کلبی تعلق: ابوبکر
قلبی تعلق کی علامت ہے کہ فریقین پر ایک دوسرے کا رنگ چڑھنے لگتا ہے۔ یہی کچھ میرا اور مرفی کا کلبی تعلق بھی ہے۔ یوں ساتھ گزرا ہے کہ جیسے عام انسان اپنے لباس کے ساتھ وقت گزارتے ہوں۔ سمجھ لیجیے جوں جامے میں جان پڑ گئی ہو، بنیان کو دو وقت بھوک لگنے لگے اور جوتے ہر شام چہل قدمی کا تقاضا کریں۔ آدمی سوچتے ہی چکرانے لگتا ہے مگر سگ شناس اسی کٹھن راہ سے سیٹیاں بجاتے گزرتے ہیں۔یہ انسانوں میں رہتے رہتے انہی سا ہو گیا ہے جبکہ میں اس کی صحبت میں اپنے ہم جنسوں سے کٹ کر رہ گیا ہوں۔ یہ میرے چہرے کے تاثرات پہچانتا ہے، آواز کے زیروبم پر ردعمل بدلتا ہے، فصیح پنجابی گالیاں سنتے ہی مؤدب ہوجاتا ہے۔ جسے دیکھتا ہے جھٹ سے دوستی کرنے لگتا ہے۔ گھر اور خاندان کے احساس سے بھرپور ہے۔ گلی اور دروازہ نہیں بھولتا۔ اپنوں کو دیکھتے ہی جتانے لگتا ہے کہ لو میں بھی آیا۔ اندھیرے سے بہت گھبراتا ہے اور پنکھے کی ہوا کا مرکز ایسی مہارت سے ڈھونڈ لیتا ہے کہ جیسے قدما بیٹھے بیٹھے زمین کا قطر ماپ لیتے تھے۔ بھوک کے تجربے سے نہیں گزرا ہاں اپنی نادانی میں چند مکروہات ضرور چکھ چکا ہے۔ سفر کرنا تب ہی گوارا ہے کہ دونوں طرف کے شیشوں تک رسائی ہو اور نیند کی صورت میں ساتھی مسافر بخوشی گود میں سر رکھنے دے۔ پھر پرلے درجے کا خوشامد پسند ہے۔ بات بے بات اپنی تعریف سننا چاہتا ہے ورنہ چہرے پر رقت طاری کرلیتا ہے۔ عورتوں کو دیکھ کر خاص خوش ہوتا ہے اور انہیں زیادہ مہربان سمجھتا ہے۔ دن میں سویا رہتا ہے اور سرہانے کا خیال رکھتا ہے۔ رات کا بیشتر حصہ پتنگوں اور سایوں سے الجھنے میں گزارتا ہے۔ ان کے علاوہ کسی شکار میں نہیں پڑتا حالانکہ گوشت خور ہے۔ یہ رویہ بھی عین مہذبانہ ٹھہرا کہ گوشت تو کھاتا ہے مگر خون بہانا پسند نہیں۔ یہ سب عادتیں لاڈلوں کی ہیں اور کہاں سے پڑیں اس کی تفصیل بے سود ہے۔ اور عادتوں کا ذکر ہی کیا، خود میں اس کے ہمراہ کتنا بدل چکا ہوں۔ میرے لیے الارم کا تصور اب کوئی گھنٹی نہیں بلکہ ایک نرم اور ٹھنڈے ناک کا لمس ہے جس سے میری آنکھ کھلتی ہے۔ اور میری آنکھیں ہر صبح ایسے کھلتی ہیں جیسے کسی قوم کی آنکھیں یکایک کھلی ہوں، ایسے ہی جھٹ پٹ باہر نکلتا ہوں۔ اس کی ہمراہی میں حسینوں کی اوقات خوب معلوم ہوئی ہے، راہ چلتے اسے مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں تو میں بلا قصد شرما جاتا ہوں۔ یہ خود نسلی ہے مگر میرے خاندان میں کسی نے کتے نہ پالے تھے، گاؤں میں دیکھنے والوں کو میں محض اضافی لگتا ہوں۔ پھر ادھر ایسے بدیسی کتے لوگ صرف ٹوانہ خاندان کی کوٹھیوں میں دیکھتے تھے۔ ابھی چند دن ہوئے، سر شام مضافات کی سیر کرتے ایک بوکھلایا راہ گیر پوچھنے لگا ’ میاں لڑکے، ملک صاحب خود بھی تشریف لائے ہیں کیا، یہ کتا تو انہی کا ہے ناں۔ ‘ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’ خیر، سگ پروری میں ہم بھی نواب ہوئے، اب بعید نہیں کہ جاگیر پالیں اور پورے نواب ٹھہریں۔ ‘