سنا ہے ۔۔۔ (تحریر: محمد حامد زمان)

 In تاثرات

سنا ہے ہو بھی چکا فراقِ ظلمت و نور۔ کچھ احباب کہتے ہیں کہ وہ زمانے اچھے نہ تھے، لوگ اچھے نہ تھے، سازشی تھے، غدار تھے۔ اب سب اچھا ہے۔ راکھ کریدنے کی جستجو کاہے کو؟ کچھ دوست اب مصر ہیں کہ ہم نے سیکھ لیا اپنی خطاؤں سے۔

 چلئے مانے لیتے ہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ تاریخ پڑھنا اب شیوہِ اہل وطن نہیں۔ چلئے چھوڑیے اس بات کو کہ سات ستمبر۱۹۶۷ کو صدر ایوب (جی ہاں وہی ایوب دور جس کے کمال کے گن صاحبِ ارباب و اختیار گاہے گاہے گاتے رہتے ہیں) نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو بنگال میں ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے۔ اور اسی روز فیلڈ مارشل صاحب نے رب العزت سے اپنی ڈائری میں گلہ کیا تھا ہماری کیا بد نصیبی ہے کہ ہمارے حصے اور ہمسائے میں ہندوؤں اور بنگالیوں کو ڈال دیا ہے۔ اس سے بُرا امتزاج ناممکن ہے۔ یہ بھی جانے دیجئے کہ ہمارے نصاب کی کتابوں میں مشرقی پاکستان کے بارے میں ایک آدھا صفحہ ہوتا ہے، اس میں ایک سیدھا سا فارمولا ہوتا ہے، جس کا ماخذ ہے مکتی باہنی جمع بھارت برابر ہے بنگلہ دیش کے۔

 یہ جانتے ہوئے کہ سائنسدانوں نے ابھی ماضی میں جانے کی مشین بھی ایجاد نہیں کی، کیوں نہ وطنِ عزیز کے اس حصے میں چلیں جہاں ابھی بھی بہت سے بنگالی رہتے ہیں۔ اس آس میں کہ شاید ہو چکا ہے وصالِ منزل و گام۔ مگر یہاں تو اسی قسم کی نسل پرستی اور تعصب ہے۔ لوگ اپنی بے حسی میں ان لوگوں کے مسکن کے نام پر بھی ہنستے ہیں۔ کم علم اور بنگالی زبان سے نابلد لوگ، مچھر کالونی، جہاں لاکھوں بنگالی بستے ہیں، مچھروں کی آماج گاہ سمجھتے ہیں۔ شاید وہ ان لوگوں کو، جو پیشے کے لحاظ سے مچھیرے ہیں، مچھروں کی طرح ہی سمجھتے ہیں۔ کالونی میں آگے بڑھیں تو معلوم ہوگا کہ نصف صدی سے یہاں رہنے والے بتا بتا کر تھک گئے ہیں کہ ان کا وطن صرف پاکستان ہے، وہ محب وطن ہیں، ان میں سے اکثر تو پیدا بھی ۱۹۷۱ کے بعد ہوئے ہیں، مگر اکثر اب تک کسی بھی شہریت کے بغیر دن رات کاٹ رہے ہیں۔ نادرا والے بھی صرف ان کو غیر ملکی کارڈ  دینے کا پروگرام  ہر کچھ عرصے پر پیش کرتےہیں۔ لاکھوں لوگ اس انتظار میں ہیں کہ انہیں کوئی مکمل شہری تسلیم کر لے، ان کو انسان سمجھے، ہراساں نہ کرے، پولیس رات کو اٹھا کر نہ لے جائے،  ان کے بچے بچیوں کو سکول جانے دیا جائے، اگر بیماری لاحق ہو جائے تو علاج کی وہی سہولت دستیاب ہو جو دوسرے پاکستانیوں کو میسر ہے۔ مگر یہاں تو منزل ابھی نہیں آئی، اور لگ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں آنے والی بھی نہیں ہے۔ خوش پوش، خوش خوراک لوگ یہاں آنے سے کتراتے ہیں، اور وہی کہتے ہیں جو صدر ایوب اپنی ڈائری میں سات ستمبر کو ہی لکھ رہے تھے کہ جو لوگ اپنے آپ کو بچانا نہیں چاہتے انہیں کون بچا سکتا ہے۔ مچھر کالونی کے بارے میں میرے احباب کا بھی یہ خیال ہے، یہ لوگ ہیں ہی ایسے۔ کچھ نہیں کیا جا سکتا ان لوگوں کے لئے۔

کرونا بھی کیا چیز ہے، جہاں اس نے دنیا کے نظام کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے وہاں کچھ اپنوں کو آئینہ بھی دکھا دیا ہے۔ اسی برس یعنی ۲۰۲۱ کے آغاز میں روس میں جمناسٹکس کا ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد ہوا۔ کرونا کی وجہ سے کھلاڑی روس نہ جاسکے اور سبھی کچھ آن لائن ہوا۔ اس مقابلے میں، جس میں اقوامِ عالم کی ٹیموں نے شرکت کی تھی، پاکستان کی نوجوان لڑکیوں کی ایک ٹیم اول آئی۔ وطنِ عزیز کہ جہاں پر اس بات پر  آئے دن زور دیا جاتا ہے کہ اچھی خبریں نہیں دی جاتیں، اس خبر پر خوشی منانے والا، مبارک باد  دینے والا کوئی نہ تھا۔ وجہ صرف اتنی سی تھی کہ یہ ٹیم مچھر کالونی سے تھی۔ اور مزید دلچسب بات یہ کہ اگر مقابلہ آن لائن نہ ہوتا، تو یہ ٹیم حصہ ہی نہیں لے سکتی تھی کہ ان کے پاس نہ تو کوئی شہریت ہے، اور نہ ہی کوئی انہیں شہری بنانے اور پاسپورٹ دینے پر راضی ہے۔ شاید یہ دوبارہ بتا دینا ضروری ہو کہ ان تمام بچیوں نے اسی دیس میں آنکھیں کھولی ہیں۔ اس میں یہ امر بھی فدوی عرض کرتا چلے کہ وہ سیاسی جماعت جو کہنےکو ہر نقشِ کہن کو مٹانا چاہتی ہے، اور انسانی مساوات کی بات کرتی ہے، مچھر کالونی کے بارے میں بات ہوتے ہی اپنی انگلیاں کانوں میں گھسا لیتی ہے۔ اگر کبھی بھول کر تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے گلے شکوے پہلے بھی سننے کو مل چکے ہیں۔ وہ علاقے جہاں بنگالی رہتے تھے وہ پسماندہ تھے، وہاں پر صفائی کا نظام کمزور تھا، صحت کا اہتمام قابلِ اعتراض تھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اربابِ اقتدار انہیں برابر کا شہری تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ مگر پھر بھی رفقا کہتے ہیں کہ  بدل چکا ہے بہت اہلِ درد کا دستور۔

Recommended Posts
Comments
  • ثمینہ
    جواب دیں

    خوبصورت اور دل گداز تحریر، آبگینے جو کسی ٹھیس سے نہ ٹوٹیں وہ تاریخ کی نازک شگافیوں سے آشنا لگتے ھیں??

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search