ریڈیو کراچی کے پروگرام دانش کدہ کی ایک قسط (مرتب: احسن رومیز)
نوٹ: ڈاکٹر محمد خورشید عبداللہ صاحب کے توسط سے جناب لطف اللہ خان صاحب کے آواز خزانے سے ’’دانشکدہ‘‘ نامی ریڈیو پروگرام کے تحت دسمبر 1977ء میں ہونے والی ایک قیمتی گفتگو دستیاب ہوئی۔ میزبانی کے فرائض جناب پروفیسر احمد علی صاحب نے انجام دیے، جب کہ معروف ماہر طبیعیات ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، بیرسٹر خالد اسحاق اور ڈاکٹر بشارت علی صاحب شرکائے گفتگو تھے۔ مذکورہ قسط میں سامعین کی جانب سے بھیجے جانے والے تین سوالات زیرِ بحث آئے۔ سب سے پہلے، چوہدری شمشاد احمد وارثی صاحب کے سوال ’’پاکستان میں رہنے والے ایک قوم کیسے بن سکتے ہیں؟‘‘ پہ بات ہوئی ۔ بعد ازاں ، ’’انسانی تخیل اور ایجادات میں رشتہ‘‘ (ارسال کردہ ، سید فرید احمد شمسی ) اور ’’ مخرب الاخلاق تحریروں / پورنوگرافی کے پھیلاؤ کے مسئلے‘‘ (ارسال کردہ ، فہیم انصار صاحب) پر تبادلہ خیال ہوا ۔
میزبان : آج کے اس دانش کدے میں جو حضرات شرکت کر رہے ہیں: ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی، جناب خالد احمد اسحاق اور ڈاکٹر بشارت ہیں۔ پہلا سوال جوآج ہمیں موصول ہوا ہے، وہ سوال جناب شمشاد احمد وارثی صاحب نے بھیجا ہے جو گیارہ بٹا نو، بی ایریا لیاقت آباد میں رہتے ہیں اور سوال یہ ہے۔ کیا کوئی ایسا طریقہ ہمارے دانشوروں کے ذہن میں ہے کہ پاکستان کے تمام علاقے اور حصے، اور اُن کے باشندے صرف اور صرف ایک پاکستانی قوم بن جائیں۔ اور یہ ٹکڑیاں جو پنجابی سندھی بلوچی سرحدی اور مہاجر نظر آتی ہیں، ختم ہوں۔اس لئے کہ کسی ملک کی بقا کے لئےلازم ہے کہ اس کے تمام باشندے ایک قوم ہوں۔
میزبان: اصل میں یہ جو سوال ہے ، اس میں بہت سے پہلو ہیں اورمیں ایک آدھ کی طرف اشارہ پہلے اپنے طور پہ کر دینا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد ہم لوگ (شرکائے گفتگو) ، سب اپنی رائے پیش کریں گے۔دانشوروں کے ذہن میں تو یقینی حل ہے، اور تھا۔ اور اسی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا ۔ اگر دانشوروں کے ذہن میں یہ صورت/شکل / مسئلہ نہ ہوتا تو پاکستان بنانے کے لئے جدوجہدبھی نہ کی جاتی۔ کیونکہ دانشورہی تھے جنھوں نے جدوجہد کی ،پاکستان کے لئے۔ چنانچہ جب پاکستان بن گیا اور سب لوگوں کو اتفاق تھا کہ اب ہم ایک قوم ہو گئے ۔ اس سے پہلے، مسئلہ تھا ہمارے سامنے دو قوموں کا : ہندو اور مسلمان ۔ ہم یہاں پاکستان کے اندر صرف مسلمان رہ گئے۔ جو ہندو یا غیر مسلم ہیں بھی ، وہ معدود ے چند ہیں ۔بہرحال ایک قوم ہونے کے لئے کچھ چیزیں، مشترکہ ضروری ہے۔ اول ، ایک فکر ، ایک زبان، ایک ثقافت تمدن جسے ہم کہتے ہیں ، ایک تاریخ اور ایک حد تک جغرافیہ بھی اس میں شامل ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہمارے پاس تاریخ ہے ، یعنی ایک ہی تاریخ ہے۔ ایک ہی دراصل زبان ہے ۔ ایک ہی ہمارے سامنے فکر ہے اور خوش قسمتی سے مذہب بھی ایک ہی ہے ۔ رہا سوال تمدن کا ، تو تمدن بھی دراصل ایک ہے ۔ اس کے مختلف مظاہرے اور مختلف شکلیں ہیں۔ تھوڑی سی تبدیل ہو کر آتی ہیں جس سے اور (مزید) رونق پیدا ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح سے زبان کا مسئلہ ہے۔ اصل میں جو زبان اس برصغیر میں مسلمانوں کے آنے کے بعد بنی ، وہ تھی اردو جس کے مختلف نام بھی پہلے رہے ہیں ۔ پہلے اِس کو ہندی کہتے تھے ، ہندوستانی ہوئی ، اردو ہوئی ۔ اس زبان میں تمام زبانوں کے الفاظ موجود ہیں ۔اس میں پنجابی کی گرائمر بھی ہے ۔ اس میں سندھی کے بھی الفاظ موجود ہیں اور ان کی صرف و نحو کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ ہندی زبان کا بھی ہے اور مختلف علاقائی زبانوں کا بھی ہے۔ اب جب پاکستان بنا تو اردو ہی ہماری قومی زبان قرار پائی تھی اور ابھی تک ہے ۔ رہا مسئلہ تمدن کا: تمدن بھی دراصل ہمارا جو ہے ، یہ اس کو جو فروغ ہوا ، وہ اسلام کے سائے میں فروغ ہوا، مسلمانوں کے سائے میں ۔ اگر بلوچستان میں یا سندھ میں یا پنجاب میں ،تھوڑا سا لباس میں یا رہن سہن میں اختلاف ہے تو دراصل یہ رونق کا باعث ہے اور یہ جغرافیائی اور رہن سہن کے طریقوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ اور اس میں کوئی چیز نہیں ہے جو کہ غیر پاکستانی ہو۔ چین میں ،چنانچہ بہت سے تمدن ہیں ، بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن ان کی ایک زبان ہے جو کہ Peking Dialect (پیکنگ کا لہجہ) کہلاتی ہے ، وہی ان کی قومی زبان کے نام سے مشہور ہے۔لباس ا ُن کے الگ الگ ہیں لیکن جب وہ سب ملتے ہیں تو سب مل کے چینی ہو جاتے ہیں ۔
میزبان: تو یہ چیزیں ہیں ۔ اب میں درخواست کروں گا ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی سے کہ وہ کچھ اس مسئلہ پہ روشنی ڈالیں۔
ڈاکٹر سلیم صدیقی : سر جیسا آپ نے فرمایا کہ اس کے بہت سے پہلو ہیں۔ لیکن آپ نے زبان کا جو ذکر کیا ہے، اس سلسلے میں مجھے عرض کرنا ہے کہ جو بڑی مصیبت اس تمام قصے میں آ کے ہمارے سر پر عائد ہوئی ہے، وہ یہ ہے۔ یہ لفظ مادری زبان کا ہے۔ ایک مرتبہ تو میں نے عاجز آ کر کہا کہ بھئی، مادری زبان کا تو معاملہ یہ ہے کہ جتنی مائیں ہوتی ہیں اتنی مادری زبانیں ہوتی ہیں۔ اصل معاملہ جیسے آپ نے فرمایا، ثقافتی زبان کا ہے۔ اور چین کا جو آپ نے حوالہ دیا، تو چین نے نہیں معلوم کتنی ایجادیں کیں لیکن انھوں نے Alphabet (انگریزی و دیگر زبانوں جیسے حروف تہجی) نہیں ایجاد کیے۔ وہی تصویر کی شکلیں ہیں hieroglyphics(ہیروغلیفی) ۔ simplified (سادہ چینی زبان ) اسی میں ہے اور اسی کی وجہ سے یہ جو بولیاں ہیں، ہزاروں بولیاں ہیں ، ہزاروں زبانیں ان کو کہہ لیجیے جس میں شاید کچھ ادب بھی ہو۔ تو اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر، یہ نہیں Claim (دعوی ) کرنا، انہوں نے شروع کیا کہ ہم بھی ہیں ، ہم کو بھی مانا جائے الگ زبان کی حیثیت سے۔ پھر آپ جرمنی کو دیکھ لیجئے۔ برلن کے قرب و جوار کے دیہاتی اپنی plagdutchلے کے اگر جنوب میں جائے اور وہاں کے دیہاتی سے بات کرنا چاہے، میونخ کے قرب و جوار کے (دیہاتی سے) ۔ تو صاحب وہ اپنے کو سمجھا نہیں سکتا ہے یعنی بالکل مختلف۔ صرفhop-Dutchکے ذریعے سے(بات ہو سکتی ہے ) یعنی جرمنی زبان کی اردوئے معلی جس کا آپ نے ذکر فرمایا ۔ تو یہ زبانیں اس طرح سے ہر بیس میل پہ مختلف ہوتی جاتی ہیں۔
میزبان: درست!
سلیم الزماں صدیقی : اصل معاملہ ہماری ثقافتی زبان کا ہے لیکن ہماری یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔ اب انڈویشیا نے کیا کیا ؟ سماترا کے شمال میں جو زبان بولی جاتی ہے ، اس کو انہوں نے اپنے سر اوڑھ لیا اور جاوا میں بالکل مختلف زبان ہوتی ہے ۔یعنی dialect (لہجہ ) جو ان کا ہے ، وہ بالکل مختلف ہے ۔
سلیم الزماں صدیقی : پھر ایک بات اور ہے ۔ اتنا لمبا سوال ہے ، مجھے اس سلسلے میں یاد آتا ہے کہ آلڈوس ہکسلے نے (اپنے ناول) Ape and Essence (1948ء) میں یہ بات کہی ہے کہ
There are two great curses visited on mankind. One is nationalism and the other is progress.
یعنی ایک، تو یہ قومیت کا جو تخیل ہے یہ ایک عذاب ہے انسانی نسل ہے اور دوسرا جس کو آپ ترقی کہتے ہیں ۔ اس کا وجود یہ ہے خاص طور سے قومیت کے سلسلے میں، کہ یہ انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتے کرتےtribalism(قبائلیت)میں لے آتی ہے ۔ ہمارا بھی یہی قصہ ہے کہ لاکھ پاکستان ان وجوہات کی بنا (بنیاد) پہ بنا ہو جن کا آپ نے ذکر کیا ہے ، لیکن بن جانے کے بعد پھر تو معاملہ ذرا دوسرا ہوتا ہے ۔
میزبان: درست!
سلیم الزماں صدیقی: پھر یہ تمام باتیں جن کا میں نے حوالہ دیا ہے ، یہ در آتی ہیں اور آپس میں توڑ پھوڑ شروع ہو تی ہے۔اس سے اتنا گھبرانا بھی نہیں چاہیے ۔یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے ۔ اب آپ خیال فرمائیے کہ چھ سے سات سو سال انگلستان، برطانیہ کو ہوئے لیکن اب بھی وہاں اس قسم کی چیزیں چلتی رہتی ہیں۔ اس سے اتنا پریشان ہونے کی، میرے خیال میں ضرورت نہیں ۔
میزبان: خالد اسحاق صاحب کچھ کہنا چاہ رہے ہیں ۔
خالد اسحاق : دیکھیں ، دیکھیں انگریزی میں بہت اچھا مقولہ ہے ، جس میں یہ کہا ہے کہ
Being a nation, is taking part in a daily referendum, to aspire together, to suffer together
یعنی قوم بنتی ہے ایک نظریہ حیات کے ساتھ پابند ہونے سے ۔ زبانیں ، نسلیں اوریہ تمام چیزیں جو متمیز کرتی ہیں فرد کو دوسرے سے: وہ قران کی زبان میں ایک دوسرے کو پہچاننے کے لئے ہیں ان کی کوئی بنیادی اہمیت نہیں ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر دور میں ، ہر لحظہ ، کچھ چیزیں ہیں جو ہر فرد کو دوسرے سے متمیز کرتی ہیں۔ وہ زبان ہے ، اُس کا لباس ہے ، اس کی ثقافت میں بھی کئی عنصر ہیں، اس کی شکل ہے ، رنگت ہے ، اُس کی نسل ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے عوامل ہیں جو اس کو اور (دوسرے) لوگوں کے قریب تر لاتے ہیں۔ جب کچھ افراد کا تعلق ، بنیادی تعلق ، ایک نظریہ حیات سے ہو جائے کہ جو ان کے پیش پا افتادہ (سامنے کا/ معمولی ) مفاد سے اونچا ہو اور وہ تعلق اتنا گہرا ہو جائے کہ اس کو Principle of self-identification (اصول برائے ذاتی شناخت ) کہہ سکیں ، تو پھر وہ افراد مل کر ایک قوم بن جاتے ہیں۔
خالد اسحاق : واقعہ یہ ہے کہ جب ہمارے ہاں ، ہمارا تعلق ہماری آئیڈیالوجی سے کمزور پڑ گیا ۔ یہ علاقائی منافرت(باہمی نفرت) ، یہ لوٹ کھسوٹ جو علاقائی بنیاد پر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،تو یہ بڑھ جاتی ہے اور بڑھی ہم میں ۔ لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ 65ء کی جنگ جب ہوئی ، تو پہلی چیز سبھی کے دل میں آئی تھی وہ اسلام کی محبت تھی ۔ اور وہ اسلامی جذبہ تھا جو ہمیں اس جنگ میں بڑی کامیابی سے آگے لے گیا ۔ صورت یہ ہے کہ وہ جو principle of self-identification (ذاتی شناخت کا اصول) ہے اس سے اگر تعلق رہے ، ایک اونچے نظریہ حیات سے تعلق رہے ، تو باوجود ان تمام فرق کرنے والی چیزوں کے، عوامل کے ، ایک قوم بن سکتی ہے ۔
خالد اسحاق: اب دانشوروں کے سامنے پھر وہی مسئلہ ہے کہ کس طرح قوم کو یہ سمجھایا جا ئے کہ پیش پا افتادہ مفادات جو ہیں اگر ہم ان کے پیچھے لگ جائیں گے ، تو آخرکار یہ شیرازہ بکھر جائے گا۔ اور ہمارے جو بڑے مفادات ہیں وہ اس میں ضائع ہو جائیں گے ۔ اور یہ چیز ہر فرد کو سمجھ میں آتی ہے لیکن صورت یہ ہوتی ہے کہ جب عام افراد یہ سمجھنے لگیں کہ اس نظریہ حیات سے تعلق ہماری لیڈرشپ، ہماری قیادت، کا گہرا اور سچا نہیں ہے تو اپنے طور سے ان کی جو ذہنی کیفیت ہو جاتی ہے، وہ ایسی ہو جاتی ہے کہ صاحب یہ تو اب گھر بکھر رہا ہے جو ملتا ہے اس کو اٹھا کے اپنے قبضے میں کر لو ۔
خالد اسحاق: تو میں سمجھتا یہ ہوں کہ اب ہم اُس دور سے نکل کےایک ایسے دور میں آرہے ہیں کہ جہاں پہ ہر فرد، چھوٹا ہو یا بڑا، یہ محسوس کرتا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں پنپنے کے لئے، اپنا جو بنیادی نظریہ حیات تھا ، اس کے ساتھ از سر نو رشتہ جوڑ ناہو گا ۔ اور اس کے لئے عوامل کار فرما ہیں ۔
سلیم الزماں صدیقی : درست، بالکل درست ہے ۔
میزبان: ڈاکٹر بشارت علی صاحب، آپ کچھ روشنی ڈالیں گے۔
ڈاکٹر بشارت علی : خالد اسحاق صاحب نے جو توجیہہ فرمائی ہے ، اُ ن کی اجازت سے میں اس کی عمرانی (sociological)توجیہہ کی اجازت چاہوں گا۔
ڈاکٹر بشارت علی: سوال یہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی مشترکہ ثقافت کیا ہونی چاہیے ۔ جن عوامل کو معرضِ گفتگو میں لایا جا رہا ہے (یعنی) زبان، نسل یا کُفو یا خاندان، یہ قومیت کی تعریف کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ(غالباً یہی نام لیا جا رہا ہے کہ اطالوی مفکر) Giuseppe Mazzini قومیت کا پہلا مفکر ہے ۔ اس نے قومیت کی تاسیس اور صورت گری میں سب سے پہلے مذہب کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اور پاکستان میں قومیت سے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ ہماری قوم تنافض اور تضاد کی حالت سے گزر رہی ہے۔یہ تضاد اور تنافض اس وجہ سےکہ ہماری قوم یہ طے نہیں کر سکی کہ اس کا مقصد حیات کیا ہے اور کن متضمنات کو منصۂ شہود پر لانے کی بنیاد پر یہ قوم زندہ ہو سکتی ہے ۔
ڈاکٹر بشارت علی: سب سے پہلی چیز جو مجھےقابل اعتراض نظر آتی ہے وہ قومیت کا لفظ ہے ۔ اسلام میں قومیت کوئی چیز نہیں ۔ اسلام میں ملیتیت ہے اور جب ملت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، تو اس کے معنی ہیں کہ ہمارے وجود اور بقاء کے تین عوامل ہیں جن کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو یقیناً ہماری ہستی مٹ جائے گی ،انفرادیت ختم ہو جائے گی، باطنیت (بمعنی روحانیت ، از مرتب) ختم ہو جائے گی ، جمعیت ختم ہو جائے گی، جامعیت ختم ہو جائے گی ۔ وہ تین چیزیں ہیں: توحید، رسالت اور قرآن ۔ اور جہاں تک بلوچ اور پنجابی وغیرہ کا ذکر ہے یہ sub-system(ذیلی سسٹم) ہیں اور یہ تمامsub-system(ذیلی سسٹم) ideal کی بنیاد پر ایک سُپر سسٹم میں ضم ہو جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر بشارت علی: چنانچہ اگر آپ sociology کی کوئی کتاب پڑھیں گے،توکلچر کے اندر اس کی تقسیم ہو گی دو جہات میں۔ ایک تو سسٹم (system)اوردوسرا ، سُپر سسٹم۔ اور یہ (پنجابی سندھی بلوچی پٹھان ) sub-systems(ذیلی سسٹم) ہیں اور ان سب کو ضم ہونا چاہئے سُپر سسٹم میں ۔ جن کا ایک بنیاد اور ایک علت ہونی چاہیے ۔ اور وہ علت اور بنیاد وہی ہے جس کی خالد اسحاق صاحب نے نہایت ہی مؤثر اور جامع الفاظ میں وضاحت کی ہے اور میں انھی کی اجازت سے تکرار کروں گا۔ اور وہ تین ہیں: توحید، رسالت اور قرآن۔
میزبان: یہ بہت دلچسپ گفتگو ہماری رہی ہے۔ پروفیسر بشارت علی صاحب نے اِس کو بالکل سمیٹ کے رکھ دیا ہے ۔ لیکن ، مجھے تھوڑا سا اختلاف ہے گو اگر ہم اس پہ اور (مزید) گفتگو کریں تو وقت سارا ہم اسی پہ صرف کر دیں گے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ مجھے اتفاق ہے کہ (لفظ )ملت ہونا چاہیے ۔ لیکن اگر وہ ہے تو ملت اسلامی اتنی دنیا میں پھیلی ہوئی ہے کہ اس میں مختلف قوموں کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ لیکن اتفاق کی بات ایسی ہے کہ ہماری دنیا اتنی پھیل گئی ہے کہ اس میں اب قومیں وجود میں آ ہی گئی ہیں ۔ اب اس میں ترک بھی ہیں، Indonesians بھی ہیں، اُس میں چینی بھی ہیں،اُس میں عرب تو خیر ہیں ہی ۔ لیکن اس میں حبشی ، امریکہ کے بھی ہیں۔ بہرحال اِن کا جغرافیہ اور اِن کے ، جیسے کہ سلیم الزمان صاحب ثقافت کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، وہ (لفظ) مجھے زیادہ پسند نہیں ہے ، تمدن میں اختلافات ہیں۔ بہرحال ملت تو مذہب سے ہے لیکن اگر ہم اس پر چلیں تو ملت اتنی بڑی ہے کہ ہم اس کو سمیٹ کر ایک جگہ رکھ نہیں سکتے۔
خالد اسحاق: ملت کی ترکیب میں ایک منزل ہے ، علاقے سے ایک مسلمان قوم کا بن جانا۔
میزبان: بہرحال علاقے اپنی جگہ ہیں اور علاقوں پر جغرافیہ کا بڑا زبردست اثر ہے ۔ اور رہن سہن پر انکا اثر ہے ، مذہب کا کوئی اثر نہیں۔ قومیت کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے رہن سہن سے، زبان سے، ان مشترکہ چیزوں سے بنتی ہے ۔
میزبان: بہرحال ، اب یہ تو بہت لمبی بحث ہے ، پھر کسی وقت رہے گی۔
میزبان: دوسرا سوال ایک اور ہمارے پاس آیا ہے ، سیدفرید احمد شمسی صاحب کا، جو ناظم آباد نمبر چار میں رہتے ہیں انہوں نے بھیجا ہے ۔ کیا انسانی تخیل سائنسی تحقیق پر اثر انداز ہوتا ہے ؟
میزبان : دراصل یہ سوال ایسا ہے کہ اس میں جواب دینے کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ اگر انسان کے پاس تخیل نہ ہو ، تو وہ نئی راہیں اسے کبھی نظر ہی نہیں آئیں گی۔ جب دماغ رساں ہوتا ہے، تو اسی وقت یہ چلتا ہے ۔ اور رساں دماغ اسی وقت ہوتا ہے جب اس کے پاس تخیل تھوڑا سا ہو ۔لیکن بہرحال ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی صاحب جیسے scientist(سائنسدان) بیٹھے ہوئے ہیں، خالداسحاق صاحب بھی اور بشارت صاحب بھی جو sociology(عمرانیات) جانتے ہیں ۔شاید اس میں نئی کچھ راہیں پیدا کریں۔
سلیم الزماں صدیقی: صاحب، جہاں تک اس سوال کے جواب کا معاملہ ہے، وہ تو بہت مختصر ہو سکتا ہے۔ہاں، (ایسا ہی ہوتا ہے ) ۔ (ہنسی)
سلیم الزماں صدیقی : لیکن صورت یہ ہے کہ سائنس کی جو بناء (بنیاد) پڑی یونانی تمدن کے دور میں دراصل ۔ کیونکہ تکنیک اور ٹیکنالوجیز تو ہزاروں سال سے چلی آتی تھی لیکن ان سے جو مشاہدات مرتب ہوئے ، اُن کی بناء پر اس زمانے میں سوال اِس قسم کے اٹھنے شروع ہوئے کہ یہ سب جو ہوتا ہے ، کیوں ہوتا ہے ۔ یہ’کیوں‘ کی طرف جب چلے، تو عام نظریات ظہور پذیر ہوئے۔ پھر اُن نظریات کو مستحکم بنانے کے لئے ،محکم کرنے کے لئے تجربات کرنے پڑے ۔ چنانچہ ابتدائی دور میں یونان کے ،تجربات کا قصہ بہت لمبا چلتا تھا لیکن سقراط کے زمانے سے پھر صورت یہ ہوئی کہ وہ فلسفے کی طرف اور اخلاقیات کی طرف بہت رجوع ہوئے۔ اور تجربات کا معاملہ بہت دھیما پڑ گیا۔ یہاں تک کہ آپ کو یاد ہو گا ، برٹرینڈ رسل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے اسی چیز کو واضح کرنے کے لئے کہ ارسطو کی دو شادیاں ہوئی۔ لیکن وہ اپنے نظریات کی بناء پر یہ کہتے تھے کہ عورتوں کے دانت مردوں سے کم ہوتے ہیں۔ لیکن اس تجربے کی ضرورت نہ سمجھی کہ دانت (منہ ) کھول کے گن لیتے۔(ہنسی )
سلیم الزماں صدیقی: خیر، یہ تو برٹرینڈ رسل نے ایک طرح سے لطیفے کے طور پر بیان کیا ہے ۔ لیکن تجربے کا جو مقام ہونا چاہیے تھا سائنس کے فروغ کے لئے، و ہ اس دور میں نہیں رہ گیا تھا ۔ اسکندریہ کے دور میں ۔۔۔
میزبان: (قدرے ہنستے ہوئے) اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ تخیل ضروری نہیں ہے سائنس کے فروغ کے لئے۔
سلیم الزماں صدیقی: نہیں ، صاحب ! نظریات کے ساتھ تخلیقی عمل میں بغیر تخیل کے تو دو قدم آدمی آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ وہ کوئی بھی تخلیقی عمل ہو، چاہے وہ شعر و ادب اور فلسفے میں ہو، اس کے اندر ہر جگہ چھٹی حس کی بھی ضروت ہوتی ہے، وجدان کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔
میزبان: خالد صاحب!
خالد اسحاق: صاحب، سیدھی بات ہے ۔ سائنسی تحقیق جسے ہم کہتے ہیں ، وہ اس فعل کا نام ہے کہ علم کو مرتب کر دیا جاتا ہے ۔اور اس ترتیب دینے کے لئے اور مقدم و مؤخر کی بات سمجھنے کے لئے، آپ کو لا محالہ ایک hypothesis(مفروضہ/قیاس ) بنانا پڑتی ہے اور hypothesis formation (مفروضہ بندی )جس کو کہتے ہیں ، یہ عمل ہو نہیں سکتا بغیر تخیل کےیا imagination کے ۔
خالد اسحاق: اگر کسی میدان میں کوئی ریسرچ کرنا ہو، تو میرا خیال نہیں ہے کہ بغیرimagination( تخیل )کے آدمی ایک قدم بھی آگے چل سکتا ہے ۔ تو یہ معاملہ یہاں تک تو بالکل صاف ہے ۔
میزبان: بشارت صاحب ، آپ کچھ فرمائیں گے؟
ڈاکٹر بشارت علی : میں اپنے ارباب ِ بست و کشاد سے تھوڑا سا انحراف کرتے ہوئے اس سوال کا مفہوم جو میں نے سمجھا ہے ، وہ یہ ہے کہ طالب علم یا صاحب سوال یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ scientific(سائنسی) تحقیقات کے لئے اگر تخیل ضروری ہے ، تو اس تخیل کو حاصل کرنے کے لئے کن متضمنات اور کن شرائط کو پورا کرنا ہے ۔
ڈاکٹر بشارت علی : سب سے پہلی چیز یہ ہے ۔ میرے نزدیک قرآن نے جو کہا ہے سمع بصر و فواد ۔ پھر اس کے بعد اس کی توضیح کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ آیاتِ کونیہ کی تذکیر ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک محقق میں، ایک طالب علم میں ، ایکscientist(سائنسدان) میں ایک scientific attitude(سائنسی رویہ ) پیدا کیا جائے ۔ جب تک اس کی آبیاری سائنسی مسائل پر غور و تدبر و فکر نہ ہو، تو اس وقت تک نہ اُس میں تخیل پیدا کر سکتا ہے ، نہ وہ قیاسات قائم کر سکتا ہے ، نہ بدیہات قائم کر سکتا ہے ۔ تو سب سے پہلی چیز قرآن کے زاویہ نگاہ سے یہ ہے کہ اگر کسی کو scientific(سائنسی ) حیثیت سے معاشرے کے لئے مفید اور کامیاب بنانا ہے، تو سب سے پہلے اس کو سائنس کی تعلیم دینی چاہیے ۔ ان میں سائنس کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے کہ سمع بصر و فواد سے کام لیکر سائنسی مسائل کی تحقیق کی طرف قدم بڑھائے ۔
میزبان: بہرحال ، ہم نے تو اس وقت سوال کو۔۔۔۔۔۔۔
سلیم الزماں صدیقی: بھئی، اس میں مجھے اور (مزید) بہت کچھ کہنا ہے ۔ لیکن وقت نہیں ہے ۔۔۔۔
میزبان : ہم نے اس سوال کو بہت اونچے مرتبے پر لے جا کر اور دانشوری سے غور کیا ہے ۔ لیکن ایک ذرا سی بات آتی ہے کہ سوال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان میں، ہمارے ہاں کے کام کرنے والے جو labor(مزدور/محنت کش) کہلاتی ہے، بغیر تخیل کے وہ آ جاتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ میں آپ کوئی بھی مشینری دے دیں، بجائے اس کے کو درست کریں ، وہ اس کو توڑ تاڑ کے رکھ دیتے ہیں، اسے برباد کر دیتے ہیں ۔ اس لئے تخیل کی ضرورت، میرے خیال میں ، بہت لازمی ہے scientific(سائنسی) تحقیق کے لئے۔ نہیں تو وہ مسئلہ ہو جائے گا کہ سیکھ نہ دیجیے باندرا، جو گھر بیے کا جائے۔
سلیم الزماں صدیقی: گزارش یہ ہے کہ attitude of mind(ذہنی رویہ) جب تک نہ ہو ، تخیل پیدا نہ ہوگا ۔
میزبان: درست ہے ۔ وہ تو میں نے کہا نہ کہ اس کو بہت اونچے لیول پہ لے جا کے ہم نے بات کی ۔
میزبان: ایک آخری سوال ہمارے پاس ہے جو جناب فہیم انصار صاحب نے صدر کراچی سے بھیجا ہے اور سوال یہ ہے ۔ ہمارے ملک میں، (سوال کرنے والے نے ) لکھا تو ہے مخربِ اخلاق ، میرا خیال ہے کہ مخرب کوئی لفظ اردو کا بنتا نہیں ہے ۔ مخرِّب ہو گا جیسے خالد اسحاق صاحب کہہ رہے تھے ۔ لیکن مخرّب بھی بننے کے بعد ، کوئی چولیں اس کی اردو زبان میں بیٹھتی نہیں ہے ۔بہرحال سوال یہی ہے ۔ ہمارے ملک میں مخربِ اخلاق رسالوں اور ناولوں کا رجحان زور پکڑ رہا ہے ۔ آپ کے خیال میں یہ کس حد تک خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے ۔
میزبان: اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں یہ عرض کروں گا کہ دراصل کچھ اور ہے ہی نہیں ہمارے پاس ، سوائے ایسے رسالوں کے جو ، جس کوکہ انگریزی زبان میں Scandal (سکینڈل) کہتے ہیں ، وہ پیش کریں یا سطحی چیزوں کے بارے میں کچھ لکھ دیں۔ ناول ہم کو لکھنے آئے نہیں کیوں کہ وہ ہمارے پس منظر میں نہیں ہیں، میراث میں نہیں ہے ناول نگاری۔ چنانچہ یہی ہم پڑھتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ اس حد تک خطرناک ہو گیا ہے جیسے کہ نیم حکیم خطرۂ جان ہوتا ہے ۔ لیکن بہرحال خالد اسحاق صاحب کو بہت کچھ کہنا ہے اس مسئلہ پہ ۔
خالد اسحاق: اس میں ، میں ایک بنیادی بات عرض کروں گا ۔ اگر انسانی ادب کی تاریخ دیکھیں تو بعض ادوار ایسے آئے ہیں کہ جہاں پر پورنوگرافی(pornography) بہت عام ہو گئی۔ اور جو کارفرما عوامل اس سلسلے میں نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں ۔ جب ایک قوم یا ایک کمیونٹی (community)کے سامنے کوئی بڑے مقاصد اعلیٰ ہوتے ہیں ، تو ان کے تمام رجحانات اور تمام ذہنی قوتیں اس طرف مرتکز ہو جاتی ہیں ۔ جب بحیثیت قوم ، لوگ self-doubt(اپنے آپ کے بارے میں شک و شبہات) میں گرفتار ہو جاتے ہیں یا زندگی کے مقاصد صاف نہ رہیں سامنے ، تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر، یا غیر مطمئن ہو کر حاضر میں ہر چیز حاصل کرنا چاہتے ہیں اور حاضر میں بھی آج اور اس وقت ۔ آج اور اس وقت میں، اس لمحے میں ،کُل کا کُل نچوڑ لینا، یہ ایک زندگی کا طریقہ بن جاتا ہے ۔ اور جتنا ادب دیکھیں جو مقاصد عالیہ سے متعلق ہے تو وہ future-orientedہوتا ہے ۔ سیکس ہی ایک میدان ہے جو now and here oriented (اب اور آج پر مبنی ، از مرتب) ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے جب قومیں اپنے مقاصد کے سلسلہ میں مختلف رجحانوں کا شکار بن جائیں ، تو ان کے ہاں لامحالہ اس قسم کا لٹریچر فروغ پا جاتا ہے کہ جو Present oriented (گرفتارِ حال ) ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت اہم کارفرما عنصر ہے ۔
میزبان: آپ دراصل، خالد اسحاق صاحب ، بہت generous ( کشادہ دل ) اس معاملے میں ہیں ۔ میں کچھ اور عرض کروں گا لیکن سلیم الزماں صاحب کچھ فرمائیں گے ۔
سلیم الزماں صدیقی : اس سلسلے میں ، جیسا آپ نے فرمایا کہ یہ آج کی بات نہیں ہے ۔ جنسیات کا قصہ اگر آپ دیکھیں ، روزِ ازل سے چل رہا ہے(دھیمی ہنسی ) ۔ وہ تو ہوتا رہتا ہے ۔ لیکن یہ جو قصہ مغرب میں شروع ہوا ہے جنسیات کا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک نئی discovery(دریافت) وہاں ہوئی ہے جنسیات کی ۔ اورکتنا ہی پورنوگرافی لٹریچر، علاوہ اس کے ٹیلی وژن پہ ، اِس میں اُس میں جس طرح کہ آپ دیکھتے ہیںplays(ڈرامے) وغیرہ ، تو اس کا ردعمل ہمارے ہاں ہوا ہے۔ جو بھی چیز وہاں کی آتی ہے ، ہم اپنے سر اوڑھ لیتے ہیں اور کتنے کچھ اس سلسلے میں یہاں ہندوستان میں اور دوسرے ممالک میں اس کے اثرات پڑے ہیں لیکن وہاں بھی معاملہ دھیما پڑ چکا ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو باقی رہنے والی نہیں ہے ۔ البتہ یہ کہ ہمارے ہاں جیسا آپ نے فرمایا ، ہمارے ہاں reading habit، پڑھنے کی جو عادت تھی وہ ایسی ختم ہوئی ہے کہ اب یہ جو نسخے نکلتے رہتے ہیں ڈائجسٹ کے ناموں سے ، بس انہی کو پڑھتے ہیں۔ اور جو مستقل کتابیں ہیں ان کو تو پڑھنے والا کوئی ہے ہی نہیں ۔
میزبان: ٹیلی ویژن ایک انسٹی ٹیوٹ بن گیا ہے ناں ۔
سلیم الزماں صدیقی : یہ بڑی افسوسناک بات ہے ۔
میزبان: بالکل ۔ خالد اسحاق صاحب نے بہت پتے کی بات کہی اور آپ نے بھی پتے کی بات کہی ۔ فرق اتنا ذرا سا مجھ کو نظر آتا ہے جیسا کہ آپ لوگوں نے کہا ۔ دراصل اس میں مسئلہ صرف اب اور آج کا ہی نہیں ہے ۔ یوں تو ہم قوم لوط کی طرف جائیں گے۔ قوم لوط نے جو کیا، وہ بھی ایک حد پہ پہنچ گئے تھے انحطاط کی۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اس وقت صورت پیش آتی ہے جب کہ ، جیسا کہ سلیم الزماں صاحب نے کہا اور خالد اسحاق صاحب نے بھی کہا کہ ہمارے پاس فکر جو ہے اس کی کمی ہو جاتی ہے ۔ کچھ کرنے کو نہیں رہتا ۔ کریں تو کیا کریں۔ فکر کی کمی یوں ہے کہ زبان ہماری اپنی کوئی رہی نہیں۔ کتابیں ہمیں ملتی نہیں۔ انگریزی ہماری سمجھ میں نہیں آتی ۔ انگریزی کی کتابیں جو ملتی ہیں وہ بقول سلیم الزماں صاحب کے، امریکہ انگلستان اور یورپ میں سیکس کی discovery (دریافت) ہو گئی ہے ۔ وہ اسی کو لیکر ۔۔۔۔
خالد اسحاق: ایک بنیادی بات ہے ، جنس کا تعلق ہے animal cell (حیوانی خلیے ) سے اور انسانیت بنتی ہے جب انسان اس سطح سے اوپر چلا جائے۔
میزبان: ٹھیک ہے !
خالد اسحاق : جب اس سے اوپر کی سطح سے تعلق کم ہو جاتا ہے تو لامحالہ اس جانوری (حیوانی) لیول (سطح) پہ آ جاتا ہے ۔
میزبان: ٹھیک ہے ۔ بہت اچھی آپ نے مثال دی ۔ کیوں کہ ہم اوپر سے ترقی کی جگہ تنزل کرتے کرتے اب نیچے اتر آئے ہیں یعنی حیوانی اب ہو کے رہ گئے ہیں، انسانی نہیں رہے ۔ بہرحال یہ مسئلہ بہت ٹیڑھا ہے ۔ میں بشارت صاحب سے عرض کرنی چاہ رہا تھا لیکن اب وقت ختم ہونے والا ہے ۔ لیکن بشارت صاحب کچھ ، ایک آدھ جملے میں ضرور کہیے ۔
ڈاکٹر بشارت: میں صرف یہ عرض کروں گا کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی صاحب اور بیرسٹرخالداسحاق صاحب کی گفتگو سے متفق ہوں۔ یہ زیادہ تر اثر، میں جو سمجھتا ہوں ، وہ Sensate (حسی ) کلچر کا ہے کیوں کہ آج کل امریکہ میں اور یورپ میں تین چیزوں کا غلبہ ہے:wealth, wine, women and song (دولت، شراب ، عور ت اور گانا) جس کو بڑے شدومد کے ساتھ پروفیسر ساروکن بیان کرتا ہے اور یہ اثر جو ہے پروفیسر سُکن نے اپنی کتاب Literary Taste میں اسی متضمنات کو لا کر کہتا ہے کہ اگر جناب عالی ، اس taste(ذوق) کو بدلنا ہے ، تو اس کی صورت یہ ہے کہ بائیبل کو زندہ کیا جائے ۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن کو زندہ کیا جائے ۔
میزبان: میں بہت مشکور ہوں آپ لوگوں کا اور بہت دلچسپ گفتگو رہی ۔ پھر جاری رکھیں گے اس کو ، انشاء اللہ ۔