ایک عالمِ دین کے پانچ سوالات۔ محمد دین جوہر
[جناب محمد دین جوہر کو یہ سوالات مدارس سے وابستہ کچھ علماء نے بھیجے تھے۔ سوالات کی اہمیت کے پیشِ نظر اس تحریری گفتگو کو افادہء عام کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ سوالات میں مسئول کے متعلق موجود بعض وضاحتی جملے چنداں غیر ضروری تھے لیکن بوجوہ انھیں برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے احباب بھی ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اصل مدعا پر غور فرمائیں گے۔ مدیر]
پہلا سوال: ہم نے آپ کی تحاریر بارہا پڑھی ہیں۔ ہمیں آپ کا تصورِ روایت (اگر ہم فی الوقت لفظِ روایت کو برت سکیں) بہت ناقص معلوم ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب آپ یہ بات کہتے ہیں کہ فکری، تہذیبی اور مذہبی سطح پر روایتی موقف کا انقطاع ہو گیا اور مابعد الاستعمار جعلی علمیت/ مذہبیت پیدا ہوئی جو نہ تو ”روایت“ سے جڑی ہوئی تھی اور نہ ہی اپنی موجودہ صورتحال سے تعرض کرتی ہے اور نہ تاریخ سے آنکھیں ملا پاتی ہے۔ عرض ہے کہ کیا روایت کوئی ایسی شے بھی ہے جس کا کوئی نامیاتی وجود نہ ہو؟ کیونکہ آپ سے ہی ہم نے سیکھا ہے کہ کوئی نظریہ کچھ نہیں اگر اس کا کوئی نامیاتی وجود نہ ہو۔
آخر وہ کون سے حالات/ واقعات/ حقائق ہیں جن کی بنا پر آپ یہ دعوی کرتے ہیں؟ اور اگر ایسا ہے بھی تو عرض ہے کہ پھر اسلام کے آخری دین ہونے سے کیا مراد ہے؟ قرآن کے آخرت تک کے انسانوں کے لیے ہدایت ہونے کا کیا معنی ہے؟ شریعت کے آخری ہونے کا کیا مطلب ہے؟
جواب: گزارش ہے کہ ’روایت‘ کا تصور خود جدید ہے اور بالعموم جدیدیت کے بالمقابل بولا جاتا ہے۔ انسانی معاشروں میں ایسے افکار و خیالات، عقائد و نظریات وغیرہ جن کا استناد عقلی نہیں ہے اور ایسے اعمال، رویے اور رسومات وغیرہ جن کو افادی خیال نہیں کیا جاتا وہ روایت کے زمرے میں شامل کر دیے گئے ہیں۔ جدیدیت اپنی فکری اور تہذیبی تشکیل میں ہر اس چیز کو جسے یہ اپنی ضد خیال کرتی ہے یا جسے یہ رد کرتی ہے یا جسے یہ غیرمفید سمجھتی ہے یا جسے یہ اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے اسے تاریخی ملبے کے اس ڈھیر پر ڈال دیتی ہے جو اس کے بقول ’روایت‘ ہے۔ جدیدیت کے مطابق مذہب کی جگہ بھی ملبے کے اسی ڈھیر پر ہے۔ اب اس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا بطور مذہبی انسان ہم نے جدیدیت سے کوئی فکری یا عملی تعرض کرنا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب تو بالکل ’ہاں‘ میں ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کی صورت کیا ہو گی؟ اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو جدیدیت کے ساتھ کھڑا ہوا جائے یا روایت کے تصور کو اپنا کر اسے مفید مطلب بناتے ہوئے جدیدیت کا سامنا کیا جائے۔ میری رائے میں روایت کا تصور مذہب کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور ہم ”اسلام یہ کہتا ہے۔۔۔ “ کو اپنی گفتگو کی بنیاد بنا سکتے ہیں۔ لیکن گزشتہ تین صدیوں میں ہم نے ”اسلامی“ کی ہر معنویت کو مخدوش بنا دیا ہے۔ اس صورت حال میں روایت کا تصور علمی طور پر مفید ہے اور اسے مذہب کے فکری دفاع میں ایک تاریخی ضرورت کے طور پر اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام مباحث جن پر ایک مذہبی آدمی کا جدیدیت سے اختلاف و تضاد ہے، وہ جدیدیت و روایت کے بڑے مبحث میں زیربحث ہیں اور ایسے مباحث بھی اس میں شامل کیے جا سکتے ہیں جو ہمارے خیال میں ضروری ہیں۔ اس میں یہ ضروری امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہدایت اور روایت مساوی نہیں ہیں کیونکہ اس سے ہدایت کی خودمختار حیثیت پر حرف آتا ہے۔
روایت ذیل کے چار اجزا پر مشتمل ہوتی ہے: ۱۔ واقعہ جو بعثت ہے؛ ۲۔ علم لاریب یا علم مطلق جو ہدایت ہے؛ ۳۔ مقتدرہ/ اتھارٹی جس کا تقاضا اطاعت ہے؛ ۴۔ اور تقدیس، اس سے مراد ’انزلنا‘ اور ’ارسلنا‘ نے جہاں ارض کو چھوا، یعنی زماں کا وہ لمحہ اور مکاں کا وہ قطعہ جس کو ماورا نے چھو لیا، مقدس ہو گیا۔
روایت، تاریخ کا ایک خاص تصور ہے، یا دوسرے لفظوں میں ایک مذہبی آدمی جب ماضی کو دیکھتا ہے تو وہ اسے روایت کے طور پر دیکھتا ہے، سادہ یا سیکولر تاریخ کے طور پر نہیں دیکھتا۔ سمجھنے کی خاطر عرض ہے کہ روایت ذیل کے چار اجزا پر مشتمل ہوتی ہے: ۱۔ واقعہ جو بعثت ہے؛ ۲۔ علم لاریب یا علم مطلق جو ہدایت ہے؛ ۳۔ مقتدرہ/ اتھارٹی جس کا تقاضا اطاعت ہے؛ ۴۔ اور تقدیس، اس سے مراد ’انزلنا‘ اور ’ارسلنا‘ نے جہاں ارض کو چھوا، یعنی زماں کا وہ لمحہ اور مکاں کا وہ قطعہ جس کو ماورا نے چھو لیا، مقدس ہو گیا۔ اگر گراں نہ گزرے تو ایک بہت ہی عام فہم تعریف عرض ہے کہ عام تاریخ کی حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی ذات والا صفات سے نسبتوں کے مجموعے کا نام روایت ہے، اس شرط کے ساتھ کہ معاشرہ اور نیچر اس تاریخ کا جز ہیں۔
ہدایت روایت کا بنیادی محتویٰ ہے اور جس کا براہ راست مخاطب انسان ہے۔ انسان دنیا میں ہے اور دنیا معرضِ تبدیلی ہے۔ ہدایت انسان سے کچھ مطالبات رکھتی ہے اور دنیا بھی اپنے مطالبات اور تقاضے انسان پر مسلط کرتی ہے۔ دنیا انسان کے حالات و احوال ہستی کا نام ہے۔ انسان کا ہدایت سے تعلق ارادی ہے اور دنیا سے given ہے، یعنی جبری ہے۔ جیسا کہ عرض ہوا کہ دنیا معرضِ تبدیلی ہے اور زمان و مکان میں واقع ہونے والی تبدیلی انسانی شعور، نفس اور ارادے پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ ہدایت فی نفسہٖ مستقل اور غیر مبدل ہے جبکہ انسان ہدایت سے جو نسبتیں پیدا کرتا ہے وہ مستقل اور غیر مبدل نہیں ہوتیں۔ علم اور عمل میں ظاہر ہونے والی نسبتیں لازماً زمانی اور مکانی مؤثرات کے تابع ہوتی ہیں۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہدایت کی توسیط جس علم کے ذریعے سامنے آئی ہو، وہ مابعد زمانے کے لیے بھی اسی حد تک مفید یا معتبر ہو۔ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں کسی بھی طرح کے نظری علوم موجود نہیں تھے اور وہی خیرِ قرون بھی ہے، اور خیرِ قرون اس لیے کہ ہدایت اور علم میں مُطلق تساوی تھا۔ اسی باعث مَیں نظری علوم وغیرہ کو مستقل دینی ضرورت خیال نہیں کرتا کیونکہ نظری علوم تاریخی مؤثرات کے طاقتور ہو جانے سے وجود میں آتے ہیں۔
عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں نظری علوم کی عدم موجودگی کو کئی طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اہم تر یہ ہےکہ ہدایتی اقدار اور اس کے اولین مخاطبین میں تعلق براہ راست تھا اور ان کی توسیط کے لیے کسی نظری علم وغیرہ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ اور تاریخی موثرات جو قدر اور انسان کے رشتے پر اثرانداز ہوتے ہیں وہ نگوں سار و خار و زبوں تھے۔ تاریخ اپنے مؤثرات سے اقدار اور انسان کے تعلق پر اثرانداز ہوتی ہے اور انہیں خلط ملط کر دیتی ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد تاریخ ہدایتی اقدار اور انسانی تعلق میں ایک فیصلہ کن عامل کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ تاریخ کی اثراندازی کا سامنا کرنے کے لیے ایسے علم کی ضرورت پڑتی ہے جو اقدار کا معاون اور مؤید ہو۔ اسلامی تہذیب اپنے طویل سفر میں ایسا ثقہ علم مسلسل سامنے لاتی رہی ہے جو دینی اقدار سے ہم آہنگ ہو، تاریخی مؤثرات کی فہم رکھتا ہو اور ان سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ روایت ختم ہو گئی ہے یا منتشر ہو گئی ہے تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ روایت میں موجود محتوائے ہدایت گم ہو گیا ہے یا اس کے بنیادی اجزا قابلِ رسائی نہیں رہے۔ روایت چونکہ شعور اور عمل کی کل تہذیبی کائنات کو آگے منتقل کرتی ہے، تو اس سے صرف یہ مراد ہے کہ ہدایت جن تاریخی ذرائع سے اپنی توسیط کرتی ہے وہ ختم ہو چکے ہیں اور جدید عہد میں علم، عمل اور کلچر کے نئے توسیطی ذرائع ان کی جگہ نہیں لے سکے۔ یہاں ایک بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ ہدایت کی تاریخ اور فطرت سے نسبتیں براہ راست نہیں، بالواسطہ اور براہِ انسان ہیں۔ مثلاً ایسا علم مسلمانوں میں موجود نہیں ہے جو ہمیں یہ بتا سکے کہ جدید سائنس بطور علم ہدایت سے کن نسبتوں کی حامل ہے؟ اور جدید سائنس بطور ٹیکنالوجی مسلم مذہبی عمل سے کیا نسبتیں رکھتی ہے؟ پھر یہ کہ جدید علوم کے ذریعے انسانی معاشرے اور اجتماع میں جو ساختیں کھڑی کی گئی ہیں، ہدایتی تناظر میں ان کی کیا حیثیت ہے؟ مثلاً آرگنائزیشن کیا ہے؟ اور نظام کیا چیز ہے؟ اور جدید تعلیم کیا ہے اور اس پر ہماری دینی اور علمی ججمنٹ کیا ہے؟ معاشی عمل کیونکر فرد سے منقطع ہو کر ایک عالمگیر نظام کی صورت اختیار کر چکا ہے؟ نظری علوم نے جو اخلاقی اور وجودی سوال کھڑے کیے ہیں ان کا ہم کیا جواب دیتے ہیں؟ اس سلسلے میں ہمارے علما کے ارشادات غیرثقہ ہیں، اور اس بابت مسلم ذہن جو طریقۂ کار اور انتاجات رکھتا ہے وہ محض ردی ہیں۔
زوال اور استعماری غلبے کے زمانے میں ہم نے اسلام کو ازسرنو ’سمجھنے‘ کا آغاز کیا، اس میں ہم سے نہایت اساسی نوعیت کی سنگین غلطیاں ہوئی ہیں اور جو علم ہم نے پیدا کیا ہے وہ توسیطی نہیں تھا بلکہ تشریحی اور توضیحی نوعیت کا تھا اور ایسا علم تاریخی مؤثرات میں ایک آلے کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے کیونکہ اصول سے خالی ہوتا ہے۔ اس علم نے اقدارِ ہدایت کے انسانی معاشرے اور تاریخ سے متعلق ہونے اور متعلق رہنے کے امکانات کا اگر خاتمہ نہیں کیا تو انہیں مکمل مخدوش کر دیا ہے۔ اس صورتحال نے ہدایتی اقدار کو طاقت، سرمائے اور علم کی نئی تاریخی قوتوں کے سامنے بالکل پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہماری انفسی اور آفاقی تشکیل کے ذرائع تاریخی عوامل کی گرفت میں چلے گئے ہیں اور ہمارا مسلمان رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ہدایت الوہی ہے اور انسانی تعاملات سے وہ نامیاتی ہو جاتی ہے۔ ہدایت تو اب بھی وہی ہے لیکن نامیاتی نہیں رہی کیونکہ انفس سے آفاق تک وہ کسی ایسی ہیومن ایجنسی (human agency) میں اپنے مظاہر نہیں رکھتی جو ہدایت یا نقوشِ ہدایت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو۔
عرض ہے کہ جب میں انقطاع کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد یہ ہے کہ: (۱) صدرِ اول کے برعکس عصر حاضر کا انسان ہدایت اور اقدار سے مجرد اور براہ راست تعلق کی استعداد نہیں رکھتا اور اس کے لیے توسیطی ذرائع درکار ہیں۔ اور یہ کہ:(۲) ہماری طویل تاریخ میں جو توسیطی ذرائع پیدا کیے گئے تھے ان کا بھی مطلق خاتمہ ہو چکا ہے۔ فی زمانہ ہدایتی اقدار اور انسان کا تعلق انفرادی اور سماجی سطح پر تو یقیناً نظر آتا ہے لیکن وہ کسی تہذیبی نظر و عمل میں اظہار نہیں پا سکیں۔ یاد رہے کہ جن اقدار کا تہذیبی اظہار مسدود ہو جائے وہ انفرادی اور سماجی مظاہر میں بھی بالآخر ختم ہو جاتی ہے۔
دوسرا سوال: آپ جو فکر پیش کرتے ہیں علما کا اس میں کیا مقام اور سٹیٹس ہے؟ اور عہد جدید کے بعد کی صورتحال میں علما کی پوزیشن اور ان کے کام کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ ذاتی طور پر ہمارے نزدیک ہم کسی غیر عالم سے علما کے بارے میں سوال نہیں کرتے اور وَضْعُ الْشَی عَلی غَیْرِ مَحَلِّهِ (چیز کو نادرست جگہ پر رکھنا) سمجھتے ہیں۔ مگر چونکہ معاملہ تہذیبی اور فکری مسائل کا ہے اور ہمارے تجربے میں خدا تعالیٰ نے آپ کو اس معاملے میں درک دیا ہے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جسے چاہے عطا فرمائے ۔۔۔ اس لیے ہم یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ مابعد جدید عہد کی فکری اور تہذیبی صورت حال میں آپ علما کو کس جگہ دیکھتے ہیں؟ آپ کے فکری منہاج میں منہاج کی روح کے طور پر کس کو دیکھا جا سکتا ہے جس نے آپ کے نزدیک روایتی فکر کا راست طریقے سے اظہار کیا ہے؟ اور علما نے جو کام کیا ہے اس کی اہمیت اور حیثیت کس حد تک ہمارے لیے قابل اعتنا ہے؟
جواب: آپ کا یہ سوال میرے لیے تو بہت دلچسپ ہے لیکن ہے خطرناک اور وہ اس طرح کہ یہ سوال ہماری علمی، دینی اور تہذیبی روایت سے معروضیت کے مکمل خاتمے کا آئینہ دار ہے۔ یہ بات کہنے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ ہماری تہذیبی روایت میں علما کا کردار اہلِ سیف و سیاست کے بعد دوسرے درجے پر اہم رہا ہے، اور دینی روایت میں اول درجے کا اہم اور بڑی حد تک خودمختار تھا۔ زوال و انتشارِ تہذیب کے بعد صرف علما کے بارے میں اس طرح کا سوال اٹھانا کٹھور قلبی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری زوال یافتہ تہذیب کے فرد پر کیا بیتی؟ جس طرح ہمارے اہل سیف و سیاست مٹ گئے اور ہمارے تہذیبی عمل کا دفاع نہیں کر پائے، بعینہٖ ہمارے علما تہذیبی روایت و فکر کی پاسبانی نہیں کر سکے۔ یہ خوش فہمی پالنا نہایت خطرناک ہے کہ ہماری تہذیب کے افراد ہر شعبۂ زندگی میں خائب و خاسر رہے اور علما حسبِ سابق اپنے ضروری فرائض سرانجام دیتے رہے۔ روایتی طور پر ہمارے علما کا اہل سیف و سیاست سے متعلق ہونا تاریخ سے متعلق ہونا ہے۔ علما کو کامیاب و کامران ثابت کرنا اور باقی طبقات تہذیب کو ناکام و نامراد کہنا صرف اس وقت ممکن ہے کہ ہمارے علما کو تاریخ سے بالکل غیرمتعلق فرض کیا جائے۔ صاف ظاہر ہے کہ ممکن نہیں۔ ہمارے علما طاقت کے de facto اور de jure پہلوؤں میں امتیاز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کام پر تاریخی ججمنٹ سے گریزاں رہے ہیں۔
علما اور ان کے تاریخی کردار کے حوالے سے حساسیت اِس ان کہے احساس سے پیدا ہوتی ہے کہ ہمارا تہذیبی عمل کمزور اور بالآخر منہدم ہو گیا جبکہ ہمارا تہذیبی اور مذہبی شعور جس کی نمائندگی علما کرتے تھے وہ علیٰ حالہٖ باقی رہا۔ گزشتہ تین صدیوں کی تاریخ کو دیکھنے کا یہ رویہ درست نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ پوری تہذیب ہے اس کا کوئی ایک طبقہ نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے اہل سیف و سیاست جیسے تہذیبی فصیلوں کا دفاع نہ کر سکے ویسے ہی ہمارے علما تہذیبی اور روایتی شعور کو سربلند رکھنے میں ناکام رہے۔ گزارش ہے کہ علما کے بارے میں حساسیت علمی روایت کے خاتمے اور اس کے بارے میں ناسٹیلجیا سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ جو شعور علمی روایت کے انہدام کے ادراک سے قاصر ہے وہ خوگر پیکر محسوس ہو کر شخصیت پرستی کی علت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ طاقت کے خاتمے کے بعد برصغیر کی حد تک علما نے دفاع کی دوسری صف کے طور پر غیر معمولی کردار ادا کیا اور ہمارے اولی الامر کی طرح بے مثل قربانیاں دیں۔ لیکن علما کے رول کے حوالے سے ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے سیاسی عمل کی ناکامی ویسی ہی تھی جیسی کہ ہمارے اہل سیف و سیاست کے حصے میں آئی۔ جدید انسانی شعور داخل تہذیب اور بین التہذیب جس علمی حرکیات میں ظاہر ہوتا چلا آیا ہے ہمارے علما اس سے یقیناً بے خبر رہے ہیں اور آج بھی بے خبر ہیں جبکہ ہمارے اسلافی علما کی ایک بڑی علمی سرگرمی اس محاذ پر ظاہر ہوئی تھی۔
اگر سچ پوچھیں تو ہمارے علما کی ناکامی دہری اور زیادہ گہری ہے۔ ہمارے اہل سیف و سیاست تو جہانبانی میں ناکام ہوئے، اور ہمارے علما نے جب ان کی جگہ لینے کی کوشش کی تو ان کا انجام بھی وہی ہوا۔ سیاست میں آنے کے لیے ہمارے علما کو اپنا کارِ منصبی ترک کرنا پڑا اور کارِ سیاست میں شکست نے ان کے علمی کام کی ناکامی پر بھی مہر تصدیق ثبت کر دی۔
جیسا کہ معلوم ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں ہماری بنیادی علمی، دینی اور تہذیبی روایت حنفی تھی۔ استعمار اور استشراق کے غیر معمولی دباؤ میں جب یہ سوال پیدا ہوا کہ ”اسلام کیا ہے؟“ تو یہ سنہ ۱۸۵۷ء کے اردگرد کا زمانہ تھا۔ اس سوال کے جواب میں مذہبی تجدد ایک تحریک کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ہماری دینی اور تہذیبی روایت کا انحطاط اور انتشار اس سے بہت پہلے اٹھارہویں صدی میں شروع ہو چکا تھا۔ وہابیت کے زیر اثر اصل نزاعات حنفی روایت کی معنویت پر پیدا ہوئے، اور بتدریج وہابی، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی، متجددین، تحریکی تصوف، تبلیغی جماعت وغیرہ اسی حنفی روایت کے ملبے سے برآمد ہوئے ہیں، یہانتک کہ قادیانیت کا شب خون بھی اسی گھمسان میں مارا گیا۔ بین التہذیب علمی حرکیات میں شامل ہونا تو دور کی بات ہے ہمارے علما برصغیر کی دینی اور تہذیبی روایت کو علی حالہٖ باقی رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ کیا یہ سمجھنا مشکل ہے کہ مذہب کی کوئی تہذیبی معنویت باقی نہیں رہی اور فرقہ واریت مذہب کے ہر متداول تصور پر غالب ہے۔ اب باقی قوم کی طرح ہمارے علما کو بھی یہ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کدھر جانا ہے۔
تہذیبی شکست سے ہماری مراد تہذیبی ذہن اور عمل کا باقی نہ رہنا ہے۔ لیکن یہ ناکامی کسی نفرت یا سوئے احترام کو مستلزم نہیں ہے۔ لڑنا اور ہار جانا تاریخی عمل کا حصہ ہے اور احترام سے گفتگو کا متقاضی ہے اور یہ احترام سوچ کے نئے امکانات کے در وا کرتا ہے۔ اہل امر کی فرمانروائی، اہل سیف کی حرب کشی، علما کی علم پروری پر تاریخی ججمنٹ لانا علم کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس سے پہلوتہی کرنا بدیہیاتِ انسانی سے اغماض، تاریخ کا انکار اور روایت سے غداری ہے۔ احترام علما کے وجوب کے ساتھ بعد میں آنے والی نسلوں پر یہ لازم ہے کہ وہ تاریخ کا دیانتدارانہ اور بے لاگ تجزیہ سامنے لانے کی کوشش کریں۔
برسبیل تذکرہ یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ جدید سیکولر دنیا میں علم کا استناد عقلی ہے اور عمل کا استناد افادی اور مادی ہے۔ ہماری دینی یا تہذیبی روایت نے علم کے عقلی استناد کو باقی رکھتے ہوئے اس کو وحی کے تابع رکھا ہے اور عمل کے استنادِ حکمی پر حرف نہیں آنے دیا۔ تہذیبی بحران میں علم اور عمل کا یہ روایتی استناد کمزور ہو کر شخصی ہو گیا ہے۔ شخصی اور روایتی استناد میں خلط مبحث کی وجہ سے ہمارا زوال مزید گہرا ہوا ہے اور فرقہ وارانہ گرد نے ہمارے تہذیبی راستے دھندلا دیے ہیں۔
[اس گفتگو کی دوسری اور آخری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔]