انکارِ مرگ (تحریر: تنزیلہ افضل)

 In تاثرات

انکارِ مرگ (The    denial    of    death) نامی ارنسٹ بیکر کی کتاب، جو اس وقت میرے پاس موجود ہے، اس کو انیس سو چوہتر میں پولٹزر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ یہ کتاب اس موضوع کا احاطہ کرتی ہے جس پر ہم میں سے کم لوگ ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ اور وہ موضوع ہے موت اور فنا۔ اگرچہ یہ موضوع عموماَ ترقی یافتہ معاشروں میں تقریباً غیر اہم حیثیت رکھتا ہے اور اس پر ہر ذی نفس بات کرنے سے کتراتا ہے مگر جلد یا بدیر ہر انسان کو اس حقیقت کا  سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر اوٹو رینک، کرکیگارڈ اور فرائیڈ کے کام کا عمیق تجزیہ کرتی ہے۔ ارنسٹ بیکر کی زندگی بھر کے مشاہدے اور مطالعے کا نچوڑ یہ کتاب ایک طرح سے مختلف نفسیاتی تھیوریوں کو یکجا کرنے کی کوشش ہے لیکن اس میں لکھاری کی اپنی سوچ کی جھلک بھی بار بار نظر آتی ہے۔

بیکر کی کتاب کا بنیادی تھیسس یہ ہے کہ تمام انسان فطری طور پر موت اور فنائیت کا خوف رکھتے ہیں اور ساری زندگی ایسے طریقہ کار اپناتے رہتے ہیں جس کے ذریعے سے وہ اس خوف سے مقابلہ کر سکیں اوراپنی زندگی جیتے رہیں۔ مگر یہ کتاب محض موت سے متعلق نہیں بلکہ بہت سے ایسے سوالات کا تجزیہ بھی کرتی ہے جن کے متعلق ہر باشعور انسان زندگی کے مختلف مواقع پہ سوچتا ضرور ہے۔ اس میں نفسیات، فلسفہ، تحلیلِ نفسی اور اینتھروپولوجی جیسے علوم سے مستعار لیتے ہوئے کئی پہلوؤں کو زیرِبحث لایا گیا ہے۔ یہ کتاب مشکل ضرور ہے لیکن انسانی نفسیات کا گہرائی سے مطالعہ کر کے نئے تصورات بھی سامنے لاتی ہے۔

بیکر مختلف مفکرین کے کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ Faith یعنی ایمان کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے غیر اہم، ادنیٰ ہونے اور اسکی موت اور ناتوانی کے باوجود اسکے وجود کے کچھ معنی ہیں، کیونکہ انسان کو لافانی اور غیر محدود اسکیم آف تھنگز میں بنایا گیا ہے اور انسان وہ مخلوق ہے جسے کسی تخلیقی طاقت نے کسی خاص ڈیزائن کے تحت بنایا ہے۔ 

بیکر کا کہنا ہے کہ انسان موت کے تصور سے بھاگتا ہے اور زندگی کی کشمکش کے دوران اس تصور سے جان چھڑانے کے مختلف حیلے تلاش کرتا ہے۔ یہی حقیقت ہے کہ انسان موت کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔ وہ کبھی اپنی نسل کی بقا کی صورت میں اور کبھی کوئی شہ پارہ تخلیق کر کے سمجھتا ہے کہ وہ موت کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Mother    Nature بقول مصنف فطرت  سُرخ پنجوں اور دانتوں والی ایک بے رحم بلا ہے جو ہر اس چیز کو تباہ کر دیتی ہے جسے وہ خود ہی بناتی ہے۔

انسان اسی موت کے خوف کو ختم کرنے کی کوشش میں کئی فلسفے اور ہیرو سسٹم ۔۔۔ جنہیں بیکرImmortality    Projects کا نام دیتا ہے۔۔۔ ایجاد کرتا ہے اور ان لوگوں کو جو اپنی جان فدا کرنے اور موت کو جرات مندی سے سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انسان کے لیے اس حقیقت کو ماننا بہت دشوار ہوتا ہے کہ وہ جو کہ اپنی تخلیق، شعور، خواب، خود آگاہی، خواہشات، محسوسات اور اعلیٰ ذہانت میں منفرد ہے وہ اس سب کے ہونے کے باوجود کسی کیڑے مکوڑے یا عام جاندار کی طرح ایک روز فنا ہو جائے گا اور مختلف حشرات الارض کی خوارک بن جائے گا۔ یعنی کہ اس انسان میں جس قدر صلاحیتیں موجود ہیں ان سب کے باوجود اس میں اور ہوا میں اڑتی مکھی میں کوئی فرق نہیں۔

بیکر لکھتا ہے کہ:

ایک انسان اپنی ذات میں خودمختار ہونے میں بہت سے سال گزار دیتا ہے۔ اپنی صلاحیت کی تکمیل میں، اپنے انفرادی تحفے جو فطرت نے اسے عطا کیے ہیں ان کو کامل کرنے میں، اپنی معنوی بھوک اور سمجھ کو تیز کرنے میں اور وسعت دینے میں، اور پختہ کار اور جہاندیدہ بننے میں۔۔۔ پھر آخر کار وہ ایک منفرد مخلوق ہو جاتا ہے۔ اس فطرت کے نظام میں ایک شرافت اور وقار کے ساتھ کھڑا ہوتے ہوئے وہ اپنی حیوانی سطح سے اوپر اُٹھ جاتا ہے۔ اب یہ محض جبلتوں سے تحریک پانے والا نہیں رہ جاتا۔ نہ ہی محض اضطراری عمل کے زیر آیا ہوا۔ اب اسے کسی خاص انداز میں ڈھالا نہیں جا سکتا۔

 اور پھر اس سب کے بعد ایک حقیقی المیہ واقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ اینڈرے مارکس نے کہا تھا: اس میں ساٹھ سال لگتے ہیں کہ ناقابلِ یقین کوششوں اور مصیبتوں کے بعد ایک انسان انفرادیت والا بن سکے۔۔ لیکن پھر وہ محض موت کے لیے ہی بہتر رہ جاتا ہے (یعنی کہ موت ہی اسکا انجام بن جاتی ہے)۔‘‘

یہ دردناک حقیقت اس انسان سے پوشیدہ نہیں ہوتی جو اپنی ذات سے شناسا ہو۔ وہ ناقابلِ یقین حد تک منفرد محسوس کرتا ہے۔۔۔ سب بھیڑ سے الگ۔۔۔ اور پھر وہ جانتا ہے کہ جہاں تک اختتام کی بات ہے یہ سب کامیابی کوئی خاص فرق پیدا نہیں کرتی۔۔ اس کو ایک گھاس کے ٹڈے کی طرح کے ہی انجام کا سامنا کرنا ہوگا، اگرچہ اسے اس انجام تک پہنچنے میں کچھ زیادہ وقت لگے۔

بقول مصنف یہ انکارِ موت کا سبب ہی ہے کہ انسانی معاشروں میں جنسی تصورات کو موضوعِ ممنوعہ بنا دیا گیا ہے۔کیونکہ یہ انسان کی اس حیثیت کو کہ یہ محض ایک نسل میں اضافہ کرنے والی اور تولیدی عمل والی دیگر عام جانداروں کی طرح کی ہی مخلوق ہے، اس کی اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے۔ اس لیے تمام زمانوں میں انسان کی خواہش رہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو یہ باور کروائے کہ اسکو اسکی جسمانی افعال کی حیثیت تک ہی محدود نہیں کیا جا سکتا کہ یہ محض کھانا کھانے والی اور اس کھانے پینے کو بول و براز کی صورت جسم سے باہر نکال دینے اور اپنی نسل کے تسلسل کو قائم رکھنے والی مخلوق ہے، بلکہ وہ ایک اعلیٰ ذہانت کی حامل تخلیق بھی ہے۔

یہی سبب ہے کہ معاشرے، ثقافتیں اور کئی طرح کے فلسفے اور ایجاد کیے جاتے ہیں۔ اور اسی طرح محبت سے منسلک دوسرے موضوعات کو بھی خاص اہمیت دی جاتی ہے تاکہ انسان اپنی فانی حیثیت کو بھول سکے۔

ارنسٹ بیکر محبت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محبت کی وضاحت یوں ہوتی ہے کہ یہ ایک ایسی خواہش ہے جس کے ذریعے سے ایک انسان دوسرے انسان کی اُنسیت اور قربت سے گویا ابدیت کا ذا ئقہ چکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے محبوب کو ایک طرح سے صنم بنا کر اسکی پرستش کرتا ہے۔گویا وہ اب ایک دوسرے انسان کے ذریعے سے زندہ رہے گا۔

بیکر کہتا ہے کہ اپنی فانی حیثیت کے تصور کو بھلانے کے لیے عام انسان مختلف روزمرہ کے کام تلاشتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو مصروف رکھ سکیں۔ لیکن ایک آرٹسٹ عام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے اور اپنے فن کے شاہکار کے ذریعے سے ابدیت ڈھونڈتا ہے۔

ارنسٹ بیکر کے مطابق مذہب پچھلے وقتوں میں انسان کو زندگی وموت کے تضاد سے نمٹنے کے لیے ایک جواب مہیا کرتا تھا اور ایک طرح سے اسکا مرجع تھا۔ مذہب کے افکار کے ذریعے انسان اس حقیقت کو تسلیم کرتا تھا کہ وہ ایک روز مر جائے گا اور پھر حیات کی مختلف دوسری صورتوں میں ابدیت اور لافانیت پائے گا۔ بقول مصنف ہر انسان میں ایک شدید خواہش موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے برتر کسی انسان، شخصیت یا کسی اور ماورا ہستی سے منسلک ہو سکے ۔ بچپن میں بچہ ماں باپ کی صورت میں یہ شخصیت ڈھونڈ لیتا ہے۔ لیکن ایک باشعور انسان کو کسی معبود یا دیوتا کا تصور دے کر مذہب پرانے وقتوں میں اسکی اس خواہش کی تکمیل کرتا تھا اور وہ موت کے تصور سے نمٹنے کے لیے کوئی قابلِ سمجھ جواب تلاش کر لیتا تھا۔ مگر جدید آدمی اس سے بھی محروم کر دیا گیا ہے اور بالکل بے یار و مددگار، اکیلا، تنہااور کھویا ہوا انسان بن کر رہ گیا ہے۔ شاید اسی سبب وہ ابدیت پانے کے دوسرے ذرائع تلاش کرتا ہے جن میں سے کچھ بالکل لا یعنی ہیں۔

بیکر اپنی اس کتاب میں دوسرے مصنفین کے اسقدر حوالے دیتا ہے کہ بعض دفعہ اس کے اپنے تجربات کو ان لکھاریوں کے اقوال سے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کتاب میں نفسیات کی کچھ ایسی پیچیدہ اور مشکل تھیوریوں اور نفسیاتی علاج کے طریقہ کار پر بھی گفتگو کی گئی ہے جسے سمجھنا ایک عام انسان کے لیے آسان نہیں۔ بیکر اس کتاب میں فرائیڈ کے کام اور اسکی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پہ بھی گفتگو کرتا ہے۔ لیکن فرائیڈ کے بر عکس ارنسٹ بیکر کا خیال تھا کہ انسان کی زندگی کا بنیادی محرک اسکے دبے ہوئے جنسی خیالات و خواہشات نہیں بلکہ اسکی فنائیت کا احساس ہے۔ اور انسان اپنی تقدیر سے جبھی سامنا کر سکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اس مادی دنیا سے ماورا کسی اور ہستی یا نظام کے تابع کر سکے۔

اسکے بقول ایک عام انسان اپنے آپ کو روزمرہ کی معمولی فرسودہ زندگی میں مگن کر کے اپنی فانی حیثیت کے خیال سے نجات پا سکتا ہے جب وہ کام پہ جاتا، کھانا کھاتا، شادی بیاہ کرتا، بچے پیدا کرتا اور پھر دوبارہ سے ان کو بڑا کر کے وہی سلسلہ دہراتا ہے۔

لیکن انسان حقیقت میں دو چیزوں کا مرکب ہے: ایک اسکا ظاہری جسمانی وجود اور ایک اسکا علامتی، باطنی وجود۔۔۔ اور زندگی ان دونوں کے درمیان کشمکش کا نام ہے۔ انسان کا علامتی باطنی وجود اسکے لیے زیادہ مسائل پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان باقی تخلیقات سے ممتاز اپنا مقام پائے اور اپنی انفرادیت کا اظہار کرے۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ وہ باقی مخلوق اور فطرت کے ساتھ بھی زندہ رہنا چاہتا ہے۔ یہ دونوں متصادم قسم کی خواہشات ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ انسان میں دوسروں سے منفرد ہونے کی خواہش ایک طرح سے خدائی رتبہ پانے کی خواہش ہے ۔ لیکن اسکا جسم اسے ایک عام مخلوق ہونے کی حقیقت پہ واپس لے آتا ہے۔ غالباََ اس حقیقت سے فرار پانے کی جدوجہد میں ہی و ہ ہیروئی نظام اور دیگر فلسفے ایجاد کرتا ہے کہ اگر اسکا جسمانی وجود ختم ہو جائے تو وہ روحانی طور پر کسی اور واسطے سے زندہ رہے۔

بقول بیکر ہر انسان سمجھتا ہے کہ وہ اس کائنات میں بنیادی اور سب سے اہم پوزیشن رکھتا ہے، وہ اس کائنات کا مرکز ہے۔ اور اپنے آپ کو ممتاز کرنے کے لیے وہ کئی طرح کی کوششیں کرتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کاسموس میں اسکی کوئی خاص اہمیت ہے۔ جدید انسان دنیا میں پیش آنے والے حادثات، شر اور موت و فنا کو شکست دینے کے طور پر خرید و فروخت کی کئی پیداواری چیزیں بناتا ہے اور اسطرح فوجی طاقت کا بھی اظہار کرتا ہے۔ شیطانی حدود تک جاتی اس سرکشی نے ہمیں ہٹلر اور ویت نام جنگ جیسی تباہی والی چیزیں دیں۔گویا ایک شدید غصہ تھا جو ہماری ناتوانی، ہماری حیوانی حالت کی کمزوری کی حقیقت سے انکار کے طور پر ظاہر ہوا۔۔۔گویا اپنی تخلیق کی محدودیت اور بیچارگی پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہو۔ یوں لگتا ہے کہ انسان کہنا چاہتا ہے کہ اگر ہم میں دیوتاؤں کی سی لامتناہی قدرتِ کاملہ نہیں، مگر ہم دیوتاؤں کی طرح تباہ کرنے والی صلاحیت تو رکھتے ہیں۔ 

آخر میں مذہب ہی انسان کو امید دیتا ہے۔ لیکن انسان جب مذہب کی بجائے محبت کی صورت میں ابدیت تلاش کرتا ہے تو ایک فانی وجود کی محبت میں مبتلا ہو کر اسکی اسی طرح سے پرستش شروع کر دیتا ہے جسطرح کہ ایک خدا کی کی جانی چاہیے۔ لیکن بعد میں اسکو مایوسی گھیر لیتی ہے کیونکہ ہر انسان کی الگ شخصیت، رائے اور مرضی ہوتی ہے جو کہیں نہ کہیں ہم سے متصادم ہو جاتی ہے۔ ہم جتنا بھی ایک دنیاوی محبوب کو Idealize کر لیں یا اسکی پرستش کر لیں وہ آخر میں اپنی وجودی خرابی، پستی اور نقص کا اظہار کر دے گا اور اسکے نقائص سامنے آکر ہمیں مایوسی میں مبتلا کر دیں گے۔ یہی سبب ہے کہ ہماری روزمرہ کی خاندانی زندگی میں اسقدر کڑواہٹ پائی جاتی ہے۔ ہم اپنے محبوب لوگوں کا اسطرح کا عکس دیکھ لیتے ہیں جو اس عظمت اور کاملیت سے کہیں کم ہوتا ہے جسکی ہمیں اپنی شخصیت کی نشونما میں ضرورت ہوتی ہے۔ جو بت ہم نے انسانوں کے بنائے ہوتے ہیں وہ جب مسمار ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر اکیلا پن اور خلا محسوس ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہم اپنے محبوب لوگوں پر کبھی کبھار حملہ آور ہو جاتے ہیں اور انکو انکی اصل حقیقت دکھا دیتے ہیں۔لیکن اس طرح خود بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 

مصنف نے غالباََ مغرب کی جدید زندگی کے پیٹرن کو انجانے میں دکھایا ہے، جسمیں خدا کو اپنی زندگی میں سے نکال دینے کے بعد آدمی خدائی صفات کو دوسرے انسانوں کی شخصیات میں ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے۔ جبھی ہم دیکھتے ہیں کہ اگر انسان اپنے پہلے محبوب سے مایوس ہو جائے توپھر دوسرے کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس سے خفا ہو کر پھر تیسرے، پھر چوتھے، پانچویں، چھٹے اور اسطرح زندگی کی آخری سانسوں تک ایک لامتناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے اور وہ ربّانی خصوصیات کا حامل محبوب جو بشری خامیوں سے بالکل مبرّا اور کاملیت لیے ہوئے ہو وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ بس تراشے گئے بت ٹوٹتے رہتے ہیں اور انسان کا باطن خالی رہتا ہے۔ 

بیکر کی یہ کتاب مختلف نفسیات دانوں کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے۔ بعض دفعہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ مصنف خود اپنی سوچ میں تضاد کا شکار ہے۔ مگر پھر بھی یہ کتاب اپنے قاری کے لیے نئی سوچ کے در وا کرنے میں کامیاب ٹھہری ہے۔آخر میں بیکر کا یہ خیال کہ دنیا بھر میں انسانوں  نے جو مختلف Immortality    Projects ایجاد کیے ان میں سے شاید کوئی بھی مکمل طور پہ کامیاب نہیں ٹھہرا اس لیے انسانوں کو اب الگ نظام ڈھونڈنے چاہیں۔ لیکن بیکر کی اس رائے سے کچھ لوگوں کو تو اتفاق ہو گا مگر بیشتر اس سے اختلاف بھی رکھتے ہوں گے، کیونکہ یہ ایسا جانفشانی کا کام ہے جو ہر انسان کے لیے ممکن نہیں۔ بیشتر انسان اسی  Immortality    Project  کے تحت زندگی گزار دیتے ہیں جسے وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو پیروی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، یا معاشرے جس میں وہ پیدا ہوئے ہوتے ہیں وہ معاشرہ اسے اپنائے ہوئے ہو۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search