بابا خدا یار۔ تحریر: محمد سجاد

 In تاثرات

گاؤں میں اب ہماری دو دیواریں سانجھی رہ گئی ہیں جو ہمارے اور بابا خدا یار کے گھر کے بیچ ہیں۔ محدود وسائل بعض اوقات مضبوط سماجی بندھن ترتیب دیتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے گھروں میں کمرے ایسے بنائے جاتے تھے کہ ان کی دیواروں کے ساتھ یا عقب میں ہمسایوں کے گھر کے کمرے بنتے۔ ایک دیوار اتنی مضبوط بنائی جاتی تھی کہ بعض اوقات ہمسائے کو بھی ضرورت ہوتی تو اپنے چھت کی شہتیر اور بالے اسی پہ رکھ کر اپنے گھر کے ایک کمرے کی لاگت میں بچت کر لیتا تھا۔ دیہات کی معیشت میں لوگ سال بھر پیٹ کاٹ کر کچھ جمع کر لیتے تو کچھ تعمیر کرنے سے پہلے، اگلے چھ مہینے سوچتے اور مشورہ کرتے گزار دیتے۔ 
ہمارے گھر کی مشرقی جانب کم از کم دو نسلوں نے ایک دیوار پہ دونوں طرف کمرے تعمیر کئے۔ ایک کمرے کی دیوار ہمارے ہمسایوں نے تعمیر کی اور دوسرے کی ہم نے، مطلب دونوں طرف کے بڑے بزرگوں نے۔ ابھی چند سال پہلے الگ کیں کیونکہ ”ان پڑھ“ نسلیں گزر چکی ہیں اور اب ”ملکیت کا شعور“ رکھنے والی نسل، ان پرانے گھروں اور دیواروں کی وارث بنی ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ چھ انچ زمین کوئی دوسرا نا لے اڑے! پچھلی دو نسلیں ظرف اور زندگی بارے باشعور تھیں، اب معاملہ الگ ہے۔
بابا خدا یار کا گھر ہمارے جنوب میں ہے، ان کے ساتھ بھی دو دیواریں سانجھی ہیں۔ دیواریں ہی نہیں، ایک اور سانجھ بھی ہے۔ میری والدہ شہر میں پلی بڑھیں، جب شادی کے بعد گاؤں منتقل ہوئیں تو اس زمانے میں راولپنڈی سے خط بھی 2 ہفتوں میں پہنچتا تھا۔ بابا خدایار اور ان کی اہلیہ نانی خدیجہ، نے انہیں بیٹی بنا لیا۔ یہ میری والدہ کا قریب کا ”پیکہ“ تھا۔ قریب 44 سال سے جنوب کی طرف یہ گھر ہمارا ”نانکا“ ہے۔ اس کی غمی خوشی میں میری والدہ کا حصہ نکلتا ہے، نانی خدیجہ اور میری والدہ کی ناراضگیاں بھی ایسی ہی ہوتیں، جیسی اکثر شادی شدہ بیٹیوں کی ماں کے ساتھ کبھی کبھار ہو جاتی ہیں۔ آج بھی ہمارے گھر کی چابیاں انہیں کے پاس ہیں۔ ایک سانجھی دیوار ہے جس کی دونوں طرف کوئی چھت نہیں، جہاں سے ایک دوسرے کی خیر خبر رکھی جاتی تھی۔
یہ دیوار دو خاندانوں کی چار دہائیوں سے سماجی ڈھال ہے۔ جب میرے ماموں کے قتل اور چند سال بعد ہماری نانی کی وفات کی خبر ملنے پہ میری والدہ روئیں تو اسی دیوار سے نانی خدیجہ اور ان کی بیٹیاں روتی ہوئی اتریں اور میری ماں کو گلے لگایا۔ نصف شب جب میرے والد کی وفات ہوئی تو میری پھوپھی، والدہ اور میرے چھوٹے بہن بھائیوں کی چیخیں سن کر سب سے پہلے اسی دیوار کے دوسری طرف والے بھاگ کر پہنچے! آج بھی ہمارے بند گھر میں کوئی پتھر پھینکے تو اسی دیوار کے پاس آ کر نانی خدیجہ پوچھتی ہیں کہ ”کون ہے یہاں؟“ ۔ محلے کے لڑکے بالے ان سے ڈرتے ہیں۔
اب اطلاع ملی ہے کہ بابا خدا یار کا انتقال ہو گیا ہے، کیا ردعمل ہو سکتا تھا۔ انا للہ پڑھا اور خاموش ہو گیا۔ جو ذہن میں آیا اور سوچا، اس پہ کبھی الگ سے لکھوں گا۔ مگر ابھی بابا خدا یار کے ساتھ سانجھی دیواروں کا خیال آ رہا ہے۔ جب تک میں، میری والدہ اور نانی خدیجہ زندہ ہیں، اس وقت تک تو یہ دیواریں بھی ”سانجھی“ رہیں گی اور ”سانجھ“ بھی قائم رہے گا۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ نانی خدیجہ اور بابا خدایار نے تنکا تنکا جمع کیا، ایک دیوار کھڑی کرنے کیلئے۔ پتھر اور گارے کی دیوار ہے، جس پہ دونوں سے لپائی کی جاتی تھی۔ دونوں طرف معیشت بہتر ہوئی تو اس کے اوپر والے حصے اور دونوں طرف ہلکا سا سیمنٹ کا پلستر کیا گیا کہ بارش کا پانی دیوار کے اندر گرتا تھا۔ ڈر تھا کہ اسے اندر سے کمزور نا کر دے۔
ہماری والدہ نے وصیت کر رکھی ہے کہ یہ گاؤں والا گھر نہیں بیچنا، حالانکہ ہمارے نانا کی وفات کے بعد، ”پیکہ گھر“ بیچنے پہ انہوں نے زیادہ احتجاج نہیں کیا تھا، بس چپ ہو گئیں۔ اس گھر بارے باتوں باتوں میں بھی باور کراتی رہتی ہیں کہ یہ نہیں بیچنا۔ بیچنا کیا، ہم نے تو اس کی پرانی دیواریں بھی نہیں چھیڑیں جب تک ضروری نہیں تھا۔ اور یہ بابا خدا یار کے ساتھ سانجھی دیوار ہم کیوں الگ کریں گے۔ لیکن یہ میرے حصے کا عہد ہے، والدہ، نانی خدیجہ اور بابا خدایار کے ساتھ۔ میرے بعد کسی نے یہ سانجھی دیواریں الگ کر لیں تو میں ان سے بری الذمہ ہوں۔ کیونکہ مرنے کے بعد قبریں بھی اپنی اپنی ہوتی ہیں۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search