کابوس۔ تصنیف: مسلم انصاری (تبصرہ: قدسیہ ممتاز)

 In تاثرات

میں نے برسوں پہلے دوستوئفسکی کا ناول ’ذلتوں کے مارے لوگ‘ پڑھنے کے بعد فکشن پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ اس سے پہلے میرے دل کے بہت قریب ٹیگور کا ناول ’سنجوگ‘ ہوا کرتا تھا۔ ٹیگور کی سادگی بھری دانش نے مجھے متاثر کیا اور ایک سکون آور اداسی نے برسوں لپیٹ میں لیے رکھا حتی کہ دوستوئفسکی کے ذلتوں کے مارے لوگ نے میرے اندر سے کچھ نکال کر سرہانے دھر دیا جس کی طرف دیکھنے سے بھی خوف آتا تھا۔ وہ اور کچھ نہیں میرا ہی اندرون تھا۔ مسلم انصاری کی ’کابوس‘ کی چار کہانیاں پڑھنے کے بعد مجھے اسی خوف نے دوبارہ آ لیا۔ عادت ہے کہ زیر مطالعہ کتاب سرہانے دھری رہتی ہے۔ چارپائیوں کا کاروبار پڑھنے کے بعد میں نے کتاب سرہانے رکھی پھر کسی انجانے خوف کے زیر اثر دراز میں رکھ دی۔ پھر بھی مجھے لگا کہ کہانیاں رات کے کسی پہر دراز سے نکل کر میرے گرد کابوس کی طرح گھیرا ڈال لیں گی اور دانت نکوس کر ڈرائیں گی۔ میں نے کتاب کمرے سے باہر اسٹوڈیو میں رنگوں کے ڈبے میں رکھ دی۔ نیند پھر بھی نہ آئی۔ یہ کہانیاں ہیں کب؟ یہ آپ بیتیاں ہیں جیسے مسلم انصاری کو علم ہو کہ جو اس پہ بیتی ہے وہ سب پہ کبھی نہ کبھی بیت چکی ہے۔ سزائے موت کے ایسے قیدی کی کبھی نہ پوری ہونے والی امید کی طر ح جسے کبھی متوقع فون کال موصول نہ ہوئی ہو، ایسے خواجہ سرا کی طرح جو امید و ناامیدی کے درمیان پینڈولم کی طرح جھولتا رہا ہو جبکہ اسے یقین ہو کہ شرف انسانی تو نارمل انسانوں کے لیے بھی خواب ہی ہے، ایسے جی دار مرد کی طرح جو اپنے نامکمل جنسی عضو کے ساتھ موت کو اس لیے گلے لگا لیتا ہے کہ اس کے ساتھ اس کی بیوی کا بھی پردہ قایم رہے جو کسی اور کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ ان بے بس انسانوں کی طرح جنہوں نے احتجاج کا ایک انوکھا طریقہ نکال لیا تھا اور جو اپنے مردے انصاف کے مردہ خانوں کے باہر دھر آتے تھے حتی کہ وہ بو نہ دینے لگتے۔ ایسی بے شمار کہانیاں ہیں جو ڈراتی ہیں، دھمکاتی ہیں، آپ کے اندر کسی ایسے کیکٹس کی طرح اپنے کانٹے پیوست کردیتی ہیں جنہیں آپ اپنے ہاتھوں سے پانی دیتے ہوں۔ مسلم انصاری کہانیاں نہیں لکھتا، یہ میرے اور آپ کے خوف کاغذ پہ بکھیر دیتا ہے۔ کسی خودکش دھماکے کے بعد اسپتالوں کے مردہ خانوں میں بکھرے لاشوں کی طرح جن کی شناخت ممکن تو نہیں لیکن کوئی تو نشانی رہ ہی جاتی ہے جس سے آپ اپنا مردہ پہچان لیتے ہیں۔ کوئی خط کوئی انگوٹھی کوئی نشان کوئی زخم کوئی آہ کوئی دعا یا کوئی بددعا۔ پھر آپ کو رونا نہیں آتا کیونکہ اجتماعی موت پہ رونے والے ہی تو نہیں بچتے۔ مسلم انصاری نوحے لکھتا ہے۔ شرف انسانی کے نوحے، بھوک اور افلاس کے نوحے، لالچ اور حرص کے نوحے، طاقتوروں اور کمزوروں کے نوحے، ذلتوں کے مارے لوگوں کے نوحے۔ اس عزاداری میں وہ آپ کو زبردستی شریک کرلے گا اگر ایک بار آپ نے کابوس کھولنے کی غلطی کرلی۔ میں نے یہ غلطی کی ہے اور میں اس پہ نادم نہیں ہوں۔ عرصے بعد فکشن پڑھنے پہ ہرگز نادم نہیں ہوں۔ مسلم انصاری نے خدا جانے کیوں اتنی جاندار تحریر کے ساتھ سکیچز بھی بنائے ہیں جنہوں نے مجھے متاثر کیا ہے۔ بچوں کی سی سادگی بے ساختگی لیکن دلگیر معنویت لیے یہ سکیچز ہر اس شخص کو دیکھنے چاہییں جو پڑھ نہیں سکتا اور یہ کہانیاں انہیں نہیں پڑھنی چاہییں جو محض فکشن کی امید پہ کتاب کھول لیتے ہیں۔ ذہن سلامت رہے مسلم انصاری

درد دل سلامت رہے

ذلتوں کے مارے لوگ سلا مت رہیں


Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search