خالد خان یوسف زئی کے ساتھ ایک نشست (میزبان: ڈاکٹر پرویز ہود بھائی)
نوٹ: خالد خان یوسف زئی صاحب کامسیٹس ا نسٹی ٹیوٹ برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے خود کو اس کام کے لیے مختص کر رکھا ہے کہ پاکستانی طلباء کے لیے اعلیٰ معیار کی سائنسی کتب کو اردو زبان میں تحریر کیا جائے ۔ چند روز قبل ، 26 دسمبر 2019ء کو ملک کے معروف سائنس دان جناب ڈاکٹر پرویز ہود بھائی صاحب نے خالد خان یوسف زئی صاحب کا انٹرویو کیا جو سوشل میڈیا کے توسط سے دنیا بھر میں پھیل گیا ۔یہ انٹرویو SciPak.org نامی فیس بک گروپ سے شیئر ہوا ۔ عام استفادے کی غرض سے ہمارے دوست جناب عاصم رضا صاحب نے ترجیحی بنیادوں پر اس بیش بہا گفتگو کو تحریری متن کی صورت میں ڈھالا ہے ۔
جناب خالد خان یوسف زئی صاحب کی لکھی ہوئی کتب کو درج ذیل لنک سے حاصل کیا جا سکتا ہے:
http://eacpe.org/science-education-in-urdu-by-khalid-khan-yousafzai
پرویز ہود بھائی: خالد خان یوسف زئی صاحب، آپ کامسیٹس یونیورسٹی ( Comsats University) میں پڑھاتے ہیں ۔ میں بھی فزکس (طبیعیات) پڑھاتا ہوں ۔ میں نے ابھی آپ کی ایک کتاب دیکھی electro- magnetism (برقی مقناطیسیت) پر جو اردو میں لکھی ہوئی ہے۔ اور میں اس کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا کیونکہ یہ پہلی کتاب میں نے دیکھی ہے اردو میں اس advance level)(اعلیٰ سطح) پر ہے اور جس میں غلطیاں مجھے کوئی نہیں دکھائی دیں۔ ہوں گی شاید، لیکن مجھے کوئی نہیں دکھائی دیں ۔ اور دوسری یہ کہ اس کے اندر جو فارمولے لکھے ہوئے تھے بہت خوبصورتی کے ساتھ اور مجھے ایسے لگا کہ شاید یہ پہلی دفعہ اس سطح پر ایک ایسی کتاب لکھی گئی ہے ۔ تو آپ نے کیوں لکھی؟
خالد خان یوسف زئی: ہماری ستر فیصد آبادی دیہاتی ہے اور وہ انگریزی نہیں سمجھتے ۔ تو ہم اپنے ملک کو تیس فیصد لوگوں سے چلانا چاہ رہے ہیں ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی بھی ملک میں صرف تیس فیصد آبادی ہی ڈاکٹر، انجینئر ، physicist(ماہر ِ طبیعیات) ، mathematician(ریاضی دان) بن کے ملک کوچلائیں ۔ ہم تقریباً چودہ سو سال سے عربی میں مسلمانوں کو تعلیم دینے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں ۔ لیکن مجھے پاکستان میں کوئی بھی خاندان میں کوئی بچہ عربی میں بولتے ہوئے نظر نہیں آتا ۔ تو جو تجربہ چودہ سو سال میں ہم نہیں کر سکے کامیابی سے ، ناکام ہوا ہے ، ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ وہ انگریزی سے ہم کر پائیں گے ۔
پرویز ہود بھائی: عربی ہم نہیں سیکھ سکے ، انگریزی بھی ہم نہیں سیکھ سکے ۔ لیکن آخر بہت سی کتابیں لکھی ہوئی ہیں اردو میں ۔ مختلف ٹیکسٹ بک بورڈز نے اردو میں کتابیں لکھوائی ہیں فزکس (طبیعیات) اور کیمسٹری (کیمیا) پر اور وہ انتہائی third-class (تیسرا درجہ) ہیں ۔ تو آپ نے اس سطح پر ، advance(اعلیٰ ) سطح پر کیسے اتنی اچھی کتاب لکھ لی؟
خالد خان یوسف زئی: میں یہ کہوں گا کہ ایک تو ، تقریباً آٹھویں جماعت میں جب میں تھا ، اس وقت میں نے سوچا تھا کہ میں نے کرنا کیا ہے ۔ تو اس کی back(پشت) پر بہت لمبی کوشش ہے کہ میری اپنی development(نشوونما) کہ میں اس لیول پہ پہنچوں ۔ میں نے آٹھویں جماعت میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں سائنس میں بہت آگے جانے کی کوشش کروں گا ۔ even though(اگرچہ) میں سائنس میں آگے نہیں گیا ، انجیئنرنگ میں آگے چلا گیا ۔ اور چالیس سال کی عمر میں ، میں واپس تعلیم کے میدان میں آؤں گا ۔ یہ میں نے اپنی life(حیات) کے لیے plan(منصوبہ) کیا تھا ۔ اسی منصوبے میں چلتے ہوئے تقریباً چالیس سال کے لگ بھگ ، میں تعلیم میں آیا ۔ میں نے سوچا تھا کہ چالیس سال کے وقت میں دوبارہ سوچوں گا کہ میں نے آگے کیا کرنا ہے ۔ تو جب میں (چالیس برس کو ) پہنچا، میں نے سوچا ، تو مجھے یہ مسئلہ سب سے بڑا نظر آیا کہ ہمارے ہاں میٹرک کے level (سطح ) تک کتابیں تھیں ۔ اس سے اوپر کوئی بھی خاطرخواہ کتاب نہیں تھی ۔ ایف ایسی سی کی اردو میں کوئی کتاب available (دستیاب) نہیں ہے اور اس سے اوپر بھی سائنس میں مجھے کوئی کتاب نظر نہیں آئی ۔ Quantum Mechanics(قدری میکانیات) پر غالباً چند کتابیں ہیں لیکن سیریز نہیں ہے ۔ ایک کتاب سے قوم کو کوئی فرق نہیں پڑ سکتا جب تک کہ ایک ڈگری ، مکمل ڈگری کی ساری نصابی کتب موجود نہ ہوں ۔
پرویز ہود بھائی: لیکن اُس میں مشکل یہ ہے کہ اردو زبان میں وہ اصطلاحات نہیں ہیں ، وہ الفاظ نہیں ہیں جو ایک ترقی یافتہ زبان میں ہوتے ہیں جیسے ، چلئے انگریزی نہیں ، تو فرانسیسی ، جرمن ، اطالوی ۔ ان (زبانوں ) میں تو سائنسی تعلیم دینا کوئی بڑا کمال ہے نہیں ۔ لیکن اردو زبان میں ، میں سمجھتا ہوں کہ شاید اس سطح پر آپ کی پہلی کوشش ہے تو اصطلاحات کیا آپ نے خود ایجاد کیں ، بنائیں ؟ کیا ، کیا آپ نے؟
خالد خان یوسف زئی: مجھے آٹھ سال تقریباٍ ً اسی سوال پر لگے ۔ میں آٹھ سال لگاتار کوشش کرتا گیا کہ میں electro-magnetics(برقی مقناطیسیت) کی کتاب، یہ میری favorite(پسندیدہ ) تھی ، تو میں اسی پہ attempts(کاوشیں ) کرتا تھا ۔ اور مجھ سے نہیں لکھی جاتی تھی ۔ وجہ یہی تھی جو آپ نے بتائی (یعنی اصطلاحات کا مسئلہ ) ۔ آٹھ سال کے تجربے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ نہیں ، وہ میری کمزوری تھی ۔ اصطلاحات کا قطعاً کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ سو سال پہلے یا دو سو سال پہلے جرمنی میں کچھ چیزیں ایجاد ہوتی تھیں ، وہ ان کے نام رکھتے تھے ۔ برطانیہ میں کوئی چیز ایجاد ہوتی تھی ، وہ اس کا نام رکھتے تھے ۔ لیکن وہ آپس میں چیزیں چلتی نہیں تھیں ۔ تو ان قوموں نے بیٹھ کے کوئی بنیادی اصول بنائے کہ اچھا ، زبان مختلف ہو سکتی ہیں مگر جب ہم کوئی چیز ایجاد کریں تو وہ Information(معلومات) جوں کی توں ایک دم دوسری قوم استعمال کر سکے ۔ اس کو انہوں نے نام دیا SI Units(System International Units)۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر Ampere ہے تو اس کو اردو میں ’’ایم پیئر‘‘ ہی کہیں گے ، اس کو انگلش میں بھی Ampere کہیں گے ، اس کو روسی زبان میں بھی Ampere ہی کہیں گے ۔ یہ اصطلاح change(تبدیل) نہیں ہو گی ۔ اب Ampere جوہے ، یہ ناں انگریزی کا لفظ ہے ، نہ جرمنی کا لفظ ہے ۔ یہ ایک سائنس دان کا نام ہے ۔ تو انہوں نے بنیاد اس پہ رکھا کہ جھگڑا نہ کھڑا ہو۔ میرا بیٹا ہے ، میں اس کا نام زریاب رکھتاہوں ، دنیا میں کسی کو اس پہ کوئی اختلاف کبھی پیدا نہیں ہو گا کہ اس کا نام زریاب کیوں ہے ۔ تو جس سائنس دان نے کسی چیز میں کام کیا ہے ، اگر اس سائنس دان کے نام سے منسوب کر دیا جائے تو کسی دوسری قوم کو اس پہ کوئی اعتراض نہیں ہوتا کہ یہ دوسری قوم کا نام ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ الفاظ ایسے ہیں جو اصطلاحات نہیں ہیں مثلاًٹرانسفارمر ۔ اب ٹرانسفارمر کو ہم اصطلاح نہیں کہیں گے ۔ میری والدہ ہیں ، چٹی ان پڑھ ہیں ، اگر میں انہیں کہوں کہ بجلی نہیں ہے کہ ٹرانسفارمر سڑ(جل) گیا ہے ، ان کو سمجھ آ جاتی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹرانسفارمر(کا لفظ) اب اردو، پنجابی ، پشتو کا حصہ ہے ۔ تو میں اس طریقے سے کام کر رہا ہوں ۔ ایک چیز اور۔ میٹرک کے level(سطح) پر عموماً اصطلاحات ، وہ آ جاتی ہیں استعمال میں ۔ میٹرک میں جو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں ، میں نے وہ استعمال کی ہیں ۔اور مجھے بہت کم اصطلاحات اضافی استعمال کرنی پڑی ہیں ۔
پرویز ہود بھائی: جب میں نے آپ کی کتا بوں کے کچھ صفحے پلٹے ۔ اب وہ چھپی تو نہیں ہیں آپ کی کتابیں ۔ وہ انٹرنیٹ پر ہیں اور ہر ایک کے لیے مفت دستیاب ہیں اور یہ بڑی خوبصورت بات ہے کہ آپ نے یہ ساری محنت پیسہ کمانے کے لیے نہیں کی ۔
خالد خا ن یوسف زئی : قطعاً (پیسہ کمانے کے لیے ) نہیں ۔
پرویز ہود بھائی: لیکن ایک خدمت آپ نے کی ہے سب کی ۔ مجھے تو کئی ایسی اصطلاحات ، نئی اصطلاحات اس (کتاب میں ) نظر آئیں جن کو دیکھ کر میرا دل بھی خوش ہوا کہ آخر جب ہم ایک زبان بولتے ہیں یا پڑھتے ہیں تو اس میں غیر زبان کی ملاوٹ کم سے کم ہونی چاہیے ۔ اور غالباً آپ نے اِس کا خیال رکھا ہے ۔
خالد خان یوسف زئی: جی ، جی ۔
پرویز ہود بھائی: پھر بھی آپ نے جگہ جگہ دوسرے الفاظ اردو کے اندر کھینچ کر رکھے ہیں ، لا کر رکھے ہیں ۔ مجھے یہ بات بہت پسند آئی ۔ لیکن کچھ الفاظ تو پھر بھی بڑے مشکل ہیں جو نامانوس ہیں ۔
خالد خان یوسف زئی: میں یہاں کچھ اور کہنا چاہوں گا ۔ یہ کتاب چونکہ میں students(طلباء) کے سامنے رکھتا ہوں تو میرے پاس ایک بہت stream(ذخیرہ) بن جاتی ہے جہاں سے اصطلاحات مجھ تک پہنچتی ہیں ۔ کوئی بھی لفظ آئے مثلاً capacitor کا لفظ آیا ، مثلاً charge کا لفظ آیا ، تو میں نے اس کو کہا ، ’’چارج‘‘ ۔ اب چھ سال سے میں اس کو ’’چارج‘‘ کہتا آ رہا ہوں لیکن مجھے ’’برقی بار‘‘ کا نہیں پتہ تھا ۔ پچھلی مرتبہ آپ سے میٹنگ ہوئی تو آپ نے مجھے بتایا کہ اس کے لیے تو ’’برقی بار‘‘ کا لفظ already(پہلے ہی سے) موجود ہے ۔ تو وہ مجھے معلوم نہیں تھا ، لفظ تو تھا اور بہت ہی پیارا لفظ تھا ۔ تو میں نے پچھلے چھ سال کی تمام جگہوں میں اس کو تبدیل کر کے ’’برقی بار‘‘ کر دیا ۔
پرویز ہود بھائی : واہ !
خالد خان یوسف زئی: تو مجھے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اگر میں کسی Taxi(کرائے کی کار) میں بیٹھوں تو میں جب بات کرتا ہوں تو میں کتاب پر ہی بات کرتا ہوں ۔ تو Taxi Driver(کار چلانے والا) بھی مجھے کچھ Points(نکات) دے دیتا ہے ۔ میں مارکیٹ جاؤں تو میں انہیں کہتا ہوں ۔ (ایک مثال ہے کہ ایک دفعہ ) ٹرانسفارمر کی core (پتری) پڑی تھی ۔ میں نے کہا ، یہ کیا چیز ہے ۔(جواب میں ) وہ کہتے ہیں ، یہ ٹرانسفارمر کی ’’پتری‘‘ ہے ۔ تو میں نے کہا ، اچھا ! اس کا مطلب ہے کہ اس کا نام تو ہے ۔ ہم پڑھے لکھوں کو شاید نہ پتہ ہو لیکن ہماری زبان میں ۔۔۔۔(لفظ تو ہے )
پرویز ہود بھائی: (اشارے سے دریافت کرتے ہوئے) وہ ٹرانسفارمر کی پلیٹیں ؟؟
خالد خان یوسف زئی: جی، ان کو ’’پتری‘‘ کہتے ہیں ۔
پرویز ہود بھائی: بالکل ، بالکل ٹھیک ہے ۔
خالد خان یوسف زئی: اسی طرح magnet ہے تو ’مقناطیس‘ ہے ۔ عموماً اصطلاحات ہیں ۔ dot-product کی اصطلاح نہیں ہے ، cross-product کی اصطلاح نہیں ہے ، curl-divergence کی اصطلاح نہیں ہے ۔لیکن اس میں جو بہت ہی دلچسپ بات ہے ۔ پوری کتاب میں سب سے زیادہ feedback جو مجھے لوگوں سے ملی ہے ، وہ curl-divergence اور ان اصطلاحات کی آئی ہے جو میں نے چنی تھیں ۔ وہ اصطلاحات میں نے نہیں چنی تھیں ۔ میری wife(زوجہ) ہیں جنھوں نے سائنس نہیں پڑھی ۔ میں نے ان کے سامنے سوال رکھا کہ سائنس میں یہ ایک مسئلہ آ گیا ہے ، اس کا کریں کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ cross-product کو آپ ’’صلیبی ضرب‘‘ کیوں نہیں کہہ دیتے !
پرویز ہود بھائی: ’’صلیبی ضرب‘‘ ، بہت اچھا ہے ۔
خالد خان یوسف زئی: آپ dot-product کو ’’نقطہ ضرب‘‘ کیوں نہیں کہہ دیتے ! تو مجھ سب سے زیادہ جو feedback آئی ، positive(مثبت )، وہ ان اصطلاحات پہ آئی ۔ اور وہ مجھے غیر سائنسی جگہوں سے حاصل ہوئی ۔
پرویز ہود بھائی: یہی بات مجھے بہت پسند آئی کہ آپ نے ترجمہ نہیں کیا۔
خالد خان یوسف زئی: ہاں ، میں نے ترجمہ نہیں کیا۔
پرویز ہود بھائی: کیونکہ اردو میں اگر آپ کسی ٹیکنیکل کتاب کا ترجمہ کریں تو جو اس کا نتیجہ ہوتا ہے ، اس کا انجام ہوتا ہے ، وہ تو سمجھ سے باہر ہوتا ہے ۔
خالد خان یوسف زئی: بالکل !
پرویز ہود بھائی: اور پھر اتنی بھدی اردو ہوتی ہے ، اتنی غلط ہوتی ہے کہ پڑھنے کو دل نہیں کرتا ۔ یہ کام کبھی ترجمہ سے نہیں ہو سکتا ۔
خالد خان یوسف زئی: یہ ممکن نہیں ہے ۔ ترجمے سے ممکن نہیں ہے ۔ میں نے بہت کوشش کی شروع میں کہ میں ترجمہ کروں لیکن مجھے معلوم یہ ہوا کہ ترجمہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔
پرویز ہود بھائی: جب تک ایک شخص نے اُس مضمون کے اوپر عبور نہ حاصل کیا ہو ، اُس کو باریک بینی سے نہ دیکھا ہو ، نہ سمجھا ہو۔ تب تک وہ اپنے الفاظ میں اس مضمون کا اظہار کر ہی نہیں سکتا ۔
خالد خان یوسف زئی: آپ نے بالکل صحیح نقطے پہ ہاتھ رکھا ہے ۔ دراصل ، کسی بھی مضمون پہ ایک صفحہ لکھنے سے پہلے یہ بہت ضروری ہے کہ اس کے اوپر آپ کا مکمل عبور ہو ۔ اور آپ کسی بھی صورت میں اس کا قصہ نہ بیان کر رہے ہوں ۔ (بلکہ) اصل مضمون کی جو صحیح روح ہے ، اُسی کو بیان کر رہے ہوں ۔ آپ کے اپنے ذاتی خیالات اُس میں شامل نہ ہوں بلکہ جو سائنس کہتی ہے ، (اس میں ) وہ ہو ۔ اور یہ دیکھتے ہوئے میں جو کچھ لکھتا ہوں ،وہ چونکہ اپنے طلباء کے سامنے رکھتا ہوں ، وہاں سے مجھے feedback آتی ہے کہ آیا ، جو میں کہہ رہا ہوں اور جو وہ سمجھ رہے ہیں ، وہ ایک ہی ہے یا علیحدہ علیحدہ ہیں ۔ وقت کے ساتھ جو میرا لکھنے کا طریقہ ہے ، وہ آہستہ آہستہ بہتر ہو رہا ہے ۔ پہلے میں ایک چیز لکھتا تھا اور مجھے feedback مثبت نہیں آتی تھی ۔ مجھے بار بار لکھنا پڑتا تھا ۔ بلکہ جو پہلی کتاب ہے ، اس کے شروع کے کچھ ابواب میں نے غالباً پچیس مرتبہ لکھے ہیں ۔ میں لکھتا تھا اور مجھےfeedback آتی تھی کہ نہیں ،یہ textbook (درسی کتاب) کے طور پر اس level(سطح) کی نہیں ہے ۔ تو میں ہار نہیں مانتا۔
پرویز ہود بھائی: آپ نے غالباً چار کتابیں لکھی ہیں ۔
خالد خان یوسف زئی: ابھی چار میں نے لکھی ہیں ۔ پانچویں کی آج میں نے پچپن ویں (55th ) مقام میں نے لکھا ہے ۔
پرویز ہود بھائی: وہ کس موضوع پر ہے ؟
خالد خان یوسف زئی : electric circuits (برقی سرکٹ) پر ۔
پرویز ہود بھائی: اچھا!
خالد خان یوسف زئی: یہاں پر ایک غلط فہمی بھی ہے جو میں دور کرنا چاہوں گا کہ اصطلاحات شاید بہت زیادہ ہوتی ہیں ۔ اگر electric circuit(برقی سرکٹ) کی کتاب کی میں بات کروں تو اس میں voltage، current، resistance، power، inductor، capacitor، یہ چھ اصطلاحات ہیں جو کہ electric circuits(برقی سرکٹ) سے ، ان کا واسطہ ہے ۔
پرویز ہود بھائی: اچھا۔ اگر آپ اپنی کتابوں کا موازنہ کریں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ یا سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے ، تو ان کی خرابیاں جو ہیں وہ سامنے آ جاتی ہیں ۔
خالد خان یوسف زئی: جی ہاں ۔
پرویز ہود بھائی: یہ کتابوں کا ڈھیر میرے سامنے پڑا ہے ۔ جب میں ان کتابوں کے صفحے پلٹتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ ایک انتہائی خشک مضمون سامنے آتا ہے جس سے ہر بچہ صرف متنفر ہی ہو سکتا ہے ۔ کاش کہ ان کتابوں کو یہ سمندر میں پھینک دیتے ، دریا میں پھینک دیتے اور اچھی کتابیں لکھواتے آپ جیسے لوگوں سے ، یا جو دنیا جہاں میں لکھی گئی ہیں اُن کو ہم اپناتے ۔
خالد خان یوسف زئی: میرے سامنے یہ کتابیں پڑی ہیں ۔
پرویز ہود بھائی: کھول کر دکھائیں بے شک ۔
خالد خان یوسف زئی: میں دو کتابوں کی مثال دوں ۔ (میرے دائیں ہاتھ میں ) یہ نہم و دہم کی فزکس کی کتاب ہے (جو آج کل پڑھائی جاتی ہے )۔ ( میرے بائیں ہاتھ میں ) یہ پچیس سال پرانی (نہم و دہم کی کتاب) ہے ۔ (دونوں کتابوں کو پلٹتے ہوئے) اس میں ایک صفحے میں جتنے الفاظ لکھے ہیں اور اس میں ایک صفحے میں جتنے الفاظ لکھے ہیں ۔ اس کے لحاظ سے ، صرف الفاظ کو گنیں اور مواد کو نہ دیکھیں کہ مواد کیسا ہے ، تو (پچیس سال پرانی ) اس کتاب کا تینتیس (33) فیصد (آج کل کی ) یہ کتاب بنتی ہے ۔ اب آج کا طالب علم اگر (موجودہ کتاب کو ) مکمل طور پر سمجھ جائے تو اس کے نمبر ، پچیس سال پہلے تینتیس فیصد آتے ۔
پرویز ہود بھائی: یہ تو کتاب بھی نہیں ، کتابچہ ہے ۔
خالد خان یوسف زئی: کتابچہ ہے ۔ اب تینتیس فیصد پہ طالب علم فیل ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ پندرہ سال سے صوبہ سرحد میں ایک شاگرد، ایک طالب علم بھی فزکس میں پاس نہیں ہوا ۔
پرویز ہود بھائی: سمجھ لیجئے کہ اس (کتابچے) کا جو پہلا باب ہے ، وہ تو دینی تعلیم ہے ۔
خالد خان یوسف زئی: اس(موجودہ نہم و دہم کی فزکس کی کتاب ) میں تقریباً تمام اخبار کا قصہ ہے ۔ مجھے سائنس نظر نہیں آتی ۔ یہ Sunday کا جو اخبار ہے ، اس میں جو سائنس دیتے ہیں ، یہ تقریباً تقریباً تمام اس قسم کا ہے ۔ غیرضروری باتیں جس کا سائنس سے نہ کوئی لینا ہے نہ کوئی دینا ، یہ اس میں لکھا ہے ۔ یہ کاغذ کا ضیاع ہے ۔ اور اگر ہم بچوں کو سکول نہ بھیجیں تو شاید زیادہ بہتر ہو ۔
پرویزہود بھائی: شاید انٹرنیٹ کے زمانے میں ہمیں ان کتابوں سے چھٹکارا مل سکے ۔ آپ نے جو کتابیں لکھی ہیں ۔ چار لکھی ہیں ، پانچویں آپ لکھ رہے ہیں ۔ یہ انٹرنیٹ پر آپ ڈالیں گے ۔ یہ اونچی سطح کی فزکس (طبیعیات ) ہو گی اور انجیئنرنگ ہو گی لیکن کاش کہ لوگ سکول کی کتابیں لکھتے ، وہ کتابیں جو ان کے نصاب کی ہیں ۔
خالد خان یوسف زئی: میں نے جب کتابیں لکھنی شروع کیں تو میرا خیال تھا کہ میں میٹرک اور ایف ایس سی کی کتابیں پہلے لکھوں گا تاکہ سلسلہ proper(باقاعدہ) چلے ، پھر آگے کی بات کریں گے ۔ لیکن پوری کہانی جب انسان سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ، تو مجھے یہ خیال آیا کہ بچے بھی اردو نہیں پڑھنا چاہتے چونکہ ان کو نظر آتا ہے کہ آگے اردو میں تو راستہ بند ہے ۔ میرے گاؤں میں بھی آپ چلے جائیں تو وہ پرائیویٹ سکول میں بچے کو داخل کرنا چاہیں گے جہاں پر ان کاخیال ہے کہ انگریزی میں تعلیم ہے ، اگرچہ وہاں پر انگریزی میں تعلیم نہیں ہے ۔ مجھے یہ لگا کہ اگر میں اوپر سے یہ چھت توڑ دوں اور بچے کو ستارہ نظر آئے کہ اچھا میں آگے نکل سکتا ہوں تو وہ پڑھنا شروع ہو جائے گا ۔ تو میں ایک ڈگری فل پروگرام آن کرنا چاہوں گا ۔ اور میں نے ٹیلی کام اس لیے choose(منتخب ) کیا ہے کہ اس وقت زیادہ سے زیادہ بچے ٹیلی کام کی طرف آ رہے ہیں ۔ تو Bulk(وسیع پیمانے) میں اس کا اثر سوسائٹی پر ہو گا ۔ جب میں یہ complete(مکمل ) کر دوں ، تو میں میٹرک اور ایف ایس سی کی کتابیں لکھ کر ، ان شاء اللہ ، اس کے بعد فوت ہوں گا ، اس سے پہلے نہیں ۔
پرویز ہود بھائی: بہت اچھا ۔ Thank You Very Much