گوئٹے اور فاؤسٹ کا ایک تنقیدی جائزہ: بشیشور منور لکھنوی(مرتب: عاصم رضا)
تعارف : جناب بشیشور پرشاد منور لکھنوی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے فاؤسٹ کا پہلا منظوم اردو ترجمہ کیا ۔1969ء میں پہلی دفعہ شائع ہونے والے اس منظوم اردو ترجمہ کی بنیاد البرٹ جی لیتھم کےمنظوم انگریزی ترجمہ پر ہے ۔ لیتھم کے ساتھ ساتھ فاضل مترجم نے فلپ وین ، ٹیلر اور فریزر کے منظوم انگریزی تراجم کے علاوہ ڈاکٹر سید عابد حسین کے اردو ترجمہ سے بھی استفادہ کیا ہے ۔ فنی اعتبار سے بشیشور لکھنوی کا ترجمہ آزاد ہے اور اردو شاعری کی تمام فنی شرائط کی تکمیل اس میں مدنظر رکھی گئی ہے ۔ بیشتر ترجمہ اس لحاظ سے پابند ہے کہ اس میں قافیہ اور ردیف کا بھی خیال رکھا گیا ہے ۔دھیان رہے کہ بشیشور لکھنوی صاحب کا منظوم ترجمہ بھی فاؤسٹ کے حصہ اول ہی پر مشتمل ہے ۔ بشیشور لکھنوی نے گوئٹے اور فاؤسٹ کے بارے میں ایک تنقیدی مضمون بھی لکھا جس کی علمی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر اس کو دوبارہ سے پیش کیا جا رہا ہے ۔ فاضل مرتب نے صرف اس قدر تصرف کیا ہے کہ موجودہ قاری کا لحاظ کرتے ہوئے انگریزی الفاظ کے اندراج ، مشکل الفاظ کے معانی ، جدید رموز اوقاف اور املاء کو استعمال کیا ہے ۔
گوئٹے نے لگ بھگ 73 سال تک عالم آب و گل کی سیر کی ۔ فاوسٹ کا خاکہ ان کے ذہن میں پورے ساٹھ سال تک تیار ہوتا رہا گویا ان کی عملی زندگی کا بیشتر حصہ فاؤسٹ ہی کے تصور اور اس کی تخلیق میں صرف ہوا ۔ اس کی ابتداء اس زمانے میں ہوئی تھی جب گوئٹے کی عمر صرف بیس سال تھی ۔ صرف تھوڑے سے اشعار 1801ء میں وارد ہوئے ، اس وقت ان کی عمر 51 سال تھی ۔ چونکہ فاؤسٹ کا یہ منظوم ترجمہ صرف حصہ اول پر مشتمل ہے اس لیے دوسرے حصے کا تذکرہ ہمارے دائرہ غوروخو ض سے باہر ہے ۔ پھر بھی جب تک گوئٹے اپنی عمر کے 83 ویں سال میں داخل نہیں ہو گئے ، اس وقت تک اس کا اختتام عمل میں نہیں آ سکا ۔ یہ آئیڈیلزم (تصوریت یا آدرش واد) کے اصول کا ایک پراسرار کارنامہ ہے ۔ اس کو ضمیر اور محبت کی اُس انسانی کشمکش سے لگاؤ نہیں جس کا ذکر مصنف نے حصہ اول میں کیا ہے ۔ اس حصے میں زورِ بیان ہے ۔ شگفتگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ صرف جرمنی ہی میں نہیں بلکہ اکثر دوسرے ممالک میں گوئٹے کو گوناگوں خوبیوں کا مجسمہ قرار دیا گیا ہے ۔ فاؤسٹ کے حصہ اول میں آپ کو بیشتر جذبہ اور عقل، ان دونوں چیزوں کا باہم دگر امتزاج اور اشتراک ملے گا ۔ انہی خوبیوں کی بنا پر گوئٹے کا شمار دنیا کے ان عظیم ترین شاعروں میں ہوتا ہے جن کی عظمت کا ڈنکا(چرچا) چاردانگ عالم (دنیا کے چاروں کونوں ) میں بج رہا ہے ۔ کسی بھی ایسے مصنف کو جس کی زندگی ایک کھلا راز ہے ، خدا بنا کر اس کی عبارت کرنا اس کی عزت افزائی نہیں قرار دیا جا سکتا اور خاص طور پر ایسی حالت میں جب اس کے مداحوں کا مقصد جیسا کہ گوئٹے کے معاملے میں پیش آیا ، اس کے ذاتی مسائل میں درخور (رسائی) حاصل کرنا ہو ۔ بہرحال اس عبادت میں لوبان (Benzcin)کا جو دھواں اٹھتا ہے صرف اسی کو مصنف کا کارنامہ قرار دینا مناسب نہیں ۔ گوئٹے نے مختلف ادوار میں چند زبردست اور غیرمعمولی نیز جرات آمیز شخصیتوں مثلاً ھومر ، دانتے اور شیکسپیئر کی صف میں خود کو شامل کر لیا ہے ۔ بہرکیف یہ حضرات اس قسم کے شخصی تجسس اور تحقیق سے مبرا ہیں لیکن چونکہ گوئٹے کی مصروفیات بے حد تعجب انگیز تھیں مثلاً وہ شعر کہتے تھے ، حکومت کا قلمدان ِ وزارت ان کے سپرد تھا ۔ انہوں نے تھیٹر میں ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے ۔ وہ نقاد بھی تھے اور ان کی وابستگی سائنس کے ساتھ بھی تھی ۔ اسی لیے تحریری طو ر پر ان کے بارے میں اتنی تحقیقات عمل میں آئی ہیں اور مکالموں کے ذریعے بھی اس سلسلے میں اتنی کثرت سے کام لیا ہوا ہے جس کی مثال تمام عالم ِ ادبیات میں مشکل ہی سے دستیاب ہو گی ۔ ان کی نجی زندگی کا دروازہ بھی کھلا ہوا ہے کیونکہ جیسا کہ ٹامس مان نے کہا ہے : ’’اسکول کے لڑکوں کو بھی مشتری کی طرح ان کی داستانِ معاشقہ حفظ بر زبان ہے‘‘۔
یقینا ً زیادہ پائیداری اور مستقل مزاجی اس شخص میں ہوتی ہے جو میز کے گرد بیٹھ کر کی جانے والی گفتگو کے دائرے سے نکل کر لوگوں کے چھوٹے سے مگر لاثانی گروہ میں جا کر قدم جما دیتا ہے ۔ یہ لوگ لاثانی ہوتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ اپنی زندگی کے اواخر میں گوئٹے نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی ۔ اس کے علاوہ وہ عام انسانی سطح سے کہیں زیادہ بلند تھے ۔ اس گوشہ نشینی کے اختیار کرنے کا مدعا یہ تھا کہ وہ خود کو سرگرم جماعتوں سے محفوظ رکھ سکیں ۔ زمانۂ حال کے نقطہ نظر سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ گوئٹے ایسے عظیم شخص کے پہلو میں کتنا زبردست محبت بھرا دل تھا اور ساتھ ہی ساتھ ان میں کس قدر شرمیلا پن بھی تھا ۔ ان کو اس بات سے بے اندازہ مسرت حاصل ہوتی تھی کہ ان کے کارنامۂ عظیم یعنی فاؤسٹ کو عالمگیر شہرت حاصل ہو چکی تھی اور لوگ اسے اپنے ایوانِ دل میں بڑے ادب و احترام کے ساتھ جگہ دیتے تھے ۔ اپنی پیرانہ سالی (بڑھاپے) کی طرح اپنی جوانی کے زمانے میں گوئٹے نے اپنی زندگی کو زبردست طنز آمیز چھان بین کی نگاہ سے دیکھا تھا لیکن ان کی گرم جوشی ہر وقت برقرار رہتی تھی ۔ نہایت عاجزی اور بردباری کے ساتھ انہوں نے اپنا عظیم کارنامہ اپنے ہم جنسوں کے سامنے ایک ایسے ساتھی کی طرح پیش کیا جس کے دل کا پیمانہ شرابِ محبت سے لبریز تھا ۔ پہلے ہی میں منظر میں جب فاؤسٹ واگنر کے ساتھ نمودار ہوتا ہے تو وہ خلوص اور صداقت کی قدروقیمت پر بہت زور دیتا ہے جس کے بغیر کسی قسم کی بھی چالاکی اور ہوشیاری بالکل بےکار شے معلوم ہوتی ہے اور جب گوئٹے اپنی نظموں کے تہدیہ (تحفہ) و انتساب کو تصور کے سانچے میں ڈھال کر ایک دیوی کے منہ سے وہ فاؤسٹ کو اس بات پر کہ وہ خود کو فوق الانسان کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ، لعنت ملامت کا نشانہ بنواتے ہیں تو فاؤسٹ دیوی کے سوال کی تہہ میں بھرے ہوئے خلوص ِ قلب کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے :
نہ اگر مجھ کو آس یہ ہوتی بھائیوں کو وہاں میں لے آتا
اتنے جوش و خروش کے ہمراہ راستہ میں نے کیوں تلاش کیا
گوئٹے کے اندرونی وجود یعنی ان کی دانائی اور ان کی جذباتیت کے راستے، ہم کو ان کی فاؤسٹ میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ دنیا کا یہ وہ مبارک ترین الہام تھا جس کے تحت گوئٹے کی ذہانت اور طباعی کے باعث ان کی توجہ اس قدیم کہانی کی جانب مبذول ہوئی ۔
گوئٹے ابھی صرف چوبیس سال کے تھے کہ انہیں ایک نثری ڈرامے گوئٹز فان برلیچنگن (Götz von Berlichingen) کی تصنیف کے طفیل ساری قوم میں ناموری حاصل ہو گئی۔ اس معاملے پر انہوں نے پہلے ہی بہت کچھ غوروخوض کر رکھا تھا ۔ یہ بات ہے 1773ء کی ۔ اس وقت ان کی زندگی ایک لحاظ سے کوئی نہ کوئی موڑ اختیار کر چکی تھی حالانکہ آزادی کے سلسلے میں ان کے اس ہیجان انگیز ناٹک کی تصنیف پر قوم نے ایک رہنما کی حیثیت سے نہایت گرم جوشی کے ساتھ ان کا خیرمقدم کیا تھا ۔ ان کو علم تھا کہ ڈرامے کے لیے باہر سے تاریخی موضوعات کا اختیار کرنا ان کے لیے ایک دوستانہ طریقہ کار نہیں تھا ۔ گوئٹے تو ہمیشہ ان طبعی محرکات پر تکیہ کرتے تھے جو ان کے ذاتی نیز قریبی تجربوں کا نتیجہ ہوتے تھے اور جن کی تشکیل ان کے ذاتی مفروضے کی بدولت آفاقی نقطہ خیال سے ہوتی تھی ۔ دوسرے عظیم ترین شاعروں کی طرح ان کے تخیل کو کسی ٹھوس چیز کے اپنانے میں کسی قسم کا حجاب نہیں محسوس ہوتا تھا ۔ حقیقی زندگی کے تصورات کے آواز دینے پر ان کے تخیلات فوراً چوکڑیاں بھرتے(اچھلتے کودتے) چلے آتے تھے ۔ ان تصورات میں ان کے احساسات کا اظہار اتنی شدت کے ساتھ ہوتا تھا کہ ان کو فوراً انسانوں کے دلوں میں جگہ حاصل ہو جاتی تھی ۔ شیکسپیئر ، ہیملٹ کے لیے ایک نظر مستعار (ادھار)لے سکتا تھا لیکن دل پر براہ راست اثر کرنے والے تصورات کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔
پیشتر اس کے کہ ہوجائیں پرانے اس کے جوتے
پاؤں میں جن کو پہن کر
ہم قدم ہوتی تھی
میرے بیکس والد مرحوم کے لاشے کے ساتھ
لیکن یہ سطور اُس جلتی ہوئی محبت سے نکلتی تھیں جو اس کو سادہ ترین اشیاء کے ساتھ تھی ۔ یہی حال گوئٹے کا بھی ہے ۔ ٹڈا، کوڑا بھرنے کا برتن ، تختہ اور محض پرندوں کی جھالروں سے بھی اس کی شاعری کو دلی تقویت پہنچتی ہے ۔
مشہور و معروف ناول نگار اور نقاد ٹامس مان کا ایک قول اور بھی زیادہ قابل ِ ذکر ہے۔ اس نقاد نے گوئٹے کے بارے میں لکھا ہے کہ انتہائی خالص سادگی یا بھولا پن اور زبردست عقل و ادراک یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ دست بدست چل سکتی ہیں ۔ کسی بھی کلاسیکی تصنیف کے لیے یہ ایک نہایت نفیس نسخہ ہے ۔ ایسی چیز بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے ۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اپنی جوانی کی تمام نزاکتوں اور ولولوں کے ساتھ گوئٹے میں وضاحت رائے کا غیرمعمولی ملکہ بہت جلد نمایاں ہو گیا تھا ۔ ان کے عظیم ترین موضوع کے لحاظ سے ان کی پختگی وسعت میں چار گنا بڑھ گئی تھی ۔ جرمنی میں متغزلانہ شاعری(غزل گوئی) کا علم لوگوں کو تھا ۔ اس پر گوئٹے کو بڑا اچھا عبور حاصل تھا ۔ شروع شروع میں جنسی معاشقوں کے متعلق جو تصاد م پیش آئے ، ان کے تحت انہیں عشق و محبت کی اخلاقی ذمہ داریوں کے مقابلے پر آنا پڑا ۔
ان کو محسوس ہونے لگا تھا کہ جس انسان میں علم و فضل زیادہ ہوتا ہے اس میں نخوت(تکبر) کی بو آنے لگتی ہے ۔ اور آخر میں تو انہوں نے خود کو اس دعوتِ مقابلہ کے لیے جو انہیں اسرارِ زندگی کے سلسلے میں موصول ہوئی تھی ، کمالِ توجہ کے ساتھ سپرد کر دیا تھا ۔ ہمیں معلوم ہے کہ دل و دماغ میں متعدد قسم کے قصوں کو اپنے ارمانوں اور عقیدوں کی ممکن شکل دینے کے خیال سے وہ ان پر غور کیا کرتے تھے لیکن جہاں تک فاؤسٹ کے قصے کا تعلق ہے اس میں ان کے تخیل نے واضح طور پر ایک نمایاں شکل اختیار کر لی تھی ۔ ان کی جواں سال ذہانت کا پتہ ان کی اس مستقل مزاجی سے ملتا ہے جس کی بدولت انہوں نے اپنی داستان کا ڈھانچا دوبارہ بدل دیا ۔
جب 1587ء میں فاؤسٹ کی پہلی جلد شائع ہوئی تو اس سے اعلیٰ درجہ کے طباعت کرنے والے کا سکہ ہر طرف بیٹھ گیا ۔ کتاب کی اشاعت سے بڑا ہیجان پڑا ، تلاطم اٹھ کھڑا ہوا ۔ اس میں واقعہ اور افسانہ دونوں چیزیں مشترک تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانے کے فاؤسٹ کا ذکر جس کا کوئی حقیقی وجود نہ تھا اور جس نے پرواز کے مظاہرے میں اپنی جان گنوا دی تھی ، سائمن کی روایت میں سنائی دیتا ہوا ملتا ہے ۔ فاؤسٹ کا کام دوبارہ ایک عامل جادوگر نے اختیار کیا جس کی ذات سے بڑے ہیجان انگیز عجائبات ظہورپذیر ہوئے اور جو زیادہ شرمناک طور پر 1537ء میں لقمۂ اجل ہوا ۔ لطف یہ ہے کہ یہی شخص فاؤسٹ کی کتاب کا جزواعظم یعنی ہیرو ہے جو اس کی وفات سے پچاس سال بعد شائع ہوئی تھی ۔ 1587ء کی شائع شدہ کتاب گوئٹے کی نظر سے نہیں گزری لیکن شیکسپیئر کے ہم عصر مارلو(Marlow) کی نظر بہت جلد اس پر پڑ گئی اور شاید اس کا ترجمہ ہونے کے قبل ہی اس نے اس کو اپنا لیا ۔ انگریزی زبان میں فاؤسٹ کے پڑھنے والوں کے لیے یہ داستان ایک خاص دلچسپی پیدا کرنے کا موجب ہو گئی اور سترھویں صدی کی ابتداء میں جن لوگوں نے جرمنی میں ڈرامے کا خاص طور پر اہتمام کیا ، ان میں انگریز اداکار حصہ لیتے تھے ۔ یہ لوگ مارلو کا تصنیف کردہ ڈرامہ اپنے ہمراہ لے گئے تھے ۔ امتدادِ وقت (وقت کے گزرنے)کے زیرِ اثر یہ ناٹک خاموش یا متکلم تماشا کی حیثیت سے سٹیج پر آیا ۔ کٹھ پتلی والے تھیٹر نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور کٹھ پتلی کے فاؤسٹ کو دیکھ کر سب سے پہلے گوئٹے کے دل میں شعلۂ اشتیاق بھڑکا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گوئٹے فرینکفرٹ میں رہتے تھے اور ابھی محض طفل نوآمیز (نوجوان) ہی تھے ۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گوئٹے نے مقبول ِ عام کتاب فاؤسٹ کے بعد والی ایک اور تصنیف کے سلسلے میں قدم اٹھایا ۔ اس کی بنیادی خصوصیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جو قصے میں شامل اور ان سے مزید ملتی جلتی یا ان افسانی باتوں میں موجود تھا جو گوئٹے کے دماغ میں جاگزیں تھیں، اس کے خاص خاص سرے واضح ہیں ۔ ہمارے زمانے کی طرح تشکیک و تشکک کے زمانے میں جو لوگ دین و ایمان میں یقین رکھتے تھے ، وہ روایتوں سے پیدا شدہ رکاوٹوں کو ذرا بھی برداشت نہ کرتے تھے اور انہوں نے اپنی مبہم اشتہا (بھوک) کی آسودگی کا ڈھنگ ان مخفی قوتوں کے طریقِ حصول سے نکال لیا تھا جو مستند نظریہ پرست اشخاص کے دائرہ معلومات سے کہیں زیادہ آگے تھا ۔ یہ وہ تحریک تھی جس کا احساس گوئٹے کو جن کے لیے محرومیاں ہمیشہ وبالِ جان رہیں ، روشن خیالی کے زمانے میں ہوا اور بالکل ایسا ہی احساس فاؤسٹ کے دورِ نشاۃ الثانیہ کے درمیان برافروختگی (رنجیدگی ) کے زمانے میں ہوا تھا ۔
بیس سال کی عمر میں گوئٹے کو بیماری اور کمزوری کے باعث لیپزگ(Leipzig) کی پڑھائی حوصلہ شکن ثابت ہوئی اور اسی لیے انہوں نے پلٹ کر پھر وطن کی راہ لی اور یہی وہ زمانہ تھا جب ان کی کچھ توجہ الکیمیا کی طرف مبذول ہوئی ۔ اسی زمانے میں ان کے ایک خاندانی دوست فرالیں فان کلیشن برگ کے ذہنی تاثرات نے ان کے دل میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ زندگی کے مقدس سفر میں بدی کا پیش آنا لازمی ہے اور اس میں شک نہیں کہ گوئٹے نے فاؤسٹ کے مقدر کو ان روحانی قدروں سے معمور کر دیا جو گناہ و سزا کی قدیم دقیانوسی لغویتوں سے بہت دور تھیں ۔ ان کی فراست بڑی تیزی کے ساتھ پختہ ہو رہی تھی ۔ دوسری طرف ان میں مضحکہ و طنز کا سریع عنصر بھی برقرار رہا اور جیسا کہ آگے چل کر بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ عنصر ان کی زندگی میں برابر قائم رہا ۔ وہ مضبوط قوت ِ ارادی والے ایک گریجویٹ(فاضل) تھے اور پروفیسروں پر اس طرح آواز ہ کشی کر بیٹھتے جس طرح انہوں کے فاؤسٹ کی اولین خود کلامی کے دوران کی ہے اور اس سے بھی زیادہ خود کلامی انہوں نے اس مکالمے میں اختیار کی ہے جو فریشمین اور ڈاکٹر مفسٹوفلیس کے درمیان ہوا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پھر اسی نوعمر گوئٹے نے اتنی دیرپا اور عمیق فراست کے ساتھ کام لے کر اظہارِ فضیلت کے خیال کو بے نقاب بھی کر دیا ہے ۔ للکار بھرے فقرے جن الفاظ میں ان ایسے نوجوانوں نے دنیا کو تحقیر کا نشانہ بنایا ہے،ان (الفاظ) میں ان کے شیطان کی طعنہ زنی کا انداز معلوم ہوتا ہے ۔ فاؤسٹ کی ذات میں بھی شک اور گمان کی نیت سنجیدہ اور بالغ ہے اور یہ کیفیت ان حالات میں نہیں ہوتی جب اس کو تلخی کے لیے اکسایا جاتا ہے ۔ بہرحال چونکہ فاؤسٹ اور گوئٹے کا خالق ان دونوں کے بمقابلہ نسبتاً زیادہ عظیم ہے اس لیے گوئٹے کو مفسٹوفلیس کے بمقابلہ گوئٹے سے زیادہ متشابہ (مقابل )نہیں کرنا چاہیے ۔ گوئٹے جذباتی قسم کے انسان تھے ، ان میں بردباری اور انکسار کی خو (عادت) تھی اور خودضبطی (ضبط نفس) کا مادہ بھی ان میں کچھ اسی قسم کا تھا جس کا اظہار زیادہ حد تک وہ ان ہیروؤ ں (خاص کرداروں ) کے سامنے نہیں کرتے تھے جن کا تعلق صیغہ ذکور(مرد) سے تھا ۔ گوئٹے سمجھتے تھے کہ زعم اور خودآرائی کا شمار فاؤسٹ کے عیبوں میں داخل ہے ۔ ٖفاؤسٹ صرف زبردست ارضی روح سے یہ نہیں کہتا تھا کہ میں ہر لحاظ سے تیرا ہم پلہ ہوں کیونکہ میرا نام فاؤسٹ ہے۔لیکن وہ اپنی ساری ڈانت پھٹکار کو بھول جاتا ہے اور پھر آگے چل کر روح (اسپرٹ) کی طاقت کا دعویدار ہوتا ہے ۔ اس کے مزاج میں خود آرائی ہے اور وہ مارگریٹ کی قابل تعریف سادگی کو ضرب پہنچاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ قصور وار قرار پاتا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ حصول ِ اقتدار کی بیتابانہ تلاش کی دھن فاؤسٹ کے دماغ میں موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ جو کچھ پہلے کرتا دھرتا ہے ، بعد میں اس کو بہت بڑی حد تک ملیامیٹ بھی کر دیتا ہے لیکن خود گوئٹے میں انسانی دسترس سے باہر جا کر بھی تکمیل ِ کار کا جو حد سے زیادہ حوصلہ موجود تھا ، اس کا ردعمل ایک ناقابل تسخیر جرات سے ہو جاتا ہے جس کو ہر قسم کے سکون پذیر جذبے میں کمزوری نظر آتی تھی ۔ گوئٹے حرکت ِ باعمل کی احتیاج کو حد درجہ زیادہ ممتاز مذہبی منزلت سمجھتے تھے ۔ دوران ِ مطالعہ جب فاؤسٹ سینٹ جان کے الفاظ کی نظر ثانی کے لیے نہایت مستعدی اور ایمانداری کے ساتھ قولِ فیصل صادر کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے ، اس میں جس چیز کو بہت بڑھ چڑھ کر قدرومنزلت دی جاتی ہے وہ عہد نامے کو دی جاتی ہے ۔ مفسٹوفلیس کے ساتھ اپنے عہدوپیمان میں فاؤسٹ کو اسی حالت میں واقعی مردود سمجھنا چاہیے اگر شیطان اس کو حرصِ داز میں گرفتار کر کے سوقیانہ قسم کے اطمینان اور آسودگی کی زنجیر میں جکڑ دیتا ہے اور کہتا ہے :
جو وقت گریزاں سے یہ میں کہوں
حسین تو ہے لے تو توقت سے کام
اس تحریض و ترغیب میں مغنی کی طرف مائل ہونے والے مفسٹوفلیس کو اپنے مقصدِ حیات میں کبھی کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی ۔ اور ٹسٹامنٹ (عہد نامے) کے زیرِ عنوان ان کی ایک نظم میں خود گوئٹے کا ایمان چیخ اٹھتا ہے : صرف بارآور شے کو آپ سچائی کہیں۔
فاؤسٹ کے پہلے حصے کی داستان اگرچہ بڑی پائیدار اور شہرہ آفاق داستان ہے مگر ڈرامے کی حیثیت میں اس کی ہیئت کے لحاظ سے اس میں کوئی غیررسمی پہلو نہیں نظر آتا ۔ فاؤسٹ کے دماغ میں جو کشمکش جاری و ساری نظر آتی ہے ، اپنی زندگی پر اس کی محنت گیرانہ تنقید سے ہمیں جو سابقہ پڑتا ہے اس سے اسٹیج کے بمقابلہ قارئین کے لیے بڑی دلچسپ تقریریں سننے میں آتی ہیں ۔ اس میں ڈرامے کے لیے ایک خاص پرداز ایک خاص اٹھان اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ جہاں تک تھیٹر کا تعلق ہے خود گوئٹے کی نظر میں اپنے شاہکار کی کامیابی بہت مشکوک تھی اور اسی لیے یہ ثابت کرنا زیادہ آسان ہے کہ اسٹیج کے بمقابلہ وہ ایک بڑی ڈرامائی نظم پیش کرنے کا ارادہ کر رہے تھے مثلاً شاعر تفصیل کے ساتھ یہ بات زیادہ بیان نہیں کرنا چاہتا کہ ویلنٹائن کی موت اور والپرگس(Walpurgis) کی رات کے درمیان ایک سال کی مدت گزر چکی ہے اور نہ اس کو کرداروں کا ، منظریات کا یا ڈرامے کے اداکاروں کا تفصیلی ذکر پسند ہے ۔ ایک بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام الناس کے سامنے عظیم حصہ اول کا کوئی تماشا اس وقت تک پیش نہیں کیا جا سکا جب تک گوئٹے اپنی عمر کے 80ویں سال میں نہیں پہنچ گئے ۔ وائمر(Weimar) میں اسی 80ویں جنم دن کے موقع پر ایک مزید کھیل پیش ہوا ۔ وجہ یہ تھی کہ جامع اور بھرپور تربیت کا سہرا خود گوئٹے کے سر تھا ۔
بعد کی جن نسلوں کی پرداخت گونوڈ کے ایک خلاصے پر ہوئی تھی ان کو یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ گوئٹے کی خاص اداکارہ دراصل انسان کی مصیبت زدہ وہ روح ہے جو ہم سب میں پائی جاتی ہے اور جو ہمارے پراسرار طریقے کے لیے جستجویانہ دوا دوش (دوا دارو) کے سلسلے میں جرات تلاش کرتی ہے اور اس کا جواب اس مقام پر طلب کرتی ہے جہاں جواب آسانی کے ساتھ سننے میں نہیں آتا ۔ بہرحال کچھ بھی ہو ، اس چیستان کا نقطۂ معراج حاصل ہوتا ہے تو گریچن کی تازہ دم نرمی کے طفیل حاصل ہوتا ہے اور یہی وہ موضوع ہے جس میں نوعمر گوئٹے بیشتر اپنے داخلی تجربے کی دل پذیر حقیقت میں اپنے یقین و ایمان کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے ۔
اس مقام پر مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن پڑھنے والوں کے لیے جن کو اس میں دلچسپی حاصل ہو ، اس عظیم الشان کارنامے کی فنکارانہ ترقی کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جائے لیکن جن لوگوں کو ادب کے نقطہ خیال سے اس قسم کی ابتدائی تصنیف سے کوئی دلچسپی نہ ہو ، وہ اُسے چھوڑ کر پانچویں سیکشن کی توجہ مبذول کرنا پسند فرمائیں تو خوب ہو ۔
گوئٹے کا شوق شروع شروع میں قدیم قصے کے ایک پہلو کی طرف راغب ہو گیا تھا جسے فاؤسٹ نے ٹرائے کی ایک حسینہ کو جادو کے زور سے جگایا تھا اور نیک خصالی کے اس نمونے سے اس کے دماغ میں ایسی تقلیب ہیئت ہو گئی جس سے معلوم ہوا کہ یونانی حسن و فن (یونانی جمالیات ) حقیقت کے قالب میں ڈھل گیا ہے ۔ حالانکہ ایک قدیم روایت کے مطابق صاف بیانی سے کام لے کر اس کے سوا اس کا اور کوئی مقصد نہ تھا لیکن اس کے توسل سے حظِ نفسانی کی کوئی صورت پیدا ہو جائے ۔ ہیلن کا یہ تصور گوئٹے کے خیالات میں برابر جاری رہا اور اس کے بعد وہ فاؤسٹ کے دوسرے حصے میں جمالیاتی اہمیت کے ساتھ نمودار ہوئی لیکن اس جواں سال شاعر کی تصنیف کے حصہ اول میں اس کی سادہ مزاجی اور بے وفائی کی شکار گریچن نے اس کے شاہکار کو صوری شکل دینے کے لیے اور باقی تمام مبالغہ آمیز چیزوں کو اس کے دماغ سے خارج کر دیا ۔ احساس کی جس گہرائی پر ان کا دارومدار تھا اس کا تعلق اس ابتدائی معاشقے سے تھا ، اسے وہ کبھی فراموش نہ کر سکے ۔ گوئٹے کے لڑکپن میں واقعی ایک گریچن کا وجود تھا ۔ اس زمانے میں اس دیہاتی لڑکی کے ساتھ ایک ناگوار مڈبھیڑ ہو گئی تھی جس کی شیریں فطرت اردگرد کے خراب ماحول سے برباد ہو چکی تھی ۔ اور اسٹراس برگ کے قریب سسنیہم میں رہنے والے ایک پادری کی لڑکی فریڈرک برائن کی والہانہ محبت اور پھر اسی کی جدائی کے عالم میں ان کا ضمیر بالغ ہو گیا تھا ۔ اس موقع پر گوئٹے نے کہا تھا :
سیکھنے سے مجھ کو فوراً آ گیا
ارتکابِ جرم ہوتا تھا جسے
گوئٹے نے فاؤسٹ کا پہلا مسودہ 1773ء سے لے کر 1775ء کے زمانے میں قلمبند کیا ۔ اس میں گریچن کی تمام داستان اور اس کے ساتھ ہی فاؤسٹ کے پہلے لفظ فریشمین ینز آیورباش کے سیلر یعنی تہ خانے ، ان سب باتوں کا بھی ذکر تھا ۔ 1775ء میں یہ اصلی نسخہ گوئٹے بمقام وائمر لے گئے لیکن گیارہ سال کے عرصے میں جب تک قلمدانِ وزارت ان کے پاس رہا ، یہ نسخہ اٹھا کر طاق پر رکھ دیا گیا اور مکمل حصہ اول کے اختتام تک پہنچنے کے لیے دو مزید مدتوں کی ضرورت پیش آئی ۔
جب 1786ء میں گوئٹے وائمر سے روانہ ہونے لگے تو انہوں نے پھر دوبارہ اس کام کی طرف توجہ کی اور بعد کے چار سالوں کے درمیان اس میں کچھ اضافے اور ہوئے جن میں فاؤسٹ کے کچھ مطالبات مفسٹوفلیس کے نام ہیں ۔ اس میں زیادہ تر یہ کارنامے میں ۔ فاؤسٹ اور غار کا بیشتر نیز جادوگرنی کے باورچی خانے کا سارا مواد شامل تھا ۔ آخری تصنیف اطالیہ میں لکھی گئی ۔ اس زمانے میں گوئٹے نے وائمر کی افلاس زدہ ریاست کے نظم و نسق سے کئی سال وابستہ رہنے کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور جو صاف صاف اعتراف انہوں نے اپنے نیک نفس ڈیوک کارل آگسٹ کے سامنے کیا تھا ، اس سے یہ ظاہر ہے کہ عیاشی اور اوباشی کا مشغلہ بڑی بے دردی کے ساتھ روم میں علانیہ طور پر نظر آ رہا تھا جس کا خاکہ مفسٹوفلیس کے تحت اپنے تاثرات کی ذیل میں اس قدر شدید طنزیہ انداز میں کھینچا ہے ۔ 1797ء سے 1801ء تک کے عرصے میں انہیں تیسری مرتبہ موقع ملا ۔ اس زمانے میں ان کو شلر (Schiller) کی طرف سے حوصلہ افزائی مل رہی تھی ۔ گوئٹے نے اس عظیم خلا کو پر کیا جو ان کے خیال میں واگنر کے اخراج اور فریش مین والے منظر کے درمیان واقع تھا ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس میں السیٹرن ڈان اور الیٹرن ڈے ، پراسرار پوڈل فیز دیگر اور مفسٹوفلیس کے درمیان پیش آنے والے مناظر قلمبند کیے تھے ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی چیزوں کا اضافہ ہوا مثلاً تہدیہ تھیٹر کے آغاز کی تمہید ، افتتاحیہ ، وال پرجس کی رات یا جادوگرنی کی دعوت۔ 1808ء میں اشاعت کے لیے جو آخری حصے لکھے گئے اس میں صدائے اختتام شامل تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ بے چاری مارگریٹ کی صدائے بازگشت ہے ۔
یہ بڑے افسوس کی بات ہو گی کہ زجروتوبیخ میں جلد بازی اور ترش روئی کو جو کہن سالی کے بجائے زمانہ جوانی کا عطیہ ہوتی ہے ، ہم اس کی جذباتی کمزوری کے خاتمے کی علامت سمجھ بیٹھیں ۔ گوئٹے پرامید ہونے کے خیال سے اس نیت کے ساتھ کام نہیں کر رہے تھے کہ اختتام خوشگوار ہو گا ۔ شروع سے آخر تک مایوسی کی گہرائیوں کا سامنا ان سے زیادہ کوئی نہیں کر سکتا تھا اگرچہ ان کو معلوم تھا کہ مسرت میں بھی کتنی رفعت کتنی بلندی ہوتی ہے ۔ ذرا گزرے ہوئے دنوں کی طرف نظر ڈالیے جب وہ ساٹھ سال کے ہو گئے تھے ۔ اپنی تصنیف ورتھر اور نوجوان فاؤسٹ کی تصنیف کے موقع پر انہوں نے اپنے مرحوم دوست زلٹر کے نام بڑی صدق دلی سے لکھا تھا ، ’’ جب میں نے عزم اور کوشش کے ساتھ موت سے جان بچانا چاہی تو مجھ پر کیا گزری اور اس کے بعد بھی کس طرح مجھے کتنی مرتبہ جان توڑ کر اور دشواری کے ساتھ ہاتھ پاؤں مار کر عظیم تباہی سے اپنی جان بچانا پڑتی ہے ‘‘۔ الیسٹر کے طلوع ہونے پر فاؤسٹ کو جو مایوسی ہوئی ہے اس پر گوئٹے کے خط میں بڑی اہم روشنی ڈالی گئی ہے ۔ مگر واقعی گوئٹے کے لیے جرات مندی کا یہ اظہار عین ایک فطری سعادت تھی کہ اس کے زیرِ اثر ان کو آخر دم تک کبھی ایسی بے آہنگیوں کا یقین نہیں آیا جن کی گتھیاں سلجھ ہی نہیں سکیں ۔
تیسری بار انہیں جو شدید ترین فنکارانہ مشقت کرنا پڑی ، وہ یہ تھی کہ ناٹک کے خاتمے پر قید خانے کے منظر کو نثر سے نظم میں تبدیل کرنا پڑا ۔ آیورباش کے تہہ خانے میں شراب کا منظر اسی طرح پیش کیا گیا ہے اور ناٹک کے آخر میں جو دل دوز سادگی دیکھنے میں آتی ہے اس کے ساتھ شراب نوشوں کی ھو حق سے بھری ہوئی بدتمیزی کا مقابلہ کیا گیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے شاعر گوئٹے کو اپنے فن میں کس قدر پختگی حاصل ہوئی ہے ۔ ان کو اپنے فن پر کامل عبور ہے ۔
گوئٹے کی نظم میں بلا کی روانی ہے اور اس روانی کا رخ نہایت خوبصورتی کے ساتھ ان کے تخیل کی طرف رہتا ہے ۔ اصل یہ ہے کہ متغزلانہ انداز میں شعر کہنے والا ان سے زیادہ بلند مرتبہ کوئی اور شاعر جرمنی میں آج تک پیدا ہی نہیں ہوا ۔ اور سچ پوچھیے تو وہی جرمنی کے عظیم ترین انسان بھی تھے ۔ بایں ہمہ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ان کی نظم میں جو تسلسل اور روانی ہے اس کے سامنے ان کا متغزلانہ انداز کا کلام بھی نہیں بھڑتا (ٹھہرتا) ۔ بعض مرتبہ وہ اپنی سادگی اور اپنی بلند موسیقیت کے لحاظ سے کلاسیکی حیثیت کے مالک ہوتے ہیں لیکن دوسری جانب بعض حالتوں میں اشعار کی روانی میں رومانی جذبات کی پٹ سے پینگوں کے سے مزے ملنے لگتے ہیں ۔ سنجیدہ نثر میں ترجمہ جو مثلاً روح (اسپرٹ) کی روانی سے ادا ہوتا ہے ، گوئٹے کے حدودِ سخن سے خارج ہوتا ہے ۔ اس کو ان کے اقلیم ِ سخن میں قدم رکھنے کی اجازت ہی نہیں کیونکہ ان کی نظم میں تو سحر طرازیاں ہی سحر طرازیاں فردوس گوش ہوتی ہیں ۔ بخلاف اس کے سینکڑوں اشعار ایسے بھی ہیں جن کو گوئٹے کے تخیلات سے توانائی عطا ہوتی ہے ۔ لطف یہ کہ اپنے کلام میں کسی قسم کی رنگا رنگی پیدا کرنے کے لیے ان کے دل میں خواہش ہی نہیں پیدا ہوتی ۔ وہ اپنے اشعار کو سوقیانہ خواہشات سے کبھی متحرک نہیں کرتے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ مارگریٹ جو تقریر کرتی ہے اس میں بڑا زور ہوتا ہے ۔ اس میں کمال درجہ سادگی ہوتی ہے اور اس میں شک نہیں کہ اس معاملے میں کوئی اس کا ثانی نہیں ۔ اس کی تقریر کا ترجمہ کرنے سے مترجم بھی گھبرا اٹھتا ہے ۔ اس کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اصل مفہوم کو ادا کرنے میں کہیں مسلسل رکاکت کا پہلو نہ ابھر آئے ۔ اور مفسٹوفلیس جب بولتا ہے تو بڑے دھڑے کے ساتھ ۔ اس کی بول چال عام ہوتی ہے ۔ اس کی تقریر بامحاورہ ہوتی ہے اور یہ تو وہ خود خدائے کریم کے سامنے اپنی بے باکانہ معذرت خواہی میں خود بھی کہتا ہے ۔ ہر شخص کو ترجموں کی معذرت خواہی کا ڈھنگ بالعموم اجیرن معلوم ہونے لگتا ہے ۔ لیکن جو پڑھنے والے انگریزی سے واقف ہوں وہ اگر اپنا حافظہ کام میں لاتے رہیں اور یہ دوباتیں یاد رکھیں تو ان کو گوئٹے کے کلام سے بہت زیادہ حظ حاصل ہو ۔
پہلی بات تو یہ ہے جرمن زبان میں انگریزی زبان کے بمقابلہ سادگی اور بے تکلفی زیادہ ہوتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ گوئٹے کو زبان کے اس قدیم اسلوب میں جو حال ہی میں کچھ دنوں سے نظرانداز کیا جا رہا ہے ، محاکمانہ طور پر غیرمعمولی استعداد حاصل ہے ۔ یہ نظم کا وہ اسلوب ہے جس میں بلا کی سہل پسندی ہے اور جو شستگی سے عاری ہوتا ہے ۔ اس قسم کے اشعار میں انگریزی زبان کے ہوڈی براس کی طرح چار مقامات پر زور دینا پڑتا ہے ۔ اگر کوئی پڑھنے والا حیرت زدگی میں یہ دریافت کر بیٹھے کہ گوئٹے ایسے فنکار نے بھی تک بندی سے کام لیا ہے تو اس سوال کا جواب اثبات ہی میں دیا جا سکے گا اور وہ جواب یہ ہو گا کہ گوئٹے صرف تک بندی ہی نہیں کرتے تھے ، وہ تو اس کے رسیا (شوقین) بھی تھے ۔ جرمنی میں یہ طرزِ انشا پردازی ینہٹیلور(؟) کے نام سے مشہور ہے ۔ گوئٹے نے قدیم سادہ گو شاعروں اور خاص طور پر ھینز سیکس (Hans Sachs) کے اندازِ سخن کو دوبارہ تازہ کیا ہے لیکن یہ بھی ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ ان کی شفیق ماں جن کے وہ تہہ دل سے پرستا ر تھے ، ان روایات سے واقف تھیں اوروہ اپنے خطوط میں برابر ینہٹیلور(؟) کے طرزِ تحریر کو استعمال میں لاتی تھیں ۔ ان کے فرزند کی ذکاوت اور طباعی کے سبب سے ان کی زبان کو بذلہ سنجی کا جدید اور نہایت لچک دار آلہ کار بنا دیا ۔
گوئٹے کو پہلے ہی سے واضح طور پر یہ معلوم تھا ۔ ایک ایسی عظیم مرتبت شاعری صفحہ وجود پر زینت افروز ہے جس کے لیے یہ لازمی ہے کہ بیت کے ساتھ سرمستی کا ادغام ہو ، جس میں روانی اور تناسب کےساتھ ان کا جواز موجود ہو اور جو من کے ساتھ بھی ممزوج ( ہم مزاج ) اور منسلک ہو ۔ لیکن اس کے علاوہ ایک قسم کی شاعری اور بھی ہے جس میں جذبہ و احساس کے بجائے عقل و فہم کا عنصر زیادہ غالب ہو ، جس میں تناسب اور روانی ضروری ہو اور اس کا ہونا برحق بھی ہو تاکہ ایسا کرنے سے جو شیفتگی پیدا ہو ، اسی سے تاثر میں ابھار پیدا ہو ۔ اسی لیے جن جن مقامات پر شاعری اس انداز سے لب کشا ہوتی ہے ، محاوروں کا استعمال لازمی طور پر حسن سے محروم ہو جاتا ہے ۔ ایک مقام پر کہا گیا ہے :
’’میرے محترم بزرگ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ دوسروں کی طرح معاملات پر نظر ڈالتے تو ہیں لیکن ہم لوگ جو اپنے تفکرات میں زیادہ مکاری سے کام لیتے ہیں ، ان کو اپنی مسرتوں کا لطف ان کے مرجھا جانے کے پیشتر ہی حاصل ہو جانا چاہیے ‘‘۔ (نثریِ ترجمہ )
ملٹن کے الفاظ میں شاعری کو سادہ ، سلیس ، محسوساتی اور جذباتی ہونا چاہیے ۔ مناسب ہے کہ ساری نظم تیج پات (Bay Leaf)کے عرق کی طرح رقیق ہو یعنی یہ کہ مندرجہ بالا جزو صفات کی کسوٹی پر پورا اترے ۔ گوئٹے نے خوش قسمتی سے ہمارے انسانی مفاد کے حق میں ہر وقت جذبات کی بلندیوں پر قیام کرنے کا عذرلنگ (بہانہ) کبھی پیش نہیں کیا ۔ اور اسی قسم کے اشعار جہاں ایک طرف صحت آور ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان سے انقباض کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے اشعار کا نزول شیطان کی ذات سے ہوتا ہے ۔
بات بات میں ناک چڑھانا ہی صرف گنا ہ ہے ۔ یہ الفاظ کہنے میں تو بہت سادہ معلوم ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے معنی میں بڑی گہرائی ہے ۔ یہ بھی تو غور کرنا چاہیے کہ گوئٹے نے جس شیطان کا ذکر کیا ہے ، اصل میں وہ ہے کیا چیز ۔ دنیا نے سب سے زیادہ دل میں بیٹھ جانے والی شیطان کی جو تشبیہ کھینچی ہے ، شیطان بالکل ویسا ہی ہے اور اس کی ذہانت کی کلید یادداشت ہے ، بات بات میں ناک چڑھانا ، زجروملامت کرنا اور منفی نظریہ اختیار کرنا ۔ ہمارے نوجوان شاعر گوئٹے نے ہماری زندگی کی بنیادی حماقت کا جو مدلل اور مضبوط جائزہ لیا ہے اس کی بنا پر مفسٹوفیلس کو بارآوری اور سرسبزی و شادابی میسر آتی ہے ۔ ایرک اشمٹ اور گیورگ دٹکاوسکی نے بتایا ہے کہ گوئٹے جب بھی کوئی عامیانہ یا غیرملکی لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان کا یہ اندازِ بیان اس بنیادی طریقہ کار کا جزو ہوتا ہے جس کے ذریعے تذلیل اور تحقیر کی روش اختیار کی جاتی ہے ۔ وہ کل کے بمقابلہ زمانہ حال کے آج زیادہ قائل ہیں ۔ اگر آج کل ٹائپ کی مشینوں پر کام کرنے والی لڑکیوں کو پتہ چل جتا ہے تو اپنی پوشیدہ برہمی کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں کہ دفتر میں اگر کوئی توہین آمیز لفظ استعمال ہوتا ہے تو گھما پھرا کر اس کو فوراً فحش گوئی کے معانی پہنا دیے جاتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے ایک قدیم خطاب کے تحت موجودہ سرگرمیاں اختیار کر رکھی ہیں کیونکہ تاریخی زمانے کے قبل دنیا میں شیطانی حرکات کی جڑ بنیاد بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسی منجنیق ہوتی ہے اور بھدے طور پر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کسی پر کیچڑ اچھالنا یا خاک ڈالنا ۔ اب اگر دفتر والے اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں تو ان کو یہ بات سمجھنے کے لیے کچھ توقف سے کام لینا چاہیے کہ مفسٹوفلیس خود ہی اس امر پر روشنی ڈالتا ہے کہ انسان خود کو ہمزاد کی حیثیت سے ختم کر کے کسی صورت سے بھی بہتر حالت میں نہیں آتا ۔ مفسٹوفلیس نے دوبار جنبش کا براہ راست تضحیک آمیز خاکہ اڑایا ہے ۔ اس نے ایک مرتبہ تو جنس کی روحانی تمنا کی شدت اختیار کرنے پر طنز کی ہے اور دوسری مرتبہ اس جذبے کی تحریص اور ترغیب کا مذاق اڑایا ہے جسے نفس پرستی کہتے ہیں ۔ اگرچہ کسی بڑے آدمی میں ظرافت کا عظیم احساس ہونا کوئی خاص تعجب کی بات نہیں ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وایمر کی سنت کو محض اہل قلم ہونے کے باعث اتنا بلند مرتبہ حاصل ہو جائے ۔ وہ اپنا مذاق خود اڑا سکتے ہیں ، وہ اپنے شاہکار کو مخلوط کہتے ہیں ، انہوں نے اپنے تخلیق کے دیو پر نگاہ کی جو آتش داں کے پیچھے پھول کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔ اسی لیے انہوں نے شعر کو لکھاتھا کہ جس شیطان کو تصور میں لاتا ہوں ، وہ بڑی ہیبت ناک شکل اختیار کر لیتا ہے لیکن وہ تو اس سے بھی زیادہ خرابی کا موجب تھا اور بشرطیکہ پرنگولا کے چوتڑوں پر اس بوالعجبی کے علاوہ ایک سنجیدہ حاشیہ آرائی کی اجازت دے دی جاتی تو یہ ثابت بھی کیا جا سکتا تھا ۔ اس میں سوال پیدا ہو جاتا ہے ۔ تنقیدی قدر و قیمت کے اندازے اور اس طرح کم از کم اس حاشیہ آرائی سے نجات مل جاتی ہے جو کتاب کی پشت پر درج ہے ۔ سر ریونک امپ کے بارے میں جو اشعار درج ہیں ان کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ نکولائی ایسے نقاد نے جس کی نظر میں خود اس کی بڑی اہمیت تھی اور جس کے دل میں مافوق الفطرت وجودوں کے نام سے نفرت کا شدید جذبہ تھا ۔ جیسا کہ آف کلارنگ کے نابالغ پیغمبر کے معاملے میں مناسب تھا ۔ گوئٹے پر بڑا سخت حملہ کیا تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نکولائی خود اسی مرض میں مبتلا ہو گئے جس میں انہیں خیالی بھوت پریت دکھائی دینے لگے ۔ اس پر نکولائی نے اپنا علاج خود تجویز کیا اور بڑی دیانت داری کے ساتھ اس کی اشاعت بھی کر دی یعنی یہ کہ ان کی پیٹھ پر جونکیں لگائی جائیں ۔ یہ تنقید گوئٹے کے حق میں حد سے زیاددہ درست ثابت ہوئی لیکن ایک سنجیدہ طبیعت رکھنے والا قاری یہ دریافت کر سکتا ہے کہ آخر گوئٹے نے ایسی باتوں کو اپنے کارناموں میں شامل کیسے کر لیا ۔ اصل یہ ہے کہ بردکن یا کوہ برز پر جہاں گوئٹے نے اپنی جادوگرنیوں کی والپرگس والی بدمستیوں کا نظارہ پیش کیا تھا ، وہمی بھوتوں پریتوں کے خیال نے گوئٹے کو شیطانی مکالموں کے دوران ایک بڑے پیمانے پر کام کرنے کے لیے آمادہ کر دیا تھا ۔ جس میں ایک شیطانی دربار کا انعقاد بھی شامل تھا ۔ اس عالم میں چنگاریاں اڑانے والے اشعار اوپیرا کے دونوں حصوں کے درمیان عجیب و غریب نغموں کی دھن میں منسلک تھے ۔ ابتداء میں ان کا ایک اور اسی کتاب میں شائع کرنے کا ارادہ تھا ۔ خیال تھا کہ اس کتاب میں اس طمطراق سی طنازی اور عشوہ بازی کا مضحکہ اڑانا مقصود تھا جو اس زمانے کے ادب اور تمدن کا جزو تھے ۔ بردکن کے مناظر کا تقاضا یہ تھا کہ مصیبت آمیز انسانی حقیقت کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے فاؤسٹ کی طرف سے کچھ شوریدہ سرانہ عنصر داخل کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بعد میں ناراضگی کے ساتھ کہا تھا کہ لوگوں کو ان باتوں کا مزہ لینے کا موقع بھی دیا جائے ۔
ادا پیراؤں کے مابین اویرن اور ٹیٹنیا نے جو نغمہ سرائیاں کیں ان کو سن سن کر لوگ جھوم اٹھتے تھے ، اسی طرح پروفیسروں پر بھی حال طاری ہو جاتا تھا ۔ کچھ لوگوں کو یہ باتیں پسند نہ تھیں ، وہ ان کو برا بھلا کہنے لگے اور انہوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ کہا جاتا ہے کہ فاؤسٹ کی جس ناراضگی کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ، اس کے اور حادثے کے مابین بمشکل ایک ایسا رشتہ یا صراط ِ واپسیں قائم ہوتا ہے جو کافی مضبوط ہو لیکن گوئٹے نے اس مقام پر ایک خلا ارادتاً پیدا کیا ہے ورنہ انہوں نے اس کے بعد والے سین کو نثر میں کیوں ادا کیا ۔ ہم اس شیطانی حرکت کو قبول کر سکتے ہیں خواہ بحث سے اس کا کوئی تعلق ہو یا نہ ہو ۔ اور ہمیں اس مقصدِ عظیم کی توانائی کے لیے سپاس گزار بھی ہونا چاہیے کیونکہ ایک سوال اس میں یہ اٹھتا ہے جس کا ہم سے تعلق ہے کہ ہمارے راستے میں ہماری خودارادیت ہمیشہ سے کیا کرتی چلی آئی ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ انسانی خواہشوں اور ناامیدیوں کا جو عکس ایک حقیر لڑکی کے ساتھ ایک سیدھے سادھے عشق و محبت کے سلسلے میں پڑا ہے اس کے لیے اتنا عظیم اور شورانگیز مناقشہ برپا کرنے کی نوبت کیوں آئی ؟ کیا ان اجزاء میں تضاد نہیں پایا جاتا ہے ۔
یگانگت یا یکسانیت تو خود گوئٹے کی شخصیت میں پائی جاتی ہے اور ایسے مقامات پر موجود ہے جہاں جنس خود اپنا ہی ثالث رہا ہے ۔ اگر خود غرضی تباہ کن ہوتی ہے تو اس کا عمل ایسی حالت میں اور بھی مہلک ثابت ہوتا ہے اور پھر جب اس کا تعلق ایک ایسی چیز سے ہوتا ہے جس کی زندگی ہی ایک مخالف نوعیت کی ہو۔ یہاں مراد ہے عشق و محبت سے ۔ گوئٹے کا عقیدہ ہے کہ محبت کا درست عمل یہی ہے کہ وہ اپنی مرضی میں خود ہی فنا ہو جائے ۔ اس سے زندگی محفوظ ہو جاتی ہے ۔ اس کے تسلسل میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔ دل کی گہرائی نیز تسخیر کن اداؤں کے لحاظ سے گوئٹے کے یاس و محبت کے بارے میں بہت زیادہ جاننے کا سبب موجود ہے اور جیسا کہ انہوں نے چارلوئی فان اسٹین کو لکھا تھا ، اس کے امکانات کا اندازہ بھی کیا جائے ، اسے ایک ستارے کی مضبوط سی گرفت سمجھی جائے یا ہولناک آگ کا ایک فتیلہ ۔ اور ان کا یہ گہرا عقیدہ تھا کہ اولیں سپردگی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ ان کی عمر بھی ہماری ہی طرح مشکوک تھی ۔ چالاک لوگوں کو جنھیں طبیعیات اور نفسیات میں کچھ دخل ہوتا ہے اور جو دوشیزگی کو محض عدم سہولت یا باعث تکلیف قرار دے بیٹھتے ہیں ، شاید وہ اس کی شکایت تسلیم کر لیں لیکن فلسفیانہ نقطہ خیال سے کمزور حیثیت میں اس کی دلیل تسلیم نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ فطرت کی نگاہ میں دوشیزگی کا انسداد کوئی ضروری چیز نہیں اور عقل کی رو سے یہ خیال ہوتا ہے کہ اکثر ایسے اشارات سے جس کی مکمل طور پر وضاحت ہی نہیں ، ہماری زندگی کا معاملہ نہیں ہو سکتا ۔ اس آسودگی کی سرمستی جس میں کسی دوسری روح کو مدعو کرنے کی طاقت ہوتی ہے ، ہمارے لیے رازِ خصوصی بنی رہتی ہے اور انسانوں نیز مفسٹوفلیس کی مکاریوں کے باوجود اور کسی چیز کی بھی اہمیت اس سوال کے بمقابلہ انسانی مقدر کے ساتھ زیادہ قربت نہیں رکھتی ہے کہ کیا صحیح آسودگی کا میل خود پرستی یا ان کے ساتھ ہو سکتا ہے ۔ جب گوئٹے نے فاؤسٹ کے پرانے قصے میں بنیادی طور پر تبدیلی پیدا کر دی ، اس وقت گوئٹے کے دماغ میں بھی یہی سوال تھا ۔
فاؤسٹ کے حصہ دوم میں جس ہیلن کا ذکر آتا ہے اس کا کوئی انسانی وجود نہیں ہے ۔ فاؤسٹ کے ساتھ اس کی مواصلت ایک عقدہ ہے جو کلاسیکی اور رومانی آرٹ کے درمیان عمل میں آیا ہے ۔ اس میں استعارات کو دوسری شکل سے کام میں لایا گیا ہے لیکن حصہ اول میں تو معاملہ بالکل دوسری قسم کا ہے ۔ یاد رہے کہ گریچن کا سارا قصہ گوئٹے کی ابتداء کی تصنیف سے لیا گیا ہے اور عملی طور پر اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں کی گئی ۔ زندگی کے اس موسم بہار میں شاعر کا دماغ ہیلن کے لیے کوشاں تھا بالکل اسی طرح جیسےو ہ نوعمر روح انسانی صعوبت کو ، اس کی تقدیر اور اس کی تمنا کو جزولاینفک بنا رہی تھی ۔ اس کے بعد اس کی عمر کا فروغی حصہ آیا ۔ اس زمانے میں بالغ اور ولولہ انگیز غوروخوص کا اضافہ ہوا گویا اس طرح ایک چھوٹے سے ادھار اور سود پر کام کرنے والے کی لڑکی شیطانی نکتہ چینی کے باوجود اب ساری دنیا کی نگاہوں میں ہر طرف سے دادوتوصیف کا مرکز بن جاتی ہے ۔
حصہ دوم میں جہاں طول بیانی کا خاتمہ ہوا ہے ، فاؤسٹ کو بچا لیا جاتا ہے اور گریچن کی روح ان کی دعوے دار ہو جاتی ہے ۔ جو لوگ منطقی خاتمہ اور قدیم شاعر کی مذہبی فراست کو تلاش کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ گوئٹے کی اس فطری خواہش پر اس خیال سے صاد کریں گے کہ ان کے عمر بھر کے کام کو ان کے زمانہ شباب کے کارناموں سے بالکل علیحدہ نہ کیا جائے لیکن آنے والی نسل نے کچھ اور ہی فیصلہ کیا یعنی جی ایچ لیوس کے دل میں اتنی ہمت ہوئی جنہوں نے اپنی زندگی کو کسی اور انگریز کے بمقابلہ گوئٹے پر ان معنوں میں زیادہ قربان کر دیا کہ آج سے ایک سو سال پہلے ہی اس کے اسباب پر روشنی ڈال دی تھی ۔ انہوں نے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ حصہ دوئم میں اتنی انسانی دل کشی نہیں ہے جس کی طرف ہماری توجہ مبذول ہو جائے ۔ حالانکہ حصہ اول میں پہلی ہی بار پڑھنے اور دلچسپی کا بہت کچھ سامان مہیا ہو جاتا ہے ۔ اس میں ہر قسم کا عنصر پایا جاتا ہے یعنی بذلہ سنجی ، ہمدردی ، دل سوزی ، عقلمندی ، طنزو تضحیک ، خوش گلو موسیقیت ، ادب و تعظیم ، شک و شبہ ، سحروافسوں اور ہجو و طعنہ سنجی ۔ نوس نے جو فہرست تیار کی ہے اس میں بڑی ہوشیاری سے کام لیا ہے لیکن سچ پوچھیے تو گوئٹے کے فاؤسٹ کے کبھی نہ ختم ہونے والے تاثرات ہر قسم کے پڑھنے والوں کے ذہنوں پر پڑے ہیں اور اس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں شامل ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭
مذکورہ بالا اقتباسات فاؤسٹ کے اس ایڈیشن سے لیے گئے ہیں جو پینگوین سیریز میں فلپ ویں کے انگریزی ترجمہ میں مشمولہ دیباچے کا اہم حصہ ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان اقتباسات میں جو اعلیٰ پائے کی تنقید پائی جاتی ہے اس کے مخاطب بیشتر انگریز ہیں لیکن اس تنقید سے ہم ہندوستانیوں کو بھی بہت مدد گوئٹے کی ادبی نگارشات کا جائزہ لینے اور خاص طور پر ان کے لافانی ڈرامے فاؤسٹ کے محاسن جمیلہ کا اندازہ لگانے میں مل سکتی ہے ۔ فاؤسٹ کی تصنیف کو ڈیڑھ صدی سے اوپر کا زمانہ گزر گیا ہے اور یہ ایک ایسا ڈرامہ ہے جس میں تاریخ اور ادب دونوں کو ایک ساتھ رکھ کر ہمیں اس کی عظمت و اہمیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔ ڈرامہ فاؤسٹ کی ابتداء اور اس کے بعد کی ارتقا کا ایک مختصر سا خاکہ ان اقتباسات میں مل جائے گا ۔ اگرچہ فاؤسٹ کے اور جتنے ترجمے انگریزی زبان میں ہوئے ہیں ان سب میں سے بڑی تفصیل کے ساتھ ان حقائق کو منظر عام پر لایا گیا ہے ۔ اردو میں جناب ڈاکٹر عابد حسین جامعی کا جو ترجمہ انجمن ترقی اردو سے تیس بتیس سال پیشتر شائع ہوا تھا ، اس میں بھی فاؤسٹ کے خدوخال بڑی تحقیق اور تفتیش کے ساتھ جاگر کیے گیے ہیں ۔
اگرچہ اس تحقیق اور تفتیش کا دارومدار جرمن یا انگریزی ادب پر ہے ، ہندی زبان میں بھی فاؤسٹ کا ایک ترجمہ منظر عام پر آ چکا ہے لیکن دوسرے تمام ہندی ترجموں کی طرح فاؤسٹ کا ہندی ترجمہ بھی انگریزی ترجموں کے بمقابلہ زیادہ سنگلاخ نظر آتا ہے اور اس ہندی ترجمے کے شروع میں جو تفصیلات فاؤسٹ کی تخلیق اور اس کے ارتقا پر درج کی گئی ہیں وہ بھی اردو کے بمقابلہ زیادہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اصل یہ ہے کہ اردو ہو یا ہندی، فاؤسٹ کے متعلق ہر قسم کی تفصیل صاف ستھری غیر مغلق اور روزمرہ کی زبان میں ہونا چاہیے تاکہ اردو اور ہندی میں بھی فاؤسٹ کو پڑھے والے اس کے مطالب اور مفاہیم کو زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں ۔ فاؤسٹ کا میں نے کئی سال تک بڑی عرق ریزی اور جانسوزی کے ساتھ یہ جو شعری ترجمہ پیش کیا ہے وہ جیسا کہ ظاہر ہے انگریزی زبان سے کیا ہے اور میں نے سب سے زیادہ مدد اور مشورہ لیتھم کے ترجمے سے لیا ہے ۔ میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ میرے ترجمے کو جرمنی والوں نے خاص پر امید سے زیادہ پسند کیا ہے ۔ یہ صرف میرے لیے ہی نہیں بلکہ تمام ہندوستانی ادب اور سارے ملک کے لیے یکساں فخروانبساط کا باعث ہے ۔
ہندوستان میں مغربی جرمنی کے قابل تعظیم سفارت کدے سے میرے اس ترجمے کے متعلق مجھے جو پہلی تحریر ملی ، اس میں میری اس کاوش کو حیرت انگیز طور پر قابل قدر تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے بعد جرمن سفارت خانے کے سفیر اعظم جناب ہز ایکسیلنسی جناب میربخ نے بطور تقریظ اس اشاعت میں جو الفاظ درج فرمائے ہیں ، ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گوئٹے کے ادبی ارتقا کو کتنا زیادہ ہندوستان کا مرہون منت سمجھتے ہیں ۔ اور ان کی خواہش ہے کہ ہندوستان کی تمام دوسری زبانوں میں بھی جرمنی کے زندۂ جاوید اور شہرہ آفاق فلاسفر شاعر اور تمثیل نگار گوئٹے کے عدیم المثال کارناموں کو منتقل کیا جائے تاکہ ہندوستان اور مغربی جرمنی کے ثقافتی تعلقات کا آفتاب روز بروز روشن سے روشن تر ہوتا چلا جائے ۔
میں مغربی جرمنی کے ارباب بست و کشاد کا ذاتی طور پر بھی بے حد ممنون ہوں جن کے حسن اخلاق سے گوئٹے اور ان کی فاؤسٹ کے طفیل ہم دونوں کے درمیان صرف رابطہ ، اتحاد ہی نہیں قائم ہوا بلکہ جرمنی والوں نے میری خدمات دوسری صورتوں سے بھی حاصل کی ہیں اور امید ہے کہ یہ سلسلہ یوں ہی تادیر قائم رہے گا ۔