سوسن سونتاگ، ایک تعارف (تحریر:کامران فیاض)
”میں اپنا تعارف کیسے کراؤں؟ میں سوچتی بہت ہوں؟ گیت سنتی ہوں۔ اور پھولوں کی شوقین ہوں۔
مجھے اس بات کا ہرگز پچھتاوا نہیں کہ مجھے لوگوں سے میل جول پسند نہیں۔ اگر مجھے پچھتاوا ہو بھی تو وہ تنہائی کی دردناک کیفیت سے ہے۔ مگر جب میں گھر سے دنیا کو نکلتی ہوں لگتا ہے کہ میں اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو رہی ہوں۔ ایسا کہ جیسے قحبہ خانے پر پیار کی تلاش کو نکلنا ۔ یہاں تک کہ میں اپنی اس تنہائی پسندی کو اپنی سنجیدہ شخصیت کا لازمی عنصر خیال کرتی ہوں جو میرے وجود کی اخلاقی قدر کے لیے بے حد اہم ہے۔“ یہ الفاظ، خیالات اور احساسات اس لکھاری کے ہیں جس کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں۔
یہ غیر یقینی طور پر ملتان کی ایک سرد رات ہے۔ میز پر چند کتابیں اور چائے کا پیالہ رکھا ہے۔ میں ملتان کی ایک جامعہ میں موجود اپنے کمرے میں سوسن سونتاگ پر لکھنے پر بیٹھا ہوں۔ سونتاگ ایک لکھاری کے طور پر اپنے قاری سے وابستگی اختیار کر لیتی ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب کسی لکھاری کی تحریر میں موجود الفاظ اور خیالات قاری کی حساسیت کو جھنجھوڑ رہے ہوں۔ اس سے پہلے میرا ایسا تجربہ ڈی ایچ لارنس کی تحاریر کے ساتھ ہوا تھا۔ دونوں ماورائی تجربہ فراہم کرتے ہیں۔ ماورائیت، جیسا کہ سونتاگ نے کہا، صرف انسان کی ضرورت ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی صلاحیت بھی ہے۔ اس کو ہمیشہ سے مذہبی اصلاحات سے جوڑا گیا مگر جب یورپی معاشرے میں مذہبی اصلاحات نے اپنی اہمیت کھو دی تو فن (fun) اور بیماری (illness) کو ماورائیت سے جوڑ دیا گیا۔
خیال و فکر کی تشکیل میں سرگرم ، سونتاگ کہتی ہے کہ ”سوچنا“ میرے لیے زندہ رہنا ہے۔ ایک جامع شخصیت کے لیے ضروری ہے کہ آگہی کو ہر کونے سے حاصل کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں کہتی ہیں کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہمیں ہر وقت انتخاب کو فوقیت دینی چاہیے؟ ”اگر مجھ سے امریکی میوزک بینڈ The Doors اور دوستوسکی (Dostoyevsky) میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو میں ضرور دوستوسکی کا انتخاب کروں گی مگر کیا ہمیں ایسی تفریق کرنی چاہیے؟“ کیا ہمیں ہر ایک سے ربط قائم کر کے اپنے احساس کی نشونما نہیں کرنی چاہیے؟ سونتاگ کے یہاں زندگی کو جدلیاتی اظہار میں سمجھنے اور محسوس کرنے کی روایت ہے۔ اس کے یہاں مختلف انواع سے تعلق قائم کر کے سمجھنے کی لگن کی روایت ہے۔
کسی بھی دقیانوسی تصور کے بُت کو توڑنا ہو تو قاری بلاشبہ سونتاگ کی مدد لے سکتا ہے۔ زندگی ، روزگار، شوق اور جذبات کو سرمایہ دارانہ نظام میں وجودیت برقرار رکھنا، یا پھر بھگنتے کا حوصلہ اکٹھا کرنا بھی سونتاگ سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ وہ چاہے اس کے انٹرویوز ہوں یا اس کی دوسری تحاریر پڑھتے ہوئے قاری سونتاگ کے ساتھ زندگی کی کثیرالجہتی کھوج کو نکل پڑتا ہے۔ گویا زندگی کی حساسیت کا دوسرا نام سوسن سونتاگ ہے۔
مکالمہ کیا ہے اور اس کی اہمیت و ضرورت کیا ہے؟ مکالمہ (ڈائیلاگ) کسی سنجیدہ مسئلے پر گفتگو کا ایک مثبت سماجی تجربہ ہے۔ مکالمہ کی یہ قوت سونتاگ کے یہاں بھرپور نظر آتی ہے۔ ایک مذاکرہ میں سونتاگ کہتی ہیں کہ مجھے مکالمہ پسند ہے کیونکہ اس میں ہم ایک فرد کی رائے کو براہِ راست جان پاتے ہیں۔ آج کا معاشرہ مکالمہ کی روایت میں کہاں کھڑا ہے؟ ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگ اپنی رائے کو مقدم رکھ کر دوسروں کی سماجی و سیاسی شناخت سے لے کر ان کے مستقبل کا فیصلہ کر رہے ہیں اخلاقی و سیاسی طور پر کس کو جوابدہ ہیں؟ تعمیراتی و تشکیلی مزاج خود انفرادیت سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے جو معاشرہ اس روایتی مزاج کو نہیں اپناتا وہ خود کو کسی بھی سماجی نظام کو بھی جوابدہ نہیں سمجھتا۔
ویتنام پر مسلط جنگ کی مخالفت کرنے والے امریکیوں میں ایک سونتاگ بھی تھی۔ 1968ء میں شمالی ویتنامی حکومت کی دعوت پر امریکی مخالف جنگی کارکنوں کے ایک وفد کے ساتھ ہنوئی کا سفر کیا۔ سونتاگ کے بقول، ایک ایسا تجربہ جس نے شناخت، شعور کی شکلوں کا دوبارہ جائزہ لینے، ثقافت کی نفسیاتی شکلیں، ‘اخلاص’ کے معنی، زبان، اخلاقی فیصلہ، نفسیاتی اظہار پر نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کیا۔
ایک صحت مند معاشرہ لوگوں کو اپنا طرز، طور اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ سونتاگ کہتی ہے کہ اپنے آپ کو کمیونسٹ ممالک کہنے والوں کے بارے میں تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہاں ریاست فرد پر معاشرتی و سیاسی اقدار کی اجارہ داری قائم کر کے حاشیہ پر زندگی گزارنے والوں (Marginal men) کے لیے کوئی راہ فراہم نہیں کرتی۔ وہ سوال اٹھاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوکر شاہی، جابرانہ اور آمرانہ بننے کی بجائے، ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آزاد کیوں نہیں ہونے دیتے؟ ہم قدغن کیوں لگاتے ہیں؟
کیا ہمارے موجودہ ریاستی ڈھانچوں میں اتنی لچک ہے کہ وہ عوام کو ریاست کا مستقبل تعمیری معنوں میں تشکیل کرنے کی اجازت دیں؟ آئیے اسی سوال سے آغاز کر کے ”ادھورے آدمی“ ( فہمیدہ ریاض) کا ریاست میں مقام تلاش کرتے ہیں۔