ہندوستان کا فنِ موسیقی: مولوی یعقوب خان کلامؔ ، بی ۔ اے (مرتب: عاصم رضا) 

 In تاثرات
نوٹ: مولوی محمد یعقوب خان کلام صاحب نے ’’ہندوستان کے فنِ موسیقی‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ ’’زمانہ‘‘ کے لیے مضمون لکھا جس کی اشاعت جلد نمبر 62، شمارہ نمبر 2 ، فروری 1934ء کو ہوئی ۔ جناب باقر علی شاہ صاحب کی عنایت ِ کریمانہ کے سبب مولوی صاحب کا مضمون کتابوں میں مدفون خزانوں سے برآمد ہوا جس کو مضمون کی افادیت اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر اس کو فن موسیقی میں دلچسپی رکھنے والوں کے ازسرنو پیش کیا جا رہا ہے ۔ چونکہ مولوی صاحب کے مدفون مضمون کو نئی زندگی دینا مقصود تھا لہذا کسی بھی قسم کی تنقیدی رائے یا حاشیہ سےمکمل اجتناب کیا گیا ہے ۔ مرتب نے صرف اس قدر تصرف کیا ہے کہ موضوع کی مناسبت سے مضمون کے حصے الگ الگ کر دیے ہیں نیز جدید قاری کا لحاظ رکھتے ہوئے بعض مقامات پر انگریزی اسماء لکھے اور املاء کو دورِ حاضر کے مطابق کر دیا ہے۔ چند اہم اختلافی نکات درج ذیل ہیں : اول، معروف محقق جناب رشید ملک صاحب کی رائے اس حوالے سے مولوی یعقوب خان صاحب سے مختلف ہے کہ امیر خسرو سے مختلف سازوں کی ایجاد کو منسوب کیا جائے ۔دوم، فاضل مصنف کو اس امر میں تسامح ہوا ہے کہ انہوں نے راون اور سگریو کو بھائی لکھا ہے ۔ سگریو ،کرناٹک کے راجہ کا بھائی تھا اور رام کا حمایتی تھا ۔ روایت کے مطابق ہنومان اسی راجہ سگریو کا وزیراعظم تھا ۔سوم، فاضل مصنف کے مطابق ’’بھرت نٹیہ شاستر‘‘ چھٹی صدی عیسوی کی تصنیف ہے ، تاہم محققین کے نزدیک مذکورہ تصنیف کے پہلے مکمل نسخے کا زمانہ اشاعت دوسری صدی قبل مسیح تا دوسری صدی عیسوی کے درمیان ہے ۔ چہارم، جنوبی ہند میں موسیقی سکول کے بانی پنڈت تیاگ راؔج کے بارے میں بھی فاضل مصنف کو تسامح ہوا ہے کہ وہ مرہٹہ دربار سے وابستہ تھے ۔ راجہ نے ان کو بلاوا ضرور بھیجا جس کو انہوں نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ’’کیا دولت مسرت دیتی ہے؟‘‘۔ مولوی صاحب کے نزدیک بنگالی شاعر و موسیقار چندیداس اور ودیا پتی کا تعلق بارہویں اور تیرہویں صدی سے ہے تاہم انسائیکلوپیڈیا آف انڈیا اور دیگر علمی حوالوں کے مطابق ودیا پتی کا زمانہ چودھویں صدی اور وہ ریاست متھیلہ (Mithila) کے گاؤں وساپی (Visapi) سے تعلق رکھتا تھا ۔ جب کہ چندیداس کا تعلق چودھویں صدی کے نصف آخر سے ہے ۔ (مرتب)

 

 

ہندوستان کی قدیم روایت ہے کہ جب شیو جی (Shiva) نے دنیا میں بدنظمی اور سرکشی دیکھی تو لوگوں کو تسکین دینے اور اعتدال پر لانے کے لیے حسن کاری (آرٹ) سکھائی ۔ لیکن جب اس سے بھی امن و سکون قائم نہ ہوا تو پھر اُنھوں نے عوام کو موسیقی کا سبق دیا جس سے تمام دنیا میں انتظام و ہم آہنگی قائم ہو گئی ۔ یہ تو خیر مشرقی  روایت ہے ۔ اب مشہور مغربی فلسفی رسکن (Ruskin: 1819 – 1900) کا قول ملاحظہ فرمائیے ۔ اپنی ایک تصنیف میں یہ نامور مصنف لکھتا ہے کہ ،

’’موسیقی بحالت صحت و تندرستی امن و سکون کا سبق سکھاتی ہے ۔ وہ قدوسیوں کی نوائے تہلیل و تسبیح ہے ۔ وہ فضائے بسیط میں اجرامِ سماوی کی رفیق ِ طریق ہے ۔ لیکن یہی موسیقی ابتذال اور نادرستی کی حالت میں کامل بدنظمی و سرکشی سکھاتی ہے‘‘۔

ہندوستانی موسیقی کی تاریخ، قدامت کے پردہ میں ڈھکی ہوئی ہے جس کا اٹھانا قریب قریب محال ہے ۔ بایں ہمہ، قدیم کتابوں میں موسیقی کے جو حوالے ملتے ہیں اُن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فن ہندوستان میں ہزارہا سال پہلے سے کامل نشوونما پائے ہوئے تھا ۔ علاوہ بریں ، ہندوستان میں مختلف آلاتِ موسیقی کی کثیر تعداد اور قدیم عمارتوں کی دیواروں پر رنگین تصاویر یا پتھروں پر اُبھرے ہوئے نقوش سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان میں موسیقی کا فن بہت ہی قدیم زمانہ میں مکمل ہو چکا تھا ۔ رگ وید (Rig   Veda) میں بھی جو دنیا کی قدیم ترین کتاب مانی جاتی ہے ، بہت سے آلاتِ موسیقی کا ذکر ہے مثلاً ڈھولک ، چنگ ، خنجری ، پکھاوج ، دوتارے، اکتارے ، طنبورے ، بانسری ، پپیری ، نفیری ، جھانجھ اور مجیرا وغیرہ کی اتنی بے شمار قسمیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے اور دل میں سوچنے لگتا ہے کہ اللہ اللہ ، اُس زمانے کی آریا (Aryan)قوم کو فنِ موسیقی میں کس قدر کمال حاصل تھا ۔ سام وید (Sama   Veda) پڑھنے کے جو قواعد رکھے گئے ہیں اُن سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اُس وقت اعلیٰ تعلیم میں فنِ موسیقی کو بھی پورا دخل تھا ۔ ضمنی طور پر اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ موسیقی ہندو طریقۂ عبادت کی جان ہے ۔ اور ہزارہا سال سے اپنی اسی پوزیشن کو قائم رکھے ہوئے ہے ۔ علاوہ بریں ، بہت سی قدیم علمی شہادتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگلے زمانے میں موسیقی کا علم معاشرتی زندگی کا جزواعظم تھا ۔ یہ حالت صرف آریا سوسائٹی (معاشرے) ہی کی نہ تھی بلکہ ہندوستان کی قدیم دراوڑی قوموں کی بھی یہی کیفیت تھی ۔ رامائن (Ramayana) میں راون (Ravana)اور سگریو(Sugriva) دونوں بھائی فنِ موسیقی میں کامل بیان کیے گیے ہیں ۔ تامل لٹریچر (ادب) سے اس بات کا پورا ثبوت ملتا ہے کہ تامل قوم کا فنِ موسیقی بالکل جداگانہ تھا ۔ اس قوم میں ڈھول کو طبلِ جنگ کا درجہ حاصل تھا ۔ اور فوج میں ڈھول بجانے والے کا درجہ بڑا سمجھا جاتا تھا ۔ رامائن (Ramayana) سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں علم اور فنِ موسیقی بہت پرانا ہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭

موسیقی کے متعلق سنسکرت کی جو قدیم ترین کتاب دستیاب ہوئی ہے ، وہ ’’بھرت نٹیہ شاستر‘‘(Bharata   Natya   Shastra) ہے ۔ اس میں علم اور فنِ موسیقی دونوں سے بحث کرتے ہوئے انہیں ’’نٹ ودیا‘‘ کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہے ۔ یہ کتاب غالباً چھٹی صدی عیسوی کی تصنیف ہے اور موسیقی کے متعلق اس میں جو باب ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے سے بھی بہت پہلے ہندوستان میں فنِ موسیقی نے غیرمعمولی ترقی کر لی تھی ۔ بِین(Been   or   Pungi) کے سُر ’’مدھم گرام‘‘ (Madhyama   grama)پر ملانے کے لیے جو طویل اور باریک ہدایات اس کتاب میں دی گئی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ بِین سات تار کا باجا ہوتا تھا اور اُس کا بجانے والا صاحبِ کمال سمجھا جاتا تھا ۔ یہ ضرور افسوس کی بات ہے کہ اس کتاب میں بِین  کے مختلف تاروں کی نسبتی لمبائیاں درج نہیں ہیں جس سے ایک دوسرے کی آوازوں کے باہمی تعلقات اور ٹھاٹھ کا پتہ چلتا ۔ نٹیہ شاستر کے بموجب بِین  میں بائیس (22) پردے ہوتے تھے ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی کان بائیس مختلف آوازوں میں تمیز کرنے کی قابلیت رکھتے تھے ۔ قریب قریب اُسی زمانے کی ایک تامل کتاب ’’سِلّپڑی گرام‘‘ نامی ملتی ہے ۔ موسیقی کے متعلق جو باریک سائنسی  تفصیلات اس کتاب میں درج ہیں ، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فن ارتقا کے تمام مراتب طے کرنے کے بعد جنوبی ہندوستان میں بھی اعلیٰ درجہ کو پہنچ گیا تھا ۔ اور اس سے ضمناً یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دراوڑی موسیقی کو شروع سے ایک جداگانہ حیثیت حاصل تھی اور وہ سنسکرت آرٹ کی مقلّد نہ تھی ۔

اِسی سلسلے میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امراؤتی اور سانچی میں سنگین تصویروں کے اندر جو صورتیں مختلف قسم کے ساز ہائے موسیقی کی دکھائی گئی ہیں یا اس قسم کی جو تصویریں اجنتا کی پہاڑیوں(Ajanta   Caves) میں واقع مندروں کی دیواروں پر کھنچی ہوئی ہیں ، وہ قدیم مصری اور آشوری (Assyrian)ساز ہائے موسیقی کی تصویروں سے بہت مشابہ ہیں ۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ اس زمانے میں بھی ہندوستان کے اکثر ساز وہی ہیں جو اس قدیم زمانے میں تھے ۔ طنبور(Tambura)، نفیری (Flageolet)، نرسنگھا (Narsigah   or   Hornet)، پکھاوج (Pakhavaj)، ڈھولک(Dholak) اور جھانجھ (Manjeera   or   Jhanj)سب اِس وقت بھی اپنی پرانی شکل و صورت پر رائج ہیں ۔

ساتویں اور چودھویں صدی عیسوی میں بھگتی کی جو تحریک ہندوستان میں جاری ہوئی تھی اُس میں گیت اور بھجن ، عبادت میں شامل ہوتے تھے ۔ جنوبی ہند میں شیو جی کے بھگت اور وشنوی الوار (سات تا دسویں صدی) ، بنگال میں جے دیو ، ودیا پتی ، اوما پتی اور چندیداس(Chandidas) (بارہویں اور تیرہویں صدیوں میں ) ، مہاراشٹرا میں جنانیشور اور نام دیو (تیرہویں اور چودہویں صدیوں میں ) اور شمالی ہند میں نام دیو اور رامانند وغیرہ نے جو روح پرور بھجن گائے ، انہیں آج تک کروڑوں آدمی گاتے چلے آتے ہیں اور سَیر نہیں ہوتے ۔ کیونکہ ایک تو یہ بھجن معرفت کی چیزیں ہیں ، دوسرے راگ راگنیوں میں تلے ہوئے ہیں ایسی صورت میں وہ ہندوستانیوں کے لیے غذائے روح بن گئے ہیں۔ بہرحال اس طرح اِن بزرگوں کے فیض سے فنِ موسیقی ہندوستان کے بچے بچے کے حصہ میں آگیا ۔

جنوبی ہند کے مشہور گویّے اپّار صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے ویدارانم (vedaranyam)کے قدیم مندر کے سامنے ایسی جادو بھری آواز سے بھجن گائے کہ مندر کا دروازہ جو صدیوں سے بند تھا ، عام لوگوں کے لیے کھل گیا ۔ اگر اس روایت کو لفظ بہ لفظ صحیح نہ بھی سمجھا جائے تو اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ اس شخص کے گانے میں ایسا جادو بھرا اثر تھا کہ جب وہ ویدارانم کے مندر میں بیٹھ کر، جو صدیوں سے ویران یا بند پڑا تھا ، بھجن گانے لگا تو وہ مندر مرجع خاص و عام ہو گیا ۔ بہرحال بھگتی مارگ(تحریک) کی تر قی کا یہ اثر ہوا کہ اس سے ہندوؤں میں گانے بجانے اور راگ راگنی سیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا ۔

٭٭٭٭٭٭٭

تیرہویں صدی سے اب تک فنِ موسیقی پر صدہا (سینکڑوں ) ماہرین ِ فن مستقل کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں انہوں نے اپنے اپنے زمانے کے مروجہ اصول اور فنِ موسیقی پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔ ان مصنفین میں سب سے پہلا اور مشہور شخص سارنگ دیو (Sarang   Deva)تھا جس کی کتاب ’’سنگیت رتناگر‘‘(Sangita   Ratnakara) اب تک موجود ہے ۔ پنڈت موصوف تیرہویں صدی کے پہلے نصف حصہ میں گزرے ہیں ۔ انہوں نے بھرت (Bharata) کی طرح تمام راگنیاں سُرتیوں(Srutis) میں باندھی ہیں ، مگر اس کتاب کا طرزِ بیان کچھ ایسا مجمل اور مبہم ہے کہ ان کی ہدایات پر عمل کرنا آسان نہیں ہے ۔ بہرحال شمالی ہند اور جنوبی ہند میں دو مختلف مگر مستقل فنِ موسیقی تھے اور اب بھی ہیں ، ایک ہندوستانی یعنی شمالی ہند کا اور دوسرا کرناٹکی (Karnataka) یا دکنی (Deccan’s)۔

سُرتیاں
پنڈت بھرت نے اپنی کتاب ’’نٹیہ شاستر‘‘ میں ہندوستانی سرگم (Sargam) کو بائیس سُرتیوں میں تقسیم کیا ہے ۔ چنانچہ ہندوستان بھر کی موسیقی میں یہ بائیس سُرتیاں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں ۔ اور’’ گندھرب مہاودیالیا بمبئی‘‘(Gandharva    Mahavidyalaya) میں یہ بائیسوں سُرتیاں باقاعدہ سکھائی جاتی ہیں ۔ حالانکہ جنوبی ہند میں آج کل پنڈت ونکٹ ماکھی (Venkatamakhi)کے نظریہ کی پیروی ہوتی ہے جنھوں نے بائیس سرتیوں کو گھٹا کر صرف بارہ تک محدود کر دیا ہے لیکن نظری طور پر تمام ماہرین ابھی تک بائیس سرتیاں تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن خفیف فرق کے ساتھ مثلاً کلیانی راگنی (Kalyani) میں بمقابلہ مالوگول راگنی (Malo   gal)کے رکھب کا سُر ایک سُرتی اترا لگتا ہے ۔ اسی طرح کھمبوجی راگنی (Kambhoji   Ragini)میں بمقابلہ کلیانی راگنی کے دھیوت کا سُر ایک سُرتی چڑھا لگتا ہے ۔ اتری چڑھی کی انہی نازک باریکیوں کے باعث ہارمونیم جیسا قائم سُروں والا کوئی باجا ایجاد نہیں ہو سکا جس پر یہ تمام سُرتیاں اپنے اپنے پورے فرق کے ساتھ ادا کی جا سکیں ۔

ہندوستانی موسیقی کی بنیاد راگ سسٹم پر قائم ہے ۔ رہی یہ بات کہ راگ کب ایجاد ہوئے؟ یہ پردۂ قدامت میں مخفی ہے جہاں تحقیق و تجسس کی بھی رسائی نہیں ۔ لیکن بھرت کی ’’نٹیہ شاستر‘‘ سے اس قدر ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تمام راگ راگنیاں ایک ہی سُر سے شروع ہوتی ہیں ۔ اور اس زمانہ میں تمام راگ ، سرگم کے صرف دو گراموں یعنی ’’سا‘‘ اور ’’ما‘‘ گراموں پر قائم ہوتے تھے ۔ لیکن بعد میں رفتہ رفتہ صرف ایک گرام پر قائم کر لیے گیے ۔ بعد ازاں تمام راگوں کی تقسیم سُروں اور سُرتیوں کی بنا پر کی گئی ۔ بھرت نے تمام راگ راگنیوں کو ’’مورچنوں‘‘ (murchanas)اور ’’جیتوں‘‘ میں تقسیم کیا ہے ۔ یہ دکنی تقسیم ہے ۔ شمالی ہند میں ان کی تقسیم ’’جنک‘‘(لفظی معانی ’باپ‘) اور ’’جیتا‘‘ میں ہوتی ہے ۔ مورچن اور جنک سے مطلب اصلی راگ اور ’’جیتوں‘‘ اور ’’جنیوں‘‘ سے مراد ان سے مشتق شدہ (پیدا ہونے والی) راگنیاں ہیں ۔ پندرھویں صدی میں ایک مشہور ماہر فن موسیقی لوچن کوی(Lochan   Kavi) گزرا ہے جس نے اپنی کتاب ’’راگ ترنگنی‘‘ (Raga   Tarangini)میں تمام راگوں اور راگنیوں کو بارہ ’’ٹھاٹھوں‘‘ یعنی بنیادی اصولوں میں تقسیم کیا تھا ۔ اس کے بعد 1609ء میں پنڈت سومناتھ جی نے اپنی کتاب ’’راگ و بودھ‘‘ (Raga   vibodha)میں راگ راگنیوں کو ’’جنکوں‘‘ اور ’’جنیوں‘‘ میں تقسیم کیا ۔ ان کے بعد پنڈت ونکٹ ماکھی نے اپنی کتاب ’’چاتردھنی پرکشکا‘‘ (Chaturdandi   prakashika)لکھی ، اس میں بھی یہی تقسیم رکھی گئی ۔ لیکن جملہ تفصیلات مکمل اور واضح کر دی گئیں ۔ آج بھی کرناٹکی موسیقی میں راگوں کی وہی تقسیم صحیح مانی جاتی ہے ۔

لیکن ہندوستانی یا شمالی ہند کے استادانِ فن نے دوسرا سسٹم قائم کیا اور ردّوبدل کر کے راگوں اور راگنیوں کا وہ نظام باندھا جو آج کل مروج ہے ۔ قرونِ وسطیٰ کے شمالی پنڈتوں نے بھی لوچن کوی کی طرح بارہ پر مشتمل بیس ’’ٹھاٹھ‘‘ یعنی بنیادی راگ قائم کیے تھے ۔ اور بقیہ تمام راگنیوں کو ان کے ماتحت کر دیا تھا ۔ آج کل قریب قریب یہی سسٹم پنڈت بھات کھنڈے جی (Pandit   Bhatkhande: 1860 – 1936)نے اختیار کیا ہے یعنی انہوں نے صرف بنیادی راگ قائم کر کے باقی سب راگنیاں ان کے ماتحت کر دی ہیں ۔

کرناٹکی موسیقی میں بنیادی راگوں کو اصلی چیز سمجھا جاتا ہے اور ہندوستانی موسیقی میں محض راگنیوں  پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔ کرناٹکی موسیقی میں راگ راگنیوں پر مشتمل گویا مختلف خاندان آباد ہیں ۔ لیکن قرونِ وسطیٰ میں ایک خاندان کے افراد دوسرے میں جا ملے ۔ اس لیے ماہرین ِ فن نے پھر تمام افراد کو خاندان یا پیدائش کے لحاظ سے الگ الگ کر دیا ہے ۔ ہندوستانی موسیقی میں راگ راگنیوں کو ایک مخلوط مجمع سمجھنا چاہیے جنھیں خاندان کے لحاظ سے تقسیم کرنے میں بڑی دقتیں واقع ہوئی ہیں ۔ مثلاً بہاگ راگنی کو جس کا وقت شب کا تیسرا پہر ہے ، پنڈت بھات  کھنڈے جی ے بلاول راگ(Bilaval)  میں رکھا ہے ، کیونکہ دونوں میں ایک ہی قسم کی ‘اُتریاں چڑھیاں ‘لگتی ہیں ۔ مگر بہاگ(Bihag) میں مختلف طریقوں سے تیورا مدھم  بھی لگتا ہے۔ اس  لحاظ سے اسے بعض استاد ایمن (Aimen or Yaman)کی راگنیوں میں داخل سمجھتے ہیں ۔ لِلت راگنی (Lalit)کو پنڈت جی نے بھیروں(Bhairav)  میں رکھا ہے ، حالانکہ بھیروں میں کہیں تیورا مدھم نہیں لگتا مگر لِلت میں برابر لگتا ہے جس سے راگنی کو چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ واضح ہو کہ ہندوستانی یعنی شمالی موسیقی میں تیورا مدھم کا استعمال بمقابلہ کرناٹکی کے بہت زیادہ ہے ۔ کرناٹکی والے ہر چیز میں مدھم لگانے کی اجازت نہیں دیتے ۔ شمالی ہند والے بہت سی راگنیوں میں اترا اور چڑھا دونوں مدھم لگاتے ہیں جس سے چیز میں ایک دلآویزی پیدا ہو جاتی ہے ۔

راگ راگنیاں

ان فنی باریکیوں کو چھوڑ کر اب یہ دیکھنا چاہیے کہ تقسیم اور تقسیم در تقسیم ہونے سے پیشتر را گ راگنیاں کیونکر پیدا ہوئیں ۔ واضح ہو کہ مذہب اور موسیقی دونوں توام (جڑواں) ہیں ۔ دنیا بھر میں کوئی مذہب ایسا نہیں جس کی عبادات و رسوم میں موسیقی کو دخل نہ ہو ۔ مسلمانوں میں بھی جو گانا بجانا نہیں جانتے ، نماز کے وقت خوش الحانی سے تلاوت کرنا اچھا سمجھا جاتا ہے ۔ چونکہ مذہبی رسموں اور عبادات میں خشوع و خضوع کی ضرورت ہوتی ہے ، اس لیے اس میں موسیقی کو داخل کیا گیا جس کی بدولت دل اُچاٹ نہیں ہوتا ۔ آریاؤں کی تمام عبادات وید منتروں کے پڑھنے    سے شروع ہوتی ہیں ۔ اس لیے ان کے پاٹھ  (قراء ت)کے لیے اول اول ایک لہجہ ایجاد کیا گیا جو پانچ فطری سُروں (یعنی سا، رے، گا، ما ، پا) پر مبنی  تھا ۔ اس کے بعد دیگر سُر ایجاد ہوئے اور سرگم کے سات سُر قائم ہوئے ۔ پہلا سُر’ پرتھم’، دوسرا ‘دوئیتہ’ ، تیسرا’ تریتہ’ ، چوتھا ‘چاترھا’، پانچواں ‘مندرا’ ، چھٹا ‘اتی سوریہ’ قائم کیے گئے تھے ۔ بعد  کو ‘پرتھم’ سے کسی قدر زیادہ چڑھا ایک سُر اور ایجاد کر کے سرگم میں شامل کر دیا گیا ۔ اور سات سُروں کا سرگم پورا ہو گیا ۔ غرض سرگم کے موجد وہ پروہت تھے جو لوگوں کو مذہبی رسمیں ادا کروایا کرتے تھے ۔ گانا اور رونا انسان کے فطری جذبات ہیں ۔ لہذا ، سرگموں یا ٹھاٹھوں سے پیشتر گانے یا گیت ایجاد ہو چکے تھے جو عموماً ابتدائی پانچ سُروں میں ادا کیے جاتے تھے ۔ اب بھی ہندوستان میں دیہات کی عورتیں اسی قدرتی سرگم میں گاتی ہیں ۔ وہ ‘مینڈھ’، ‘مُرکی’ ، ‘اُتری یا چڑھی’ کچھ نہیں جانتیں ۔ جیسی انسان کی حالت ہوتی ہے ویسے ہی سُروں اور آواز میں  وہ گاتا ہے ۔  جب کسی شخص نے کوئی چیز اچھی طرز میں گائی، سننے والوں نے اُسے یاد کر لیا ۔ اس طرح یہ چیزیں اور فنِ موسیقی ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتا رہا ۔ نہ کوئی مقررہ راگ تھا ، نہ راگنی ۔ لیکن پنڈتوں  کا معاملہ دوسرا تھا ۔ عبادت کرنا ، کرانا ، وید منتر پڑھنا پڑھانا اُن کا پیشہ تھا اور چونکہ ان چیزوں کا تعلق موسیقی سے بھی تھا ، اس لیے انہیں ہر دلعزیزی حاصل کرنے کے لیے موسیقی کی طرف خاص طور سے منہمک ہونا پڑا ۔ اگرچہ قدیم روایات میں مختلف راگوں اور راگنیوں کو مختلف دیوتاؤں سے منسوب کیا جاتا تھا لیکن فی الحقیقت ان کے موجد برہمن لوگ تھے ۔ پنڈتوں نے مختلف سُروں کے زیروبم یا اُتار چڑھاؤ سے ترکیب دیکر مختلف راگ راگنیاں تیار کیں اور موسیقی کو فنون ِ لطیفہ میں شامل کر دیا ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک دن کا کام نہیں تھا بلکہ ہزاروں سال سے موسیقی کی نشوونما کا سلسلہ جاری تھا ۔

پہلے پانچ سُروں کا قدرتی سرگم بنا ، پھر اس میں دو سُراور شامل ہوئے ، بعد ازاں بائیس سُرتیاں وجود میں آئیں  جن کے میل جول سے بھرت نے ’’نٹیہ شاستر‘‘ میں چودہ مورچن اور جیتاں بنائیں ۔ پنڈت سرنگدیو نے ’’سنگیت رتناکر‘‘ میں راگ اور راگنیوں کو اتنا بڑھایا کہ اُن کی تعداد دو سو چونسٹھ (264) لکھی اور ہر راگ اور راگنی کے الگ الگ نام لکھ کر اُن کی تقسیم بھی مختلف جماعتوں میں کی ۔ یہ سلسلۂ تحقیق و تدقیق ، تقسیم و ادغام  ،  پنڈت پنڈریک وٹھیل (Pandit-Pundarik-Vitthal)، پنڈت سومناتھ جی(PanditSomnath) ، پنڈت ونکٹ ماکھی(Venkatamakhi)  اور پنڈت آہوبالا(Pandit-Ahobal) نے جاری رکھا  اور شمالی و جنوبی فنون ِ موسیقی کے اصول قائم کیے ۔

فی زمانہ ، اکثر کے نزدیک چھ راگ ہیں لیکن جو میگھ راگ (Megh) کو ایک فصلی چیز خیال کرتے ہیں ، وہ بنیادی راگوں کی تعداد صرف پانچ مانتے ہیں ۔ دن رات کے چوبیس گھنٹے چھ راگوں میں تقسیم کیے گیے ، ہر راگ کی حکومت چار چار گھنٹہ ہوتی ہے ۔ یہی راگ چھتیس (36) راگنیوں میں منقسم ہیں ۔ پھر ان راگنیوں کے باون (52) پُتر (بیٹے)  اور چھیانوے (96) پُتریاں (بیٹیاں) ہیں ۔ بھارجاؤں کی تعداد جنھیں راگنیوں کی نواسیاں کہنا چاہیے ، سینکڑوں ہیں ۔ الغرض ہندوستان کا فنِ موسیقی ایک بحر ناپید کنار ہے جس پر عبور حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔

چھ راگ دو قسموں میں تقسیم کیے گیے ہیں ، ان میں بعض سمپورن(sampoorna) ہیں یعنی جن میں سرگم کے ساتوں سُر لگتے ہیں اور بعض  سنکیرن (Sankeerna)  ہیں جن میں سات سے کم سُر لگتے ہیں ۔ مالکونس راگ سنکیرن ہے جس میں صرف پانچ سُر لگتے ہیں ۔ پھر جو راگنی جس راگ کے ماتحت ہے وہ اُسی راگ کے عہدِ حکومت میں گائی جا سکتی ہے ۔  خلافِ وقت گانا غلط ہے ۔ ہر راگنی کی تان میں صرف انہیں راگنیوں کے سُروں سے کام لیا جا سکتا ہے جو ایک راگ کے ماتحت ہیں ۔  غیر راگنی کا سُر لگانا  غلط ہے ۔

فی زمانہ ، ہندوستان میں موسیقی کے اکھاڑے دو (2) ہیں ۔ شمالی ہند کے سکول کے بانی میاں تان سیؔن  ہیں جو اکبر ِ اعظم کے نورتنوں  میں شامل تھے ۔ انہوں نے شاگردوں کی بہت بڑی جماعت اپنے گرد جمع کر لی تھی ، اور ان ہی شاگردوں کی اولاد میں نسلاً بعد نسل یہ فن سینہ بہ سینہ چلا آتا ہے ۔ جنوبی ہند میں موسیقی سکول کے بانی پنڈت تیاگ راؔج (Pandit-Tyagaraja: 1767 – 1847)تھے جن کا تعلق تنجور (Thanjavur)کے مرہٹہ دربار سے تھا ۔ یہ سنسکرت کے زبردست فاضل اور شاعر تھے ، گانے میں تو اپنا جواب نہیں رکھتے تھے ۔

مروجہ سات سُروں کے نام (سُریا کھرج ،رکھب ، گندھار ، مدھم ، پنچم ، دھیوت ، نکھاد ) ہیں ۔  ان ناموں کے پہلے  حروف لیکر (سا، رے، گا، ما، پا،دھا ، نی )  سرگم بنایا گیا جو موسیقی کی ابجد ہے ۔

کہنے کو تو ہندی موسیقی کے ہندوستانی اور کرناٹکی یا دکنی دو سکول ہیں ، لیکن درحقیقت دونوں کا اصول ایک ہی ہے ۔ اور اب جبکہ ریل ، موٹر اور ہوائی جہازوں نے سفر کی مشکلات دور کر کے زمین کی طنابیں کھینچ دی ہیں اور شمال و جنوب کے میل جول میں آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں ، وہ دن دُور نہیں کہ شمالی اور جنوبی دونوں مذاہب ایک ہو جائیں گے ۔

٭٭٭٭٭٭٭

قدیم زمانہ میں موسیقی کا مرکز یا تو مندر تھایا پنڈت جی کا گھر ۔ لیکن رفتہ رفتہ مندروں کی موسیقی میں ترقی ہوتی گئی کیونکہ ہر پنڈت کو یہ فکر تھی کہ اپنے مندر کی شہرت کو چار چاند لگائے ۔ چونکہ بمقابلہ مرد کے عورت کے حُسن  اور آواز میں زیادہ دلکشی ہوتی ہے ، اس لیے مندروں میں رفتہ رفتہ دیوداسیوں کا سلسلہ جاری ہو گیا ، جو جنوبی ہند میں اب تک موجود ہے ۔ دوسرا ذریعہ کتھائیں ہوئیں جو خوش عقیدہ لوگ وقتا ً فوقتاً پنڈتوں کو بلا کر اپنے گھروں پر کرایا کرتے تھے ۔ تیسرا ذریعہ اشاعتِ راس لیلا تھا جو شمالی ہند میں سفر کر کے جگہ جگہ کرشن لیلا کرتے اور گاتے بجاتے ہیں ۔ چوتھا ذریعہ رام لیلا ہوا ، دسہرہ میں ہزاروں لاکھوں آدمی گا بجا کر رام چندرجی(Ramachandra)  اور  سیتا جی (Sita)کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔ پانچواں ذریعہ بھجن منڈلیاں ہوئیں جو جگہ جگہ جا کر بھجن گاتی ہیں ۔ چھٹا ذریعہ بھگت فقیر ہوئے جو اکتارہ اور کھڑتال(Castanet) ہاتھ میں لیے جگہ جگہ گاتے پھرتے ہیں ۔ ساتواں ذریعہ ہولی کا تہوار ہوا جب کہ بچہ بچہ ہولی گاتا ہے ۔ ہر گاؤں اور قصبے میں سوانگ ہوتے ہیں ۔ آٹھواں ذریعہ نوٹنکیاں  (ڈرامے) ہوئیں جن میں خوبصورت اور خوش گلو لڑکے ساز پر ناچتے اور گاتے ہیں ۔ اسی طرح بہت سے ذرائع ایسے ہیں جن سے ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں موسیقی کی اشاعت ہوتی ہے ۔ اور اب تو گراموفون کے ریکارڈوں ، سینما کی متکلم فلموں ، سفری تھیٹروں ، اور ریڈیو کے  ذریعہ سے بھانت بھانت کے گانوں کی اشاعت ہو رہی ہے ۔

علاوہ ازیں ، ہندوستان میں والیانِ ریاست کے دربار بھی علم و فن موسیقی کے زبردست مراکز رہے ہیں اور اب بھی ہیں ۔ اور نوابوں اور راجاؤں کی طرف سے ہمیشہ سے اہل ِ کمال کی قدردانی اور فنِ موسیقی کو ترقی دینے کی کوشش ہوتی رہی ہے ۔ چنانچہ سلاطینِ مغلیہ کے دربار ہمیشہ اُستادانِ فنِ موسیقی کے مرکز رہے ۔ اور انہوں نے شمالی ہند کے بڑے بڑے اہل کمال کی سرپرستی کی تھی ۔ امیر خسرو(Amir-Khusro: 1253 – 1325) کے نام ِ نامی سے ہندوستان کا کون شخص واقف نہیں ہے ۔ آپ، بلبن اور علاؤالدین خلجی کے زمانہ میں گزرے ہیں ، دیگر علوم و فنون کے علاوہ آپ کو علم و فنِ موسیقی میں بھی یدِطولیٰ حاصل  تھا ۔ ہندوستان کا مشہور ساز ستار آپ ہی کی ایجاد ہے ۔ آپ ہی نے گانے میں قوالی کی طرز ایجاد کی تھی ۔ اسی زمانہ میں جنوبی ہند کی ریاست وجیانگر میں گوپال نائک ایک مشہور ماہرِ موسیقی تھا ۔ پندرھویں صدی میں ترہت کے فرمانروا راجہ شیو سنگھ کے دربار میں ودیاپؔتی(Sri-Vidyapati: 1350 – 1440)  ایک شاعر اور موسیقی میں استاد گزرا ہے ۔ اور شمالی ہند کا مایۂ ناز استاد میاں  تان سین  اکبرِ اعظم کے دربار میں گزرا ہے ۔ محمد شاہ کے دربار میں محمد وزیر خاں اور محمد علی خاں دو مشہور اور کامل استاد گزرے ہیں جن کی آپس میں نوک جھونک رہتی تھی ۔ شاہ جہاں نے مشہور گویّے جگناتھ کو کوی راج کا خطاب عطا فرمایا تھا ۔ ایک مرتبہ شاہ جہاں نے جگناتھ سے خوش ہو کر اُسے اور ایک دوسرے گویّے کو چاندی میں تول دیا تھا ۔ جنوبی ہند کا مشہور و مایۂ ناز ماہرِ فن ِ موسیقی پنڈت تیاگ راج مرہٹہ ریاست تنجور  کے دربار میں گزرا ہے ۔ اسی طرح میسور اور ٹراونکور کے درباروں میں  بھی بہت سے بڑے بڑے گویے ہوئے ہیں ۔ اور اب بھی ہندوستان بہت سے تان سینوں اور تیاگ راجاؤں سے خالی نہیں ہے ۔

ہندوستانی ساز

یہاں پر ہندوستان کے ساز ہائے موسیقی کا ذکر  بھی بے جا نہ ہو گا ۔ اگرچہ یہ قول صحیح ہے کہ گانے والے کا ساز اُس کا گلا ہوتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کوئی سُنار سونا اور چاندی سے آلات کے بغیر دل پسند اور نظر فریب زیورات نہیں بنا سکتا ہے ، اسی طرح کوئی گویّا بھی  بغیر ساز کے اپنے ہنر کا پورا کمال نہیں دکھا سکتا ۔

ہندوستان میں ساز ہائے موسیقی کی تعداد اور قسمیں بے شمار  ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو قدیم زمانہ کی یادگار ہیں ۔ ان میں جو سب سے زیادہ عام چیز ہے وہ بِین ہے ۔ موجودہ مردنگ کی وضع کے ڈھول بھی ہیں ۔ نفیریاں ، شہنائیاں ، نرسنگھے ، بانسریاں ، الغوزے  اور ڈمرووغیرہ ، سب کی تصویریں موجود ہیں ۔ تیسری یا پانچویں صدی کے تامل لٹریچر میں ایک ایسے ساز کا حال بیان کیا گیا ہے جس میں ایک ہزار تار استعمال ہوتے تھے ۔ بِین  واقعی ہندوستان  کا بہت پرانا ساز ہے اور اب بھی تین چار سو برس سے ویسا ہی چلا آتا ہے ۔

ہندوستان کے قدیم ترین ساز ہائے موسیقی دو قسم کے تھے : ہاتھ سے بجنے والے ، یا پھر منہ سے بجنے والے جیسے ڈھولک یا بانسری یا نرسنگھا ۔ ہندوستان کے قدیم ترین لٹریچر میں ڈھول کا ذکر بار بار آتا ہے ، اور تامل قوموں میں تو ڈھول کا اس قدر احترام کیا جاتا ہے کہ اسے صلح ہو یا جنگ ، حفاظتِ ربانی کی نشانی سمجھتے تھے ۔ جنگ کے زمانہ میں ایک ہاتھی کی پشت پر ڈھول رکھا جاتا تھا اور وہ فوج کے آگے آگے چلتا تھا ۔ شیو پُران میں ہے کہ جب شیو جی اپنا تکوینی رقص (cosmic-dance) ناچتے ہیں تو برہما جی ڈھول بجاتے ہیں ۔ سنگ تراشی کے قدیم نمونوں اور نقش و نگار میں بھی ڈھول کی تصویریں پائی جاتی ہیں ۔ بات یہ ہے کہ اس قسم کے ساز بنانے اور بجانے دونوں میں آسان ہوتے ہیں ۔

نرسنگھے کا مورثِ اعلیٰ یقینا سنکھ یا سینگ ہے ۔ قدیم زمانہ کی جنگوں میں سنکھ اور سینگ دونوں کام آتے تھے ۔ چنانچہ مہابھارت (Mahabharata) کا آغاز سنکھوں کے  پھونکنے سے ہوتا ہے ۔ رفتہ رفتہ جنگوں مین سنکھ کی جگہ سینگ نے اور بعد ازاں سینگ کی جگہ دھات کے نرسنگھوں نے لے لی ۔ اب سنکھ پوجا کے وقت صرف مندروں یا کتھاؤں میں سنائی دیتا ہے ۔ قدیم زمانہ کے آشوریوں اور یہودیوں میں نرسنگھے  استعمال ہوتے تھے  ۔ چنانچہ قدیم آشوری حجریات میں نرسنگھے کی تصویریں پائی جاتی ہیں اور یہودیوں  نے  تو اپنے  اسرافیل فرشتہ کے منہ میں بھی صور یعنی نرسنگھا دے رکھا ہے ۔

بانسری کو سب سے زیادہ تعلق سری کرشن جی (Sri-Krishna)کی ذاتِ اقدس سے ہے ۔ یہ نہایت ہی سادہ لیکن سب سے زیادہ سُریلا اور دلفریب ہندوستانی باجا ہے۔ یہ  ایسا آسان ہے کہ پتلے بانس کی پوری گوالوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تیار کر سکتے ہیں ۔ اس پر بھی یہ اس قدر مکمل ساز ہے کہ ایک ماہرِ فن اس کے ذریعہ ہر قسم کی راگ راگنی بخوبی ادا کر سکتا ہے ۔جو گھور اور گمک اِس  ساز میں ہے دوسرے میں نہیں ۔

تار والے سازوں میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے ، ہندوستان کا قدیم ترین ساز بِین ہے ۔ یہ انگشتِ شہادت کی نوک سے بذریعہ مضراب یا ناخن بجایا جاتا ہے لیکن اس ساز کا پیشرو،  فقیروں کا اکتارا معلوم ہوتا ہے ۔ اکتارہ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ، صرف ایک تار کا ساز ہوتا ہے جس سے سُر ملا کر آج کل بھی ہندو فقیر اور سادھو بھجن گاتے ہیں ۔ طنبورہ بھی اِسی اکتارہ کی دوسری صورت ہے ۔ تون تُنی  اور گوپی چند بھی اکتارے ہیں مگر ان کی صورتیں بدلی ہوئی ہیں ۔ کنگڑی باجا کی صورت جو بِین کی ماں ہے ، پنڈت سمبا مورتی یوں بیان کرتے ہیں :

’’اس کی طبلی یا ڈانڈا آبنوس یا بانس کی بنی ہوئی گول ہوتی ہے جس میں لکڑی یا دھات کی بارہ کھونٹیاں نصب ہوتی ہیں ۔ ڈانڈا کے نیچے تین  تونبیاں لگی ہوتی ہیں جن میں بیچ والی تونبی بڑی ہوت ہے ۔ تار جو  گھوڑی پر سے گزرتے ہیں ان میں سے صرف دو تین مضراب سے بجائے جاتے ہیں ، بقیہ تار گھور گرج کے لیے بازو کا کام دیتے ہیں‘‘۔

یہ باجا ریاستِ میسور اور اضلاعِ ابرار کے دیہات میں اب بھی بجایا جاتا ہے ، اسی سے بِین نکلی ہے ۔ یہ سادہ ساز ہزارہا سال سے نشوونما اور ترقی پاتے پاتے کچھ سے کچھ ہو گیے ۔ اور اب ہندوستان میں جتنے مختلف اور ترقی یافتہ خوشنما سا زنظر آتے ہیں وہ سب ان ہی سے نکلے ہیں ۔ لیکن اس واقعہ سے انکار نہیں ہو سکتا کہ تاردار سازوں پر مسلمانوں کے زمانہ میں عجمی اثر پڑا ۔ اور شمالی ہند میں مختلف قسم کے جو تاردار ساز نظر آتے ہیں وہ مغلوں کے لائے ہوئے ہیں ۔ مثلاً ستار  امیر خسرو کی ایجاد ہے ، مگر چونکہ وہ ہندوستان میں ایجاد ہوا ہے  اس لیے اسے ہندوستانی ہی سمجھنا چاہیے ۔ اور یہی بات ’’سُر سنگار‘‘ پر عائد ہوتی ہے ۔ البتہ رباب، سرود ، طاؤس وغیرہ غیرملکی ساز ہیں جو مسلمانوں کے عہد میں آئے ۔ تان سین کی نسبت مشہور ہے کہ وہ رباب پر گایا بجایا کرتے تھے ۔ سارنگی یا سورنگی کی ایجاد زیادہ پرانی نہیں ۔ لیکن یہ ایجاد اس قدر مکمل ہے کہ اس کے سوائے دنیا کا کوئی ساز گلے کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ طبلہ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے (طبلہ از طبل عربی) مسلمانوں کے زمانے کی ایجاد ہے ، لیکن یہ ہندوستان کی پکھاوج اور ڈھولک کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭

ہندوستان کے گیتوں پر بھی غور کرنے سے اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی موسیقی نے کس طرح بتدریج ترقی کی ۔ ہندوستانی گیتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : فنی اور طربی ۔ فنی قسم میں وہ گانے ہیں جو اُستادانِ فن اپنا کمال دکھانے یا اپنے شاگردوں کو صحیح اور شدھ راگنیاں سکھانے کے کام میں لاتے ہیں ۔ ان میں عموماً مہمل یا بے معنی بول ہوتے ہیں جنھیں راگ راگنی کے سانچہ میں ڈھال لیا جاتا ہے ۔ مثلاً، دیم تارا ، دیم تارا، دیم تارا ؛ توم تنانا نا دیرینا وغیرہ ۔ اگر مہمل الفاظ سے کام نہیں لیتے تو ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن میں کسی دیوتا یا بزرگ کی ستائش ہو ۔ اٹھارویں صدی کے اوائل میں پنڈت پورن دھرویٹھل نے اس قسم کے بہت سے گانے کنٹری زبان میں وضع کیے تھے جو اب جنوبی ہند میں گائے جاتے ہیں ۔ بہت سے گانے ایسے ہوتے ہیں جن میں راگ راگنی کی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں ۔ انہیں اصطلاحِ موسیقی میں ’’لکشن راگ‘‘ کہتے ہیں ۔ اسی قسم کے نازک اور ٹیڑھے گانوں کو ’’سرجتی اور پلّوی‘‘ کہتے ہیں ۔ ان سے بھی زیادہ مشکل اور ٹیڑھے گانے ’’ورن‘‘ کہلاتےہیں جن میں سُر تال ، سم اور تان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

طربی قسم میں وہ مختلف دلفریب و دلآویز گانے داخل ہیں جو نہ صرف موسیقی میں کمال دکھانے بلکہ سامعین کو خوش کرنے کے کام میں بھی آتے ہیں ۔ جنوبی ہند میں اس قسم کے گانوں کو کرنی اور کیرتن ، اور شمالی ہند میں دُھرپد اور خیال کہتے ہیں ۔ (یہاں خیال سے مطلب لاؤنی نہیں ہے)۔ ان گانوں کے تمام بول پیارے اور راگ راگنی میں گھلے ہوتے ہیں ۔ جنوبی ہند میں اس قسم کے گانوں کے نام پدم، جوالی ، ترپوگل، اور پلوی وغیرہ اور شمالی ہند میں ٹھمری ، ٹپہ ، ہوری، غزل، ابھنگ وغیرہ ہیں ۔ اگر ہندوستان کے دیہاتی گانوں کو دیکھا جائے تو ان کا شمار انسان کے حیطۂ تخمین سے باہر ہے ۔ مذہب ، مشرق کا اوڑھنا  بچھونا ہے ۔ اس لیے ہندوستان کے عشقیہ گانوں میں بھی عموماً رام اور سیتا یا رادھا اور کرشن کے مقدس ناموں نے داخل ہو کر ان کو ایک حد تک مذہبی رنگ دے دیا ہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭

موجودہ تحریک  احیائے موسیقی

کچھ زمانہ گزرا ، ہندوستان کے مایۂ ناز ملک الشعراء ڈاکٹر رابندرناتھ ٹیگور نے مسٹر ایچ اے پوپلے سے فرمایا تھاکہ ، ’’ہندوستان کے دیگر علوم وفنون اور شائستگی کی طرح ہندوستانی موسیقی پر بھی حالتِ جمود طاری ہے ۔ اور اس کے زندہ ہونے کی کوئی علامت نظر نہیں آتی‘‘۔ لیکن اس زمانہ سے اب تک نامعلوم،  گنگا جمنا میں کتنا پانی بہہ چکا ہے ۔ ہندوستان بیدار ہو چکا ہے اور قومی تحریکات نے اس میں ازسرنو جان ڈال دی ہے ۔ چنانچہ بقول ’’انڈین سوشل ریفارمر بمبئی‘‘،  اس نشوونما کے زمانے میں زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی ہو رہی ہے ۔ موسیقی بھی اس سے  محروم نہیں ۔ اور ’’جرنل آف میوزک اکیڈیمی  مدراس‘‘ نے اپنے پہلے ہی نمبر مورخہ 1930ء میں لکھا تھا کہ،

’’موجودہ زمانہ میں ہندوستانی موسیقی سے زبردست دلچسپی پیدا ہو رہی ہے ۔ اور ہر شخص کی خواہش ہے کہ قدیم ماہرینِ فن اور پرانے استادوں  کے ارشادات و ملفوظات سے مستفید ہو ۔ جس طرف دیکھو ، ملک بھر میں موسیقی کانفرنسیں منعقد ہو رہی ہیں جن میں نہ صرف فن کا کمال دکھایا جاتا ہے بلکہ موسیقی کے اصول اور نازک مسائل پر بھی معقول بحث کی جاتی ہے‘‘۔

ہندوستان میں موسیقی کے متعلق سب سے پہلا رسالہ 1911ء میں ’’انڈین میوزک جرنل‘‘ کے نام سے میسور میں جاری ہوا جس کے ایڈیٹر مشہور ماہرِ موسیقی اور مغنی  مسٹر کرشن راؤ تھے ۔ افسوس،  یہ رسالہ دو ہی سال چل کر بند ہو گیا۔ اب ہندوستان میں موسیقی کے دو پرچے کامیابی کے ساتھ جاری ہیں۔ ایک تو ’’جرنل آف میوزک اکیڈیمی‘‘ مدراس سے نکلتا ہے  اور دوسرا ماریس کالج آف میوزک کے سٹاف کی ادارت میں ’’سنگیت‘‘ کے نام سے لکھنؤ میں شائع ہوتا ہے ۔ ان دونوں رسالوں کے مطالعہ سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی و شمالی ہند میں ہندوستان کا فنِ موسیقی کس قدر نشوونما پا رہا ہے۔

1816ء  سے ہندوستان میں موسیقی کانفرنس کا سلسلہ شروع ہوا جن میں ملک بھر کے استادانِ فن اورماہرین جمع ہو کر نہ صرف اپنے اپنے کمالات دکھاتے ہیں بلکہ فن ِ موسیقی کی باریکیوں اور اس کے نازک مسائل پر تبادلہ خیالات اور مباحثہ کرتے ہیں ۔ اس طرح جنوبی اور شمالی ہندوستانی میں تبادلۂ خیالات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ اور اگرچہ ان کانفرنسوں سے کوئی عملی نتائج پیدا نہیں ہوئے لیکن فن کے متعلق عوام میں بے حد دلچسپی پیدا ہو گئی اور موسیقی کے اصول و فروع کے متعلق بعض غلط فہمیاں بھی رفع ہو گئی ہیں ۔

بیسویں صدی کی ابتداء سے ایک اہم ترقی یہ ہوئی کہ ہندوستان بھر میں جگہ جگہ میوزک سکول قائم ہو گئے ۔ سب سے پہلے موسیقی کے مشہور و معروف دلدادہ  اور پرجوش خدمت گزار پنڈت وشنو دگمبر نے لاہور میں ’’گندھرومہا ودیالیہ‘‘ کے نام سے ایک میوزک کالج کھولا ۔ بعد ازاں اسی نام کا ایک کالج 1908ء میں بمبئی میں کھولا گیا ۔ ان کالجوں میں طلباء کی جماعت بندی کر کے ان کو باقاعدہ علم و فنِ موسیقی کی تعلیم دی جانے لگی ۔ اس کے بعد کلکتہ میں ’’سنگیت سنگھ‘‘ اور ’’سنگیت سمیلن‘‘ اسی غرض سے قائم ہوئے ۔ پنڈت وشنو نرائن بھٹ کھنڈے ساکن بمبئی نے لاہور، گوالیار اور شمالی ہند کے دیگر مقامات میں موسیقی سکول جاری  کیے ۔ ماریس کالج آف میوزک لکھنؤ  کا وجود بھی انھی پنڈت جی کی مساعی جمیلہ اور امداد و اعانت کا رہینِ منت ہے ۔ پنڈت بھاٹ کھنڈے  جی ایک ریٹائرڈ وکیل ہیں مگر ان کی تمام عمر موسیقی کے شوق میں گزر گئی ہے ۔ آپ نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر موسیقی پر سنسکرت کی قدیم کتابیں نکالیں اور شائع کیں ۔ ان میں جنوبی ہند کے پنڈت ونکٹ ماکھی جی کی ’’چاتردھنی پرکشکا‘‘ بھی ہے ۔ علاوہ ازیں پنڈت جی نے شمالی ہند کے راگ راگنیوں کو جدید طریقہ پر مرتب بھی کیا ہے ۔ اور آپ ہی نے جماعت بندیوں کے ساتھ طلباء کو موسیقی سکھانے کا طریقہ ایجاد کیا ۔ چنانچہ اس وقت بھی میوزک کالج لکھنؤ کے نوجوان اور قابل پرنسپل سری کرشن رتن جنکر صاحب،  پنڈ ت بھاٹ کھنڈے جی ہی کے اصولوں اور طریقوں پر طلباء کو موسیقی کی تعلیم دے رہے ہیں ۔

1918ء کے ہفتۂ کانگریس میں آل انڈیا موسیقی کانفرنس کا بھی اجلاس ہوا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شائقین نے کوشش کر کے 1928ء میں میوزک اکیڈیمی مدراس کی بنیاد ڈالی ۔ آنریبل  ڈاکٹر یوراما راؤ اس  کے روحِ رواں ہیں اور آپ کی رہنمائی میں اس اکیڈیمی نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ اب جماعت بندی کر کے طلباء کو موسیقی کی باقاعدہ تعلیم دینے کی تجویز ہو رہی ہے ۔ اس کیڈیمی نے کانفرنسیں منعقد کر کے جنوبی ہند کی موسیقی کے بعض دقیق مسائل پر بہت کچھ روشنی ڈالی ہے ۔ راگ راگنیوں کی بھی ترتیب و تنظیم کی ہے اور حتی الامکان جنوبی ہند کی موسیقی کو عام طور پر بہت کچھ ترقی دی ہے ۔

1929ء میں بمقام چدمبرم اناملائی یونیورسٹی کے سلسلہ میں اناملائی کالج آف میوزک کھولا گیا ، جہاں جنوبی ہند کی موسیقی کا چارسالہ کورس مقرر ہے۔ اس کالج کے پرنسپل جنوبی ہند کے مشہور و معروف ماہر فنِ موسیقی پنڈت جیسا آئر ہیں ۔

مسٹر ایس ستیہ مورتی کی تحریک پر 1928ء میں مدراس یونیورسٹی نے بھی اپنے کورس میں موسیقی کی تعلیم داخل کر لی ۔ کوئن میری کالج مدراس میں پروفیسر سمبا مورتی ،فنِ موسیقی  کے لکچرار ہیں اور بہت سی لڑکیاں موسیقی کو اپنے انٹر میڈیت کورس میں انتخاب کرتی ہیں ۔ اس کے بعد مدراس پریسیڈنسی کے تمام زنانہ سکولوں کے کورس میں موسیقی  داخل ہے ۔ حال ہی میں صوبۂ متحدہ کے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ و ہائی سکول ایجوکیشن نے موسیقی کو ایک مضمون کی حیثیت دے دی ہے ۔

ان واقعات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں اس فن کو ازسر زندہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ وہ زمانہ گزر گیا جب گانے بجانے کو ایک ذ لیل کام سمجھا جاتا تھا ۔ فی زمانہ ، ہندوستان میں گھر گھر موسیقی سے دلچسپی لی جا رہی ہے ۔شمال و جنوب، مشرق و مغرب ایک دوسرے کا اثر قبول کر رہے ہیں ۔ مدراس والے ہندوستان  کے سیدھے سادے گانوں کو سن کر اتنے ہی خوش ہوتے ہیں جتنے کہ پرانے  پکے گانوں کو سن کر اور یہی حال اب شمالی ہند والوں کا ہے ۔ بڑودہ ، جام نگر اور مدراس میں آرچسٹرل (Orchestral) میوزک کا بھی تجربہ ہو رہا ہے یعنی بہت سی  قسم کے ساز سُر ملا کر ایک ہی چیز بجاتے ہیں ۔ پنڈت وشنو دگمبر مرحوم نے اپنی ان تھک کوششوں سے ملک کے ہر حصے میں موسیقی کی روح پھونک دی ۔ گزشتہ دو چار سال سے ہر جگہ موسیقی کو ترقی دینے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ قریب قریب ہر جگہ قومی والنٹیروں کے بینڈ قائم ہو گئے ہیں ۔ سیاسی حیثیت سے مرد اور عورتیں پرے جما کر سڑکوں پر قومی ترانے گانے لگتے ہیں ۔ ڈراموں کے ذریعے موسیقی کو ترقی دی جا رہی ہے ۔ لاسلکی اور نشرِ صوت (براڈ کاسٹنگ) کی اشاعت و ترقی سے بھی اس فن کو بہت نفع پہنچے گا ۔

لیکن ابھی یہ پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی کہ ہندوستانی موسیقی کی آئندہ کن لائنوں  پر ترقی ہو گی ۔ ممکن ہے کہ مختلف ممالک کے فنون ِ موسیقی مل کر ہندوستان میں ایک معجون مرکب تیار کر لیں ۔ کیونکہ اب نقل و حرکت کی آسانیوں کی بدولت ایک شہر کا آدمی دوسرے شہر میں گھنٹوں  کے اندر پہنچ جاتا ہے ۔ پونا کے مشہور گویے عبدالکریم (Ustad-Abdul-Karim-Khan)نے کئی بار جنوبی ہند میں جا کر اپنے کمالات دکھائی ۔ اسی طرح جنوبی کے ماہر فن سانگیت ، ودیا دان ، سی آر سی سرنواس آئنگر شمالی ہند والوں کو کئی بار نقشِ حیرت بنا چکے ہیں ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search