کورین ادب۔ تحریر: عامر منیر
پچھلے پچیس تیس سالوں سے دنیا بھر میں ایک حیرت انگیز طور پر کورین ثقافت کے لئے رغبت اور پسندیدگی بڑھ رہی ہے۔ حیرت انگیز اس لئے کہ وسیع و عریض خطوں کو متاثر کرنے والی دیگر تمام ثقافتوں انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی اور اس سے پہلے عربی، فارسی اور ترکی وغیرہ کی ثقافتی مقبولیت، ان سلطنتوں کی فتوحات کے بعد اور ان فتوحات کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی۔ حتی کہ امریکی ثقافت کی عالمگیر مقبولیت بھی بالعموم تمام یورپی قوتوں اور بالخصوص برطانیہ کے نوآبادیاتی غلبے اور نو استعماری بندوبست میں واحد سپرپاور ہونے کا ایک تجمعی (cumulative) نتیجہ ہے، یہ نام نہاد سافٹ پاور امریکہ کی ہارڈ پاور کا ہی ایک سایہ ہے۔ لیکن کورین ثقافت کے پھیلاؤ اور مقبولیت کے پیچھے ایسا کوئی سبب کارفرما نہیں، یہ غالباً دنیا کی پہلی اوریجنل سافٹ پاور ہے۔ 1990 کی دہائی کے آخری سالوں میں جنم لینے والے اس رحجان کے لئے کورین لہر Hallyu کی اصطلاح اب عام مستعمل ہے۔ یہ لہر اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں چین، جاپان اور جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک سے شروع ہوئی اور پھیلتے پھیلتے اب دنیا کے تقریباً تمام خطوں میں پہنچ چکی ہے۔ کورین پاپولر میوزک یا مختصراً کے پاپ (K-Pop) اس رغبت اور پسندیدگی کی ایک زیادہ جانی پہچانی مثال ہے، لیکن کورین ڈراما (K-Drama) اور فلمیں بھی اپنے ناظرین کے اعتبار سے اتنے ہی جانے پہچانے ہیں جتنا K-pop میوزک۔
کورین ادب اس لہر کی ایک نسبتاً کم معروف جہت ہے، لیکن کورین لہر سے راقم کا پہلا تعارف تحریری شکل میں، کورین ادب کے ذریعے ہی ہوا تھا۔ کورین افسانوں کے اردو ترجمہ پر مشتمل ایک کتاب ’’سنہری ققنس‘‘ جو ہماری ہمشیرہ نے خریدی تھی، کافی عرصہ گھر میں پڑی رہی۔ بریں بنا کہ جدید افسانہ کے نام پر لکھے جانے والے طول طویل خود کلامیوں، فلسفیانہ مباحث اور تاریک، خاموش، پژمردہ اور افسردہ مناظر کے بے ربط لفظی انباروں سے ہمارا جی اوبھتا ہے، اسے ایسا ہی کچھ جان کر ہاتھ نہ لگایا۔ ایک دن بالکل اتفاقی طور پر یہ کتاب کھولی اور ایک ورق پڑھا، دلچسپی بڑھی تو پورا افسانہ پڑھ ڈالا۔ کہانی ایسی دلچسپ اور ترجمے میں بھی اس کے مطالعہ سے ملنے والی جمالیاتی تسکین ایسی بھرپور تھی کہ ایک ایک کر باقی افسانے بھی پڑھ ڈالے اور سب کو ایسا ہی معیاری، عمدہ اور جمالیاتی لطف سے معمور پایا۔
کورین ادب کی سب سے بڑی خوبی یہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ کوریا کی سچی، بے ساختہ اور بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔
جدید اردو ادب (اور تنقید نگاری کو بھی) پڑھتے ہوئے سب سے زیادہ یہ بات کھلتی اور کھٹکتی ہے کہ اردو کا ادیب بڑی حد تک انگریزی اور پھر اشتراکی اثرات کے سبب روسی ادب کو اعلی معیار کا پیمانہ ٹھہرا کر ان پیمانوں پر پورا اترنے کی کوشش میں جٹا رہتا ہے، گویا اپنے خیالوں میں کسی سے یہ داد پانے کا خواستگار ہو کہ ارے واہ، تمہاری طبع زاد تحریر تو بالکل کسی انگریز یا روسی مصنف کی تحریر کا اردو ترجمہ معلوم ہوتی ہے، اور اس کوشش میں خواہی نخواہی تکلف و تصنع کا شکار ہو جاتا ہے۔ ’’حالی آؤ اب پیروی مغربی کریں‘‘ گویا جدید اردو ادب کا ماٹو ہے اور اس کے اثر سے کوئی اردو ادیب مامون نہیں۔ سعادت حسن منٹو اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کے بل پر اور انتظار حسین اردو داستان گوئی کی روایت کا دامن پکڑ رکھنے کے سبب، اس اثر اندازی کے دائرے میں محصور رہتے ہوئے بھی اپنی انفرادیت کسی حد تک بچا لیتے ہیں، لیکن ہر کوئی منٹو اور انتظار حسین تو نہیں ہو سکتا۔
کورین ادیبوں کو پڑھتے ہوئے ایسی کوئی کھٹک محسوس نہیں ہوتی، کوئی تکلف اور تصنع کا احساس جمالیاتی تجربے میں رخنہ انداز نہیں ہوتا۔ ان افسانوں میں کوریا پرانے دیہاتیوں جیسی بے باکی اور بے تکلفی کے ساتھ اپنا تعارف کرواتا ہے۔ بڑی بوڑھیوں کے توہمات، بچوں کی تخیلاتی دنیائیں، بڑوں کے معاشی مسائل، کورین جنگ کے سماجی زخم، ایک بدلتی ہوئی دنیا کی پیدا کردہ الجھنیں اور کوریا کے دیہاتی قصباتی مناظر، بغیر کسی روک ٹوک کے آپ کے سامنے اپنی زبان اور اپنے تناظر میں ابھرتے چلے آتے ہی، انہیں محض اپنا اظہار مقصود ہے، کسی اعلی ادبی پیمانے پر پورا اترنے کی شعوری یا لاشعوری حسرت ان کی سادگی اور بے ساختگی کو تنقیدی نظروں سے نہیں دیکھ رہی، ان کے اظہار پر قدغنیں نہیں عائد کر رہی۔
یہ بے ساختگی غالباً صرف کورین ادب ہی نہیں بلکہ دیگر فنون لطیفہ کا بھی خاصا ہے۔ مشہور زمانہ کورین ڈراما ’’سکوئڈ گیم‘‘ اور فلم ’’ٹرین ٹو بوسان‘‘ جنہیں عالمگیر شہرت ملی ہے، انہیں دیکھتے ہوئے بھی کہیں کہیں ان کی درشت raw حقیقت نگاری کھلتی تو ہے، طبعیت پر گراں گزرتی ہے، لیکن اسی بے ساختگی کا ایک حصہ ہونے کے سبب جی کو اس قدر مکدر نہیں کر دیتی کہ دیکھنے سے ہی اوبھ جائے۔ مجموعی طور پر اپنے ثقافتی اظہاریوں میں کوریا ایک ایسے دیہاتی کی مانند معلوم ہوتا ہے جس نے شہر آ کر شہریوں کے سے طور طریقے اور ان کی چال ڈھال اپنا لی ہے، لیکن اپنے اندر کی بے باک دیہاتی روح کو مرنے نہیں دیا اور پژمردہ، تھکے ماندے، تکلف و تصنع کے مارے شہریوں کے درمیان اس کی دیہاتی روح کا جاندار اور بے باک و بے ساختہ اظہار اپنے اندر ایسی انفرادیت رکھتا ہے جو دیکھنے والوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔
غالباً کورین ثقافت کی حالیہ مقبولیت کو اسی بے تکلفی اور بے ساختگی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ مغربی ادب کو اپنا قبلہ ٹھہرانے کے سبب بالعموم پس جدیدی صورت حال اور بالخصوص مغربی ثقافت کی یاسیت اور پژمردگی عالمگیر تہذیبی دھارے سے جڑی تمام ثقافتوں میں اس طرح حلول کر گئی ہے کہ جدید فارسی اور عربی ادب تک اس کے تاریک سائے سے محفوظ نہیں اور اسی مرض کا شکار معلوم ہوتے ہیں، جو اردو ادب کو بھی لاحق ہے۔ مشرق وسطی، وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا، شمالی افریقہ، زیر صحارا افریقہ، سب اس عالمگیر دھارے میں انیسویں صدی سے گتھے چلے آ رہے ہیں اور اس کے اندر مغربی غلبے سے ابھرنے والی صورت حال سے پوری طرح آلودہ، لیکن براعظم ایشیا کے انتہائی مشرقی کنارے پر اٹکا ہوا دور دراز جزیرہ نما کوریا اس دھارے میں ایک نووارد ہے اور اس میں وبا کی مانند پھیلے ان اثرات سے بڑی حد تک مامون، گو اب یہ وبائی صورت حال کورین معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، جدت کے دلدادہ اور کوریا کے ماضی کو اجڈ اور پسماندگی کا دور سمجھ کر اس پر شرمندہ ہونے والے جدید اذہان اس یاسیت اور پژمردگی کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں، لیکن کورین فنون لطیفہ گواہی دیتے ہیں کہ ہنوز کورین ثقافت کی روح نے اس وبائی صورت حال کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور اس کی انفرادیت کا اظہار اس صورت حال کے مارے یاس پرستوں کے لئے ہنوز تازہ ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی حیثیت رکھتا ہے۔
شمالی کوریا کو بجا طور پر دنیا سے کٹا ہوا، اپنے آپ میں گم ایک دور دراز ملک شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن 1980 کی دہائی تک جنوبی کوریا کی بھی یہی حالت تھی۔ کوریائی باشندوں کے بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی تھی، صرف مخصوص افراد کو ’’ضرورت کی بنیاد پر‘‘ بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت ملتی تھی، سیر و تفریح کے لئے باہر جانے کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیونکہ امریکہ کی حمایت یافتہ فوجی حکومتوں کو ڈر تھا کہ کہیں کورین باشندے بیرون ملک جا کر کمیونسٹ پراپیگنڈے کا شکار نہ ہو جائیں اور شمالی کورین حکومت کے لئے جنوبی کوریا میں مداخلت کا ذریعہ نہ بن بیٹھیں۔ ہم چین کی سرپرستی میں شمالی کوریا کے اپنے شہریوں کو مغربی اثرات سے سختی کے ساتھ الگ رکھنے کی کوششوں پر ہنستے ہیں، لیکن امریکہ کی سرپرستی میں یہی کوششیں، ایسی ہی سختی کے ساتھ جنوبی کوریا کے شہریوں پر ایک عرصہ مسلط رہی ہیں اور جنوبی کورین معاشرہ ایک عرصے تک بیرونی دنیا سے منقطع اور اپنے آپ میں گم رہا ہے۔ جنوبی کوریا میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ دن کے وقت ٹیلی ویژن نشریات پر پابندی تھی اور رات کے وقت آدھی رات کے بعد گھر سے نکلنے پر پابندی ہوا کرتی تھی۔
البتہ جنوبی کوریا کو یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ اس میں انڈسٹریلائزیشن کا پراسیس بروقت شروع ہو گیا اور امریکی سرپرستی کے سبب بڑھتا اور پھلتا پھولتا رہا اور کورین معیشت ترقی کرتی رہی۔ 1989 میں جب کمیونزم کے پھیلاؤ کا خطرہ پہلے جیسا ڈراؤنا اور شدید نہ رہا تھا، جنوبی کوریا کے باشندوں کو بیرون ملک سفر کی عام اجازت مل گئی اور کچھ ہی عرصے بعد سیاست میں فوجی دخل اندازی کے خاتمے کے بعد (پاکستانیو، سن رہے ہو؟) جنوبی کوریا نے محیر العقول تیزی سے ترقی کی اور بیرونی دنیا کے ساتھ جنوبی کورین سماج کے روابط میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ کورین ادب اور ثقافت سے ابھی تک جس حد تک تعارف ہو پایا ہے، اس کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیک وقت انڈسٹریلائزیشن کے فروغ اور باہر کی دنیا سے سماجی طور پر منقطع ہونے کی منفرد سچویشن نے بیسیویں صدی کا بیشتر حصہ پہلے جاپانی سلطنت اور پھر فوجی آمروں کے مظالم کا مقابلہ کرتے ہوئے سخت جان ہو چکی کوریا کی ثقافت میں یہ نئی روح پھونکی جو بیک وقت جدید دنیا سے مکالمہ کرنے کی اہل بھی ہے اور اپنی روایتی سادگی، بے ساختگی اور بے تکلفی کو باقی رکھنے پر قادر بھی ۔۔۔ بیرونی دنیا سے ربط قائم ہو چکنے کے بعد اس منفرد صورت حال کی پیدا کردہ اس ثقافتی روح کی بے ساختگی اور اچھوتے پن کی جانب کھنچنے اور راغب ہونے میں دنیا کو زیادہ وقت نہ لگا اور جنوبی کورین معاشرے کے بیرونی دنیا سے ربط قائم کرنے کے ایک دہائی بعد ہی کورین لہر کا آغاز ہو چکا تھا۔
یہ تمام خیالات جو کورین لہر کے مختلف مظاہر سے پالا پڑنے کے دوران مختلف سوالوں اور پھر ان کے جواب کھوجنے کی کوشش میں ابھرے، آج جنوبی کوریا کی مصنفہ ہان کانگ کو ادب کا نوبل انعام ملنے کی خبر سے مہمیز پا کر اس تحریر میں ڈھل گئے۔ ادب کا نوبل انعام مختلف عوامل کی بنا پر متنازعہ ہو جاتا ہے، لیکن میرے خیال جنوبی کوریا کو ادب کا نوبل انعام ملنا شاید ان گنی چنی مثالوں میں سے ہے جس کے درست اور برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔