ماضی کے ساتھ ایک نشست۔ تحریر: عفان رؤف
’حرف شوق‘ کے پہلے دو مضامین ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ پہلا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بارے میں ہے اور دوسرا سرسید کے بارے میں۔ پہلے مضمون کا عنوان ہے ’ماضی کے ساتھ ایک نشست‘۔ گویا اس کا زمان ماضی ہے اور مکان اسٹریچی ہال، جس کو مصنف نے سر سید کے علی گڑھ کی ایک علامت بنا دیا ہے۔ سرسید کا علی گڑھ ایک ادارہ ہی نہیں ایک تحریک بھی تھا جس کے بطن سے پاکستان پیدا ہوا۔ اسی ہال میں جب کہ وہ ابھی نامکمل تھا مسلم ایجوکیشن کانفرنس قائم ہوئی جس کے ایک سالانہ اجلاس میں مسلم لیگ بنی! اسی میں تو تحریک پاکستان کے دوران میں قائد اعظم نے یادگار سیاسی تقریریں کیں! اس کے بعد مصنف کی علامت بندی پر کون اعتراض کر سکتا ہے؟
اسٹریچی ہال سر جان اسٹریچی کے نام سے موسوم ہے جنہوں نے یونیورسٹی کی مشکل حالات میں مدد کی تھی۔ مصنف ان کے تعارف کے ساتھ ساتھ نام کی مناسبت کی وجہ سے کچھ دوسرے اسٹریچی افراد کا تعارف بھی کروا جاتے ہیں۔ ہال کا تعارف کرواتے ہیں تو اس کی تعمیر اور اس کے راستے میں حائل مشکلات کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کے ڈیزائن پر بھی کافی تفصیلی تبصرہ فرماتے ہیں۔ اس کے بعد اسٹریچی ہال میں تقریریں کرنے والے مشاہیر کا تذکرہ آتا ہے، اس میں ہونے والے مباحثوں اور امتحانات کا۔ لیکن اگر اس سے یہ سمجھ لیا جائے مضمون میں کل مواد یہی ہے تو یہ غلطی ہوگی۔ اس غلطی سے بچنے کے لیے ضروری ہوا کہ مصنف کے اسلوب کو سمجھ لیا جائے۔ مصنف کا عام طریقہ یہ ہے کہ ایک بات سے ذیلی بات نکلتی ہے اور پھیلتی جاتی ہے۔ ذیلی بات کا محرک کوئی ادنی مناسبت بھی ہو سکتی ہے۔ پھر وہ واپس پہلی بات کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہ عمل پیچ در پیچ (nested) بھی ہوتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس عمل کے سلسلہ وار اطلاق کے بعد ذیلی در ذیلی بات کا مضمون کے اصل موضوع سے بظاہر کوئی تعلق نظر نہ آئے۔ مگر دوسری طرح دیکھا جائے تو حقیقت میں ایک ہی خیال پورے مضمون کی شیرازہ بندی کر رہا ہوتا ہے مگر اس میں ذیلی مضامین کا تنوع بھی ہوتا ہے۔
باب 5 میں چند اہم تقاریب کا مختصر تذکرہ ہے جو اسٹریچی ہال میں اس کی تکمیل کے مختلف مراحل میں منعقد ہوئیں۔ یہی وہ اصل شاہراہ ہے جو پورے باب کو جوڑتی ہے۔ لیکن رہ رہ کر اس سے مختلف پگڈنڈیاں نکلتی ہیں جو گھوم کر واپس اصل شاہراہ سے مل جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس سے سید راس مسعود کی رسم بسم اللہ کا ذکر چھڑ جاتا ہے جو کانفرنس کے فورا بعد منعقد ہوئی۔ یہ ظاہر ہے کہ اتنی اہم تقریب نہیں تھی۔ موضوع کی طرف واپس لوٹتے ہیں تو ان تقاریب کا ذکر ہوتا ہے: سرسید کی وفات کے بعد تعزیتی جلسہ، سرسید کی جانشینی کا جھگڑا، اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جانے والے اولین طلبہ کے اعزاز میں کھانا۔ ان طلبہ کے اعزاز کی واپسی پر استقبال کی طرف مختصر اشارہ کر کے رحمت اللہ کا ذکر آجاتا ہے جو پردیس سے شادی کر کے لوٹا۔ اسی سے سید راس مسعود کی شادی کے ذکر کا موقعہ پیدا ہوتا ہے اور پھر جواہر لعل نہرو کی شادی تقابل کے طور پر مذکور ہے۔ راس مسعود کی شادی کے رقعہ سے بیگم محمود کا ذکر شروع ہو جاتا ہے اور بات سر راس مسعود کی بطور وائس چانسلر واپسی اور اسٹریچی ہال میں تقریر تک پہنچتی ہے۔ اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں تو مسلم یونیورسٹی کا پہلا جلسہ تقسیم انعامات زیر بحث آتا ہے۔ وہیں سے خاتون چانسلر سلطان جہاں بیگم، ان کی ریاست کے سیاسی معاملات، اور ان کی مستقبل بینی، مسلم یونیورسٹی کے لیے ان کے خلوص اور دیگر صلاحیتوں کا ذکر ہوتا ہے اور پھر تقابل کے طور پر حیدر آباد کے آخری نظام میر عثمان علی خان کا ذکر آجاتا ہے۔ خیالات کو منظم کرنے کا تقریبا یہی طریقہ تمام ابواب میں اختیار کیا گیا ہے۔
حرف شوق کا تعارف اس طرح کروایا گیا ہے کہ ’’آنے والی نسلیں اس تحریر میں دیکھ سکیں گی کہ حال کو ماضی سے مربوط کرکے امروز کے آئینے میں فردا کی تلاش کیسے کی جا سکتی ہے‘‘۔ اس مضمون میں ماضی کے واقعات کے ساتھ ساتھ ان کو حال سے مربوط کرنے والے حکیمانہ تبصرے جا بجا ملیں گے۔ یہ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے: ’’تاریخ صرف ان نسلوں کو احترام سے یاد کرتی ہے جن کے ترکے کی قدر اور مقدار ان کے ورثے سے زیادہ ہوتی ہے‘‘، ’’مغل اعظم کی حیثیت سے آپ بے شک فتح پور سیکری جیسی خوبصورت بستی بسا سکتے ہیں مگر اسے بسانا آپ کی شہنشاہیت کے بس میں نہیں ہوتا۔ شہر کو آباد کرنے کے لیے علم آب شناسی اور علم ابروباد کی ضرورت تھی جو جلال الدین اکبر کے ہاں مفقود تھا‘‘۔ اس جملے میں ایک مزید خوبی ’بس‘ کی تکرار ہے جو ایک خاص لطف دیتی ہے۔ مصنف نے الفاط کا چناؤ کرتے وقت علم بدیع کی صنعتوں کا بھی التزام کیا ہے جس سے تحریر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے: ’’چند ہفتوں میں تار والے بنگلے کا نام و نشان تک باقی نہ رہا، نشان گدھے ڈھو کر لے گئے۔ نام یونیورسٹی نے بدل دیا‘‘، ’’ہمارے پاس غیروں کو قائل اور غریبوں کو مائل کرنے کے لیے مثالی اسلامی معیشت کا کوئی قابل عمل نقشہ ہے نہ کوئی قابل تقلید نمونہ‘‘، ’’سفر نصیب کی جائے قرار پاکستان اور جائے فرار پانچ بر اعظموں والی دنیا تھی‘‘
’حرف شوق‘ مختار مسعود مرحوم کی آخری کتاب ہے۔ اس بات کا افسوس رہے گا کہ میرا صاحب کتاب سے اولین تعارف ان کی آخری کتاب کے ذریعے ہوا۔