اشتراکیت: سرمایہ داری نظام کا ہراول- محمد دین جوہر
[نوٹ: کئی سال قبل لکھی گئی یہ تحریر اختصاری تدوین کے بعد پیش خدمت ہے۔ خدا خیر کرے ’لال لال‘ پھر بجنے لگا ہے۔ لگتا ہے اب کے ’عفریت‘ نے ’آسیب‘ کو قم کہہ کے کھڑا کیا ہے۔]
اس بھیانک عنوان پر نظر پڑتے ہی دیدوں میں ترمرے پھر جاتے ہیں، جھرجھری دوڑ جاتی ہے، اور معانی پھڑک پھڑک جاتے ہیں۔ دیوارِ جاں کی اوٹ سے اشتراکی مسیحائی خاک بسر نظر آتی ہے، اور کہیں افتادگانِ خاک کی دھول میں نگوں سار اور اٹی ہوئی۔ اشتراکیت اب اجنبی نہیں، اور تاریخ کے روبرو اس کی دزدیدہ نگاہی اور سرمایہ داری نظام کے سامنے اس کی کجکلاہی معلوم ہے۔ اشتراکیت تہذیبِ مغرب کا خانہ زاد نظریہ ہے، اور یورپ کو بقول مارکس اس آسیب (spectre) کے لپٹنے کا مدتوں دھڑکا لگا رہا۔ لیکن سرمایہ داری سے یورپ ایسا عفریت بن چکا تھا کہ آسیب بھی اس سے پناہ مانگتے تھے۔ اس عفریت کی اپینڈکس سے پیدا ہونے والا یہ آسیب جہاں جہاں اترا ہے، اسے دیکھ کر آدمی سوچتا ہے کہ کہیں اشتراکیت سرمایہ داری نظام کا ہروال ہی تو نہیں؟ اگر اشتراکیت کا نسب نامہ بھول نہ گیا ہو، اور اس کے ’کارہائے نمایاں‘ بھی یاد رہ گئے ہوں تو سچ یہی ہے، اس کی تقدیر بھی یہی ہے، اور تاریخ کا فیصلہ بھی یہی ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ مارکسی فکر ہم عصر دنیا کے نفسی، سماجی اور سیاسی علوم میں بہت گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ سرمایہ داری نظام پر گہرا اور ثقہ علمی نقد اور فکری ردعمل اشتراکیت ہی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی کی طرح، موجودہ تاریخی صورت حال میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی درست علمی تفہیم، اور اس کے خلاف فکری اور عملی مزاحمت اشتراکی فکر کے بغیر سامنے نہیں لائی جا سکتی۔ یہ بھی درست ہے کہ دنیا کے بڑے مذاہب کی علمی روایتوں کی کوکھ سے کوئی ایسی چیز برآمد نہیں ہوئی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی تفہیم اور اس کے محاکمے کے قابل ہو۔ اگر کسی مذہبی آدمی کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنے مذہب کی مرادات کو بھی حاصل کر سکتا ہے تو اسے تھوڑی دیر کے لیے اس دنیا کو اپنی حسرت اور حرص کی آنکھوں کے بجائے شعور کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مذاہب کے اوندھے ہو جانے کے بعد، سرمایہ داری نظام کے عالمگیر جبر و استحصال کے خلاف اگر انسانی ضمیر کی کوئی آواز باقی رہ گئی ہے تو اس کی نمائندگی بھی باقی ماندہ اشتراکی فکر ہی کرتی ہے۔
ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ اقبالؒ نے اشتراکیت کی بجائے اسلام کو سرمایہ داری کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ اس کی حیثیت اب صرف دعوے کی ہے۔ اقبالؒ کا یہ ایقانی مشاہدہ ایک تہذیبی امکان کی بنیاد پر تھا جسے ”عصر حاضر کے خلاف اعلان جنگ“ کو ایک تہذیبی مزاحمت کے طور پر ہی بروئے کار لایا جا سکتا تھا۔ تاریخ نے اقبالؒ کا یہ دعویٰ غلط ثابت کر دیا ہے، اور اس میں مضمر تہذیبی امکان اب مخدوش ہے، لیکن مرا نہیں۔ مسلم ذہن ابھی الوہی ہدایت کی مکتبی تفہیم میں غلطاں ہے، اور اسلام کے تہذیبی امکانات اس کے ذہن میں باقی بھی نہیں رہے۔ ہم ایسی کوئی فکر سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جو کسی مزاحمانہ تہذیبی عمل کی بنیاد بن سکے، اور جو ہماری دینی اقدار سے ہم آہنگ بھی ہو۔ گزری ہوئی جہانبانی کے ناسٹیلجیا اور حاضر و موجود دنیا کے جبر نے ہمارے قویٰ کو اس قدر مضمحل کر دیا ہے کہ کارِ جہاں بینی کی استعداد بہم نہ ہو سکی۔ اس وقت علم اور عمل میں اسلام کے جو تہذیبی مظاہر دنیا کے سامنے ہیں، ان پر صرف افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اقدارِ ہدایت کی توسیط کے علمی اور عملی مظاہر دنیا کے سامنے پیش کریں جو الحق اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی رحمت العالمینی کا مظہر ہوں۔ جدیدیت کافر گری و کافر سازی ہے، اور جدیدیت کے اثرات اس قدر گہرے ہیں کہ ہم نے اپنی دینی اقدار کو سرمایہ دارانہ نظام کو مسلسل جواز دینے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اگر تاریخ نے اقبالؒ کے دعوے کو روند ڈالا ہے تو یہ بلاوجہ نہیں کیونکہ ہم تو اقدارِ ہدایت ہی کو جدیدیت کا تابع مہمل بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اس ضروری جملۂ معترضہ کے بعد اشتراکیت کو ازسرنو دیکھنے کی کوشش ضروری ہے۔
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی وجودی عینیت
سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت دونوں مغرب کی تاریخی اور علمی روایت کا ثمر ہیں اور ان کی عروقِ فکر میں تنویری منصوبے (The -Enlightenment -Project) کے ’کارخانے‘ میں خرد کا تخلیق کردہ سفید و سفاک لہو یکساں گردش کر رہا ہے۔ سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی وجودیات (ontology) ایک ہے۔ ان کی سطح وجود ایک ہے اور مادی ہے۔ دونوں ایک ایسے تہذیبی شعور کا حاصل ہیں جس میں ماورا کے سارے روشندان بند کر دیے گئے ہیں اور ایک ایسی تاریخ کا ثمر ہیں جس کے ماورائی کواڑ میخیں ٹھونک کر پاٹ دیے گئے ہیں۔ دونوں کا تصورِ کائنات ایک ہے، ان کا تصورِ انسان ایک ہے، ان کا تصورِ اخلاق ایک ہے۔ ان دونوں کا انسان کے بنیادی سوالات کی بابت جواب ایک ہے۔ انسانی زندگی کی بدیہات پر اگر سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کا جواب ایک ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ ان دونوں نے یہ جوابات اپنے مشترک تصور حیات/ورلڈ ویو جدیدیت (Modernity) سے ورثے میں پائے ہیں۔ ان کا اختلاف معاشرے کی معاشی تشکیل اور ریاست کے مزعومہ فرائض اور سرمائے کے انتظام پر ہے۔ جدیدیت شعور و عمل کی پوری تقویم ہے۔ یہ فکر میں انکار اور عمل میں بغاوت ہے۔ سرمایہ داری نظام میں انکار پہلے ہے، اور بغاوت جلو میں ہے۔ اشتراکیت اپنی رومانوی نہاد کے باعث انکار اور بغاوت کو بیک آن سامنے لاتی ہے۔
سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کے تاریخی مظاہر میں ایک مماثلت ایسی ہے جس پر بہت کم گفتگو ہوئی ہے، اور وہ دونوں کا استعماری ہونا ہے۔ سوویت اشتراکیت نے زارِ روس کے نظامِ طاقت اور معیشت کو بالکل منہدم کر دیا، لیکن اس کے مسلم محروسات کو نہ صرف قبضے میں رکھا بلکہ ان کے روایتی مذہبی اور سماجی اسٹرکچر کو بھی فنا کر دیا۔ باقی دنیا میں استعماری محروسات جنگ عظیم دوم کے بعد آزاد ہونا شروع ہوئے لیکن وسطی ایشیا کے مسلم محروسات پر اشتراکی جبر اور ظلم کی طویل رات نوے کی دہائی کے اوائل تک باقی رہی، اور سوویت روس کے انہدام کے ساتھ وہ علاقہ جات بھی نام کی آزادی حاصل کر پائے۔ اشتراکیت کے فکری نسب اور تاریخی مظاہر کی بنیاد پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ دنیا کی مقہور و محکوم اقوام کے لیے اشتراکیت سیاسی اور تہذیبی امید کا کوئی پہلو رکھتی ہے۔
اصلاحات، انقلاب اور ریاست سرمایہ داری نظام کے پیدا کردہ تاریخی مظاہر ہیں۔ برطانوی تاریخ میں سیاسی عمل اصلاحات کی شکل میں آگے بڑھا، جبکہ فرانس کے قومی سیاسی عمل میں انقلاب کو مرکزیت حاصل ہو گئی۔ دونوں کا مقصد ریاستی مداخلت سے سرمایہ دارانہ مقاصد کو آگے بڑھانا تھا۔ اشتراکیت، اصلاحات پر یقین نہیں رکھتی، اور اس نے انقلاب اور ریاست کو اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ جدید ریاست چونکہ سرمایہ داری کے سانچے پر وجود میں آئی تھی اس لیے مارکس اس کے ازخود تحلیل ہو جانے کی رومانوی آرزومندی پر مولویانہ یقین رکھتا تھا۔
اشتراکیت سرمایہ داری کا ہراول کیوں ہے؟
جدیدیت کے اصل ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اشتراکیت نے سرمایہ داری نظام سے کہیں زیادہ جوش اور ولولہ دکھایا، اور جو کام جدیدیت نے سرمایہ دارانہ معاشروں میں صدیاں لگا کےکیا تھا، وہ اشتراکیت نے یورپ اور یورپ سے باہر کے معاشروں میں چند دہائیوں میں حاصل کر دکھایا۔ اور یہ مقصد روایت اور مذاہب کی بنیاد پر بنے ہوئے معاشروں کے اسٹرکچر کو توڑ کر فرد کو سرمائے کے قانونی اور معاشی اسٹرکچر میں لانا تھا۔ ابھی ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ مذہب ضروری ہے یا نہیں، بلکہ ہمارا مسئلہ اس سے زیادہ گہرا ہے۔ سرمایہ داری نظام کو جو معاشی انسان درکار تھا اور ہے، اس کی کچھ اساسی خصوصیات ہیں، مثلاً یہ کہ وہ بیگانگی کی تجسیم ہو تاکہ انسانی معاشرت کا مکمل خاتمہ ہو سکے، اور جو اپنی ذات کے صرف جسمی تقاضوں یعنی روٹی اور جنس کی تسکین ہی کو زندگی کا منتہائے مقصود سمجھتا ہو۔ یہی ”ابتر“ انسان صنعتی معاشرے کا آئیڈیل ہے، کیونکہ سرمایہ داری اور اشتراکی معاشرے کی سطحِ وجود ایک ہے اور دونوں میں انسان کا آدرش سیری (satiation) ہے۔ ایسا فرد جو اپنی سیلف اور انسانی معاشرت سے منقطع ہو چکا ہو اور مکمل طور پر ریاستی نظام قانون اور معاش کا متوسل ہو، سرمائے کی ارتکازی حرکیات میں ایک زبردست resource بن جاتا ہے۔ روایتی معاشرت کے مکمل خاتمے اور معاشی انسان کی تیاری اور پیداوار میں اشتراکیت نے زیادہ مستعدی (efficiency) اور سرعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ سرمایہ داری نظام نے یہ مقاصد زیادہ تر قانون سازی، تعلیم اور کلچر کے ذریعے ایک طویل تاریخی سفر میں حاصل کیے تھے اور براہ راست ریاستی جبر کو بوقت ضرورت استعمال کیا تھا۔ اس کے برعکس اشتراکیت نے یہی مقاصد براہ راست ریاستی جبر سے حاصل کیے۔
اشتراکیت کو سرمایہ داری نظام کا ہراول کہنے سے چند مرادات ہیں جن کا اول ذکر کرنا ضروری ہے:
(۱) سرمایہ داری کے اساسی ایجنڈے میں مذہبی تصورِ حیات کا جبری انخلا، مذہبی معاشرت کی فنا، کنبے کی تشکیل نو، حیات انسانی کی نئی تقویم، ایک خالص معاشی انسان کی ایجاد اور اس کی واقعاتی تیاری، تاریخ سے اقدار کی جلاوطنی، سرمایہ داری نظام سے مزاحم ہر تصور، سماجی ہیئت اور نفسی بناوٹ کی پاشیدگی سرفہرست ہیں۔ یہ سرمایہ داری نظام کے ایسے تاریخی مقاصد ہیں، جن کے حصول میں سرمایہ داری نظام کو اپنے تمام تر علمی، ثقافتی اور اقتداری وسائل کے باوجود سخت دشواریاں پیش آتی رہی ہیں۔ اشتراکیت نے اپنی سیاسی جدوجہد اور سیاسی عروج میں سرمایہ داری نظام کے ان دور رس اور طویل المیعاد تاریخی مقاصد کو حاصل کرنے میں ہمہ گیر، زبردست اور فوری کامیابی حاصل کر کے اس کو معاونت فراہم کی ہے۔ جن انسانی معاشروں سے اشتراکیت کا بلڈوزر گزر جائے، وہ سرمایہ داری نظام کے لیے مقناطیسی کشش پیدا کر لیتے ہیں، اور آخرکار اس کی گود میں آ گرتے ہیں۔ روس اور چین اس کی بڑی مثالیں ہیں۔
(۲) سرمایہ داری نظام کا ورلڈ ویو/تصورِ حیات جدیدیت ہے۔ تنویری منصوبہ (Enlightenment -Project) اس کی رسمی اور سیاسی تشکیل تھی، اور رومانویت اس کے خلاف ایک ردعمل۔ تنویری منصوبے کی اساس عقل انسانی پر رکھی گئی تھی جبکہ رومانویت مزاجِ انسانی کے انفجار (explosion) کا مظہر تھی۔ تنویری منصوبے اور رومانویت نے مغرب کے سیاسی عمل کو بالکل نئے سرے سے مرتب کیا ہے۔ اول الذکر کے سیاسی ایجنڈے میں اصلاحات (reforms) کو بنیادی حیثیت حاصل تھی جبکہ سیاسی رومانویت کا بنیادی ایجنڈا انقلاب (revolution) رہا ہے۔ رومانوی آدرش پرستی (Romantic -Idealism) اصلاً تحریک تنویر اور ثقافتی رومانویت کے امتزاج سے سامنے آئی، اور مغرب کی سیاسی تاریخ میں اس کا رول غیرمعمولی رہا ہے۔ رومانوی آدرش پرستی ایک سیاسی تصور ہے جو مذہبی معاشروں میں معاش اور سماج کے روایتی اسٹرکچر کو ایک لمحے کے لیے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا، اور اصلاحات کو لغو خیال کرتا ہے۔ مذہبی معاشروں کی روایتی ساختوں کو توڑنے کے لیے رومانویت آدرش پرستی ”انقلاب“ کو بروئے کار لاتی ہے۔ سرمایہ داری نظام روایتی معاشروں کو ”اصلاحات“ کے طویل عمل سے گزار کر جدید بنانا چاہتا تھا تاکہ جدیدیت کے ورلڈ ویو کو تاریخی حقیقت بنایا جا سکے، جبکہ رومانویت آدرش پرستی عین یہی مقاصد ایک ہی ہلے میں حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ’اصلاحات‘ اور ’انقلاب‘ جدیدیت کے دو بڑے اور بنیادی سیاسی ہتھیار ہیں جو سرمایہ پرور سیاست اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اشتراکیت چونکہ جدید سیاست کی رومانوی آدرش پرستی کا زیادہ crystallized سیاسی اظہار ہے، اس لیے انقلاب اس کے لیے کہیں زیادہ لبھاؤ رکھتا ہے۔ اگر اشتراکیت نے انقلاب کو اپنی سیاسی اور معاشی پیشقدمی کے لیے استعمال کیا ہے تو اس کا فائدہ آخر کار اور حتمی طور پر سرمایہ داری نظام ہی کو پہنچا ہے۔ سرمایہ داری نظام اشتراکی انقلابوں کا ملبہ سمیٹنے میں بہت طاق ہے۔
(۳) اشتراکیت اپنے ”سائنسی“ تجزیے اور ”تاریخی“ دعوے کے قطعی برعکس جن جن معاشروں میں اقتدار پر متمکن ہوئی وہ بنیادی طور پر زرعی، روایتی اور مذہبی معاشرے تھے۔ یہ آسیب haunt تو صنعتی یورپ کو کرتا رہا لیکن چمٹا بے خبر بچارے ہل چلانے والوں کو جا کے۔ انسانی معاشروں کی تبدیلی اور ان کی تشکیل نو میں اشتراکیت کا ایجنڈا زیادہ ریڈیکل تھا۔ اشتراکیت نے جدیدیت کے اساسی ایجنڈے کے مطابق، جس میں یہ سرمایہ داری نظام کے عین مشابہ ہے، ان معاشروں کو ایک ثقافتی اور سماجی، بلکہ درست تر معنوں میں ایک تہذیبی ریگزار بنا کر اور ایک سسکتے،کراہتے صنعتی نظام میں جکڑ باندھ کر، سرمایہ داری نظام کے لیے تیار اور پھر اس کے سپرد کر دیا۔ اشتراکیت نے سرمایہ داری نظام کے ہراول کا کام کرتے ہوئے زرعی یا نیم زرعی معاشروں کی روایتی ساخت کو مکمل طور پر توڑ دیا، اور شناختوں پر کالک پھیر دی۔ روایتی کلچر کو مکمل طور پر فنا کر دیا اور سرمایہ داری نظام کے لیے راستہ ہموار کیا۔ سرمایہ داری نظام کے بے پایاں جبر اور استحصال کے سامنے روایتی معاشروں کی ساخت جو مزاحمت کھڑی کرتی ہے اشتراکیت نے اسے یک قلم صاف کر دیا اور سرمایہ داری نظام کی آمد کا اسٹیج تیار کیا۔ چین، روس اور کسی حد تک بھارت میں سرمایہ داری نظام کی فتح اگر غور کیا جائے تو اپنے عمق اور پہنائی میں انقلاب فرانس کو پیچھے چھوڑ چکی ہے، کیونکہ اب تک تو انقلاب فرانس ہی سرمایہ داری نظام اور رومانویت آدرش پرستی کی سب سے بڑی فتح خیال کی جاتی رہی ہے۔
سرمایہ داری نظام اور مزاحمت
سرمایہ داری نظام کو اپنی تاریخ میں دو بڑی اور طویل مزاحمتوں کا سامنا ہوا۔ ایک وجودی اور سماجی تھی اور دوسری فکری اور سیاسی تھی۔ پہلے زمرے میں دنیا کے تمام مذاہب آتے ہیں، اور دوسرے زمرے میں اشتراکیت ہے۔ ایک طرح سے مذہب کی مزاحمت ’خارجی‘ اور اشتراکی مزاحمت ’داخلی‘ تھی۔ بدقسمتی سے دونوں کو سرمایہ داری کے مقابلے میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب چونکہ دونوں کا دنیا کا دیکھنے کا انداز غالب طور پر نظریاتی ہے، یعنی وہ حالات کو تبدیل کرنے کے لیے دیکھتے ہیں، سبق حاصل کرنے کے لیے نہیں، اس لیے دونوں ایک self-denial کی حالت میں ہیں، اور اپنے اوپر آنے والے تاریخی فیصلے کو تسلیم کرنے اور اس کے مضمرات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اب مذہب تقریباً صرف انفرادی اور سماجی سطح پر زندہ ہیں، اور اشتراکیت صرف سماجی اور سیاسی فکر کی سطح پر۔ اجتماعی سطح پر اقتدار ، سرمایے اور میڈیا پر مذہب اور اشتراکیت کا اختیار ختم ہو چکا ہے۔
لیکن سرمایہ داری نظام کے سامنے اشتراکیت اور مذہب دونوں کی شکست میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اشتراکیت ایک سیاسی نظریے اور آدرش کے ساتھ ساتھ جدید دینا کی حرکیات کو مکمل طور پر بیان کرنے والا علم بھی رکھتی ہے۔ مذاہب صرف سیاسی آدرش رکھتے ہیں، اور جدید دنیا کو سمجھنے والے علم سے ان کا دامن خالی ہے، یعنی مذہبی علوم موجودہ تاریخی صورت حال سے کوئی متوازیت نہیں رکھتے، جبکہ اشتراکی فکر کو یہ صلاحیت حاصل ہے۔ اس فرق ہی کا نتیجہ ہے کہ اشتراکیت اپنی مکمل سیاسی شکست میں بھی سرمایہ داری نظام کا آلہء کار نہیں بنی، جبکہ مذاہب جدیدیت اور سرمایہ داری کے سامنے اپنی مکمل تہذیبی شکست کے بعد دامے، درمے، سخنے سرمایہ داری نظام کے بہت بڑے آلۂکار بننے سے نہ بچ سکے۔ عیسائیت اور یہودیت کی تقدیر تو ہمارے سامنے ہے، اب یہی امر اسلام کے ساتھ بھی دہرایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ مذاہب اپنی روحانی صداقتوں، اخلاقی مسلمات اور تہذیبی اقدار کو ایسے علم کی صورت دینے میں ناکام رہے جس کے پیچھے چلتے چلتے جدید آدمی ان بیان کردہ حقائق تک رسائی پا سکے، اگر وہ ان کی تفہیم کی کوئی طلب اپنے اندر پاتا ہو۔ مذہبی حقائق کو صرف لامتناہی طورپر دہراتے چلے جانے سے اب کام بننے کا نہیں۔ روایتی معاشروں میں انسان ان حقائق کے براہ راست روحانی اور اخلاقی انجذاب کی صلاحیت رکھتا تھا، لیکن سرمایہ داری نظام کی میکانکی معاشرت اور مالی سیاست میں رہتے رہتے جدید انسان میں ایسی ذہنی اور نفسی تبدیلیاں در آئی ہیں کہ وہ الوہی حقائق کی فطری قبولیت کی صلاحیت باقی نہیں رکھ سکا۔
اشتراکیت: تاریخی اور فکری تناظر میں
اہل نظر واقف ہیں کہ مارکس نے جس primitive -accumulation کا ذکر کیا ہے، وہ سرمایہ داری کے ایام طفولیت تھے، اور اس عہد میں جدید ریاست نے اپنے توام سرمایہ داری کی دستگیری کے لیے زبردست کمک اور رسد کا بندوبست کیا تھا۔ تفصیلی بحث کو مؤخر کرتے ہوئے جدید ریاست کے بارے میں ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ سرمایہ داری نظام کے سانچے پر بنائی گئی ہے۔ جدید ریاست نے سرمایے کے ارتکاز کے قانونی راستے بنائے اور علم سے ان کی یاوری کی، اور معاشی ارتکاز کے بے پایاں جبر کو مستقل سیاسی جواز فراہم کیا۔ یہ جدید ریاست کا فوری مقصد تھا۔ ابتدائی دور میں جدید ریاست کی فراواں قانون سازی کا دوسرا اور دور رس مقصد یورپی معاشروں میں مذہبی معاشرت کو تحلیل کر کے فرد اور کنبے کی پرولتار سازی تھی۔ اس کا مقصد انسانی اجتماع کو معاشرت اساس سے سیاست اساس بنانا تھا، یعنی انسانی رشتے کی سماجی جہتوں کو ختم کر کے انہیں مکمل طور پر قانونی اور معاشی بنانا تھا۔ معاشرت میں گندھا ہوا آدمی سرمایہ داری نظام میں کام کے قابل نہیں ہوتا، اور روایتی مذہبی معاشرت کی فنا اور پرولتار سازی سے افراد کو ”لیبر مارکیٹ“ میں لانا ممکن ہو جاتا ہے۔ جدید ریاست کے پاس سرمائے کے ارتکاز کو قانونی کمک فراہم کرنے کا واحد راستہ جبر تھا۔ اس ابھرتے ہوئے نظام کے سامنے سیاسی مزاحمت بھی ہوئی جسے ریاست نے کچل کر رکھ دیا۔ لیکن سب سے بڑی مزاحمت وہ طرزِ حیات تھا، وہ معاشرت تھی، زندگی کا وہ انداز تھا جو مذہب نے تشکیل دیا تھا اور فرد اس معاشرت میں” گندھا“ ہوا تھا۔ یہیں پر جدید ریاست سب سے زیادہ معاون ثابت ہوئی۔ سرمایہ داری نظام نے علم کی قلمرو سے باہر مذہب پر براہ راست سیاسی حملے اور اسے بالجبر ختم کرنے سے گریز کیا ہے۔ مذہبی معاشرت کو تحلیل کرنے، انسانوں کی نفسی اور بدنی زندگی پر اپنی عملداری قائم کرنے اور سرمایہ داری نظام کو ”لنڈورا“ فرد (پرولتار) مہیا کرنے کے لیے جدید ریاست نے قانون سازی کو استعمال کیا۔ اس قانون سازی کا مقصد اس طرزِ معاشرت کو فنا کرنا تھا جو پرولتار سازی میں مزاحم تھی، اور جو ابھرتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے تحت واقع ہو رہی تھی اور اس کے پنپنے کی وجودی شرط تھی۔ جدیدیت نے مذہب کی اساس کو نئے علم سے، اور مذہب کے تابع معاشرت کو جدید ریاست نے قانون سازی سے نابود کیا۔ نئے نظام کو جو نیا انسان چاہیے تھا، وہ فراہم کرنا چونکہ ریاست کی ذمہ داری تھی، لٰہذا اس نے تعلیم اور قانون سازی کے ذریعے یہ کام سرانجام دیا۔ جدید ریاست نے اس پیشرفت میں غیرمعمولی احتیاط اور فراست کا مظاہرہ کیا اور سماج میں مذہب اور مذہب سے پیدا ہونے والی معاشرت کو بالجبر تبدیل کرنےکے لیے براہ راست ریاستی طاقت کو استعمال کرنے سے حتی الامکان گریز کیا۔ سوائے ان مواقع کے جب مجبور و مقہور عوام نے ننگے استحصال کے خلاف راست اقدام کی کوشش کی۔
یہاں اس امر کو سامنے رکھنا اشد ضروری ہے کہ جدید ریاست میں طاقت کا ارتکاز اور مسلسل نمو، اور سرمایہ داری نظام میں سرمائے کا ارتکاز اور مسلسل نمو تاریخ میں بالکل متوازی ہیں۔ اس پالیسی میں جدیدیت کی غیرمعمولی تاریخی اور انسانی فراست کو دخل ہے کہ اس نے ان دونوں اداروں، یعنی ریاست اور سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کو ایک تہذیبی التباس کی خاطر الگ الگ رکھا۔ اشتراکیت نے اپنے انقلابی جوش میں طاقت اور سرمائے کو ایک ہی ادارے میں جمع کرنے کی کوشش کی اور عدالتِ تاریخ میں اس کی روبکاری ہوئی۔ علمی طور پر انکار اور عملی طور پر التباس جدیدیت کی دو دھاری تلوار ہے، جس کا استعمال سیکھنے سے پہلے اشتراکیت نے اسے ہتھیانے کی نامرادانہ سعی کی۔ اگر مذہبی پیرائے میں بات کی جائے تو اشتراکی، جدیدیت کے خوارج ہیں۔
یہاں اس امر کا اعادہ ضروری ہے کہ سرمایہ داری نظام اور اس کا اساسی تصورِ حیات یعنی جدیدیت، مذہب فی نفسہٖ کی مطلق ضد ہے۔ جدیدیت اور مذہب کی پیکار اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک مذہب اپنے اساسی بیانات پر مداہنت اور معاشرت پر اثراندازی سے دستبردار نہ ہو جائے۔ ان آثار کے پیدا ہوتے ہی جدیدیت مذہب سے جنگ بندی کا اعلان ہی نہیں کرتی، بلکہ سراپا شیر و شکر ہو جاتی ہے اور ہارتے مذہب کو اپنی نوکری میں فوراً سے پیشتر بھرتی کر لیتی ہے۔ کیا یہ بات ہماری نظروں سے اوجھل ہے کہ جدیدیت کی پہلی جنگ عیسائیت سے ہوئی؟ اور یہ کہ جب اس جنگ میں عیسائیت نے جدیدیت کی تمام شرائط تسلیم کر لیں تو یہی مذہب مشنری تحریک بن کر استعمار میں بھرتی ہو گیا؟ اور یہ کہ استعمار کے لیے سب سے زیادہ جواز سازی بھی اسی تحریک نے مہیا کی ہے؟ افسوس کہ چنگیز کو یہ سہولت میسر نہ آئی اور آج اگر قاتلوں کی پریڈ ہو تو اس ’بونے‘ کو نگاہ کی بھیک تک نہ ملے۔ بھرتی سرمایہ داری نظام کا آفاقی طریقہ ہے۔ یہاں ہر نوع کے، ہر رنگ کے، ہر نسل کے، ہر علم کے، ہر ہنر کے، ہر مذہب کے، ہر نظریے کے، ہر زبان کے، ہر کلچر کے آدمی کو نوکری مل جاتی ہے اگر وہ چند بنیادی شرائط پوری کر دے، اور وہ شرائط عالم میں مشتہر ہیں، یہاں تک کہ اب مسلمانوں کو بھی اس کا پتہ چل گیا ہے اور وہ دین کی نئی نئی تعبیرات کے تمغے سینے پر سجا کے ہمارے والا جناب آقائے سرسید کی اقتدا میں قطاریں بنا رہے ہیں کہ ابھی نوکریوں کی دستار بندی ہونے والی ہے۔
اشتراکیت اور کیمیائے انقلاب
جدید تاریخ میں انقلاب کی کیمیا گری کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ سرمایہ داری نظام خود میں ایک تاریخی اور سماجی صورت حال ہے، اور اس کی فکری اساس جدیدیت ہے۔ سرمایہ داری نظام ایک صورت حال کے طور پر تیز تر سماجی تبدیلی کا تاریخی اسٹیج ہوتا ہے۔ سرمایہ داری نظام زمانی ڈھلوان سے لڑھکتا ہوا ایک مشینی سسٹم ہے۔ انسانی معاشرہ اس سسٹم میں ملفوف ہے۔ انسانی معاشرے کو اس سسٹم میں جو چیز ٹھونسے رکھتی ہے اس کا نام ریاست ہے۔ معاشرے کو اس نظام کے مطابق بنائے رکھنے کا کام ریاست کی ذمہ داری ہے، اور وہ یہ کام قانون سازی، تعلیم اور ثقافتِ زر سے کرتی ہے، اور جنہیں یہ اصلاحات سے سامنے لاتی ہے۔ سرمایہ داری نظام میں تبدیلی کی رفتار چونکہ فطری سے زیادہ میکانکی ہوتی ہے، اس لیے فرد اپنی نفسی حالت میں اور انسانی معاشرہ اپنی اجتماعی حالت میں اس کا ہمگام نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہی ہمگامی پیداواری سرمایے کی اولین ضرورت ہے، اور اس کے بغیر سرمایہ داری نظام زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسانی معاشرت بھلے وہ مذہبی بنیادوں پر استوار کی گئی ہو، بھلے pagan بنیادوں پر قائم کی گئی ہو، تیزتر تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کے بتدریج خاتمے کے لیے ریاست ”اصلاحات“ کے نام پر تعلیمی تبدیلیاں اور قانونی طومار سازی کا کام نہایت سرعت سے کرتی ہے۔ جس طرح قافلۂ اسیراں کے سست گام افراد کو چلانے کے لیے کوڑے برسائےجاتے ہیں اور ان کی کھال ادھڑ جاتی ہے، اسی طرح ”اصلاحات“ کے سرمایہ دارانہ کوڑے ریاستی قانون بنا کر اس کثرت اور تسلسل سے برسائے جاتے ہیں کہ ردائے معاشرت تار تار ہو جاتی ہے۔
اصلاحات کے باوجود اگر معاشرے میں تبدیلی کی رفتار سرمایہ دارانہ نظام کے اقتضا اور ضرورت کے مطابق نہ ہو تو تبدیلی کے لیے تاریخی دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس تاریخی دباؤ کا معاشرے کی سیاسی اور معاشی کایاکلپ میں ظاہر ہو جانا انقلاب ہے۔ انقلاب انسانی معاشرے کو سرمائے کی ترجیحات کے مطابق رکھنے کے لیے ایک راست اقدام ہے، جس کی بڑی مثال فرانسیسی انقلاب ہے۔ اس تناظر میں ہمارے خیال میں انقلاب فرانس سرمایہ داری نظام کی آج تک کی سب سے بڑی فتح ہے، اور یہ ایسے تاریخی حالات میں برپا ہوا جب فرانسیسی معاشرے کے سیاسی حالات اور معاشی حقائق میں ایک زبردست تفاوت پیدا ہو چکا تھا اور روایتی سیاسی اور سماجی اسٹرکچر نئی معاشی قوتوں کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ معاشی اور سیاسی حالات میں تضاد اور تفاوت انقلاب جیسی بڑی تبدیلی کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ اشتراکیت نے انقلاب کو اپنی سیاسی پالیسی کے طور پر اپنایا، اور متحدہ پرولتار کے violent سیاسی عمل سے سرمائے اور سیاسی طاقت کے وسائل پر قبضے کے راستے تلاش کیے۔
مارکس نے تاریخ کی حرکت کو ”مادی جدلیات“ کے قانون میں دریافت کیا۔ معاشرے کی معاشی طبقہ بندی اور معاشی وسائل کے لیے کشاکش تاریخ کا اصول حرکت ہے۔ کسی بھی معاشرے میں دو طبقات معاشی وسائل کے حصول اور ان پر قبضے کے لیے باہم پیکار میں ہیں، اور تاریخ مسلسل حالتِ جنگ کا نام ہے۔ تاریخ کی اصل حقیقت یہی جدلیات ہے، اور رسومیات، تصورات، نظریات، اخلاقیات، اقدار بھی اسی جنگ کا ایندھن ہیں، اور ہر مرحلۂ جنگ اپنے اختتام پر نئے تصورات، نئی رسومیات، نئی اخلاقیات، نئے نظریات ازخود پیدا کرتا ہے، جو دراصل ایک نئے مرحلۂ جنگ کا ایندھن بن جاتے ہیں، اور ترقی بھی اسی سفر کا نام ہے۔ مارکس سرمایہ داری معاشرے کے ایک خاص لمحے میں تاریخ کی واقعیت اور حرکت کے تجزیاتی عمل میں کسی آرزو، کسی آدرش، کسی تمنا، کسی قدر، کسی وہم، کسی مروت، کسی رعایت، کسی اعزاز، کسی رسم، کسی روایت، کسی تعلق، کسی خوف، کسی مفاد، کسی نظریے، کسی مابعدالطبیعیات، کسی عینیت، کسی وجدانیت، کسی موضوعیت، کسی رومانویت، کسی مذہبیت، کسی علاقائیت، کسی نسلیت، کسی لسانیت، کسی نسبیت کو ذرا بھر گنجائش دینے کے لیے بھی قطعی تیار نہیں۔ اس لیے کہ وہ تاریخی situation کو ممکنہ انسانی حد تک، اسی کے فراہم کردہ حقائق fact کے مطابق سمجھنا چاہتا ہے، اور اس کے لیے وہ اپنے ہم عصر معاشرے کے تمام علمی، فکری اور تجزیاتی لٹریچر تک رسائی کو لازم پکڑتا ہے۔ مارکس انسانی شعور میں کسی a -priori اور انسانی معاشرے میں کسی “دی گئی” روایت کو سرے سے تسلیم نہیں کرتا۔ مارکس کا خیال ہے کہ اسی معروضی اور “سائنسی” تجزیے سے نئی سیاسی اقدار اور نیا نظریہ پیدا ہو گا جو ایک نئے اور مکمل سیاسی عمل کی درست بنیاد فراہم کرے گا۔ مارکس اپنے غیرمعمولی عقلی اور ruthless فکری تجزیے کے حاصلات کو درست تو خیال کرتا ہے، لیکن اس میں انسانی آرزؤں کا کوئی سامان نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تجزیے کو لبھاؤ دینے کے لیے ایک نہایت غیر عقلی، تصوراتی اور رومانوی بات کرتا ہے، جو اس کے مہیب تجزیے کو سہارنے کی استعداد پیدا کرتی ہے۔ مارکس کے بقول مادی جدلیات کا عمل ایک دن ازخود ختم ہو جائے گا، اور تاریخ کا عمل synthesis کی صورت میں اپنی منزل مراد پر پہنچ جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانی عقل جب تجزیے کی منزل پر پہنچ جاتی ہے تو کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اور انسانی آرزؤں کے آگے سپر انداز ہو جاتی ہے۔ مادی جدلیات کے قرار پکڑنے، اور ریاست کے ازخود ختم ہو جانے کی آرزو ہی وہ حتمی synthesis ہے جو ارضی جنت کی صورت میں ظاہر ہو گی اور اشتراکیت انقلاب سے اسی کی طرف لپکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ فکر نے بھی end -of -history سے اسی جنت ارضی کے قیام کی خبر دی ہے، اور اس کا اختتامِ تاریخ بھی یہی synthesis ہے۔ جنتِ ارضی یورپ کے بگڑے اور باغی انسان کی وجودی منزل ہے، بھلے وہ اشتراکی ہو بھلے سرمایہ دار۔
اشتراکیت کے ’آسیب‘ اور سرمایہ داری کے ’عفریت‘ کی تشکیل کردہ جدید دنیا میں ہمیں اپنے ورلڈ ویو کی تہذیبی معنویت کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اول سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اس ذمہ داری کا ادراک ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟