اخلاقیات، جعلی اخلاقیات اور غامدی صاحب۔ تحریر: کبیر علی، ذوالنورین سرور

 In تنقید

اس تحریر کے دو حصے ہیں: پہلے حصے میں اس بات پر غور کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ تحریر اور لکھاری پر مروجہ اخلاقیات کس طرح وارد ہوتی ہے۔ مروجہ اخلاقیات سے مراد وہ اخلاقیات ہے جس کی جڑیں ہمارے مذہب اور تہذیب میں بہ آسانی تلاش کی جا سکتی ہیں جبکہ دوسرے حصے میں ہم نے یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ آج کل جو ایک بالکل نئی طرز کی جعلی اخلاقیات بہ طور ہتھیار استعمال کی جا رہی ہے اس کی کیا حرکیات ہیں۔ جعلی اخلاقیات سے مراد وہ اخلاقیات ہے جس کی جڑیں ہمارے مذہب یا ہماری تہذیب میں تلاش کرنا بے سود ہے۔ اس اخلاقیات کی جڑیں استعمار کی برصغیر میں تشریف آوری کے بعد کی تاریخی صورتحال میں ہی تلاش کی جا سکتی ہیں۔ جعلی اخلاقیات کو ہتھیار بنا کر استعمال کرنے میں جناب جاوید احمد غامدی اور ان کا حلقہ نہایت موزوں مثال ہے لہذا انھیں بہ طور کیس سٹڈی شامل کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ کبیر علی اور دوسرا حصہ ذوالنورین سرور نے لکھا ہے۔

پہلا حصہ: لکھت، لکھاری اور مروجہ اخلاقیات
مذہب اور تہذیب سے تعلق کے باعث ہم کچھ اقدار رکھتے ہیں لہذا یہ سوال بہت اہم ہو جاتا ہے کہ اخلاقیات کا لکھاری اور لکھت کے ساتھ کیا تعلق ہوتا ہے۔ یعنی ہم اپنے معاشرے کے لکھاری اور لکھت سے یہ مطالبہ کرنے میں کس حد تک حق بجانب ہیں کہ وہ ہمارے سماج کی اخلاقیات پہ پورا اتریں۔ یہ سوال پُرانا ہے اور اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن ایک بات واضح رہے کہ جزو اول میں ہم اپنی ادبی روایت کے اندر کھڑے ہو کر بات کر رہے ہیں اور اس میں فریقین کے مابین طاقت کا عدم توازن موجود نہیں جو کسی ایک فریق کو باقیوں پر دھونس جمانے کا موقع دے نیز اس حصے کا تعلق محض ادبی معاملات سے ہے۔
اس سوال کے اجزا یوں بنتے ہیں:
1۔ لکھاری کا ذاتی زندگی میں مروجہ اخلاقیات سے رُوگردانی کرنا
2۔ تخلیقی ادب (فکشن ، شاعری وغیرہ) میں کرداروں کا مروجہ اخلاقیات سے روگردانی کرنا
3۔ تنقیدی مضامین میں لکھاری کا کسی خاص شخص پر ایسا طنزکرنا/الزام لگانا جو مروجہ اخلاقیات پہ پورا نہ اُترتا ہو۔

آئیے اب ان اجزاء کو ذرا تفصیل سے دیکھ لیتے ہیں۔

1۔ لکھاری کی ذاتی زندگی کے اخلاقی مسائل کا اس فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے کہ ہم اس کی تحریر پڑھیں یا نہ پڑھیں۔ مثلاً فرض کریں کہ میں شراب پینے کو حرام سمجھتا ہوں تو کیا کسی شاعر کی شاعری کو محض اس لیے رَد کر دوں گا کہ وہ شراب پیتا ہے؟ یا کسی افسانہ نگار کا افسانہ محض اس لیے پڑھوں گا کہ وہ بہت نیک اور بھلا آدمی ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب ’نہ‘ ہے۔ ہم تحریر کو ادبی/جمالیاتی معیار پر پرکھیں گے، اس سلسلے میں مصنف کا ذاتی کردار سِرے سے غیر متعلق ہے۔ یہی اصول دیگر فنونِ لطیفہ مثلاً موسیقی، خطاطی، مصوری وغیرہ پہ بھی لاگو ہو گا۔

2۔ تخلیقی ادب (شاعری، فکشن وغیرہ) کے اندر مصنف کئی کردار بناتا ہے اور کئی طرح کے مضامین پیدا کرتا ہے۔ یہ کردار بالعموم مروجہ اخلاقیات کی خلاف ورزیاں کر رہے ہوتے ہیں بلکہ کئی دفعہ تو اخلاقیات کے خلاف بہت بڑی بڑی بغاوتیں بھی کرتے ہیں۔ کیا ایسی تحریروں کو پھینک دینا چاہیے؟ یا ان غیر اخلاقی عناصر کی وجہ سے ان ناولوں، اشعار، افسانوں کو ہم کمتر سمجھیں گے؟ ادبی روایت ان دونوں سوالوں کا جواب ’نہ‘ میں دیتی ہے۔ یعنی ہماری شاعری اور فکشن کا غالب حصہ ایسا ہے جس میں مروجہ اخلاقیات کی خلاف ورزی کی گئی ہے البتہ کبھی کبھی ایسی کوششیں ضرور کی گئی ہیں کہ ایسی پاکیزہ شاعری یا بھلے ناول لکھے جائیں جن میں ہر طرف نیک لوگ چلتے پھرتے نظر آئیں تاکہ انھیں پڑھنے والے کی اخلاقی سطح بلند ہوتی جائے لیکن ایسی کوششوں کو کچھ خاص پذیرائی نہیں مل سکی۔

3۔ نان-فکشن میں کسی شخص پر ایسا طنز کرنا یا الزام لگانا جو غیر اخلاقی ہو ایک ٹیڑھا معاملہ ہے۔ اس طنز اور الزام کی دو قسمیں ہو سکتی ہیں:
(الف) اعلان کرنا/تاثر دینا کہ یہ الزام/طنز ایک حقیقت ہے، ایک واقعہ ہے۔ مثلاً کوئی یہ الزام لگائے کہ مصنف زید فلاں کا ایجنٹ ہے اور یہ تاثر دے یا یہ بیان کرے زید اصل زندگی میں اس ایجنٹی کے عوض باقاعدہ تنخواہ اور مراعات حاصل کرتا ہے۔ اس طرح کا ’’معلومات پہ مبنی‘‘ الزام اپنے اندر کئی مسائل رکھتا ہے اور اس سے گریز بہتر ہے۔ لیکن اگر یہ معلومات درست ہوں تو بعض تحریروں میں سٹریٹجک سطح پہ اس طرح کی راز افشائی کرنا پڑ جاتی ہے۔
(ب) کسی شخص/گروہ کی تحریروں کے اندر سے اس کے کسی رویے کو اخذ کرنا اور اس پر کوئی عنوان چپکانا جو ناگوار ہو۔ مثلاً یہ کہنا کہ مصنف زید بہت بزدل ہے۔ یہاں ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ زید اصل زندگی میں بھی بزدل ہے بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ زید نے اپنی تحریر میں کسی ایسے سچ کے بیان سے گریز کیا ہے جو اسے لازماً بیان کرنا چاہیے تھا اور بیان نہ کر کے اس نے بزدلی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ طنز بہ ظاہر شخصی دکھائی دیتا ہے مگر یہ مخالف مصنف کی سوانح سے نہیں آتا بلکہ اس کی تحریر کے دروبست سے ہی پھوٹتا ہے اور تحریر کے فاعل کا تجزیہ کرتا ہے، اس کا استعمال عین درست ہے البتہ تجزیہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔

نتیجہ:
لکھاری کے ذاتی اخلاقی مسائل غیر متعلق ہیں۔ تخلیقی ادب میں موجود غیر اخلاقی عناصر پر ہم اخلاقیات کو وارد نہیں کریں گے، بلکہ جمالیات فیصلہ کرے گی۔ صورتحال (الف) کے متعلق حساسیت زیادہ پائی جاتی ہے اور سنجیدہ تحریروں میں ایسے الزامات کم کم لگائے جاتے ہیں۔ صورتحال (ب) کے متعلق بھی احتیاط کی جاتی ہے مگر اس کے اندر نہایت عمدہ شہ پارے لکھے گئے ہیں جو صدیوں یاد رکھے جاتے ہیں۔ یہ تلوار کی دھار پہ چلنے کا کام ہے۔ ادیبوں کی آپسی جملہ بازیوں اور تنقیدوں کا ایک وسیع ذخیرہ دستیاب ہے۔ یہاں اخلاقیات کی ایک سطح ملحوظِ خاطر رکھی تو جاتی ہے مگر بہرحال کچھ نازک طبع لوگ چیں بہ چیں بھی ہوتے ہیں جن میں سے کچھ تو اپنی نیکی اور بھلائی کی وجہ سے اور کچھ لوگ اپنی منافقت کی وجہ سے چیں بہ چیں ہوتے ہیں۔ ہر دو قسم کے لوگوں کا داخلہ اس کوچے میں ممنوع ہونا چاہیے۔ یہ لوگ بالترتیب اپنی سادہ لوحی یا منافقت کی وجہ سے قاری کو اعلیٰ تنقیدی ادب کے بیشتر ذخیرے سے دُور کرنے کے متمنی ہیں اور لہذا قابلِ مذمت ہیں۔

دوسرا حصہ: جعلی اخلاقیات، غامدی صاحب اور موجودہ صورتحال

فی زمانہ ایک نئی بحث شروع ہوئی ہے، جس کی لفظیات تو بالکل مروجہ اخلاقیات کی بحث سے اٹھائی گئی ہے لیکن اس کی وجودیات، علمیات اور نظامِ اقدار بالکل الگ ہے۔ جس اخلاقیات کا آج کل ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے، یہ بالکل نئی چیز ہے اور اس کا صراحت سے الگ بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ جعلی اخلاقیات کی موجودہ بحث کا تعلق نہ تو مذہب سے ہے اور نہ ہی یہ ہماری تہذیبی روایت سے متعلق ہے۔ اس کا مقصد محض حریف پر دھونس جمانا، اسے خاموش کرنا، اس کی انسانیت سلب کرنا اور اس کے موقف کو غیر تہذیب یافتہ قرار دینا ہے۔ جب ہم اس ’’جعلی اخلاقیات‘‘ کا سرا تاریخ میں تلاش کرتے ہیں تو سارا مواد استعمار کی آمد کے بعد کا ملتا ہے۔ ملکہ وکٹوریہ کی حکومت کیونکہ ’خدا کی رحمت کا سایہ تھی‘ لہٰذا اس کے باغی ’’ناشکرے‘‘ اور ’’حرامزادے‘‘ تھے اور یہ موقف رکھنا ہی ’’عقل سلیم‘‘ کا تقاضا تھا ۔ گورا ساب ’’تہذیب سکھانے‘‘ اس علاقے میں آیا تھا اور یہاں اس کا سامنا نیٹو (مقامی آدمی) سے ہوا جو جاہل (illiterate ) اور گنوار (uncultured) تھا۔ اس آدمی کی شخصی بنیاد میں ایک خرابی نیٹویت (مقامی پن) مضمر تھی پس اس کی کل شخصیت اور جملہ اظہار غیر شائستہ تھا۔ اس باب میں اس کی زبان، اخلاق، مذہب، تاریخ، ادب الغرض ہر شے غیر شائستہ تھی اور ان معاملات میں اس کا ہر حوالہ ردی تھا۔ پس مقامی آدمی علمی گفتگو میں شامل ہونے کے قابل نہ تھا۔ اِلا یہ کہ گورا صاحب اسے کچھ ’’سلیقہ‘‘ دے اور وہ اپنے مہذب آقا کی ’’شرائط‘‘ پر گفتگو میں شریک ہو ۔اخلاقیات کی موجودہ بحث ’نیٹو'(Native) کے اسی تہذیبی بیانیہ کا ایک تسلسل ہے۔ تنقید کرنے والا مقامی آدمی خواہ کتنا ہی اپنی روایت اور تاریخ میں کھڑا ہو کر گفتگو کرے اس کی بات ناقابلِ اعتنا ٹھہرے گی۔
سوال یہ ہے کہ یہ ’’جعلی اخلاقیات‘‘ آخر کیا ہے؟ بنیادی طور پر یہ استعماری سیاست اور سرمائے کی جدید حرکیات سے پیدا ہونے والے سماجی رویوں کا نام ہے۔ ان کی نشاندہی بہت رسانی سے کی جا سکتی ہے۔ ایک سادہ سے سوال کا جواب سوچیں کہ ایک آدمی سر پہ پگڑی باندھے، کندھے پر صافہ رکھے، دھوتی باندھے، کھسہ پہنے اور سرمہ لگائے آپ سے ذاتی ملاقات کرنے دفتر میں آئے تو آپ کا اس کے ساتھ رویہ کیسا ہو گا؟ آپ اس سے اپنی خاندانی قربت/ذاتی تعلق کو ظاہر کرتے ہوئے جس ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے، وہ اس جعلی اخلاقیات کا سماجی مظہر ہے ۔ یہی رویہ جب علمی انداز اختیار کرتا ہے تو اخلاقیات کے مسئلے کی موجودہ شکل اختیار کرلیتا ہے۔
ہم اس بحث کو مزید عام فہم بنانے کے لیے ایک مثال دیتے ہیں: ایک باپ اپنے اسسٹنٹ کمشنر بیٹے سے ملنے پگڑی، لاچا اور صافہ باندھ کر گیا۔ اندر اطلاع بھجوائی گئی کہ فلاں گاؤں کے چودھری فلاں ولد فلاں تشریف لائے ہیں۔ بیٹے کو پتا چل گیا کہ یہ وہ لمحہ ہے جسے مومنٹ آف ٹروٹھ کہتے ہیں۔ اس نے اس لمحے کو بسر کرنے کی بجائے ملتوی کرنے کو ترجیح دی۔ بجائے خود آنے کے اس نے اپنے سیکرٹری سے کہا کہ انھی‍ں احترام سے بٹھاؤ، باقی ملاقاتی بھگتا کر انھیں ملتا ہوں۔ وقت گزرتا گیا، چوہدری کا غصہ آسمان پر چڑھتا گیا۔ جب کافی تاخیر ہو گئی تو اس نے سیکرٹری سے کہا کہ صاحب سے کہو کہ جلدی بلائے۔ سیکرٹری نے کہا کہ جی کچھ ملاقاتی آئے بیٹھے ہیں۔ یہ سن کر چوہدری چل پڑا اور نائب سے کہا کہ صاحب سے کہنا نیا شناختی کارڈ بنوا لے، پرانے میں کوائف درست نہیں ہیں۔ یہاں پر ہماری مذہبی اور تہذیبی اخلاقیات میں تو اخلاقی حکم بیٹے پر لگے گا مگر جعلی اخلاقیات می‍ں حکم باپ پر لگے گا۔
علم نظری، متن سیاسی اور اخلاقیات آلاتی ہے۔ ہمارے ہاں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا کہ عین اس وقت جب یہ معاشرہ بدترین معاشی، سیاسی اور علمی افلاس کا سامنا کر رہا ہے، ایک ایسا علمی اور مذہبی گروہ بروئےکار آیا جو اعلیٰ ترین اخلاقیات کا دعوے دار ہے۔ اخلاقیات کی بحث کو ہمہ قسم مباحث میں مرکزی حیثیت دینے کا سہرا جناب جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے ممدوحین کے سر ہے لہذا اس مسئلے کو سمجھنے میں وہ نہایت معاون ثابت ہوں گے۔ جناب غامدی صاحب مکالمے کی اخلاقیات کا معیار بن کر معاشرے پر وارد ہوئے ہیں۔ وہ سطحی اور قطعی اسلوب (آپ سارا قرآن پڑھ ڈالیں، پوری تاریخ دیکھ جائیں، مورخ یہی تو کرتا ہے وغیرہ) میں نہایت تباہ کن موقف اختیار کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں ان کے اسلوب اور مواقف سے فی الوقت اعتنا مقصود نہیں۔ اصل مسئلہ ان پر ہونے والی تنقید کا ان کے حلقے کی طرف سے جواب ہے۔ ان پر کی جانے والی ہر تنقید کو مکالمہ کی اخلاقیات کی خلاف ورزی قرار دے کر صاف کرنے کا حربہ عام ہے۔ ان کے ممدوحین کے لیے ان کا ’’بااخلاق‘‘ لہجہ ہی ان کے موقف کے درست ہونے کی ’’دلیل‘‘ ہے۔ ان پر تنقید کرنے والے ہر فرد کا موقف، دلیل اور نقطہ نظر غیر اہم ہیں۔ ناقد کے صرف ’’اخلاقی مسائل‘‘ (ذاتیات پر مبنی گفتگو) کی نشاندہی ہی تنقید کو ناجائز قرار دینے کے لیے کافی ہے۔
’’مکالمے‘‘ کے اصول و مبادی طے کرنے میں جناب غامدی صاحب نے نیٹیو بیانیے سے اکتساب کیا ہے اور ان کی مقبولیت نے معاشرتی اقدار پر اس حوالے سے غیر معمولی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس کے دو نتائج ہم یہاں بیان کرتے ہیں:

اول یہ کہ نقطہ نظر، موقف، دلیل ہر شے ثانوی ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ سب معاملات موضوعی ہیں اور کسی بھی معاملے کو دیکھنے کے ایک ہی مستقل تناظر (meta- narrative) پر اصرار کرنا پسماندہ ذہن کی علامت ہے۔ ایسے میں کسی ایک موقف کو درست سمجھ کر دوسرے موقف کے حاملین پر تنقید کرنا غیر علمی اور غیر اخلاقی رویہ ہے۔ ایسا کوئی بھی آدمی جو اس طرح کی نظریاتی لچک کا حامل نہ ہو، وہ نہ صرف علمی طور پر کمتر ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی گوناگوں مسائل کا شکار ہے ،گویا وہ آدمی ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں نقطہ نظر اتنی غیر اہم اور غیر متعلق چیز کبھی نہیں رہی۔ اس حوالے سے یہ ایک بالکل نئی صورتحال ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اللہ کا نبی ہے تو جعلی اخلاقیات کی رو سے جوابی موقف کچھ یوں ہونا چاہئے کہ جی نہیں، ایسا نہیں ہے وغیرہ۔ مذکورہ شخص پر کافر یا قادیانی کا حکم لگانے سے معاملہ ’’ذاتیات‘‘ پر چلا جائے گا۔ نقطہ نظر جیسی ’’ثانوی‘‘ اور ’’غیر اہم چیز‘‘ کی وجہ سے پورے انسان پر تنقید کو ’’غیر شائستہ‘‘ اور ’’غیر علمی‘‘ رویہ خیال کیا جاتا ہے۔ بظاہر تو یہ انسان نوازی معلوم پڑتی ہے لیکن دراصل یہ انسان دشمنی کی ارذل ترین شکل ہے۔ یعنی ہر قسم کے موقف رکھنے والے پر تنقید نہ کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ کسی بھی موقف کی حمایت نہ کی جائے۔ ہر بات کے درست ہونے کا مطلب ہے کوئی بات بھی درست نہیں ہے۔
دوم یہ کہ  جعلی اخلاقیات والوں کا مطالبہ یہ رہتا ہے کہ گفتگو میں یا تحریر میں مصنف کو سِرے سے ہی محذوف کر دیا جائے، تحریر(text) کو تحریر میں رہ کر ہی جانچا جائے۔ تحریر کے نتیجے میں کسی ایجنڈے کے فروغ سے انکار کرنا اب ایک ’’علمی اصول‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ یعنی میں روزانہ اپنے موقف کی نئی دیوار تعمیر کروں  اور آپ اسے چاٹتے چاٹتے شام کر لیں، یہ یاجوجی سلسلہ قیامت تک یونہی چلتا رہے  اور اس بات کو زیر بحث نہ لایا جائے کہ میں یہ بات کیوں کر رہا ہوں اور اس کے کیا اثرات ہو رہے ہیں۔ تحریر کے اثرات ہوتے ہیں اور ان کو زیر بحث لانا تنقید کا ایک لازمی جزو ہے ۔ مصنف کا بطور شخص محذوف ہونا  تو کسی قدر قابل قبول ہے لیکن متن میں مصنف جب بہ طور فاعل (subject) ظاہر ہوتا ہے تو اس سے معاملہ کرنا  دوسری آئیڈیالوجی کا پورا حق ہے۔
غامدی صاحب غالب تہذیب کو سمجھنے کا دعویٰ تو رکھتے ہیں لیکن  اس بارے میں کوئی علمی رہنمائی فراہم کرنا تو دور وہ اس کی مبادیات سے بھی نابلد ہیں۔ ان کا تمام گرانقدر کام ایک شکست خوردہ، تباہ حال قوم کے دفتر کھنگالنے پر مشتمل ہے اور اس ’’نیک کام‘‘ کے لئے ان پر طاقت اور سرمائے کے تمام در وا ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی نامعقول گفتگو میں بھی ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے ۔
ایسے بیانیے جو hegemonic ہیں اور جبر اور قوت سے نافذ کر دیے گئے ہیں، ان کی نشاندہی کرنا، ان متون میں ظاہر ہونے والے فاعل کو زیر بحث لانا اور اس پر تنقید کرنا مارجنلائز افراد کا استحقاق ہے۔ ان پر اخلاقیات کا حکم لگانا جبر اور دھونس کی قوتوں کا ساتھ دینا ہے۔ متن کی صورت میں آنے والا ہر بیان دراصل نظریات کی باہمی نزاع کا مظہر ہے اور لہذا سیاسی ہے۔ اس میں اختلاف رائے کو اس شدت سے دبانا (جیسا کہ جعلی اخلاقیات والوں کا وطیرہ ہے) دراصل نظریات سے وابستگی  پر پابندی لگانے کے مترادف ہے۔ ان کا اصل مطالبہ یہ ہے کہ ایک انسان کو کوئی تناظر اتنا عزیز ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ اس کے سبب وہ کسی انسان پر ’’ناروا‘‘ حملہ کر دے۔ بالخصوص مقامی آدمی کی تو ساری تاریخ و تہذیب یوں بھی کسی کام کی نہیں لہٰذا اس کی تحقیر ’’حقیقت کا بیان‘‘ ہے اور اس پر ردعمل دینا ’’غیر اخلاقی‘‘ ہے۔
اخلاقیات کیونکہ ایک آلاتی شے ہے لہذا یہ غالب آئیڈیاز کو مدد فراہم کرتی ہے کہ وہ  اپنے مخالف آئیڈیاز کو دبانے، بدنام کرنے اور ناجائز ثابت کرنے کا کام کرسکیں۔ علمی متن میں جہاں دو آئیڈیالوجی باہم دست و پیکار ہوں، وہاں یہ ایک پورے ڈسکورس کو ناجائز، مضر اور بُرا قرار دینے میں معاون ہوتی ہے۔ سیاسی قوت پبلک سفیئر کی تشکیل نو کرتی ہے، اس کے لیے وہ تشدد کا استعمال نہیں کرتی بلکہ ڈسکورس کے ذریعے رضامندی (consent) پیدا کرتی ہے۔ ایسے ڈسکورسز غالب آئیڈیالوجی کے فراہم کردہ افکار پر متن پیدا کرتے ہیں۔ اگر ان متون کو زیر بحث لاتے ہوئے اس سارے سیاسی اور پیداواری عمل کو زیر بحث نہ لایا جائے تو دوسری آئیڈیالوجی کے وجود کی نفی ہوتی ہے اور مزاحمت کا حق ادا نہیں ہوتا۔
جب ہم ’متن میں موجود فاعل’ کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں غامدی صاحب کی زندگی (biography) سے کوئی بحث نہیں کہ کیا وہ ایک عملی صوفی ہیں یا کسی امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر بلکہ ہمیں اس غامدی سے مطلب ہے جو ان کی تحریر میں نظر آتا ہے ۔ اس فاعل پر حکم لگانا ہرگز ذاتیات پر مبنی گفتگو نہیں ہے اور نہ ہی شخصی احترام کی خلاف ورزی ہے۔ جعلی اخلاقیات کا یہ مطالبہ دراصل کسی انسان کی نہیں بلکہ ایک ایسے ڈسکورس کی تکریم کا مطالبہ ہے جو ہم پر بہ نوک شمشمیر نافذ کیا گیا۔ اخلاقیات کی بحث سب سے زیادہ معاشرے کی نمو کو متاثر کرتی ہے۔ یہ چونکہ موقف سے براہ راست کلام نہیں کرتی بلکہ ایک ضمنی اور ثانوی پہلو کو بیان کر کے اپنا راستہ لیتی ہے تو لہذا اصلاً یہ ایک چور دروازہ ہے۔ اخلاقیات اصلی ہو یا جعلی اسے زیادہ سے زیادہ علمی بحث کا حاشیہ بنایا جا سکتا ہے، مرکز نہیں۔
علم نظری (ideological) ہوتا ہے، یعنی یہ ضرورت سے پیدا ہوتا ہے اور اس کو خیر و شر سے کوئی علاقہ نہیں۔ جب ہم اخلاقیات کے ذریعے مخالف کو صاف کرتے ہیں اور اس کے موقف کو زیر بحث نہیں لاتے تو معاشرے کے ذہین افراد میں علمی عرق ریزی سے پرہیز کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور وہ ’’آسان‘‘ اور گھٹیا راستہ چن لیتے ہیں۔ یہاں پر ایک بات واضح رہے کہ ہم ایسے لوگوں کے متعلق ہرگز کوئی بات نہیں کر رہے جن کا کل سرمایہ پند و نصائح ہیں اور جو متن کی تفہیم سے عاری ہیں اور ایک نالائق طالب علم کی طرح ہر موضوع پر ’’میرا بہترین دوست‘‘ لکھ آتے ہیں۔
کامیاب پراپیگنڈا کی دو بنیادی خوبیاں ہوتی ہیں اول وہ بے مطلب کے نعروں کو استعمال میں لاتا ہے جیسا کہ جعلی اخلاقیات ’’مکالمے‘‘ کے نعرے کو استعمال کرتی ہے۔ دوئم، اس کی بنیاد کسی اچھی قدر پر ہوتی ہے مثلاً جعلی اخلاقیات مکارم الاخلاق کو اپنی آڑ بناتی ہے حالانکہ اس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پس جعلی اخلاقیات کی مثال حرام کی کمائی سے بنے اس گھر کی سی ہے جس پر ’’ہذا من فضل ربی‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ اس گھر کے مالک کی جرات یقیناً قابل داد ہے لیکن اس شخص کو دیندار خیال کرنے والے کا فہم کہیں زیادہ قابلِ افسوس ہے۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search