محترم اسحاق الہندی کے سوال کے تسلسل میں۔محمد دین جوہر

 In تنقید

 

محترم اسحاق الہندی کا سوال یہ تھا:

”کیا ہندوستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان سیکولر حضرات کا یہ ”احسان“ کبھی بھلا پائیں گے کہ جب بھی مسلمانوں پر کسی بھی انتہا پسند طبقے (بشمول ہندوؤں) نے ظلم و ستم ڈھائے تو وہاں کے سیکولر حضرات ہی مسلمانوں کے انصار و اعوان بن کر سامنے آئے۔ یہاں فی الحال اس امر سے قطع نظر کر لیا جائے کہ سیکولر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ صرف اس حیثیت کو مدنظر رکھا جائے کہ سیکولر حضرات کا یہ فعل ہمیں ان کا زیر بار کرتا ہے یا نہیں؟؟؟“

یہ مسئلہ، یہ سوال اخلاقی دائرے میں اٹھایا گیا ہے۔ ہم اس کا پلو پکڑ کے اس کی منزلِ جواب تک سفر کر کے دیکھتے ہیں:

اس میں بنیادی طور پر سوال صرف ایک ہے کہ ”سیکولر [لوگ] ایسا کیوں کرتے ہیں؟“ باقی دو سوال نہیں بلکہ جواب ہیں۔ مثلاً یہ کہ ظلم و ستم کی گھڑی میں جو سیکولر لوگ مسلمانوں کے ”انصار و اعوان“ بنتے ہیں کیا مسلمان ان کا ”احسان“بھلا پائیں گے؟ کوئی اگر پاگل یا سراپا شر نہیں ہے تو اس کا جواب نفی میں نہیں دے سکتا۔ اور مذہبی اخلاقی مسلمان کے لیے تو اثبات کے علاوہ کوئی جواب قابل تصور بھی نہیں۔ یعنی مصیبت کی گھڑی میں مظلوم کے ساتھ تو ویسے بھی کوئی کھڑا نہیں ہوتا اور سیکولر لوگ جب ایسا کرتے ہیں تو نیکی کے ساتھ ساتھ وہ عزیمت کا مظاہرہ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور سیکولر لوگوں کی اعلیٰ انسانیت تو اسی امر سے واضح ہو گئی کہ مذہبی لوگوں سے مکمل اختلاف کے باوجود ان پر ظلم کی گھڑی میں ان کے ”انصار و اعوان“ بنے۔ اس دلیل کی تقدیر پر سیکولر لوگ تین بڑی خوبیوں سے متصف پائے گئے: (۱) اچھا عمل؛ (۲) عزیمت؛ اور (۳) اختلاف سے برتر اعلیٰ انسانیت۔ اور یہ اعلیٰ خوبیاں ان میں مذہب یا ہدایت سے لاتعلق رہتے ہوئے یا اس سے انکار کی حالت میں نہ صرف پیدا ہوئیں بلکہ ظاہر بھی ہو گئیں۔ اس مقدمے کو تسلیم کر لینے کے بعد سیکولرز کی ”نیکی“ اور ”احسان“ کا زیربار نہ ہونا، بد اخلاقی تو یقیناً ہے ہی، حد درجے کی بدتہذیبی بھی ہے۔ لہٰذا ہم بسر و چشم ان کے زیربار بھی ہوئے۔ اور نہ ہونے کی صورت میں انسانی گراوٹ کے سزاوار بھی ہو گئے!

اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ ”وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟“ ظاہر ہے کہ ان کی اعلیٰ اخلاقیات ان کے سیکولر تصورِ حیات کا مظہر ہے۔ گھٹیا آدمی سے اعلیٰ اخلاقی عمل سرزد نہیں ہوتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عمل کی عظمت، فکر کی بڑائی کے بغیر ظاہر ہو جائے؟ لہٰذا، سیکولرزم کی عملی عظمت کے ساتھ ساتھ اس کی فکری بڑائی بھی مبرہن ہو کر پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی۔ اس میں لطف یہ ہے کہ ہم عصر دنیا کے بارے میں یہ ساری جانکاری عین دینداری کی پاسداری سے حاصل ہوئی ہے۔ اوپر ہم نے جو بھی اخلاقی مقدمات قائم کیے ان کا جواب مذہبی تعلیمات کی روشنی میں کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔

جوابات تو سارے درست ہیں لیکن نتیجہ گڑبڑ ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ مذہبی تعلیمات کی روشنی میں سیکولر عمل کا خیر ہونا ثابت ہو گیا، ایسی خیر جو عزیمت سے متصف ہے۔ اور یہ کہ بھلا کوئی باعزیمت خیر کسی بڑی فکر کے بغیر ظاہر ہو سکتی ہے؟ اور سیکولر فکر کا کم از کم بہت اچھا لہٰذا درست ہونا بھی ازخود ثابت ہو گیا۔ سیکولر فکر جس انسانی عمل میں ظاہر ہوئی، مذہبی اخلاقیات بس اس کو حسرت سے تکتی رہتی ہے۔ درست جوابات میں سیکولر حضرات بھی مذہبی لوگوں کے ہم نوا ہوتے ہیں۔ ان درست جوابات پر اصرار کے باوجود مذہبی ذہن نتیجے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب اور مذہبی اخلاقیات سے ایک ایسے عمل اور فکر کا جواز پیدا ہو گیا جو مذہب ہی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ مذہبی ذہن نے اس کا بہت دلچسپ حل نکالا ہوا ہے، اور وہ معلوم و معروف بھی ہے۔ مثلاً روتھ فاؤ، عبدالستار ایدھی اور عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر ہم نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھا۔ ایسے وقت میں ہمیں عمل خیر بھول جاتا ہے اور ہم عقیدے کا مسئلہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ اخلاقی طرز استدلال سے مذہب کا غیرضروری ہونا خود مذہب سے واضح ہو جاتا ہے۔ یہی وہ صورت حال تھی جو اس وقت پیدا ہوئی جب نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، اور وہاں کی وزیر اعظم ایک اعلیٰ انسانی کردار میں ظاہر ہوئیں اور قریب قریب سینٹ کے درجے پر فائز ہو گئیں۔ اس صورت حال کے تجزیے میں بھی ہمارے سوال و جواب بالکل درست تھے، اور ہم درست جوابات کی سرخوشی میں ہی اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ نتائج کو دیکھ نہیں پاتے جو چپ چاپ مذہب کی جڑیں کاٹتے چلے جاتے ہیں۔ اور جب نتیجے کا خیال آتا ہے تو عقیدے کو بنیاد بنا کر مذمتی بیان دینا شروع کر دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم درست جوابات اور تباہ کن نتائج سے نکلنے کا کوئی راستہ سوچ سکتے ہیں؟

ہم نے دیکھا کہ اخلاقی پوزیشن پر کھڑے ہو کر ایسے جوابات ضرور مل جاتے ہیں جو درست ہیں، لیکن جدید دنیا کی تفہیم اور اس سے تعامل کے لیے نہایت تباہ کن نتائج رکھتے ہیں۔ جدید دنیا کے روبرو مسلمانوں کی ہر مذہبی پوزیشن کا یہی نتیجہ نکلتا ہے اور اس کا سنجیدہ تجزیہ ضروری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں قائم سیاسی طاقت اور سرمائے کے نظام کی تفہیم کا ہم نے ابھی آغاز بھی نہیں کیا ہے۔ اس نظام کے تشکیلی سیکولر افکار بھی ابھی ہماری تفہیمی گرفت سے باہر ہیں۔

ہار کی بےحیثیتی میں فرد اور معاشرے میں غم ناکی کا بڑھ جانا کوئی عیب نہیں، فطری ہے۔ لیکن غمناکی اور احساسِ الم داخلیت کو اہم اور بتدریج مضبوط بنا دیتے ہیں۔ غمناک داخلیت شعور اور ارادے پر مسلط ہو کر اسے ایک حالتِ انکار میں پختہ کر دیتی ہے، جو شکست کو ہلاکت میں بدل دیتی ہے۔ جعلی اخلاقیات اس حالتِ انکار کا واحد جواز ہوتی ہے۔ حالتِ انکار کی وجہ سے ہم روایت اور تاریخ کا انکار تو کر سکتے ہیں، ان سے زندہ تعرض کے قابل نہیں رہتے۔ اس میں کیا شک ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان سیکولر اساس رکھنے والے طاقت اور سرمائے کے ایک عالمگیر نظام کے نہ صرف victims ہیں، اس کی لوٹ مار کا شکار ہیں بلکہ اس بھیانک صورت حال کے لیے مورد الزام بھی ٹھہرائے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دنیا بھر کے کمزور معاشروں کا یہی حال ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ تاریخی اتفاقات کی وجہ سے مسلمانوں کا مسئلہ زیادہ شدید ہے۔ ستم ظریفی اس وقت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے جب ہم اس سسٹم کو سمجھنے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور ’اتفاق سے‘ ہم بھی انہی نتائج تک پہنچتے ہیں جو سسٹم کے پسندیدہ ہیں۔ ہمارے علما، دانشور، صحافی، اہل علم ہمیں یہ بتانے اور سمجھانے میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں کہ مغرب ان کے بارے میں جو کہتا ہے سچ ہی تو کہتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال ہمارے پورے مذہبی ڈسکورس کی ہے۔ سماجی اور سیاسی صورتحال کو زیر بحث لایا جائے، مغربی اداروں اور افکار کو چھوا جائے، نتائج ایسے ہی سامنے آتے ہیں۔ صحافیانہ تجزیوں میں سکہ رائج الوقت بھی یہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے شعور کو چند جونکیں چمٹ گئی ہیں جو تازہ فکری کے لہو کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیتی ہیں: مثلاً

(۱)۔ یورپ یا سیکولر معاشروں میں اسلام ہے مسلمان نہیں۔ یہاں مسلمان ہیں اسلام نہیں ہے۔

(۲)۔ یورپی یا سیکولر معاشروں نے اپنے اصول اسلام سے اخذ کیے ہیں جبکہ مسلمانوں نے انہیں فراموش کر دیا۔

(۳)۔ ہمیں اسلام صحیح طریقے پر سمجھ نہیں آیا، لیکن مغرب نے اسلام بالخصوص قرآن مجید کو ہم سے بہتر سمجھا ہے اور انہوں نے پوری سائنس اور تہذیب اسی الہامی کتاب سے اخذ کی ہے۔

(۴)۔ تاریخ اور روایت سے متعلق ہمارے تصورات بھی اسی طرح کی اخلاقی منطق سے اخذ کیے گئے ہیں کہ ہم ابھی تہبند باندھ رہے تھے کہ مغرب نے پینٹ اڑس لی تھی یا ادھر تاج محل کی فرشی رگڑائی کی گھرر گھرر ہو رہی تھی کہ ادھر آکسفورڈ کا طبل بجنے لگا تھا۔

(۵)۔ ہم یہ بھول گئے کہ دین مکمل ہدایت ہے، لیکن اس کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ڈھنڈوچی بننا کبھی نہیں بھولتے۔

(۶)۔ دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ہمارے پاس نظریات سازش بہت وافر مقدار میں فراہم ہیں۔ اخلاقی موقف اور نظریہ سازش باہم توام ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے ہاں تعلیمی، علمی، صحافتی اور مذہبی مباحث کی یہی ایک سطح ہے، اور ان پڑھ بھی اور یونی ورسٹی پروفیسر بھی انہی جونکیلے اصولوں سے ’علم‘ پیدا کرتے ہیں۔ ان ’علمی‘ حاصلات کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ اقبالؒ کا ایک شعر یاد آ جاتا ہے جسے میں ڈرتے ڈرتے درج کر رہا ہوں:

زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا
ترا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی

ہمارا ’قلب‘ حق کی حضوری چھوڑ کے دنیا کی جی حضوری پر مر مٹا تو نظر اس قابل نہ رہی کہ دنیا کو ویسے دیکھ سکے جیسے وہ ہے۔ مومن کی بصیرت سے ڈرنے کا حکمِ عام ہے لیکن ہماری بصیرتیں ایسی ہیں کہ اکثر رونا آتا ہے اور کبھی کبھی ہنسی بھی۔

ہمارے قومی شعور کی تباہی اور ہماری موجودہ ’علمی‘ صورتحال تین وجوہ سے پیدا ہوئی ہے:

(۱)۔ ہم نے اپنی بےبضاعتی میں ہدایت کو جدید علوم کی تجربی اور اثباتیاتی سطح تک گرا دیا ہے، یعنی جو چیز آدمی سے متعلق تھی اسے ہم نے شے اور واقعے کے تابع کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں، ہم نے انسان کو ہدایت کے مخاطب کی جگہ سے ہٹا کر اسے براہِ راست دنیا سے متعلق کر دیا ہے، اور اسے دنیا (معاشرہ + تاریخ) اور نیچر پر ججمنٹ کی بجائے اس کی تفہیم اور تعامل کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اس امر کا درست تر بیان یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہدایت کے روبرو ایک ہیومن ایجنسی (human-agency) بننے کی بجائے سبجیکٹ یعنی فاعل کی جگہ پر کھڑے ہو کر اپنے پورے دین کو transactional اور آلاتی بنا لیا ہے۔ اس امر نے ہدایت کی خودمختار حیثیت کو موہوم بنا دیا ہے۔ اب ہدایت ہمارا بازیچہ ہے جس پر نئے نئے تعبیراتی رنگ چڑھا کر، نئے آسنوں میں بٹھال کے ہم روز دنیا کو دکھاتے ہیں۔ اب ہم شعور میں ہدایت کے سامنے تسلیم و رضا نہیں ہیں، اس کے تعبیر کنندہ ہیں، اور محکم ارادے میں مراد ہدایت کا اظہار نہیں۔ یہ جدید علوم کا سب سے زہریلا اثر ہے جو ہمارے شعور اور حاصلاتِ شعور پرمرتب ہوا ہے۔

(۲) ہمارے ہاں اقبالؒ کے علاوہ یہ کوشش کہیں نظر نہیں آتی کہ جدید علوم کی تشکیلی شرائط اور ذرائع کو معروف معیارات پر جانچ سکیں۔ جدید دنیا کو ہم جن نیم مذہبی اور نیم ثقافتی خیالات کی ’روشنی‘ میں دیکھتے ہیں، ان کی گرفت اس قدر گہری ہے کہ ہم حالتِ انکار سے باہر ہی نہیں آ پا رہے۔ ہدایت تو اسلامی ہے لیکن ہم اپنی اس خوش فہمی کا کیا کریں کہ علم بھی اسلامی اور غیر اسلامی ہوتا ہے؟ یہ ضرور ہے کہ علم ہدایت سے مخاصمانہ یا مفاہمانہ نسبتیں لازمی رکھتا ہے۔ لیکن یہ نسبتیں بھی تو علم کے اندر رہتے ہوئے ہی متعین ہوں گی اور حصولِ علم اور مابعد علم ہی ان نسبتوں پر کوئی سوال اٹھایا جا سکے گا۔ علم کی دریوزہ گری اور صارفانہ مزاجی کو ہم نے جو شانیں عطا کی ہوئی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں۔

(۳) ہمیں یہ امر سمجھنے میں سخت دشواری چلی آتی ہے کہ حریتِ شعور کا لازمی نتیجہ انکارِ ہدایت ہے (یا نہیں؟)۔ اگر حریت کا مطلب اور نتیجہ یہی ایک ہے تو پھر جبر کسے کہیں گے؟ حریت شعور کا یہ موقف جبر پر دلالت کرتا ہے آزادی پر نہیں ہے، کیونکہ نتیجے کا لزوم جبر ہی تو ہے اور کچھ نہیں۔ اس تقدیر پر ہم نے ہدایت سے اپنے تعلق کو مکمل جبر کے بندی خانے میں مقید کیا ہوا ہے۔ حریتِ شعور اقرار و انکار دونوں کو شامل ہے۔ حریتِ شعور کی عدم موجودگی میں اقرارِ ہدایت بےمعنی ہے، یعنی اکراہ میں اثباتِ دین کا کوئی معنی نہیں۔ صرف حریت شعور کی حالت ہی میں ہدایت بامعنی اور علم ممکن ہے۔ حریتِ شعور آزاد ارادے کا ایندھن ہے۔ یہ ہماری دینی اور تہذیبی ذمہ داری ہے کہ حریت شعور اور آزاد ارادے کی ایک نئی معنویت جدید دنیا پر ظاہر کریں۔

جدید دنیا بیک وقت افراد، واقعات اور تصورات سے ایک سسٹم کی صورت میں تشکیل پانے والی دنیا ہے۔ یہ سسٹم ان افراد، واقعات اور تصورات سے منفک اور ماورا ایک ساخت اور وجود رکھتا ہے اور اپنی ایک حرکیات رکھتا ہے۔ اس حرکیات کا نام خدمتِ مغرب ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ جدید دنیا میں ’واقعہ‘ نیچرل اور تاریخی نہیں رہا۔ اب ’واقعہ‘ سسٹم کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ جدید دنیا واقعات اور تصورات کے جس سسٹم کی شکل میں سامنے آئی ہے مسلم ذہن اس کے ادراک سے خالی ہے۔ مثلاً جب ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا جمہوریت اسلامی ہے یا غیر اسلامی؟ تو اس اظہارِ دینداری میں ہم دین اور علم کی فنا کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ جمہوریت کیا ہے؟ یہ دنیا کیا ہے؟ اس دنیا پر مجھے دین کی ججمنٹ معلوم ہے لیکن یہ دنیا واقعات اور تصورات کی جو نئی نسبتیں لے کر ظاہر ہوئی ہے ہمارا ذہن اس کے ادراکی وسائل سے ابھی بہت دور ہے۔ عین یہی وہ صورت حال ہے جس میں نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کا قتل عام پس منظر میں چلا جاتا ہے، اور محترمہ وزیر اعظم کی انسان دوستی ہمیں لبھانے لگتی ہے۔ ہم شاید آج بھی یہ نہیں پوچھ سکتے کہ ان کے لہو کا کیا ہوا؟ یعنی وہ خونچکاں واقعات و مظاہر جو سیکولر اساس سسٹم پیدا کرتا ہے، اور جو ہماری غارت گری کا سبب ہیں کبھی ہماری توجہ اور تجزیے کا موضوع نہیں بنتے۔ یہ واقعات مسلسل ہیں جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے اس وقت بھی دیکھ رہے ہیں۔ سسٹم اور اس کے مظاہر کی تفہیم نظری ہے، بدیہی نہیں ہے۔ ہم کھلی آنکھوں سے ایسی چیز دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کی دید سے باہر ہے۔ اور جہاں تجزیے کی ضرورت پڑتی ہے ہم وہاں کوئی نظریۂ سازش اور مذہب کے فرجامی تصورات کو لے آتے ہیں۔ آخر الزماں کے بارے میں مذہبی تعلیمات اور پیشگوئیوں کی حیثیت ایمانی ہے، لیکن کبھی ملاحظہ فرمائیں کہ ہم نے ان کو positivist علم بنا کر کیسے کیسے فلسفے ایجاد کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

اس دراز نفسی پر معذرت لیکن یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ ’دنیا‘ علم میں نظر آتی ہے، اور ’آدمی‘ اخلاقیات میں۔ ہمارے پاس جعلی اخلاقیات کا طومار ایسا ہے کہ دنیا بھی اوجھل ہے اور آدمی بھی۔ بس ہمارا غم ایسا ہے کہ کوئی دلجوئی کے دو بول کہہ دے تو بچھ بچھ جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے ’بچھائے گئے‘ ہیں کہ ہمارا ’بچھ بچھ جانا‘ بھی اب کوئی معنی نہیں رکھتا۔

میری شیئر کردہ ویڈیو میں ہندو مہیلا اپنی گفتگو میں بابری مسجد پر آنے والے فیصلے کو کسی اخلاقی تناظر میں ہرگز زیر بحث نہیں لا رہی ہے بلکہ وہ اسے آئین اور جمہوریت کے سیاسی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بظاہر ایک مقصد بی جے پی کی فرمانروائی میں عدالتی عمل پر پیدا ہو جانے والے دباؤ اور ہندوتوا کے تحت بدلتے ہوئے سیاسی نظام کی حرکیات پر کوئی رائے دینا ہے۔ ہمیں ہر وقت جدید سسٹم کو اسلامی تیل دینے اور اس میں سے اخلاقیات برآمد کرنے کی جلدی ہوتی ہے اس لیے اپنی ارد گرد کی دنیا کے کسی پہلو کو بھی درست طور پر دیکھنے سمجھنے کی استعداد پیدا نہیں کر پاتے۔ وہی قلب و نظر کی ناپاکی! وائے افسوس!

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search