علمِ موسیقی کی تاریخ۔ مولانا عبدالشکور (ترتیب: عاصم رضا)
(اس گفتگو کو لطف اللہ خاں مرحوم نے ریکارڈ کیا تھا اور جناب ڈاکٹر خورشید عبداللہ کی عنایت سے یوٹیوب پہ دستیاب ہے۔ گفتگو کی ٹرانسکرپشن اور ترتیب عاصم رضا کی ہے۔ لطف اللہ خاں صاحب کے بارے میں اہلِ ذوق جانتے ہیں کہ وہ اپنے نام کے ایک ہی آدمی تھے اور مولانا عبدالشکور کے شاگرد بھی۔ انھی کی ایک مختصر انگریزی تحریر کا ڈھیلا ڈھا لا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے جس میں وہ اپنے استاد مولانا عبدالشکور کا تعارف کرواتے ہیں:
”مولانا عبدالشکور، سنگیت رَتن خاں صاحب عبدالکریم خاں کے بھانجے تھے۔ خاں صاحب بیسویں صدی میں کلاسیکی موسیقی کے چوٹی کے فنکار تھے ، موسیقی میں ان کی مہارت اور عبور کی وجہ سے برصغیر کے جنوبی علاقوں میں ان کی باقاعدہ پرستش ہوتی تھی۔ مولانا کا ادراکِ فن بہت شاندار تھا۔ وہ موسیقی کی تمام اصناف سے واقف تھے ، بالخصوص کلاسیکی صنف سے۔ میں، کہ پچھلے پچھتر سال سے کلاسیکی موسیقی کا رَسیا ہوں، خوش قسمت ہوں کہ ان کے زیرِ سایہ 26 سال تک تربیت پاتا رہا۔ حیران کن طور پہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ عمر بھر عوام میں اپنا فن پیش نہیں کریں گے۔ البتہ انھوں نے کچھ منتخب لوگوں کے سامنے اپنا فن پیش کیا اور انھیں بصیرت سے نوازا۔ وہ ایک مذہبی عالم بھی تھے جیسا کہ ان کے نام میں ”مولانا” کا سابقہ ظاہر کرتا ہے نیز فنونِ لطیفہ کے دائرے میں بھی یکساں قابلیت رکھتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی کے ایک طویل عرصے تک وہ فنونِ لطیفہ کی تدریس سے گزر بسر کرتے رہے۔ مجھے یہ موقع ملا کہ انھیں اپنی یادداشت کے بل پر روایتی چیزیں پینٹ کرتے ہوئے دیکھوں۔ ان کی وفات سے دنیا ایک قابل شخص سے محروم ہو گئی اور میں ذاتی طور پہ علم کے ایک بے پناہ منبع سے محروم ہو گیا۔”)
علمِ موسیقی کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کا دارومدار آواز پر ہے ۔ اب آواز کے جو کچھ اثرات ہوتے ہیں وہ اس کے زیروبم پر، یا اس کی ترکیب پر ، چال پر ، شکل پر ہوتے ہیں ۔ اب ابتدا ً جو لوگوں نے کہا ہے وہ تو یہ ہے کہ آواز کے اثرات جن لوگوں نے دیکھے انہوں نے انھیں قائم کر لیا ۔ اس کا یہ اثر ہوتا ہے ، یہ اثر ہوتا ہے وغیرہ۔ لیکن ہندوؤں کی ترکیب میں یہ ہے کہ انہوں نے اسے مذہب میں ڈھالا تو دیوتاؤں کے نام دے دیے ۔ تو اس کی ابتدا ء کیسے ہوئی کہ پہلے وہ آواز کے جو اثرات تھے ان آوازوں کو یاد رکھتے تھے، ان کا استعمال کرتے تھے اور ان سے جو اثرات مرتب ہوتے وہی ان کے لیے صحیح بات تھی ۔ لیکن اس کا سمجھنا عام آدمی تو کیا ، خاص لوگوں کے لیے بھی بڑا مشکل تھا ۔ وہ بات بہت دنوں تک چلتی رہی تو اسی طبقے میں رہی جسے ان لوگوں کے ہاں” یوگ” کہتے ہیں ۔ اس کے سوا آگے نہیں آئی ۔
بہت عرصہ کے بعد پنڈتوں نے یہ کوشش کی کہ جیسے دنیا میں تین طرح کے لوگ ہیں اور وہ ہمیشہ تین طرح کے ہی رہیں گے ۔ ایک وہ لوگ ہیں جو مخصوص مقام پر ہوتے ہیں ، ان کا مخصوص انداز ہوتا ہے اور مخصوص علم ہوتا ہے ۔ وہ اپنی جگہ سے ذرا بھی نہیں کھسکتے ۔ وہ اپنا مقام چھوڑنا بالکل نہیں چاہتے ۔ تو وہ اپنی چیز عوام تک کبھی نہیں پہنچائیں گے ۔ ان تک تو خود کسی کو جانا پڑے گا تو ہو جائے گا ۔ ایک طبقہ ہوتا ہے درمیانی، عوام سے بھی جس کا رابطہ ہوتا ہے اور مخصوص لوگوں سے بھی ہوتا ہے ۔ لیکن اس میں ایک باریک بات یہ ہے کہ جن کا رابطہ عام لوگوں سے ہے وہ اس مخصوص طبقے کی پہلی سیڑھی تک تو پہنچ سکتے ہیں ، درمیانی اور آخر تک نہیں پہنچ سکتے ورنہ وہ بھی مخصوص میں شامل ہونے لگ جائیں۔ تو ان کی وہ رائے کہ درمیانی یا آخری درجہ کی ہوتی ہو ، وہ اس طبقہ کے بھی جو مخصوص تک پہنچتی ہو ، کبھی سمجھ میں نہیں آنے کی اور نہ کبھی آئی ۔ بہرحال یہ اس کو مانتے ہیں کہ اور اس بات کو اتنا سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے بہتر بات ہے اور اسے ضرور اختیار کرنا چاہئے ۔ جب وہ اس علم کو اختیار کر لیتے ہیں تو ظاہر ہے اپنی وسعت کے مطابق اختیار کریں گے ۔ ان کی وسعت کے مطابق اختیار نہیں کرنے کے ۔ تو اب ان کا یہ شوق ہوتا ہے ۔ چونکہ ایک کا ایک کنارہ اِدھر ہےایک اُدھر ہے کہ وہ اس بات کو یہاں تک پہنچاتے ہیں ، تو عوام میں لانے کے لیے ہمیشہ جو ذہانت رہی وہ ایسے لوگوں کی رہی ۔ انہیں ان تینوں چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے شہرت کی بھی ، عزت کی بھی اور عظمت کی بھی ۔ اُس مخصوص طبقے کو اس میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ تو یہ جو کچھ کرتے ہیں اس میں یہ سب ملوث ہوتا ہے : عظمت اور دولت اور شاہانہ پن ۔ اور ظاہر ہے کہ عوام سے تو وہ کہیں بدرجہا بہتر ثابت ہوں گے تو عوام کی رغبت جو ہے تو ان کی عیش و عشرت ، ترقی اور حکومت اور عیش و آرام ، اسے دیکھ کر وہ اس طرف راغب ہوتے ہیں اور اس لالچ میں سیکھتے رہتے ہیں ۔ ویسی حالت اس طبقے کی ہے جیسی درمیانی طبقہ کی ہے ۔ اس تک بھی وہی پہنچ سکتا ہے جس قابل یہ ہیں ۔ بحث میں یہ بات دونوں رخ آتی ہے کہ ظاہر ہے جو اچھی چیز ہے وہ عوام تک پہنچنی چاہیے اور بیچ کا طبقہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ عوام تک پہنچنی چاہیے، نیچے کا طبقہ بھی اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ ہم تک پہنچنی چاہیے تو یہ دو گروہ ہوں گے ۔ ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ وہ ایک (گروہ ) ہوتا ہے اس کی تعداد کم ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ بات زیادہ چلتی رہتی ہے ، وہ بات ہر طریقے سے کم چلتی ہے ۔
تو اب گانے کا یہ ہوا کہ پہلے تو یہ صرف آواز میں رہا ۔ پھر جو یہ درمیانی طبقہ تھا اس نے یہ زور دیا کہ نہیں ، اسے سہل کرنا چاہیے تو اس کے الفاظ جو ہیں مرتب ہوئے ۔ تو پھر بھی جو اونچا طبقہ تھا اس نے اس طرح اُسے قبول کیا کہ الفاظ تو ہوں گے لیکن رجحان جیسا اس میں اکائی کا رجحان ہے جسے آپ وحدت بھی کہتے ہیں ۔ اور آواز وحدت میں ہی ہے ، کثرت میں تو نہیں ہے ۔ تو انہوں نے کہا کہ رجحان تو صاحب اکائی ہی میں رہے گا ۔ وہ وحدت میں رہے گا ، پرستش میں رہے گا ، پوجا میں رہے گا ۔ کوئی بھی اس کا نام رکھ لیجئےآپ ۔ تو انہوں نے کہا کہ اس میں اگر تعریف ہو گی تو سوائے بھگوان کے اور کسی کی نہیں ہو سکتی ۔ خدا کی تعریف ہو گی ۔ تو پھر بھجن مرتب ہوئے اس میں ۔ تو بھجن سے وہ یہاں تک پہنچا ۔ اب اِنہیں تو چونکہ اپنے درجے کو پررونق کرنا تھا تو مختصر یہ کہ بھجن کے بعد جب کچھ لوگ ان میں ایسے آئے جو بھجن کے بھی رخ کے نہیں تھے تو انہوں نے اسی چیز کو تعریف میں بدل لیا ۔
ہاں ، تو ”پد”اور ”دھرپد” گائے جانے لگے اور یہ عام ہوا ۔ پھر جب یہ اور عام ہوا تو اس کے بعد پھر یہ دیوی دیوتاؤں کی تعریف میں پیش ہونے لگا ۔ اور وہاں سے گر کر پھر طبقہ امراء میں آ گیا تو پھر راجہ اور مہاراج ، ان کی تعریفیں اس میں ہونے لگیں ۔ ثبوت کے لیے میں یہ بات کہہ دوں کہ اب بھی اگر آپ دیکھیں گے تو بیجوباورے کی ”دھرپد” جو ہے اس میں آپ کو زیادہ تر جو دھرپدیں ملیں گی وہ کائنات کی تعریف میں ملیں گی کہ ایسے درخت ہیں اور ایسے پہاڑ ہیں اور ایسے پکشی ہیں ، پنچھی ہیں اور بادل ایسے برستا ہے ، وہ سب اس میں ملیں گے ۔ اس کے بعد تان سین کےہاں جو آپ دیکھیں گے تو اس میں بادشاہ کی تعریف عام ملے گی ۔ تان سین کے گانے میں یہ ملے گا ۔ ان (یعنی ہندوؤں ) کے ہاں بھی بعض لوگوں کے ہاں راون اور رام کی تعریفیں زیادہ ہوں گی ۔ اب وہاں سے پھر یہ مزید عام ہوا تو یہ ”ٹھمری” پہ آ کے ٹھہرا کہ پھر وہ عورتوں کی تعریف میں، حُسن کی تعریف میں پیش ہونے لگا ۔ اب اِس طبقے کے لیے تو یہ ترقی تھی لیکن اُس طبقے کے لیے تنزلی تھی ۔ سیدھی سی بات ہے کیونکہ اس تک ایک نئی چیز پہنچ رہی تھی ۔ یہ تو اپنے کو ترقی یافتہ ہی سمجھے گا کہ اس تک نئی چیز پہنچ رہی تھی اور وہاں اس کی جو خرابی ہو رہی تھی ، بگاڑ ہو رہا تھا وہ ظاہر ہی ہے ۔ تو اب یہ آپ کے ، ہمارے سب کے سامنے ہے کہ وہ ”ٹھمری” سے پھر ”دادرا” اور ”دادرے” سے پھر جو سلجھے ہوئے لوگ تھے انہوں نے اس کے حسن کو (مزید ) حسین کرنے کے لیے ”غزل” پیش کی ۔
جب مسلمانوں میں یہ بات آئی تو انہوں نے اُس پہلی چیز کو لے کر کہ جو ان کے ہاں آواز میں تھا ، اسے تخیل کے انداز میں ”خیال” نام رکھ کے پیش کیا ۔ جس کے لیے شاید آپ کہیں تو میں کہہ دوں یہ بات کہ اس کا عروج سوائے ہمارے ہاں کے ہندوستان میں تو کسی جگہ ہوا نہیں کہ ہمارے ہاں ”خیال” جو ہے ”خیال” کے انداز میں کسی نے نہیں گایا یعنی جس کا سولہ ماترے کا اور تین تال کا ٹھیکہ ہوتا ہے اور اس میں کوئی گہرائی اور وسعت اور یہ سب کچھ نہیں ہوتی ۔ بلکہ ہمارے ہاں جو ”خیال” گایا گیا ہے ، وہ ”دھرپد” اور یہ ”خیال” دونوں کو ملا کر جو ایک خاص شکل پیدا ہوتی ہے اُس پر گایا گیا ہے یہ ۔ تو ”خیال” کی وسعت کے ساتھ ہی ”بڑھت” ہوئی تو اس لیے ”بلپمت” جسے کہتے ہیں ،و ہ الگ بات ہے اور ”بڑھت” کہتے ہیں بالکل الگ بات ہے ۔ خیر، پھر ترقی اس کی یہاں تک ہوئی ۔
لطف اللہ خان صاحب : جب آپ نے یہ کہا کہ ہمارے ہاں ، تو ‘ہمارے ہاں ‘ سے مراد آپ کا گھرانا(کیرانہ گھرانا ) ہے ۔
مولانا عبدالشکور : نہیں ۔ اب اس میں مسلمانوں کا ، دیگر گھرانوں کا بھی حصہ تھا ۔ یہ بات کہنے کی نہیں ہے ۔ ان کے ہاں فی الوقت نام بھی یاد نہیں مگر ہمارے ہاں وہ زیادہ پایا جاتا ہے جسے لوگ کیرانہ گھرانہ کہتے ہیں حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے ۔ وہ یہاں پہلے بانیوں کے نام سے موسیقی جانی جاتی تھی جیسے نوربانی ، ڈاگربانی ۔ اس طریقے سے اور اس کے پہلے ”مَت” کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ وہ تو کچھ نہیں ہے ۔ یہ سب باتیں تو خالی بس عوام کو سمجھانے کے لیے ہوتی ہیں ۔ بہرحال ، اس کی چال کا ، انداز کا اور اثر کا فرق ہوتا ہے ۔ وہ ایک بات ہے ۔
تو اب یہ دور آپ نے دیکھ لیا کہ ”ٹھمری ” کے بعد ”دادرا” ، ”کجری ” گانے میں شمار ہونے لگے اور آج کا تو بالکل صاف ہی ہے کہ فلمی دنیا میں آ کے پھر وہ ، فلم میں آ کے اس کی شکلیں بگاڑ دی گئیں یا بہت ساری ہو گئیں ، ترقی یافتہ ہو گئیں ۔ یہی کہہ سکتے ہیں آپ ۔ اور یہاں تک عروج اس کا پہنچا کہ یا تو سوائے خدا اور ولی اللہ کے یا دیوی دیوتا کے کسی کی تعریف نہیں ہوتی ، یا یہ ہے کہ آج جوتوں کی پالش کی تعریف موجود ہے اس میں ۔
بس یہ آپ کی موسیقی کی تاریخ ہے مختصر سی ۔ ورنہ موسیقی تو سب کو معلوم ہے وہ تو ایک وجدانی کیفیت انسان میں پیدا کرنے کے لیے اور عروجِ روح جسے کہتے ہیں اس کو پہنچانے کا ایک طریقہ تھا ، ذریعہ تھا ۔ تو اسی لیے اس میں الفاظ نہیں رکھے تھے کہ الفاظ جو ہیں وہ رجحان بدل دیتا ہے ۔ انسان کا رجحان الفاظ سے بدلتا ہے ۔ تو اس میں پہلے لوگوں نے الفاظ رکھے ہی نہیں تھے لیکن وہ مشکل ترین بات تھی ۔ اب مسلمانوں نے آ کر اس میں اضافہ کیا ۔ وہ یہ کیا کہ انہوں نے انہی الفاظ سے رجحان کو پھر اسی (روحانی) طرف ہی بدل دیا ۔ تو وہ چیز پیش کردوں جسے مسلمان بھی سوچ لیں گے ۔
بھیروی کی چیز میں وہ دس سُر بھی ان کے ہیں ، بندش بھی ان کی ہے ، الفاظ ہمارے ہیں صرف رجحان کے لیے
بول :
اللہ ہو اللہ اللہ ہو جل شانہ ہو ۔۔۔تیرو نام لیے میری ہووے تسلیٰ ۔۔۔اللہ ہو اللہ ہو اللہ
تو کریم تو رحیم تو ستار تو غفار۔۔۔ رم جھم برسات نورِ تجلیٰ۔۔۔ اللہ ہو اللہ ہو اللہ
تو اس سے معلوم ہو گیا کہ کوئی شخص جس انداز میں بھی کہے ، توجہ وحدت کی طرف خودبخود مبذول ہو جائے گی ۔