فاؤسٹ کا قصہ اور عالمی ادب: حبیب اللہ (مرتب: عاصم رضا)
نوٹ: محترم حبیب اللہ صاحب نے ’’فاؤسٹ کا قصہ اور عالمی ادب‘‘ کے عنوان سے ایک وقیع مضمون لکھا ، جو سہ ماہی ’’لال سلام‘‘ ( گرما 2017ء) میں شائع ہوا۔ اس لنک سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اردو ادب کے حوالے سے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور بیش بہا تحریر ہے جس کی علمی اور ادبی اہمیت اس امر کی متقاضی ہے کہ اس کی اشاعتِ نو ہو اور موضوع بحث بنے ۔ فاضل مرتب نے صرف اس قدر تصرف کیا ہے کہ ایڈیٹر جناب آفتاب اشرف کے تبصرے کو تعارفی سطور کی حیثیت سے مضمون کا حصہ بنا دیا ہے نیز موجودہ قاری کا لحاظ کرتے ہوئے چنیدہ الفاظ کے انگریزی متبادلات اور اردو معانی کو بھی لکھ دیا ہے ۔
تعارفی سطور (از ایڈیٹر آفتاب اشرف)
انیسویں اور بیسویں صدی میں انگریزی ، فرانسیسی ، ہسپانوی ، فارسی اور اردو سمیت تمام زبانوں کے عظیم شاعروں اور ادیبوں کو ’’فاؤسٹ‘‘ سے زیادہ کسی اور کردار نے جمالیاتی و فکری حوالے سے اتنی شدت سے نہیں جھنجھوڑا ۔ مزید برآں تھیٹر ، فلم اور آرٹ کی ہر صنف پر گوئٹے کے اس شاہکار نے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں ۔ گوئٹے جہاں اپنے عہد کی ٹھوس حقیقتوں کی درست منظر کشی کرتا ہے وہیں وہ آج کے قاری اور ناظر کے لیے بھی اتنا ہی سامانِ حظ مہیا کرتا ہے ۔ یہی ایک حقیقت پسند ادیب کا بنیادی خاصہ ہوتا ہے جو اپنے جمالیاتی کام کی بنیاد معروضی حقائق سے اخذ کرتا ہے مگر ساتھ ہی اس ’’ ادبی سچائی‘‘ کو پا لیتا ہے جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر آفاقیت کا روپ دھار لیتی ہے ۔ فاؤسٹ آج بھی اسی ’’ادبی سچائی ‘‘ کا وہ جگمگاتا آفتاب ہے جس سے نئی نسل کا ہر قاری اور ادیب بقدر ظرف روشنی کشید کر سکتا ہے ۔
موضوع
اس مطالعے میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ڈاکٹر فاسٹس یا فاؤسٹ کا تصور کیا ہے؟ اس کا آغاز کہاں سے ہوا اور کس طرح دنیا کے فنکاروں نے اس تصور کو اپنی بہترین تخلیقات کا موضوع بنایا اور ساتھ ہی ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ آج کے دور میں اس تصور کی اہمیت کیا ہے اور یہ کس طرح ہماری زندگیوں میں داخل ہے؟ یہاں ہمیں یہ بات واضح کرنی ہو گی کہ ہمارے اس مطالعے کو موضوع فاؤسٹ کے تصور کے مختلف پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو یعنی ’’شیطان کے ساتھ سودا‘‘ ہے ۔ ہم یہ حدبندی اس لیے کر رہے ہیں کہ فاؤسٹ کا تصور اس قدر کثیر پہلو اور پیچیدہ ہے کہ اس کی تمام جہات کا احاطہ کرنا ہمارے اس محدود مطالعے کی گنجائش سے باہر ہے ۔
ڈاکٹر فاسٹس کا قصہ اور اس کا تاریخی پس منظر
پندرھویں صدی کے اواخر میں جرمنی کے بہت سے نجومی اور جادوگر اپنے لیے ’ فاسٹس‘ کا لفظ اختیار کرتے تھے ۔ یہ لفظ لاطینی الاصل ہے جس کے معنی ’ برگزیدہ ‘ یا ’ مبارک‘ کے ہیں ۔ اس قصے کی پہلی فنکارانہ پیش کش ایک انگریز ڈرامہ نگار کرسٹوفر مارلو نے کی ۔ اس نے اسے اپنے مشہور المیے (ڈرامے) ’ ڈاکٹر فاسٹس کی داستانِ الم ‘ کا موضوع بنایا ۔ اس کا مواد اس نے 1592ء میں شائع ہونے والی ’انگلش فاؤسٹ بک‘ سے حاصل کیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جرمن زبان میں 1587ء میں شائع ہونے والی کتاب سے ماخوذ ہے جس کی بنیادیں اس موضوع پر مبنی لاطینی رسالوں پر ہے ۔ مارلو کے اس ڈرامے کے بعد جرمنی کے عظیم شاعر، گوئٹے نے اسے اپنی شاہکار نظم ’فاؤسٹ‘ کا موضوع بنایا ۔ گوئٹے کی یہ نظم دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ 1807ء میں شائع ہوا جب کہ دوسرا حصہ گوئٹے کے انتقال کے بعد 1832ء میں شائع ہوا ۔
اس سے پہلے کے ہم ڈاکٹر فاسٹس کی دیگر فنکارانہ پیش کشوں کا ذکر کریں ، یہ بہتر ہو گا کہ ہم اس کے موضوع سے آگاہی حاصل کر لیں ۔کرسٹوفر مارلو کے ڈرامے میں ڈاکٹر فاسٹس ایک مشہور زمانہ عالم ہے ۔ ڈرامے کے آغاز میں ہمیں کورس بتاتا ہے کہ اس کے والدین نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ وہ روڈز میں پیدا ہوا اور پڑھنے کے لیے وٹن برگ گیا جہاں اس کے رشتے داروں نے اس کی کفالت کی ۔ جلد ہی اس نے تمام علوم پر کامل دسترس حاصل کر لی ۔ لیکن یہ اس کے لیے کافی نہ تھا ۔ جب ہ اپنی مطالعہ گاہ میں بیٹھا اپنی تمام کامیابیوں اور کارناموں پر غور کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اتنی کامرانیوں کے باوجود کچھ بھی بڑا نہیں کر سکا ۔ مایوسی کے عالم میں وہ خود سے کہتا ہے : پھر بھی تم فاسٹس ہی ہو ، ایک آدم زاد۔
فاسٹس کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ؟ اگلے تین مصرعوں میں وہ اسے واضح کرتا ہے:
اگر تم انسانوں کو ہمیشہ کی زندگی بخش سکتے
یا ان کے مرنے پر انھیں دوبارہ زندہ کر سکتے
تو تمہارا پیشہ باعث افتخار ہوتا
جب فاسٹس پر یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ قانون ، طب اور الہٰیات جیسے علوم بھی اسے وہ طاقت نہیں دے سکتے جو اسے ایک انسان سے دیوتا بنا دے تو وہ ان تمام علوم کو الوداع کہہ دیتا ہے اور جادو کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ اسے لگتا ہے کہ یہ علم حاصل کر لے تو:
سبھی کچھ جو قطبین کے درمیان محوِ حرکت ہے
میرے اشارے پر چلے گا شہنشاہ اور سلطان
بس اپنی اپنی سلطنوں کے فرماں رو ا ہیں
کیا وہ طوفان برپا کر سکتے ہیں ، بادبانوں کو چیر سکتے ہیں
لیکن اس کا ملک جو اس (جادو) میں کمال پالے
اتنا بے پایاں ہے جتنا انسان کا دماغ
ایک منجھا ہوا جادوگر طاقتور دیوتا ہے
لیکں جادو کی عملیات کے لیے اسے ابلیس کی مدد درکار ہے ۔ اسے ابلیس سے ملاقات کرنا ہو گی جس کے لیے وہ دو جادوگروں (والریز اور کارنیلیس) کی مدد حاصل کرتا ہے ۔ وہ اسے بتاتے ہیں کہ اس کے لیے اسے خدا اور اس کی مقدس کتاب (انجیل) کا انکار اور کچھ منتر پڑھنے ہوں گے ۔ فاسٹس اپنی مراد پانے کے لیے ہر انتہا کو آزمانے کے لیے تیار ہے ۔ وہ یہ عمل ایک ویرانے میں تنہا کرتا ہے اور مفسٹوفیلس حاضر ہو جاتا ہے جو کہ ابلیس کا نائب ہے ۔ فاسٹس اس کی بدصورتی کی تاب نہیں لاپاتا اور اسے حکم دیتا ہے کہ وہ فرانسسکن راہب بن کر آئے کیوں کہ یہ ایک خناس (وسوسہ ڈالنے والا شیطان) کے لیے اچھا بھیس ہے ۔ ۔ جب مفسٹو اس کی خواہش کے مطابق بھیس بدل کر آتا ہے تو فاسٹس اسے حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی خدمت میں حاضر رہے ۔ مگر مفسٹو ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ لوسیفر (ابلیس) کا خدمت گار ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرتا ۔ لیکن فاسٹس اس پر مصر ہے کہ وہ ہر صورت میں مفسٹو کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہے خواہ اسے اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔ وہ مفسٹو سے کہتا ہے کہ وہ لوسیفر سے اس بارے میں بات کرے ۔ مفسٹو، لوسیفر کا جواب لاتا ہے کہ اگر وہ اس کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے لوسیفر کو اپنےخون سے لکھا ہوا ایک عہد نامہ بطور ہدیہ دینا ہو گا جس میں وہ اپنے جسم اور روح کو لوسیفر کے حوالے کرے گا اور ہمیشہ کے لیے ملعون ہو جائے گا ۔ بدلے میں لوسیفر اسے 24 سال کی مہلت دے گا جس میں اس کی ہر مراد پوری کی جائے گی اور مفسٹو اس کی خدمت میں حاضر رہے گا ۔ اس پر فاسٹس کہتا ہے :
اگر میرے پاس اتنی روحیں ہوتیں جتنے آسمان میں ستارے میں
میں وہ سب مفسٹو فیلس کے لیے دے دیتا
چنانچہ سودا طے ہو جاتا ہے ۔ فاسٹس اپنے خون سے عہد نامہ لکھ دیتا ہے ۔ لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ۔ شیطان اسے کوئی ایسی طاقت یا علم نہیں دے سکتا جو اسے دیوتاؤں جتنا عظیم اور بااختیار بنا دے ۔ وہ ’’ ابھی بھی فاسٹس ہے، ایک انسان‘‘ ۔ فاسٹس کی اس حالت پر تبسرہ کرتے ہوئے اوناایلس فرمر(Una Ellis-Fermor) لکھتی ہیں کہ ’’ وہ ایک ایسا انسان ہے جو خواب میں خود کو آسمان کی رفعتوں میں پاتا ہے مگر جب آنکھ کھلتی ہے تو پہاڑ کی چوٹی پر ہوتا ہے ، ابھی بھی زمین سے چمٹا ہوا‘‘ ۔ اب وہ توبہ کرنا چاہتا ہے مگر اس کا دل سخت ہو جاتا ہے ۔ فاسٹس کی یہ کشمکش دیکھ کر لوسیفر اسے بہلانے کے لیے آتا ہے ۔ اسے سات ہلاکت خیز گناہوں کا تماشا دکھاتا ہے ۔ پھر فاسٹس، میفسٹو کے ساتھ اڑنے والی بگھی میں سوار ہو کر نئی دنیاؤں کی سیر کو نکل جاتا ہے ، وہ پوپ سے ملتا ہے اور اس کی درگت بناتا ہے ، ٹرائے کی ہیلن کو حاضر کرتا ہے اور اس کی سحر آفریں خوبصورتی کے قصیدے پڑھتا ہے اور اسی آوارہ طبعی میں 24 سال گزارتا ہے ۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭
اب ہم فاسٹس کو انہی مستیوں اور رنگ رلیوں میں مگن چھوڑتے ہیں اور فاؤسٹ کی طرف بڑھتے ہیں جس کی تخلیق میں جرمنی کے عظیم شاعر گوئٹے نے اپنی زندگی کے ساٹھ باثمر سال (بلاشبہ بہت سے تعطلوں کے ساتھ) صرف کیے ۔ نظم کے آغاز میں تین بزرگ فرشتے اسرافیل ، میکائیل اور جبرائیل، خدا کی طاقت کے زبردست مظاہر سورج، سمندر اور طوفان کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا نظارہ ہمیں قوت بخشتا ہے ۔ ان کے بھید ہمارے سوا کون جانتا ہے؟ تیرے سارے عظیم کاموں میں ہمارا ہاتھ ہے (بحوالہ فاؤسٹ، حصہ اول، سطر 267 تا 269)
مفسٹوفیلس بھی وہیں موجود ہے ۔ وہ کہتا ہے اے باری تعالیٰ ! میرے پاس سورج اور دوسری دنیاؤں کی خبریں نہیں ہیں ۔ میں تو یہ بتا سکتا ہوں کہ تیرا نائب کس طرح خو د کو برباد کر رہا ہے ۔تو نے جو اسے عقل کا نور عطا کیا ہے وہ اس کو الٹ استعمال کرتا ہے اور چوپایوں سے بھی بدتر بنتا جاتا ہے۔ اس کا سر گندگی میں دھنسا ہوا ہے ۔ وہ بدکاری میں مست ہے ۔ اس پر خدا کہتا ہے کیا تم زمین میں میرے بندے ‘فاؤسٹ‘ کو نہیں جانتے؟ مفسٹو کہتا ہے کہ جانتا ہوں ، مگر وہ بھی لہوولعب میں مبتلا ہے اور تیری بندگی وہ ایک مقصد کے لیے کرتا ہے ۔ جواباً خدا کہتا ہے کہ ابھی وہ بھٹکا ہوا ہے لیکن میں جلد اسے ہدایت کی روشنی دکھانے والا ہوں ۔ مفسٹو خدا کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر وہ اسے مہلت دے تو وہ اسے اپنے راستے پر لگا لے گا ۔ خدا اسے مہلت دیتا کہ جب تک فاؤسٹ زندہ ہے وہ اسے گمراہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے ۔ اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ:
جب انسان راہ کھوجتا ہے ، وہ ضرور خطا کرتا ہے (بحوالہ فاؤسٹ، سطر 317)
اس پر میفسٹو کہتا ہے کہ وہ اپنی مکاری سے اسے خدا کے راستے سے دور لے جائے گا اور وہ ’’مٹی چاٹے گا اور وہ بھی بڑی رغبت سے ‘‘ (بحوالہ فاؤسٹ، سطر 334 تا 335)۔
اس منظر کے بعد فاؤسٹ سے ہماری پہلی ملاقات اس کی مطالعہ گاہ میں ہوتی ہے جہاں وہ مارلو کے ڈاکٹر فاسٹس کی طرح اپنے تمام علم و حکمت سے اکتایا بیٹھا ہے ۔ اس کی خود کلامی اس کا روحانی کرب اس طرح ظاہر کرتی ہے (بحوالہ فاؤسٹ، سطر 370 تا 375):
زندگی کا لطف جاتا رہا ہے
کیا جاننا چاہیے، مجھے نہیں پتہ
مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا تعلیم دوں
کہ انسان بہتر بن جائیں یا کسی کو بدل پاؤں
پھر نہ تو میں مال و متاع رکھتا ہوں، نہ زر
نہ دنیاوی مرتبہ ہے ، نہ شان و شوکت
ایک کتا بھی ایسی زندگی جینا نہ چاہے
مفسٹو، فاؤسٹ سے کہتا ہے کہ وہ اس کی تمام آرزوئیں پوری کرنے میں اس کی مدد کر سکتا ہے اور اس کے بدلے میں وہ مرنے کے بعد اپنی روح اس کے حوالے کرے گا ۔ فاؤسٹ بیزاری سے کہتا ہے کہ اسے صرف اس دنیا کی لذتوں کی تمنا ہے ، مرنے کے بعد کیا ہو گا وہ اس سے بے پرواہ ہے ۔ مگر فاؤسٹ اسے یہ بھی باور کراتا ہے کہ وہ اس کی کوئی خاص مدد نہیں کر سکتا ہے کیونکہ جس مسرت کی اسے آرزو ہے وہ اسے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اور پھر مفسٹو جیسا کنگلا بھکاری اسے کیا دے سکتا ہے ؟ اسی بیزاری میں وہ سودے کی شرائط لکھنے کے لیے بھی راضی ہو جاتا ہے (بحوالہ فاؤسٹ، سطر 1738 تا 1739):
اگر اس سے تمہیں تسلی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے
آؤ یہ گھٹیا ناٹک آخر تک کھیلتے ہیں
اس سودے کے بعد فاؤسٹ، میفسٹو کی مکاری اور عیاری کا شکار ہو کر ہوس ناکی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ایک نوجوان عورت، گریچن اور اس کے خاندان کی بربادی کا سبب بنتا ہے ۔ گریچن کی موت اسے تو مزید خواری سے بچا لیتی ہے مگر فاؤسٹ کی آبرو خاک میں مل جاتی ہے اور مفسٹو جزوی طور پر کامیاب ہو جاتا ہے ۔
دوسرے حصے کا آغاز اس واقعے سے ہوتا ہے کہ ’زمین کی روح‘ فاؤسٹ کی خطا معاف کرتی ہے ۔ یہ حصہ تمثیلی شاعری کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ فاؤسٹ اور اس کا شیطان دنیائے سیاست اور کلاسیکی دیوتاؤں کی دنیا پر اختیار حاصل کرتے ہیں اور ٹرائے کی ہیلن سے ملتے ہیں ۔ آخر، جنگ اور فطرت کی قوتوں کو اپنے عزائم کے لیے استعمال کرنے کے بعد فاؤسٹ کو حقیقی مسرت کا ایک لمحہ نصیب ہو ہی جاتا ہے اور اس طرح اس کے لیے خدا کا منصوبہ کامیاب رہتا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر فاسٹس اور فاؤسٹ کا موازنہ
اب ہم مختصراً اس بات کا جائزہ لیں گے کہ دنیا کے ان دو بڑے فنکاروں نے فاسٹس کے تصور کو کس طرح پیش کیا اور دونوں کی پیش کش میں کتنی مطابقت اور عدم مطابقت ہے ۔کرسٹوفر مارلو کا ڈاکٹر فاسٹس علم کو بطور طاقت استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ علم اسے عام انسانی سطح سے بلند کر کے دیوتاؤں جتنی طاقت بخش سکتا ہے ۔ مگر جب تمام مفید علوم اسے وہ قوت اور اختیار مہیا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ سفلی اور ابلیسی علم یعنی جادو کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ وہ اپنی اس قوت پرستی میں اس قدر بھٹک جاتا ہے کہ وہ اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے ۔ وہ شیطان کے نائب ، مفسٹوفیلس کی خدمات حاصل کرنے کے لیے خود کو ہمیشہ کے لیے رجیم (دھتکارا ہوا) کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔کرسٹوفر مارلو کے ڈاکٹر فاسٹس کی ابتدا میں ہمیں فنکارانہ سچائی کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ بھلا ہم ایسے انسان میں سچی انسانی عظمت کیسے تلاش کر سکتے ہیں جو اپنی آرزومندی میں خیر کو ٹھکرانے کے لیے تیار ہے اور شر کے استقبال کے لیے باہیں پھیلائے ہوئے ہے ۔ سچا فنکار ہمیشہ انسانی عظمت کو پیش کرتا ہے۔ وہ شر کا نمائندہ نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے جلد ہی ہم دیکھتے ہیں کہ فاسٹس ابلیس سے اپنے سودے پر پشیمان ہے ۔ وہ سمجھ گیا ہے کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے ۔ وہ توبہ کرنا چاہتا ہے لیکن بدی کی قوتیں اسے ایسا کرنے نہیں دیں گی ۔ اس کا دل سخت ہو گیا ۔ وہ اچھے فرشتوں کے مشوروں کو نظرانداز کرتا آیا ہے جو اسے ہر مرحلے میں اس سودے کے انجام سے خبردار کرتے رہے ہیں۔ وہ اس بات کو بھی نظرانداز کر دیتا ہے کہ جب وہ عہد نامہ لکھ رہا ہوتاہے تو اس کا خون جم جاتا ہے اور پھر مفسٹو ایک انگارے کے ذریعے اسے دوبارہ گرم کرتا ہے ۔ ابلیس (لوسیفر) اسے توبہ کرتے دیکھتا ہے تو اسے ڈرانے اور بہلانے کے لیے خود آتا ہے اور پھر فاسٹس سودے کے چوبیس سال مفسٹو کی مدد سے بوالہوسی اور رنگ رلیوں میں گزارتا ہے ۔
جیسا کہ ہم مطالعہ کر چکے ہیں کہ گوئٹے کی فاؤسٹ بھی فاسٹس کے قصے پرمبنی ہے مگر گوئٹے نے اس پیشکش کو زیادہ پیچیدہ کر دیا ہے ۔ فاؤسٹ، ڈاکٹر فاسٹس کی طرح ’ طاقتور دیوتا‘ بننے کا آرزومند نہیں ہے جس کے دنیا کے شہنشاہ بھی غلام ہوں ۔ وہ تو زندگی کے حقیقی جوہر کا متلاشی ہے ۔ اس کی اکتاہٹ کا سبب یہ ہے کہ اس کا علم و فضل اسے سچی مسرت دینے سے قاصر ہے جس کے لیے وہ شیطان کی توجہ حاصل کرتا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ فاؤسٹ کو فضیلت بخشنا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے اسے راستے کی تلاش خود کرنا ہو گی ۔ حقیقی ہدایت وہی ہے جو انسان اپنی خطاؤں سے کماتا ہے ۔ جب مفسٹو خدا کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ فاؤسٹ کو اپنے ڈھب پر چلائے گا اور اسے مٹی چاٹنے پر مجبور کرے تو اسے جواب ملتا ہے (بحوالہ فاؤسٹ، سطر 323 تا 329) :
بہت اچھا، تم نے وہ کہہ دیا جو ضروری ہے
اس روح کو اس کے راستے سے بھٹکاؤ
تم جانتے ہو کہ اسے کیسے پھانسنا ہے
لے جاتا اسے اپنے رذالت کے گڑھے میں
اور جب تم ایساکر چکو گے تو یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاؤ گے
کیسے ایک اچھا انسان ، اپنی تاریک ترین آرزومندی میں بھی
فلاح کے راستوں سے واقف ہوتا ہے
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گوئٹے کا خیال ہے کہ اگر انسان کو حقیقی فلاح پانی ہے تو اسے اپنی روح کی تربیت کے لیے گناہ کے ان راستون سے گزرنا ہو گا ۔ انسان کی روحانی تکمیل کے لیے ابلیس بھی خدا کے منصوبے کا حصہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فاؤسٹ کے استفسار پر مفسٹو اپنا تعارف اس طرح کراتا ہے: وہ اس طاقت کا حصہ ہے ۔ جو ہمیشہ برائی کا ارادہ کرتی ہے اور ہمیشہ خیر کوجنم دیتی ہے ۔
یہ ابلیس کا المیہ ہے جس سے ہم ناواقف نہیں ہیں ۔ وہ راہ گم کردوں روحوں کو مزید بھٹکاتا ہے ۔ انہیں اپنے ’ اسفل سافلین ‘ کے گڑھے میں اتار دیتا ہے اور ’چوپایوں سے بدتر‘ بنا دیتا ہے مگر پھر بھی وہ ان کے محافظ نورِ ہدایت کو ماند نہیں کر پاتا اور آخر میں نامراد رہتا ہے ۔
ڈاکٹر فاسٹس اور فاؤسٹ کی ایک اور اہم عدم مطابقت یہ ہے کہ فاؤسٹ، فاسٹس کی طرح خود سودے کی بات نہیں کرتا اور نہ ہی وہ مفسٹو کو اپنا خدمت گار بنانے کے لیے بے تاب ہے ۔ مفسٹو اسے اس پر ابھارتا ہے کہ وہ عہد نامہ لکھے جس کا فاؤسٹ تمسخر اڑاتا ہے ۔
دراصل ڈاکٹر فاسٹس اور فاؤسٹ میں دو سو سال کا زمانی بُعد (فاصلہ) ہے ۔۔ ہم جانتے ہیں کہ پندرھویں صدی سے لے کر اٹھارھویں صدی کے اختتام تک یورپ ایک عبوری دور سے گزر رہا تھا ۔ پرانی جاگیرداراناہ قدریں دم توڑ رہی تھیں مگر ان کی گرفت ابھی بھی کلیسا اور بادشاہت کی صورت میں مضبوط تھی ۔ پرانی انسان دوست قدریں مٹتی جا رہی تھیں ۔ خلوص کی جگہ لالچ نے لے لی تھی ۔ ہم دیکھتے ہیں اسی زمانے میں شیکپیئر ایسے المیے لکھ رہا تھا جو پرانی قدروں کے مٹنے کا نوحہ تھے ۔ ہیملٹ اپنی ماں کے بارے میں کہتا ہے کہ ’’ابھی اس کے جوتوں سے میرے باپ کی قبر کی مٹی نہیں اتری اور اس نے دوسری شادی کر لی ہے ‘‘ ۔ شاہ لیئر (کنگ لیئر) اس لیے پاگل ہو گیا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس کی بیٹیاں اگر اس سے محبت کا دعویٰ کرتی ہیں تو وہ درست ہو گا ، مگر وہ دولت کی پجاری نکلیں اور جاگیر ملتے ہی اپنے باپ کو تڑپنے کے لیے چھوڑ گئیں ۔
نئی سوچ جو کہ نئے علوم کر مروج کرنے کے لیے کوشش کر رہی تھی ، تعمیری سے زیادہ تخریبی تھی ۔کرسٹوفر مارلو کے ڈرامے ’مالٹا کا یہودی‘ (Jew of Malta)کے آغاز میں میں نکولائی میکاولی کا بھوت، مکیاول(Machiavel) کی صورت میں یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’ طاقت خیر اور شر سے بے پروا ہے اور لاعلمی سب سے بڑا گناہ ہے‘‘ ۔ 1597ء میں فرانسس بیکن نے ’’علم کو طاقت‘‘ قرار دیا۔ یعنی اس کے نزدیک علم طاقت کے حصول کا ذریعہ تھا ۔ مگر اس نظریے کو حقیقت بننے میں ابھی بڑی جدوجہد اور قربانیوں کی ضرورت تھی ۔ فاسٹس انتظار نہیں کر سکتا ۔ اسے طاقتور بننا تھا ۔ مفید علوم کے ذریعے نہیں تو سفلی علم کے ذریعے ہی سہی اور یہی اس کا المیہ ہے ۔ یہاں ہم ایک اور بات کی طرف اشارہ کر دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ اس دور میں نچلے طبقے کے افراد کے ذہنوں میں یہ سوچ جگہ بنانے لگی تھی کہ اگر وہ صدیوں سے روا جاگیرداری کے ظلم و استبداد کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں علوم اور دیگر ذرائع سے وہ طاقت حاصل کرنا ہو گی جو بادشادہ فوج اور قلعوں کے ذریعے حاصل کرتا ہے ۔
فاؤسٹ کے پیش نظر یہ مسئلہ نہیں ہے ۔ دو سو سال گزر جانے کے ساتھ ہی حالات بہت کچھ بدل چکے ہیں ۔ فاؤسٹ انقلابِ فرانس کے بعد کی روشن دنیا میں رہتا ہے ۔ روشن خیالی نے عظمت ِ انسان کے گیت کو ایک نئی طاقت بخش دی تھی ۔ صنعتی ترقی کی وجہ سے جو نئے امکانات اور نئی راہیں کھل گئی تھیں ۔ اور ایسے حالات جنم لے رہے تھے جن میں ایک عام انسان اپنی محنت کے بل پر معاشرے میں ایک مقام حاصل کر سکتا ہے ۔ گوئٹے کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ کیسے ایک پیٹی پورژوا (متوسط طبقے کا فرد) شرافت اور نجابت کا وہ مقام حاصل کر سکتا ہے جو ایک نواب یا جاگیردار کو حاصل ہے ۔ اپنے ناول ’ ولیم میستر کی تعلیم‘ (Wilhelm Meister’s Apprenticeship) میں اس نے اس مسئلے کی طرف کئی مقامات پر اشارہ کیا ہے ۔ ایک جگہ ولیم میستر اپنے دوست اور ہونے والے بہنوئی کو ایک خط میں لکھتا ہے کہ اعلیٰ اور متوسط طبقے کے افراد میں فرق یہ ہے کہ اعلیٰ طبقے کے فرد کو وہ جاہ اور مقام بغیر کسی مشقت کے مل جاتا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے متوسط طبقے کا فرد جی جان لگا دیتا ہے ۔ اس کی تمام اعلیٰ صلاحیتیں اور توانائیاں اسی مقام کے حصول میں صرف ہو جاتی ہیں ۔ گوئٹے اعلیٰ طبقے سے ڈاکٹر فاسٹس کی طرح ناراض نہیں ہے کہ انہوں نے ناحق اس کے حق پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ بلکہ وہ اعلیٰ طبقے کی اس برتری کا معترف اور قدردان ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ متوسط طبقہ بھی اپنی محنت سے یہ شریفانہ مقام حاصل کر لے ۔
اگر ہم اس روشنی میں فاؤسٹ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ سمجھنے میں ذرا بھی دِقت نہیں ہو گی کہ فاؤسٹ کا موضوع انیسویں صدی کے آغاز میں پوری انسانیت کی جدوجہد کی پیش کش ہے ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب صنعتی انقلاب نے مافوق الفطرت کے تصور کو ایک زبردست جھٹکا دیاتھا ۔ کل تک جو چیزیں انسان کی پہنچ سے باہر تھیں اب اس کی دسترس میں تھیں ۔ اور یہ اختیار اسے روپیہ اور اس سے جڑا طاقت کا نیا تصور دے رہا تھا جو صرف اس دورِ سرمایہ داری میں ہی ممکن تھا ۔ روپے کی اس طاقت پر تبصرہ کرتے ہوئے جارج لوکاش لکھتا ہے :
’’ شیطان کی سونے کے لیے ننگی ہوس دور رس اور عام ہے ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو طبقات میں بنے تمام معاشروں کے لیے مفید ہے ۔ انسان کی توسیع اور دوسرے انسانوں اور حالات پر اس کے اختیار کی حیثیت سے روپے کی مخصوص سرمایہ دارانہ اہمیت کو مفسٹو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے (بحوالہ جارج لوکاش،’’فاؤسٹ کا مطالعہ‘‘ ،’’گوئٹے اور اس کا دور‘‘ ، ص 198) :
اگر میں چھ گھوڑوں کا خرچ اٹھا پاتا
تو کیا ان کی طاقت میری اپنی نہ بن جاتی
میں دوڑتا پھرتا اور میں اصلی انسان ہوتا
جیسے کہ میرے چوبیس سُم ہوں‘‘
یہاں لوکاش نے ایک بڑی پتے کی بات کی ہے ۔ نئی سماجی بنتریں(تشکیلات) اپنے ارتقاء کے لیے ابلیس سے رجوع کر رہی تھیں ۔ ابلیس کوئی ایسی پراسرار طاقت نہیں تھا جو خارج سے انسان سے رابطہ کرتا ہے اور اس پر اثرانداز ہوتا ہے ۔ وہ تو اس کے اندر اس کی آرزومندی ، اختیار کی ہوس، اور سماج میں اپنے رتبے کو بلند کرنے کی خواہش میں رچا بسا ہوا تھا ۔ وہ اس کے سماجی تعلقات میں ربط کی صورت میں موجود تھا اور اس کا اظہار روپیہ اور اس سے جنم لینے والا بے پناہ اختیار تھا جو انسانی رشتوں کی جڑت کے وسیلوں کو بدل رہا تھا اور انہیں غیر انسانی بنا رہا تھا ۔ گوئٹے نے اسے محسوس کی اور اسے فاسٹس کی قصے کی ایک نئی تشکیل کے ذریعے پیش کیا ۔ گوئٹے کے اس کارنامے کا ذکر کرتے ہوئے جارج لوکاش لکھتا ہے:
’’داستان کو بنیاد بنانے سے ماخذات کی تاریخ کو جاننا آسان ہو جاتا ہے ۔ گورکی(Gorky) یہ ماننے میں حق بجانب تھا کہ فاؤسٹ جیسی کہانیاں تخیل کا ثمر نہیں ہیں بلکہ یہ ایسے مبالغات کی دین ہیں جو لازمی ہیں اور اصلی حقائق کے قوانین کے عین مطابق ہیں۔ یہ زندگی کے عظیم ، حقیقی اور تاریخی میلانات ہیں جنہیں ا ن کے اصل پر بحال کیا گیا ہے ۔ اور اس سطح پر انہیں لوگوں کی شاعرانہ مشق نے ٹھوس کرداروں کی شکل دے دی ہے ۔ ان کرداروں میں نوجوان گوئٹے نے ایک دور کے انتہائی گہرے مسائل کی زندہ اور واضح جھلک دیکھی اور ساتھ ہی اس نے ان میں اپنی زندگی اور دور کے انتہائی اذیت دہ مسائل کی علامت بھی دیکھیں ۔
اس داستان کے ساتھ اس کی اپنی تقدیر کی مماثلت اور اس داستان کی اصلی تشکیل ِ نو جو اس مماثلت سے بتدریج نمو پاتی ہے۔ یہ خوامخواہ اس سے نتھی نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ ایک غائر موضوع میں اس کی اپنی موضوعیت کا بے جواز تداخل ہے، بلکہ یہ قومی شعورِ ذات کا یا یوں کہیے کہ نوع انسانی کے شعور ِ ذات کا مخصوص اور خوداختیار ارتقاء ہے ۔ گوئٹے کا عہد ، خاص کر نوجوان گوئٹے کا عہد، ابھی اس قابل تھا کہ وہ دیومالا کی داستانوی روایت کو مربوط انداز میں ڈھال سکتا تھا‘‘ ( جارج لوکاش،’’فاؤسٹ کا مطالعہ ‘‘ ، ’’گوئٹے اور اس کا دور‘‘ ، ص 159) ۔
آگے چل کر وہ لکھتا ہے :
’’ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ نیکی اور بدی کی جدلیت کی اس نئی نوع کا ادراک سب سے پہلے سرمایہ داری کے ارتقاء کے انتہائی زیرک مشاہدین نے کیا‘‘ (جارج لوکاش ، ’’فاؤسٹ کامطالعہ‘‘ ، ’’گوئٹے اور اس کا دور‘‘ ، ص 198)۔
٭٭٭٭٭٭٭
فاؤسٹ کے قصے کی دیگر فنکارانہ پیشکشیں
اب تک کے مطالعے میں یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ فاؤسٹ کا قصہ اپنے محیط میں انسانیت کا مقدر لیے ہوئے ہے ۔ یہ خیروشر کی وہی جنگ ہے جو تخلیق ِ آدم سے لے کر جاری ہے ۔ دونوں قوتیں آغاز سے انسان کی روح کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ۔ اب یہ مسئلہ اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا انسان کی فلاح صرف خیر میں ہے یا اس میں شر کا بھی کوئی حصہ ہے ۔ کیا یہ دونوں قوتیں جو ایک مابعد الطبیعیاتی سطح پر انسان کے لیے برسرپیکار ہیں ، انسانیت کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں؟ لوکاش اس مسئلے کو اس طرح تشکیل دیتا ہے:
’’اس طرح ایک جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے جس میں ایسے انجام شامل ہیں جو ہمیشہ غیریقینی ہوتے ہیں اور فاؤسٹ کے لیے مستقل خطرہ ہیں ۔ نیکی کا بیج بدی میں پنہاں ہو سکتا ہے ۔ لیکن اسی طرح، یہ ممکن ہے کہ سب سے ارفع احساس کے دھارے میں شیطان سوت ملی ہو ، یا شیطانی (وصف) اس سے پھوٹ نکلے ۔ استرے کی دھار پر یہ ٹکاؤ فاؤسٹ کے اندرونی ڈرامے کی تشکیل کرتا ہے‘‘ (جارج لوکاش ، ’’فاؤسٹ کا مطالعہ ‘‘ ، ’’ گوئٹے اور اس کا دور‘‘ ، ص 197) ۔
اس نئی تشکیل کی روشنی میں یہ مسئلہ کسی ایک مخصوص دور یا زمانے سے متعلق نہیں رہتا بلکہ تاریخی بن جاتا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اپنی اندرونی حرکت سے خود کو بڑھاتا ہے اور بدلتے ہوئے تاریخی تناظر میں اس کا مافیہا اور ہیئت اور اس کے ساتھ سااتھ اس کی پیش کش بھی بدل جاتی ہے ۔ لیکن اس بدلی ہوئی شکل میں اس کی نظریاتی اساس خیر اور شر کے تصادم اور انسان کے لیے ان کی کشمکش کی صورت میں قائم رہتی ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭
جس زمانے میں جرمن گوئٹے نے اپنی نظم کا دوسرا حصہ ختم کر رہا تھا فرانس میں ایک اور عظیم حقیقت نگار اپنی پہلی بڑی فنکارانہ کامیابی کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا تھا ۔ اس حقیقت نگار کا نام بالزاک(Balzac) تھا ۔ اسے اپنی پہلی کامیابی اس کے شہرہ آفاق ناول ’’ جنگلی گدھے کی کھال ‘‘ یا ’’جادوئی کھال‘‘ (1831ء) سے ملی ۔ یہ ناول اس کی کلیات ’’ طربیہ انسانی‘‘ (جس میں سو کے قریب ناول ہیں ) میں ’’ فلسفیانہ مطالعوں‘‘ کے زمرے میں شامل ہیں اور اس موضوع پر اس کا سب سے اہم ناول ہے ۔ اس کا موضوع بھی انسان کی آرزومندی ہے جس کی تکمیل کے لیے جب وہ خیر سے مایوس ہو جاتا ہے تو شر کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ ناول کا مرکزی کردار رفائیل دی ویلنٹائین ایک باصلاحیت نوجوان ہے ۔ مگر اس کی صلاحیتیں اس کے لیے اعلیٰ سوسائٹی کے دروازے کھولنے میں ناکام ہیں جہاں رتبے اور تعلقات کا مطلب بے پناہ دولت ہے ۔ ناول کے آغاز میں رفائیل ایک قمار خانے میں اپنا آخری سونے کا سکہ ہار کر خود کو ڈبونے کے لیے دریائے سین پر جاتا ہے ۔ مگر دن کی روشنی میں خودکشی کرنا ، جب کہ سبھی اس کا تماشا کر رہے ہوں، اسے باوقار عمل نہیں لگتا ۔ وقت گزاری کے لیے وہ نوادرات کی ایک دکان میں چلا جاتا ہے جہاں دکان کا مالک اسے ایک گدھے کی کھال دکھاتا ہے جس میں یہ جادوئی طاقت ہے کہ وہ الہٰ دین کے چراغ کے جن کی طرح اپنے مالک کی ہر خواہش پوری کر سکتی ہے مگر بدلے میں اس کا جسم اور روح اس کی ملکیت ہو گا ۔ اس کھال پر عربی زبان میں لکھا تھا کہ اس کے مالک کی ہر خواہش کے پورے ہونے پر یہ سکڑ جائے گی اور ساتھ ہی مالک کی زندگی بھی کم ہو جائے گی ۔ دکان کا مالک رفائیل سے کہتا ہے وہ اسے یہ کھال مفت میں دے سکتا ہے مگر وہ اسے مشورہ دیتا ہے کہ یہ سودا نہ کرے۔ مگر رفائیل کے لیے ، جو پہلے ہی خودکشی کرنے جا رہا تھا ، زندگی اور موت اب بے معنی خیال تھے ۔ وہ بڑے جوش کے ساتھ’’فاؤسٹ‘‘ جیسا سودا قبول کر لیتا ہے ۔ سب سے پہلے وہ ایک شاہی ضیافت کی خواہش کرتا ہے جو جلد قبول ہو جاتی ہے ۔ اسے کچھ دوست احباب ملتے ہیں جو اسے ایسی ضیافت کی دعوت دیتے ہیں ۔ گھر آ کر وہ کھال کو نکال کر دیکھتا ہے تو اسے تھوڑا سکڑا پاتا ہے ۔ وہ اپنے اس مقدر پر بڑا خوش ہوتا ہے اور پھر جو خواہش کرتا ہے وہ پوری ہوتی جاتی ہے ۔ وہ کھال کو بھول جاتا ہے اور اپنی مستی کی زندگی میں غرق ہو گا ۔ تاہم آہستہ آہستہ اس کا جسم گھلنے لگا ، وہ بیمار رہنے لگا ۔ اس نے کھال کو نکال کر دیکھا تو وہ پیری ونکل (ایک سدا بہار بیل ) کے پتے جتنی سکڑ چکی تھی ۔ ویلنٹائین سمجھ گیا کہ اب مزید خواہش اس کی ہلاکت کا سبب بنے گی ۔ اس لیے خود کو زندگی سے دور ایک ویرانے میں بند کر لیا اور لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر لیا۔۔۔
اگر ہم اس ناول کا تجزیہ کریں تو ہمیں اس میں بھی انسان کی وہی درماندگی ، تہی دامانی اور ناآسودگی نظر آتی ہے ۔ ناول کے آغاز میں بالزاک انسان کی اس بے بسی پر یوں اظہار ِ خیال کرتا ہے :
’’انسان ہمیشہ اپنے آپ سے جھگڑتا رہتا ہے ۔ اس کے موجودہ غم اس کی امیدوں کا منہ چڑاتے ہیں، پھر بھی ایک ایسے مستقبل کی تمنا کرتا ہے جو اس کا نہیں اور جو اس کی موجودہ تکلیفوں کی جزا بنے گا ۔۔۔ آسمان کے نیچے ہمیں بدبختی کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا‘‘ ۔
باصلاحیت ہونے کے باوجود رفائیل کے لیے اعلیٰ طبقے تک رسائی کے تمام راستے بند تھے ۔ اس کی اس بے بسی اور ناآسودگی میں اس کے مالک مکان کی بیٹی ، پولین اس کی غم گسا ر تھی ۔ وہ اس سے بے لوث اور بے ریا محبت کرتی ہے مگر رفائیل اس کی اس پر خلوص محبت کو سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ اس کی نظریں کہیں اور لگی ہوئی ہیں ۔ وہ ایک ’سنگ دل عورت‘ سے محبت کرتا ہے جو اسے اس کی غربت کی وجہ سے ٹھکرا دیتی ہے ۔ مایوسیوں کی بھیڑ میں الجھا ہوا جب وہ قمارخانے کی سیڑھیاں چڑھتے وقت اپنی ٹوپی اتار کر بوڑھے چوکیدار کے حوالے کرتا ہے تو وہ گویا ایک ابلیسی رسم ادا کر رہا ہے ۔ وہاں سے نامراد جب وہ دریائے سین میں خودکشی کرنے کے ارادے سے بڑھتا ہے تو ابلیس اس کی خوبصورت روح کو حاصل کرنے کے لیے باہیں پھیلائے کھڑا ہو گا ۔ مگر جب وہ خودکشی کے ارادے کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کرتا ہے تو برائی کی یہ قوت اس خدشے کہ پیشِ نظر کہ کہیں وہ اپنا ارادہ ترک نہ کر دے ، اس کے لیے ’’ جادوئی کھال‘‘ کا ایک پھندا تیار کرتی ہے جس میں وہ بخوشی پھنس جاتا ہے اور سودے کے مطابق اس کی ہر آوارہ خواہش پوری ہونے لگتی ہے ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بالزاک جیسے حقیقت پسند کے لیے یہ بات بالکل عیاں تھی کہ پولین کی محبت کو نظرانداز کر کے رفائیل جس زندگی کی خواہش کر رہا تھا اس کا حصول انیسویں صدی کے یورپ کی سماجی بنتروں میں شیطان کے ساتھ سودے کے بغیر ناممکن تھا ۔ ہر تعلق کی قیمت انسان کے جہنم کی طرف بڑھتے قدموں سے چکائی جاتی تھی ۔ اس تصور کو بالزاک نے ایک مافوق الفطرت نوعیت کی طلسماتی کھال کے ذریعے بڑی کامیابی سے پیش کیا ہے ۔ بالزاک کے اس کارنامے کا تذکرہ کرتے ہوئے جارج لوکاش لکھتا ہے:
’’یہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں کہ فاؤسٹ کے دوسرے حصے کا اختتام تقریبا ً اس دور میں ہوا جس میں بالزاک کا ’’ جنگلی گدھے کی کھال‘‘ منظر ِ عام پر آیا ۔ یہ حقیقت نگاری کا ایسا شاہکار ہے جس نے ’’ فنکاری کے دور‘‘ کا اس میں برتی گئیں تخیل آمیز رومانوی ساختوں کی صورت میں خاتمہ کیا ۔ جب کہ فاؤسٹ میں ’’ فنکاری کے دور‘‘ کی عظیم حقیقت پسندیت تخیل آمیز تمثیلی ساختوں کی صورت میں وداع لیتی ہے ۔ بالزاک کے ہمیں جدید ناول کا شاندار آغاز ملتا ہے جس میں سرمایہ دارانہ زندگی کے بیک وقت حقیقی اور ہیولیائی کردار چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ‘‘ (جارج لوکاش، ’’فاؤسٹ کا مطالعہ‘‘ ، ’’ گوئٹے اور اس کا دور‘‘ ، ص 157)۔
٭٭٭٭٭٭٭
بیسویں صدی کے بڑے ناول نگاروں میں جرمنی کے عظیم حقیقت نگار، ٹامس مان (Thomass Mann)کا نام سرِ فہرست ہے ۔ اس کے ایک ناول ’’ جادوئی پہاڑ‘‘ (The Magic Mountain) میں ایک باب ’ برف‘ (Snow) کے نام سے ہے ۔ ہم یہ دعوے سے کہتے ہیں کہ اگر پوری دنیا کے اعلیٰ ادبی نمونوں کا انتخاب کیا جائے تو یہ باب ان میں ضرور شامل ہو گا ۔ اس کی جمالیاتی تشکیل میں ٹامس مان نے اپنی تمام فنکارنہ توانائیاں صرف کر دیں ۔ مگر اس میں ہمیں ایک ایسا ہولناک اور گھناؤنا منظر بھی دکھایا جاتا ہے جو ہماری روح کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اور فنکار کا کمال یہ ہے کہ ہم ناول کے ہیرو کی طرح اپنی روح کی پوری توانائیاں صرف کر کے بھی اس سے نظریں ہٹا نہیں سکتے ۔ ہم یہاں سارے باب کو پیش نہیں کریں گے ۔ ہماری غرض اس کے آخری حصے سے ہے ۔ ناول کا ہیرو ہینس کاسٹروپ (Hans Castrop) برف کے طوفان میں ارادتاً اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جاتا ہے اور یک جگہ برف میں اس کی ٹانگیں اس طرح دھنس جاتی ہیں کہ وہ کوشش کے باوجود انہیں نکال نہیں پاتا ۔ اس حالت میں وہ اس تیز شراب کا استعمال کرتا ہے جو وہ بے دھیانی میں اپنے ساتھ لے آیا تھا ۔ اس کا اثر اتنا تیز ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی بے سدھ ہو جاتا ہے ۔ اسی عالم میں وہ ایک خواب دیکھتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو جنوب کے ایک ساحلی علاقے میں پاتا ہے جو اس کے ساحلی علاقے سے متعلق تمام تصورات سے منفرد اور جمیل تر ہے ۔ یہاں سورج اور سمندر کے پالے لوگ (Children of Sun and Sea) رہتے ہیں ۔ وہ اپنی گزران بے فکری میں کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکے گھوڑ سواری اور تیر اندازی کی مشقیں کر رہے ہیں ۔ ایک لڑکی ایک جگہ بیٹھی پانی سے کھیل رہی ہے اور دوسری لڑکیاں اس کے گرد ناچ رہی ہیں اور گیت گا رہی ہیں ۔ چھوٹے بچے بے پروائی سے اپنے کھیلوں میں لگے ہیں ۔ ہر کوئی اپنی سرخوشی میں مگن ہے اور دوسروں کی سرگرمیوں کو عزت آمیز محبت سے سراہ رہا ہے اور خوش ہو رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے جسم اور دماغ ، انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان مکمل ہم آہنگی کو پا لیا ہے ۔ ہنس کاسٹروپ ان کی اس سرمستی ، خوشی ، تازگی اور صحت مند احساس کو سراہتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو اس کی نظر ایک ماں پر پڑتی ہے جو اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ جو شخص بھی اس کے قریب سے گزرتا ہے وہ اپنے سینے پر ہاتھ باندھ لیتا ہے اور مسکراتے ہوئے سر جھکا لیتا ہے ۔ کنواری لڑکیاں اپنی احسان مندی کا اظہار کرتے دکھائی دیتی ہیں ۔ یہ نظارہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی پجاری کسی مقبر ے کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ ہاتھ باندھ کر یا سر جھکا کر اپنی عقیدت اور دل بستگی کا اظہار کرتا ہے ۔ ہینس کاسٹروپ ابھی اسی منظر میں محو تھا کہ اس کی نظر ایک نوعمر بچے پر پڑتی ہے جو اس کے قریب ہی بیٹھا ہے ۔ اس کی متفکر نظریں آسمان کی طرف اٹھی ہوئی ہیں ۔ جب کاسٹروپ سے اس کی آنکھیں چار ہوتی ہیں تو اس کے چہرے پر کھیلتی مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے ۔ وہ بڑے اضطراب کے عالم میں ایک سمت کو دیکھتا ہے ۔ بے اختیاری میں کاسٹروپ اس طرف چل پڑتا ہے ۔ اک گلی سے گزر کر وہ خود کو ایک مقبرے کے سامنے کھڑا پاتا ہے ۔ اس کے ستونوں سے گزرتا ہوا وہ ایک کمرے میں پہنچ جاتا ہے جہاں دو چڑیل نما بوڑھی عورتیں ایک نوزائیدہ بچے کے حصے بخرے کر رہی ہوتی ہیں ۔ کاسٹروپ ان کے غلیظ جبڑوں میں اس بچے کی نرم ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز سن سکتا ہے ۔ وہ ان کے ہونٹوں پر جمے خون کو دیکھ سکتا تھا ۔ اس کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا ۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنی آنکھیں بند کر لے اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہو ، مگر وہ ایسا نہ کر سکا ۔ چڑیلوں نے اسے دیکھ لیا تھا ۔ وہ اسے مکے دکھانے لگیں اور اس کی قصباتی زبان میں اسے گالیاں دینے لگیں ۔ ہینس کاسٹروپ نے لاکھ کوشش کی کہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہو مگر وہ ایسا نہ کر پایا ۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پاؤں دلدل میں دھنسے جاتے ہیں ۔۔۔ (ٹامس مان ، جادوئی پہاڑ، ص 491 تا 494)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اب تک ہم نے جن فن پاروں کا جائزہ لیا ہے ان میں ایک فرد پوری انسانیت کی حسرتوں میں بدلی جا رہی آرزوؤں کو حقیقت بنانے کے لیے خیر اور شر کی متحارب قوتوں کی اس کی روح کے لیے کشمکش کے درمیان اپنے دور کے مخصوص رویوں اور مافیہا کی نمائندگی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اس طرح پوری انسانیت کے مقدمہ کو پیش کرتا ہے ۔ فاسٹس ، فاؤسٹ اور رفائیل حقیقی زندگی کے کردار ہوتے ہوئے بھی ایک بلیغ علامت اور استعارے کی بدلتے سماجی تناظر کے ساتھ بدلتی ہوئی شکلیں ہیں جن کی اصل ایک ہی ہے ۔ یہ استعارہ ہر اس انسان کے مقدر کی نمائندگی کرتا ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کے مخصوص تاریخی اور سماجی حالات میں ناممکن ہے اور جس کی خاطر وہ اپنے دور کے الہٰیاتی ، سماجی اور فکری سانچوں کو توڑ کر ان سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے مگر انسانی حدود میں رہتے ہوئے وہ ایسا نہیں کر سکتا ۔ اس لیے خیر (مفید علوم) سے مایوس ہو کر شر (جادو) کا سہارا لیتا ہے اور اپنی روح کا سودا کرتا ہے ۔ مگر ظاہر ہے کہ کوئی فنکار بھی برائی کو جیتتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔ صداقت اسے اس کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ وہ ہمیں اس کا بُرا انجام دکھائے مگر اس طرح کہ یہ انجام ابلیس کی ہار اور انسان کے روحانی ارتفاع کا طربیہ بنے ۔ یہاں خدا اور فن کار ایک ہو جاتے ہیں ۔ فنکار کے ’’صریرِ خامہ‘‘ سے نکلتی ’’ نوائے سروش‘‘ ہمیں اس کی خبر دیتی ہے کہ یہ ’’اسفل سافلین‘‘ کی تاریکیوں میں جس قدر چاہے اتر جائے ، ’’احسن تقویم‘‘ کی روشنی اس کے دل کو منور کیے رکھتی ہے ۔ (چوں کہ ہم موضوع کے تعین میں یہ تحدید کر آئے ہیں کہ ہم صرف فاؤسٹ کے ایک پہلو –شیطان سے سودے- کو موضوع بنائیں گے اس لیے ہم اس نکتے کو فی الحال تشنۂ وضاحت چھوڑ دیتے ہیں۔)
٭٭٭٭٭٭٭
ٹامس مان کے ناول ’’جادوئی پہاڑ‘‘ کے متذکرہ بالا باب ‘ برف‘ میں پہلی پیش کشوں کی طرح ایک فرد انسانیت کے مقدر کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ پورا قبیلہ اس میں حصہ لیتا ہے ۔ یہاں فر د اور اجتماع ایک خاموش سمجھوتے میں بندھے نظر آتے ہیں ۔ ٹامس مان بڑی فنکارانہ ہوشیاری سے ہمیں ایک منظر دکھاتا ہے اور جب ہم اس میں کھوئے ہوتے ہیں تو دوسرے جمیل تر منظر کو ہمارے سامنے لے آتا ہے اور اس متحرک جمالیاتی حظ کی رو میں بہتے ہوئے ہم لاشعوری طور پر ممنوعہ حدود میں داخل ہو جاتے ہیں ، جہاں ہمیں نہیں ہونا چاہیے ۔ لیکن وہاں ہمار اہونا اپنے اندر ایک لازمیت لیے ہوئے ہے جو ہماری روح کے تاریک ترین گناہوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ یہ گناہ ہمارے اجتماعی لاشعور میں نجانے کتنی صدیوں سے دبے پڑے ہیں ۔ جب کوئی منظر، خیال یا احساس ان کو کریدتا ہے تو ہم اس سے اسی طرح متاثر ہوتے ہیں جس طرح ہینس کاسٹروپ (Hans Castrop)۔ ہینس کاسٹروپ کے ساتھ ہم بھی دو سطحوں پر سفر کرتے ہیں ، ایک خارجی اور دوسری داخلی ۔ ہم اسی کی طرح دو سطحوں پر اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں ، ایک جسمانی اور دوسری روحانی ۔ مگر یہ خارجی اور داخلی ، جسمانی اور روحانی کے تضادات محض تفہیمی سطح پر ہیں ۔ حقیقت میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ ہماری سوچ ہمارے اعمال میں ظاہر ہوتی ہے اور ہمارے اعمال ہماری سوچ کی طرف نشان دہی کرتے ہیں۔ اس طرح ان دونوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ۔
مگر ان ’’سورج اور سمندر کے پالے‘‘ لوگوں نے اس تضاد سے گریز کی خاطر ایک مفاہمتی راہ نکال لی ہے ۔ وہ فرد اور اجتماع، مسرت بخش اور ہولناک کے درمیان ایک سمجھوتے ، ایک سودے میں بندھے ہیں ۔ سودے کی شرائط ہمیشہ کے لیے طے کر دی گئی ہیں ۔ وہ اس طرح بسران کر رہے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ وہ اسے بھلائے ہوئے ہیں ۔ یہ حقیقت ہر وقت ان کے سامنے رہتی ہے کہ اس پار مقبرے میں دو چڑیلیں ان کے نوزائیدہ بچے (جسے ابھی ابھی گرم دودھ پلایا گیا ہے) کو چیر پھاڑ رہی ہیں ۔ جب وہ بچے کو دودھ پلانے والی ماں کو عقیدت اور احسان مندی سے دیکھتے ہیں تو یہ منظر اپنے اندر اتنی عابدانہ روحانیت لیے ہوتا ہے کہ :
’’اس نظارے نےہینس کاسٹروپ کے دل میں ایک سنسنی پیدا کر دی جو شاید وجد (دیوانگی) سے ملتی جلتی تھی ۔ وہ اس کی تاب نہ لا سکا۔ پھر بھی وہ تذبذب کے عالم میں خود سے پوچھ رہا تھا کہ کیا اسے اس کا حق ہے، کیا یہ جرم قابل گرفت نہیں ہے، اس کے لیے جو ایک اجنبی ہے ، کہ وہ اس مسرور جماعت کی دھوپ کی طرح تازہ اور مہربانی خوبصورتی کا حصہ بنے۔ اس نے (اس جماعت کے درمیان ) خود کو عامیانہ اور بھدے جوتوں والا پایا ‘‘ (جادوئی پہاڑ، ص 394) ۔
ان لوگوں نے اس ہولناک حقیقت کو بھلا کر جینا سیکھ لیا ہے مگر ہینس کاسٹروپ ، ہمیں اور اس بچے کو (جو شاید انجانے میں یا تجسس میں گرفتار اس مقبرے میں داخل ہو گیا تھا )بھی اس کے ساتھ جینا سیکھنا ہو گا ۔