ہندوستانی سنگیت اور بھنڈی بازار گھرانہ: غلام مصطفیٰ ایڈووکیٹ (مرتب: عاصم رضا)
نوٹ: ایک کتابی سلسلہ ’’ رجحان ‘‘ کی دوسری اشاعت (دسمبر 1991ء تا اگست 1992 ء )کے موقع پر جناب غلام مصطفیٰ ایڈووکیٹ صاحب نے ’’ ہندوستانی سنگیت اور بھنڈی بازار گھرانہ ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر فرمایا ۔ہم نڑالی ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والے محقق اور علم دوست شخصیت جناب حسن نواز شاہ صاحب کے نہایت ممنون ہیں کہ انہوں نے اپنے علمی ذخیرے میں موجود اس قیمتی مضمون کو عنایت فرمایا ۔ قارئین کی معلومات میں اضافہ کی غرض سے اس امر کی جانب رہنمائی ضروری ہے کہ بھنڈی بازار گھرانہ کے حوالے سے ایک ویب سائٹ بھی دستیاب ہے ۔ مذکورہ ویب سائٹ پر بھنڈی بازار گھرانہ سے متعلق جملہ تفصیلات کے ساتھ ساتھ اس گھرانے کے شاگردوں کی فہرست دستیاب ہے جس کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔ مزید براں ، ایک فہرست ان لوگوں کی بھی ہے جنھوں نے اس گھرانے سے سیکھا تاہم یا تو اپنا الگ انداز وضع کیا، یا پھر فلم انڈسٹری میں گائیکی سے وابستہ ہو گئے ۔
اقبؔال نے موسیقی کو غذائے روح اور رقص کو اس کا بدن کہا ہے ۔ جس طرح جسم کی توانائی کے لیے غذا ضروری ہے اسی طرح روح کی بالیدگی اور پاکیزگی کے لیے موسیقی بھی اتنی ہی اہم ہے ۔ صوفیائے کرام کے یہاں وجدو سماع کی محفلیں اسی لیے منعقد ہوتی تھیں کہ روح کو تازگی ملے ۔ خوش آواز اور خوش الحانی چونکہ فطری عمل اور قدرت کی طرف سے ایک بخشش ہوتی ہے اس لیے اس کا ہر خاص و عام پر اثر اک فطری امر ہوتا ہے ۔ اچھی اور سریلی آواز قدرت کا عطیہ ہوتی ہے ۔ اسے حاصل کرنا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہوتا ہے ۔ مسلسل ریاض اور مشق سے آواز پر قدرت حاصل کر لی جاتی ہے لیکن اس کے لیے مبتدی کو دِقّت طلب مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے جب کہ فطری طور پر خوش گلو شخص کے لیے یہ قدرے آسان ہوتا ہے ۔
موسیقی کا تعلق فنونِ لطیفہ سے ہے ۔ دیگر فنون جیسے مصوری، فنِ تعمیر وغیرہ کا تعلق انسان کی قوتِ ناظرہ سے ہے جب کہ موسیقی وہ فن ہے جو دکھائی نہیں دیتا ، صرف اسے قوتِ سامعہ سے محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ اسی لیے اس فن کے معلّم کو گانے کی تعلیم دینے کے لیے بڑے صبر آزما دور سے گزرنا پڑتا ہے ۔
موسیقی ایک مشکل ترین فن ہے ۔ اس پر عبور حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ لفظی اعتبار سے بھی موسیقی اسی طرح اشارہ کرتا ہے۔موسیقی دراصل سریانی زبان (یہ زبان آج کل غیر مروج ہے ) کا لفظ ہے ۔ ’مو‘ یعنی ہوا اور ’سیقی‘ یعنی گِرہ باندھنا ۔ گویا جب کوئی مغنی اپنے فن کو پیش کرتا ہے تو وہ ہوا میں گِرہ باندھنے کی کوشش کرتا ہے جو مبالغہ کی حد تک ناممکن ہے ۔ اس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ موسیقی کا فن اتنا ہی مشکل ہے جتنا ہوا میں گِرہ لگانے کی کوشش کرنا ۔۔۔!
ہندوستانی سنگیت دنیا کی تمام موسیقی سے زیادہ مشکل اور تکنیکی لحاظ سے زیادہ سائنٹیفک اور بااصول ہے ۔ اس کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔ ہندومت کے عقیدے کے مطابق اس کی ایجاد کائنات کے خالق برہما نے کی ۔ اس کا بول ان کی چاروں الہامی کتابوں : رگ وید، سام وید، اتھروید، اور یجروید میں موجود ہے ۔ اسی لیے اہل ِ ہنود کے یہاں سنگیت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جو ان کی مذہبی رسومات ، سماجی اور معاشرتی جلسوں اور تہواروں میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔
ہندوستانی سنگیت تین فنون پر مشتمل ہے: گانا، بجانا اور ناچ۔ ان میں گانا چونکہ مشکل ترین فن ہے اُسے اُتّم (کامل تر) مانا گیا ہے اور اسی لیے گویّوں کو زیادہ عزت اور اہمیت دی جاتی ہے ۔ جنہیں قدرت نے اچھی آواز سے نہیں نوازا ، وہ کوئی ساز بجانے میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں کیونکہ گانے کے مقابلے میں یہ قدرے آسان ہوتا ہے ۔ ناچ کو مقابلتاً آسان ترین فن سمجھا گیا ہے ۔ مسلم ماہرینِ فن کے نزدیک ایک چوتھی چیز بھی ہے جو ان تینوں سے مشکل ہے اور وہ ہے ان فنون کی تعلیم دینا ۔ ان کے نزدیک سنگیت سیکھنے سے زیادہ مشکل اس کا سکھانا ہے کیونکہ جیسا کہا گیا ہے ، یہ وہ فن ہے جو دکھائی نہیں دیتا صرف محسوس کیا جاتا ہے ۔ اس لیے جب تک اس کا طالب علم سُروں کی شناخت اپنے کان سے نہیں کر سکتا اور تال کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتا ، اس فن پر عبور حاصل نہیں کر سکتا ۔ اس کے علاوہ سامعین کی بھی اس فن سے تھوڑی بہت واقفیت ضروری ہے ۔ مطلب یہ کہ دونوں کے لیے اس فن کی تعلیم ضروری ہے ۔ شاید یہی بات ہے کہ ہندوستانی سنگیت میں ’’ گُرو شسیہ پرم پرا ‘‘ یعنی استاد شاگردی کے سلسلہ کو بہت مقدس مانا جاتا ہے ۔ اس لیے ہر فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے پہلے اپنے گرو یا استاد (جو اگر مسلم ہو تو اسے خاں صاحب کہتے ہیں ) کی اجازت اور اس کے پیر چھونا اپنا فرض سمجھتا ہے چاہے وہ فنکار کتنے ہی اعلیٰ مقام پر کیوں نہ فائز ہو ۔
ہندوستانی سنگیت کو مندروں ، راجہ ، مہاراجاؤں اور امراء کی محفلوں سے نکال کر عوام تک لانے کا سہرا بھی مسلمانوں ہی کے سر ہے ۔ حضرت امیرخسرو سے لیکر آج تک مسلم موسیقاروں اور استادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو قائم ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد نے یہاں کے سنگیت پر چھائے ہوئے جمود کو توڑا اور اس کے لیے ترقی کی نئی نئی راہیں کھولیں ۔ ان کی دلچسپی سنگیت کی دو صنفوں : گانا اور بجانا سے تھی ۔ ناچ کو انہوں نے یکسر نظرانداز کر دیا کیونکہ وہ ان کی طبیعت سے مَیل نہیں کھاتا تھا ۔ صرف واجد علی شاہ کے دور میں اس کی ترقی ہوئی ۔ عام طور پر مسلمانوں نے اس فن کو علم سے زیادہ عملی طور پر اپنایا ۔ اس فن کی ادائیگی اور عملی طور پر پیشکش کی تعلیم دینے میں انہوں نے اپنی خداداد قابلیت کا مظاہرہ کیا ۔ ان کا تعلیم دینے کا طریقہ کار اور گانے بجانے کا انداز اور ڈھنگ بھی جداگانہ تھا ۔ ان کی تخلیق کارانہ صلاحیتوں نے اس فن کو جلا بخشی۔ سنگیت میں نئی نئی اختراعات آنے لگیں ۔ دھرپد، دھمار کے قدیم طریقہ کی جگہ خیال ، ترانہ، قول نے لے لی ۔ عام طبقے کی دلچسپی کے لیے ٹھمری ، دادرا اور غزل کو رائج کیا ۔ آلاتِ موسیقی میں وینا ، بانسری، سارنگی ، ڈھول وغیرہ کی جگہ ستار، طبلہ ، ڈھولک وغیرہ آ گئے ۔ ان اختراعوں میں ایک خاص بات کا یہ خیال رکھا گیا کہ اس سے ہندوستان کے قدیم سنگیت کی روح متاثر نہ ہو ۔ بنیادی اصول اور پدھتی (طریقہ) وہی رہی جو قدیم زمانہ سے چلتی آ رہی تھی ۔ صرف اس کے طریقہ تعلیم اورپیش کش کے ڈھنگ کو آسان اور عام فہم کر دیا گیا ۔
صوتی موسیقی میں گویّوں نے بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ اپنے علم و فن کو وہ سینہ بہ سینہ منتقل کرتے رہے ۔ ان میں بہتیرے تقلید کے قائل نہیں تھے ۔ ان کی سیمابی طبیعت نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنے فن کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر پیش کر سکیں ۔ اس طرح سنگیت میں ’’ گھرانے ‘‘ نے جگہ لی ۔ گھرانے دراصل ہندوستانی سنگیت کے مکتب یا سکول ہیں ۔ ہر گھرانے کا اپنا ایک جداگانہ طرزِ ادائیگی اور گانے بجانے کا ڈھنگ ہوتا ہے۔ مثلاً ایک ہی راگ کو دو گھرانے الگ الگ طریقہ سے گاتے بجاتے ہیں ۔ ایک راگ کئی متضاد کیفیتوں کا حامل ہوتا ہے ۔ ایک گھرانہ اگر اس کی کسی ایک کیفیت کو اجاگر کرتا ہے تو دوسرا اس کی دیگر خصوصیات پر زور دیتا ہے ۔ اس طرح گھرانوں سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ راگ کی مخفی خوبیاں سامنے آنے لگیں جس سے سنگیت کو وسعت نصیب ہوئی ۔
ایک عجیب بات یہ تھی کہ ان گھرانوں کے نام ان کے بانیوں کے نام سے منسوب نہیں تھے بلکہ ان کے آبائی وطن یا پھر ان کے جائے رہائش سے موسوم تھے ۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ان کو اپنی ذاتی شہرت مقصود نہیں تھی بلکہ ان کے نزدیک سنگیت کی ترقی مقدم تھی اور یہ نام بھی انہوں نے خود نہیں اختراع کیے تھے بلکہ لوگوں نے سہولت اور امتیاز کی خاطر انہیں اسی نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا ۔ ان گھرانوں کا ہندوستانی سنگیت پر بڑا احسان ہے ۔ ان گھرانوں کو آج سنگیت سے الگ کرنا گویا سنگیت کو کئی سو سال پیچھے دھکیل دینا ہے ۔ ہندوستانی سنگیت کے چند اہم گھرانے یہ ہیں: آگرہ گھرانہ ، دہلی گھرانہ ، کِرانہ گھرانہ ، گوالیار گھرانہ ، جھجر گھرانہ ، اتردلی گھرانہ ، اندور گھرانہ اور بھنڈی بازار گھرانہ ۔
بھنڈی بازار گھرانہ کے بانی تین بھائی تھے : چھجّو خاں، قدیر خاں اور خادم حسین خاں ۔ یہ لوگ ضلع مراد آباد کے شہر بجنور کے رہنے والے تھے ۔ انیسویں صدی کے اواخر میں یا شاید اس صدی کے شروع میں یہ تینوں بھائی ذریعہ معاش کی خاطر بمبئی چلے آئے اور بمبئی کے مشہور علاقے بھنڈی بازار میں سکونت پذیر ہو گئے ۔ ایک مکان کرایہ پر لے لیا اور موسیقی کی تعلیم دینا شروع کی ۔
بھنڈی بازار عروس البلاد بمبئی کا وہ مشہور علاقہ ہے جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ چونکہ یہ تینوں بھائی اس علاقہ میں رہتے تھے اس لیے یہ بھنڈی بازار والے کہلانے لگے ۔ ان کے سنگیت سکھانے کا طریقہ ، گانے کا سٹائل اور خیال گائیکی میں ندرت نے سنگیت کی دنیا میں ایک نئے ’’ گھرانے ‘‘ کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر ’’ بھنڈی بازار گھرانہ ‘‘ کے نام سے جانا پہچانا جانے لگا ۔ حقیقتاً اس گھرانہ کو اتنی مقبولیت نہیں ملی جتنی دوسرے گھرانوں کو ملی ۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس گھرانہ کے لوگ پبلک جلسوں اور موسیقی کی محفلوں میں شرکت سے احتراز کرتے تھے ۔ انہوں نے خود کو سنگیت کی تعلیم تک محدود کر دیا تھا ۔ ان کے نزدیک سنگیت ’ ناد برہما‘ یا ’ تاواپاسنا‘ کا درجہ رکھتا تھا ۔ اس لیے ان کا سنگیت صرف انہیں لوگوں تک محدود تھا جو صحیح معنوں میں کلاسیکی موسیقی کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے ۔ اس زمانہ میں ایسے سنگیت فہم لوگوں کی کوئی کمی نہیں تھی پھر بھی اس گھرانہ کی تعلیم کی مشقت برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات بھی نہ تھی ۔ کچھ سنگیت پنڈت اس گھرانہ کو سِرے سے کوئی گھرانہ ہی نہیں تصور کرتے اور اپنی کتابوں میں بھنڈی بازار گھرانہ کے بجائے بھنڈی بازار والے کہتے ہیں ۔ اس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس گھرانہ کی ترقی و ترویج میں اس گھرانہ کے شاگردوں نے کوئی اہم کردا ر ادا نہیں کیا ۔ وہ سنگیت کو آج بھی بھگتی اور راستی کا ایک ذریعہ سمجھ کر اپنا حلقہ محدود کیے ہوئے ہیں ۔ اس کے باوجود آج بھی سنگیت کلاکاروں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس گھرانہ کی اہمیت سے واقف ہے ۔
اس گھرانہ کے بانی چھجّو خاں، نذیر خاں اور خادم حسین خاں اپنے زمانے کے مایۂ ناز گویّے اور استاد تھے ۔ تینوں نے فنِ موسیقی کے الگ الگ شعبوں میں مہارت حاصل کی تھی ۔ چھجّو خاں نے ’دھرپد‘ ، ’دھمار‘ اور ’ہوری‘ میں نام پیدا کیا ۔ نذیر خاں نے ’سارنگی‘ اور ’خیال گائیکی‘ پر عبور حاصل کیا تھا ۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ ایک ہی سانس میں ’استھائی‘ اور دوسری سانس میں ’انترہ‘ گاتے تھے ۔ اس کے علاوہ ’ لَے کاری‘ کے بھی ماہر تھے ۔ خادم حسین خاں گائیکی میں ’سُوت‘، ’مینڈھ‘ اور ’کَمک‘ پر زیادہ زور دیتے تھے ۔ یہ تینوں بھائی اپنی ترتیب دی ہوئی چیزوں (’بندشوں‘) میں اپنا قلمی نام ’امؔر‘ ضرور رکھتے تھے جو اس گھرانہ کی پہچان بن گئی ۔ بعد میں آنے والوں نے بھی اُسے اپنانا شروع کر دیا ۔ اس خاندان کے استاد امان علی خاں (جن کا ذکر آگے آئے گا ) کی سینکڑوں چیزوں میں یہی قلمی نام ’امؔر‘ استعمال کیا گیا ہے ۔
غالباً 1884ء میں یہ تینوں بھائی ایک سنگیت منڈلی میں شامل ہو گئے ۔ بمبئی کے چند پارسی سرمایہ داروں نے سنگیت کے ایک کلب کی بنیاد رکھی تھی جسے ’’ گیان اُتّیجک منڈلی ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا تھا ۔ باوجود اس کے کہ پارسی قوم نے خود کو بہت زیادہ مغرب زدہ کر لیا تھا لیکن جہاں تک ہندوستانی سنگیت کا تعلق تھا انہوں نے اس کو پھیلانے کے لیے بہت کچھ کیا اور کر رہے ہیں ۔ اس منڈلی کے روحِ رواں پنڈت وشنو ناراین بھات کھنڈے جی تھے ۔ بھات کھنڈے جی نے ہندوستان کے سنگیت کے قدیم اثاثے کو یکجا کر کے اسے باضابطہ طور پر تدوین کر کے تحریر کیا ۔ سینکڑوں راگ راگنیوں کو انہوں نے دس ’ٹھاٹھوں‘ میں محفوظ کر دیا ۔ بہت سی ایسی چیزیں اور ’بندشیں‘ جو پنڈتوں ، استادوں اور سنگیت گُنیوں کے سینہ میں مھفوظ تھیں ، انہیں بھی ضبطِ تحریر میں کر لیا ۔ اس کام کے لیے انہیں بہت سے استادوں سے روابط قائم کرنے پڑے ۔ کئی ایک استادوں کے شاگرد بھی بنے تاکہ ان سے ان کے گھرانوں کا علم جو ان تک سینہ بہ سینہ پہنچا ہے ، سیکھیں اور اس کا نوٹیشن (Notation) یعنی تحریرِ موسیقی کر لیں ۔ اس طرح ’’ لکشن گیت سنگگھرہ ‘‘ اور ’’ کرامک پستک مالیکا ‘‘ جیسے رسالے اور مقالے (Treatises) کو شائع کر کے سنگیت کو بکھرنے سے بچا لیا ۔ ’’ ٹھاکر نواب علی ‘‘ کی ’ معارف النغمات ‘ پنڈت بھات کھنڈے کی ہی کتابوں پر مبنی ہے ۔ اس کام کے لیے انہوں نے جن استادوں کی مدد لی ان میں بھنڈی بازار گھرانے کے استاد نذیر خاں بھی تھے ۔ نذیر خاں نے اپنی خاندانی چیزیں ، جو ان تک سینہ بہ سینہ آئی تھیں اور راگ راگنیوں سے متعلق اپنی مفید معلومات سے کافی مواد بھات کھنڈے جی کو دیا ۔ بعد میں کسی بنا پر دونوں میں اَن بَن ہو گئی اور نذیر خاں نے اپنے تعلقات بھات کھنڈے جی سے قطع کر لیے ۔ نتیجتاً انہوں نے اپنی مطبوعات میں نذیر خاں اور ان کے دونوں بھائیوں اور بھنڈی بازار گھرانہ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی حتٰی کہ ان تینوں بھائیوں کے نام تک محض خانہ پری کی حد تک دیے گئے ہیں ۔
ان تینوں بھائیوں سے اگر صحیح معنوں میں کسی نے فیض اٹھایا تو وہ تھیں ’انجنی بائی مال پیکر‘ (1883 – 1973) ۔ یہ یوں تو استاد نذیر خاں کی شاگردہ تھیں لیکن چھجّو خاں اور خادم حسیں خاں بھی انہیں تعلیم دینے آتے تھے ۔ اس نے بہت ہی کم عمر میں اس گھرانے سے تعلیم لینا شروع کی اور جب سولہ سال کی عمر میں پہلا پبلک پروگرام سٹیج پر پیش کر دیا تو سنگیت کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا ۔ اس ساری کریڈٹ کے مستحق بھنڈی بازار گھرانہ کے یہ تینوں استاد تھے ۔
انجنی بائی کے متعلق استاد نذیر خاں کا طریقۂ تعلیم بہت سخت تھا ۔ روز بارہ (12) گھنٹے ریاض کرواتے تھے اور وہ بھی صرف ایک راگ یمؔن کا ۔ تین سال تک انہوں نے راگ یمؔن اور ڈیڑھ سال تک راگ بھیرو کا ریاض کروایا ۔ استاد صبح چار بجے آ جاتے تھے اور ریاض شروع ہو جاتا جو گیارہ بجے تک چلتا ۔ اس درمیان بادام مِلا ہوا دودھ اور سُوپ پیتی تھیں لیکن ’تان پورہ‘ (طنبورہ) پر سے ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی ۔ روز سنگیت کے ایک ہزار ‘پلٹے (قائیں ) گانے پڑتے ۔ چھجّو خاں اور خادم حسین خاں ان کو تعلیم دینے رات کو آتے تھے ۔ اس طرح ان تینوں بھائیوں کا علم و فن انہوں نے حاصل کیا ۔ انجنی بائی اس گھرانہ کی صحیح معنوں میں نمائندہ تھیں ۔ ا ن کی آواز میں جادو تو تھا ہی ، اس پر ان ماہر استادوں کے زیرِ سایہ تربیت ملی تھی جس نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ۔ انجنی بائی کی خوبی ان کا راگ میں ’الاپ‘ تھا جو اچھے اچھے سارنگیوں اور بین کاروں کے لیے چیلنج تھا ۔ ان کی ’مینڈ‘ کی تان قلب کی گہرائیوں میں اتر جاتی تھی ۔ تینوں استادوں کو اپنی اس شاگردہ پر فخر تھا ، لیکن افسوس کہ جب انجنی بائی کی مقبولیت کا شباب تھا انہوں نے گانے کو تیاگ کر کے سنیاس لے لیا اور روحانیت اور تصوف کی دنیا میں کھو گئیں ۔ عمر کے آخری حصہ میں انہوں نے اس گھرانہ کی خدمت کے طور پر تعلیم دینا شروع کیا تھا جن میں کمار گندھرؔو، کشوری اَمؔونکر ، پنڈت جنوؔدیکر ، قابلِ ذکر ہیں ۔ ’ٹھمری‘ اور ہلکی پھلکی موسیقی کی گائیکہ نینا دیوی اور بیگم اختر کی بھی رہبری کی ۔
ان بھائیوں کے ایک اور مشہور شاگرد تھے اور وہ تھے استاد جھنڈے خاں ۔ استاد جھنڈے خاں پنجاب کے تھے اور ان کا تعلق ، اردو ناٹکوں اور فلم میں موسیقی دینے سے تھا ۔ میوزک ڈائریکٹر کی حیثیت سے ان کا لوہا آج بھی مانا جاتا ہے ۔ اپنی علم کی پیاس بجھانے یہ بمبئی چلے آئے اور اس گھرانہ کے ان تینوں بھائیوں کے شاگرد ہو گئے ۔ ان کو اپنے استادوں سے بے پناہ عقیدت تھی ۔ مشہور فلمی میوزک ڈائریکٹر فیروز نظامی نے جب ان سے ان تینوں بھائیوں کے بارے میں کچھ جاننا چاہا تو ان کی آنکھوں سے عقیدت میں آنسو نکلنا شروع ہو گئے اور بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگے ۔ ’’ بیٹا، ان لوگوں کے گانے کی تعریف کے لیے الفاظ نہیں ملتے ۔ آج ان لوگوں کا گانا سہانا خواب معلوم ہوتا ہے ۔ بس یہ سمجھ لو کہ میرے استاد علم کا سمندر تھے اور میں ان کے مقابلہ میں صرف ایک حقیر قطرہ ہوں ‘‘ ۔ یہ اسی گھرانہ کا فیض تھا کہ استاد جھنڈے خاں نے فلمی دنیا میں اپنی کلاسیکی سنگیت سے ایک ایسا مقام بنا لیا جو آج تک کوئی نہیں بنا سکا ۔ ان کی علمی و فنی صلاحیتوں کا انداز ہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے فلم ’’ چتر لیکھا ‘‘ کی موسیقی میں ایک ایسا کمال دکھایا جو آج تک کسی نے کر کے نہیں بتایا ۔ انہوں نے اس فلم کے تمام گانے (جو تقریباً سترہ اٹھارہ ہوں گے) کی دھنیں بھیؔروی راگنی میں ترتیب دیں لیکن اس میں خوبی یہ تھی کہ سننے والوں کو یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ سب گانوں کے سُر ایک ہی ہیں ۔ انہیں یہی گمان ہوتا کہ ہر گانے کی دھنیں الگ الگ راگ میں بنائی گئی ہیں ۔ اس کارنامے کی تو مشہور موسیقار نوشاد ؔ علی اکثر تعریف کیا کرتے تھے جنہیں نہ صرف ان کے ساتھ کام کرنے کا فخر حاصل ہے بلکہ میوزک ڈائریکٹر کی حیثیت سے انہیں جھنڈے خاں کے ہی سامنے انٹرویو کے لیے پیش کیا گیا تھا اور سلیکٹ کر لیے گئے تھے ۔
اس گھرانے کے ایک اور شاگرد تھے واڈی لال شیو رام ۔ یہ گجراتی ناٹکوں میں سنگیت دیتے تھے ۔ استاد نذیر خاں نے ہی انہیں سنگیت شاستر سیکھنے کے لیے پنڈت بھات کھنڈے جی کے پاس بھیج دیا تھا ۔ جس زمانے میں واڈی لال ، نذیر خاں سے تعلیم لے رہے تھے اسی زمانہ میں ان کی ملاقات نتھن خاں کے لڑکے محمد خاں سے ہو گئی جو خود بھی بھنڈی بازار کے علاقہ ہی میں رہتے تھے ۔ بعد میں ان دونوں کی خوب دوستی ہو گئی ۔ ایک روز بھنڈی بازار میں ہی محمد خاں نے انہیں جے پور کے محمد علی خاں کے لڑکے عاشق علی خاں سے ملوا دیا جن کے پاس سنگیت کے علم کا خزانہ تھا لیکن ان کی مالی حالت بہت خراب تھی ۔ واڈی لال انہیں بھات کھنڈے کے پاس لے گئے جنہوں نے ان کی مالی امداد ضرور کی لیکن سنگیت کا قیمتی ذخیرہ ان سے حاصل کر لیا ۔ اس پر عاشق علی خاں کے والد بہت خفا ہوئے ۔ بھات کھنڈے ان کے پیروں پر روتے ہوئے گِر پڑے اور کہا کہ آج سے میں آپ کا شاگرد ہوں ۔
اس گھرانہ کے دوسرے شاگردوں میں استاد ممّن خاں ، سمیر خاں (والد استاد امیرؔ خاں) ، مبارک حسین ، محمد خاں ، کلن بخش ، میاں جان خاں ، قادر بخش قابل ِ ذکر ہیں ۔ ان تینوں بھائیوں نے تعلیم اپنے والد استاد دلاور خاں سے حاصل کی تھی ۔ بعد میں سنسکرت اسکالر عنایت خاں کے بھی شاگرد بنے ۔ سنسکرت اسکالر عنایت خاں ، استادبہراؔم خاں دھرپدئے کے پوتے تھے ۔ انہیں بہرام خاں کے شاگردوں کے سلسلے سے ایک استاد تجمّل حسین خاں تھے جن کا تعلق بھی ایک طرح سے بھنڈی بازار گھرانہ سے رہا ہے ۔ تجمّل حسین خاں گویّے ہونے کے ساتھ ساتھ سنگیت کے فن کے ماہر اور بہترین معلّم تھے ۔ جن کا تعلیم دینے کا طریقہ بھنڈی بازار گھرانہ کا ہی رہینِ منت تھا ۔ ان کے شاگردوں میں ریڈیو آرٹسٹ شاردادھو لیکر قابل ِ ذکر ہیں ۔ ان کے اپنے اکلوتے صاحبزادے استاد تاج احمد خاں اپنے والد کی طرح ہی بہترین معلّم ہونے کے ساتھ ساتھ خیال گائیکی کے ماہر اور غزل کمپوزیشن میں اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ انہوں نے آواز کی بہت سائنٹیفک طریقہ پر سٹڈی (مطالعہ) کی ہے جو سنگیت کی تعلیم دینے میں کافی ممّد ثابت ہوتی ہے ۔ ان کے شاگردوں میں مشہور غزل سنگر (گائیک) طلعت محمود ، میوزک ڈائریکٹر کلیان جی ، کمل باروٹ ، ہشما شریسٹھ اور شبّھاؔ جوشی کا شمار ہوتا ہے ۔
چھجّو خاں کے دو بیٹے تھے ۔ فدا حسین خاں اور امان علی خاں ۔ نذیر خاں کے ایک لڑکے تھے مبارک علی جو کم عمری ہی میں انتقال کر گئے ۔ کِرانہ گھرانہ کے استاد وحید خاں سے اُن کے بہت قریبی مراسم تھے ۔ اس خاندان کے استاد امان علی خاں نے اس گھرانے کی نمایاں خدمات انجام دیں ۔
استاد امان علی خاں (1881 – 1953) نے سنگیت کی تعلیم اپنے والد چھجّو خاں اور اپنے چچا نذیر خاں اور خادم حسین خاں سے حاصل کی ۔ استاد اماں علی خاں ایک سلجھے ہوئے موسیقار اور اعلیٰ درجہ کے گویّے تھے ۔ مشہور پلے بیک (playback) سنگر لتامنگیشکر انہیں کی شاگردہ رہ چکی ہیں ۔ اپنے گھرانہ کو قائم رکھنا ان کا مشن تھا ۔ خاندان سے ملے ہوئے سنگیت کے ورثہ کو وہ یوں ہی ضائع نہیں کر دینا چاہتے تھے ۔ اور نہ ہی اسے اپنے سینہ میں دفن کر کے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ۔ سنگیت اور اپنے فن کو پھیلانا بغیر شاگردوں کے ممکن نہیں تھا ۔ لیکن اس میں بھی ان کا طریقہ کار الگ تھا ۔ وہ ہر کس و ناکس کو اپنا شاگرد نہیں بناتے تھے ۔ جو واقعی سنگیت کے چاہنے والے ہیں اور جس کے دل میں سنگیت کو سیکھنے کی لگن ہے ، اور سخت محنت ، مشق اور ریاض کرنے کی قوت رکھتا ہے وہی ان کا شاگرد بن سکتا تھا ۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ ان کا فن صحیح لوگوں تک پہنچا ۔ باقاعدہ شاگردوہ بہت کم بناتے تھے ۔ باقاعدہ شاگرد بننے کو سنگیت کی زبان میں ’’ گنڈا بندھوانا ‘‘ کہتے ہیں ۔ یوں تو ان کا علم کر کسی کے لیے تھے لیکن گنڈا وہ ہر کسی کو نہیں باندھتے تھے ۔
ان کے لاتعداد غیرمسلم شاگرد تھے ۔ یوں بھی مہاراشٹرا کے لوگ سنگیت کے قدردان اور استاد (جنہیں عام طور پر خاں صاحب کہتے ہیں ) کی بہت عزت کرتے ہیں اور اپنے خاں صاحب کے لیے ان میں گہری عقیدت ہوتی ہے ۔ مہاراشٹرا انہیں کے دَم سے ہمیشہ سے سنگیت کا گہوارہ رہا ہے ۔ استاد امان علی خاں کا مسلم شاگرد شاذونادر ہی کوئی ہو گا ۔ انہیں ہمیشہ اس بات کا افسوس رہا کہ ان کے علم و فن کو حاصل کرنے کا شوق خود ان کی قوم کے لوگوں میں نہیں ہے باوجود اس کے کہ وہ ایک ایسے علاقہ میں رہتے ہیں جو چاروں طرف خود ان کی ہی قوم سے گھِرا ہوا ہے ۔ راقم کے والد محمد میاں صاحب (نور محمد بینڈ والے) کے یہاں وہ اکثر آتے رہتے تھے اور اس بات کی شکایت کرتے تھے کہ مسلم بچے گلیوں کوچوں میں کھیلتے اور آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت یوں ہی ضائع کرتے ہیں ۔ اگر یہ میرے پاس آ جایا کریں تو میں انہیں تعلیم دینا اور سکھانا اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا ۔
استاد امان علی خاں صاحب کمال موسیقار اور جینیس تھے ۔ ان کی استعداد سنگیت کی تعلیم دینے تک محدود نہیں تھی ۔ وہ صاحبِ قلم بھی تھے ۔ سنسکرت اور برج بھاشا پر بھی کافی عبور حاصل تھا حالانکہ خود ان کی اپنی مادری زبان اردو تھی لیکن چونکہ سنگیت کا پرانا ذخیرہ سنسکرت میں اور بندشیں وغیرہ ان کے خاندان میں سلسلہ بہ سلسلہ ہندی ، برج بھاشا یا سنسکرت میں عموماً موجود تھیں اس لیے انہوں نے اِنہیں زبانوں کو اپنی قلمی کاوشوں کے لیے استعمال کیا تاکہ ان کے شاگرد ان جو اردو سے ناواقف تھے انہیں یاد کر سکیں ۔ اپنے خاندانی قلمی نام ’امؔر‘ سے انہوں نے راگوں میں سینکڑوں چیزیں کمپوز کیں ۔ ان کا مطالعہ کافی وسیع تھا ۔ انہوں نے ایک بہت ہی ضخیم کتاب سنگیت پر لکھی تھی جن میں خود ان کی ترتیب دی ہوئی سینکڑوں چیزیں اور نئے نئے راگوں کا ذخیرہ تھا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس پر بھی تحقیق کی تھی کہ انسانی آواز موسیقی کی صرف ایک سو چار (104) مختلف آوازیں ہی نکال سکتی ہے ۔ اس سے زیادہ نہیں ، اگر اس سے زیادہ نکالنے کی کوشش کی گئی تو وہ انہیں ایک سو چار آوازوں میں سے ہی کسی ایک کا پَرتو(عکس) ہو گی ۔ لیکن افسوس کہ اس کتاب کا سارا مسودہ نذرِ آتش ہو گیا ۔ جس مکان میں وہ رہتے تھے اس میں آگ لگ گئی اور سب کچھ جل کر خاک ہو گیا ۔ اس طرح موسیقی پر ایک بہت ہی اہم مواد ضائع ہو گیا ۔ زندگی بھر ان کو اِس کا افسوس رہا کہ ان کی زندگی بھر کی محنت رائیگاں گئی ۔
بھنڈی بازار گھرانہ کی اور خاص طور پر استاد امان علی خاں کی گائیکی کی خصوصیت تھی ، الاپی (الاپ) جو کَمک ، سوت، لَے کاری اور مینڈ سے ممیز تھی ۔ الاپی یا بلمپت میں ’’ بول بانٹ ‘‘ جس سے گیت کے الفاظ کو مختلف الفاظ میں لَے اور تال سے سجانا ، اس خاندان کا خاص طرز تھا ۔ اس فنکاری سے راگ کی شکل و صورت واضح طور پر سامنے آتی تھی ۔ دھیمی لَے سے جب راگ کی مخفی خوبیوں کو پیش کیا جاتا تھا تو راگ کا صحیح ماحول اور مُوڈ سامعین پر طاری ہو جاتا تھا ۔ ان کے یہاں جلد بازی یا جارحانہ انداز جو آگرہ گھرانہ میں پائی جاتی ہے ، بالکل نہیں تھی ۔ یہی بات کِرانہ گھرانہ میں بھی پائی جاتی ہے ۔ امان علی خاں کا انداز معتدلانہ تھا ۔ یہی بات ان کی ’’ دُرت ‘‘ (تیز لَے) میں گت ، تان ، پلٹے ، بول تان او رپھرت میں بھی قائم رہتی تھی ۔ ایک اور چیز جو بہت کم گویّوں میں پائی جاتی ہے اور جو ان میں تھی ، وہ ہے میر کھنڈ یعنی سروں کو باقاعدگی سے آراستہ کرنا جس سے ایک زنجیر بن جائے لیکن تسلسل قائم رہے ۔ یہ خوبی استاد امؔیر خاں میں بھی تھی جو خود تو اندور گھرانہ سے تھے لیکن ان کے والد سمیر خاں کا تعلق بھنڈی بازار گھرانہ سے رہا ۔ شاید یہ ان ہی کی دین ہو ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ گویّے استھائی یا انترہ کے الفاظ کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں اور الفاظ (ایک طرح سے بجا بھی ہے کیونکہ ) ہمارے شاستریہ سنگیت میں صرف اجافی طور پر استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ استھائی اور انترہ کی پہچان ہو سکے ۔ اگر شبد (الفاظ) نہ بھی استعمال کیے جائیں تو گویّا گھنٹوں بغیر الفاظ کے گا سکتا ہے ۔ لیکن استاد امان علی خاں نے شبدوں کو بھی خاص جگہ دی ۔ ان کی خیال گائیکی میں سُر ، شبد اور لَے ،ان تینوں کا بہت خوبصورت امتزاج موجود ہوتا تھا ۔ بول بانٹ ، سرگم اچک سمیٹ ، زمزمہ ، لے کاری ، گٹکری کے ساتھ ساتھ شبدوں کو بھی معنوی طور پر بڑی خوبی سے استعمال کیا جاتا تھا ۔
ان کا کرناٹک (جنوبی ہند) سنگیت کا مطالعہ بھی حیرت انگیز تھا ۔ انہوں نے کئی جنوبی ہند کے راگوں سے شمالی ہند کے سنگیت کو روشناس کرایا ۔ راگ ہنس دَھونی جو کرناٹک راگ ہے ، کی ’’ واتا پی گنپتی ‘‘ کو بہت خوبصورت طریقہ سے ہوری بندش ’’ لاگی لگن ‘‘ میں ڈھالا ہے ۔ کرناٹک سنگیت انہوں نے جنوبی ہند کے کرشنا ا پّا سے سیکھا تھا ۔ ان کی بنائی ہوئی چیزیں ’’ مِتوامانے ناہی ‘‘ کافی راگ میں یا گنگلی ؔمیں ’’ جے شری شنکر ‘‘ ، ہیم کلیاؔن میں ’’ لاگے ہو بھجن ‘‘ اور بھیرؔو میں ’’ اب کرم کیجیے ‘‘ ، آج بھی سنگیت کی دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔
ان کے شاگردوں میں چند مشہور نام یہ ہیں : شیو کمار شُکل ، وامن راؤ ، دیش پانڈے (مراٹھی سنگیت سکالر) ، وسنت راؤ دیش پانڈے (مراٹھی ناٹک کار اور گویّے ) ، پانڈورنگ اَمبیرکر (جن کی شاگردہ شُبھا جومشی اعلیٰ درجہ کی مغنیہ اور غزل سنگر ہیں اور جو آج کل استاد تاج احمد خاں سے غزل کی تعلیم لے رہی ہیں ) اور بزرگ سنگیت کار ماسٹر نورنگ ہیں ۔ رمیش ناڈکرنی ، پنڈت جنورؔیکر اور مشہور پلے بک سنگر لتا منگیشکر کو بھی ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہے ۔ لتا ؔ کو 1945ء میں مراٹھی کے مشہور پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ماسٹر ونایک ، استاد امان علی خاں کے پاس لے آئے تھے اور استاد سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ دو سو (200) روپے کا وظیفہ بھی ہر ماہ دینے پر تیار تھے لیکن خوددار لتا منگیشکر نے اسے لینے سے انکار کر دیا حالانکہ خود اُس کی مالی حالت اس وقت بہت خراب تھی ۔
استاد ایک کامیاب گویّے اور موسیقار ہونے کے علاوہ ایک نیک دل انسان اور دین دار شخص تھے ۔ دولت کی طمع اور شہرت سے بے نیاز ! زندگی اور سنگیت ان کے لازم و ملزوم تھے ۔ سنگیت سمیلن اور موسیقی کی محفل میں شرکت سے عام طور پر احتراز کرتے تھے ۔ اس زمانہ میں آل انڈیا ریڈیو بمبئی کے سٹیشن ڈائریکٹر ذوالفقار علی بخاری (1940ء) نے انہیں ریڈیو پر گوانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ اکثر ٹال گئے ۔ اُن کا آخری پبلک پروگرام دہلی کے کانسٹی ٹیوشن ہال میں 1952ء میں ہوا تھا ۔ ہال کھچا کھچ سامعین سے بھرا ہوا تھا ۔ پنڈت روی شنکر ، ڈاکٹر بھٹ اور منسٹر ڈاکٹر کیسکر جیسے سنگیت کے ماہر موجود تھے ۔ پنڈت روی شنکر کو حیرت تھی کہ اتنے بڑے گھرانے کے بزرگ موسیقار کس خوبی سے روایتی طریقہ کو قائم رکھتے ہوئے سنگیت میں تخلیقانہ فنکاری کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ بقول ان کے، ان کی آواز نازک اور سریلی تھی اور مائیکروفون کے لیے موزوں تھی ۔ ان میں جمالیاتی حِس اور فنکاری تھی ، خاص طور پر کرناٹک سٹائل میں سرگم واقعی زبردست تھی ۔
استاد کی زندگی سنگیت کے لیے وقف تھی ۔ ان میں سادگی اور مزاح کی ملی جلی آمیزش تھی ۔ ایک مرتبہ اپنے شاگرد رمیش ناڈکرنی کے ساتھی بمبئی کے تاردیو علاقہ سے ماہمؔ بس سے جا رہے تھے تو کنڈکٹر سے کہنے لگے : ’’ دو ماؔہم آدھا ٹکٹ ‘‘ ۔ اس پر وہ بے چارہ ہنسنے لگا ۔ اسی طرح جب آخری مرتبہ وہ دہلی جانے لگے تو بمبئی سینٹرل سٹیشن پر اپنے شاگردوں سے جو انہیں سینڈ آف کرنے آئے تھے ، کہنے لگے: ’’ میں ریلوے والوں کو بے وقوف بنانے والا ہوں ۔ میں نے ریٹرن ٹکٹ لی ہے لیکن میں واپس نہیں آؤں گا ‘‘ ۔ اور واقعی وہ واپس نہیں لوٹے ۔ کچھ مہینوں بعد ہی ان کا دہلی میں انتقال ہو گیا ۔ اس طرح بھنڈی بازار کا ایک درخشاں باب ختم ہو گیا ۔
آج استاد امان علی خاں کو گزرے پینتیس (35) سال بیت چکے ہیں ۔ ان کی یاد میں نہ تو کوئی برسی منائی جاتی ہے اور نہ ہی ان کی سالگرہ ۔ لیکن ابھی حال ہی میں بمبئی میں دو روزہ ’’ بھنڈی بازار گھرانہ سنگیت سمیلن اور سیمینار ‘‘ منعقد ہوا تھا جس میں اس گھرانہ کی یاد تازہ کی گئی اور استاد کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی بنائی اور ترتیب دی ہوئی چیزیں اور بندشیں جو ان کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کے سینہ میں محفوظ ہیں ، انہیں ریکارڈ کر کے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا جائے تاکہ سنگیت کے اس گھرانہ کا ذخیرہ مزید بکھرنے اور ضائع ہونے سے بچ جائے ۔
اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل رسائل و جرائد ، سوینئرز اور کتب سے رجوع کیا گیا: –
- بھنڈی بازار گھرانہ سنگیت سمیلن سوینئر اپریل 1989ء
- 2) پنڈت بھات کھنڈے از ڈاکٹر ایس این رتن جھینکر ، نیشنل بک ٹرسٹ
- 3) ہماری موسیقی : ادارۂ مطبوعات پاکستان
- 4) آج کل دہلی ، موسیقی نمبر اگست 1956ء
- 5) السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا ، 1967 (ص 30 تا 40)