”آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں؟“۔ تحریر: محمد دین جوہر
مجلس بپا تھی۔ کچھ شناسا، کچھ اجنبی، اہل ہنر اور اصحابِ دانش رونق افروز تھے۔ فلسفہ و فکر، شعر و ادب، سیاست و جنگ وغیرہ پر دادِ سخن چلی جاتی تھی کہ میں اجازت لے کر گھڑی بھر کے لیے اٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں آیا تو ایک صاحب نے بھانپ لیا کہ میں کس کام سے لوٹا ہوں۔ انہوں نے غمناک، مایوس اور درد مندی کے لہجے میں مجھ سے فرمایا کہ ’’آپ تو پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی ہیں، تو کیا آپ بھی یہ کام کرتے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ”ہاں بھئی آپ تو بہادر آدمی ہیں، ضروری کاموں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ کیا کروں میں ابھی تک بندہ ہونے سے جان نہیں چھڑا سکا۔ اس کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔“
ان کی بات پر مجھے کوئی پچیس سال پرانا ایک واقعہ یاد آ گیا جب اپنے شہر میں میری ملاقات اتفاقاً ایک پاکستانی اسکاٹ سے ہوئی، جو تھوڑی ہی دیر میں بے تکلف ہو گیا۔ وہ شہر میں تنہائی کا شکار تھا کیونکہ اسے اردو سمجھ بھی نہیں آتی تھی۔ اگلے ہی دن وہ میرے غریب خانے پر بن بلائے اور عین اس وقت آ دھمکا جب میں مغرب کی نماز ادا کر رہا تھا۔ وہ میرے ایک دوست کے ساتھ آیا تھا اور کمرے میں ایک جانب بیٹھ رہا۔ نماز کے بعد جب اس سے ملا تو اس نے بھی عین یہی سوال پوچھا اور کہا کہ ’’آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں، اتنی اچھی انگریزی بولتے ہیں، تو کیا آپ بھی یہ کام کرتے ہیں؟‘‘ اس کا باپ پاکستانی اور ماں اسکاٹ تھی۔ وہ اسکاٹ لینڈ میں کوئی سرکاری نوکری وغیرہ کرتا تھا اور انگریزوں کے خلاف تھا۔ اس پر دو چیزوں کا خبط ہر وقت سوار رہتا تھا اور کوئی گفتگو ان کے ذکر اور اعادے سے خالی نہ ہوتی تھی۔ ایک یہ کہ وہ قطعی مسلمان نہیں ہے، اور دوسرے یہ کہ وہ انگلش نہیں، اسکاٹ ہے۔ خیر، اس سے جہاں سیاسی، معاشی اور سماجی موضوعات زیر بحث آتے وہاں مذہب اور پاکستانی معاشرہ، یہاں کا رہن سہن اور کام کرنے کے طریقے بھی زیر بحث رہتے۔ آخر میں اس کے ساتھ دوستی ہو گئی، اگرچہ اپنی علالت اور مصروفیات کی وجہ سے میں یہ دوستی پال نہ سکا، حالانکہ واپسی پر اس کا فون اکثر آیا کرتا۔ ہمارا اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ جس طرح وہ بہت سی چیزوں کو غیر سائنسی منطق پر مانتا ہے، اسی طرح یہ اختیار ہمیں بھی حاصل ہے۔ جب وہ پاکستانی سماج کی پسماندگی پر ویسا ہی وعظ شروع کرتا جو یہاں کے روشن خیال بگھارتے ہیں، تو ہم بھی جرائمِ استعمار کی فہرست حاضر لاتے۔ بہت بدمزہ ہوتا اور پیچھے ہی پڑ جاتا کہ تم پھر اکانومسٹ کیوں پڑھتے ہو؟ عرض کرتا کہ گروہ شیاطین کی خبر رکھنا بھی ضروریاتِ ایمان سے ہے۔ خوب قہقہے لگاتا۔ ایک دن آیا تو اس نے بہت دلچسپ بات کہی کہ “میں عین مغرب کے وقت اس لیے آتا ہوں کہ آپ کو ایسا کام کرنے سے روکوں جس سے وقت ضائع ہوتا ہے! آپ اپنا وقت کسی اچھے کام پر صرف کیوں نہیں کرتے؟” میں نے اس کو مبارک باد دی اور بتایا کہ ہمارے مذہب میں شیطان کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ وہ انسان کو اچھے کام سے روکتا ہے۔ اس پر وہ بہت خوش ہوا اور بڑی دیر تک ہنستا رہا۔
یہاں مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا کہ ہمارے ایک شناسا ایک غیر مسلم ملک میں بہ سلسلۂ تعلیم مقیم تھے۔ وہاں ان کی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک سے متصل ہی انہوں نے دھڑ سے پوچھ لیا کہ ’’بھئی آپ نے اتنی لمبی ڈاڑھی کیوں چھوڑ رکھی ہے؟‘‘ ہمارے شناسا سٹ پٹا سے گئے اور کچھ تامل کیا کہ ذرا سوچ کر جواب دیتا ہوں۔ جواب میں جب کچھ توقف ہوا تو وہ کہنے لگا ’’اچھا، تو آپ کو بھی معلوم نہیں! کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں!‘‘ ہمارے دوست بھونچکے سے رہ گئے اور موضوع بدل گیا۔
آج کی دنیا ہم سے ایسے بہت سے سوالات پوچھتی ہے جو عبادات وغیرہ سے لے کر سیاسی موضوعات تک پھیلے ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کے جواب ازبر ہیں، لیکن جب ہم وہ جواب دہراتے ہیں تو یہ لوگ ہم پر ہنستے ہیں۔ ہمارے جواب معلوماتی ہوتے ہیں۔ مذہب مسلمانوں کے مابین معلومات اور ان کی استنادی روایت میں ایک مشترک موضوع ہے، اور جو آدمی ہماری روایت میں نہیں ہے، اس کے لیے یہ معلومات قابل فہم نہیں ہوتیں کیونکہ اس کی معلومات کی روایت یا فضا مختلف ہے۔ پہلا مسئلہ تو یہی پیدا ہو جاتا ہے کہ ان کو ایسا جواب کیونکر دیا جائے جو انہیں engage بھی کر سکے۔ ایسے سوالات پر ہمارے ہاں عمومی موقف یہ ہوتا ہے کہ ایمان ایک تقدیری چیز ہے اور توفیق الہی سے ملتا ہے اور جو آدمی ایسے سوالات کرتا ہے اس کے دل پر مہر ہو چکی ہے، اس لیے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی دل بھی نظر آ جاتا ہے، اور اس پر لگی ہوئی مہر بھی دکھائی دیتی ہے، لیکن وہ آدمی، اس کا سوال، بھلے وہ جہالت، سادگی یا عناد سے ہو، بالکل نظر ہی نہیں آتا، اور نہ تواصی کی اپنی ذمہ داری کی طرف دھیان جاتا ہے۔ اگر ماحول ہماری اپنی ثقافتی سطح سے بلند ہو تو ہمارا جواب گھبراہٹ اور سراسیمگی کا ہوتا ہے، اور اگر برابر یا پست ہو تو جواب جارحانہ نفرت کے اظہار سے شروع ہو کر گالم گلوچ پر ختم ہوتا ہے۔
عام طور پر ایسے سوالوں کی بنیاد مشنری خیرخواہی پر ہوتی ہے، کیونکہ جدید تعلیم یافتہ سیکولر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ پڑھ لکھ گئے ہیں، ان کی معلومات بھی زیادہ ہیں، وہ سائنس اور نئے علم کے کارناموں سے واقف ہیں یا ان کا کردار ہیں، دنیا گھومے ہوئے ہیں، معروضی اور روشن خیال ہیں، جبکہ بےچارہ مذہبی آدمی دقیانوسی ہے، جدید دنیا سے واقف نہیں ہے، متعصب اور ناسمجھ ہے، اور اسے ’’ توہمات ‘‘ سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگرچہ اب اس رویے میں تبدیلی آ گئی ہے، لیکن ایک ثقافتی احساسِ برتری ایسے لوگوں میں بہرحال موجود رہتا ہے۔ گزارش ہے کہ ایسے سوالات سے گھبرانا نہیں چاہیے، اور نہ رد عمل کا شکار ہونا چاہیے، بلکہ کسی مناسب جواب کی کوشش کرنی چاہیے۔
مجھ سے سوال یہ تھا کہ ’’آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں؟‘‘ تو مجلس میں میرے اٹھ کر نماز کے لیے جانے پر جو صاحب معترض ہوئے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ ’’آپ نے کسی معتبر علم کی بنیاد پر اس عمل کو ترک کیا ہے، اور ہم نے عین معتبر علم کی بنیاد پر اسے اختیار کیا ہے۔ ہاں، اگر معتبر علم کے ذرائع دیکھ لیے جائیں تو بات چل سکتی ہے۔ میں وعظ نہیں کروں گا، اور آپ تو ویسے ہی وعظ نہیں فرماتے اور مجھے آپ کی خیر خواہی پر بھی کوئی شک نہیں“۔ اس جواب پر انہیں حیرت ہوئی۔ جونہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اس موضوع پر پیش رفت نہیں کرنا چاہتے، یا کر نہیں سکتے، تو میں نے فوراً متبادل تجویز دی کہ ”اول یہ دیکھنا چاہیے کہ عمل انسانی کیا ہے اور ہم کوئی بھی عمل کیوں کرتے ہیں؟ عمل حیات انسانی میں becoming کا راستہ ہے۔“ جواباً ارشاد ہوا کہ کسی وقت ان موضوعات پر تفصیل سے بات کریں گے، اور ظاہر ہے وہ ”کسی وقت“ کبھی نہیں آتا۔ بس اپنی اَہوا اور نام نہاد روشن خیالی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ یعنی ایک ثقافتی رویے کو سامنے لانا ہوتا ہے اور اس سے آگے شاید ان کو اپنی بھی کوئی خبر نہیں ہوتی۔
گزارش ہے کہ اگر دنیا کو صرف تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو مذہب کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جدید انسان نے زندگی کے جو مقاصد متعین کیے ہیں ان میں کسی ایک کے حصول کے لیے بھی مذہب کی حاجت نہیں۔ یعنی جدید انسان نے اپنے شعور اور عمل کی بنیاد میں مذہب کو خارج کر کے جدید دنیا کھڑی کی ہے۔ لیکن اگر تاریخ کے اندر رہتے ہوئے یہ سوال بھی کھڑا ہو جائے کہ
What it means to be human?
تو پھر انسان کے جمع کردہ سارے علوم محض خزف ریزے ہیں۔ وہ دنیا کی تشکیلِ مسلسل اور تخریب پیہم کے لیے لازم ہیں۔ جن علوم نے آفاق کو بنیادوں تک بدل ڈالا ہے، اور عمل کی ایک ہمہ گیر میکانکی تقویم میں پوری ارض کو دھر لیا ہے، وہ انسان کی انفسی تشکیل میں کوڑی کے بھی نہیں۔ ڈجیٹل عہد میں انسان رہنے کی جدوجہد اور بھی مخدوش ہے۔ عمل صالح کو عصر حاضر کے آفاق گیر مشینی اور میکانکی عمل کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ روحانی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ان کی انسانی اور تہذیبی معنویت کو بھی سامنے لایا جا سکے۔