکر گرہ کشاد ہو گئی! نفخ فاؤسٹ کے ایسے ہی مرغولے پورے مضمون میں خرامیدہ ہیں۔ احتیاط یہ رہی کہ استعماری جدیدیت کی ترکیب نہ برتنی پڑ جائے،  اور حریف جدیدیت سے غیرمتعلق طولِ کلام فرما کے معاملے کا حق ادا ہو سکے۔

(ج) بخشی صاحب فرماتے ہیں: ”دوسری شاخ سماجیات و بشریات کی ہے جہاں جدید اور جدیدیت کو ایک دوسرے سے الگ کرنا نسبتاً مشکل ہے۔ اس تناظر میں جدیدیت کی کہانی کا بیانیہ ایک تہذیبی و تاریخی بیانیے کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور یہ کہانی اگر اسی طرح سنائی جائے تو بامعنی تسلیم کی جاتی ہے۔ یہاں اٹھنے والے تمام سوال جیسے کہ ہم کون ہیں، اور کن آدرشوں سے بندھے ہیں یا ہم کون نہیں ہیں اور کون سے آدرش ہمارے لیے کشش نہیں رکھتے، کسی نہ کسی مقامیت کو پیش قیاس کرتے ہیں یعنی ہمیں اپنی زمین  اور اس زمین پر پیش آنے والے مخصوص حالات سے جوڑتے ہیں۔ گو یہ بیانیہ تاریخی خاکوں اور تشکیلات کی مدد سے بُنا جاتا ہے لیکن اس کی بنیادی حیثیت معالجاتی ہوتی ہے۔“ ویسے تو پورا مضمون ہی شاہکار ہے لیکن یہ پیراگراف تو گل سرِ سبد ہے، کیونکہ اس کی ہر پتی دامنِ دل کو کھینچتی ہے کہ جا اینجا است۔ بخشی صاحب بینائی کا معاملہ تو طے کر چکے لیکن میرا خیال ہے کہ یہاں سجھائی کا مسئلہ الگ سے پیدا ہو گیا ہے۔ نہ جانے جدیدیت خود کیا اکسیر ہو گی کہ اس کی توضیحات و تشریحات اور disciplinary تعینات بھی ”معالجاتی“ ہو جاتے ہیں، اور بھی ”بنیادی حیثیت“ میں! اگر میں بلا تاخیر یہ عرض کرنا چاہوں کہ قرآن مجید جو  علی الاطلاق ہدایت ہے، اور ان لوگوں کے لیے شفا ہے جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، تو بخشی صاحب جواباً کیا ارشاد فرمانا چاہیں گے؟ بہرحال یہ خوش آئند بات ہے کہ بخشی صاحب نے ”علمی جینیات“ اور ”طریقیاتی منہج“ سے ”معالجاتی“ دریافت کر لیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں یہ معالجاتی صاحب کدھر کا رخ کرتے ہیں۔

ضمیمہ اول: علمی تعریفات اور اتھارٹی کا مسئلہ

(ب) بخشی صاحب نے مجھ پر اصطلاحات وغیرہ کی تعریفات کے حوالے سے ’انتخابی تعصب‘ کا الزام لگایا ہے۔ فکری مباحث میں علمی مفاد ایک جائز اور معمول کی سرگرمی ہے، لیکن اس الزام کے پیچھے کارفرما اس قبیل کے لوگوں کی علمی واردات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تصورات کی تعریف کرنے کا عمل ثقاہت (validity) کے ساتھ ساتھ ایک اتھارٹی کو بھی ظاہر کرتا ہے، اور علم میں یہ اتھارٹی فاعل (subject) کو حاصل ہوتی ہے۔ بخشی صاحب یوروپی فاعل کے حاصلاتِ علم کی باربرداری اور ترسیل سے آگے نہیں سوچ سکتے، اور ہم پر اس علم کی معروضیت کی دھونس جماتے ہیں۔ معروضیت تو سائنسی علم کو بھی حاصل نہیں۔ یہ علم ایک غیرمعمولی آلاتی پن ضرور رکھتا ہے۔ سماجی اور فلسفیانہ علوم میں علمی صورت حال کہیں ابتر ہے۔ سائنسی اور سماجی علوم میں paradigm       shift کا بنیادی مطلب ہی یہ ہے کہ علم اب بالکل ارادی یا اہوائی ہو گیا ہے اور نفسی ترجیحات اور مادی ضروریات اس میں فیصلہ کن عامل کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں، اور عجوزۂ عقل ریٹائرمنٹ کے کواغذ بھر چکی ہے۔ پھر تنقیدی وجودیات (Critical       Ontology) کے ظہور کے بعد اصطلاحات کے پاس تو پائے چوبیں بھی باقی نہیں رہا۔ تنقیدی وجودیات اس امر کا اعتراف ہے کہ انکار کی بنیاد میں کام کرنے والی مفروضہ وجودی اقدار بھی اب علم کو کوئی قابل لحاظ بنیاد فراہم کرنے کی استعداد سے محروم ہو گئی ہیں، اور مغربی علم اب مزعومہ انکاری اقدار سے کوئی موہوم نسبتیں باقی رکھنے میں بھی کامیاب نہیں ہو پا رہا۔  تنقیدی وجودیات کا ظہور مغربی تہذیب میں امکانِ علم کے خاتمے کا مظہر ہے۔ اس صورت حال میں علوم کی اساسی اصطلاحات بھی معرض جنگ بن چکی ہیں، جبکہ فنی اصطلاحات میں پیکار مسلسل تو ہمیشہ سے ہے۔

ہر تہذیب میں حقیقت، علم، انسان، کائنات، تاریخ، معاشرہ، تقدیر، نظر، نظریہ، نظام، ترقی، عمل، عدل، وغیرہ، وغیرہ جیسے بنیادی الفاظ جب اصطلاحات کے طور پر استعمال ہوں تو ان کی حیثیت خالی برتن کی طرح ہوتی ہیں جنہیں ہر تہذیب اپنی آزاد مرضی سے اور اپنے ہی معنی سے بھرتی ہے۔ تہذیب کے اصول ہائے اول ارادی اور وجودی ہوتے ہیں، کبھی علمی نہیں ہوتے۔ علم ایسے بنیادی تصورات کی شرائط پر پیدا ہوتا ہے۔ شعور اور عمل میں  جدیدیت تہذیب مغرب کا اساسی بیان ہے، اور یہ لابدی ہے کہ تہذیب مغرب کے ہر علم اور عمل میں اس کے تلازمات کی نشاندہی کی جا سکے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا بخشی صاحب مغرب کے علوم میں اس کی فکری تصریفات گنوانے کی کھکھیڑ پالتے؟ لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جدیدیت کو اساسی بیان اور مغرب کے ورلڈ ویو کے طور پر ماننے سے انکاری ہیں۔  وہ جینالوجی کے ذریعے علم کا نسبی گوشوارہ اجداد کو محذوف رکھتے ہوئے اولاد سے شروع کرنے پر بضد ہیں۔ جدیدیت کے تحت بھی تعریفات کا مسئلہ اور اس کی اتھارٹی طاقت، صلاحیت، اور سرمائے کی اشیرباد سے مشروط ہے۔ یہ تعریفات علمی معروضیت کا اظہار نہیں ہیں بلکہ اتھارٹی کا مظہر ہیں۔ یہ اتھارٹی جس طرح مغربی منہاجات اور استشراقی واردات میں ظاہر ہوئی ہے وہ معلوم و معروف ہیں (اس طرح کے الفاظ ان پر بجلی بن کر گرتے ہیں)۔ اس پس منظر میں یہ بلا وجہ نہیں کہ بخشی صاحب مجھ سے میکالے کے لہجے میں کلام کرتے ہیں۔ لیکن یہ ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ غرور علم کوئی جینیالوجی نہیں، نفرت کوئی طریقیاتی منہج نہیں، اور ہیرا پھیری کوئی ہرمانیوٹکس نہیں۔ مغرب، جدیدیت کے جن باطل قضایا پر اساس رکھتا ہے ان کو اس قبیل کے لوگ معروضی علم کے طور پر پیش کرنے کی غلامانہ جسارت میں کئی صدیوں سے لگے ہوئے ہیں۔ فاؤسٹ ایک جگہ کہتا ہے کہ ”شیطان کی سب سے مؤثر شکل مولویانہ ہوتی ہے“۔ اس قبیل کے لوگوں کو ان کا آقا فاؤسٹ کبھی توفیق دے تو ان کو چاہیے کہ جدید علمی مباحث میں ’مولانا‘ فاؤسٹ کے اس ذاتی تجربے اور ارشاد کو بھی علمی جینیات اور طریقیاتی منہج میں سامنے لانے کے اسالیب وضع کرنے چاہئیں۔

اتھارٹی کے مسئلے کے بعد، حریتِ شعور کا مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہمارے مذہبی اہل علم حریتِ شعور کو جدیدیت اور اس کے پیدا کردہ علوم کے سامنے درست طریقے سے بروئے کار نہ لا سکے اور حریت شعور کو انکار مذہب سے مساوی قرار دے کر ایک بڑی خیر سے محروم ہو گئے۔ اسی طرح غلام اور مستعمَر دانشوروں نے حریتِ شعور کو رد مذہب اور خلط مبحث میں سرگرم رکھا۔ اگر حریتِ شعور کے تلازمات اور انتاجات پیش قیاسی اور پہلے سے طے شدہ ہیں تو یہ حریت شعور نہیں جبر ہے۔ مغربی تہذیب اپنے سیاسی اور معاشی غلبے، بے پایاں علمی پیداوار اور ثقافتی تفوق سے محکوم کی مکمل dehumanization کر کے اسے یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ محکوم بطور مستعمَر (colonized       man) علم کا فاعل (subject) نہیں ہو سکتا۔ یہ دعویٰ کوئی نیا نہیں، اور مذبذبین اور متجددین کو استعماری آقاؤں سے وراثت میں ملا ہے۔ بخشی صاحب بھی اسی دعوے کا اعادہ کر رہے ہیں، اور انتخابی تعصب کے الزام کے پس پردہ بنیادی بات یہی ہے۔ اس صورت حال کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک مکمل مستعمَر شعور (       colonized       consciousness) کے ساتھ وہ خود کو بھی کسی طرح کے علم کے فاعل کے طور پر سامنے نہیں لاتے۔ وہ تو بس کہاری ہونے پر فرخندہ اور ہم پر خندہ زن ہیں۔ وہ سفید فام مغربی کے فاعل علم ہونے کے دفاع میں ہلکان ہو گئے ہیں، اور ہمیں گھرکیاں اس بات پر دے رہے ہیں کہ ہمیں ان کے آقا کی بات ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی اور اب وہ ہمیں سمجھائے دیتے ہیں۔ صرف مغربی آدمی کے فاعل علم ہونے پر سوالات ہمارے موقف کا اظہار ہی نہیں ہیں بلکہ بخشی صاحب کو ان کے ”معالجاتی“ صاحب کی  دنانیت علمی سے بازیاب کرانے کی ایک کوشش بھی ہے۔

(جاری)

 

اس مضمون کی پہلی قسط کے لیے یہاں کلک کریں۔
Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search