محترم عمران شاہد بھنڈر کی خدمت میں (4)۔ تحریر: محمد دین جوہر
(چوتھی اور پانچویں پوسٹ کا جواب)
بھنڈر صاحب نے چوتھی پوسٹ کسی ترتیب یا باری کے بغیر محض میرے سمجھانے کو لگائی تھی، اور میرا یہ جواب ان کی چوتھی اور پانچویں دونوں پوسٹوں کو شامل ہے۔ چوتھی پوسٹ کا عنوان تھا: ”آئیے، محمد دین جوہر صاحب کو چند بنیادی باتوں کا مطلب سمجھائیں (حصہ چہارم)“ اس پر چشم ما روشن دل ما شاد کہتے ہوئے دو باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ ان کی چوتھی پوسٹ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ آغاز ہی سے مکالمے میں شریک نہیں ہیں، کیونکہ مخاطب ان کے سمجھانے کے لیے تو ہے مکالمے کے لیے کوئی وجود نہیں رکھتا، جبکہ ان کا مایۂ تدریس خود ان کو بھی کفایت نہیں کرتا کجا یہ کہ وہ کسی مکالمے میں مفید ہو۔ دوسرے یہ کہ جب آنجناب نے دریدا کی Of Grammatology آن لائن پڑھانے کا پروگرام بنایا تھا تو میں اس کلاس کے لیے نام لکھوانے والے اولین ”طالب علموں“ میں شامل تھا۔ مجھے اس امر کا بخوبی علم تھا کہ آنجناب الحاد کے علمبردار اور سخت مذہب دشمن ہیں، لیکن میں احترام آدمیت اور حصولِ علم میں ایسے امور کو رکاوٹ خیال کرنا درست نہیں سمجھتا۔ گفتگو، مکالمہ اور تعلیم و تدریس ایک ایسا عمل ہے جو ان تحدیدات سے آزاد ہے۔ لیکن آنجناب کی جیسی کچھ علمی اور فلسفیانہ استعداد اس مکالمے میں سامنے آئی ہے اس سے مجھے جائز طور پر یہ شبہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ دریدا کی یہ کتاب پڑھ یا پڑھا سکتے ہیں، کیونکہ عقل، محضیت کے حوالے سے زیربحث ہے اور آنجناب کبھی صحافیانہ ہیں، گاہے ناصحانہ، اکثر مدرسانہ، اور اگر نہیں ہیں تو فلسفیانہ۔ جب وہ مجھے سمجھانے کی پوزیشن لیتے ہیں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن:
حضرتِ ناصح گر آویں دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا؟
میں نے عرض کیا تھا کہ جس چیز کو وہ ’عقیدہ‘ سمجھ کر اس سے بھڑے ہوئے ہیں وہ ان کا کوئی واہمہ ہے۔ یہ جواہر ریزہ ملاحظہ فرمائیے: ”انسان جب اپنی ہی صلاحیتوں کی تحقیر کرتا ہے تو دراصل اسے اپنے انسان ہونے پر اعتماد نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنی ہی ذات سے ماورا ہو کر کسی ایسی ہستی کی تلاش میں چل نکلتا ہے جسے وہ خود سے ماورا بھی سمجھتا ہے لیکن اپنے لیے ضروری بھی خیال کرتا ہے اور اسی کو ’عقیدہ‘ کہتے ہیں۔ اس کے لیے یہ جاننا اہم نہیں ہوتا کہ ایسی کوئی شے موجود بھی ہے یا نہیں، کیونکہ اگر اس کی موجودگی یا عدم موجودگی کا سوال اٹھایا جائے گا تو وہ انسان کو سیدھا مابعد الطبیعات کے احاطے میں لے جائے گا، جو بقول محمد دین جوہر صاحب ایک قسم کی لغویات ہے، جس کا عقیدے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے“۔ یہ امر واضح ہے کہ ان کی گفتگو ایک مذہبی آدمی سے ہو رہی ہے، اور وہ جس عقیدے کا حامل ہے اس کا ایک ثقہ بیان، صحیح اور غلط سے قطع نظر، سیکڑوں کتابوں میں موجود ہے، اور وہ اس سے مطلقاً بے خبر ہیں، اور میری طرف کچھ مجہول باتیں منسوب کر کے اس کا جواب دیے جاتے ہیں۔ اپنے مخاطب کی تحلیل نفسی سے پہلے انہیں کوئی علمی اور عقلی بات کرنی چاہیے اور وہ ان سے ابھی تک بن نہیں آئی۔ ہمیں اعتراف ہے کہ وہ جو چاہیں کہہ سکتے ہیں لیکن اس سے نہ عقیدے کا رد ہوتا ہے اور نہ عقل کا بول بالا ہوتا ہے۔
فرماتے ہیں: ”تاہم جوہر صاحب جب اپنے ہی پہلے دعوے کی نفی کرتے ہوئے دوسرا دعویٰ کیا تھا کہ عقل عقیدے کے بغیر اپنی فعلیت کا آغاز تک نہیں کر سکتی تو انہیں یہ تفصیل پیش کرنی چاہیے تھی کہ عقل کی فعلیت سے ان کی مراد کیا ہے اور عقل جب اپنی فعلیت کا آغاز کرتی ہے تو کیا وہ اپنے اصول و قواعد کی روشنی میں ایسا کرتی ہے یا پھر وہ عقیدے سے کچھ رہنمائی حاصل کرتی ہے؟ اگر تو عقل عقیدے سے رہنمائی حاصل کرتی ہے تو یہ تفصیل پیش کی جائے کہ عقل کیوں اپنے اصول و قواعد سے دست بردار ہو کر عقیدے کے”اصول و قواعد“ کی پابندی کرے گی؟ اور وہ کون سے اصول و قواعد ہیں جن کی پابندی عقل پر لازم ہے، اس کے عقلیت کی اپنے تاریخ میں سے مثالیں رقم کی جائیں تاکہ جوہر صاحب کا موقف سب پر عیاں ہو سکے“۔ ان کے اس اعتراض کا جواب وجودی اور علمی موقف کے مبحث اور ان کے فرق میں ہے جس سے وہ دور بھاگتے ہیں۔ ان کی سہولت کے لیے میں یہاں فلسفے کی بجائے سائنس سے ایک مثال عرض کر دیتا ہوں، شاید ہماری گفتگو آگے بڑھ سکے۔ مثلاً فزکس کا موضوع ایک فطری مظہر کے طور پر سائنسی طریقۂ کار کے تحت مادہ۔توانائی کا مطالعہ ہے، اور ان مظاہر کے بارے میں حسی ادراک سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں عقل ان میں کلیات داخل کر کے علم کی تشکیل کرتی ہے۔ مادی کائنات کا origin نہ مظہر ہے، اور نہ ہی وہ حسی ادراک میں ہے اور نہ یہ سوال عقلی ہے، اور نہ عقل اس سوال کو حل کرنے کی کوئی خلقی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اس سوال کی طلب ایسی ہے کہ اس کے جواب کے بغیر وہ اپنے کام کا آغاز بھی نہیں کر پاتی۔ جب عقل بگ بینگ کے نظریے سے اس کا جواب دیتی ہے کہ کائنات ازخود وجود میں آئی ہے، تو یہ جواب عقل، عقلی دلائل یا کسی مشاہدے پر مبنی نہیں ہے، اور عقیدے کی طرح مانا ہوا جواب بھی نہیں ہے، بلکہ ایک توہم ہے جس کو عقیدے کی وجودیات دے دی گئی ہے۔ اور یہ جواب اس قدر اہم ہے کہ طبیعاتی علم کا تنظیمی اور وجودی اصول ہے جس کے بغیر یہ سارا علم کوئی معنویت ہی پیدا نہیں کر سکتا۔ تمام سائنسی اور سماجی علوم کی تہہ میں origin کا سوال عقل سے prior ہے، اور علوم میں اس کا جو جواب نیو کے طور پر لایا جاتا ہے وہ قطعی meta-rational ہے، غیر عقلی ہے۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ فزکس میں اس کے شواہد موجود ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حس اور عقل صرف مظاہر اور ان کی میکانیات کو مؤید اور مدلل کر سکتی ہے، اور ماورائے عقل انسان کے وجودی سوالات و مقتضیات کی طلب رکھتے ہوئے ان پر کوئی ججمنٹ دینے کی سرے سے کوئی استعداد ہی نہیں رکھتی۔ میں تو علاقے اور تقابل وغیرہ کی کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ آنجناب کا پسندیدہ موضوع ہے۔ لیکن عقل اور سطح وجود کا جو بنیادی مسئلہ ہے آنجناب اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دینا چاہتے۔
جناب بھنڈر صاحب فرماتے ہیں: ”عظیم جرمن فلسفی عمانوئل کانٹ نے اپنی کتاب بعنوان ”منطق“ میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک ایسا انسان جو پڑھا لکھا نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود وہ ایک زبان کو بروئے کار لا کر اپنے روز مرہ کے معاملات کو فطری طور پر طے کر لیتا ہے۔ وہ زبان کے اصول و قواعد سے آشنا نہیں ہوتا، وہ نہیں جانتا کہ زبان کی گرائمر کیا ہوتی ہے، تاہم اس کے باوجود وہ زبان بولتا ہے اور پوری زندگی گزار کر رخصت ہوتا ہے۔ جس طرح ہر زبان کے اصول و قواعد ہوتے ہیں اور انہیں سمجھے بغیر زبان کا استعمال کیا جا سکتا ہے، بالکل ایسے ہی انسانی صلاحیتیں مختلف تفاعل کی حامل ہوتی ہیں، جنہیں جاننے سے قبل ہی ان ان کے استعمال پر قادر ہوتا ہے۔ ان کے درمیان تعلق کی نوعیت کو جاننا، ان کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا، ان کا ایک دوسرے میں نفوذ کر جانا اور اس سارے پروسیس کی تفہیم کے بعد جو بنتر سامنے آتی ہے، وہ انسانی صلاحیتوں کے اصول و قواعد پر مشتمل ہوتی ہے، اس پہلو کو صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جو فلسفیانہ مباحث میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مختصر یوں کہ انسان کا اس کی اپنی ہی صلاحیتوں کے تفاعل کو جاننا حقیقت میں انسان کو جاننا ہے اور کسی بھی عقیدے کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ انسان کو اس کی صلاحیتوں سے محروم کر کے اپنی تقلید میں چلنے کا محرک بن سکے۔ جس طرح ہر شخص زبان کے اصولوں سے واقف نہیں ہوتا، بالکل ایسے ہی ہر شخص انسانی صلاحیتوں کے عمل سے بھی واقف نہیں ہوتا، ایک عام انسان یہ سمجھے بغیر کہ اس کی کس صلاحیت کا کیا تفاعل ہے اپنی زندگی میں نظم و ضبط لے آتا ہے۔“ گزارش ہے کہ کانٹ کی ”منطق“ کا یہ ملیدہ اخباری قارئین کے لیے تو مفید ہے لیکن کسی علمی بحث میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ انسان کا axiological consciousness اپنی سطح وجود میں منطق اور عقلی شعور کی ججمنٹ کا موضوع نہیں ہے۔ عقل، منطق اور وجدان سے صرف یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ انسان قدری مقتضیات رکھتا ہے، اور عقل و منطق اپنی خلقی تحدیدات کے باعث ان پر کلام کی مجاز نہیں ہے۔ جدید فلسفہ ایک عظیم انسانی ذمہ داری ادا کرنے کی قطعی ناکام کوشش ہے۔ اس بحث کا بالکل عام قاری بھی یہ جانتا ہے کہ بھنڈر صاحب جس چیز کو مذہبی عقیدہ بنا کر پیش کر رہے ہیں وہ صرف ان کے توہم میں ہے، ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ عرض ہے کہ جس چیز کو وہ فلسفہ بنا کر پیش کر رہے ہیں اس کا بھی یہی حال ہے۔
آنجناب کا کہنا ہے: ”تاہم اس ساری بحث کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے۔ یہ کسی بھی صورت میں تصور نہیں کیا جا سکتا کہ کائنات میں موجود ہر شے تو قواعد کی پابند ہو، لیکن انسان اپنی ہی داخلی صلاحیتوں سے مبرا ہو کر ماورائے عقل کوئی ہستی تراش لے اور اس کی ماہیت کو جانے اور سمجھے بغیر دنیا سے رخصت ہو جائے۔ اس لیے عقل کا خود سے ماورا ہو کر تفکر کرنے کی کوشش کرنا خود عقل کی صلاحیت کا اہم جزو ہے۔ مابعد الطبیعات، جوہر صاحب کے لیے تو ’لغویات‘ ہو سکتی ہے لیکن عقل کے لیے مظاہر سے پرے ان کے جوہر تک رسائی کی کوشش کرنا خود عقل کی صلاحیت کی نفی ہرگز نہیں ہے، بلکہ عقلی صلاحیت کے عین مطابق ہے۔“ اب یہ امر کہ عقل کا خود سے ماورا ہونا ممکن ہے یا نہیں، تو وہ metaphysics on the basis of reason alone کے عدم امکان میں ایک حتمی ثبوت رکھتا ہے۔ یہاں بھنڈر صاحب مابعدالطبیعات اور جوہر میں جو التباس سامنے لائے ہیں وہ بھی انہیں کا خاصہ ہے۔ جوہر اور عرض کا مسئلہ خالصتاً عقلی ہے، مابعد الطبیعات جیسا کہ معلوم ہے قطعاً عقلی نہیں ہے کیونکہ بنیادِ عقل پر ممکن نہیں ہے۔ اب ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ عقل خود ماورا ہونے کا داعیہ ضرور رکھتی ہے، استعداد نہیں رکھتی۔ یعنی عقل اپنی سطح وجود کو transcend کرنے کی کوئی استعداد و صلاحیت نہیں رکھتی۔ اور ہمارے درمیان عقل کی یہ استعداد ہی زیربحث ہے، اس کا اقتضا زیربحث نہیں ہے۔ وحی کو تسلیم کرنے سے عقل اپنی وجودیات تبدیل کر لیتی ہے اور عرفانی مابعد الطبیعات کی تشکیل میں ملکۂ خیال کی معاون ہوتی ہے، لیکن یہ امر یہاں زیربحث نہیں۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ عقیدہ اور مابعدالطبیعات دو قطعی طور پر منفک اور الگ چیزیں ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر مابعدالطبیعات تشکیل دی جا سکتی ہے جیسا کہ ہم ابن عربیؒ کے ہاں دیکھتے ہیں، لیکن اسے عقلی کہنا جنون ہے۔ عقل کا مابعدالطبیعات کی طرف لپکنا پیاسے کا پانی طرف لپکنا ہے یعنی عقل اپنے خلقی اقتضا سے اس کی طرف مائل ہے، اور بہ وجہ استعداد خائب و خاسر ہے۔ مابعدالطبیعات میں دو چیزیں ظاہر ہیں: ایک عقل کی خلقی طلب یا اقتضا، اور دوسرے اس کے حاصلاتِ مابعدالطبیعات۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اول الذکر حقیقی ہے اور مؤخر الذکر لغو۔ جب ہائیڈگر کہتا ہے کہ Philosophy is metaphysics تو وہ عین اسی چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ فلسفہ اصلاً قدر کی تلاش ہے لیکن اس میں ناکام ہے۔ اور فلسفے کو حکمت قرار دینے کا بھی عین یہی مفہوم ہے۔ عقلی اور سائنسی علوم آلاتی ہیں، صورت اشیاء کے تابع ہیں، مادے اور توانائی کے مسخر ہیں، اور اپنی آغاز و انتہا میں طاقت اور سرمائے کے مؤثر آلات ہیں، جبکہ قدر اور حکمت انسان کے انسان رہنے کے لیے ضروری اور اس کی انسانی تشکیل کے لیے لازم ہیں۔ انسان کو علم انسان نہیں رکھ سکتا، یہ اقدار کا کام ہے اور جدید علم اپنے کل مظاہر میں اس سے خالی ہے۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ قدر اور عقلی علم میں پہلے سے قائم سطح وجود کے فرق کو نظرانداز نہ فرمائیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ”تاہم جوہر صاحب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ عقیدے کا وہ کون سا پہلو ہے جس کے بغیر عقل کی فعلیت کا آغاز نہیں ہوتا۔ جبکہ عقل اپنا آغاز فطری طور پر کر چکی ہوتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی انسان زبان کے اصولوں کے اکتساب کے بغیر ہی زبان بولنے پر قادر ہوتا ہے۔ عقل اپنی فعلیت کو بعد میں جانتی ہے، جب عقل اپنی ہی فعلیت پر منعکس ہوتی ہے، اور اس کی تفہیم کی کوشش کرتی ہے، لیکن عقل کی فعلیت کا آغاز انسان کی عملی فعلیت کے ساتھ ہو چکا ہوتا ہے۔ فلسفیوں نے بہت باریکی اور گہرائی میں جا کر انسان کی اجتماعی فکری فعلیت کی ماہیت کو جاننے کی سعی کی ہے، اور کچھ ایسے نتائج اخذ کیے ہیں جن سے انسان کو اپنے افعال کو بہتر طور پر سمجھنے کا مواد فراہم ہوا ہے۔ اگر جوہر صاحب عقل یا انسان کی دیگر صلاحیتوں کو جاننے کے عمل سے محروم رہے ہیں تو یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے زبان کو استعمال میں بھی لایا جائے، لیکن اس میں مضمر اصول و قواعد کے ہونے کا انکار بھی کر دیا جائے۔ محض انکار کافی نہیں ہے۔ یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ انسان کے پاس کس صلاحیت کا تفاعل کیا ہے اور عقیدہ انسان کی کس حس کی تسکین کا باعث ہے، اور انسان کی کون سی صلاحیت ایسی ہے جو کسی عقیدے کی حقانیت اور سچائی کا تعین کرتی ہے۔ اور اگر اس قضیے کی وضاحت نہیں کی جاتی تو ا س کا مطلب محض یہ ہے کہ ہر عقیدہ اپنی ماہیت میں اتنا ہی سچا ہے جتنا کہ وہ جھوٹا ہے۔“ ان ارشادات کا فلسفے سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عقیدے کے بارے میں ان کے توہمات کا ہے۔ اس میں نقطۂ کمال ان کا یہ پوچھنا ہے کہ ”یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ … عقیدہ انسان کی کس حس کی تسکین کا باعث ہے“۔ ایسے ہی سوالات ہیں جن سے ان کا سارا فلسفہ پیدا ہوا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہیگل یا کانٹ کا نام لینے سے آدمی فلسفی نہیں ہو جاتا۔
آنجناب فرماتے ہیں: ”بالکل ویسے ہی جیسے کسی ایک عقیدہ پرست کے لیے کوئی بھی دوسرا عقیدہ غلط ہوتا ہے۔ نام نہاد ”مخبر صادق“ کسی عقیدہ پرست کے لیے تو بامعنی ہو سکتا ہے، لیکن عقل کا اس پر سوال اٹھانا خود عقل کا تقاضا ہے، جس سے عقل کو محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ کیونکہ عقل یہ جاننا چاہتی ہے کہ ”مخبر“ کے مفاہیم کیا ہے؟ اور اس کی ”صداقت“ کا پیمانہ کیا ہے؟ یہ ذمہ داری بھی جوہر صاحب کی ہے کہ وہ کس صلاحیت کو بروئے کار لاکر کسی بھی عقیدے کے سچے یا جھوٹے ہونے کی وضاحت کرتے ہیں۔ فلسفے کے مطابق تو کسی بھی شے کا محض ’ہونا‘ ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کا عقلی ہونا ضروری ہے، اور عقل چونکہ چیزوں کو ان کی ساکن حالت میں نہیں دیکھتی بلکہ ان کے ”بننے“ کے پروسیس میں دیکھتی ہے، اس لیے وہی پروسیس بذات خود عقل کی توسیع کا باعث بھی بنتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عقل خود اپنے افکار میں گہرائی اور وسعت لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔“ اس میں ’نام نہاد‘ مکالمے کی اسپرٹ کے منافی ہے۔ آنجناب کا خیال یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں جو بات آتی چلی جائے وہ فلسفہ ہوتا ہے۔ عقیدے کے بارے میں یہ تمام سوالات قابل بحث ہیں، اور ان پر سوال اٹھانا ہمارے خیال میں ایک معمول کی عقلی کارگزاری ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کام کے لیے عقل کا ہونا ایک لازمی شرط ہے۔ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ: ”فلسفے کے مطابق تو کسی بھی شے کا محض ’ہونا‘ ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کا عقلی ہونا ضروری ہے۔“ اگر وہ فرماتے کہ ”میرے فلسفے کے مطابق“ تو شاید ہم مروتاً مان لیتے۔ ہو سکتا ہے وہ جوش میں ماورائے حواس ’وجود‘ کے بارے میں یہ الفاظ کہہ گئے ہوں۔ لیکن جو آدمی فلسفے کا مبتدیانہ شعور رکھتا ہے وہ بھی یہ بات نہیں کہہ سکتا۔ ماورائے حواس ’وجود‘ کا ہونا یا نہ ہونا، اور اس کا عقلی یا غیر عقلی ہونا تو ہمیشہ سے غیرنتیجہ خیز عقلی بحث کا موضوع ہے۔ لیکن ظاہر وجود یعنی کائنات کا ’ہونا‘ قطعی غیرعقلی ہے کیونکہ اس کائنات کا یا کائنات میں ہونا، نہ ہونے کو مستلزم ہے، اور نہ ہونا عقلی ہے جبکہ یہ کائنات ’ہے‘، اور اس تقریر پر ’ہونا‘ قطعی غیر عقلی ہے۔ یعنی وجود میں آنے اور فنا ہو جانے سے بہتر ہے کہ وجود ہی میں نہ آئے، یہ ہے درست عقلی قضیہ۔ فلسفے اور عقل کا یہی تو بنیادی سوال ہے کہ:
Why is there something rather than nothing?
اور یہ سوال عقل کے عین اسی موقف سے پیدا ہوا ہے کہ ’ہونا‘ عقلی نہیں ہے، اور عقل کے علی الرغم ہے۔ اور عین یہی وجہ کہ ہزارہا سال کی مسلسل کوشش کے باوجود عقل پورے ظاہر وجود کا نہ کوئی ادراک رکھتی ہے، نہ اس کی فہم کی حامل ہے اور نہ اس کی کوئی توجیہہ کر پائی ہے۔ کائنات یا ظاہری وجود اپنی پورائی میں نہ empirically انسان کے ادراک میں ہے اور نہ rationally اس کے احاطے میں ہے۔ اس میں یہ موقف اختیار کرنا کہ ’ہونا‘ عقلی ہے بہت علمی جسارت کی بات ہے۔ ان کی پوری تحریر اسی طرح کے فلسفیانہ ”علی ہذا القیاس“ سے بھری ہوئی ہے۔ میں یہ ضرور عرض کروں گا کہ اگر وہ مثلاً ”شرح عقائد نسفی“ میں مسلم عقیدے کے بیان کو معیاری تسلیم کر لیں اور اس کو میرا ہی عقیدہ تصور فرمائیں اور اس کو رد کرنے کے عقلی دلائل لائیں تو میں گفتگو کے لیے حاضر ہوں۔ یا اگر وہ عقیدے کے حوالے سے فلسفے کا کوئی متن سامنے لائیں تو بھی گفتگو کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ آگے آنجناب کی پانچویں پوسٹ پر معروضات ہیں۔
پانچویں پوسٹ پر معروضات:
میری گزارش ہے کہ بھنڈر صاحب کی آخری (پانچویں) پوسٹ کے بعد ہماری بحث ختم ہو گئی ہے کیونکہ مکالمے میں جس محلِ اختلاف، نوعِ اختلاف اور وجہ اختلاف سے بات شروع ہوئی تھی وہ ایک نتیجہ خیز اتفاق پر منتج ہوئی ہے، لیکن اختلاف کی طرح وہ کسی علمی اتفاق کی معنویت سے بے خبر بھی ہیں اور روگرداں بھی۔ آنجناب کو آموختہ یقیناً ازبر ہے، لیکن وہ اختلاف اور اتفاق اور نہایت بنیادی نوعیت کے فلسفیانہ اور علمی مواقف سے بھی کوئی تعرض نہیں رکھتے جو میں ذیل میں عرض کر رہا ہوں۔
بھنڈر صاحب کا کہنا ہے کہ: ”میری دانست میں عقل کا تقابل اگر کرنا ہے تو وہ انسان کی کسی دیگر صلاحیت سے کیا جا سکتا ہے، بالخصوص وجدان یا فہم سے، لیکن جہاں ایک طرف مذہبی عقیدہ ہو اور دوسری طرف عقل ہو، دونوں کا علاقہ بھی الگ تسلیم کر لیا جائے تو وہاں تقابل کس سے کیا جائے؟ البتہ مذہبی عقیدے کا تقابل الحاد سے کرایا جا سکتا ہے۔ وہ بھی اگر الحاد کو ایک ’عقیدے‘ کے طور پر سمجھا جائے۔ عقل کو بطور ایک انسانی صلاحیت کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود عقل کی تاریخ کو زیرِ بحث لایا جائے۔“ یہاں آنجناب انہیں امور کا اعادہ فرما رہے ہیں جو وہ گزشتہ میں کہہ چکے ہیں۔ گزارش ہے کہ عقل پر محضیت میں کلام ہے اور جدید فلسفہ یقیناً اس پر کلام کے وسائل رکھتا ہے اور کسی حد تک اردو میں بھی بات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ لیکن آنجناب تقابل، علاقوں، دروازوں، حاصلات اور مہماتِ تاریخ ہی کو توشہ عقل خیال کیے ہوئے ہیں۔ زیربحث موضوع اپنے تناظر میں مکمل طور پر مغربی ہے اور ہماری طرح وہ بھی مغرب کی علمی روایت ہی کے خوشہ چیں ہیں۔ فلسفے کی تیسرے درجے کی کتابوں میں بھی فلسفہ اس اسلوب اور سطح پر زیربحث نہیں آتا جو ان کے ہاں ظاہر ہو رہا ہے۔ چلیے اگر وہ تقابل ہی فرمانا چاہتے ہیں تو گزارش ہے کہ وہ rational consciousness اور axiological consciousness میں فلسفیانہ تقابل کا آغاز فرمائیں، کیونکہ یہ تقابل ہماری گفتگو کے لیے بھی کئی پہلوؤں سے relevant اور بامعنی ہے۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ بات آگے بڑھ سکے اور ان کی تقابلی طلب بھی پوری ہو سکے۔
گزارش ہے کہ عقیدے کے رَد کا ان کا پورا فلسفیانہ پراجیکٹ نہایت مضحکہ خیز ہے۔ جدید فلسفہ تو سائنس کے ہاتھوں نہ صرف مکمل شکست کھا چکا ہے بلکہ ہر طرح کے اساسی سوالات سے دستبردار ہو کر لسان میں ویسے ہی پناہ گیر ہے جیسے کہ گھن لکڑی میں چھپ جاتا ہے۔ اہم تر یہ ہے مغربی فلسفے اور سائنس کی روایت میں مذہبی عقیدے کا انکار اساسی ہے، رد غیراہم ہے کیونکہ واقع ہی نہیں ہے۔ تنویری عقل نے اپنے انکار کو مؤید کرتے ہوئے جدید علوم کے لیے کچھ گنجائش نکالی تھی، اور اب تو وہ بھی باقی نہیں رہی۔ جدید انسان کا علمی مفاد انکار اور رد کے التباس سے اخذ ہوتا ہے۔ جدید علوم انکار سے پیدا ہوئے ہیں، رد سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ فلسفے اور سائنسی علوم کے تمام پینترے اسی انکار کے پائے چوبیں سے سامنے آئے ہیں۔ معمولی کامن سینس بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ اگر جدید علوم مذہبی عقیدے کے رَد کی کوئی استعداد رکھتے ہوتے تو عقیدے کا کسی بھی سطح پر باقی رہنا ممکن نہیں تھا۔ پھر یہ کہ عقیدے اور عقل کی بحث جیسی کہ مغربی فلسفے میں ظاہر ہوئی ہے اور سائنس اور مذہب کا جھگڑا جس اسلوب میں مغربی فکر کا حصہ ہے، وہ ایک مہتمم بالشان علمی اور فکری روایت ہے، اور اس کی فکری سطح بھنڈر صاحب کی عقل اور سمجھ سے یقیناً زیادہ ہے۔ جدیدیت اور اس کی زائیدہ فکر نے اپنے انکار کو جس طرح علوم میں مؤید کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہر لحاظ سے heroic ہے، اور ہیرو کے المناک انجام کو مستلزم بھی ہے۔ بھنڈر صاحب کو یہ معلوم نہیں کہ ارادی انکار اور علمی رد دو قطعی مختلف چیزیں ہیں۔ ہمیں کسی کے انکار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہمارا مسئلہ صرف علمی رد سے ہے۔ مغرب کا پورا علم عقیدے کے انکار کا محضرنامہ ہے، عقیدے کے رَد کی کوئی ادنیٰ دلیل بھی سامنے نہیں لائی جا سکی۔ بھنڈر صاحب عقیدے اور عقل کا مسئلہ جس مبتدیانہ سطح پر زیربحث لا رہے ہیں اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے وہ ایک بڑی فکری روایت کو جو ان کی فہم سے بالاتر ہے محض اپنی مذہب دشمنی کی آڑ بنا رہے ہیں۔ جو اہلِ علم مغربی مطالعہ جات کی براہ راست استعداد رکھتے ہیں، وہ ان کی فلسفہ دانی کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔
بھنڈر صاحب بہت سی باتوں کا اعادہ کرتے چلے جاتے ہیں، جیسے یہ کہ ہمیں فلسفے کا پتہ نہیں، اور ہم حقائق کو مسخ کر رہے ہیں، اور یہ کہ ہم دلیل سے نابلد ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں کسی جوابی فہرست سے گفتگو کا رخ نہیں موڑنا چاہتا، لیکن یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ وہ جس چیز کو مذہبی عقیدہ قرار دے کر فلسفہ سازی کر رہے ہیں، اس کا موازنہ عقائد کی کسی عام کتاب سے کر کے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ انہیں عقیدے کی کتنی کچھ خبر ہے۔ ہمارے نزدیک مذہب دشمنی اور عقل دشمنی ایک ہی طرح کے عوارض ہیں۔ ان کے ہاں عقیدے اور عقل کی معلومات کی سطح بھی ایک ہی ہے۔
فرماتے ہیں: ”مغربی فلسفے میں مابعد الطبیعات کا مطلب صرف ”عقیدہ“ نہیں ہے۔ بلکہ مابعد الطبیعات کا مطلب ”مکمل حقیقت“ کو بطورِ سائنس جاننا سے جڑا ہوا ہے۔ پہلا سوال کہ کیا ایسی کوئی حقیقت موجود ہے جو ظاہر سے پرے ہو، جو حواس کی گرفت میں نہ آتی ہو؟ اور اگر ایسی کوئی حقیقت موجود ہے جو کائنات کی خالق ہے تو کیا فلسفہ اس کا ہر صورت انکار کرتا ہے؟“ یہ فلسفہ بھی خوب ہے۔ آنجناب جس چیز کو عقل کا معروض کہنا اپنی ایک فلسفیانہ ’دریافت‘ سمجھتے ہیں، یعنی مادی دنیا، ابھی تک تو وہ معروض بھی بطور سائنس یعنی معروضی علم کے سامنے نہیں لایا جا سکا، کجا یہ کہ فلسفہ ماورائے حواس ”حقائق“ کی بات کرے۔ فلسفہ تو دور کی بات ہے، اب تو سائنس بھی ان کے پسندیدہ ”معروض“ کے علم کے دعوے سے دستبردار ہو چکی ہے۔ سائنسی علم میں فاعل کی مؤثر موجودگی اس کے معروضی علم ہونے کی مکمل نفی کر دیتی ہے۔ پھر عقل اپنا سائنٹفک میتھڈ چلانے کے لیے جس طرح طاقت اور سرمائے کی دریوزہ گری کرتی ہے، اس کے بعد اس کے معروضی ہونے کی بحث ہی ختم ہو جاتی ہے۔ حس تو ذاتِ انسانی کے ادراک سے بھی قاصر ہے، اور جو مکمل طور وجدانی ہے، اور عقل کا دائرہ تو وہیں تک ہے جہاں تک حس ہے۔ سائنٹفک میتھڈ تو حس اور مادی معروض تک ہی کارگر ہے، اور انفس انسانی میں وجدان کا سہارا لیتے ہی عقل کی یہ بیساکھی بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔
جناب مزید تحریر فرماتے ہیں: ”لہذا یہاں سے ”مذہبی عقیدے“ کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ ایسی مابعد الطبیعاتی ”حقیقت“ فلسفیانہ مباحث کا حصہ بن کر آپ کے خود ساختہ ”مخبر صادق“ سے کہیں زیادہ حقیقی دکھائی دیتی ہے۔“ مجھے حیرت ہے کہ وہ فلسفی ہو کر ایسی تحریر لکھتے ہیں اور پھر بھی وہ فلسفی ہی رہتے ہیں، کیونکہ وہ خود فلسفے ہی کے اٹھائے ہوئے کسی بنیادی سوال کا سامنا ہی نہیں کر پاتے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس ”حقیقت“ کو کیونکر جان پائے جس کو وہ مابعدالطبیعاتی قرار دے رہے ہیں؟ بہرحال یہ دیکھ کر بہت اطمینان ہوا ہے کہ اس طرح کے فلسفے سے نہ عقیدے کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے اور نہ عقل کی کسی خدمت کا امکان ہے۔ یہ ویسی ہی فلسفیانہ مہمات ہیں جیسی سروانٹے کا ہیرو سرانجام دیتا ہے۔ ہم عقل کی ایسی مسخرگی کو انسان کے لیے کسی بھی سطح پر مفید نہیں پاتے۔
آنجناب فرماتے ہیں کہ ”میں اپنی پہلی تحریر میں بھی لکھ چکا ہوں کہ عقل عقیدے کے لیے راستہ چھوڑ دیتی ہے یا پھر عقیدے کو ”ریشنلائز“ کرتی ہے۔ اصل سوال عقیدے کے انکار کا نہیں بلکہ اس کے تعقلی یا عدم تعقلی اثبات کا ہے، ظاہر ہے آپ ان مباحث سے نابلد ہیں اور اپنے قارئین کو وہی صدیوں پرانا ”مخبر صادق“ کا جعلی نسخہ دے کر ان کے جذباتی و ذہنی استحصال کرنے کا صدیوں پرانا ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں،کیا ہی اچھا ہو کہ آپ عقل کے بارے میں خاموشی اختیار کر کے عقیدے کے حق میں ٹھوس دلائل لائیں، کیونکہ جونہی موصوف عقل کے بارے میں بولتے ہیں تو وہ غلط ہی ہوتا ہے۔ مفروضات پہ مفروضات نہ تراشتے جائیں، عقیدت پسندوں کے لیے تو ٹھیک ہو گا لیکن عقل پسندوں کے لیے یہ محض وقت کا زیاں ہے“۔ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے کہ اس طرح کی فلسفیانہ گفتگو صرف وقت کا زیاں ہے۔ میری عرض ہے کہ یہ تو عقل کا بھی زیاں ہے۔ اگر عقل کسی چیز کو rationalize کر سکتی تو positivism کی موت کیوں واقع ہوتی؟ جدید سائنسی عقل تو اپنے ارادی طور پر طے کردہ معروض کے امکانِ علم سے بھی دستبردار ہو گئی ہے، اور حیرت ہے کہ وہ عقیدے کو rationalize کرنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ بہرحال میں تو اپنے وطنی فلسفی کی ہمت کی داد ہی دے سکتا ہوں۔
محترم عمران شاہد بھنڈر فرماتے ہیں: ”جوہر صاحب بڑی صفائی سے اب عقبی دروازے سے نکلنا چاہ رہے ہیں۔ محترم یہ مطالبہ میرا نہیں آپ کا تھا، میں نے تو صرف اتفاق کیا تھا، اور آپ کو یہ اب کافی دیر بعد یاد آیا ہے۔ میں نے تو جب عقیدے کو عقل کے حضور پیش کیا تھا تو صرف عقل کے حاصلات گنوائے تھے، اور عقیدے کی آزادانہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ تقاضا کیا تھا کہ عقیدہ عقل پر اعتراض کرنے کی بجائے اپنے کارناموں پر توجہ مرکوز رکھے“۔ اس میں پہلی عرض تو یہ ہے کہ انہیں عقبی پیشی دروازوں کا پتہ نہیں کیوں وہم ہو گیا ہے۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہم کہیں نہیں جاتے، ان کی خدمت میں مدام حاضر ہیں۔ پھر یہ کہ انہیں اپنا آموختہ دہرانے کی عادت بہت ہے۔ اس میں وہ میری ایک مدد کر سکتے ہیں کہ فلسفے کی کوئی گھٹیا سے گھٹیا کتاب ہی بتا دیں جس میں عقیدے اور عقل کا شماریاتی موازنہ کر کے عقلی انتاجات سامنے لائے گئے ہوں جیسا کہ ان کا طریقہ کار ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ ابھی تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم عقیدے میں کھڑے ہو کر عقل پر اعتراض کر رہے ہیں۔ علم اور فلسفے کی پوری روایت عقل کے عقل پر اعتراضات اور دلائل اور رد دلائل کا نام ہے، اور اس گھمسان میں جدید عقل اب نیم جاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے میری معروضات میں اٹھائے گئے کسی بھی بنیادی سوال سے کوئی تعرض نہیں کیا ہے۔ عقیدے کو ایک counterfoil بنا کر یا اسے philosophical whipping boy بنا کر خود عقل اور اس کی تحدیدات پر گفتگو سے فرار اختیار نہیں کیا جا سکتا۔
مزید تحریر فرماتے ہیں کہ ”میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں آپ کے ان خیالات کی پیروی میں ماہرینِ اقبالیات فلسفیوں کی بحث سے عقیدے کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی وجدانی جواز تلاش نہیں کریں گے۔ جہاں تک عقل کو بلادلیل رہنما ماننے کا آپ کا دعویٰ ہے تو وہ باطل محض ہے، خود عقل کی تاریخ اس کی تصدیق نہیں کرتی۔ کیونکہ عقلی علوم کے پیروکار عقل کی فعلیت میں اس کے ہونے کا جواز تلاش کرتے ہیں۔ عقل اپنے معروض میں اپنا راستہ تراشتی چلی جاتی ہے، وہ فکر کی اس ہیئت کی پیروی کرتی ہے، جو خود اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ عقل کے اندر خود کو معروضی شکل دینا کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے، جبکہ عقیدے کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار ہی نہیں ہے کہ وہ سوائے مفروضات پر ایمان کے ان کا کوئی مدلل جواز تلاش کر سکے“۔ اس میں ضروری بات اپنی گزارش کا اعادہ ہے کہ وہ اقبالؒ سے اپنا جھگڑا خود ہی نمٹائیں۔ اقبالؒ قلندر ہے اور اس کے قدم اکھاڑنا ممکن نہیں، اور نہ انہیں ہماری کسی مدد کی ضرورت ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ان کو Olympian Immortal کہہ کر میرا خیال ہے بحث ختم کر دی ہے۔ اگر کوئی گلی کے روڑے کو ہمالیہ سمجھ کر اس سے کھیلنا شروع کر دے تو کوئی بھی کچھ یاوری نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہ ”بلادلیل رہنما مان لینا“ اور ”عقل کی فعلیت میں اس کا جواز تلاش کرنا“ ایک ہی چیز ہے۔ میں یہاں ”جواز“ کی بات نہیں کر رہا کیونکہ علم و عمل میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ کوئی نہ کوئی جواز رکھتا ہے۔ ہم تو آنجناب کے مقدمے کی یاد دہانی کرا رہے ہیں کہ علم میں سچ دلائل سے قائم ہوتا ہے۔ عقیدے کو چھوڑیں، آنجناب تو عقل کی ”مطلق رہنمائی“ کے کوئی عقلی دلائل نہیں رکھتے کیونکہ اگر مطلق کو دلائل کی ضرورت ہے تو وہ مطلق کیونکر ہو گیا؟
پھر فرماتے ہیں کہ ”وہ [عقل] اپنا اظہار فکر کی تجریدی ہیئتوں میں ہی نہیں کرتی، بلکہ اس کی فعلیت ہر حوالے سے کنکریٹ ہوتی ہے۔ اس لیے ہمارا عقل پر یقین بھی مقرونی نوعیت کا ہے“۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ انہیں abstract اور concrete کا فرق معلوم نہیں، لیکن یہ فقرہ تو یہی بات چنگھاڑ رہا ہے۔ مجھے اپنی پہلی بات پھر یاد آ جاتی ہے کہ ایسی تحریریں صرف وہی شخص لکھ سکتا ہے جس کو عقیدے اور عقل سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ میرا مشورہ ہے کہ اگر ہو سکے تو وہ شاعری شروع کر دیں تو شاید ہمارے لیے زیادہ مفید ہو۔ گزارش ہے کہ عقل اپنے ہر ہر پہلو میں abstract ہے، اور جو چیز انسانی شعور میں abstract ہے، وہ خارج از شعور concrete سے اپنی نسبتوں کی تعیین کے عمل میں ہے۔
آنجناب کے خیال میں ہماری فہم ہر درجے میں ناقص ہے، اور نصیحت کرتے ہیں کہ ”اگر وقت ملے تو کانٹ کی کتاب بعنوان ”تنقید عملِ محض“ کے پہلے پانچ صفحات ملاحظہ کر لیں، ان میں کانٹ کے عملی پروجیکٹ کی تشکیل کے بنیادی اصولوں کی وضاحت ہو جاتی ہے۔“ میں تو یہاں تک بھی تیار ہوں کہ مل کر پڑھ لیتے ہیں، یا اگر یہ امر ان کی علوِ ذات کے منافی ہو تو وہ ہمیں پڑھا دیں اسی میں بہت سی باتیں نمٹ جائیں گی۔ آگے چل کر وہ لیوتار کے حوالے سے جو ارشاد فرما رہے ہیں، وہ patently false ہے کیونکہ اس کی کتاب نے تو فکر کے ایک نئے عہد کا آغاز کیا ہے جس کا وہ سامنا کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ یہ بات قارئین کے علم میں ہے وہ عقیدے پر عقل کے باہمی نزاعات سے فائدہ اٹھانے کا الزام عائد کر چکے ہیں، حالانکہ لیوتار کے حوالے سے عین یہی کام وہ خود کر رہے ہیں۔ پھر یہ کہ میری کم علمی تو صرف اسی وقت مدلل ہو سکتی ہے جب وہ کوئی علم سامنے لائیں۔ مولویوں کی طرح صرف اپنی فہم کو حرفِ آخر قرار دے کر فتوے دیے جانا علم میں معتبر نہیں ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نیم خواندہ متبعین کی دلجوئی ضرور ہو جاتی ہے۔
آنجناب کی تحریر کا آخری حصہ بہت دلچسپ ہے جہاں ہمارے ممدوح محترم نے Sovereignty of Reason پر کلام فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں:”یہ دعویٰ فقط میرا ہی نہیں ہے کہ عقل مطلق ہے، بلکہ یہ جدید مغربی فلسفے کا ایک بنیادی مقدمہ ہے۔“ میں بھی تو عین یہی بات عرض کر رہا ہوں کہ عقل کے مطلق ہونے پر یقین اور اس کے sovereign اور self-sufficient ہونے کا موقف محض ایک دعویٰ ہے اور اس کے لیے کوئی ایسی عقلی دلیل موجود نہیں جو prior ہو، یعنی جس چیز کو مطلق مانا جائے وہ عقلی نہیں ہو سکتی، اور نہ اس کے لیے کوئی عقلی دلائل لائے جا سکتے ہیں۔ ان کے اس متن سے یہ امر حتمی طور پر منقح ہو جاتا ہے کہ وہ تو فلسفے کے بالکل ہی ابتدائی تصورات سے بھی ناواقف ہیں۔ عقل اپنے علم کے جو بھی معیارات مقرر کرتی ہے وہ یقیناً اس پر بھی تو لاگو ہوں گے، اور ایسے دعووں کی عقلیت (rationality) پہلے ہی قدم پر expose ہو جاتی ہے۔ اپنی سطح وجود میں یہ دعویٰ اور مذہبی عقیدہ ایک ہی طرح کی شے ہیں، اور کوئی عقلی دلیل اس کو مؤید نہیں کرتی۔ بلکہ عقل اپنی فعلیت میں مابعد جواز تلاش کرتی ہے اور وہ یہی فرما رہے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ: ”میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ عقل اپنے معروض میں اپنا راستہ خود تلاش کرتی ہے۔“ مجھے اس بات سے مکمل اتفاق ہے کیونکہ عقل تو بینا ہے وہ اپنے معروض (آفاق/خارجی دنیا) میں کیونکر راستہ تلاش نہیں کرے گی؟ ضرورت پڑنے پر حس بصارت سے محروم ایک نابینا بھی عین یہی کام کر لیتا ہے۔ Double-Slit Experiment تو عقل کا پہلا قدم ہے، اور وہاں اس کو حس کی مکمل معاونت بھی حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ عقل پہلے ہی قدم میں اپنے معروض پر جو علم مرتب کرتی ہے، اس پر وہ کیا کہنا پسند فرمائیں گے؟ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ یہاں معروض کے معروضی علم پر کیا بیتی ہے؟ عرض ہے کہ ان کا من بھاتا معروض اپنی کلیت میں تو شعور کے ادراک میں بھی نہیں ہے، علم میں کیا خاک آئے گا! اس تجربے میں سائنسی فاعل کا بنیادی موقف فیصلہ کن ہوتا ہے، تو سائنٹفک میتھڈ اور سائنٹفک اپریٹس سے حاصل ہونے والے نتائج معروضی کیسے ہو گئے؟ یہی صورت حال بگ بینگ کی ہے جو سائنس پہلے فرض کرتی ہے اور اپنی سائنسی تجربات کے بعد فرماتی ہے ”لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ یہ کائنات ازخود وجود میں آئی ہے۔“ جب غیرسائنسی مقدمہ اور سائنسی نتیجہ ایک ہو تو وہ معروضی علم کیسے ہو گیا؟
بہرحال اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ”عقل اس وقت تک کسی دیگر شے کو ”مطلق“ تسلیم نہیں کرتی جب تک وہ عقلی حدود سے ماورا ہو جانے کے دلائل پیش نہ کرے، اور شاید آپ کے علم میں یہ بات نہیں کہ دلائل کی نوعیت خواہ عقل کی موجود سطح سے بلند ہو، عقل کی ان تک رسائی ناممکن نہیں ہوتی، وہ وقتی طور پر عقل کی نظروں سے اوجھل رہ سکتے ہیں، مگر وہ ماورائے عقل نہیں ہوتے۔“ مغربی فلاسفہ کے مقالات و مکالمات پڑھتے تو عمر گزر گئی لیکن این چیزی دیگر است۔ سبحان اللہ۔ اگر ہمارے خانہ زاد فلسفیوں کی نیو ایسی ہی تحریروں پر اٹھائی جاتی رہی تو ’دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں‘۔ اب یہ بات اہل علم سے اوجھل نہیں کہ پوسٹ ماڈرنزم سے پہلے خرد کی sovereignty ایک absolute کے طور پر عقل اور علوم کی بنیاد میں کارفرما تھی۔ اور تھوڑی دیر قبل وہ اس کا جواز عقل کی فعلیت سے لائے ہیں، اور یہ درست بھی ہے کہ کوئی absolute عقلی نہیں ہوتا اور نہ کوئی عقلی دلائل رکھتا ہے، اور فعلیت سے مابعد جواز ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اور اب فرما رہے ہیں کہ ”عقل اس وقت تک کسی دیگر شے کو ”مطلق“ تسلیم نہیں کرتی جب تک وہ عقلی حدود سے ماورا ہو جانے کے دلائل پیش نہ کرے“۔ میں یہی عرض کر سکتا ہوں کہ یا انہیں معلوم نہیں کہ عقل کیا ہوتی ہے یا انہیں absolute کی خبر نہیں پہنچی۔ میں تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ فلسفے سے نابلد ہیں۔ یہی عرض کر سکتا ہوں کہ ان کا آموختہ اب بہت پختہ ہو گیا ہے اس لیے کار خیر کے طور پر ہم جیسوں کو فلسفے کی باقاعدہ تدریس کا آغاز فرمائیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ آموختے سے باہر کیا کچھ ہے۔
آخر میں ایک بات کا اعادہ ضروری ہے کہ عقیدے کا انکار یا اقرار علم کا موضوع نہیں ہے۔ اس کا عقلی رد علم کا موضوع ہے۔ ہماری معذوری یہ ہے کہ انکاری علم کا ہم پر کوئی رعب نہیں پڑتا۔ بھنڈر صاحب اپنے انکار کے ایکو چیمبر (echo chamber) میں پیدا ہونے والی ہر آواز کو رد پر محمول فرما رہے ہیں۔ مغربی مطالعہ جات سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ انکار صرف تعصب تک ہی محدود نہیں رہتا، اس کو علم بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ان کا انکار ہمارے لیے یقیناً کسی طرح کا التزام نہیں رکھتا، لیکن ہمیں ان کے ’دلائل‘ میں ضرور دلچسپی ہے۔ اگر کبھی وہ عقیدے کے عقلی رد کے لوازمات جان پائیں تو ہم ان سے ضرور سیکھنا چاہیں گے۔ دعا ہے کہ جہاں رہیں سلامت رہیں۔