موسیقی کا دہلی گھرانہ: امیر احمد خاں (مرتب: عاصم رضا)
(نوٹ: ایک کتابی سلسلہ ’’ رجحان ‘‘ کی دوسری اشاعت (دسمبر 1991ء تا اگست 1992 ء )کے موقع پر جناب امیر احمد خاں صاحب نے ’’ موسیقی کا دہلی گھرانہ ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر فرمایا ۔کتابی سلسلے ’’ رجحان ‘‘ کے مرتب جناب طاہر نقوی صاحب، فاضل مصنف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایم اے ہیں اور ریڈیو پاکستان کے شعبہ موسیقی میں بحیثیت سینئر پروڈیوسر ملازم ہیں ۔ ان کی پرورش خود د بابائے موسیقی استاد بندو خاں نے کی اور فن ِ موسیقی میں اپنا شاگرد بنایا ۔ اس کے بعد امیر احمد خاں کے والد استاد نواب علی خاں ، ماموں استاد امراؤ بندو خاں اور استاد اقبال بندو خاں نے انہیں موسیقی کی تعلیم دی ۔ تقریباً تین سو راگوں اور اتنی ہی کلاسیکی بندشوں اور مغربی موسیقی پر عبور رکھتے ہیں ۔ خیال ، ٹھمری ، دادرا ، غزل ، چترنگ اور خصوصی طور پر ترانہ گانے میں ان کا منفرد انداز ہے ۔ ہزاروں لوگوں کو موسیقی سکھا چکے ہیں اور امریکہ ، مشرقِ وسطیٰ اور کینیڈا میں اپنے فن کا مظاہر ہ کر چکے ہیں ۔ چنانچہ ان کے فن کے اعتراف میں انہیں بابائے موسیقی ایوارڈ ، امیر خسرو ایوارڈ اور بین الاقوامی یادگار اقبال ایوارڈ دیے جا چکے ہیں۔ ہم نڑالی ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والے محقق اور علم دوست شخصیت جناب حسن نواز شاہ صاحب کے نہایت ممنون ہیں کہ انہوں نے اپنے علمی ذخیرے میں موجود اس قیمتی مضمون کو عنایت فرمایا ۔ مرتب)
فن ِ موسیقی کے اساتذہ کرام نے گائیکی کے اپنے اپنے انداز ، ساز کاری کے رنگ ڈھنگ اور اسلوب کے ذریعہ اپنے اپنے گھرانے قائم کیے ۔ چنانچہ اب تک جن گھرانوں نے موسیقی کے سلسلہ میں خدمات انجام دیں ، مستند جانے گئے اور اب تک مروج ہیں ، وہ یہ ہیں ۔
دہلی گھرانہ
اس کے بانی حضرت امیر خسرو کہلاتے ہیں ، اور 1295ء میں قائم ہوا ۔ اس گھرانے نے خیال کی گائیکی کو سب سے زیادہ فروغ دیا اور ساتھ ہی چلترنگ، قول ، نقش ، گل ، قوالی اور خصوصی طور پر ترانہ کی گائیکی کو بے حد فروغ دیا ۔
گوالیا ر گھرانہ
یہ گھرانہ میاں حَدّو حَسُّو خاں سے شروع ہوا ۔ ان کا انتقال 1856ء میں ہوا اور یہی اس گھرا نے کے بانی فنکار ہیں ۔
آگرہ گھرانہ
اس گھرانے کی ابتداء میاں گھگھے خدا بخش سے ہوئی جن کا زمانہ 1860ء کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے ۔ اس گھرانے کا نام استاد فیاض خاں کے زمانے میں عروج پر پہنچا ۔ انہی کی خدمات کی وجہ سے یہ گھرانہ مشہور ہوا ۔
کِرانہ / کیرانہ گھرانہ
اس گھرانے کی ابتدا ء خان عبدالکریم خاں سے مانی جاتی ہے اور یہی اس گھرانے کے بانیوں میں ہیں ۔ ان کا زمانہ 1937ء تک کا ہے کیونکہ اس سال ان کا انتقال ہو گیا ۔
پٹیالہ گھرانہ
اس گھرانے کے بانیوں میں میاں علی بخش اور میاں فتح علی خاں کے نام آتے ہیں جن کا انتقال 1925ء میں ہوا ۔
تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ فنِ موسیقی میں دہلی گھرانہ سب سے قدیم اور مستند گھرانہ ہے ۔ اس گھرانے کی ابتداء جیسے کہ میں نے پہلے عرض کیا ، حضرت امیر خسرو نے اپنے پیر بھائی جناب میاں حسن کی معاونت سے 1295ء اور 1328ء کے دوران کی ۔ انہوں نے خیال کی گائیکی کو فروغ دیا اور مروج کیا ۔ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ دُھرپد ، خیال سے زیادہ قدیم ہے ۔ لیکن تاریخی اعتبار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دھرپد ، راجہ مان سنگھ تومار گوالیاری کی اختراع ہے اور یہ حضرت امیر خسرو کے بہت بعد کی پیداوار ہے ۔ بہرحال خیال کی گائیکی کے فروغ اور اجاگر کرنے میں دہلی گھرانے کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ خاص طور پر اس گھرانے کے عظیم فنکار میاں نعمت خاں سدا رنگ ، میاں فیروز خاں ادا رنگ ، اور مشہور نائیک میاں اچپل جو میاں تان رس خاں کے استاد تھے ۔ ان اساتذہ نے گائیکی کے فن اور خیال کی گائیکی اور بندشوں کو بہت فروغ دیا ۔
دہلی گھرانے نے آسمان ِ موسیقی میں فنکاروں کی ایک کہکشاں کو جنم دیا ۔ ان عظیم فنکاروں میں حضرت میاں امیر خسرو اور میاں اچپل کے علاوہ ، امیر خسرو کے پیر بھائی اور حضرت نظام الدین اولیاء کے مریدِ خاص میاں حسن ساونت اور میاں ساقی قوال ہیں۔ میاں ساقی قوال ، حضرت خواجہ چشتی اجمیری کے خاص قوال تھے اور انہیں کی اولاد قوال بچے کہلاتی ہے ۔ اس کے بانی میاں حسن ساونت تھے ۔ میاں تان رس خاں جن کا شمار عظیم نائک میاں اچپل کے ہونہار ترین شاگردوں میں ہوتا ہے ، اپنے دور کے عظیم نائیک اور گائیک گزرے ہیں ۔ اس کے علاوہ خاں صاحب امیر خاں اور شمس ِ موسیقی استاد ممّن خاں قابلِ ذکر ہیں ۔ استاد ممّن خاں مہاراجہ پٹیالہ کے درباری موسیقار اورو موجدِ سُرساگر تھے ۔ اس ساز کی خوبی یہ ہے کہ یہ سارنگی کی طرح گَز سے بجتا ہے اور بین ، ستار ، رباب اور بٹّا بین کا باج پوری باریکیوں کے ساتھ ادا کرتا ہے ۔ یہ سز ، ستار کی طرح الاپ ، چپکاری ، جوڑ، جھالا اور گَز کے ساتھ ساتھ مِضراب سے بجایا جاتا ہے ۔ یہ ساز چونکہ بہت مشکل تھا اس وجہ سے اس کے بجانے والے بھی شمسِ موسیقی استاد ممّن خاں ، ان کے بیٹے استاد جہاں خاں کے بعد ان کے چھوٹے بھائی عبدالصمد خاں عرف سگھڑا خاں ، ان کے بعد ان کے بیٹے استاد ممّو خاں اور اب ان کے بیٹے استاد محمد علی خاں ، جو دہلی میں حیات ہیں ، بجا رہے ہیں ۔
وہلی گھرانے کے بابائے موسیقی استاد بندوخاں نے نئی بُندوخانی سارنگی ایجاد کی ،اور اس کے بجانے کے لیے نئی تکنیک ، باج ، انگلیوں کا استعمال (Tapping) کے طریقہ پر ایجاد کیا ۔ شمسِ موسیقی سنگیت مارٹنڈ استاد چاند خاں مرحوم نے موسیقی پر تقریباً تیس (30) کتب لکھیں اور انہیں موسیقی میں نائیک کا درجہ حاصل ہے ۔ ان کے علاوہ استاد رمضان خاں مرحوم ، استاد جہاں خاں صاحب مرحوم ، استاد عثمان مرحوم سنگیت سمراٹ، تان کپتان استاد ، نصیر احمد خاں مرحوم اور مشہور طبلہ نواز استاد لطیف احمد خاں مرحوم معروف رہے ہیں ۔ استاد لطیف احمد خاں بابائے موسیقی استاد بندو خان کے نواسے اور فنِ طبلہ نوازی میں صفِ اول کے فنکار تھے ۔ مشہور سارنگی نواز استاد نواب علی خاں ، حضرت میاں اچپل کے پڑپوتے ہیں۔ پروفیسر ہلال احمد خان ، جامعہ دہلی میں موسیقی کے پروفیسر اور وائس پرنسپل ہیں ، استاد ظہور احمد خاں وائل نواز ، استاد ظفر احمد خاں ستار نواز ، اقبال احمد خاں کلاسیکل گائیک، استاد شفاعت احمد خاں طبلہ نواز، امیر سلطان طبلہ نواز ، محمد شریف وائلن نواز بھی دہلی گھرانے سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔ اسی گھرانے کے شاگردوں میں مشہور اداکارہ مدھوبالا ، اقبال بانو ، امیر احمد علوی ، نیاز محمد خاں سارنگی نواز، مجید خاں جھجّر والے، جمال خاں ، شاہد احمد دہلوی ،اور شہزادے مرزا فرخ ہیں جو بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے ہیں جنہوں نے بابائے موسیقی استاد بندو خاں سے اکتسابِ فیض کیا ۔
پاکستان میں دہلی گھرانے کے مشہور فنکار بابائے موسیقی استاد بندوخاں وہ پہلے فنکار ہیں جنہیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے تمغۂ حسن کارکردگی دیا گیا ۔ انہوں نے ایک نئی سارنگی بنائی اور موسیقی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سارنگی پر فولاد کے تار چڑھائے اور اس کے بجانے کا بالکل نیا اور جدید ڈھنگ ایجاد کیا اور پرانے رِنگ گھِسے کے بجائے Tapping کے انداز میں انگلیوں کو استعمال کرنا شروع کیا ۔ ساتھ ہی ساتھ سارنگی کے باج میں اپنی نئی تراکیب ’’ گز گٹّے ‘‘ کا استعمال جور جھالے، چکاری تین رباب سرود کے باج کو نئے انداز سے اپنی جدید تکنیک میں سمو یا ۔ لے کی کاٹ تراش ، ماتروں کی آڑ کواڑ ، دُرت رنگ کے باج میں بلمپت ،، مدھ لے ، ڈیوڑی لے اور چوتھے زمانے کی لے کے ساتھ ساتھ تانوں کو نئے نام دیے اور سارنگی میں گائیکی کے باج کو فروغ دیا ۔ اسی وجہ سے ان کی سارنگی کو بندوخانی سو (100) رنگی کہتے ہیں ۔ موسیقی کی تاریخ میں بابائے موسیقی استاد بندو خاں نے سارنگی کے ساتھ سنگت کے علاوہ پہلی مرتبہ بحیثیت سولو (solo) ساز متعارف کرایا ۔ ان کے بڑے بیٹے استاد امراؤ بندو خاں نے فنِ گائیگی او ر سارنگی نوازی میں بھی بڑا مقام پیدا کیا اور حکومت کی طرف سے انہیں بھی تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا ۔ اسی گھرانے کے ایک اور عظیم فنکار استاد رمضان خاں مرحوم کو ’’ شیرِ گویّا ‘‘ کا خطاب دیا گیا ۔ اس بات پر تمام فنکار متحد ہیں کہ اِن جیسا گھنٹوں لگاتار دُرت گانے والا فنکار شاذونادر ہی پیدا ہوتا ہے ۔ استاد بندوخاں کے چھوٹے صاحبزادے استاد اقبال بندو خاں سارنگی نوازی کے علاوہ مغربی ساز چیلو ، لوک ساز سارندہ بجاتے ہیں اور موسیقار لعل محمد کے ساتھ مل کر لال محمد اقبال کے نام سے فلموں میں موسیقی بھی ترتیب دے رہے ہیں ۔ استاد رمضان خاں کے بیٹے نظام احمد خاں کلاسیکل گلوکار، ان کے بھتیجے محمد شریف وائلن نواز ،امیر سلطان طبلہ نواز ہیں اور استاد بندو خان کے نواسے وزیر احمد خاں موسیقی کے استاد ہیں ۔ یہ سب اسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
دہلی گھرانے میں فنِ موسیقی کی ترقی اور پھیلاؤ کی خاطر مستند کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ۔ بابائے موسیقی استاد بندو خاں اور استاد چاند خاں کی تصنیف کردہ کتابوں میں سے چند کے نام یہ ہیں : رسالہ جوہرِ موسیقی ، انکشافِ موسیقی ، ہارمونیم ماستر ، بیسک درپن ، جوہر ِ موسیقی ، خیال گائیکی کا دلی گھرانہ ، موسیقی حضرت امیر خسرو، لگات ِ موسیقی ۔ اس کے علاوہ بابائے موسیقی نے آئینہ موسیقی کے نام سے تین کتابیں لکھیں جو ہندی اور انگریزی زبانوں میں بھی شائع ہوئیں ۔ اس کتاب کا پہلا حصہ 1923ء میں لکھا گیا ۔ اور رساالہ جوہرِ موسیقی نکالا جس میں نئے اور پرانے دونوں سیکھنے والوں کے لیے کلاسیکی موسیقی کے نوٹیشن کو فروغ دیا اور گائیکی کو بجانے اور گانے کے لیے سمجھایا گیا ۔ اسی رسالے کے ذریعے موسیقی کی دنیا میں پہلی مرتبہ بہتر (72) اَچل ٹھاٹوں کو لکھ کر پیش کیا ۔ اور کلاسیکی مستند بندشیں اور ’’ لکشن گیت ‘‘ بھی نوٹیشن کر کے پیش کیے ۔ استاد چاند خاں نے آل انڈیا ریڈیو میں ریڈیو میوزک سکول کی بنیاد ڈالی اور یونیورسٹی اور کالجوں کی سطح پر موسیقی کے خصوصی لیکچرز بھی دیا کرتے تھے جو بعد میں شائع بھی ہوئے ۔
دہلی گھرانے میں فن کی نزاکتوں ، باریکیوں ، خیال کے بھراؤ، ریت رسم کے گانے بجانے کے علاوہ گائیکی کے دوران خوبصورت ادائیگی ، آواز کی مٹھاس ، لگاؤ رچاؤ ، بولوں کوگا کر صحیح سمجھانا ، پوری پوری بندشیں گانا ، تانوں کے نام، بول باٹ کا بناؤ، راگوں کی لڑیاں متعارف کرانا ، راگوں میں عروس کا برقرار رکھنا ، آکار کا بالکل ٹھیک استعمال اور وقت کا راگ گانا ، یہ ساری خوبیاں بھی اب تک بدرجہ اتم موجود رہی ہیں ۔ اس گھرانے کے دیگر استادانِ فن اور خاص طور پر استاد بندو خاں ، استاد امراؤ بندو خاں ، استاد اقبال بندو خاں اور راقم نے جو فن خود گایا بجایا ، وہی اپنے شاگردوں کو بھی سکھایا ۔ انہی کی وجہ سے کلاسیکی موسیقی اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقوں میں پہنچی اور مقبول و مروّ ج ہوئی اور یوں عوام کے ذوق و شوق میں اضافہ ہوا ۔