آئین پاکستان 1973ء کی منظوری کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی چند اردو تقاریر (مرتب: عاصم رضا)
نوٹ: سابق وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نےآئینِ پاکستان 1973ء کی منظور ی کے بعد پاکستان کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں یعنی کراچی(14 اپریل، 1974ء ) ، لاہور(14 اپریل ، 1974ء ) ، کوئٹہ(16 اپریل، 1974ء) اور (17 اپریل 1974ء کو ) پشاور میں اردو زبان میں تقاریر کیں ۔ ان تمام تقاریر کی آڈیو ریکارڈنگ محترمی لطف اللہ خان صاحب کے آواز خزانے سے دستیاب ہوئی ہے جس تک رسائی کے لیے ہم جناب ڈاکٹر محمد خورشید عبداللہ صاحب کے بے حد ممنون ہیں ۔ آئین ِ پاکستان کے پس منظر میں ان تقاریر کی تاریخی و سیاسی افادیت و اہمیت کے پیشِ نظر فاضل مرتب نے جائزہ کے قارئین کے لیے اس خطاب کو تحریری صورت میں ڈھالا ہے ۔حتی المقدور جناب ذوالفقار علی بھٹو کے لب و لہجے اور الفاظ کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھتے ہوئے فاضل مرتب نے معنوی اعتبار سے پیراگراف بنائے ہیں اور رموزِ اوقاف کو برتا ہے ۔ مزید براں ، اردو زبان میں انگریزی کے مستعمل الفاظ کی اصل املاء کو قوسین میں بھی لکھا ہے نیز حروفِ جار اور دیگر مجوزہ تبدیلیوں کو بھی قوسین میں درج کیا ہے ۔ ان چاروں تقاریر کو لنک نمبر 1، 2، 3، 4 سے سنا جا سکتا ہے ۔
تقریر1(بمقام لاہور )
خواتین و حضرات! اگر میں اپنے بائیں بازو اور دائیں بازو ، میری اگر نظر گزرتی ہے تو میں انگریزی میں تقریر کر سکتا ہوں ۔ لیکن جب میں سامنے دیکھتا ہوں تو میں کہتا ہوں کہ صرف اردو میں ہی آج تقریر کرنی ہے ۔ (تالیوں کی گونج اور نعرے بازی)
لیکن یہ تقریر مختصر رہے گی جیسے کل کی تقریر تھی ۔ اس کے(کی) بھی چند وجوہات ہیں ۔ جیسے میں نے کل اپنی تقریر میں کہا تھا ، یہ آئین پاکستان کی عوام کا آئین ہے ۔ یہ آپ کا آئین ہے ۔ اس آئین کو(اہل) پاکستان کے (کی) کوششوں نے اور صلاحیتوں نے بنایا ہے ۔ یہ آئین بڑی مدت کے بعد بنا ہے ۔ بڑے (بڑی) طویل تلاش کے بعد بنا ہے ۔ اور اس لیے اگر اس کی تعریف ہونی ہے اور خواہ اس کی (کا) گلہ بھی ہونی (ہونا ) ہے ، تو وہ تعریف صرف آپ ہی کر سکتے ہیں ۔ اگر اس آئین میں کوئی کمی بیشی ہے ، اس کی نکتہ چینی بھی صرف پاکستان کے عوام ہی کر سکیں گے ۔ اس لیے میں کوئی چیز نہیں ہوں ۔ میں صرف قومی اسمبلی کا ایک رُکن تھا اور اس رُکن کی حیثیت میں، میں نے اپنی مکمل کوشش کی کہ اس جدوجہد میں جو پاکستان کے عوام کا جدوجہد تھا ، اُس میں ہم کامیاب رہیں ۔ (تالیوں کی گونج )
میں کسی صورت میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہوں کہ میرا آئین ہے ۔ اور اِس قسم کا آئین ، میں اور میری جماعت چاہتے بھی نہیں تھے ۔ ایک ذات کے، ایک فرد کے ، ایک شخص کے آئین کے خلاف پاکستان کے عوام نے جدوجہد کی ہے ۔ اور اس لیے ہماری اُمید ہے کہ یہ ایک مستقل آئین اور مکمل آئین رہے گا کیونکہ یہ کسی فرد کااور شخص کا بنا (بنایا) ہوا آئین نہیں ہے ۔ (تالیوں کی گونج)
یہ ایک قومی اسمبلی جو منتخب ہوئی ہے پاکستان کے عوام کی ، اُن کا آئین بنایا ہوا ہے اور صرف ایک جماعت کا نہیں ، یہ صرف اکثریت (اکثریتی) جماعت کا آئین نہیں ہے ۔ لیکن اکثریت اور اقلیت جماعتوں سب نے مل کر آخرکار اس آئین کی منظوری دی ہے ۔ (تالیوں کی گونج)
پچیس برس کے بعد ، نامنظور نامنظور کر کے ، آخر ہم نے منظوری دی ہے ۔ (تالیوں کی گونج)
اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے ۔ میں آپ سب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں ۔ کیونکہ یہ آپ کی ایک واحد کامیابی ہے ۔ اور اگر ہم ماضی کو دیکھیں اور جیسے میں نے کہا تھا کہ اس لمبے اور طویل راہ (راستہ) کو دیکھیں تو وہ دن بھی ہم یاد کر سکتے ہیں جب پاکستان سے قبل ، پاکستان بننے سے بہت پہلے ، قائداعظم محمد علی جناح سے ایک انگریزی (اخبار کے )صحافی نے پوچھا تھا ، دریافت کی (کیا ) تھا کہ پاکستان میں کس قسم کا آئین بنے گا ۔ جب آپ کا پاکستان بنے گا ، جب آپ کاپاکستان وجود میں آئے گا تو اُس پاکستان میں کس قسم کا آئین بنے گا ۔ قائداعظم نے جواب میں انہیں ، فوراً ان کو جواب دیا اور کہا کہ پاکستان میں آئین بنانے میں کوئی تکلیف نہیں ہو گی ۔ تکلیف ہو گی تو ہندوستان میں ہو گی ۔ اگر آئین کوئی بنا نہ سکیں گے تو پھر کانگرس پارٹی نہیں بنا سکے گی اور یہ سوال آپ مسلمانوں سے نہ پوچھیں ۔ یہ سوال آپ جا کر ہندوؤں سے پوچھیں ۔ کیونکہ جو آئین کے اصول ہیں ، جو مکمل ضابطہ حیات ہے ، وہ ہمارے پاس موجود ہے ۔ اور اُن کے اصولوں پر ہم بڑی آسانی سے آئین بنا سکیں گے ۔ (تالیوں کی گونج)
لیکن تجربے نے اور وقت نے ہمیں کیا بتایا؟ وقت نے ہمیں یہ بتایا کہ وہاں ہندوستان میں دو تین سال کے اندر ، ہندوستان کی عوام نے آئین بنایا۔ہندوستان کا آئین بن گیا ۔ اور یہاں افسوس سے ، ہمیں وہ دن دیکھنے پڑے جب قائد اعظم ہمارے پاکستان میں ، اس ملک میں جس کو انہوں نے بنایا تھا ، ایک سال کے بعد اُن کا انتقال ہو ا۔ اور وہ یہ قیادت نہیں دے سکے آئین بنانے کی ۔ اگر وہ ہمارے ساتھ رہتے تو اُس ( ان ) قیادت میں مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں بھی ایک وفاقی آئین ، جمہوری آئین ، اسلامی آئین بڑی آسانی کے ساتھ بن سکتا تھا ۔ اور اگر ہندوستان میں نہرو کی کوشش نہ ہوتی ، نہرو کے ساتھیوں کی کوشش نہ ہوتی ، تو شاید ان کو بھی ایسے دن دیکھنے پڑ تے ۔ لیکن وہ خوش نصیب تھے اور اُن کی قیادت مضبوط تھی ۔ انہوں نے اپنے مکتبِ فکر کے مطابق جلد میں جلد (جلد از جلد) آئین بنا لیا ۔ آئین کے بعد انتخابات کیے اور ان کا ڈھانچہ بن گیا ۔ ان کا بنیادی اصول کا جو ڈھانچہ ہے انہوں نے بنا لیا ۔ کیونکہ وہاں بھی یہ خودمختاری کے سوال تھے ۔ یہاں بھی جو ہم نے یہ باتیں دیکھیں اور دیکھتے گئے۔ اور یہ باتیں ہماری جو بڑھتی بڑھتی گئیں اور پیچیدہ بنتی گئیں جیسے وقت گزرتا گیا ۔ یہ باتیں ان کے ملک میں بھی تھیں ۔ وہاں بھی تھیں اور یہاں سے زیادہ اُن کے پاس تھیں ۔ نہ تو قائداعظم نہیں کہتے اُس انگریز صحافی سے کہ یہ آئین کا سوال ہم سے نہ پوچھیں ۔ آپ ہندوستان سے اور کانگرس پارٹی سے یہ سوال پوچھیں کہ وہ کس قسم کا آئین بنائیں گے ۔ لیکن انہوں نے آئین اپنا بنا لیا ۔یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم آئین نہیں بنا سکے ۔
قائداعظم کے انتقال / وفات کے بعد پھر لیاقت علی کی شہادت ہوئی ۔ پاکستان بننے کے بعد ، کوئی چار سال کے بعد دستور ساز اسمبلی نے بڑا (بڑی) بحث کیا (کی ) ۔ وہاں بھی بڑی باتیں ہوئیں اور چار سال کی مدت کے بعد objective resolution(قراردادِ مقاصد) کو دستور ساز اسمبلی نے قوم کو پیش کیا ۔ بنیادی قرار داد ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں اوکسفورڈ میں پڑھ رہا تھا اور میرے ایک اوکسفورڈ کے پروفیسر نے مجھے کہا ۔ یہ بڑی افسوس کی بات ہے کہ چار سال کے بعد آپ کی دستور ساز اسمبلی نے صرف ایک قرارداد پاس(منظور) کی ہے ۔ اور اس عرصے میں نہ صرف دستور بن سکتے ہیں لیکن ملک کا تعمیری کام بھی ہو سکتا ہے ۔ اس طریقے سے ہم نے وقت کا تقاضا نہ کیا اور پہلی کوشش ہماری ناکامیاب رہی ۔
جب پہلی دستور ساز اسمبلی کو ایک غیرقانونی فعل سے ختم کیا گیا تھا ، اُس کے بعد جو دوسری دستور ساز اسمبلی آئی اس کو درحقیقت میں یہ اختیارات نہیں تھے کہ وہ ملک کو آئین دے ۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک آئین دیا ۔ وہ آئین بھی دو سال کے بعد، آپ نے دیکھا کہ اس کا کیا حشر ہوا ۔ اُس آئین کے بعد 1962ء کا آئین جو ایوب خان کے وقت میں نافذ کیا گیا تھا ، اُس آئین کے بنانے میں ، کمیٹی میں ، میں بھی ایک رُکن تھا ۔ اُس زمانے کے وزیرِ خارجہ بھی اُس کے ممبر تھے اور اس وقت کے لاء منسٹر (وزیرِ قانون ) مشرقی پاکستان کے صاحب تھے ، اُن کا نام ابراہیم تھا ۔ اور دو تین اور(دیگر) ایسے ساتھی تھے جو اس وقت کی کابینہ کے ممبر تھے اور میں بھی اُسی کمیٹی میں تھا ۔
تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ آئین ہم نے کیسے بیٹھ کے بنایا ۔ صبح کو ملتے تھے نو بجے ، پھر بارہ بجے تک کام کرتے تھے ۔ چائے آتی تھی ، چائے بھی پی لیتے تھے ۔ چائے ، کھانے کے بعد پھر ہم پانچ ساتھی ملتے تھے ، پانچ نہیں تو چھ ۔ پھر شام کو ۔ اس کے دو تین دن کے بعد صدرِ مملکت کے پاس آئین لے جاتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ یہ چیز ، مجھے منظور نہیں ہے ۔ اس چیز کی ترمیم ہو ۔ اِس کو یہاں کاٹو، اُس کو وہاں بڑھاؤ ۔ پھر ہم پانچ ساتھی بیٹھتے تھے ۔ اُس آئین کو ہم نے اِس طریقے سے بنایا ۔
مجھے یاد ہے کہ اُس وقت ابراہیم صاحب نے کہا تھا کہ ہم کتنا بھی اچھا آئین بنا ئیں ، یہ کتنا بھی اچھا آئین ہو ۔اگر پانچ چھ لوگ صرف آئین بنا رہے ہیں تو وہ پھر شاید اچھا دستاویز بنا سکتے ہیں کیونکہ اور کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی ۔دوسرے لوگوں کے خیال بھی ، ان کا دخل نہ ہو گا ۔ تو بیٹھ کر بڑا اچھا دستاویز بن سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا اور میں نے بھی ان کی بات کو تسلیم کیا کہ اگر ہم سب سے اچھا آئین بھی بنائیں ، ایسا آئین جو دنیا نے نہیں دیکھا ہے۔ پھر بھی مشکل ہے کہ یہ آئین چل سکے ۔ کیونکہ پاکستان کا (کے) عوام ، اس ملک کے لوگ نہیں کہیں گے کہ یہ ہمارا آئین ہے ۔ اس میں ہمارا ہاتھ رہا ہے بنانے میں ۔ اس آئین کو ہم نے بنایا ہے ۔ اس آئین پر ہماری مہر ہے ۔ اس آئین پر ہمارا پسینہ ہے ۔ اس آئین میں ہماری کوشش کی نظریں ہیں ۔ تو جب وہ اس صورت میں ، جب وہ ان کی چیز نہیں ہوتی ، ان کی بنائی ہوئی چیز نہیں ہوتی ، ایک غیر (کی) بنائی ہوئی چیز ہوتی ہے ، تو وہ کبھی نہیں اس کو کہیں گے کہ یہ ہماری ہے ۔ اس کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے (خواہ) کتنی بھی وہ اچھی چیز ہو ۔ تو اُس کا جو نتیجہ ہوا، اُس آئین کا ، وہ بھی آپ نے دیکھا ۔
اب اُس جدوجہد کے بعد پاکستان کو اور نقصان برداشت کرنا پڑا ۔ ایسے نقصان برداشت کرنے پڑے تو شاید، میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس دنیا ، اس وقت کی تاریخ میں اور (دوسری ) کسی مملکت نے اتنے نقصانات برداشت کیے ہوں گے جو پاکستان نے کیے ۔ اور اُس کے بعد پھر جو ملک کا حصہ رہ گیا تھا ، جو خطہ رہ گیا تھا ، وہاں ہم نے یہ کام شروع کیا ۔ آئین سازی کا کام شروع کیا ۔
آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ستمبر کے ماہ میں ، اسی عظیم شہر میں، اسی تاریخی شہر میں ، آپ کے اور میرے لاہور میں ، میں نے آپ کو کہا تھا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ، تئیس مارچ کو ہم اس ملک کو آئین دیں گے ۔ اس ملک کی تقدیر میں ایک آئین ہے ۔ ایک جمہوری اور ایک وفاقی آئین اس ملک کی تقدیر میں ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ تئیس مارچ کو ، نہیں تو اکیس اپریل کو یہ قوم فخر سے کہہ سکے گی کہ پچیس برس کی کوشش اور تلاش کے بعد ، بیس برس کی قربانیوں کے بعد ، ہم نے آخر پاکستان کو آئین دیا ہے۔ ایک مکمل ، مستقل آئین ہم نے قوم کو دیا ہے جو پاکستان کی عوام کا آئین ہے ۔ یہ میں نے آپ سے وعدہ ستمبر میں کیا تھا لاہور کے شہر میں ۔
اُس کے بعد جو کچھ ہوا ، کشمکش جو بھی ہوئی قومی اسمبلی میں ، اس پر میں اور کچھ زیادہ نہیں کہنا چاہتا ۔ میں تقریریں کر سکتا ہوں اور میں تقریریں اُس وقت کر سکتا ہوں جب دو باتیں میرے سامنے گزرتی ہیں ۔ ایک ، جب اس چیز کا جواب دینا پڑتا ہے، اگر کوئی الزام لگتے ہیں خاص کر کے جب غلط الزام لگتے ہیں ، اس وقت میں لمبی تقریر کر سکتا ہوں ۔ اس وقت کوئی مدت نہیں ہو سکتی میری تقریر کرنے کی ۔ اور دوسرا وہ وقت ہے جب ہمارا مکتبِ فکر ، ہمارے اصولوں پر ، ہمیں لوگوں کو سمجھانا پڑتا ہے ، تو وہ ہم سمجھا سکتے ہیں ۔ ایک واحد اور وسیع طریقے سے کہ بھائی ، یہ ہمارے خیالات ہیں ، یہ ہمارا نظریہ ہے ، یہ ہمارا مکتب ِ فکر ہے ، یہ ہمارے اصول ہیں ۔ اب میں کون سی تقریر کروں ۔ اب میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بڑا اچھا آئین ہے ۔ میں کیسے خراجِ تحسین پیش کر سکتا ہوں اِس حکومت کو کیونکہ اس حکومت نے آئین نہیں بنایا ۔
مجھے معلوم ہے ، یہ میرا ایمان ہے کہ آئین ہم نے نہیں بنایا ۔ آئین آپ کا بنایا ہوا ہے ۔ اس لیے میں کل تقریر نہیں کر سکتا تھا ۔ آج بھی تقریر میں نے زیادہ کی ہے ۔ یہ میرا مقصد نہیں تھا کہ میں اتنا آپ کا بھی قیمتی وقت لوں کیونکہ کراچی میں بھی اور کوئٹہ میں بھی ، پشاور میں بھی مجھے کچھ کہنا پڑے گا ۔ اور میں اس صورت میں یہ مجھ میں ، کوئی آپ سمجھیے ، کمزوری ہے ، یہ میری اہلیت نہیں ہے ۔ میں اس صورت میں تقریریں نہیں کر سکتا ہوں کہ میں نے زندگی میں کبھی ایسے نہیں کہا کہ جی ، ہمیں داد دیں ۔ ہمیں آپ کہیں ، واہ واہ کہ ہم نے کچھ چیز کی ہے ۔ کیونکہ ہم یہ چیز نہیں چاہتے ہیں ۔ ہم نہ داد چاہتے ہیں ، نہ ہم واہ واہ چاہتے ہیں ۔ ہم ہیں خدمت گار ، ہم کرتے ہیں خدمت ۔ (تالیوں کی گونج اور نعرے بازی) ۔ ہم ملک کی خاطر ہر ممکن قربانی دینے والے ہیں ۔ ہم میں قربانی کا مادہ ہے ۔ ہم ملک کے بحران کا مقابلہ کر سکتےہیں۔ ہم ملک کے دشمنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ ہم ، جو حملے ہوں گے پاکستان پر خدا نخواستہ ، ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ وہاں ہم بات بھی کر سکتے ہیں ، عملی کام بھی کر سکتے ہیں ، ہر خدمت ہم سے ہو سکتی ہے ۔ لیکن جب آپ اس مقام پر پہنچے ہیں ، دستور کی اس آخری منزل پر پہنچے ہیں ، ایک جدوجہد میں آپ نے (کو) اتنی ممتاز کامیابی ہوئی ہے ، اس کے بعد میں کوئی زیادہ تقریر نہیں کر سکتا ۔اس لیے میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا ۔
السلام
علیکم
تقریر2(بمقام گورنر ہاؤس کراچی)
گورنر، معزز خواتین و حضرات ! کمال اختر صاحب نے اپنی مختصر تقریر میں کہا کہ وہ میرا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ میں نے اس قوم کو آئین دیا ہے ۔ یہ بالکل غلط بات ہے ۔ میں نے آئین نہیں دیا ہے (تالیوں کی گونج ) ۔
نہ میں نے اس قوم کو آئین دیا ہے ، نہ میری کبھی سے یہ کوشش تھی کہ میں پاکستان کو آئین دوں ۔
جناب عالیٰ ! میں نے تو اپنی مختصر جدوجہد میں یہی کوشش کی تھی کہ کسی شخص کو ، کسی ایک فرد کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ساری قوم پر اپنا آئین سونپے (تھوپے)(تالیوں کی گونج ) ۔
اس انتخابات کے بعد یہ آپ کی اسمبلی (assembly) تھی ۔ اس اسمبلی کو آپ نے منتخب کیا ہے اور یہ آپ کے نمائندے تھے ۔ اس لیے اس اسمبلی میں اور اس ذریعے سے جو جمہوریت کا ذریعہ (راستہ ) ہے اس میں ، میں تو صرف اسمبلی کا ایک رُکن تھا جیسے دوسرے اسمبلی کے رُکن تھے ۔ اور اُس حیثیت میں جیسے دوسروں نے اپنے فرائض انجام کیے ، ایسے میں نے بھی اپنی تھوڑی بہت کوشش کی کہ اس ملک کو آئین ملے ، جو اِس قوم کا آئین ہو ،جو اس عوام کا آئین ہو ۔ اور جمہوری آئین ہو ، اسلامی آئین ہو ، وفاقی آئین ہو ۔
ان اصولوں پر ہماری کوشش جاری رہی اور اِن اصولوں کے نقطہ نگاہ پر بیس اکتوبر کو آپ نے دیکھا تھا کہ ایک معاہدہ کیا گیا تھا ساری سیاسی جماعتوں کےساتھ ، اسمبلی میں جن کی نمائندگی ہے ۔ چار دن مکمل ، متواتر ان کے ساتھ گفتگو کی ، مذاکرات ہوئے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ نے وہ بیس اکتوبر کا معاہدہ دیکھا ۔ اس معاہدے کے بعد ہمارے چند دوست ، ساتھی ان کو شاید۔۔ اور نئے خیالات ان کے ذہن میں آئے ۔ میں وجوہات میں نہیں جانا چاہتا ہوں ۔ لیکن پھر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ۔ کیسے خلاف ورزی ہوئی ، کیوں ہوئی ۔ اب وہ گزری ہوئی بات ہے ۔ او رکوئی ضرورت نہیں کہ ہم اس چیز کو دہرائیں ۔ (تالیوں کی گونج )
لیکن ہمارا ردِ عمل کیا رہا ۔ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اب بس ، اس کے بعد ہم بات کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔شاید اس کے بعد ہمارے دروازے بند ہیں اور اب ہم حزبِ اختلاف کی جماعت کے ساتھ اور (مزید) بات نہیں کرنا چاہتے ہیں کیونکہ معاہدے سے جو اعتماد تھا ، وہ کھو بیٹھے تھے وہ (لوگ) ۔ لیکن ہم نے یہ رویہ اختیار نہیں کیا ۔ ہم نے ان کو کہا ، بلاشک آپ پھر ہم سے بات کر سکتے ہیں ۔ اور اس لیے اُن سے پھر ہماری گفتگو ہوئی۔ لاہور میں ، جیسے میں نے اپنی تقریر میں کہا تھا چھبیس تاریخ کو اس ماہ کی ، ٹیلی ویژن پر ، کہ صرف ایک معاہدہ نہیں ہوا تھا بیس اکتوبر کا ۔ اس معاہدے کو تو آپ سب نے دیکھا تھا کیونکہ وہ پبلک کی ملکیت بن گئی تھی ۔ وہ تو پبلک کی ملکیت تھی لیکن اس ملکیت سے پہلے بھی چار دن کی جو گفتگو ہوئی اس وقت تو آپ کی نظر میں وہ (گفتگو) نہیں تھی کہ کیا ہو رہا ہے ۔ بعد میں جب معاہدہ ہوا تو اس معاہدے کو آپ نے دیکھا اور اُس معاہدے کا آپ نے جائزہ لیا ۔ لیکن جب دوسری ہماری بات چیت ہوئی تھی ۔ لاہور میں جو مذاکرات ہمارے دوسرے ہوئے تھے ایک جماعت کے ساتھ ۔ وہاں تو پھر معاہدے ہوئے تھے ۔ وہ اتنے فارمل (Formal) معاہدے نہیں تھے ، اِن فارمل (Informal) معاہدے تھے لیکن جو اصولی معاہدے ہوتے ہیں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ ہم اس کو لکھت میں دیں ۔ ایک دفعہ زبان دے چکے ہیں ، ایک دفعہ کہہ چکے ہیں کہ ہم اس چیز کو قبول کرتے ہیں تو اس چیز پر چلیں گے ۔ اس چیز کو منظور کرتے ہیں تو پھر اس پر ہی چلنا چاہیے ۔ لیکن جیسے میں نے کہا کہ بعد میں دوسرے ہمارے معاہدے ہوئے ۔ اس کے بعد بھی پھر ہمارے ساتھی ، ہمارے مہربان دوست کو اور(مزید) کوئی خیال ہوئے (سوجھے ) ۔ اس سے بھی انہوں نے کہا ۔ مان لیا کہ جی ہاں ہوئے تھے لاہور میں لیکن بس ، ایسی کوئی وجوہات ہیں کہ ہم اب آگے نہیں بڑھ سکتے ان کےساتھ۔ وہ بات بھی ہم نے وہاں ختم نہیں کی ۔ اور یہ بھی ہم نے آپ کو نہ بتایا کہ جناب، یہ پھر دوسرا معاہدہ ہوا ہے ۔ ہضم کر لی(لیا) اس بات کو کہ ضرورت نہیں تھی۔ اگر معاہدہ ہوتا ، ہم آگے بڑھتے تو میں کہہ سکتا تھا کہ بس ، آپ کو مبارک ہو کہ پہلا معاہدہ کامیاب نہ رہا تو کم از کم دوسرا رہا ۔ لیکن جب و ہ اپنی پیدائش میں ہی ، اسی وقت خطرے میں آ گیا اور جان اُس میں نہ آ سکی تو پھر کون سی ضرورت تھی کہ ہم اُس بات کو دہرائیں ۔ بعد میں پھر باتیں کیں انہوں نے ، پھر ہم سے ملاقات کی ۔ میں نے ان کو پھر دعوت دی دوسری اپریل کو ، پھر چوتھی اپریل کو۔ اور آخر بعد میں جب ترمیمیں ہوئیں ، یہ سات ترامیم ہیں ۔
یہاں پہ چیف جسٹس بیٹھے ہیں ۔ سات ترامیم سے ، اس پہ میں آج بات نہیں کرتا ہو ں ۔
چیف جسٹس صاحب، چارہی ہیں جی ! تین تو اُس کے ردِ عمل کی ہیں ، سات میں سے تین ترمیمیں ۔ دوسری تو کیونکہ وزیراعظم کو کچھ کرنا ہے بجٹ کے وقت میں ، اس لیے جو اعلیٰ وزیر (وزیر اعلیٰ ) ہیں صوبوں کے ان کو بھی کرنا ہے ۔ صرف اتنی بات رہ گئی تھی ۔ سات ترمیم کی بات رہ گئی تھی اور وہ بھی معمولی ترمیم ۔ جیسے میں نے کہا دوسرے چار تو consequential تھیں ۔ اُس کا ردعمل تھا کیونکہ مرکز میں وہ ہونا تھا اس لیے صوبوں میں وہی ہونا تھا ۔ mutatis mutandis۔ تو پھر جھگڑا کس بات پر تھا ؟
اُسی دن جب صرف سات ترمیمیں (ترامیم) ہوئیں تو جیسے میں نے کہا کہ آپ اُن کو دیکھ لیں کہ اُس میں کوئی فرق نہ پڑا وفاقی اصولوں پر ، کوئی فرق نہ پڑا اسلامی اصولوں پر ، کوئی فرق نہ پڑا جمہوری اصولوں پر ۔ لیکن آخری کوشش سے ایک گھنٹہ قبل ، آپ نے شاید دیکھا ہو گا کہ ایک پریس ریلیز تھی لمبی چوڑی جو جواب تھا میرے eight memo کا کہ یہ آئین نہ اسلامی ہے ، یہ آئین نہ جمہوری ہے ، یہ آئین نہ وفاقی ہے ۔اب یہ اُن کا آخر ۔۔۔ایک گھنٹہ پہلے ۔ میرے دوستوں نے دیا ہمیں اور پبلک کو کوئی جواب میرے eight memo کا ۔ تین پینتیس صفحے کا جواب اور کہا کہ ہم کیسے مان سکتے ہیں اس آئین کو ۔ نہ جمہوری آئین ہے ، نہ یہ وفاقی ہے ، نہ یہ اسلامی ہے ۔ اور بعد میں نعروں سے ختم کیا انہوں نے ، جو اپنا یہ جواب تھا ۔ تو پھر ایک گھنٹہ کے بعد ساری ترمیم پر آئین جمہوری بھی بن گیا ، وفاقی بھی بن گیا ، اسلامی بھی بن گیا ۔ (تالیوں کا شور)
ٹھیک ہے ، بڑی خوشی کی بات ہے ۔ ہمارے مدنظر کیا تھا ؟ ہمارے مدنظر تھا کہ یہ ایک دستور بن رہا ہے ۔ یہ ساری قوم کا دستور ہے ، پاکستان کا دستور ہے اور ہمارا جو تجربہ رہا ہے دستور بنانے میں ، وہ نہایت ہی افسوسناک رہا ہے ۔ جتنے (جتنی) ہمیں مشکلاتیں (مشکلات) دیکھنی پڑی ہیں دستور بنانے میں اور جتنا نقصان ہمیں دیکھنا پڑا ہے دستور بنانے میں ۔ اور (دوسری) کسی قوم نے اتنا نقصان نہیں دیکھا ۔ پاکستان بننے سے قبل قائداعظم نے تو کہا تھا کہ ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی دستور بنانے میں کیونکہ ہمارے دستور کے اصول موجود ہیں اُسی ضابطہ میں جو مکمل حیات ہے ۔ اور اُسی (انھی ) اصولوں پر ہم آسانی سے دستور بنائیں گے پاکستان کا ۔ جہاں بھی میں جا رہا ہوں ، پبلک کی آنکھوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کتنی خوشی ہے۔(تالیوں کی گونج )
اس لیے خوشی ہے کیونکہ اکثریتی پارٹی نے آئین نہیں بنایا ہے ۔ اکثریتی پارٹی کو تو حق تھا کہ آئین بنائے ۔ اخلاقی حق تھا ، سیاسی حق تھا کہ ہم آئین بنائیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے کہا ، نہیں ۔ کیونکہ ہم یہ آئین ایک حکومت کے لیے، ایک شخص کے لیے ، ایک وقت کے لیے نہیں بنا رہے ۔ کیونکہ ہم نے ان آئین کا حشر دیکھا ہے جنھوں نے اسی نقطہ نگاہ سے آئین بنائے تھے ۔ کیونکہ یہاں جتنی آئین سازی ہوئی ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں اتنی نہیں ہوئی ۔ جتنے مناظرے یہاں ہوئے ہیں ، جتنی debates پاکستان میں ہوئی ہیں آئین سازی پر ، آپ نے دنیا میں کسی ملک میں نہیں دیکھی ہوں گی ۔
جناب! ہمارے ملک میں بڑی آسان چیز نہیں ہے کہ آئین بنا ہے ، ایک اسمبلی آئین بنا ہے ۔ جب پانچ لوگ ایوب خان کےآئین کو بیٹھ کے بنا رہے تھے ، وہاں اتنی اُ ن کو تکلیف ہوئی ، اختلاف کتنے ہوئے وہاں ۔ پانچ لوگ وہاں بیٹھے تھے ۔ پانچ ، خاص اُن کے چُنے ہوئے لوگ بیٹھے تھے ۔ وہ کہتا تھا ، یہاں خود مختاری بہت کم ہے ۔ کوئی کہتا تھا ، خود مختاری بہت زیادہ ہے ۔ کوئی کہتا تھا ، یونٹ کے بغیر ہم چل نہیں سکتے ہیں ۔ کوئی کہتا تھا، یونٹ اگر رہا تو ہماری تباہی ہے ۔پانچ لوگ بھی بیٹھ کے آئین نہیں بنا سکے وہاں ۔ بعد میں ایوب خان نے اپنے اختیارات استعمال کیے اور کہا۔ نہیں ، یہ میری بات ہے ، میری بات ماننی پڑے گی ، یہ میری آخری بات ہے ۔ ایک کمیٹی بنی تھی جسٹس شہاب الدین کی ۔ طفیل صاحب اُس کے ممبر تھے ۔ اُن کو معلوم ہے کہ کیا ہوا جو اُس کمیٹی کی سفارش تھی ۔ اگر کمیٹی سے بھی مشکل ہے آئین بنانا ۔ یہ اس قسم کا رویہ رہتا ہے کہ پچیس برس جو چیز ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہو سکتی ہے ، اس کو ہم بالکل نکال دیتے ہیں ۔ پچیس برس بعد کہتے ہیں ، اس کے بغیر ہمارا کام نہیں چلے گا ۔اور ہمیں کوئی اصول وغیرہ منظور نہیں ہے ۔ وہی ہو گا جو ہم چاہتے ہیں ۔
تو یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ ساری اسمبلی نے بیٹھ کے آئین بنایا ہے ۔ اور آپ کو یاد ہو گا کہ شروع میں کہا گیا تھا کہ جی ، پاکستان میں بھی تین محکموں سے زیادہ ہم نہیں دیں گے مرکز کو اختیارات ۔آخر میں ، جیسے کوئی بڑی مہربانی کر رہے تھے مرکز پر ، کہا ۔ اچھا ٹھیک ہے ، ایک اور محکمہ دے سکتے ہیں ۔ یہ باتیں اسی سال میں اسی وقت میں ہوئیں کہ مرکز میں صرف چار محکمے ہوں ۔ پھر ان چیزوں کو بنا کے ، بٹھا کے اور کہہ کے کہ بھئی، کیا ۔۔۔کہنا تو بڑا آسان ہے اپنی تقریر میں کہ آئین کو اسلامی ہونا چاہیے ۔ جب بیٹھ کے بناؤ گے تو اس میں بھی اختلاف ہوتا ہے ۔ اتفاق رائے اس میں بھی نہیں ہو سکتی ہے کہ بیٹھ کے بتاؤ ۔ آپ بتائیں کہ کون سے ، کس صورت میں اُس آئین میں آپ کہتے ہیں کہ اسلامی ، جو provisions (صوبے) چاہتے ہیں ، شق چاہتے ہو وہ کون سی ہونی چاہیے ۔ اُس میں بھی پانچ چھ سات ماہرین کا بھی نہیں اتفاق ہو سکتا ۔
جب یہ حلف کا سوال تھا کہ وزیراعظم اور صدرمملکت کو حلف اٹھانا پڑے گا کہ میں مسلمان ہوں ۔ اُس میں اتفاق نہیں کر سکے کہ کیسے وہ حلف ہونا چاہیے ۔ (تالیوں کی گونج )
تو اب اس صورت میں اس سب کو ماننا جو حزب اختلاف کا ہے ۔ اب وہ بھی کہتے ہیں کہ اسلامی ہے ، وفاقی ہے ، جمہوری ہے ۔ اب اس پر ، یہ بات ختم ہو چکی ہے ۔ اب اس پر آخری مہر عوام کی لگی ہے ۔ اب اس بات کو کوئی نہیں اٹھا سکتا ، کوئی نہیں چھیڑ سکتا ہے کیونکہ جیسے میں نے کہا ۔ یہ میرا مکتب ِ فکر نہیں ہے ، یہ عوام کا مکتبِ فکر ہے ۔ یہ میرے اصول نہیں ہیں ، یہ عوام کے اصول ہیں ۔ (تالیوں کی گونج)
یہ نہ صرف سندھ کے شہری کے اصول ہیں لیکن یہ اصول سرحد کے بھی ہیں ، پنجاب کے بھی ہیں ، بلوچستان کے بھی ہیں اور سارے ہمارے لوگ جو رہتے ہیں ، مہاجر ، سندھی ، پنجابی ، سب کےہیں ۔ یہ دستور جو ہے آپ سب کی ملکیت ہے ۔ اس لیے کسی کی جائداد نہیں ہے ۔ تو اب یہ ایک منزل ختم ہو چکی ۔ ایک بات اب ختم ہوجانی چاہیے ۔ کتنے بڑے نقصان کے بعد ، طویل راستے کے بعد اس منزل پر ہم پہنچے ہیں ۔ اور اب تو کام شروع ہو رہا ہے ۔ یہ مبارک باد دینے کی آپ کو ضرورت نہیں ہے کہ کام تو اب شروع ہو رہا ہے ۔ دس اپریل تک وہ کس حد تک صحیح تھے کیونکہ اس ملک میں ایک دستور نہیں تھا ، ایک جمہوری دستور نہیں تھا جو آخری فیصلہ کر سکتا تھا اِس بات پر اور کہہ سکتا تھا کہ اس ملک میں چار صوبے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ کیونکہ کھلی ہوئی بات تھی تو کچھ بھی لوگ کہتے تھے۔ جن کو وہ تقریر کرتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ شاید اس میں کوئی صداقت ہو ۔ اب وہ کتنی بھی تقریریں کریں ، صداقت اس میں نہ ہو گی ۔ کیونکہ آئین نے آخری فیصلہ کیا ہے کہ کیا صورت حال ہو گی ۔ اور کراچی کے شہر سے تو ہم نے بہت بڑی زیادتی کی ہے ۔ (ریکارڈنگ ختم ہو گئی)
تقریر3(بمقام کوئٹہ)
جناب گورنر صاحب، معزز خواتین و حضرات !
یہ آئین کی جو جدوجہد رہی ہے ، پاکستان میں صرف نہیں بلکہ برصغیر کی تاریخ میں طویل عرصے سے چل رہی ہے ۔ انگریزوں کی حکومت سے پہلے دستور، بادشاہیت میں اتنے اہم درجے نہیں رکھتے تھے ۔ لیکن بعد میں جب سامراجوں نے برصغیر پر حملہ کیا اور فتح کیا ، اس کے بعد انہوں نے چند اصلاحات دیے ۔ پہلا اصلاح جو خاص تھا اُن کا ، وہ 1909ء میں ، اس کے بعد 1919ء میں ، اور بعد میں 1928ء میں سر جان سائمن کمیشن یہاں آئی اور ان کی کوئی تجویز تھی آئین پر ۔ اس تجویز پر کافی جدوجہد ہوئی اور دونوں طرف کانگرس سے اور قائد اعظم کی جماعت سے بھی اس پر نکتہ چینی ہوئی ، خا ص کر کے provincial autonomy(صوبائی خود مختاری) پر ۔ وہ صوبائی خودمختاری کا جو سلسلہ تھا ، اہم سلسلہ تھا۔ اور اس کے بعد جب گول میز کانفرنس ہوئی لندن میں ، اس گول میز کانفرنس میں بھی جب آئین سازی پر گفتگو ہوئی اور مذاکرات ہوئے ۔ وہاں بھی خاص جو بات تھی وہ صوبائی خودمختاری کی بات تھی کہ کس حد تک provincial autonomy ہونی چاہیےہندوستان میں ۔ اُس کے بعد 1935ء کی جو ایکٹ آئی ، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ، اُس میں بھی جو خاص بات تھی جس پر مصلحت کی ضرورت تھی وہ خودمختاری تھی ۔ اُس کے بعد آزادی آئی ۔ اور آزادی سے بہت قبل ایک انگریز صحافی تھا ، انہوں نے قائداعظم سے دریافت کی (کیا) ۔ آپ مجھے بتائیں کہ پاکستان میں کس قسم کا آئین نافذ کیا جائے گا ۔ قائداعظم نے انہیں کہا جواب میں کہ پاکستان میں کوئی تکلیف نہیں ہو گی آئین بنانے میں ۔ کیونکہ ہمارے آئین کے اصول جو ہیں وہ تیرہ سو سال پہلے ایک مکمل ضابطہ حیات میں موجود ہیں (تالیوں کی گونج) ۔ اس میں میری قوم کو پاکستان میں کوئی تکلیف نہیں ہو گی ۔ اُن اصولوں کے (کی ) بنیاد پر ہم بڑی آسانی سے آئین بنا سکیں گے ۔ اور انہوں نے اُس صحافی سے کہا کہ یہ جو سوال ہے جو آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں ، یہ سوال آپ کانگرس کی جماعت سے پوچھیے ۔ یہ سوال اُن سے پوچھیں ، نہرو صاحب سے ، گاندھی صاحب سے ، دوسروں سے ۔ ہم سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
لیکن جب آزادی حاصل کی ہم نے تو ایک سال کے اندر قائداعظم کی قیادت ، ہم کھو بیٹھے ۔ ان کا انتقال ہوا ۔ اور وہاں اُس طرف یہی مسئلے تھے ہندوستان میں بھی ، خودمختاری کے وغیرہ وغیرہ ۔ نہرو کی قیادت میں انہوں نے اپنا آئین بنا لیا ۔ اس وقت وہاں بھی لوک سبھا میں نہرو پر بڑے الزام لگاتے تھے کہ جی ، یہ آمرانہ آئین دے رہا ہے ۔ ایک فرد ، آئین دے رہا ہے ۔ اور یہ نہیں آئین دے سکتا ۔ لیکن جو نہرو کا مقام تھا ، وہ کوئی ایک آمر کا مقام نہیں تھا کیونکہ وہ ، ایک ، انتخابات کے ذریعے اکثریت (اکثریتی ) جماعت تھی اور اکثریت جماعت نے کوشش کی کہ وہ آئین دے ۔ اور اس لیے انہوں نے اپنا آئین بنا لیا ۔
یہاں افسوس ہے کہ ہم آئین نہیں بنا سکے اور وقت گزرتا گیا۔ جیسے وقت گزرتا گیا تو یہ مسئلے جو ہیں جن پر ہم کوئی فیصلہ نہ کر سکے ، یہ اور زیادہ نازک اور پیچیدہ بنتے گئے ۔ کیونکہ ہم نے ان پر کوئی آخری فیصلہ نہ کیا تو مناظرے ان پر بڑھتے گئے ۔ نفرت، غلط فہمی اور زیادہ بڑھتی بڑھتی گئی خود مختاری پر اوردوسرے مسئلوں پر ۔ کس قسم کا ڈھانچہ ہونا چاہیے ؟ اور parity(مساوی نمائندگی ) کے سوال اٹھے ۔ یونٹ کے سوال اٹھے، یونٹ ہونا چاہیے کہ نہیں ہونا چاہیے ۔ ایک رائے تھی کہ یونٹ کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا ۔ دوسری رائے تھی کہ اگر یونٹ بنا تو پاکستان کی تباہی ہے ۔ ایک طرف سے لوگ کہتے تھے کہparityکے بغیر ہمارا اقتصادی ، سیاسی اور آئینی ڈھانچہ نہیں بن سکے گا ۔ دوسری طرف سے لوگ کہتے تھے کہ نہیں ، parity کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیوں؟ کیونکہ اکثریت جو ہے اس فارمولا پر کیونکہ پاکستان ایک ملک ہے تو پھر ہر ایک بالغ انسان کا حق ہے کہ وہ ووٹ دے سکتا ہے اور اسی آبادی کے طریقے پر ووٹ دیا جائے ۔ بہت سے ایسے مسئلے کھڑے ہو گئے جو نہیں بھی تھے ۔ نئے نئے مسئلے کھڑے ہو گئے ۔
اس لیے پہلی دستور ساز اسمبلی ناکامیاب رہی ۔ وہ آئین نہیں بنا سکی ۔ سات سال تک انہوں نے کوشش کی ۔ یہ نہیں کہ ایسی کوئی معمولی کوشش تھی ۔ سات سال تک انہوں نے بڑی کوشش کی ۔ اور جب آئین تقریباً بن رہا تھا ، تو اس دستورساز اسمبلی کو ایک غیرقانونی طریقے سے ، ایک غیرقانونی فعل سے اُس کو توڑا گیا ۔ اُس کے بعد دوسری اسمبلی بنی ۔ دوسری اسمبلی جو تھی درحقیقت میں اس کو اختیارات نہیں تھے کہ وہ قوم کو آئین دے ۔ وہ اختیارات پہلی اسمبلی کو تھے ، جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی تھی ۔ خیر، بالفرض وہ دوسری اسمبلی بھی بن گئی ۔ 1962ء کا آئین انہوں نے دیا ۔ وہ آئین صرف دو برس چلا ۔ دو سال کے بعد وہ آئین بھی ٹوٹ گیا ۔ اب اس کے علاوہ جو خودمختاری کا مسئلہ تھا ، جو خاص مسئلہ تھا ، دو (دونوں ) آئین کے بعد بھی اس پر کوئی آخری فیصلہ نہ ہو سکا ۔
اس کے علاوہ ایک نئی بات کھڑی ہو گئی ۔ وہ نئی بات یہ تھی کہ کون سا نظام پاکستان میں چلے گا ۔ کیا صدارتی نظام پاکستان میں چلے گا ؟ یا ، پارلیمانی نظام پاکستان میں چلے گا ؟ اور ایسے ہمارے دوست تھے ، ایسی جماعتیں تھیں، انھوں(جنھوں ) نے کہا کہ جی ، ہم نے تو پارلیمانی نظام کو آزمایا ہے ۔ پارلیمانی نظام ہمارے ملک میں ، ہمارے ماحول میں نہیں چل سکے گا ۔ کیونکہ دیکھ لیجیے کہ کیا ہوا ہے پارلیمانی نظام میں ۔ صوبوں میں کیا ہو رہا ہے ۔ آج ایک حکومت ، ایک وزارت ۔ کل دوسری حکومت کا بھی ممبر ۔ کبھی ایک طرف بیٹھے ہیں اور کبھی ممبر صاحبان دوسری طرف چلے جاتے ہیں ۔ اور اس لیے یہ نظام، یہ سلسلہ ہمارے لیے ، ہمارے ملک میں نہیں چل سکے گا ۔ اِس سےملک میں ترقی نہ ہو گی اور استحکام ہم پاکستان میں پیدا نہیں کر سکیں گے ۔ تو اس وقت یہ ایک نئی بات کھڑی ہو گئی ۔ چند لوگوں کا خیال تھا کہ پارلیمانی نظام نہیں چل سکے گا ۔ تو ایسے بھی لوگ تھے جنھوں نے کہا کہ ہمیں صدارتی نظام چاہیے ۔ صدارتی نظام ہمارے رسم کے اور (زیادہ) قریب ہے ۔ تو پھر 62ء میں وہ آئین آیا جس میں صدارتی نظام کا آئین تھا یعنی پارلیمانی نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ صدارتی نظام ۔ اور پھر صدارتی نظام چلا دس سال تک ، آٹھ نو سال ، جو بھی ہے ۔ پھر صدارتی نظام ختم ہو گیا ۔
جب حکومت ہمارے ہاتھوں میں آئی ، اس وقت ہر مسئلہ جو تھا اس مسئلے پر ، کسی پر کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تھا ۔ ہر مسئلہ کھلا ہوا مسئلہ تھا اور نیا مسئلہ نہیں تھا ۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ اگر فوراً ان پر کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو جاتاتو پھر یہ اتنی اونچی منزل پر نہیں جا کر پہنچتے۔ غلط فہمیاں اور اختلاف جو تھے ، وہ بڑھتے گئے ۔
یہ صوبائی خودمختاری کا سوال، یہ بالکل کھلا ہوا سوال تھا ۔ آپ کو تو یاد ہو گا ، میں آپ کو یاد دلانے تو یہاں نہیں آیا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے حادثے کے بعد جب یہ حکومت ہمارے ہاتھوں میں آئی تھی ۔ یہاں ہمارے دوست اور ساتھی کہتے تھے کہ صرف تین محکمے ہونے چاہییں مرکز میں ۔ مرکز کو اختیارات صرف تین محکموں پر ہونی چاہیے کہ اُس سے زیادہ کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آخر ، جیسے کوئی بڑی مہربانی کر رہے تھے مرکز پر ، تو انہوں نے کہا کہ اچھا، ٹھیک ہے ہم سوچ لیں گے کہ اگر چوتھا بھی محکمہ مرکز کو دے سکیں یا نہیں ۔ تو یہ بات جو تھی خودمختاری کی جس میں اتنی بڑی جدوجہد ہوئی تھی ہندوستان میں کیونکہ مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں ، انہوں نے کہا کہ ہماری حفاظت جو ایک متحدہ ہندوستان میں ہے خودمختاری اتنی ہونی چاہیے ۔ اس کی حد یہ ہونی چاہیے ۔ ہندوستان کی حکومت، ہندوستان کی کانگرس پارٹی نے کہا کہ یہ ہمیں قبول نہیں ہے۔ چونکہ ان کو قبول نہیں تھا تو قائداعظم کی جدوجہد ہوئی ایک آزاد مملکت کے لیے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں آپ اتنی خودمختاری نہیں دے سکتے ہیں ، نہیں دینا چاہتے ہیں جو ہم ایک ملک میں رہیں کہ ہم اپنی حفاظت کریں ، اپنی رسم کی ، رواج کی ، اپنے دین اور مذہب کی ، تو پھر ہمیں علیحدہ ہونا پڑے گا ۔ بعد میں وہی مسئلہ پھر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں ہوا ۔ چھ نکات کا پروگرام جو ہوا ، وہ ایک خودمختاری کا پروگرام نہ تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ ایک خودمختاری ہے ۔ وہ نہیں تھا ایک خودمختاری کا پروگرام ۔ وہ ایک آزاد مملکت کا پروگرام تھا ۔کیونکہ اس پر فیصلہ نہ ہو سکا تو وہاں بھی آپ نے دیکھا کہ کیا نتیجہ ہوا ۔
بعد میں یہ نتیجہ یہاں ختم نہ ہوا کیونکہ یہاں بھی ہمارے ساتھی کہہ رہے تھے کہ نہیں ، یہ خودمختاری پر فیصلہ نہیں ہوا ہے او ر تین یا زیادہ سے زیادہ چار محکمے مرکز کو دیے جائیں گے ۔ چار محکموں میں یہ مرکز نہیں چل سکتا (خواہ) کسی کی بھی حکومت ہو ، میری ہو یا کسی اور کی بھی ہو ۔ کیونکہ یہ حکومت ، پیپلز پارٹی کی حکومت ، جمہوریت میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہے گی ۔ کس (کسی ) کی بھی حکومت ہو ، چار محکموں سے آج کل کے زمانے میں ، آج کل کی دنیا میں کوئی حکومت نہیں چل سکے گی ۔
ہندوستان کے مرکز کے اختیارات آپ دیکھ لیں ۔ ہر بات میں ہندوستان کی بات کی جاتی ہے ۔ ہندوستان میں ایسے ہے ، ہندوستان میں ویسے ہے ۔ تو پھر آپ دیکھ لیں کہ ہندوستان میں مرکز کے کیا اختیارات ہیں اور صوبوں کے کیا اختیارات ہیں ۔ موجودہ آئین میں ، ہمارے پاکستان کے موجودہ آئین میں ، اس میں صوبوں کو خودمختاری ، ہندوستان کے صوبوں سے زیادہ خودمختاری دی گئی ہے ۔ زیادہ دی ہے لیکن اتنی نہیں دی ہے جو مرکز بالکل (؟ لفظ سنا نہیں جا سکا) بن جائے ، اور مرکز محتاج بن جائے صوبوں کا ۔
اس لیے اب یہ فیصلہ ، یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا کیونکہ صرف اکثریت جماعت نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ ہمیں حق تھا ، اکثریت جماعت کو حق تھا لیکن ہم نے کہا کہ نہیں ۔ اس میں جتنی بھی ہمارے دوستوں کی ، ساتھیوں کی ، اسمبلی کے رکن ہیں ، اُن کے تعاون کے ساتھ اگر ہو تو بہتر ہے ۔ اب یہ ایک آخری فیصلہ ہو چکا ہے ۔ کیونکہ یہ ایک جماعت کا فیصلہ نہیں ہے ، حکومت کا فیصلہ ہے ، آپ سب کا فیصلہ ہے ۔ یہ ساری قوم کا فیصلہ ہے۔ اس پر یہ بات پھر ہم نہیں چھیڑ سکتے ۔ یہ بات اب پچیس برس کے بعد، اتنے نقصان کے بعد ، یہ بات ، یہ ذکر ، یہ سلسلہ اب ختم ہو چکا ہے ۔ اس لیے میں خاص آیا ہوں یہاں ، آپ کو مبارک باد دینے ۔ یہ بڑی آپ کی کوشش ، آپ کا کارنام ہے ۔ یہ آپ کی جیت ہے ۔ (تالیوں کی گونج اور نعرے بازی)
یہ نہیں کہ ہم نے صرف اسمبلی میں بیٹھ کر فیصلے کیے ۔ ہمارے ساتھی اسمبلی سے بائیکاٹ کر کے چلے گئے تھے تو پھر کیوں آئے اسمبلی میں ۔ اسمبلی میں اس لیے نہیں آئے کہ میں نے کہا کہ اسمبلی میں آؤ ۔ میں تو ان کو روز کہتا تھا اسمبلی میں آؤ ۔ میں تو ان کو روز دعوت دیتا تھا کہ چلو، اسمبلی میں آؤ، بیٹھو ۔ آپ کو ووٹ دیا ہے کہ آپ اسمبلی میں جا کے آئین بنائیں ۔ آپ کو اس لیے ووٹ نہیں دیا ہے کہ آپ بائیکاٹ کریں ۔ ان کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ، ہمارے مہربان دوستوں کے ساتھ ، ہم نے مذاکرات کیے ۔ بیس اکتوبر کا معاہدہ ہوا ۔ بیس اکتوبر کے معاہدے کے بعد ، پھر ان کے ساتھ لاہور میں باتیں ہوئیں ۔ وہاں بھی چند اہم فیصلے ہوئے ۔ اس کے بعد دو اپریل کو ، پھر چار اپریل کو ان کے ساتھ باتیں ہوئیں ۔ چار اپریل کو جو باتیں ہوئیں ۔ میں نے جو ان کے مطالبے تھے ، گیارہ مطالبے ۔ ان میں سے میں نے ان کو جواب دیا ۔ eight memos کی حیثیت میں ، میں نے ان کو جواب دیے جو ان کے گیار ہ پوائنٹس (نکات) تھے ۔ ان گیارہ پوائنٹس میں سے کافی ہم نے قبول کیے ۔ اور کہا ، ٹھیک ہے ۔ ہم اس پر بھی اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، مصلحت کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن جو میں نے جواب دیا تھا اس کا انہوں نے بہت لمبا چوڑا جواب تیار کیا تھا ۔ تیس صفحوں کا جواب تیار کیا تھا ۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ اس آئین کی ہم تائید نہیں کر سکتے کیونکہ یہ آئین ، نہ جمہوری آئین ہے ، نہ وفاقی آئین ہے ، نہ اسلامی آئین ہے ۔ یہ دس تاریخ کی صبح کو چند اخباروں میں بھی آیا اور انہوں نے اس کو تقسیم کیا ۔ اپنےجواب کو جو میرے جواب میں انہوں نے بھیجا ۔ ایک گھنٹے کے بعد وہ اسمبلی میں آئے اور اسمبلی میں آئین ، جمہوری بھی بن گیا ، وفاقی بھی بن گیا اور اسلامی بھی بن گیا ، چار ترمیموں کے ساتھ(تالیوں کی گونج) ۔
یہ بات کیسے ہوئی ؟ میرے ہاتھ میں کوئی جادو نہیں تھا ۔ میں کوئی جادوگر نہیں تھا کہ یہ فوراً آ گئے ۔ ایک گھنٹہ پہلے کہتے ہیں کہ نہ جمہوری ہے ، نہ وفاقی ہے ، نہ اسلامی ہے ۔ پاکستان پائندہ باد، اسلام زندہ باد۔ یہ ایسے ختم ہوتا ہے ۔ اور ایک گھنٹے کے بعد وفاقی بھی ، جمہوری بھی ، اسلامی بھی ۔ پاکستان زندہ بادا ور اسلام پائندہ باد ۔ کیوں؟ کیسے؟
جناب عالیٰ ! یہ آپ کا پریشر تھا ۔ یہ آپ سب لوگوں کا پریشر تھا ۔ یہ پبلک کاپریشر تھا ۔ کیونکہ ہمارے پریشر پر تو آپ نے دیکھا کہ ایک مذاکرات ، دو تین ، چار پانچ ہوتے رہے ۔ کیوں ، پھر وہ آئے اسمبلی میں ؟ کس لیے آئے؟ کیونکہ آپ لوگوں نے کہا کہ آپ یہ غلط چیز کر رہے ہیں ۔ یہ پبلک کا دباؤ تھا ۔ یہ ساری پبلک کا ماحول تھا ۔ انہوں نے پبلک کی فضا دیکھی ۔ انہوں نے دیکھا کہ پبلک یہ بات نہیں مانتی ہے ۔ پبلک کہتی ہے کہ آپ اس چیز پر غلط ہیں ۔ ہر (طریقہ سے) انہوں نے کوشش کی کہ کیسے نہ کیسے (کسی نہ کسی طرح) ہم اپنی بات منو ا لیں ۔ لیکن جب بات نہیں چلی ، پبلک کے دماغ میں ، ذہن میں بات صحیح نہ بیٹھی ۔ پبلک نے انہیں مجبور کیا کہ وہ آئین سازی میں شرکت کریں ، اسمبلی میں آئیں ۔
خراجِ تحسین تو میں آپ کو پیش کرنے آیا ہوں ۔ اسی لیے میں لاہور بھی گیا ہوں ، کراچی بھی گیا ہوں ، کوئٹہ بھی گیا ہوں اور آج یہاں آپ کے مشہور اور تاریخی شہر میں آپ کے پاس آیا ہوں ۔ آپ کو سلام کرنے اور آپ کو شکریہ اداکرنے کہ یہ آپ کا پبلک پریشر تھا ، یہ عوام کا پریشر تھا کہ آپ نے انہیں مجبور کیا ۔
ہر قسم کے حربے انہوں نے استعمال کیے ۔ 23 مارچ کی میٹنگ ، جناب وہ کرتے ہیں راولپنڈی میں ۔ اب وہ گزری ہوئی بات ہے ، ختم ہوئی بات ہے لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میٹنگ ایک جماعت کرتی ہے، دو تین چار جماعتیں کرتی ہیں ۔ اب میٹنگ ناکامیاب رہتی ہے ۔ میٹنگ نہیں چل سکتی ہے ۔ لوگ نہیں سننا چاہتے ہیں تو پھر کیوں خوا ہ مخواہ کہیں کہ جی ، اب تعصب ہو گا پنجابیوں میں اور پٹھانوں میں ۔ اگر میری میٹنگ ناکامیاب ہوتی ، میں میٹنگ نہیں کر سکتا ہوں ، مجھے لوگ سننا نہیں چاہتے تو میں بے چارے پنجابیوں اور پٹھانوں کو ، سندھیوں اور بلوچوں کو کیوں خواہ مخواہ اندر گھسیٹوں میری ناکامیابی میں ۔ کوئی بات ہی نہیں ہو سکتی ہے ۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ جی ، بس اب، آخری فیصلہ ہے ۔ اب نہیں رہ سکیں گے پنجابی اور پٹھان ۔ کیا ہے جناب، ایک میٹنگ پر ؟ ایک میٹنگ اگر نہیں ہوتی ہے تو ایسی میری بھی میٹنگ نہیں ہوئی ہے ۔ کبھی کبھی میں نے بھی کوشش کی ہے ۔ میں نے کوشش کی تھی ایک میٹنگ کرنے (کی ) سانگھڑ میں ، میں نہیں کر سکا ۔ پھر اس پہ میں نے نہیں کہا کہ ساری دنیا ختم ہو گئی ۔ اب تعصب ہو جائے گا ، اب بات ختم ہو گئی ۔ میں نے راولپنڈی ، صدر مملکت کی حیثیت میں ، میں نے نومبر میں میٹنگ کی تھی بنگلہ دیش کے مسئلے پر ۔ گولیاں چلی تھیں وہاں ، فائرنگ ہوئی تھی وہاں ۔ لوگ چلے گئے تو کیا میں نے ساری دنیا پر یہ جرم (الزام) لگایا کہ ساری دنیا بس اب ختم ہو گئی ہے ۔ اب میں نہیں بیٹھوں گا آرام میں ، جب تک میں نفرت نہیں پھیلوں (پھیلاؤں ) گا لوگوں میں ۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے ۔ کوئی میٹنگ کامیاب ہوتی ہے ، کوئی ناکامیاب ہوئی ہے ۔ سیاسی جدوجہد تو ایسے ہی ہوتی ہے ۔ اسی جدوجہد میں تو ہر ایک کو حصہ لینا ہے ۔ بات یہ بالکل غلط تھی ۔ کسی صورت میں اس قسم کی غلط فہمیاں نہیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
جیسے آپ کے گورنر صاحب نے کہا ہے کہ ابھی ستر کروڑ روپے ۔۔۔ آخر ہم نے کہا کہ نہیں ، ہم ادا کریں گے ۔ پسماندہ صوبہ ہے ، کارخانے نہیں ہیں ۔ پیچھے آپ رہ جائیں ، کیوں ۔ کون سی مہربانی کر رہے ہیں آپ پر ؟ نہیں کر رہے ۔ انصاف کر رہے ہیں ۔ پہلے بھی اسی خطے سے صدرمملکت رہے ہیں ۔ ایک صدر یہاں کا تھا، کہلواتا اس علاقے کا تھا۔ دس سال اس نے صدارت کی ۔ بعد میں ایک اور تھا ، پشاور کا رہنے والا تھا ۔ تین سال اس نے صدارت کی ۔ اس نے کیوں نہیں یہ قرض معاف کیے ۔ (تالیوں کی گونج )
کیونکہ آخر ہم نے ایک عوامی جدوجہد کی ہے ۔ ہم آپ کے ساتھ رہے ہیں ۔ ہم کوچے کوچے میں گئے آپ کے ساتھ، ہر گاؤں میں آپ کے ساتھ گئے ہیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان ، کوہاٹ ، بنوں ، مالاکنڈ ، سب علاقوں کے ہم نے دورے کیے ہیں ۔ دیکھی (دیکھا) ہے کہ کتنی غربت ہے ، کتنی مصیبت ہے ، کتنی تکلیف (تکالیف) ہیں لوگوں کی ۔ گھر میں بیٹھ کے، دفتروں میں بیٹھ کے فیصلے نہیں کیے ۔ آپ کے ساتھ رہ کے ، آپ کے ساتھ مل کر ، آپ کی جو مصیبتیں ہیں ان کو دیکھ کر اپنی آنکھوں سے ۔ آخر ہمیں آپ کی خدمت کرنی ہے ۔ اسی لیے تو آپ نے ہمیں اس منزل (مقام) پر پہنچائی (پہنچایا ) ہے ۔ یہ عزت آپ ہمیں کیوں دے رہے ہیں؟ کیونکہ پھر آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ کی خدمت کریں ، ہم بھی کچھ نہ کچھ اضافہ (ترقی) لائیں آپ کی زندگی میں ۔ اور کون سا اضافہ لایا ہے اب تک ؟ میں نے تو کہا تھا کہ ہم بہت کچھ کریں گے اور ان شاء اللہ تعالیٰ بہت کچھ کریں گے۔
یہ دستورکا مسئلہ حل ہو چکا ہے ۔ جیسے میں نے کہا ، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ دستور کا مسئلہ حل ہو گیا ، شملہ کی ایگریمنٹ (معاہدہ) ہو گئی تھی ۔ شملہ کے ایگریمنٹ (معاہدے) میں جو ہمارے حلقے تھے ، وہاں سے ہندوستان کی فوجیں چلی گئیں۔ اس کے علاوہ اب جنگی قیدیوں کا مسئلہ ہے ۔ پورا (پوری ) توجہ ہمیں اس طرف بھی دینا (دینی ) ہے ، جنگی قیدیوں کی واپسی پر ۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ ، آپ کی مہربانی کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہم حل کر کے بتائیں گے (تالیوں کی گونج) ۔ یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے اور اس کا کچھ نہ کچھ چرچا ابھی بھی شروع ہو گیا ہے ۔ آگے چل کر ان شاء اللہ تعالیٰ کامیاب رہیں گے ۔ اس مسئلے میں بھی ہم کامیاب رہیں گے ۔ لیکن جو خاص مسئلہ ہے وہ ہے ناداری،افلاس اور غربت کا مسئلہ ۔ اس میں ہمیں پوری اپنی توجہ دینی چاہیے ۔ اس میں ہمیں اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے ۔ میں تو کہوں گا ، جہاں تک بذات خود میرا سوال ہے ، ہم آئین میں بھی کامیاب ہوئے ، بین الاقوامی مسئلوں میں بھی کامیاب ہوئے ۔ لیکن یہ سلسلہ رہا ہمارے غریبوں کا، یہ ان کی تکلیفیں رہیں ، میں کہوں گا کہ پھر میں نہیں کامیاب رہا ، جب تک ان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی اضافہ (ترقی/بہتری) آئے ۔ کوئی غریب کہے کہ ہماری زندگی میں بھی کوئی فرق پڑا ہے (تالیوں کی گونج) ۔ تعلیمی پالیسی کی ہے اسی مقصد سے ۔ نہیں تو ، اتنے اخراجات کہاں سے ہم لا سکتے تھے ۔ کیونکہ ملک غریب ہے ، پسماندہ ہے لیکن تعلیم کے بغیر اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی ۔ تعلیم ہر چیز کی چابی ہے ۔ اور جب تک تعلیم نہیں بڑھے گی ، کچھ نہیں ہو گا ۔ یہاں آپ کے حلقوں میں ، کچھ تحصیل میں کوئی کالج بھی نہیں تھا ۔ اب میں نے گورنر صاحب کو کہا ہے کہ اسی تحصیل میں جہاں کالج نہیں ہے ، مہربانی کر کے آپ کالج وہاں منظور کریں ۔ وہاں کالج کی منظوری ہو گی ۔ خیبر میڈیکل کالج میں ، میرے پاس آئے آج نوجوان دوست اور انہوں نے کہا کہ فیسیں بڑھائیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کم از کم پچاس فیسیں آپ ان کو دیں (تالیوں کی گونج) ۔ میری ریکوئسٹ (درخواست) ہے کہ آپ ان کی کوشش کا کچھ کریں ۔ رابطے کی بات آپ نے کی ہے ، چشمہ right bank کا بھی فیصلہ کریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ وہ بھی ایک منصفانہ فیصلہ کریں گے ۔
میرے ساتھیو اور دوستو! اب میں اور کیا کہوں ؟ آپ کو میں نے خراجِ تحسین پیش کیا ہے ، آپ مجھے پیش کریں ۔ کیوں؟کیونکہ یہ اجتماعی بات رہی ہے ۔ یہ سب ہم نے مل کر یہ بات کی ہے ۔ نہ میں نے کی ہے صرف، نہ آپ نے کی ہے ۔ ہم سب نے مل کر کی ہے ۔ اس لیے جمہوری آئین ہے ۔ میں نے آپ کو مبارک باد دیا(دی ) ہے ۔ لیکن آخر میں ، میں ایک چیز پہ ختم کرنا چاہتا ہوں اپنی تقریر ۔ یہ پارلیمانی نظام جس کا میں ذکر کر رہا تھا ۔ ایسے بھی دوست ہیں میرے جو کہتے ہیں کہ یہ پارلیمانی نظام نہیں چل سکتا ۔ نظام پارلیمانی ہو ، صدارتی ہو ، چلانے والے پر مدار (منحصر) ہے ۔ جو چلانے والے ہیں اس نظام کے ۔ اگر ہم میں اہلیت ہے اور ہم میں سیاسی بیداری ہے اور سیاسی شعور ہے تو جناب ، ہم پارلیمانی نظام بھی کامیابی سے چلا سکتے ہیں اور صدارتی نظام بھی کامیابی سے چلا سکتے ہیں ۔(تالیوں کی گونج) ۔ اس لیے میں نے زیادہ کچھ بحث نہیں کی تھی ۔ ایک وہ وقت تھا جب ہمارے ساتھیوں کا یہ خیال تھا کہ ہم صدارتی نظام چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا : نہیں ، ہم صدارتی نظام نہیں چاہتے ۔ میں نے کہا ، بڑی خوشی سے ۔ کون سا نظام آ پ چاہتے ہیں ؟ پارلیمانی نظام ۔ ٹھیک ہے ۔ بعد میں ان کا کچھ خیال ہوا کہ فرانسیسی نظام چاہتے ہیں ۔ پھر کہا فرانسیسی نظام نہیں چاہتے۔ کون سا چاہتے ہو؟ پارلیمانی ، پھر کہا ۔ لیکن دیکھ تو لو اس بات کو ۔ کوشش کی گئی تھی کہ صدارتی نظام ہو ۔ ایوب خان کے وقت میں صدارتی نظام نافذ کیا گیا ۔ لیکن صدارتی نظام نہیں چل سکا ۔اس پارلیمانی نظام کی جڑیں کس حد تک پھیلی ہوئی ہیں برصغیر میں کہ کوشش کے بعد ، جدوجہد کے بعد ، کشمکش کے بعد ہندوستان پارلیمانی نظام پر چل رہا ہے ۔ مشرقی پاکستان کے ہمارے ساتھی ، ہمارے بھائی ، انہوں نے بھی جو کچھ منصوبہ بنایا ، جو کچھ ان کی سکیم تھی وہ بھی پارلیمانی نظام ۔ اور یہاں پاکستان میں ہر قسم کا نظام ہم نے چلانے کی کوشش کی ۔ یونٹ کا نظام ، فیڈریشن کا نظام، صدارتی نظام ، غیر صدارتی نظام لیکن آخر پچیس برس کے بعد بھی پھر بھی ہم اسی راہ پر لوٹ کر آئے ۔ پارلیمانی نظام کے راستے ۔ یہ ایک نظام انگریز صاحب بہادر ہمیں دے گئے جو ان کا نظام ہے ۔ یہ خراب ترین اس لیے نہیں ہے کیونکہ انگریزوں نے یہ نظام دیا ہے ہمیں ۔ جو چیز واجبی ہے ، جو چیز چل سکتی ہے ، جو چیز ایسی بنی ہوئی ہے کہ حقیقت کو دیکھ کر ، تو وہ چیز چلے گی ۔ اگر فرانسیسی کی حکومت ہوتی ، امریکہ کی حکومت ہوتی ، اور کسی مملکت کی حکومت ہوتی ، تو وہ ہمیں ایک اور (دوسرا) نظام دیتے ۔ اور ایک سو برس اُس نظام کو چلاتے ، تو شاید وہ نظام چلتا ۔ کیونکہ یہ نظام،انہوں نے سو سال اس کے بیج کو بویا تھا اس لیے آخر یہ بیج بڑھ رہا ہے ۔ جتنی بھی کوشش کرو اس کو روکنے کی ، ختم کرنے کی ، نہیں ہو گا ۔ میرے نقطہ نگاہ میں یہ نظام چلے گا ان شاء اللہ ۔ اس نظام کو ہم چلا سکیں گے ۔ یہ نہیں ہے کہ یہ نظام ایسا نہیں ہے تو ہم نہیں چلاسکتے ۔ اگر ہندوستان میں چل رہا ہے پچیس برس سے ، اگر مشرقی پاکستان میں وہ چلا رہے ہیں ، تو ہم کیوں نہیں چلا سکیں گے ۔ ہاں، بہت ہی کوتاہیاں ہیں ہم میں لیکن ان کوتاہیوں کو ہم دور کریں گے ۔ اور آہستہ آہستہ ترقی بھی آئے گی ۔ تجربہ کے ساتھ اور(زیادہ ) ہم سیکھیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
یہ (آئین) آپ کی ملکیت ہے ۔ یہ آپ کی بدولت ہے اور اس کی حفاظت آپ ہی کریں گے ۔
السلام علیکم !
تقریر 4 (بمقام پشاورایئرپورٹ)
گورنر صاحب، میرے عزیز ساتھیو،دوستو ، بھائیو اور بہنو !
میں ایک سفر سے آ رہا ہوں جو میں نے بارہ تاریخ کو راولپنڈی سے شروع کیا تھا ۔ پنڈی کے بعد میں لاہور ، لاہور کے بعد کراچی ، کراچی کے بعد کوئٹہ ، میں نے وہاں بھی لوگوں سے ملاقات کی ۔ وہاں بھی آپ جیسے مہربان دوست آئے ۔ میرا اور میرے ساتھیوں کا خیر مقدم کیا ۔ آج مجھے نہایت خوشی ہو رہی ہے کہ پھر میں یہاں ہو ں آپ کے سامنے ، آپ کے پاس جیسے میں نے اس وقت کہا تھا کہ جب میں نے اس صوبے کا دورہ کیا تھا نومبر میں کہ یہ ایک مکمل رابطہ ہے ۔ اس رابطے کو ہم کسی صورت میں نہیں توڑ سکتے ہیں ۔ تو اس لیے جب اتنے بڑے کارنامے کے بعد میں نے یہی خیال کیا تھا کہ جیسے میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا ہے کہ میں ہمیشہ اچھے وقت میں اور برے وقت میں کوشش کروں گا کہ ان کے ساتھ رہوں ، ان کے ساتھ رابطہ رہے ہمارا ۔ اسی خیال سے میں سفر پر نکلا ہوں اور آج اس سفر کی آخری منزل پر پہنچی (پہنچا) ہوں ۔ میں آپ کے پاس آیا ہوں اور مبارک باد دینے آیا ہوں (تالیوں کی گونج) ۔
پچیس برس کے (کی) طویل جدوجہد کے بعد ، پچیس برس کے (کی ) قربانیوں کے بعد آخرکار پاکستان کی عوام نے یہ ایک بنیادی فیصلہ اپنے ہاتھوں سے کیا ہے کیونکہ یہ آئین آپ کا آئین ہے ۔ اس آئین کو آپ نے ہی بنایا ہے ۔ یہ ہمارا وعدہ تھا آپ کے ساتھ ۔ جب انتخابات کے وقت ، میں نے یہاں دورے کیے تھے آپ کے صوبے میں اور دوسرے صوبوں میں ، میں نے یہ کہا تھا آپ سے اپنی تقریروں میں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم کوشش کر کے آپ کو ایک جمہوری آئین دیں گے ۔ یہ آئین جمہوری ہے ،اس پر کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا ہے ۔ کوئی شخص نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ آئین جمہوری نہیں ہے ۔ کتنا بھی وہ پاکستان کا دشمن ہو ، کتنی بھی ان کو نفرت ہو اِس قوم کے ساتھ، ہمارے لوگوں کے ساتھ ، یہ وہ نہیں کہہ سکے گا کہ یہ جمہوری آئین نہیں ہے (تالیوں کی گونج) ۔ اس کے علاوہ کوئی شخص ایسے بھی نہیں کہہ سکے گا کہ یہ وفاقی آئین نہیں ہے ۔ اور کوئی شخص یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکے گا کہ یہ اسلامی آئین نہیں ہے ۔ تینوں اہم باتیں ہیں جس کے لیے ہم پچیس برس سے جدوجہد کر رہے تھے کہ اس ملک کو ایک آئین نصیب ہو جو جمہوری ہو ،جو وفاقی ہو ،اور جو اسلامی آئین ہو ۔
اب یہ آئین آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ اس آئین کو آپ نے بنایا ہے ۔ اس کی حفاظت آپ کو ہی کرنی پڑے گی ۔ یہ میرا ایمان ہے کہ آپ اس کی پوری حفاظت کرو گے (تالیوں کی گونج) ۔ کیونکہ آپ کا سب سے بڑا ہاتھ رہا ہے اس آئین کو بنانے میں ۔ وہ جو نازک مسئلہ تھا صوبائی خودمختاری کا ، جس پر اتنی غلط فہمی ہوئی تھی۔ پچیس برس میں ایک جماعت کے ایک خیال ، دوسری جماعت کے دوسرے خیال ۔ کیا خودمختاری ہونی چاہیے ؟ کون سی حد رکھنی چاہیے خود مختاری پر؟ وہ مسئلہ بھی اب ختم ہو چکا ہے ۔
آئین نے پاکستان کی ساری قوم کے لیے ایک عالیشان عمارت بنائی ہے۔ اب اس عمارت میں ہر صوبے کو اور جو لوگ صوبوں میں رہتے ہیں اُن سب کو اپنا مقام اور اپنی منزل اس آئین میں ، اس عمارت میں مل چکی ہے ۔ اب ہر صوبہ جانتا ہے کہ یہ میری جگہ ہے ۔ دوسرا صوبہ جانتا ہے کہ ہاں، یہ میرا مقام ہے ۔ اب غلط فہمی کی کوئی ضرورت نہ رہی کیونکہ جب تک یہ بات کھلی ہوئی بات تھی ، جب تک اس پر جمہوری فیصلہ نہ ہو چکا تھا تو اس پر کوئی آخری فیصلہ نہ ہو چکا تھا ۔ اب اس بات پر ایک آخری فیصلہ ہو چکا ہے ۔ اب یہ بات جو ہے ختم ہو چکی ہے ۔ یہ میں نہیں کہتا ہوں ، یہ آپ کہتے ہیں ، یہ آپ کی قومی اسمبلی نے کہا ہے جہاں نہ صرف اکثریت جمع ہے لیکن ہر جماعت نے جس کی نمائندگی تھی انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے ۔ نہ صرف جو جماعت اقتدار میں ہے لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے ۔ نہ صرف اکثریت نے بلکہ جو بھی ممبر تھے جن کی بھی نمائندگی تھی یعنی جن کو آپ نے بھیجا تھا اسمبلی میں ، یہ ان کا فیصلہ ہے ۔ اب اس فیصلے کو آپ چلائیں ۔
پاکستان کی تاریخ میں ہم نے بہت نقصان دیکھے ہیں ، بہت ہی بحران دیکھے ہیں ۔ اب کچھ نہ کچھ کوشش کریں کہ ہم معمول پر چلیں اور قوم کو آگے بڑھائیں ۔ قوم کو آگے بڑھانے میں یعنی غریبوں کی خدمت کریں ، عوام کی خدمت کریں ، عوام کو بلند کریں ۔اب یہ ہماری کوشش ہونی چاہیے ۔
میں پھر آپ کا نہایت شکر گزار ہوں اور ممنون ہوں میرے ساتھیواور میرے بھائیو ۔ (تالیوں کی گونج)