بخدمتِ دانشورانِ ملتِ فیسبکیہ۔تحریر: سردار عماد رازق

 In تاثرات

یوں تو میں مذمتِ دانشوری کو بھی از قبیلِ دانشوری ہی سمجھتا ہوں، البتہ کبھی کبھار ’مفادِ عامہ ‘ کے لیے اس کی ادائیگی فرضِ کفایہ ہو جاتی ہے۔ اسی فرض کی ادائیگی کے لیے یہ شذرہ رقم کر کے بستیِ فیسبک کے جملہ معقول اصحاب کو سبکدوشِ فرض کر رہا ہوں۔ قصہ معلوم و معروف ہے کہ دانشورانِ فیسبک (الا ماشاءاللہ) کو ہر چند دنوں، ہفتوں، مہینوں یا سالوں بعد فہرستِ دوستاں کی چھانٹی کا دورہ پڑتا ہے۔ یہ دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کا فرق حسبِ مرتبۂ دانشور ہوتا ہے۔ جتنا چھوٹا دانشور ہو گا اتنا ہی میلے ٹھیلے کا شائق و طالب ہو گا، جس کے لیے آئے روز و آئے ہفتے ایک آدھ ’ دھماکے دار ‘ و چوکنا کر دینے والی پوسٹ لازمی کی جائے گی۔ اس واقعۂ ’عظیم‘ پر تمام مطعون شدگانِ فہرست کسی دربار پہ منعقدہ عرس پر آمدِ مریدین کی مثل ’ حاضری ‘ دیں گے۔ اس ’حاضری‘ میں ’حضوری‘ کا عنصر بدرجۂ اتم موجود ہونا چاہیے وگرنہ ’مریدینِ سوشلستاں‘ آن کی آن میں غیضِ دانشور کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ اس کیفیتِ حضوری میں بے چارے مریدین اپنے ’پیر‘ کے حلقۂ ارادت سے نکالے جانے کے ڈر سے طرح طرح کے عذرات تراشتے اور پیش کرتے ہیں کہ مبادا اس چشمۂ فیض سے ابدی محرومی کے سزاوار نہ ٹھہریں۔ دانشور صاحب بھی کمالِ شفقت و مہربانی سے ہر ’مریدِ خاص‘ کو کہتے ہیں: ”اجی آپ نہیں!“ ۔ اس ’آپ نہیں‘ میں کبھی محذوف و کبھی ظاہری معنی یہ ہوتے ہیں کہ : ”آپ تو ہماری ہر پوسٹ پہ حاضری دیتے ہیں ۔ ’عروس‘ پہ اس لجاحت سے جھکے آتے ہیں کہ دربارِ اسکندر میں بھی کوئی کیا جھکا ہو گا۔ اکثر ہماری سکہ بند دانشورانہ معروضات پہ صاد کرتے پائے جاتے ہیں اور تبدیلیِ ذائقہ واسطے کبھی کبھار ’علمی و تحقیقی‘ اختلاف بھی کر لیتے ہیں (جو ایک آدھ کمنٹ میں نبٹ بھی جاتا ہے اور مرید قائلِ قولِ پیر ہو جاتا ہے)۔ پس آپ ایسے آ گیا کار اس یورشِ دانشوری سے محفوظ ہیں۔“ قسمِ دوم ’عظیم‘ دانشوروں کی ہوتی ہے جو ایسی پوسٹس پر بھی ردعمل دینے کی زحمت نہیں فرماتے، بس اطلاع دینا کافی جانتے ہیں کہ : فرینڈ لسٹ بھر گئی ہے (یا گوڈے گوڈے ہو گئی ہے) تو پیشتر آج رات کے اتنے ہزار سے اتنے ہزار تک لانی ضروری ہے ورنہ ’دیوارِ فیسبک‘ ریلۂ دانشوری سے ڈھے جائے گی۔ اکثر معقول لوگ تو اس ’شبستانِ دانشوری‘ سے یوں بھی دور رہتے ہیں لیکن کبھی کوئی بھولا بھٹکا ناآشنائے ’دانش‘ ان کی جناب میں پہنچ جائے تو مذکورہ فعل کے اغراض و مقاصد پوچھ بیٹھتا ہے۔ اس پہ دیے گئے چیدہ چیدہ ’جوابات‘ کچھ یوں ہوتے ہیں:(1): ہم اس پلیٹ فارم پر ہر لمحہ ملک و ملت کی بھلائی (بروزنِ تباہی) واسطے کوشاں ہیں۔ اسی مقصد عظیم کی انجام دہی کےلیے ہم دامے درمے سخنے دانشوری کرتے ہیں اور اپنی وال پہ گہر ہائے علوم و معارف کا بغرضِ افادۂ عام اشتراک کرتے رہتے ہیں۔ اب اس قدر عظیم مقصد کی راہ میں حائل ’کانٹوں‘ کو راندۂ درگاہِ دانشوری نہ کیا جائے تو کیا کِیا جائے؟ (2): لوگ فہرستِ دوستاں میں داخلہ لینے کے بعد سیرِ نیپال کو نکل لیتے ہیں جس سے ہماری حسِ توجہ طلبی کو گزند پہنچتی ہے۔ پس داخلینِ فہرست کو چاہیے کہ جس گھڑی شمولیتِ فہرست سے مشرف ہوں اس کے بعد یہیں منڈکری مار لیٹ یا بیٹھ رہیں۔ عجب نہیں کہ ان کے ایسا کرنے سے ہم دانشوران کو کوئی نیا نکتہ سوجھے جو دافعِ بلیاتِ ملت ہو؟(3): ہماری فہرست میں اتنے ہزار دوست اور اتنے ہزار پیرو (فالوورز) ہیں لیکن ردعملِ پسندیدگی دینے، تبصرے و اشتراک کرنے والے معدودے چند۔ ایسے میں ’ بارِ اضافی ‘ اٹھانا بھلا کسی دانشور کو ساجھے ہے؟ علی ھذا القیاس۔۔۔ ہمارے خیال میں متذکرہ دانشوران کو کراچی کے ایک فیسبکی ناول نگار کی طرز پہ ہر متمنیِ شمولیتِ فہرست سے انبکس میں یہ سپاٹ سوال پوچھنا چاہیے کہ: بھیا ! بعد از شمولیت ہمارا لکھا ’ باقاعدگی‘ سے پڑھو گے یا نہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو فبہا، ورنہ مسئلہ حل۔ یہاں یہ بتانا خالی از لطف نہ ہو گا کہ مذکورہ ناول نگار نے جب ناچیز سے یہ سوال پوچھا تو میں بھونچکا رہ گیا اور حالتِ متحیرہ میں یہی کہہ پایا: ’حضور لگتا ہے درخواست غلطی سے ارسال ہو گئی؛ شما چاہتا ہوں۔‘ تب کہیں جا کر خلاصی ہوئی ورنہ تو وہ شمولیت مستقل نوکریِ قرأت پہ منتج ہوتی۔ اسی طرح دانشور صاحبان کو چاہیے کہ درخواستِ دوستی قبولتے ہوئے اس بات کی خوب تحقیق فرما لیں کہ اگلا آج یا ممکنہ کل کو کسی مسئلے میں آپ سے متصادم رائے کا حامل نہ ہو۔ اس سے آئے روز ”میں فلاں اور فلاں طرز کے لوگوں کو ’بغیر بتائے ‘ بلاک یا انفرینڈ کر دیا کرتا ہوں “ والی مشقت سے بھی خلاصی ہو گی۔ اس کے علاوہ ایک اور راہ بھی ہے کہ جملہ دانشور حضرات لکھنا، یا کم از کم اس کا اشتراک کرنا بند کر دیں۔ اس سے تمام مسائل (بانس) بھی حل ہو جائیں گے اور دانشوری (بانسری، بلکہ بھینس کے آگے بجائے جانے والی بین) بھی نہ رہے گی۔ آخر الذکر حل میرے خیال سے صائب ترین ہے لیکن اسی لمحے یہ تمام مجوزہ حل بزبانِ حال پکار رہے ہیں: مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔ گویا ڈگڈگی بجانے والا یہ کام ہی ترک کر دے: ایں خیال است و محال است و جنوں!!!

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search