ہمارے تہذیبی بحران کااہم مرحلہ۔ محمد دین جوہر
پاکستان کے سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے جون سنہ ۲۰۱۸ء میں عرض کیا تھا:
”پاکستان کا موجودہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی انتشار کافی طویل ہو گیا ہے۔ اس امر کا قوی امکان ہے کہ آئندہ مہینوں میں یہ صورتحال کچھ بدل جائے، لیکن اس میں کسی تحول (transformation) کا کوئی امکان نہیں۔ اپنی بنیادی ہیئت کے ساتھ یہ بحران ایک غیرفعال آتش فشاں کی طرح کچھ دیر کے لیے خفتہ رہے گا، لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ کب پھر سے فعال ہو جائے۔“
ستمبر، سنہ ۲۰۲۰ء میں کل جماعتی کانفرنس کے بعد کی ملکی صورت حال ہمارے تہذیبی بحران کی اگلے مرحلے میں پیشرفت ہے۔ اس وقت پاکستان میں جو بحران شدت سے ظاہر ہوا ہے وہ برصغیر کے وسیع تر مسلم معاشرے کا ورثہ اور تقریباً ایک صدی پرانا ہے اگرچہ اس کی جڑیں اس سے بھی ایک صدی پیچھے ہیں۔ کئی لہو رنگ مراحل سے گزرنے کے بعد، کم از کم پاکستان کی حد تک یہ بحران اب ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس بحران کا منبع برصغیر کے مسلمانوں میں اقتدار کی معنویت اور اس کے حصول اور عدم حصول پر نہایت بنیادی نوعیت کا نزاع تھا۔ اپنے بیانیوں اور تاریخی مظاہر میں یہ بحران بہت پیچیدہ اور انوکھا ہے، اور اس کا لب لباب یہ سوال تھا کہ اپنی سیاسی شناخت کو مذہب پر حصر کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کو سیاسی طاقت کا دعویٰ کرنا چاہیے یا نہیں؟ سیاسی طاقت اور اقتدار کے حصول کا واحد بیانیہ آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ حصولِ طاقت کی آل انڈیا مسلم لیگی جدوجہد کے خلاف اندرونی اور بیرونی، مذہبی اور سیکولر، سیاسی اور ثقافتی، نسلی اور لسانی، علاقائی اور آسمانی، مقدس اور غیر مقدس، اسلامی اور غیراسلامی، نراجی اور امن پسند، تاریخی اور نظری، ہر طرح کے ان گنت بیانیے موجود رہے ہیں اور اب بھی نئی نئی شکلوں میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ ان سب بیانیوں میں بنیادی سوال ایک ہی رہا ہے کہ آیا برصغیر کے مسلمانوں کو حامل اقتدار ہونا چاہیے یا نہیں؟ قیام پاکستان سے قبل اقلیتوں کے تقدیری مسئلے کو سیاسی بنا کر تحریکِ پاکستان کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اس سوال کے کئی جنم سامنے آئے ہیں اور جن کا لب لباب یہ نہیں ہے کہ پاکستان کیسا ہونا چاہیے بلکہ یہ کہ پاکستان ہونا چاہیے یا نہیں؟ بنیادی سوال ایک ہی رہا ہے لیکن اس کے پرتو اور پرتیں آگے پیچھے ہوتی رہی ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل اقلیتوں کے تقدیری مسئلے کو سیاسی بنا کر تحریکِ پاکستان کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی گئی۔
سیاسی عمل کی خلقت حصولِ اقتدار کی طرف پیشرفت ہے۔ زوال، انتشار تہذیب اور انہدام شعور کی وجہ سے مسلمانوں کے کچھ طبقات کو یہ امر باور کرنے میں نہایت سنگین دشواریاں لاحق چلی آتی ہیں کہ علی الاطلاق انسانی معاشروں میں اولین اور عظیم الشان جدوجہد اقتدار اور جہانبانی ہی کی ہے اور باقی سب کچھ تہذیبوں کی گردِ راہ ہے۔ برصغیر میں مسلم سیاسی عمل اپنی فطرت اور خلقت پر برقرار نہیں رہ سکا اور مسلم معاشرے کا ایک قابلِ لحاظ حصہ ایسا سیاسی عمل سامنے لایا کہ مسلمانوں کو اقتدار حاصل نہ ہو، اور اس کے لیے اقلیتی مسئلے کو آڑ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ برصغیر میں مسلم آبادی کا پھیلاؤ کہیں کم کہیں زیادہ سارے خطوں میں تھا، اور اس مسئلے کی نوعیت تقدیری تھی۔ اس طبقے کی طرف سے ایک لاینحل تقدیری مسئلے کو مسلم سیاسی عمل سے متعلق کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم سیاسی شعور ایک ایسی دولختی سے دوچار ہوا جس کا اندمال آج تک نہیں ہو سکا۔ اصل مسئلہ سیاسی طاقت کا حصول تھا اور اس مسئلے سے اغماض کے لیے اقلیتی مسئلے کو کئی طریقوں پر بیان کیا گیا کہ ”پاکستان بننے سے مسلمان تقسیم ہو جائیں گے“، ”ہندوؤں اور مسلمانوں کو مل جل کر رہنا چاہیے“، ”تقسیم سے مسلمان تین حصوں میں بٹ کر کمزور ہو جائیں گے“ وغیرہ وغیرہ۔ کسی بھی مذہب و ملت کے پیروکاروں اور خاص طور پر ہندوؤں کے ساتھ مل جل کر رہنا برصغیر میں تہذیب اسلامی اور تاریخ اسلامی کے بنیادی اجزائے ترکیبی میں سے ہے۔ لیکن مسلم رہنماؤں کے ایک بڑے گروہ نے اس معاشرتی اصول کو سیاسی طاقت سے دستبرداری کا جواز بنا دیا، اور اس گروہ کی فریب خوردگی، اور اس فریب خوردگی پر مبنی سیاسی عمل نے برصغیر کے مسلم معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی طاقت کی جدوجہد ایک تہذیبی مقصد کے تابع ہونے کے باعث قطعی طور پر غیرمشروط ہوتی ہے، اور طبعی تحدیدات کے ساتھ صرف حصولِ طاقت پر مرتکز رہتی ہے۔ برصغیر میں متحدہ قومیت کے تحت مسلم سیاسی جدوجہد کو اکثریت کی رضامندی، اقلیتی مسئلے کے حل، اور غیرمتعلق شخصی و اخلاقی قضایا سے مشروط کر دینے سے سیاسی جدوجہد کا مقصد ہی بے حصولی قرار پایا، اور اس رویے نے آگے چل کر مسلم سیاسی عمل میں مستقل عدم استحکام کی بارودی سرنگیں بھر دیں۔ یہی وہ تاریخی عوامل ہیں جن کی وجہ سے برصغیر کا مسلم معاشرہ ایک فرجامی ہلاکت کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔
برصغیر میں وہابی افکار کے تحت ”مسلم طاقت کے عدم حصول کی جدوجہد“ اور ہر نوع کی مسلم طاقت سے جنگ آزمائی ہمارے معاشروں میں سیاسی نہلزم (nihilism) کا تام اظہار ہے۔
ہمارے تہذیبی بحران کی دوسری بڑی وجہ وہ دو سو سالہ سیاسی موقف اور عمل ہے جس کی وارثت پر مولانا فضل الرحمٰن کو نہایت فخر ہے۔ یہ سیاسی عمل بالعموم مذہب اور بالخصوص توحید کی ایک نئی اور جدید تعبیر سے شروع ہوا تھا۔ اس سیاسی عمل کا بنیادی محرک وہابی افکار تھے۔ ہمارے اہلِ علم نے برصغیر کے تاریخی تناظر میں ان افکار کو سمجھنے میں سنگین کوتاہیاں کی ہیں اور جن کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ سید احمد شہیدؒ کی بنا کردہ تحریک مجاہدین سے جو سیاسی عمل شروع ہوا تھا بقول محترم مولانا وہ اس کے وارث ہیں، اور جو ان کی قیادت میں آج بھی جاری ہے۔ لیکن مولانا محترم اس امر پر بالکل خاموش ہیں کہ اس سیاسی عمل کی وراثت صرف انہی کے حصے میں نہیں آئی بلکہ سرحد کے اُس پار بھی اِس سیاسی عمل کے وارثین بعینہٖ اس دعوے کے ساتھ فعال ہیں۔ اس سیاسی عمل کی وراثت اور اس کی درست تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ اسے مجموعی تاریخی تناظر میں دیکھا جائے۔ وہابی سیاسی افکار و عمل میں دو تاریخی نتائج لزوم کا درجہ رکھتے ہیں: ایک یہ کہ باطل یا میسر باطل کے سامنے سرنگوں رہنا اور دوسرے یہ کہ مسلم طاقت یا میسر مسلم طاقت سے جنگ آزما ہونا۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ وہابی فکر و عمل کے دونوں لازمی نتائج اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے اپنے امکانات پوری اصالت کے ساتھ ظاہر کر رہے ہیں۔ بھارت میں اس سیاسی عمل کے وارثین کا پہلے کانگریس اور اب بی جے پی کے سامنے سجدہ ریز رہنا اور پاکستان میں اس کے وارثین کا پاکستانی مسلم طاقت کے خلاف اعلان جنگ کرنا جیسا کہ مولانا محترم نے پی ڈی ایم کے پشاور جلسے میں کیا ہے اس سیاسی عمل کی تقدیر کا اظہار ہے۔ اس کے برعکس ہونا ممکن نہیں۔ موجودہ سیاسی منظر کی تفہیم میں توسیع اور گہرائی کے لیے سعودی وہابیت کے موجودہ سیاسی عمل کو دیکھ لینا بھی نہایت مفید ہو سکتا ہے اور جو ایک text-book example کی حیثیت رکھتا ہے۔ سعودی وہابیت اس وقت تین قابل لحاظ مسلم طاقتوں سے جنگ آزما ہے، اور حاضر و میسر و موجود باطل کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ اب تو اس حاضر و موجود باطل کے سامنے سجدہ ریزی کی تلقین کعبے سے بھی بلند ہو رہی ہے۔ العیاذ باللہ۔ برصغیر میں وہابی افکار کے تحت ”مسلم طاقت کے عدم حصول کی جدوجہد“ اور ہر نوع کی مسلم طاقت سے جنگ آزمائی ہمارے معاشروں میں سیاسی نہلزم (nihilism) کا تام اظہار ہے۔ مذہب سے جواز یافتہ نہلزم کی موجودگی میں کوئی مسلم معاشرہ سیاسی استحکام حاصل نہیں کر سکتا۔
مولانا ابوالکلام آزاد برصغیر میں ہماری تہذیبی خودکشی کی دائمی علامت ہیں، اور قائد اعظم محمد علی جناح مسلم سیاسی حیات کے نمائندے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال میں ٹریڈ یونین سطح کے سیاسی شعور اور بالعموم فرقہ وارانہ مذہبی ذہنیت کے باعث ہمارا تہذیبی بحران فکری اور سیاسی حل کے امکانات ختم کر چکا ہے اور ایک تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ موجودہ بحران میں صف آرا قوتوں کے باہمی نزاع کی شدت تقسیمِ برصغیر سے فوری قبل مسلمانوں کے باہمی نزاع کی شدت لیے ہوئے ہے۔ یہ عین وہی نزاع ہے جس میں فریقین کی نمائندگی مولانا ابوالکلام آزاد اور قائد اعظم محمد علی جناح کے حصے میں آئی تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد برصغیر میں ہماری تہذیبی خودکشی کی دائمی علامت ہیں، اور قائد اعظم محمد علی جناح مسلم سیاسی حیات کے نمائندے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ بحران بغیر کسی بڑی تبدیلی کے فکری اور عملی سطح پر علی حالہٖ نئی مملکت میں جوں کا توں جاری رہا۔ قیام پاکستان اس بحران کا عملی اور ایک حل تھا، اور جس میں موجود استعماری طاقت دو ملکوں کے قیام میں ایک فیصلہ کن عامل تھی۔ اب بھی اس بحران کے فکری اور تہذیبی حل کا کوئی امکان نہیں، اور اس میں فیصلہ کن عامل طاقت ہی ہو گی۔ پاکستانی سیاسی نظام کے داخلی تضادات وجودی نوعیت کے ہیں، اور آئین ایسے تضادات کو حل کرنے کی کوئی میکانزم فراہم نہیں کر سکتا۔ آئین آخری تجزیے میں ایک سیاسی میکانزم کا آئینہ دار ہوتا ہے اور صرف سیاسی مسائل کے حل میں ہی مؤثر ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی صورت حال آئین سے بہت آگے کی چیز ہے، اور آئین کا ورد محض آلاتی ہے۔
اس بحران میں حب الوطنی اور غداری کے مواقف و الزامات کو ان کے تاریخی تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ جدید سیاسی علوم اور ہمارے سیاسی نظام میں جس چیز کو ”غداری“ کہا جاتا ہے وہ برصغیر کے مسلم معاشرے میں ایک بڑے طبقے کا سیاسی موقف اور سیاسی عمل رہا ہے، اور اس کی جواز سازی کے لیے مذہبی اور غیرمذہبی فکر کے بڑے بڑے طومار باندھے گئے ہیں۔ انسانی معاشروں میں سیاسی افکار کی نتیجہ خیزی اور ثمر آوری ایک نہایت پیچیدہ مظہر ہے۔ غداری سیاسی اختلاف سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ وجودی اور نظریاتی اختلاف کا ایسا مظہر ہوتا ہے جو نہ صرف فکر میں اظہار پاتا ہے بلکہ سیاسیات اور سیاسی عمل میں بھی سامنے آتا ہے۔ برصغیر کے مجموعی مسلم معاشرے میں سیاسی طاقت کا حصول یا تصور پاکستان یا حقیقتِ پاکستان ایک وجودی اختلاف کا موضوع رہی ہے اور ہے۔ اپنی سیاسی اور تہذیبی معنویت میں ”غداری“ ہمارے ہاں نہ صرف ایک مذہبی تقدس اور جواز رکھتی ہے بلکہ اس کی غیرمذہبی نظریاتی تشکیل کی بنیادیں بھی بہت گہری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے وجودی اختلاف کا موقف نہ صرف مذہب بلکہ دیگر کئی غیر مذہبی نظریات سے بھی جواز پاتا ہے۔ تقسیم برصغیر اور قیام پاکستان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان سے وجودی اختلاف کے حاملین ہمارے معاشرے میں موجود اور فعال نہیں ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد، مولانا ابوالکلام آزاد اور قائد اعظم محمد علی جناح کا بنیادی نزاع پاکستانی معاشرے اور طاقت کے نظام کا خلقی حصہ بن گیا تھا اور پاکستانی سیاسی جدلیات کا ایک بنیادی جزو رہا ہے۔ آزادی کے بعد ایسی قوتوں کو یہاں سیاسی کام کرنے کی مکمل آزادی رہی جن کا پاکستان سے اختلاف وجودی نوعیت کا تھا اور زیربحث بحران اسی سیاسی ورثے اور عمل کا فطری نتیجہ ہے۔ موجودہ صورت حال سیاسی پارٹیوں کے باہمی اختلاف سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ باہم نبردآزما قوتوں کے وجودی اختلاف کا مظہر ہے۔ اس بحران میں پی ڈی ایم سیاسی ذرائع سے ایسا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے جو سیاسی عمل سے حل نہیں ہوا کرتا۔ دو سو سالہ سیاسی عمل کے وارثوں کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ وہ سیاسی عمل سے غیرسیاسی نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاریخی طور پر انہوں نے اقلیتی مسئلے کو طاقت سے دستبرداری کے لیے deploy کیا جس سے اقلیتی مسئلہ بھی حل نہ ہوا اور مسلم سیاسی عمل بھی منہدم ہوا۔ پی ڈی ایم کے چیرمین مولانا فضل الرحمن کی طرف سے فوج کے خلاف اعلان جنگ سے کم از کم آئین کی اوقات تو ضرور ظاہر ہو گئی ہے، اور یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ آئین اس بحران کے حل میں کس قدر معاون ہو سکتا ہے۔ داخلی سیاسی عمل میں اعلان جنگ کی نوبت اس وقت آتی ہے جب آئین مسئلے کے حل میں قطعی غیراہم ہو۔ مولانا محترم کا اعلانِ جنگ ان کے سیاسی شعور پر بھی حتمی تبصرہ ہے کہ وہ سیاسی عمل اور انقلابی عمل کے امتیازات سے کس حد تک باخبر ہیں۔ طاقت کی پہلے سے قائم ساختوں کو سیاسی ذرائع سے تبدیل یا بہتر کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کو توڑنے اور ان کی جگہ کوئی نیا نظام لانے کے لیے انقلابی ذرائع درکار ہوتے ہیں۔ انقلابی مقاصد معمول کے سیاسی ذرائع سے حاصل نہیں ہوا کرتے۔ پی ڈی ایم نے اپنی صف آرائی میں یہ امر واضح کر دیا ہے کہ فوج کی ”اتحادی“ یا ”حمایت یافتہ“ سیاسی پارٹی جو اس وقت برسر اقتدار ہے وہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے، اور لڑائی یک بہ یک فوج سے ہے۔ یہ صورتِ حال سیاسی نہیں ہے اور نہ اس کا سیاسی حل ممکن ہے۔ پی ڈی ایم نے اپنے لیے انقلابی اہداف مقرر کیے ہیں جو معمول کے سیاسی ذرائع سے ناقابل حصول ہیں۔
مولانا محترم کے اعلانِ جنگ اور پی ڈی ایم کے بنیادی مطالبے کا تاریخی تناظر میں ایک ہی مطلب ہے کہ پاکستانی حکومت، ریاست اور قیامیہ سیاسی اقتدار کو ’قائد اعظم محمد علی جناح‘ سے چھین کر ’مولانا ابوالکلام آزاد‘ کو منتقل کر دے، اور اس طرح برصغیر میں اقتدار حاصل کرنے کی جو ”غلطی“ آل انڈیا مسلم لیگ سے ہوئی تھی اس کی تلافی کر دے۔ اس مطالبے کی غایت بھی ایک ہی ہے کہ مولانا آزاد کی زیر قیادت برصغیر میں مسلمانوں کی تہذیبی خودکشی کا جو کام ادھورا رہ گیا تھا وہ مکمل ہو جائے۔
فوج مخالف موجودہ صف آرائی میں پانچ قسم کے رجحانات رکھنے والی سیاسی قوتیں شامل ہیں:
(۱) سول سوسائٹی کے لبرل عناصر، جو مغرب اور خاص طور پر امریکہ سے شدید لگاؤ رکھتے ہیں۔
(۲) قوم پرست سیاسی قوتیں جن کی سیاسی فکر واضح اور سیاسی عمل معروف ہے اور ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ ایسی قوتوں کا پاکستان اور فوج سے اختلاف سیاسی نہیں ہے، وجودی ہے اور سیاسی ذرائع سے اس کا حل ممکن نہیں۔
(۳) دو سو سالہ تحریکی عمل کی وارث سیاسی جماعت اور اس سے متفق مذہبی سیاسی طبقات جو اپنی تاریخی تقدیر پر عمل پیرا ہیں۔
(۴) فوج مخالف نئے بیانیے کے ساتھ مسلم لیگ (ن)۔
(۵) سول بالا دستی کے لیے کوشاں سیاسی جماعت، جس کی نمائندہ پیپلز پارٹی ہے۔
برصغیر کی مسلم تاریخ میں ظاہر ہونے والا بنیادی سیاسی نزاع پہلے دن سے یہ نہیں ہے کہ کیسا پاکستان ہونا چاہیے بلکہ یہ کہ پاکستان ہونا چاہیے یا نہیں؟
پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اب تک سامنے آنے والے بیانات اور مواقف سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی نے اس نزاع میں اپنے موقف کو سیاسی رکھا ہے، جبکہ دیگر ارکانِ اتحاد وجودی پوزیشن لے چکے ہیں۔ وجودی پوزیشن سے ہم ایسے سیاسی مواقف مراد لے رہے ہیں جن پر سمجھوتہ سیاسی ذرائع سے ممکن نہیں ہوتا، اور جو صرف میدان جنگ میں حل ہوتے ہیں۔ آئین سیاسی مسائل کے حل کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے لیکن وجودی تضادات آئین کا ورد کرنے سے حل نہیں ہوتے۔ اس کی بڑی مثال بھٹو صاحب کے خلاف سنہ ۱۹۷۷ء کی سیاسی تحریک ہے جو سیاسی قوتوں کے متفق علیہ آئین کے باوجود ملکی سیاسی عمل کو اکھاڑنے کا باعث بنی اور جس سے ہماری تاریخ کے ایک بڑے المیے نے جنم لیا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ہمارے ملکی سیاسی نظام میں فعال سیاسی قوتوں کا باہمی اختلاف وجودی نوعیت کا رہا ہے۔ برصغیر کی مسلم تاریخ میں ظاہر ہونے والا بنیادی سیاسی نزاع پہلے دن سے یہ نہیں ہے کہ کیسا پاکستان ہونا چاہیے بلکہ یہ کہ پاکستان ہونا چاہیے یا نہیں؟ بیانیوں کی گرد میں حدِ بینائی جو بھی ہو، لیکن یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ وجہ نزاع بنیادی سوالات وجودی ہیں سیاسی نہیں ہیں۔
موجودہ محاذ آرائی کے حل کے لیے کئی اطراف سے آئین کا حوالہ سننے میں آتا ہے۔ آئین کا ذکر محض آلاتی ہے اور موجود صورت حال کے تصفیے میں آئین غیر اہم اور غیرمؤثر رہے گا۔ ہم موازنہ کیے بغیر، ایمانی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام یا دینی ہدایت ہمارے ملکی آئین سے بہتر اور افضل ہے۔ قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں کا باہمی وجودی نزاع دورِ غلامی میں سامنے آیا تھا اور اسلام ان کا مشترک تصورِ حیات ہونے کے باوجود اس مسئلے کے حل میں قطعی غیرمؤثر رہا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انیسویں صدی کے آغاز ہی سے باہم متضاد و حریف دینی تعبیرات سے ہندوستانی مسلم معاشرہ پارہ پارہ ہو چکا تھا اور ان تعبیرات کا سیاسی عمل میں ظاہر ہونا ناگزیر تھا۔ اسلام کو مرکزی حوالہ بنا کر اس امر کا امکان تھا کہ مسلمان اپنے سیاسی اور تہذیبی مسائل کے حل کی طرف پیشرفت کرتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اسلام فکری اور عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے، جبکہ آئین صرف سیاسی اور قانونی عمل کے بارے میں کچھ رہنما اصول طے کرتا ہے۔ جس نزاع کے حل میں دینی رہنمائی کام نہ آئی اُس میں بھلا آئین کی کیا اوقات ہو سکتی ہے؟ گزشتہ دو سو سال میں ہم اسلام کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے میں جتنی مہارت حاصل کر چکے ہیں اس کے آگے آئین کی کیا مجال ہے۔ اس وقت بھی مسئلے کی نوعیت وہی ہے جو قیام پاکستان سے فوراً پہلے تھی۔ امکان ہے کہ اس صورت حال سے نکلنے میں ریاستی طاقت کی حیثیت بنیادی ہو گی۔
پاکستان جیسے وسائل، اہمیت اور طاقت کے حامل ملک کی داخلی سیاسی کشمکش کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ سیاست اور سرمائے کی علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتیں۔ موجودہ کشمکش میں ایک طاقتور خارجی عامل سعودی عرب ہے۔ اگرچہ چلمن کے پیچھے شائقین کی قطار لگی ہوئی ہے اور جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، لیکن اس قدر عرض کرنا ضروری ہے کہ سعودی حمایت سے پاکستان میں ”سول بالا دستی“ کی جدوجہد انسانی تاریخ کے عجائبات میں ضرور شمار کی جائے گی۔