فنِ تنقید: سر عبدالقادر (مرتب: عاصم رضا)
نوٹ: ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف محقق اور کتاب دوست شخصیت جناب جاوید اختر بھٹی صاحب نے اپنی فیس بک وال پر مدیر ماہنامہ مخزن ، جناب سر عبدالقادر کے مضمون بعنوان ’’فن ِ تنقید‘‘ کو شیئر کیا ہے جو دراصل ، ’’مقالات ِ عبدالقادر ‘‘ ( مرتبہ: محمد حنیف شاہد، مطبوعہ مجلس ترقی ادب لاہور، طبع اول فروری 1986ء) سے لیا گیا ہے۔ سرعبدالقادر کا یہ مضمون ماہنامہ مخزن لاہور میں ستمبر 1901ء میں شائع ہوا ۔ بقول جاوید اکبر بھٹی صاحب، اگر اس مضمون کو غور سے دیکھیں تو صاحبِ کتاب کا نقاد کے ساتھ آج بھی یہی رویہ ہے ۔ مزید براں ، ا لطاف حسین حالی کا ’’مقدمہ شعروشاعری ‘‘ 1893ء اور امداد امام اثر کی ’’ کاشف الحائق‘‘ (دو جلدیں) 1894ء شائع ہوئی ؛ اور سر عبدالقادر اس ابتدائی تنقید سے مطمئن نہیں تھے کیونکہ وہ اردو ادب میں جدید تنقید کو رواج دینے کے خواہاں تھے (لیکن جامعات میں آج بھی ’’ مقدمہ شعر و شاعری‘‘کو اہمیت حاصل ہے) ۔ غالباً سر عبدالقادر وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اس طرف توجہ دلائی ۔ تاہم زیرِ نظر مضمون میں سرعبدالقادر تنقید اور تقریظ کے باہمی فرق و ادبی روایت میں ان کے چلن کو موضوع بنا رہے ہیں۔ فن ِ تنقید کے اس مضمون کی تاریخی اور اہمیت کے پیش نظر اس کو قارئین ِ جائزہ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ۔
ہندوستان میں علوم و فنون کی ترقی کی راہ میں ایک روک (رکاوٹ) یہ رہی ہے کہ یہاں فنِ تنقید کا رواج نہیں تھا اور باوجود ترقی کے مختلف خیالات پیدا ہو جانے کے آج تک یہ فن اِس ملک میں رائج نہیں ہوا ۔ آج کل بعض تحریرات (تحریروں) میں کہیں کہیں ناقدانہ جھلک نظر آتی ہے مگر ایسی تحریریں ابھی تعداد میں اس قدر کم اور وہ جھلک ابھی ایسی خفیف ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس فن کا رواج ہندوستان میں ہو گیا ۔ مغربی دنیا کے باشندوں میں جہاں آج کل اور خوبیاں نظر آتی ہیں وہاں یہ بھی ہے کہ لوگ ہنروروں کے عیب و ہنر کو دیکھتے ہیں ۔ نظم و نثر کی تصنیفات قبولِ عام کا خلعت پہننے سے بیشتر جوہریانِ سخن کی نقاد نظروں کے کامل العیار ترازو میں جانچی اور تولی جاتی ہیں اور ان سے سندِ درستی حاصل کرنے کے بعد سخن فہم قدردانوں کی نظروں میں سماتی ہیں ۔ انگریزی میں ایک لفظ ہے ’’کرٹک ‘‘ (critic) ، جس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی فن کی بہ نسبت رائے لگائے اور کھوٹا کھرا انصاف سے پرکھ دے ۔ اس لفظ سے مشتق ہے ایک لفظ ’’ کرٹسزم‘‘ (criticism)، جس کے معنی ہیں جانچنا ، پرکھنا ۔ تعجب ہے کہ اس فن کا وجود تو ایک طرف، ہمارے ہاں ابھی ان دونوں لفظوں کے صحیح ترجمے کا فیصلہ نہیں ہوا ۔ ان الفاظ کے ترجمے عموماً غلط کیے جاتے ہیں جو ان کے اصل مفہوم سے بہت دور ہیں ۔ مدرسوں میں تو بعض نیم مُلا ’’کرٹسزم ‘‘ کے معنی ’’نکتہ چینی‘‘ پڑھاتے ہیں یا بہت بڑھے تو ’’رائے زنی ‘‘ کہہ دیا ۔ اس میں شک نہیں کہ کرٹسزم میں بعض اوقات نکتہ چینی ہوتی ہے مگر بعض اوقات تعریف بھی ہوتی ہے ، اس لیے نکتہ چینی کچھ ٹھیک ترجمہ نہیں ۔ ابتدائی تعلیم میں غلط معنی ذہن نشین ہو جانے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ بعض اچھے خاصے انگریزی خواں تحصیل سے فارغ ہونے پر بھی اس غلطی میں مبتلا رہتے ہیں اور ’’کرٹک‘‘ کو محض نکتہ چیں اور اس کے فن کو فقط نکتہ چینی جانتے ہیں ۔ رائے زنی والا گروہ بمقابلہ ان کے راستی پر ہے ۔ مگر اول تو یہ لفظ پورا مفہوم ظاہر کرنے سے قاصر ہے ۔ دوسرا کچھ کانوں کو بھلا نہیں معلوم ہوتا ۔ مثلاً کسی شخص کی نسبت یہ کہنا کہ اپنے زمانے میں انگلستان کے نامور رائے زنوں میں گزرا ہے ، خواہ مخواہ مذاقِ سلیم کو کھٹکتا ہے ۔ اور جو لوگ بالکل اصل انگریزی لفظ سے ناآشنا ہیں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ حضرتِ موصوف کس معاملے پر رائے زنی کیا کرتے تھے ۔ معاملات ِ ملکی سے انہیں خاص دلچسپی تھی یا تمدنی امور میں زیادہ دخیل تھے ۔ علوم کی طرف رجوع تھا یا فنون کی طرف ۔ حالانکہ انگریزی لفظ کے معنی زیادہ تر علم اور فن کے ساتھ مخصوص ہیں۔ کِرٹک یا تو علمِ ادب کی تصانیف کے لیے ہوتے ہیں یا فنِ نقاشی اور مصوری و معماری وغیرہ کے لیے ۔ اگر اور(دوسری) کسی چیز کی نسبت رائے دینے والے لوگوں کا ذکر کرنا ہو تو اس کا نام لینا پڑتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ فلاں چیز کے کِرٹک ۔ اِن دو ترجموں کے علاوہ چال (ادبی تحریروں) میں کہیں کہیں لفظ ’’ تنقید‘‘ بھی اس معنی میں استعمال ہوتا نظر آیا ہے ، مگر اہلِ زبان کی غفلت اور سہل انگاری سے رواج نہیں پا سکا ۔ کیونکہ بعض ایسے لکھنے والوں نے، جو استادوں میں گنے جاتے ہیں ، اس کوشش سے کہ اپنی زبان کے کسی لفظ کو ان معنوں میں رواج دیں ، اجتناب کیا اور عافیت اسی میں سمجھی کہ اصل انگریزی اصطلاح اردو کتابوں میں لکھ دیں ۔ مگر بدقسمتی سے وہ اصطلاح ایسی ہے کہ اس کا تلفظ آسان نہیں ۔ کبھی فارسی خواں اصحاب کی زبان سے جو اس اصطلاح کو سنا ہے تو سخت ہنسی آتی ہے ۔ فرمانے لگے، ’’ہمارے ملک میں ابھی کِرٹک نہیں نکلے‘‘۔ جو پوچھا ، ’’صاحب وہ کیا‘‘، تو بولے: ’’یہی جو کتابوں پر ’کیری ٹی سزم ‘ لکھتے ہیں ‘‘۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اصطلاح ان انگریزی الفاظ میں سے نہیں ہے جو اردو میں عام طور پر مقبول ہو سکتے اور جزو زبان بن سکتے ہیں ۔ یہ ایسی اصطلاح ہے کہ اس کا تلفظ اگر انگریزی خوانوں کی زبان سے صحیح طور پر بھی ادا ہو گا تو بھی اردو آشنا کانوں کو کھٹکے گا ۔ اس لیے ضروری ہوا کہ اس کے لیے ایک لفظ ایسا تلاش کیا جائے جو زبانِ اردو میں پہلے سے مروج ہو اور جو اس اصطلاح کے مفہوم کو ادا کر سکے ۔ ہماری نظر میں اس مطلب کے لیے ’’ تنقید‘‘سے بہتر کوئی لفظ نہیں ہے ۔ اور ہم تو آج سے ہی ’’ کیری ٹی سزم‘‘ کو سلام کہتے ہیں اور تنقید سے کام لیں گے ۔ کِرٹک کو ہم نقاد یا ناقدِ سخن کہیں گے ، کیونکہ ہمیں ابھی علمِ ادب ہی کے نقادوں سے کام ہے ، اور ان دو لفظوں کے رواج کو فنِ تنقید کی ترقی کا پہلا زینہ سمجھیں گے ۔ اور فنِ تنقید کی ترقی ، اگر یہ فن ایماندار اور انصاف پسند لوگوں کے ہاتھ میں رہا ، ہمارے علم ِ ادب کو اس معراجِ ترقی پر پہنچا دے گی جس کے اکثر ہواخواہاں ِ ملک دل سے آرزومند ہیں ۔ اس وقت مصر میں عربی زبان کا علمِ ادب غیرمعمولی ترقی کر رہا ہے ۔ یورپ کے علمی اور ادبی خزانے مالِ غنیمت کی طرح ملک کے ذخیروں کو مالا مال کرنے کے لیے لوٹے جا رہے ہیں ۔ جو کام پہلے سلطنتیں کرتی تھیں وہ عوام کر رہے ہیں اور ہر قسم کی انگریزی اور فرانسیسی کتابیں عربی زبان میں ترجمہ ہوتی جاتی ہیں ۔ وہاں ضرورت نے بہت سے غیرزبانوں کے لفظوں کو اختیار کرنے اور بعض کے لیے اپنی زبان کی اصطلاحیں ڈھونڈ نکالنے پر مجبور کیا ہے ۔ مگر اس بات کی دااد دینی پڑتی ہے کہ جن لفظوں کو اختیار کیا ہے ان کو بالعموم خوبصورتی سے اپنا بنا لیا ہے اور جن کے ترجمے ڈھونڈے ہیں ایسے موزوں کہ لفظی رعایت بھی ملحوظ رہی ہے اور مطلب بھی ادا ہو گیا ہے ۔ انہی ترجموں میں یہ لفظ ’’ تنقید‘‘ ہے ۔ وہاں اکثر اخبارات یا رسالوں میں جہاں تازہ تصانیف کی پرکھ ہوتی ہے وہاں صفحہ یا کالم کے اوپر ’’باب ِ التنقید‘‘لکھا ہوتا ہے ۔ خود ’’ کالم‘‘کے لفظ کی بجائے وہ ’’ عماد‘‘ لکھتے ہیں جو انگریزی لفظ کا صحیح ترجمہ ہے اور اگر ہمارے اخبارات میں کالم کا لفظ حد سے زیادہ مروج نہ ہو چکا ہوتا اور یوں بھی ایک سادہ اور سہل لفظ نہ ہوتا تو ہم زور سے رائے دیتے کہ ’’عماد ‘‘ کو یہ نئے معنی عطا کیے جائیں ۔
فنِ تنقید کے رواج کے لیے دو تدبیریں ہمارے ذہن میں ہیں ۔ ایک تو یورپ کی بعض مشہور تصانیف میں سے وقتا ً فوقتاً اس فن کی نسبت اقتباسات درج کرنا، دوسرے اصولِ فن کے موافق اس رسالے میں آج کل کی بعض مشہور تصانیف کو تنقید کے ترازو میں تولنا اور نتیجہ بلا کم و کاست ظاہر کرنا ۔ یہ دونوں کام بجائے خود مشکل کام ہیں ۔ پہلی تدبیر میں تو ترجمے کا کام نہایت دشوار ہے ۔ اس فن کی مختلف اصطلاحیں تعداد میں اس قدر ترقی کر گئی ہیں اور مدح و ذم کے ایسے ایسے باریک پہلو نکالے گئے ہیں کہ ان عبارات کو ، جو وہاں صدیوں سے منجھی ہیں ، اردو میں ادا کرنا کارے دارد ۔ دوسری تدبیر میں ، علاوہ اس کے کہ صحیح تنقید کوئی آسان بات نہیں ، دِقّت یہ ہے کہ مصنفین اور مطابع ابھی سچی مذمت سننے کے عادی نہیں ۔ یہاں مدت سے تقریظوں کا رواج رہا ہے ۔ کوئی پرانا دیوان یا کتاب اٹھا کر دیکھیے ، قلمی نسخہ ہو یا چھپا ہوا ، آخر میں صفحوں کے صفحے تقریظوں سے پُر ہیں ۔ ہمیں یاد نہیں کہ آج تک کوئی ایسی تقریظ کسی کتاب کے ساتھ لگی ہوئی ہو جس میں جہاں دس خوبیاں جتائی ہیں ایک آدھ نقص بھی جتا دیا گیا ہو ۔ مصنف کو دیکھیے تو ہر تقریظ لکھنے والے کے قلمِ جواہر رقم ، طبع رسا اور کلک ِ گہر سلک کے گیت گا رہے ہیں اور تقریظوں کو دیکھیے تو سب کی سب کتاب کو لاجواب ، رشکِ آفتاب و مہتاب ، ہزاروں میں انتخاب بتا رہی ہیں ۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کتاب کتنے تعریفی الفاظ کی مستحق ہے اور ہر شخص یہ دیکھتا ہے کہ اس کی تقریظ دوسرے سے زور والی ہو ۔ تقریظ لکھنا ہر شخص کے لیے اپنی طبع آزمائی کا موقع ہوتا تھا ، نہ کہ مصنف کو ایسی داد دینے کا جس کا وہ مستحق ہے ۔ بعض ایسی مثالیں بھی دیکھنے اور سننے میں آئی ہیں کہ تقریظ میں تو تعریف کے پل باندھ دیے اور ویسے اگر کسی نے پوچھا کہ کتاب کیسی لکھی گئی ہے تو کہہ دیا کہ ’’کتاب تو مبتدیانہ مشق ہے ۔ ہم نے تو ایک دوست کی خاطر سے تقریظ لکھ دی ہے‘‘۔ تقریظوں کے علاوہ بعض پرانی کتابوں پر نکتہ چینی بھی کی گئی ہے مگر اس کا مذاق یہ نہیں کہ : ع
عیب ما جملہ بگفتی نیز بگو
بلکہ یہ کہ اس کو سراپا عیب اور ہمہ تن نقص قرار دیتے تھے ۔ ایک ایک لفظ پر اعتراض ، حرکات و سکنات پر گرفت ، بندش پر نکتہ چینی ، مضمون پر حرف گیری ، ایسے ہی لوگوں کی شان میں میر انیس مرحوم لکھ گئے ہیں:
مزا یہ طرفہ ہے مضموں تو دستیاب نہیں
مقابلے پر چڑھائے ہیں آستینوں کو
غلط یہ لفظ، وہ بندش بری ، یہ مضموں سست
ہنر عجیب ملا ہے یہ نکتہ چینوں کو
غرض افراط و تفریط کی عمل داری رہی ہے اور مذاق میانہ روی سے آشنا ہی نہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کتاب کی تعریف کر دینا نشانِ دوستی سمجھا جاتا ہے اور نہ کرنا یا کوئی اعتراض کرنا علامتِ دشمنی ہے ۔ آپ ذرا کسی کی کتاب میں کوئی نقص بیان کیجیے ۔ مصنف کے بیسیوں طرف دار آپ کی پگڑی اتارنے کو کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ میں کتاب کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ۔ اس حالت میں آزادی سے تصانیف پر رائے دینے کا بیڑا اٹھانا ایک جہان سے دشمنی پیدا کرنا ہے اور دشمنی بھی وہ جسے خدا واسطے کی دشمنی کہتے ہیں ، یعنی نہ کوئی ذاتی غرض نہ عناد، صرف ملک کے علمِ ادب اور مذاق کی اصلاح اور منفعتِ عام کی غرض سے جو تنقید لکھی جائے اور جن کے کلام پر تنقید ہو ، وہ ویسے بگڑیں کہ دل میں غصہ بھر لیں اور بدلہ لینے کی فکر میں رہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ رفتہ رفتہ تنقید کی برداشت لوگوں میں پیدا ہوتی جائے گی ، مگر ابتدا میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ۔ ہم سرِ دست یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو کتابیں ’’ریویو ‘‘ (review) کےو اسطے بھیجی جائیں گی ، اُن کو دو قسم میں تقسیم کریں گے ۔ ایک وہ جن پر ہم ناقدانہ نگاہ ڈالیں گے اور انٹجن کی نئی برقی شعاعوں کی طرح ناظرین کو اس کے حسن و قبح صاف دکھا دیں گے ۔ اس صیغے میں ممکن ہے کہ ہماری سخن فہمی غلطی کرے مگر نیت کبھی غلطی نہ کرے گی ۔ نہ کسی کا لحاظ تعریف کی طرف راغب کرے گا ، نہ کسی کا عناد مذمت کی طرف ۔ مال کو کسوٹی پر کَس کے رکھ دیں گے ۔ گاہک کا جی چاہے اٹھائے ، جی جاہے نہ اٹھائے ۔ جو صاحبانِ تصانیف یا صاحبان ِ مطابع اس معیار کو منطور فرمائیں ، تنقید کی فرمائش کریں ورنہ لکھ دیں کہ وہ صرف تقریظ چاہتے ہیں ۔ ہمارے ہاں کی تقریظ ’’ رشحۂ قلم جواہر رقم‘‘ تو نہ ہو گی ۔ اس پرانے رنگ میں کسی قدر ترمیم کی جائے گی ۔ اس تقریظ کی تعریف یہ ہو گی :
دندانِ تو جملہ در دہان اند
چشمان تو زیرِ ابروآن اند
یہ بتا دیا جائے گا کہ کس مضمون کی کتاب ہے، کون صاحب مصنف ہیں ، کیسی چھپی ہے ، کیا قیمت ہے ۔ شاید تقریظ کا یہ بہت درست مفہوم نہیں مگر چونکہ تقریظ اپنے آپ کو اس درجے سے بھی گرا چکی ہے ، اس لیے ہم اس سے یہ اصطلاحی مطلب لیتے ہیں ۔
اگر کوئی صاحب یہ تحریر فرمائیں گے کہ وہ تقریظ چاہتے ہیں یا تنقید تو ہمیں اختیار ہو گا کہ دونوں میں سے کوئی پسند کریں ۔