تنظیم گردی۔ تحریر: سہراب نصیر

 In تاثرات

جدید زندگی کی تشکیل میں شاید ہی کوئی شے تنظیم (organization) جتنی ہمہ گیر اور غیر محسوس ہو۔ لیکن یہ جس قدر غیر محسوس ہے اسی قدر اثرانگیز بھی ہے۔ تنظیم محض ایک ادارتی سانچہ نہیں بلکہ ایک تدریجی پروسیس کا نام ہے جو انسانی فکر، طرزِ گفتار اور رویے کو اندر سے ڈھالتا ہے اور انسانی کا ظاہری ڈھانچہ تو وہی رہتا ہے جبکہ اندر سب بدل جاتا ہے۔ ابتدا میں انسان اپنی اخلاقی حساسیت، سماجی وابستگی اور داخلی انسانی احساسات کے ساتھ ایک ادارے میں داخل ہوتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ خود کو ایک ایسے سانچے میں ڈھلتا ہوا پاتا ہے جہاں فیصلے ضمیر کی عدالت، اخلاقی اقدار اور روایات کی بجائے پالیسی اور پروسیجر کی حدود میں کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی تنظیم میں ایک ایسی فضا موجود ہوتی ہے جہاں سوال یہ نہیں ہوتا کہ فلاں کام درست ہے یا نہیں۔ بلکہ سوال ہوتا ہے کہ فلاں کام قابلِ اجازت ہے یا نہیں۔ اور پھر یہ بھی مٹ جاتا ہے، صرف یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اس کام میں فائدہ ہے یا نہیں۔ کوئی بھی تنظیم انسانی اقدار کے منافی کوئی واضح اعلانیہ نہیں دیتی، لیکن وہ ایک ایسا ماحول (environment) فراہم کرتی ہے جہاں اخلاقی ضمیر خود بخود غیر ضروری محسوس ہونے لگتا ہے۔ زبان بدل جاتی ہے، الفاظ کا تنوع ختم ہو جاتا ہے، اور انسان کا شعور رفتہ رفتہ ایسی تنظیمی لغت میں سمٹ جاتا ہے جہاں انسان کی جگہ ہیومن ریسورس آ جاتا ہے، تعلق کی جگہ کانٹیکٹ، اور ذمہ داری کی جگہ Due process آ جاتا ہے۔ جذبات، یادداشتیں، روایات اور تعلقات کا سارا ذخیرہ ایک ایسی بیوروکریٹک زبان میں ترجمہ ہو جاتا ہے جو ظاہر میں بے ضرر ہوتی ہے، لیکن باطن میں بے حس اور غیر انسانی (مشینی) ہوتی ہے۔
پھر یہ تبدیلی کسی ایک لمحے میں نہیں ہوتی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ، چھوٹے چھوٹے فیصلوں، ردِ عمل، اور روزمرہ کی مشق سے وجود کا حصہ بن جاتی ہے۔ انسان رفتہ رفتہ سیکھتا ہے کہ کہاں خاموش رہنا ہے، کب رسمی مسکراہٹ دینی ہے، کب ایک رسمی معذرت کافی ہے، اور کب ایک انسان کو کیس (case) یا فائل سمجھ کر اس سے نمٹا جا سکتا ہے۔ یہ رویے بالآخر کردار میں ڈھل جاتے ہیں، اور ایک دن انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ ”عہدے“ کی حیثیت سے جیتا ہے، بولتا ہے، فیصلے کرتا ہے۔ یعنی اب انسان سے اہلکار کا سفر مکمل ہو جاتا ہے۔ اس عمل کے اثرات صرف ادارے کے اندر تک محدود نہیں رہتے بلکہ ذاتی زندگی تک سرایت کر جاتے ہیں۔ وقت جذبوں اور انسانی تعلقات کے لیے نہیں بلکہ مینجمنٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دوستی کا مطلب نیٹ ورکنگ بن جاتا ہے، اور راحت، سکون، خوشی بھی صرف اس حد تک معتبر ہے جہاں تک وہ productivity اور benefit کا ذریعہ بنے۔ اس صورتحال میں ضمیر اور کردار کی بجائے کارکردگی کا چارٹ حتمی معیار بن جاتا ہے۔ یعنی ہم لوگوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر جانچتے ہیں اور انھیں اپنے circle کا حصہ بناتے ہیں۔ اس پورے عمل کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس تبدیلی کا محرک کوئی واضح جبر نہیں ہوتا۔ نہ زور زبردستی ، نہ شور شرابا، نہ کوئی سزا ہوتی ہے۔ اندرونی تنظیمی ماحول ، کارکردگی کا دباؤ، اور چند کورسز ہیں جو انسان کو برضا ورغبت ایسا بنا دیتے ہیں۔ تنظیم میں عموماً فیصلوں کی ذمہ داری کسی ایک فرد پر نہیں آتی۔ ہر شخص دوسرے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور سب ایک لڑی میں پروئے ہوتے ہیں۔ ”یہ میرے بس میں نہیں“، ”یہ پالیسی کا معاملہ ہے“، ”یہ اوپر سے آیا ہے“ وغیرہ وغیرہ، یہ جملے روزمرہ کی لغت کا حصہ ہوتے ہیں۔ ظلم کسی شخص کی طرف سے نہیں، بلکہ ”سسٹم“ کے نام پر ہوتا ہے۔ اگر کسی کو نقصان پہنچتا ہے تو کسی ایک شخص کو مجرم ٹھہرانا ممکن نہیں ہوتا۔ سب نے اپنا کام ”درست“ طریقے سے اور procedure کے مطابق کیا ہوتا ہے۔ انسانیت اس پورے سسٹم میں کوئی وجود نہیں رکھتی۔ 
انسان جو کہ ایک اخلاقی وجود ہے، جو سوال کرتا ہے، رکتا ہے، اور فیصلہ کرنے سے پہلے سوچتا ہے، وہ اس نظام میں ایک غیر موزوں عنصر بن جاتا ہے۔ ایسا شخص تنظیمی عمل کو سست کر دیتا ہے، تنظیمی کارکردگی کے لیے ایک رکاوٹ بن جاتا ہے، اور نظام کی efficiency پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ایسے نظام میں درست فیصلہ لینے والا شخص قابل نہیں ہوتا، بلکہ حکم بجا لانے والا اور کارکردگی دکھانے والا شخص سب سے قابل اور مطلوب ہوتا ہے۔ نیک افسر و اہلکار وہ شخص ہوتا ہے جو سب کو ”فائدہ“ دے اور تنظیمی مطالبات کو موثر انداز میں نافذ کرے۔ انسانی ہمدردی، اخلاقی اقدار، مذہبی مطالبات، شرف انسانیت پر مبنی افعال غیر مؤثر اور غیر مطلوب ہوتے ہیں، اور ”فعل“ واحد قابلِ قدر شے قرار پاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کسی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ جدیدیت کی اس اندرونی منطق کا نتیجہ ہے جس کا مقصد انسان کو زیادہ قابلِ استعمال بنانا ہے، نہ کہ بہتر انسان۔ یوں انسان نہ جیل میں جاتا ہے، نہ اس پر جبر ہوتا ہے، اور نہ اسے محسوس ہوتا ہے، اور وہ رفتہ رفتہ اپنی انسانیت سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے، خاموشی سے، مسکراتے ہوئے، اور ترقی پا کر۔ اگر کبھی اُسے اپنے اندر کی خالی جگہ کا احساس ہوتا بھی ہے، تو وہ محسوس کرنے کی زبان ہی بھول چکا ہوتا ہے۔ وہ اب نہ رو سکتا ہے، نہ سوال کر سکتا ہے۔ وہ ایک کامیاب، باصلاحیت، لیکن اندر سے خالی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ سسٹم چلتا رہتا ہے، اور انسان ختم ہو جاتا ہے۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search