ایک گریجوایٹ طالب علم کا سوال۔ محمد دین جوہر
سوال:
السلام علیکم۔ جدید نظریات پر اردو میں نظری سطح پہ گفتگو بہت کم ہوئی ہے۔ خال خال ہی کہیں کام کی بات ملتی ہے۔ اردو میں نظری تحریری روایت کی نایابی نے جدید نظریات کی نظری پرتوں کو اوجھل رکھا ہے۔ دین، الحمدللہ اپنی تمام تر تفصیلات اور متن کی صحت کے ساتھ محفوظ ہے اور اس کا حکم بھی سب کو معلوم ہے کہ جدید نظریات باطل ہیں۔ اس ایک چیز پہ دینی مؤقف صاف اور دوٹوک ہے اور وہ چیز کاملیت سے معاشروں میں بھی جاری و ساری ہے۔ یہاں ایک سمت دینی موقف کی معلومیت کی ہے اور دوسری سمت مذکورہ بالا جدید نظریات کا اثر و نفوذ ہے۔ درمیان میں کیا ہے؟ درمیان میں وہ خلا ہے جو نظری اور فکری علم کا تقاضا کرتا ہےجبکہ اس خلا کو سیکولر علم نے اتنا بھر دیا ہے کہ سخت مشکل ہو گئی ہے۔ مثلاً ایک آدمی کو سیکولر ازم کا باطل ہونا دین کے حکم سے معلوم ہے۔ لیکن آدمی اس کی حمایت میں نظری اور فکری استدلال سن کر کچھ گھبرا جاتا ہے اور شاید کبھی تسلیم بھی کر لیتا ہے۔ حدیث سن کر یا آیت پڑھ کر بندہ اطمینان محسوس کرتا ہے۔ لیکن جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ نظری نوعیت کا ہوتا ہے اور مسلسل ڈنک مارتا ہے۔ تسلیم کرنے والا اسلام کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور سیکولر ازم کو بھی، اور دونوں میں تطبیق کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں تک میں نے دیکھا اس طرح کی کوشش سے بات نہیں بنتی۔ دین کا حکم اٹل رہتا ہے لیکن آدمی اُس علم کا کیا کرے جو اس کے شعور کو مسلسل سیکولر پوزیشن پہ لانے کے تمام تر وسائل رکھتا ہے؟ کئی مسلمانوں کو سیکولر علم نے گمراہ کیا ہے جب کہ وہ اس کے اصل مآخذ سے صرف اسے پڑھنے نکلے تھے! آدمی ایسا کیا کرے کہ سب کچھ پڑھے بھی اور دین بھی ہاتھ میں رہے؟ دوسرے لفظوں میں دین دار بھی رہے اور جدید نظری علم نہ صرف حاصل کرے بلکہ اسے اپنے دینی تناظر میں لا کر اس پہ کوئی کام کی بات کہہ سکے؟ جدید علم کی پاور اتنی زیادہ ہے کہ پڑھنے والے اس بحرِ بیکراں میں جاتے ہیں اور ایسے ٹنڈ منڈ ہو کر واپس آتے ہیں کہ ان کے پاس صرف مغرب کے جھنجھنے ہوتے ہیں، دین رخصت ہو چکا ہوتا ہے۔ یا یہ کہ کون سے ایسے علمی ٹولز ہیں جو ایک بندے کو مسلمان رہنے میں مدد دیں؟
جواب:
(۱) سوال سے پیشتر آپ کے بیان کردہ مجموعی تاثر سے میں متفق ہوں کہ جدید نظری علوم کی وجہ سے مسلم شعور چند در چند مشکلات کا شکار ہے جس سے نکلنے کا راستہ وہ نہیں پاتا۔ جدید علوم کے فوری نتائج میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہدایت، جو جدید معنی میں مجموعۂ اقدار ہے، کے بارے میں مسلمان شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے ہیں، بلکہ اب تو صورت حال اس سے آگے نکل گئی ہے۔ یہ جدید علوم اور جدید حالات کا اثر ہی ہے کہ عزم بالجزم سے اقدار پر قائم ہونے کے نتیجے میں جو انفسی تشکیل ہوتی ہے اور جو علم اور عمل دونوں میں ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی، اس میں کمزوری واقع ہو گئی ہے یا اس کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ہم نے اپنے دینی اور تہذیبی وجود کو ایک ردعمل بنا دیا ہے۔ ردعمل پسپائی کی ایک صورت حال کا نام ہوتا ہے۔ ہم پسپائی اور مزاحمت کی حرکت میں امتیاز نہیں کر پا رہے۔ یہ بلا سبب نہیں ہے کہ ہم جدید عہد کی سفاک حرکیات کے زیرِ اثر ہدایت، دنیا اور نیچر کے روبرو کوئی انسانی، دینی اور تہذیبی پوزیشن نہیں لے پا رہے۔
(۲) آپ نے ایک ’درمیانی خلا‘ کا ذکر کیا ہے۔ آپ کے تحریری سیاق و سباق سے جو میں سمجھ پایا ہوں، اس خلا کی درج ذیل تین صورتیں ہیں:
(الف) ایک طرف ہدایت ہے اور ایک طرف یہ جدید دنیا اور اس کے نئے علوم۔ اور ان کے درمیان خلا کا احساس ہے جو اس امر کا آئینہ دار ہے کہ ہدایت اور جدید دنیا اور اس کے نئے علوم کے مابین کوئی ایسا مسئلہ ہے، کوئی ایسا تعلق ہے، کوئی ایسی نسبتیں ہیں جنہیں میرا ذہن صراحت سے پکڑ نہیں پا رہا اور خلا کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ اس خلا کا درست معنی یہ ہے کہ میں بطور مسلمان، میں بطور مخاطبِ حق کہیں موجود نہیں ہوں۔ یعنی جدید دنیا میں حق کے مخاطب کی جگہ اب خالی ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ تہذیبی سطح پر ہدایت کو جو انسانی ایجنسی (human-agency) مطلوب ہے اور جو مسلمان ہے اور جو اللہ کا عبد ہے، اس کی جگہ بتدریج خالی ہو رہی ہے۔ اس خلا میں حرفِ حق کی کوئی گونج ہے نہ قدموں کی کوئی چاپ ہے۔
گتھلی اور نیام میں فرق ہوتا ہے۔ فروعات کا ایک جہان گتھلی میں آباد ہو سکتا ہے، لیکن دو اصول ایک نیام میں نہیں سما سکتے۔
(ب) خلا کے احساس سے جدید علوم اور ہدایت میں تطبیق کا داعیہ جنم لیتا ہے۔ تطبیق کا طریقۂ کار اصلاً ایسے متضاد اعمال میں مفاہمت اور مطابقت کو سامنے لاتا ہے جو ان اعمال کی اصل کی طرف رجوع کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ تطبیق ہماری فقہی روایت کی داخلی منہج ہے۔ فقہ فروعات کا علم ہے، اور فروعات میں تضاد و تصادم کو حل کرنے کے لیے یہ ایک جائز طریقہ کار ہے۔ ہم نے اپنی نارسائی میں تطبیق کو اصولوں پر مؤثر کر دیا ہے۔ اصول ہمیشہ اور بیک وقت جامع (inclusive) اور مانع (exclusive) ہوتا ہے۔ اصولی مباحث میں تطبیق نہ صرف غیر مفید ہے بلکہ ضرر رساں ہے، اور قاتلِ علم ہے۔ دینی اقدار اور جدید علوم میں تطبیق کورچشمی ہے اور دینی اقدار کو منہدم کرنے کی ہماری علمی کمائی کا عنوان ہے۔ فروعات میں تطبیق اس وقت ممکن ہوتی ہے جب ان کو اصول کا ٹانکا لگایا جائے۔ یہ ایک طرح سے دو چیزوں کو نتھی کرنے کا عمل ہے۔ باہم متضاد یا متخالف اعمال بیک وقت ممکن ہوتے ہیں، اور اصولی منطق سے انہیں علمی طور پر بھی قابل قبول بنا لیا جاتا ہے۔ ایک ہی دائرے میں دو متضاد اصولوں میں تطبیق نہیں ہو سکتی، ان میں سے ایک لازماً رد ہو گا۔ گتھلی اور نیام میں فرق ہوتا ہے۔ فروعات کا ایک جہان گتھلی میں آباد ہو سکتا ہے، لیکن دو اصول ایک نیام میں نہیں سما سکتے۔ ہم نے اپنی نیاموں کی ایسی ہی گتھلیاں بنا لیا ہے اور خود بھی فروعات کے ساتھ وہیں کہیں پڑ رہے ہیں۔ ہم نے بالکل فراموش کر دیا ہے کہ جس طرح تاریخ تلواروں سے بنتی ہے، علم اصولوں کی جنگ سے برآمد ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں نظری علوم کے خاتمے کی ایک بڑی وجہ تطبیق کے زیر اثر مباحثِ اصول کا خاتمہ ہے۔ اصول کے خاتمے سے پیدا ہونے والا خلا دنیا بھر کی فروعات سے نہیں بھرا جا سکتا۔
(ج) اگر مسلم ذہن خلا کے احساس اور تطبیق کے ہوکے سے آگے گزر جائے تو اصل مسئلے کے روبرو پہنچ جاتا ہے، اور جائز ضرورت کا درست احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ ’جائز ضرورت‘ ایسے نظری علوم کی تشکیل ہے جو ثقہ (valid) ہوں، اقدارِ ہدایت کی مرادات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوں اور ہماری انفسی اور آفاقی دنیا میں بامعنی حرکت کو جنم دینے والے ہوں۔ لیکن افسوس کہ بتدریج ہمارے ہاں نظری علم کا خوف علم دشمنی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ مذہبی اقدار کے دفاع کرنے والے علم کا امکان بھی خفیف ہو گیا ہے یا ختم ہو گیا ہے۔ اور صورت حال یہ ہے کہ ہم علم فی نفسہٖ کے خلاف اپنی پوزیشن کو بہت سخت بنا چکے ہیں اور جس سے نکلنے کا امکان بہت کم ہے۔
نئے علم میں پنہاں وجودی موقف کے بلیک ہولز انسانی شعور کے ایسے کھانچے ہیں جنہیں حرف ہدایت بھر دیتا ہے اور وجود کے ایسے زخم ہیں جنہیں نورِ ہدایت مندمل کر دیتا ہے۔
میری محدود سمجھ کے مطابق آپ کا اصل سوال یہ ہے کہ ”آدمی ایسا کیا کرے کہ سب کچھ پڑھے بھی اور دین بھی ہاتھ میں رہے؟” یہ بالکل آسان ہے۔ ہدایت کی شرائطِ تسلیم اور نظری علم کی شرائطِ تشکیل بالکل مختلف ہیں۔ ہم گھیرے میں گھبرائے ہوئے اور ردعمل دینے والے لوگ بن گئے ہیں، اور ان میں امتیاز باقی نہیں رکھ پاتے۔ ہدایت روشنی ہے، لیکن جدید نظری علوم کے قلب میں وجودی موقف کا جو بلیک ہول ہے وہ اس روشنی کو ہڑپ کر جاتا ہے کیونکہ ہم ہدایت کی روشنی کو بھی فزکس والی روشنی ہی سمجھتے ہیں۔ نورِ ہدایت خالقِ غیب و شہود کی عطا ہے۔ نئے علم میں پنہاں وجودی موقف کے بلیک ہولز انسانی شعور کے ایسے کھانچے ہیں جنہیں حرف ہدایت بھر دیتا ہے اور وجود کے ایسے زخم ہیں جنہیں نورِ ہدایت مندمل کر دیتا ہے۔ ہمیں شرائط تسلیم کو محکم رکھتے ہوئے نئے علم کی شرائط تشکیل کی طرف پیش قدمی کی ضرورت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔